نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تہجد اور تراویح کے فرق پر چند شبہات کا ازالہ

 🌹 تہجد اور تراویح کے فرق پر چند شبہات کا ازالہ


تراویح اور تہجد دونوں کے باہم مغائر ہونے پر دلائل آپ پچھلی قسط میں پڑھ چکے ہیں، اس کے برخلاف ان دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے والوں کے پاس ایک دلیل بھی موجود نہیں ہے، جیسا کہ خود غیر مقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب (م ۱۳۶۷ھ ) کے حوالہ سے گزرا ہے، البتہ غیر مقلدین کے چند شبہات ہیں جن کو وہ اپنے زعم میں بہت وزنی دلائل سمجھتے ہیں، اور ان ہی چند شبہات کو غیر مقلدین کا تقریبا ہر مصنف دہراتا ہے۔ اس لیے اب ان شبہات کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں۔


🔹 شبه نمبر ١ :

مولانا نذیر احمد رحمانی اور مولوی محمد قاسم خواجہ وغیرہ غیر مقلدین لکھتے ہیں : 

رسول اللہ ﷺ نے جن تین راتوں میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نماز تراویح پڑھائی، اس کے بعد ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے تہجد بھی پڑھی ہو، بلکہ آخر شب کی نماز کے متعلق تو آتا ہے کہ آپ ﷺ نے آخر شب تک قیام کیا۔ معلوم ہوا کہ تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے ۔

[محصله انوار المصابیح (ص (۸۲) حی علی الصلوۃ (ص ۳۴) وغیرہ۔]


🔹 جواب:

اس شبہ کے کئی جوابات ہیں لیکن ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس کا جواب غیر مقلدین کو خود ان کے اپنے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب (م ۱۳۶۷ھ) کی طرف سےدیا جائے ، جو انہوں نے عبداللہ چکڑالوی منکر حدیث کو دیا تھا۔ 

چنانچہ امرتسری صاحب عبداللہ چکڑالوی کی طرف سے کیے گئے اسی طرح کے اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں :

رہی یہ بات کہ جن تین دنوں میں آپﷺ نے اول شب تراویح پڑھی تھی ان دنوں میں آخر شب بھی نماز پڑھی ہوگی، یہ تو گیارہ رکعت سے زیادہ ہوگئی ، اور اگر نہیں پڑھی ہوگی تو ارشادِ خداوندی تہجد کی تعمیل نہ ہوئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں صورتیں ممکن ہیں، یعنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضورﷺ نے ان دنوں میں نماز تہجد پڑھی ہو مگر چونکہ تمام عمر کے لحاظ سے تین دن کی مقدار ایسی قلیل ہے کہ جس کی کوئی نسبت ہی نہیں ملتی ، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عام طور پر نفی کر دی کہ آنحضرت ﷺ نے کبھی زیادہ نہیں پڑھیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان تین دنوں میں حضور ﷺ نے اسی اول شب کو قائم مقام پچھلی رات کی نماز کے کرکے پڑھی ہو لیکن کسی نماز کا دوسری نماز کے قائم مقام ثواب میں ہو جانے سے ان دونوں کا ایک ہونا لازم نہیں آتا، دیکھو جمعہ ظہر کے قائم مقام ہے، مگر دونوں ایک نہیں، جمعہ کے واسطے کئی ایک شرائط ہیں جو ظہر کے لیے نہیں ۔

[اہلحدیث کا مذہب (ص ۶۹،۶۸) ، رسائل ثنائیہ (ص ۸۹)]

اب غیر مقلدین حضرات کی مرضی ہے کہ وہ اپنے شیخ الاسلام کا یہ جواب پسند کرتے ہیں یا عبداللہ چکڑالوی منکر حدیث کی بات مانتے ہیں !

پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا


🔹 شبه نمبر ۲:

حافظ محمد زبیر علی زئی پیر دادی لکھتے ہیں :

بعض لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ دو نمازیں ہیں۔ ان کےاصول پر نبی کریم ﷺ نے ۲۳ رکعات تراویح (۳+۲۰) پڑھیں، جیسا کہ ان لوگوں کا عمل ہے، اور اسی رات کو گیارہ رکعات تہجد (۸+۳) پڑھیں، جیسا کہ ان کےنزدیک صحیح بخاری کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ یہاں پر اشکال یہ ہے کہ اس طرح تو یہ لازم آتا ہے کہ ایک رات میں آپ ﷺ نے دو دفعہ وتر پڑھے۔ حالانکہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : " لا وتَرَانِ فِي لَيْلَةٍ "ایک رات میں دوتر نہیں ہیں ... الخ 

[ نور المصابیح (ص۱۴) ]

مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی صاحب (م ۱۳۷۵ھ) لکھتے ہیں :

اگر بموجب قول بعض حنفیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت گیارہ رکعات والی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت بیس تراویح اور تین وتر مزید والی کو یوں جمع کیا جائے کہ قیام رمضان اور نماز تہجد جدا جدا نماز میں ہیں، تو اس صورت میں ایک رات میں دو دفعہ وتر پڑھنے ثابت ہوتے ہیں، اور یہ عمل اس حدیث کے خلاف ہے جو آنحضرت ﷺ نے فرمائی کہ ایک رات میں دو وتر جائز نہیں ہیں ۔ [۲]

[ انارة المصابيح ص ۶۴]


🔹 جواب:

یہ اشکال بھی غیر مقلدین کے دیگر اشکالات کی طرح محض غلط فہمی کا نتیجہ ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ تصریح نہیں کہ آپ ﷺ نے بیس تراویح کے متصل بعد وتر پڑھے، بلکہ اس میں صرف اتنا مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺنے بیس تراویح اور تین وتر پڑھے 

 [ غیر مقلدین کے فتاوی علمائے حدیث (۴۲۲:۶) میں اپنی مستدل حدیث ( روایت جابر) پر اسی طرح کے اعتراض کے جواب میں لکھا ہے : اور حافظ زبلعی نے نصب الرایہ فی تخریج ہدایہ میں جلد١صفحہ ۲۷۶، ۲۹۳ بایں لفظ نقل کیا ہے : فَصَلَّى ثَمَانَ رَكَعَاتٍ وَأَوْتَر ۔ ظاہر ہے کہ یہ الفاظ کی آٹھ رکعتوں کے ساتھ بلا توقف و تاخیر وتر ادا کرنے پر دلالت نہیں کرتے۔

بنابریں ہماری مستدل حدیث ( روایت ابن عباس) کے الفاظ : أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي شَهْرِ رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ میں بھی وتر پڑھنے کا ذکر واو سے کیا گیا ہے جو بتصریح علمائے غیر مقلدین : اس پر دال نہیں کہ آپ کی ہم نے بیس رکعت تراویح کے فوراً بعد ( بلا توقف ) وتر بھی پڑھے ہیں۔

 اب یہ ممکن ہے کہ آپﷺ نے اول شب بیسں تراویح پڑھ کر وتر چھوڑ دیے ہوں ، اور پھر آخر شب میں آٹھ رکعت تہجد پڑھ کر وتر پڑھے ہوں ، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرما رہی ہیں، بنابریں روایت عائشہ اور روایت ابن عباس میں تطبیق دینے سے آپ ﷺ کا ایک رات میں دو دفعہ وتر پڑھنا لازم نہیں آتا۔


اور یہ تفصیل بھی اس وقت ہے جب یہ تسلیم کیا جائے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ دونوں ایک ہی رات کا واقعہ بیان کر رہے ہیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ دونوں حضرات آپ ﷺ کی علیحدہ علیحدہ رات کی نماز کی کیفیت بیان کر رہے ہیں، تو پھر سرے سے یہ اشکال ہی وارد نہ ہوگا، کیونکہ پھر اس صورت میں اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ کیفیت نماز میں رسول اللہ ﷺ نے اول شب تراویح کے ساتھ وتر بھی پڑھ لیے تو بھی درست ہے، اور اس کی تائید حضرت طلق بن علی ( جو حدیث : لا وتَرَانِ فِي لَيْلَةٍ کے راوی بھی ہیں ) کی روایت ( جو دلیل نمبر٧کے ذیل میں گزری ہے) سے ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو جب نماز تراویح پڑھائی تو ساتھ وتر بھی پڑھا دیے ۔ اس کے بعد جب نماز تہجد پڑھی تو وتر کا اعادہ نہیں کیا، اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ : ایک رات میں دو دفعہ وتر نہیں ہوتے

[ غیر مقلد عالم مولانا ابوالحسنات علی محمد سعیدی (م ) مرتب " فتاوی علمائے حدیث اس مذکورہ حدیث (روایت طلق بن علی ) سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں : اس سے بھی صاف ظاہر :ہے کہ وتروں کو پہلی جماعت ( تراویح ) کے ساتھ پڑھا، بعد میں نفلی طور پر مسجد میں جا کر جماعت کرائی، اور وتروں کے لیے امام مقرر کیا۔ جو شخص وتروں کے بعد نفل پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے،

جیسا کہ قیس بن طلق کی روایت سے ثابت ہے۔ اور قیام الیل مروزی میں مندرجہ آثار اور اقوال اور بھی اسی پر دال ہیں کہ رات کو وتر پڑھ کر سونے والا صبح اٹھ کر نوافل ادا کر سکتا ہے۔ 

(فتاوى علمائے حدیث ۴۲۶:۶)

. اور اس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے بھی تعارض نہیں ہو گا کہ جس میں آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وتر تہجد کے بعد آخر شب میں پڑھے، کیونکہ یہ دونوں روایتیں دو مختلف زمانوں پر محمول ہوں گی۔ یعنی کبھی تو آپﷺ نے وتر اول شب میں ہی تراویح کے متصل بعد پڑھ لیے، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں، اور کبھی آپ ﷺ نے وتر آخر شب تہجد کے بعد پڑھے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمارہی ہیں۔

اور نبی اکرم ﷺ کارات کے مختلف حصوں میں وتر پڑھنا خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے، جیسا کہ غیر مقلدین کے مشہور عالم خواجہ محمد قاسم نے نقل کیا ہے ۔ [ حی علی الصلوة (۳۸) بحوالہ صحیح بخاری (۱۳۶:۱)


باقی رہا نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان : اجْعَلُوا آخِرَ صَلَوتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْراً - اپنی رات کی آخری نماز وتر کو بناؤ ، تو اس فرمان کا تعلق صرف استحباب سے ہے، کیونکہ آپ ﷺ کا وتر کے بعد بھی نوافل پڑھنا ثابت ہے، جس کا اقرار خود علمائے غیر مقلدین کو بھی ہے۔

[ دیکھتے ہفت روزہ "الاعتصام (ص ۶) ۱۷ اپریل ۱۹۹۲ ، فتاوی را شد یه (ص ۳۴۴)


الغرض ! حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو تراویح پر محمول کرنے اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کو تہجد پر محمول کرنے سے کسی صورت میں بھی آپ ﷺکا ایک رات میں دو دفعہ وتر پڑھنا لازم نہیں آتا۔


🔹 جواب ثانی:

غیر مقلدین کے مذہب پر تو یہ اشکال وارد ہی نہیں ہو سکتا، کیونکہ ان کے نزدیک اگرکوئی آدمی عشاء کے بعد وتر پڑھ لے اور پھر وہ آخر رات میں تہجد پڑھنا چاہے تو تہجد کے بعد وہ دوبارہ بھی وتر پڑھ سکتا ہے کہ وہ پہلے وتروں کے ساتھ ایک رکعت ملا کر ان کو دوگانہ بنالے، چنانچہ مولانا نواب وحید الزمان صاحب (م ۱۳۳۸ھ) لکھتے ہیں :

وَلَوْ صَلَّى الْوِتْرَ بَعْدَ الْعِشَاءِ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فِي آخِرِ اللَّيْلِ وَأَرَادَ صَلَوةَ

اللَّيْلِ فَالْأَفْضَلُ لَهُ أَنْ يَنْقُضَ وِتْرَهُ السَّابِقَ بِضَمِّ رَكْعَةٍ، ثُمَّ يُصَلِّى صَلَوةَ اللَّيْلِ ثُمَّ يُؤْتِرُهَا بِرَكْعَةٍ لِأَنَّهُ لَا وِتْرَانِ فِي لَيْلَةٍ )

[1] نزل الابرار (۱: ۱۲۴)

اگر کسی نے وتر عشاء کے بعد پڑھ لیے، پھر وہ اگر رات کے آخری حصہ میں بیدار ہو، اور تہجد پڑھنا چاہے تو اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ پہلے وتر کو ایک رکعت ملا کر توڑ دے، اور پھر نماز تہجد پڑھے، پھر اس کے بعد وتر پڑھ لے کیونکہ ایک رات میں دو دفعہ وتر نہیں ہوتے “


🔹 شبه نمبر ۳:

علامہ محمد انور شاہ کشمیری کو بھی تسلیم ہے کہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز ہے، اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ۔

[فیض الباری (۵۶۷:۲) العرف الشذی (۲۰۸:۲)


🔹 جواب:

حضرت شاہ صاحب کا یہ قول بھی غیر مقلدین کے لیے کچھ مفید نہیں ہو سکتا۔

اولاً: یہ ایک امتی بلکہ مقلد امتی کا قول ہے، اور غیر مقلدین کا دعوی یہ ہے کہ ہم صرف قرآن و حدیث کو حجت مانتے ہیں۔ مولانا نذیر احمد رحمانی لکھتے ہیں :

ہم اہل حدیث ہیں ۔ ہمارا نعرہ ہے۔

 اصل دین آمد کلام الله معظم داشتن 

پس حدیث مصطفی بر جان مسلم داشتن 

ہم کہا کرتے ہیں:

ہوتے ہوئے مصطفیٰ کی گفتار

مت دیکھ کسی کا قول و کردار 

[ انوار المصابیح ص ۲۰]


اب نہ جانے کس مجبوری میں آکر غیر مقلدین نے اپنے اس نعرے کو چھوڑ دیا، اور ایک مقلد امتی کے قول کو گلے لگا لیا۔ مولانا نذیر صاحب نے بھی اپنی کتاب میں اسی قول کو بطور دلیل پیش کیا ہے ۔ انا لله ....

[ ايضا ص ۸۴،۸۳]

بنتے ہو وفادار تو وفا کرکے دکھاؤ! 


کہنے کی وفا اور ہے کرنے کی وفا اور


غیر مقلدین حضرت علامہ محمد انور شاہ صاحب (م ۱۳۵۲ھ ) کے اس قول سے نہ تو استدلال کر سکتے ہیں، اور نہ اس کو دلیل الزامی کے طور پر پیش کر سکتے ہیں، کیونکہ حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد نے لکھا ہے کہ : 

الزامی جواب دو شرطوں کے ساتھ مقید ہوتا ہے۔


(1) فریق مخالف اسے تسلیم کرے۔

(2) کوئی حقیقی جواب بھی موجود ہو ۔

[ماہنامہ الحدیث ۳۰:۹۸]


اب غیر مقلدین کے پاس تراویح اور تہجد میں مغائرت پر کوئی حقیقی دلیل تو موجود نہیں ہے، جیسا کہ ان کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب (م ۱۳۶۷ھ ) کی تصریح گزر چکی ہے۔ اسی طرح دلیل الزامی کے قابل قبول ہونے کے لیے دوسری شرط (فریق مخالف اسے تسلیم کرے ) بھی یہاں مفقود ہے، کیونکہ حضرت شاہ صاحب کا یہ قول بشرط ثبوت خود علمائے احناف بلکہ تمام اہل سنت فقہاء کے خلاف ہے، بلکہ اکابرین دیو بندحضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ، حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی اور حضرت شیخ الہند مولانامحمود حسن رحمہم اللہ وغیرہ کی تصریحات سے بھی متصادم ہے۔


🔹 تراویح اور تہجد کی مغائرت میں اکابرین دیوبند کی تصریحات:


(1) حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ(م ۱۲۹۷ھ ) بانی دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں: تہجد اورچیز ہے اور تراویح اور چیز تصفیۃ العقائد (ص ۴) ۔ نیز آپ نے اپنی کتاب "الحق الصریح میں

بھی تراویح اور تہجد کے باہم مغائر ہونے پر محققانہ بحث کی ہے۔ دیکھئے (ص ۳ تا ۴)


(2) حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ(م ۱۳۲۳ھ) فرماتے ہیں: نماز تہجد اور نماز تراویح ہر دو صلوٰۃجداگانہ ہیں کہ ہرایک کی تشریح اور احکام جدا ہیں۔ الرائی النجیح (۲) پھر آپ نے (ص ۳ تا ۱۰) تفصیلی اور تحقیقی بحث کی ہے کہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ نمازیں ہیں۔


(3) حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمتہ اللہ علیہ(م ۱۳۳۹ھ) فرماتے ہیں: صلوٰۃ اللیل سے چونکہ تہجد مراد ہوتاہے، لہذا سائل کے جواب میں حضرت عائشہ نے فرمادیا کہ تہجد رمضان و غیر رمضان میں برابر تھا۔ اس سے راوی کی نفی نہیں لگتی کیونکہ وہ صلوة مستقلہ علیحدہ ہے، عرفا اس کو صلوۃ الیل نہیں کہتے محدثین اورفقہاء اس کو تہجد کے علاوہ مستقل باب میں بیان کرتے ہیں الخ الوردالشذی علی جامع الترمذی (ص۱۰۵) مرتبہ: مولانا سید اصغر حسین صاحب محدث دارالعلوم دیو بند، ناشر معهد الخلیل کراچی۔ 

بالخصوص جب کہ حضرت شاہ صاحب خود بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عامتہ العلماء ان دونوں نمازوں کے جدا جدا ہونےکے قائل ہیں۔ لہذا غیر مقلدین کا حضرت شاہ صاحب کے اس شاذ قول کو علمائے دیو بند کے خلاف بطور دلیل الزامی پیش کرنا باطل ہے۔


ثانياً: حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری بھی من جملہ تراویح اور تہجد میں مغائرت کے قائل ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

" قَالَ عَامَةُ الْعُلَمَاءِ: أَنَّ التَّرَاوِيحَ وَصَلوةَ اللَّيْلِ نَوْعَانِ مُخْتَلِفَانِ، وَالْمُخْتَارُ عِنْدِي أَنَّهُمَا وَاحِدٌ، وَإِنِ اخْتَلَفَتْ صِفْتَاهُمَا، كَعَدُمِ الْمُوَاظَبَةِ عَلَى التَّرَاوِيحِ وَآدَائِهَا بِالْجَمَاعَةِ وَآدَائِهَا فِي أَوَّلِ اللَّيْلِ تَارَةً وَإِيْصَالِهَا إِلَى السَّحَرِ أُخْرَى بِخِلَافٍالتَّهَجُدِ فَإِنَّهُ كَانَ فِي آخِرِ اللَّيْلِ وَلَمْ تَكُنْ فِيهِ الْجَمَاعَةُ ۔

[فیض الباری ۵۶۷:۲]

اکثر علماء کہتے ہیں کہ تراویح اور تہجد دو مختلف قسم کی نماز میں ہیں لیکن میرے نزدیک مختار یہ ہے کہ دونوں ایک ہی ہیں، اگر چہ ان کی صفات مختلف ہیں، جس طرح کہ نبی علیہ السلام کی طرف سے ) تراویح پر مواظبت نہ ہونا، اور اسے جماعت سے ادا کرنا، اور کبھی اس کو رات کے شروع میں ہی پڑھ لینا ، اور کبھی اس کو سحری تک لے جانا، بخلاف تہجد کے کہ یہ ( آپ کی یہ کی نماز ) رات کے آخری حصہ میں ہوتی تھی اور اس میں جماعت تھی۔


حضرت شاہ صاحب کی مذکورہ عبارت سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ بھی تراویح اور تہجد میں کئی لحاظ سے فرق کرتے ہیں، اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺکی نماز تراویح تہجد سے کئی لحاظ سے مختلف تھی۔ البتہ وہ دیگر علمائے کرام سے صرف اس قدر اختلاف رکھتے ہیں کہ نبی ﷺ سے کسی حدیث میں یہ ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے ایک رات میں تراویح کے بعد نماز تہجد بھی پڑھی ہو کہ جس کی وجہ سے کہا جائے کہ تراویح اور تہجد من كُلِ الْوُجُوہ علیحدہ علیحدہ نمازیں ہیں لیکن جب حضرت کشمیری نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ نبی علیہ السلام کی یہ دونوں نماز میں کئی صفات میں باہم مختلف تھیں تو ان دونوں کو علیحدہ علیحدہ نماز قرار دینے کے لیے یہی دلیل کافی ہے۔


باقی رہا ان کا یہ فرمانا کہ نبی علیہ السلام سے ایک رات میں تراویح کے بعد تہجد پڑھنا کسی حدیث سے ثابت نہیں تو یہ بات درست نہیں، کیونکہ ہم پہلے صحیح مسلم (۲۵۳۸) کے حوالہ سے ثابت کر آئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک رات تراویح کے علاوہ بھی نماز پڑھی ہے جو تہجد کی نماز تھی، اگر حضرت کشمیری کی تحقیق میں یہ بات نہیں آئی اور وہ اس طرف متوجہ نہ ہو سکے تو یہ کوئی عیب یا عجیب بات نہیں۔ ایسی غلطی کا لگ جانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔ علم محیط کلی صرف خاصہ خداوندی ہے۔ اور بڑے سے بڑا محدث بھی غلطی اور خطا سے مبرا نہیں۔

ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ایک محدث کہتا ہے کہ فلاں حدیث ثابت نہیں، یا فلاں بات کسی حدیث سے ثابت نہیں، حالانکہ وہ حدیث صحیح سند کے ساتھ متون حدیث میں موجود ہوتی ہے۔ اور خود غیر مقلدین کو بھی یہ تسلیم ہے ۔ مثلا مشہور محدث امام ابو داؤد سجستانی متوفی ۲۷۵ ھ ( جن کا علمی پایه حضرت کشمیری سے بدرجہا زیادہ ہے ) فرماتے ہیں:

لَيْسَ فِي تَقْدِيمِ الْوَقْتِ حَدِيثٌ قَائِمٌ ] جمع تقدیم کے متعلق کوئی صحیح حدیث نہیں“

[ سنن ابی داؤ د مع عون المعبود ۴۶۸:۱]

نامور غیر مقلد عالم علامہ شوکانی (م ۱۲۵۰ھ) نے اس موضوع پر متعدد احادیث ذکرکرنے کے بعد لکھا ہے:

" وَقَدْ عَرَفْتَ أَنَّ بَعْضَهَا صَحِيحٌ وَبَعْضَهَا حَسَنٌ وَذُلِكَ يَرُدُّ قَوْلَ

ابِي دَاوُدَ : لَيْسَ فِي جَمْعِ التَّقْدِيمِ حَدِيثٌ قَائِمٌ - [٢]

[۲] نیل الاوطار (۲۲۸:۳) بحواله حی علی الصلوۃ (ص ۱۳۷) از خواجہ محمد قاسم غیر مقلد ۔

تمہیں معلوم ہو گیا کہ ان میں سے کچھ احادیث صحیح ہیں اور کچھ حسن درجہ کی ہیں۔ اس سے امام ابوداؤد کے اس قول کی تردید ہو جاتی ہے کہ جمع تقدیم میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ۔


پس جب بقول غیر مقلدین : امام ابو داؤد جیسے بڑے محدث سے غلطی کا صدور ممکن ہے،

تو اب اگر کسی روایت کے متعلق علامہ کشمیری نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے، اور وہ روایت ثابت ہے تو انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اس روایت کو بھی تسلیم کیا جائے ۔

اور یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ” العرف الشذی “ اور ” فیض الباری وغیرہ حضرت علامہ کشمیری کی اپنی تصانیف نہیں ہیں کہ یہ یقین سے کہا جائے کہ علامہ کشمیری نےیہ بات ضرور ارشاد فرمائی ہے، بلکہ یہ کتابیں تو ان کی املائی تقاریر کا مجموعہ ہیں جن کو ان کے شاگردوں نے کتابی صورت میں جمع کر دیا ہے، اور ناقلین سے سننے یا نقل کرنے میں غلطی کا بھی امکان ہو سکتا ہے۔ خود علامہ کشمیری کے شاگرد رشید اور داماد حضرت مولانا سید احمد رضا بجنوری نے انوار الباری شرح صحیح بخاری میں ان کتب کے ایسے متعددتسامحات کی نشاندہی فرمائی ہے: فتفکر ۔


🔹 شبه نمبر ۴:

مولانا نذیر احمد رحمانی ، حافظ زبیر علی زئی وغیرہ لکھتے ہیں: امام محمد بن نصر مروزی نے اپنی کتاب قیام اللیل میں لکھا ہے کہ بعض علمائے سلف اس بات کے قائل ہیں کہ جو شخص تراویح پڑھے اس کو پھر تہجد نہیں پڑھنا چاہیے، اور بعض علماء نے مطلق نفل کی اجازت دی ہے۔ علماء سلف کا یہ اختلاف صاف دلیل ہے اس بات کی کہ ان کے نزدیک یہ دونوں نماز میں ایک ہی ہیں ۔

[1] انوار المصابیح (ص ۸۳) نور المصابیح (ص ۱۶) بحوالہ فیض الباری


🔹جواب:

ہم تراویح اور تہجد میں فرق نمبر ۱۰ میں متعدد معتبر کتب سے نقل کر آئے ہیں کہ تمام مکاتب فکر کے اہل علم بشمول علمائے غیر مقلدین نے تراویح کے بعد تہجد پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ نیز ہم یہ بھی ثابت کر چکے ہیں کہ خود رسول اللہ ﷺ کی ، آپﷺ کےصحابی حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ ، اور کئی کبار اور مشہور ائمہ حدیث و فقہاء کرام بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھا کرتے تھے۔ خود غیر مقلدین کے شیخ الکل مولانا نذیرحسین دہلوی (م ۱۳۲۰ھ ) کا معمول بھی تراویح کے بعد تہجد پڑھنے کا تھا۔ اب ہم موجودہ غیر مقلدین سے بصد ادب و احترام درخواست کرتے ہیں کہ صرف چند معتبر علماء کےنام ہی گنوادیں جنہوں نے تراویح کے بعد تہجد پڑھنے سے منع کیا ہے۔ ہم ان سے یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ اگر تراویح کے بعد تہجد پڑھنا منع ہے تو پھر آپ کے شیخ الکل مولانا نذیر حسین صاحب دہلوی تراویح کے بعد تہجد کیوں پڑھا کرتے تھے؟ کیا وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہیں ؟ پھر آج بھی اسلام کے دونوں مرکزوں مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں تراویح کے بعد باقاعدہ تہجد کی جماعت ہوتی ہے۔ کیا آپ غیرمقلدین نے ان کے خلاف کوئی فتوی جاری کیا ہے؟ دیده باید ۔


الغرض ! غیر مقلدین کے ذکر کردہ تمام شبہات بے جان ہیں، اور ان کے پاس تراویح اور تہجد کو ایک قرار دینے کے لیے کوئی ایک دلیل بھی موجود نہیں ۔ لھذا ثابت ہو گیا کہ تراویح اور تہجد دونوں علیحدہ علیحدہ نمازیں ہیں۔

ماخوذ کتاب:

حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ

(رکعات تراویح ایک تحقیقی جائزہ صفحہ 84-94)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...