🌹 آنحضرت ﷺ اور اسلاف امت کا تراویح کے بعد تہجد پڑھنا:
رسول اللہ ﷺ صحابی رسول حضرت طلق بن علی ؓ، امام بخاری اور دیگر ائمہ محدثین سے ثابت ہے کہ وہ تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے۔ اور خود غیر مقلدین کے شیخ الکل مولانا نذیرحسین دہلوی بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھتے تھے۔
ذیل میں اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ ہو۔
🔹آنحضرت ﷺ کا تراویح کے بعد تہجد پڑھنا:
صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جن راتوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز تراویح پڑھائی ، ان میں سے ایک رات آپ ﷺ نے علیحدہ بھی نماز پڑھی ہے، اور وہ تہجد کی نماز تھی۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ ، فَجِئْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ وَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَامَ أَيْضًا حَتَّى كُنَّا رَهْدًا، فَلَمَّا حَسَّالنَّبِيُّ ﷺ أَنَّا خَلْفَهُ جَعَلَ يَتَجَوَّزُ فِي الصَّلَاةِ ثُمَّ دَخَلَ رَحْلَهُ فَصَلَّى صَلوةٌ لَا يُصَلِّيهَا عِنْدَنَا -
رسول الله ﷺ ایک رات رمضان المبارک میں نماز (تراویح) پڑھ رہے تھے ، میں آیا اور آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا، ایک دوسرے صحابی تشریف لائے وہ بھی اسی طرح کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ ہماری ایک جماعت بن گئی ۔ نبی ﷺ نے جب یہ محسوس فرمایا کہ ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہیں تو آپ ﷺ نے نماز کو مختصر کر کے ختم کر دیا اور اپنے حجرہ میں تشریف لے گئے ، اور وہاں آپ ﷺ نے وہ نماز پڑھی جو ہمارے پاس نہیں پڑھی تھی ۔ ( صحیح مسلم 2570#)
اب ظاہر ہے کہ جو نماز آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پڑھائی وہ نماز تراویح تھی ، اور جو آپ نے اپنے حجرے میں جا کر نماز پڑھی وہ نماز تہجد تھی۔ کیونکہ آپ ﷺ تہجد کی نماز ہمیشہ اپنے حجرہ میں پڑھا کرتے تھے ۔
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
▪️كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فِي حُجْرَتِهِ
رسول ﷺ رات کی نماز اپنے حجرہ میں پڑھا کرتے تھے
(صحیح بخاری 729#)
علاوہ ازیں حضرت انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ يُصَلِّى صَلوةٌ لَا يُصَلِّيهَا عِنْدَنَا “ بھی صراحتا اس پر دال ہیں کہ آپ ﷺ نے جو نماز حجرہ میں ادا فرمائی وہ اس نماز سے جدا تھی جو آپ نے مسجد میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ پڑھی ، حجرہ والی نماز نماز تہجد تھی ، جب کہ آپ ﷺ نے مسجد میں جو نماز ادا کی وہ نماز تراویح تھی ۔
▪️اعتراض:
کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ:
اس سے مراد نماز کی طوالت ہے، یعنی آپ کا ہم نے خیمہ میں جتنی طویل نماز پڑھی اتنی طویل نماز ہمارے ساتھ نہیں پڑھتے تھے۔
(انوار التوضیح ص ۳۹۷)
لیکن یہ تاویل غلط ہے، کیونکہ یہاں حدیث میں نماز کی طوالت کی نفی نہیں ہے، بلکہ مطلق نماز کی نفی ہے۔ (يُصَلِّي صَلوةٌ لَا يُصَلِّيْهَا عِنْدَنَا ) لہذا حدیث کے ظاہری معنیٰ سے ہٹ کر اس کی کوئی ایسی تاویل کرنا جس پر کوئی ٹھوس دلیل و قرینہ نہ ہو، جائز نہیں ہے فتاوی علمائے حدیث ۴۲۵:۴ میں ہے :
وَلَا يُتْرَكُ الظَّاهِرُ بِالْمُحْتَمِلَاتِ الْبَعِيدَة
( ظاہری معنی کو دور کے احتمالات کی وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا )
بزرگ غیر مقلد عالم مولانا محمد گوندلوی (م ۱۴۰۵ھ ) لکھتے ہیں :
حقیقی معنیٰ چھوڑ کر مجازی معنیٰ لینے کے لیے قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے، بغیر اس کے کام نہیں چلتا (مقالات ۱۳۰:۱)
نیز یہ تاویل اس لیے بھی غلط ہے، کیونکہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نے اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ صحابہ کو سحری کے فوت ہونے کا اندیشہ لاحق ہو گیا۔
اس لیے مذکورہ حدیث کے متعلق یہ کہنا کہ : آپ ﷺ صحابہ کو چھوڑ کر خیمے میں نماز پڑھنے کے لیے اس لیے چلے گئے تھے، کیونکہ آپ طویل نماز پڑھنا چاہتے تھے، اس لیے یہ پسند نہیں فرمایا کہ صحابہ کے ساتھ نماز کو لمبا کریں، حقائق کے سراسر خلاف ہے۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ آپ ﷺ تراویح کو جلد مکمل کر کے اپنے حجرے میں اس لیے تشریف لے گئے تھے تا کہ تہجد پڑھنے کی فضیلت بھی حاصل کر سکیں، کیونکہ آپ ﷺ تہجد حجرے میں پڑھا کرتے تھے، جیسا کہ بحوالہ صحیح بخاری گزرا ہے۔
🔹 صحابی رسول ﷺ حضرت طلق بن علی ؓ کا تراویح کے بعد تہجد پڑھنا:
حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت قیس بن طلق رحمہ اللہ اپنے والد کا قصہ بیان کرتے ہیں :
زَارَنَا طَلْقُ بْنُ عَلِي فِي يَوْمٍ مِنْ رَمَضَانَ وَأَمْسَى عِنْدَنَا وَأَفْطَرَ ثُمَّ قَامَ بِنَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ وَاوْ تَرَبِنَا ثُمَّ الْحَدَرَ إِلَى مَسْجِدِهِ فَصَلَّى بِأَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا بَقِيَ الْوِتْرُ قَدَّمَ رَجُلًا فَقَالَ: أَوْتِرُ بِأَصْحَابِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ -
( ہمارے والد ) حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ رمضان المبارک میں ایک دن ہمارے پاس ملاقات کے لیے تشریف لائے، اور شام تک ہمارے پاس ہی رہے، اور یہیں روزہ افطار کیا۔ پھر آپ نے اس رات ہمیں نماز (تراویح) پڑھائی اور وتر بھی پڑھائے، پھر اپنی مسجد کی طرف گئے اور اپنے ساتھیوں کو نماز (تہجد) پڑھائی، یہاں تک کہ وتر باقی رہ گئے تو آپ نے اپنے ایک ساتھی کو آگے کر دیا اور فرمایا: تم اپنے ساتھیوں کو وتر پڑھاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ایک رات میں دو دفعہ وتر نہیں ہوتے ۔
(سنن ابی داؤد 1439#)
اس اثر سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے تراویح کے بعد تہجد کی نماز پڑھی کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انہوں نے جو نماز اپنے صاحبزادے کے ہاں پڑھی اُس کو مسجد میں جا کر دوبارہ دہرا دیا، اس لیے کہ حدیث میں ایک ہی نماز کو دو دفعہ پڑھنے کی ممانعت آئی ہے۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تُصَلُّوا صَلوةٌ فِي يَوْمٍ مَرَّتَيْنِ
ایک ہی نماز کو دن میں دو مرتبہ نہ پڑھو
(سنن ابی داؤد 579#)
▪️اعتراض:
مولانا رحمانی لکھتے ہیں : اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت طلق نے جو بعد میں نماز پڑھائی تھی وہ نماز تہجد تھی تو اس سے یہ لازم آتا ہے کہ انہوں نے تہجد کو جماعت کے ساتھ ادا کیا، حالانکہ فقہ حنفیہ میں نوافل کو جماعت کے ساتھ پڑھنا مکروہ ہے۔
(محصلہ انوار المصابیح ص۹۹)
▪️جواب:
فقہ حنفی میں نوافل کی جماعت مطلق مکروہ نہیں، بلکہ اس کو تداعی کے ساتھ پڑھنا مکروہ ہے،
لہذا مذکورہ واقعہ سے یہ اعتراض لازم نہیں آتا، کیونکہ اس واقعہ میں نوافل کی جماعت بلا تداعی کرائی گئی جو کہ فقہ حنفی کے موقف سے متصادم نہیں۔
🔹 امام مالک امام ابو محمد اورشیخ ابوالحسن زیات کا تراویح کے بعد تہجد پڑھنا:
فقہ مالکی کے مشہور محقق علامہ محمد بن محمد عبدری المعروف به " ابن امیر الحاج (م ۷۳۷ھ) نے اپنی کتاب " المدخل“ میں نقل کیا ہے کہ امام دار الحجرت حضرت امام مالک ؒ ، حضرت ابو محمد اور مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالحسن زیات (م ۲۹۳ ھ ) بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھا کرتے تھے ۔
(المدخل لابن الحاج ۱۹۱:۲، ۲۹۲)
🔹امام بخاری کا تراویح کے بعد تہجد پڑھنا:
امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ ) کا معمول بھی رمضان المبارک میں یہ تھا کہ وہ تراویح کے بعد تہجد پڑھا کرتے تھے۔
چنانچہ علامہ وحید الزمان صاحب (م ۱۳۳۸ھ) آپ کے تذکرہ میں لکھتے ہیں :
امام حاکم ابو عبد اللہ نے بہ سند روایت کیا ہے مقسم بن سعید سے کہ محمد بن اسماعیل بخاری جب رمضان کی پہلی رات ہوتی تو لوگ ان کے پاس جمع ہوتے ، وہ نماز (تراویح) پڑھاتے، اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھتے ، یہاں تک کہ قرآن ختم کرتے، پھر سحر کو ( نماز تہجد میں ) نصف سے لیکر تہائی قرآن پڑھتے، اور تین راتوں میں ختم کرتے ، اور دن کو ایک قرآن ختم کرتے ، اور افطار کے وقت ختم ہوتا، اور کہتے تھے کہ ہر ایک ختم کے وقت دعا قبول ہوتی ہے، اور سحر کے وقت تیرہ رکعت ( تہجدکی) پڑھتے اور ایک رکعت وتر کی ہوتی۔
(تیسیر الباری ترجمه و شرح صحیح بخاری11:1)
▪️اعتراض:
کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اس روایت پر دو اعتراض کیے ہیں:
ایک یہ کہ اس روایت میں سحر کے وقت نماز تہجد پڑھنے کی صراحت نہیں ہے۔
دوسرا یہ کہ امام بخاری سے یہ بات نقل کرنے والے مسبح بن سعید نامعلوم التوثیق ہے لہذا یہ روایت ثابت نہیں ہے ۔
( انوار التوضیح ص ۳۹۹)
پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر ؒ نے مقدمہ فتح الباری (ص ۶۶۶) اور تغلیق التعلیق (۳۹۹:۵) میں اس روایت کو نقل کرنے کے متصل بعد امام بخاری ؒ کے شاگرد محمد بن ابی حاتم وراق کی روایت نقل کی ہے کہ امام بخاری ؒ سحر کے وقت تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔
اور سنابلی صاحب نے حافظ ابن حجر کی ان دونوں کتابوں کا یہاں حوالہ بھی ذکر کیا ہے، لیکن اس روایت سے دانستہ چشم پوشی کر لی ہے۔
نیز امام ذہبی نے اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کیا ہے:
كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ يَخْتَمُ فِي رَمَضَانَ فِي النَّهَارِ كُلَّ يَوْمٍ بِخَتَمَةٍ، وَيَقُومُ بَعْدَ التَّرَاوِيحِ كُلَّ ثَلَاثَ لَيالٍ بِخَتَمَةٍ - ( سیر اعلام النبلاء ۴۳۹:۱۲)
اس میں صاف تصریح ہے کہ بخاری تراویح کے بعد سحر کے وقت ثلث قرآن قیام (تہجد) میں پڑھتے تھے۔
▪️ اور سنابلی صاحب کے دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس روایت کو حافظ ابن حجر نے بالجزم نقل کیا ہے، اور غیر مقلدین کے ذہبی العصر شیخ عبدالرحمن معلمی نے تصریح کی ہے کہ حافظ ابن حجر کی عادت ہے کہ وہ صرف اسی روایت کو بالجزم نقل کرتے ہیں جو ان کے نزدیک صحیح ہوتی ہے۔ (التنکیل ۴۱۲،۳۶۸:۱)
🔹 امام ابو محمد اصفہانی ؒ کا تراویح کے بعد تہجد پڑھنا:
امام ابومحمد عبد الله بن محمد اصفهانی المعروف به ابن اللبان (م ۴۴۶ ھ ) جو مشہور شافعی فقیہ امام ابو حامد اسفراینی (م۴۰۶ھ ) کے شاگرد ہیں، کے بارے میں منقول ہے کہ وہ پورے ماہ رمضان میں لوگوں کو نماز تراویح پڑھاتے ، اور ہر روز تراویح سے فارغ ہونے کے بعد مسجد میں ہی تہجد پڑھتے رہتے ، یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی۔ (تاریخ بغداد ۱۴۳:۱۰)
🔥 غیر مقلدین کے شیخ الکل کا تراویح کے بعد تہجد پڑھنا:
غیر مقلدین کے شیخ الکل مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی (م ۱۳۲۰ھ ) بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کے حالات میں لکھا ہے:
آپ رمضان المبارک میں دوختم قرآن مجید کا بحالت قیام ہر سال سنتے ، ایک تو نماز عشاء کے بعد تراویح میں ، جس کے امام تھے، حافظ احمد عالم فقیہ محدث جو آپ کے شاگرد رشید تھے، تین سیپارے روزانہ سناتے ترتیل و تجوید کے ساتھ ، دوسرا ختم سنتے نماز تہجد میں جس کے امام ہوتے حافظ عبد السلام سلمہ ( آپ کے پوتے ) ۔
(الحیاث بعد الممات 138)
🌹 ان آثار اور حوالجات سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ تراویح کے بعد تہجد پڑھنا جائز ہے، اور یہ دونوں الگ الگ نمازیں ہیں، اسی طرح ان آثار سے غیر مقلدین کے اس دعوی کی بھی تردید ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ کی یا کسی صحابی ، یا دیگر سلف میں سے کسی سے تراویح کے بعد تہجد پڑھنا ثابت نہیں ہے۔
🔹 حضرت عمرؓ کا تہجد کو تراویح سے مختلف نماز سمجھنا:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بہ سند صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے تراویح کی جماعت کو دیکھ کر لوگوں سے فرمایا:
وَالَّتِي تَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي تَقُوْمُونَ ۔
(موطاء مالک 248#)
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی (م ۱۳۲۳ھ ) اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں :
معنی اس قول کے یہ ہیں : جو نماز کہ اس سے سو رہتے ہو تم یعنی تہجد کہ یہ آخر رات میں ہوتی ہے، افضل ہے اس نماز سے جو پڑھتے ہو تم یعنی تراویح کہ اس کو اوّل وقت پڑھتے تھے، اور چونکہ یہ لوگ تراویح کو پڑھ کر تہجد کو نہیں اُٹھتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو رغبت تہجد پڑھنے کی بھی دلائی کہ افضل کو ترک کرنا نہیں چاہیے ۔ (الرائی النجیح ص 7)
علامہ ابن الحاج مالکی (م ۷۳۷ھ) لکھتے ہیں :
وَمَا قَالَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَابِ فَإِنَّمَا هُوَ مَحْمُولٌ عَلَى غَيْرِهِمْ لَا عَلَيْهِمْ إِذْ أَنَّهُمْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ جَمَعُوا بَيْنَ الْفَضِيلَتَيْنِ مِنْ قِيَامِ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَآخِرِه - (المدخل ۲۹۱:۲)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ دوسرے لوگوں پر محمول ہے، کیونکہ صحابہ کرام تو اول رات کے قیام (تراویح) اور آخر رات کے قیام ( تہجد ) دونوں کی فضیلت جمع کر لیتے تھے۔
معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اول اللیل کی نماز (تراویح) اور آخر اللیل کی نماز ( تہجد ) دونوں کو جدا جدا سمجھتے تھے۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ دونوں نمازیں پڑھا کرتے تھے، تراویح شروع رات میں، اور تہجد آخر رات میں پڑھتے تھے۔
▪️اشکال : بعض غیر مقلدین حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری (م ۱۳۵۲ھ ) کی طرف منسوب ایک عبارت کو پیش کر کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں نمازوں کو جدا جدا نہیں قرار دیا، بلکہ دونوں کو ایک نماز کہا ہے۔ چنانچہ ہم حضرت شاہ صاحب کی طرف منسوب اس عبارت کا ترجمہ مولانا نذیر احمد رحمانی غیر مقلد کے قلم سے پیش کرتے ہیں۔ اور پھر اس کی وضاحت کریں گے۔
حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں : اس مسلک کی تائید حضرت عمر کے اس فعل سے بھی ہوتی ہے کہ وہ تراویح آخر شب میں اپنے گھر پڑھا کرتے تھے، حالانکہ لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ جماعت کے ساتھ مسجد میں پڑھا کریں۔ حضرت عمر خود اس جماعت میں شریک نہیں ہوا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جانتے تھے کہ نبی سلام کا طریقہ یہی تھا کہ آپ ﷺ یہ نماز آخر شب میں پڑھا کرتے تھے۔
چنانچہ حضرت عمر نے لوگوں کو متنبہ بھی کر دیا تھا کہ : جو نماز تم اول شب میں پڑھتے ہو اس کو اگر آخر شب میں پڑھا کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تراویح اور تہجد فی رمضان دونوں کو ایک ہی قرار دیا ...
(انوار المصابیح ص ۸۳) (بحوالہ فیض الباری ۴۲۹:۱)
🔹جواب: حضرت شاہ صاحب کشمیری کی طرف اس عبارت کا انتساب کچھ صحیح معلوم نہیں ہوتا۔
اولاً : اس عبارت کی بنیاد دو باتوں پر ہے۔
نمبر ۱: حضرت عمر رضی اللہ عنہ تراویح بجائے اول شب لوگوں کے ساتھ مسجد میں پڑھنے کے گھر میں آخر شب میں پڑھتے تھے۔
نمبر ۲: حضرت عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ نبی ﷺ کا عمل بھی تراویح کو آخر شب میں پڑھنے کا تھا۔
لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں، پہلی اس لیے کہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لوگوں کے ساتھ (اول شب ) مسجد میں تراویح پڑھنا ثابت ہے چنانچہ جلیل القدر تابعی حضرت یحیی بن سعید انصاری (م ۱۴۳ھ ) فرماتے ہیں: " بَلَغَنَا أَنَّ عُمَرَ اللهِ وَعُثْمَانَ الله كَانَا يَقُوْمَانِ فِي رَمَضَانَ مَعَ النَّاسِ فِي الْمَسْجِدِ "
ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما رمضان المبارک میں لوگوں کے ساتھ ہی مسجد میں قیام (تراویح پڑھا) کرتے تھے
(المدونه الکبری ۱: ۲۲۴)
یعنی یہ دونوں حضرات تراویح کو مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا فرمایا کرتے تھے۔
یہ روایت مرسل معتضد ہے، کیونکہ اس کی تائید اس کے متصل بعد مذکور حدیث سے ہو رہی ہے ، اور مرسل معتضد بالاتفاق حجت ہے۔
نامور غیر مقلد عالم مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (م ۱۳۶۹ھ) عنوان : حضرت عمر نے اپنے مقرر کئے ہوئے امام کے پیچھے خود تراویح پڑھی ہے قائم کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي بِالنَّاسِ فِي
رَمَضَانَ، فَبَيْنَا أَنَا أُصَلَّى سَمِعْتُ تَكْبِيرَ عُمَرَ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، فَدَخَلَ فَصَلَّى خَلْفِي۔
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ [۳۳۴ ۷۳]
حضرت عبداللہ بن سائب کہتے ہیں کہ : میں رمضان میں لوگوں کو تراویح پڑھا رہا تھا کہ میں نے حضرت عمر کی تکبیر مسجد کے دروازہ پرسنی، پھر وہ اندر تشریف لائے، اور میرے پیچھے تراویح پڑھی “
(حسن الصناعة في صلاة التراويح بالجماعة ص ۳۴)
۔
سبحان اللہ ! اس حدیث سے ان لوگوں کی خوب تردید ہوگئی جو کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح تو جماعت سے مقرر کی لیکن خود کبھی شریک جماعت ہو کر تراویح نہیں پڑھی۔
نیز اگر بالفرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ گھر میں ہی تراویح پڑھتے تھے تو اس کی کیا دلیل ہے کہ وہ ضرور آخر شب میں ہی تراویح ادا کرتے تھے۔
اور دوسری بات اس لیے غلط ہے کہ خود شاہ صاحب تسلیم کرتے ہیں کہ :
إِنَّ الَّذِي ثَبَتَ عَنْهُ هُوَ التَّرَاوِيحُ أَوَّلَ الَّيْلِ
”بے شک نبی ﷺ سے جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ : آپ ﷺ اول شب میں تراویح پڑھا کرتے تھے “
نیز فرماتے ہیں:
لكِنَّ الْأَحَادِيثَ الصَّرِيحَةَ أَنَّ قِيَامَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
