اعتراض نمبر 59 :
کہ ابو حنیفہ نے دو سو احادیث کی مخالفت کی۔
أخبرنا ابن رزق، حدثني عثمان بن عمر بن خفيف الدراج، حدثنا محمد ابن إسماعيل البصلاني.
وأخبرنا البرقاني قال: قرأت على أبي حفص بن الزيات حدثكم عمر بن محمد الكاغدي قالا حدثنا أبو السائب قال: سمعت وكيعا يقول: وجدنا أبا حنيفة خالف مائتي حديث.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ ابو حنیفہ نے انتہائی وسعت علمی سے جو فروعی مسائل نکالے ہیں، ان میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اتنے کثیر مسائل میں سے اتنی تعداد مسائل کی جتنی تعداد وکیع نے کہی ہے ، حدیث کے خلاف ہو۔ یہ فرض کر کے کہ ہر مسئلہ میں مستقل حدیث ہے۔ اور اگر ہر مسئلہ میں مستقل حدیث نہ ہو بلکہ ایک مسئلہ میں کئی کئی احادیث ہو سکتی ہیں بلکہ ان میں سے بعض مسائل ایسے ہیں کہ ان میں ہر مسئلہ میں دس دس احادیث بھی پائی جاتی ہیں جیسا کہ قراءة خلف الامام يا رفع اليدين في الرکوع وغیرہ جیسے مسائل ہیں تو مسائل کی تعداد ان احادیث کے مقابل میں بہت کم تعداد کی طرف اتر آئے گی۔اور امام کا حق باقی رہے گا کہ اس عدد میں بھی ایسے انداز سے اپنی دلیل پیش کرے گا کہ اس کی خطاء ظاہر نہ ہوگی بلکہ وہ یقیناً روایات کے اندر پائی جانے والی علت بیان کریں گے اور روایات کو جمع کرنا پایا جاتا ہو گا۔
اور انہوں نے کسی صریح صحیح حدیث کی مخالفت نہیں کی جو ان کو پہنچی ہو۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ اخبار کو قبول کرنے کی شرائط ائمہ کے ہاں مختلف ہیں۔
پس بعض دفعہ ایک امام کے ہاں وہ صحیح ہوتی ہے اور دوسرے کے ہاں صحیح نہیں ہوتی۔ اور اس میں کوئی مانع نہیں ان لوگوں کے ہاں جو اجتہاد کے مواقع کو پہچانتے ہیں۔
اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں ان احادیث کو لینا ہوتا ہے (جبکہ وہ اس کی شرائط کے مطابق ہو) اور دوسروں کے ہاں ان کو نہیں لیا جاتا اس لیے کہ وہ اس کی شرائط کے مطابق نہیں ہوتی ، اس اعتبار سے کہ اس کے ہاں قبول کرنے کی شرائط اس حدیث میں جمع ہیں دوسروں کے نزدیک نہیں۔
اور جن احادیث میں اس امام کے ہاں قبول کی شرائط جمع نہ ہوں اس کو چھوڑ دینا یا کسی دوسری حدیث کو ترجیح دینا ان دلائل کی وجہ سے جو اس کے سامنے ظاہر ہوئے ہوں یا اس حدیث میں اس کے ہاں کوئی علت ظاہر ہوئی اور وہ علت دوسروں کے ہاں نہ سمجھی جاتی ہو۔ تو اس لحاظ سے یہ تعداد دو سو پر نہیں ٹھرتی (بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوگی) اور وکیع اگر ان احادیث کو ذکر کر دیتے تو تب بھی اس کے کلام میں کوئی ایسی بات نہیں کہ مخالف اس کی وجہ سے خوش ہوتا تو کیسے خوش ہو سکتا ہے جبکہ انہوں نے ان احادیث کو ذکر ہی نہیں کیا۔
اور وکیع تو ابو حنیفہ کے جلیل القدر ساتھیوں میں سے ہیں۔ خطیب نے ص 501 میں الصیمری - عمر بن ابراہیم المقرئی - مکرم - علی بن الحسین بن حبان عن ابیہ کی سند نقل کر کے کہا کہ علی کے باپ الحسین بن حبان نے کہا کہ میں نے یحییٰ بن معین سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے وکیع بن الجراح سے افضل کسی کو نہیں دیکھا۔
اس سے کہا گیا کہ ابن المبارک بھی نہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ ابن المبارک کی اپنی فضیلت ہے لیکن میں نے وکیع سے افضل کوئی نہیں دیکھا۔ وہ قبلہ کی جانب منہ کر لیتے اور حدیث یاد کرتے رہتے تھے اور رات کو قیام کرتے تھے اور مسلسل روزے رکھتے تھے اور ابو حنیفہ کے قول کے مطابق فتوی دیتے تھے۔ اور بے شک اس نے اس سے بہت سی چیزیں سنی ہیں۔ یحییٰ بن معین نے کہا اور یحیی بن سعید القطان بھی اس کے قول کے مطابق فتوی دیتے تھے۔ الخ[1]۔
اور اس کے مثل یحیی بن معین سے الدوری کی روایت میں ہے۔ اور بقول ابی حنیفہ قول یہاں مصدر ہے اور مضاف ہے جو کہ عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ اگرچہ تحفہ الاحوذی والا اس سے بے خبر ہے اور اس کی غیر معقول باتوں کی طرف پہلے اشارہ ہو چکا ہے اور علم کی امانت وکیع پر تقاضہ کرتی ہے کہ وہی ذکر کرے جو اس کے سامنے ظاہر ہوا اور بے شک اس نے وہی کہا۔ اگر کر اس کی جانب منسوب بات صحیح ہو تب بھی اس کلام پر نہ تو کوئی غبار ہے اور نہ اس میں کوئی تعجب ہے۔ لیکن تعجب کی بات وہ ہے جو خطیب نے ذکر کی۔ پہلے کہا کہ ابو حنیفہ نے چار سو احادیث کی مخالفت کی اور ذکر صرف چار حدیثیں کیں اور ان میں سے کسی ایک میں بھی اس کے لیے حجت نہیں ہے۔ پھر اس سے نیچے اترا اور روایت کی کہ بے شک اس نے دو سو احادیث کی مخالفت کی ہے اور مخالفت کی کوئی مثال پیش نہیں کی۔ پس یہ روایت بھی اور وہ بھی مخالف کو ذرا بھر فائدہ نہیں دیتی۔ اور اگر وہ دونوں روایتوں میں ذکر کر دیتا کہ وہ احادیث کون سی ہیں جن کی مخالفت ابو حنیفہ نے کی ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب میں ایک خاص باب میں ایک سو پچیس کے قریب حدیثیں جمع کی ہیں تو یہ قول اور وہ قول دونوں غور و خوض اور لینے اور رد کرنے کے لائق ہوتے جیسا کہ انہوں نے ابن ابی شیبہ کے ساتھ کیا[2]۔
اور بہر حال دونوں روایتوں میں جو کور چشمی ہے اس کے ہوتے ہوئے ان دونوں روایتوں کے متعلق بحث کرنے کی گنجائش نہیں مگر اسی قدر جو ہم نے ذکر کر دی ہے۔
اور یہاں ایک عجیب بات محمد بن حبان سے ہے جو فلسفی اور جرح و تعدیل والوں میں سے ہے۔ اس نے اس کلام میں جو وکیع کی طرف منسوب کی گئی ہے اس میں اضافہ کیا اور رائے میں تصرف کیا اور اپنی کتاب الضعفاء میں ابو حنیفہ کے ترجمہ میں کہا کہ ابو حنیفہ فی نفسه تو بڑی شان والے تھے کہ جھوٹ بولتے لیکن حدیث اس کے بس میں نہ تھی۔ پس وہ روایت کرتے تو غلطی کرتے اس انداز سے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوتا اور اسناد کو اس انداز سے پلٹ دیتے کہ ان کو سمجھ ہی نہ آتی تھی۔ اس نے دو سو کے قریب احادیث بیان کیں تو ان میں سے صرف چار درست بیان کیں اور باقی میں یا تو ان کی سند پلٹ دی یا ان کے متن کو بدل دیا۔ اسی طرح کا قول ابن خزیمہ کے مولف نے ابو حنیفہ کے حافظہ کے بارہ میں کیا ہے۔[3]
جن کے علم و فقہ اور حفظ کے سامنے گردنیں جھک جاتی ہیں اور ان کے بارہ میں مشہور ہے کہ وہ کسی ایسے راوی کے لیے روایت کو جائز ہی نہ سمجھتے تھے جس پر ایک لمحہ کے لیے نسیان طاری ہوا ہو۔ اور اس روایت کا حفظ اس کے پاس روایت لینے کے وقت سے لے کر آگے اس کو دوسرے تک پہنچانے تک نہ ہو۔
اور اسی طرح وہ کسی راوی کے لیے لکھی ہوئی روایت کے مطابق اس وقت تک روایت جائز نہیں سمجھتے تھے خواہ اس نے خود لکھی ہو جب تک وہ اس کی روایت ذکر نہ کرے جیسا کہ قاضی عیاض کے الالمام وغیرہ میں ہے[4]۔
اور ابو حنیفہ ایسے مجہول لوگوں کو ثقات کے زمرہ میں شمار نہ کرتے تھے جن کے احوال پڑھے پڑھائے نہ جاتے ہوں۔
جیسا کہ بہت عرصہ بعد زمانہ میں ابن حبان اپنے شیخ کی پیروی کرتے ہوئے کرتے تھے بلکہ وہ ان راویوں کے احوال پڑھتے پڑھاتے تھے جو اس کے اور صحابہ کے درمیان تھے پھر جس کو قبول کے قابل سمجھتے اس کی روایت قبول کرتے اور دوسروں کی رد کر دیتے۔
اور ان کے اور صحابی کے درمیان اکثر ایک یا دو ہی راوی ہوتے تھے۔
پس اس جیسے آدمی پر بہت ہی آسان ہے کہ ان کے احوال کی معرفت میں بیدار ہو۔
اور یہ بات تو ان سے تواتر سے ثابت ہے کہ وہ ایک رکعت میں قرآن کریم ختم کر دیتے تھے [5] اور یہ ان کے حافظہ کے قوی ہونے کی دلیل ہے۔ پس ابن حبان فلسفی جو جرح و تعدیل والوں میں سے ہے وہ اس عظیم امام کو جس کی ذہانت اور یاد داشت زمین کے مشارق اور مغارب میں ضرب المثل ہے۔ اس کو اپنے ساتھیوں میں سے ایسے بے خبر آدمیوں کی طرح قرار دیتا ہے جو جامد قسم کے راوی ہیں۔ (یعنی صرف الفاظ پر نظر رکھنے والے اور معانی سے بے خبر) اور اس کی کلام
میں حقیقت کی ذرا سی بو بھی نہیں ہے۔ اور یقینی بات ہے کہ یہ تو تعصب کی ایک قسم ہے اور ابن حبان کے بارہ میں کلام طویل ہے اور کم از کم جو اس کے بارہ میں کہا گیا ہے وہ ابن الصلاح کا قول ہے کہ وہ اپنے تصرف میں بہت فحش قسم کی غلطیاں کرنے والا ہے[6]۔
اور ذہبی نے اس کے بارہ میں کہا کہ وہ فساد میں ڈالنے والا اور طعن دینے والا تھا[7]۔
اور جن باتوں میں اس پر گرفت کی گئی ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے بہت سے لوگوں کو ثقات میں ذکر کیا۔ پھر دوبارہ ان ہی لوگوں کو مجروح راویوں میں ذکر کیا اور ان کے ضعیف ہونے کا دعوی کیا۔ اور یہ اس کا تناقض اور اس کی غفلت کی وجہ سے ہے۔
اور کئی جگہ آپ دیکھیں گے
کہ ایک ہی آدمی کو دو طبقوں میں شمار کر دیتا ہے۔ یہ وہم کرتے ہوئے کہ یہ دو آدمی ہیں۔اور اس کا انداز توثیق میں سب سے کمزور ہے۔
اگرچہ اس بارہ میں اس کا شیخ ابن خزیمہ اس سے بھی سبقت لے گیا ہے اور وہ تعصب میں بہت کمینہ پن اختیار کرنے والا ہے۔ انتہائی ضد اور حقیر تساہل کو جمع کرنے والا ہے۔ ایک جگہ میں کچھ اور دوسری جگہ میں کچھ اور لکھتا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس کو کمزور دین والا قرار دیا ہے یہاں تک کہ بعض نے اس کو زندقہ (بے دینی) کی طرف منسوب کیا ہے[8]۔
کیونکہ اس کا نبوت کے بارہ میں نظریہ یہ تھا کہ بے شک وہ علم اور عمل ہے۔ تفصیل کے لیے اس کا ترجمہ میزان الاعتدال اور معجم یاقوت اور ابن الجوزی کی کتاب المنتظم میں دیکھیں۔ ان سے کمینہ پن اور بدترین قسم کے تصرف میں اس آدمی کا حال واضح ہو جائے گا۔ ہم رسوائی سے اللہ تعالی کی پناہ میں آتے ہیں۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[2]۔ دیکھیں
" النكت الطريفة في التحدث عن ردود ابن أبي شيبة على أبي حنيفة " ، کتاب دفاع احناف لائبریری میں موجود ہے۔
[3]. دیکھیں الانتقاء ت ابو غدہ مترجم ص 305
[4]۔ ص 139
[5]۔أخبرنا الخلال، أخبرنا الحريري أن النخعي حدثهم قال: حدثنا محمد بن علي بن عفان، حدثنا علي بن حفص البزاز قال: سمعت حفص بن عبد الرحمن يقول سمعت مسعر بن كدام يقول: دخلت ذات ليلة المسجد فرأيت رجلا يصلي فاستحليت قراءته فقرأ سبعا، فقلت يركع، ثم قرأ الثلث، ثم قرأ النصف، فلم يزل يقرأ القرآن حتى ختمه كله في ركعة، فنظرت فإذا هو أبو حنيفة.
حفص بن عبد الرحمن فرماتے ہیں میں نے مسعر بن کدام کو کہتے سنا کہ میں ایک رات مسجد میں داخل ہوا میں نے ایک شخص کو نماز پڑھتے دیکھا، مجھے اس کی قراءت بہت اچھی لگی ، اس نے قرآن کی ایک منزل تلاوت کی، میرا خیال تھا کہ وہ اب رکوع کرے گا ، پر اس نے تہائی قرآن پڑھا ، پھر نصف ، وہ قرآن پڑھتا ہی رہا حتی کہ اس نے ایک رکعت میں پورا قرآن مکمل کر لیا ۔ اب جو میں نے دیکھا تو وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ تھے ۔
( تاریخ بغداد ت بشار 15/488 ، محقق لکھتے ہیں اس کی سند حسن ہے )
[6]۔ وقال الإمام أبو عمرو بن الصلاح - وذكره في طبقات الشافعية: غلط الغلط الفاحش في تصرفه، وصدق أبو عمرو
میزان الاعتدال 3/508
[7]۔ فان ابن حبان صاحب تشنيع و تشغب
میزان الاعتدال 1/460
لسان المیزان 1/485
[8]۔ واعْلَمْ أنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إسْحاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ أوْرَدَ اسْتِدْلالَ أصْحابِنا بِهَذِهِ الآيَةِ في الكِتابِ الَّذِي سَمّاهُ ”بِالتَّوْحِيدِ“، وهو في الحَقِيقَةِ كِتابُ الشِّرْكِ
(تفسیر کبیر للرازی 27/150)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں