نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 62: ابو حنیفہ نے کہا کہ جس محرم کے پاس ازار نہ ہو تو اگر وہ شلوار پہن لے تو اس پر فدیہ ہے اور جس محرم کے پاس جوتا نہ ہو تو اگر وہ موزہ پہن لے تو اس پر دم آتا ہے حالانکہ حدیث میں اس کے خلاف آتا ہے۔ اور یہ کہ روایت کا راوی جابر بن زید تھا اور ابو حنیفہ اس کو جابر بن عبد اللہ کہتے جب ان پر اعتراض ہوا تو کہا کہ کوئی پروا نہیں خواہ تم جابر بن زید سے بنا لو خواہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بنا لو۔


 اعتراض نمبر 62:  ابو حنیفہ نے کہا کہ جس محرم کے پاس ازار نہ ہو تو اگر وہ شلوار پہن لے تو اس پر فدیہ ہے اور جس محرم کے پاس جوتا نہ ہو تو اگر وہ موزہ پہن لے تو اس پر دم آتا ہے حالانکہ حدیث میں اس کے خلاف آتا ہے۔  اور یہ کہ روایت کا راوی جابر بن زید تھا اور ابو حنیفہ اس کو جابر بن عبد اللہ کہتے جب ان پر اعتراض ہوا تو کہا کہ کوئی پروا نہیں خواہ تم جابر بن زید سے بنا لو خواہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بنا لو۔


قال الحلواني: حدثنا يزيد بن هارون عن حماد قال: شهدت أبا حنيفة وسئل عن محرم لم يجد إزارا فلبس سراويل. قال: عليه الفدية. قلت: سبحان الله!


 کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ جس محرم کے پاس ازار نہ ہو تو اگر وہ شلوار پہن لے تو اس پر فدیہ ہے اور جس محرم کے پاس جوتا نہ ہو تو اگر وہ موزہ پہن لے تو اس پر دم آتا ہے حالانکہ حدیث میں اس کے خلاف آتا ہے۔  اور یہ کہ روایت کا راوی جابر بن زید تھا اور ابو حنیفہ اس کو جابر بن عبد اللہ کہتے جب ان پر اعتراض ہوا تو کہا کہ کوئی پروا نہیں خواہ تم جابر بن زید سے بنا لو خواہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بنا لو۔

الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ خطیب کا یہ کہنا کہ قال الحلوانی یعنی پہلی سند تو اس میں ابن دوما۔ ابن سلم اور الابار ہیں اور ان کے ساتھ الحلوانی بھی ہے اور میں نہیں جان سکا کہ خطیب ابن دوما کی سند کو ناقلین کے ہاں محفوظ روایات کے زمرہ میں شمار کرنے سے کیوں نہیں اکتاتا حلانکہ یہ سنی ہوئی باتوں میں جھوٹ اور من گھڑت باتوں کا اضافہ کرنے والا تھا جس کا اعتراف خود خطیب کو بھی ہے[1]۔ اور اس کے ساتھ والی روایت[2] کی سند میں بھی ابن دوما ابن سلمہ اور الابار ہیں اور ان کے ساتھ عارم ہے جو محمد بن الفضل ہے اور 220ھ کے بعد بہت سخت اختلاط میں مبتلا ہو گیا تھا[3]۔ اور عیسی بن عامر نے اس سے اس کے بعد ہی روایات سنی ہیں۔ اور اس کے بعد والی سند[4] میں کوئی خرابی نہیں سوائے اس کے کہ ابراہیم بن الحجاج قدری ہے تو اس کی بات ائمہ اہل السنت کے بارہ میں قبول کرنے میں توقف ہے۔ اور ابن ارطاہ کی زبان درازی تو مشہور ہے۔

 اور اس بارہ میں ابن عیینہ سے جو آخری سند نقل کی ہے تو اس میں ابن دوما۔ ابن سلم اور الابار اور الحلوانی اور نعیم بن حماد ہیں۔ 

اور حقیقت یہ ہے کہ بے شک ابو حنیفہ ایسے محرم پر وجوب فدیہ کے قائل ہیں جو شلوار پہن لے اور بے شک جن صحیح احادیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ کون کون سی چیز محرم نہیں پہن سکتا ان میں قمیص شلوار پگڑی اور سر ڈھانپ دینے والی ٹوپی یا کسی اور کپڑے کا ذکر ہے۔ 

پھر احادیث میں ذکر کیا گیا ہے کہ بے شک محرم کے پاس جب ازار نہ ہو تو شلوار پہن لے اور جب جوتا نہ ہو تو موزہ پہن لے۔ تو یہ دونوں چیزیں ابو حنیفہ کے نزدیک عذر کی وجہ سے مباح ہیں۔ 

جیسا کہ اس آدمی کے لیے جس کو سر میں تکلیف ہو تو یہ ممانعت  وجوب فدیہ کے بغیر اباحت میں تبدیل نہ ہوگی۔ جیسا کہ وہ آدمی جس کو سر میں تکلیف ہو تو وہ پہن لے تو اس پر فدیہ واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے

 وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ 

(پاره 2 رکوع 8) 

اور حدیث میں کوئی ایسی صراحت نہیں ہے جس سے پتہ چلے کہ معذور سے فدیہ ساقط ہو جاتا ہے۔ 

اور ابو حنیفہ سے دونوں بابوں میں احادیث روایت کی گئی ہیں وہ روایات بھی ہیں جن میں محرم کے لیے ان اشیاء کا استعمال ممنوع ہے اور وہ روایات بھی ہیں جن میں ازار اور جوتا نہ ہونے کی صورت میں شلوار اور موزہ پہننے کی اجازت ہے۔ 

اور انہوں نے دونوں بابوں میں احادیث کو لیا ہے بغیر اس کے کہ ایسے محرم سے فدیہ کو ساقط کر دیا جائے جو ایسے عذر کی وجہ سے پہنتا ہے جس کی وجہ سے پہننا مباح ہو جیسا کہ اس شخص کے لیے ہے جس کے سر میں تکلیف ہو تو وہ فدیہ وغیرہ دے کر سر کو ڈھانپ سکتا ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ان کو وہ احادیث نہیں پہنچی تمھیں جو نقل کی گئی ہیں۔

 پھر ان کے پہنچنے کے بعد ان کی مخالفت کی۔

 اور بہر حال وہ روایت جو ابن عبد البر نے الانتقاء ص 140 میں کی ہے کہ جب ابو حنیفہ سے کہا گیا کہ بے شک نبی کریم ﷺ نے کہا کہ محرم شلوار پہن سکتا ہے جبکہ اس کے پاس ازار نہ ہو تو انہوں نے کہا کہ اس بارہ میں میرے نزدیک رسول اللہ ﷺ سے کوئی بات درجہ صحت کو نہیں پہنچتی کہ اس کے مطابق میں فتوی دوں۔  اور ہر آدمی اپنی سنی ہوئی بات کی انتہاء کو پہنچتا ہے۔  تو ابن عبدالبر کا یہ قول ثابت نہیں ہے اس لیے کہ اس کی سند میں داؤد بن الحجر ہے جو بالاتفاق متروک الحدیث ہے[5] ۔  اور اس کے الفاظ قیل لابی حنیفہ ہی سے انقطاع ثابت ہوتا ہے۔ 

بلکہ وہ حدیث جس میں جوتا نہ پانے والے کے لیے موزہ اور ازار نہ پانے والے کے لیے شلوار پہننے کی اباحت ہے وہ ابو حنیفہ کی مسانید میں نقل کی گئی ہیں۔ (جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کو یہ احادیث پہنچ چکی تھیں) پس ابو محمد النجاری الجارثی کی مسند میں ابو سعید بن جعفر احمد بن سعيد الثقفی مغيرة بن عبد الله - ابو حنیفہ ۔ عمرو بن دینار۔ جابر بن زید کی سند سے حضرت ابن عباس کی نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ جس شخص کے پاس ازار نہ ہو تو وہ شلوار پہن لے اور جس کے پاس نعلین (ایسے جوتے جن میں پاؤں کا اوپر کا حصہ ننگا رہتا ہو) نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے۔

 تو یہ حدیث اس سند کے ساتھ ان لوگوں کا رد کرتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اس باب میں ابو حنیفہ کو حدیث نہ پہنچی تھی اور ان لوگوں کا بھی رد ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ یہ روایت جابر بن عبد اللہ سے کرتے تھے۔

 (بلکہ وہ تو جابر بن زید ہی سے روایت کرتے تھے) پس اس وضاحت کے ساتھ یہ سب گمان کرنے والوں کے گمان منہدم ہو جائیں گے۔

 نیز خطیب نے بالکل ان میں سے کسی کا ذکر نہیں کیا۔  جنہوں ابو حنیفہ سے یہ پوچھا تھا جس کے جواب میں اس نے ان سے کہا کہ اگر تم چاہو تو فلاں سے بنا لو اور اگر تم چاہو تو فلاں سے بنا لو۔

 اللہ تعالی اسی طرح بہتان تراشوں کو رسوا کرتا ہے


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ دیکھیں اعتراض نمبر 22 اور 51

[2]۔ أخبرنا ابن دوما، حدثنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا أبو موسى عيسى بن عامر، حدثنا عارم عن حماد قال: كنت جالسا في المسجد الحرام عند أبي حنيفة فجاءه رجل فقال: يا أبا حنيفة، محرم لم يجد نعلين فلبس خفا؟ قال:

عليه دم. قال: قلت: سبحان الله. حدثنا أيوب أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في المحرم: " إذا لم يجد نعليه فليلبس الخفين وليقطعهما أسفل من الكعبين ".

[3]۔كتاب معجم المختلطين

للمحمد بن طلعت ص 296

[4]۔أخبرنا البرقاني قال: سمعت أبا القاسم عبد الله بن إبراهيم الأبندوني يقول: قرأت على أبي يعلى أحمد بن علي بن المثنى. وقرئ على الحسن بن سفيان حدثكم إبراهيم بن الحجاج، حدثنا حماد بن زيد قال...

[5].داود بن المحبر بن قحذم بن سليمان بن  ذكوان الطائي، الثقفي، البكراوي، أبو سليمان البصري،  صاحب كتاب "العقل"

وقال علي ابن المديني : ذهب حديثه.

وقال إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني : كان يروي عن كل، وكان مضطرب الأمر.

وقال أبو زرعة : ضعيف الحديث.

وقال أبو حاتم : ذاهب الحديث غير ثقة.

وقال أبو داود : ثقة شبه الضعيف، بلغني عن يحيى فيه كلام أنه يوثقه.

وقال النسائي : ضعيف.

وقال صالح بن محمد البغدادي : ضعيف صاحب مناكير.

(تہذیب الکمال 1784 )

[6].یہاں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض یہ کیا جاتا ہیکہ جب حدیث میں صراحت ہیکہ جب محرم کے پاس تہبند/لنگی نہ ہو تو وہ شلوار پہن لے اور جس کے پاس چپل نہ ہوں وہ موزے پہن لے تو کیوں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ محرم صرف بغیر سلا ہوا ہی کپڑا پہنے ، شلوار نہ پہنے اور صرف چپل ہی پہنے موزے نہ پہنے ؟

اس کا جواب یہ ہیکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تمام احادیث میں تطبیق کی یے۔

چونکہ بعض احادیث میں آیا ہیکہ جس محرم کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزوں کو کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کر لے  پھر وہ پہنے (جب موزے کو ٹخنے تک کاٹیں گے تو وہ چپل بن جائے گا جس سے پاوں کی ابھری ہوئی ہڈی نظر آتی ہے جیسا کہ عام طور پر حاجی ایسی ہی چپل پہنتے ہیں) [ بخاری5806  ]  ، تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں کہ قیاس کا تقاضہ یہ ہیکہ جب موزے کاٹ کر چپل بنانے کا حکم آیا ہے تو اسی طرح شلوار کی سلائی ادھیڑ کر اس کو تہبند یا لنگی بنایا جائے اور وہ پہنی جائے(جس طرح موزے کاٹ کر چپل بن سکتے ہیں ویسے ہی شلوار کی سلائی ادھیڑ کر تہبند بنائی جا سکتا ہے ، جیسے موزہ چپل بن سکتا ہے ویسے شلوار تہبند بن سکتی ہے ) ۔ کیونکہ حالت احرام میں سلائی کئے ہوئے کپڑے پہننا منع ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا احرام باندھنے والا کیا لباس پہنے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” وہ قمیص، پگڑی، شلوار و پاجامہ، کٹ ٹوپ اور موزے نہ پہنے " [بلوغ المرام حدیث: 596]۔

 بعض لوگ کہتے ہیں کہ  

عذر والا محرم  جس نے شلوار سے تہبند اور موزے سے چپل بنائی اس پر فدیہ کیوں واجب ہے ، جواب یہ ہیکہ [بخاری 1814 ] میں ہیکہ   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا، غالباً جوؤں سے تم کو تکلیف ہے، انہوں نے کہا کہ جی ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنا سر منڈا لے اور تین دن کے روزے رکھ لے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے یا ایک بکری ذبح کر۔

قارئین جب بال کاٹنے کی رخصت کے باوجود دم یا فدیہ ساقط نہیں ہوا بالکل اسی طرح اگر چہ عذر  کی بنیاد پر شلوار کو تہبند میں تبدیل کیا جائے گا لیکن  تب بھی دم یا فدیہ ساقط نہیں ہو گا بلکہ اس حدیث سے قیاس کرتے ہوئے دم واجب ہو گا جیسا کہ احناف کا قول ہے۔ اللہ فقہ کے دشمنوں یعنی غیر مقلدوں کو دین کی فقہ نصیب کرے تا کہ یہ لوگ ادھوری حدیثوں بیان کر کے عوام کو گمراہ اور احناف سے بدظن کرنے کے بجائے ایک مسئلہ کی تمام تر روایات  کو سامنے رکھیں۔  لیکن روزی روٹی اور اپنے فرقہ نام نہاد اہلحدیث کی دکان چمکانے کی خاطر ، غیر مقلد اس حق کام سے بالکل ایسے ہی بھاگتے ہیں  جیسے اذان سن کر لعنتی شیطان [مسلم 856] ۔



مزید تفصیل کیلئے دیکھیں

▪︎طحاوی 1/367

▪︎ اوجز المسالک ، کتاب الحج 6/377

▪︎ بذل المجہود 9/57

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...