هِمْ فِي رَمَضَانَ كَانَ فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ
(معارف السنن ۵۵۲:۵)
یعنی صریح احادیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رمضان میں تراویح اول شب میں پڑھتے تھے “ پس جب اس قول کی بنیاد ہی غلط ہے تو اس غلط بنیاد پر قائم قول کو کیسے صحیح باور کیا جا سکتا ہے؟
▪️ثانیا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کے بارہ میں حضرت شاہ صاحب کی طرف منسوب یہ توجیہ ان ہی کی ایک دوسری توجیہ جو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کے تحت ہی بیان کی ہے، سے متصادم ہے،
چنانچہ حضرت اس قول کی توجیہ بیان کرتے ہیں :
أَنَّ غَرْضَ عُمَرَ الْفَارُوقِ أَنَّكُمْ تَنَامُونَ آخِرَ اللَّيْلِ وَتُصَلُّونَ أَوَّلَهُ مَعَ أَنَّ الْأَوْلَى بِكُمْ أَنْ تُطِيلُوهَا إِلَى آخِرِ اللَّيْلِ
یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عرض اپنے اس فرمان سے یہ تھی کہ تم آخر تو سو جاتے ہو، اور اول رات تراویح پڑھتے ہو ۔ حالانکہ تمہارے لیے بہتر رات کو یہ ہے کہ تم اس نماز کو آخر شب تک لے جاؤ ۔
حضرت شاہ صاحب اپنے اس بیان میں صاف اقرار کر رہے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ تم تراویح تو اول شب میں ہی پڑھو لیکن اس کو ذرا لمبا کر کے تہجد کے وقت تک لے جاؤ تا کہ تم کو بتداخل صلواتین دو نمازوں ( تراویح و تہجد ) کو اکٹھا کرنے ) کا ثواب ملتا رہے، اور تداخل صلواتین سے دو نمازوں کا ایک ہونا لازم نہیں آتا۔
▪️ چنانچہ نامور غیر مقلد عالم مولانا عبد الله روپڑی (م ۱۳۸۴) ” تداخل کی تعریف میں لکھتے ہیں :
جیسے کوئی شخص ظہر کے وقت مسجد میں آیا اور وضو کیا تو اس کے لیے تحیۃ المسجد اور تحیۃ الوضو دو نمازیں اکٹھی ہو گئیں، اس نے ظہر کی سنتیں پڑھیں تو پہلی دو ( تحیة السمجد و تحیۃ الوضو) بھی ضمن میں ادا ہو گئیں ۔
▪️ مولانا ثناء اللہ امرتسری (م ۱۳۶۷ھ ) اپنے ایک فتوی میں لکھتے ہیں :
نماز تہجد تو سارے سال ہوتی ہے، تراویح خاص رمضان میں ہے، اگر کوئی شخص پہلے وقت میں تراویح نہ پڑھے، آخر وقت میں پڑھے تو نماز تہجد بھی ہو جائے گی، اور تراویح بھی۔ ( فتاوى اہلحدیث ۵۳۷:۲)
نیز لکھتے ہیں : اگر تراویح پہلے وقت میں پڑھے تو صرف تراویح ہے، پچھلے وقت پڑھے تو تہجد کے قائم مقام ہو جاتی ہے ۔
(فتاوی علمائے حدیث ۳۳۰:۶)
نیز حضرت کشمیری ؒ نے اسی توجیہ کو راجح قرار دیا ہے معلوم ہوا کہ حضرت شاہ صاحب کی طرف منسوب پہلی توجیہ مرجوح ہے، لہذا غیر مقلدین کا اس توجیہ ( جو خود صاحب توجیہ کے نزدیک بھی مرجوح ہے ) سے استدلال کرنا باطل ہے۔
(معارف السنن ۵۵۲:۵)
اگلی قسط میں غیرمقلدین کے چند مشہور شبہات کے جوابات دیے جائیں گے۔
حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ
(رکعات تراویح ایک تحقیقی جائزہ صفحہ 65 - 72)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں