نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 69 : کہ امام مالک نے کہا کہ اہل اسلام پر ابو حنیفہ کی بہ نسبت زیادہ ضرر رساں کوئی بچہ اسلام میں پیدا نہیں ہوا-


 اعتراض نمبر  69 : 

کہ امام مالک نے کہا کہ اہل اسلام پر ابو حنیفہ کی بہ نسبت زیادہ ضرر رساں کوئی بچہ اسلام میں پیدا نہیں ہوا- 


أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا عبيد الله بن جعفر بن درستويه، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثني الحسن بن الصباح، حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنيني قال: قال مالك: ما ولد في الإسلام مولود أضر على أهل الإسلام من أبي حنيفة.

وكان يعيب الرأي ويقول: قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تم هذا الأمر واستكمل، فإنما ينبغي أن تتبع آثار رسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه، ولا تتبع الرأي، وإنه متى اتبع الرأي جاء رجل آخر أقوى منك فاتبعته. فأنت كلما جاء رجل غلبك اتبعته، أرى هذا الأمر لا يتم.


الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ عبد اللہ بن جعفر وہی ہے کہ جب اس کو کوئی چیز دی جاتی تو وہ نہ سنی ہوئی روایات بھی بیان کر دیتا تھا۔ 

اور الحسن بن الصباح نسائی کے ہاں قوی نہیں ہے اور اسحاق بن ابراہیم الحنینی کو ابن الجوزی نے ضعفاء میں ذکر کیا ہے اور ذہبی نے کہا ہے کہ وہ عجیب عجیب حدیثیں بیان کرنے والا ہے۔

 اور بخاری نے کہا کہ اس کی حدیث میں نظر ہے اور یہ کلمہ امام بخاری کے نزدیک بہت سخت جرح کا کلمہ ہے۔ اور حاکم نے کہا کہ ابو احمد کی نظر بند ہو گئی تھی اور اس کی حدیث میں اضطراب ہوتا تھا۔  اور ابو حاتم نے کہا کہ اس کو احمد بن صالح پسند نہ کرتے تھے۔ 

اور نسائی نے کہا کہ ثقہ نہیں ہے[1]۔

 پس چاہیے کہ اللہ تعالی سے ڈرے وہ آدمی جو اس سند کے ساتھ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ائمہ ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ 

علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ بے شک ابن جریر نے تھذیب الاثار میں الحسن بن الصباح کی الحنینی سے یہ خبر ان الفاظ سے روایت کی ہے کہ بے شک مالک نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اس حال میں کہ یہ معاملہ مکمل ہو چکا تھا۔ 

پس بے شک مناسب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے آثار کی پیروی کی جائے اور آخر تک خبر بیان کی جیسا کہ ابن عبد البر کی جامع بیان العلم ص 144 ج 2 میں ہے اور اس کی روایت میں ابو حنیفہ کا بالکل ذکر نہیں ہے۔ پس ابن درستویہ الدراہمی ہی ہو سکتا ہے جس نے مرضی کے مطابق خبر کی ابتدا میں زیادتی کر دی ہے۔ 

اور مالک تو رائے میں عظیم الشان پیالے والے تھے (یعنی انہوں نے فقہ کے جام خوب بھر بھر کر پیٸے) اور ان کے ساتھی جو فقہ میں مشہور ہیں وہ اہل الرائے میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اور ان کی آراء الموطا میں ظاہر ہیں جو نسخہ اللیثی کی روایت سے ہے۔

 اور وہ احادیث جن کو خود انہوں نے صحیح سندوں سے الموطا میں روایت کیا اور ان کو رد کیا اور ان کے مطابق عمل نہ کیا وہ ستر سے زائد ہیں۔ 

اور بے شک یحیی بن سلام نے کہا کہ ابراہیم بن الاغلب کی مجلس میں میں نے عبد اللہ بن غانم سے سنا وہ لیث بن سعد سے بیان کر رہے تھے کہ بے شک اس نے کہا کہ میں نے مالک بن انس کے ستر مسائل ایسے شمار کیے جو سارے کے سارے نبی کریم ﷺ کی سنت کے خلاف تھے اور ان میں مالک نے اپنی رائے کے مطابق عمل کیا۔ 

اس نے کہا کہ میں نے اس بارہ میں اس کی طرف لکھا۔ 

جیسا کہ ابن عبد البر کی جامع بیان العلم ص 144 ج 2 میں ہے[2]۔ بلکہ ابن حزم نے اس بارہ میں پوری ایک جز لکھی ہے اور اسد بن الفرات کے سوالوں کے جوابات جو ابن القاسم نے دیے ہیں وہ تو رائے کا اعلان کرتے ہیں۔ بلکہ وہی امام مالک کے مذہب کی بنیاد ہے۔

 اور جو ابو العباس محمد بن اسحاق السراج الثقفی نے اس کے مسائل مدون کیے ہیں وہ ستر ہزار تک پہنچنے والے ہیں جیسا کہ امام ذہبی کے طبقات الحفاظ ص 269 ج 2 میں ہے اور یہ چیزیں صراحت ہیں اس بات کی کہ وہ خود اہل الرائے میں سے تھے۔

اور امام مالک کے وہ ساتھی جو اندلس میں تھے وہ سارے کے سارے رائے میں باقی تمام لوگوں سے زیادہ سخت تھے اور بقی بن مخلد جب اندلس میں مصنف بن ابی شیبہ لے کر آیا تھا تو اس کے ساتھ جو انہوں نے سلوک کیا تھا وہ مشہور ہے۔ یہاں تک کہ الحافظ ابو الولید بن الفرضی نے ابوالقاسم اصبغ بن خلیل القرطبی سے روایت کی جس کا فتوی اندلس میں پچاس سال تک امام مالک کے مذہب کے مطابق چلتا رہا اور اس نے 273ھ میں وفات پائی۔ 

بے شک اس نے کہا کہ اگر میرے تابوت میں خنزیر کا سر رکھ دیا جائے تو وہ مجھے پسند ہو گا بہ نسبت اس کے کہ اس میں مسند ابن ابی شیبہ رکھی جائے۔ اور یہ تو رائے میں انتہائی غلو ہے۔ 

اور ابن قتیبہ نے المعارف میں امام مالک اور ان کے اصحاب کو اہل الرائے کے زمرہ میں شمار کیا ہے۔ 

اور اگر رائے نہ ہوتی تو امام مالک کو فقہ میں امامت ہی نہ ملتی۔ اور نہ ہی ان کی یہ شان ہوتی۔ اور اگر مالک کے شیخ ربیعہ الرائے نہ ہوتے تو مالک فقہ کا ذکر ہی نہ کرتے۔

 اور بے شک رسول الله ﷺ نے صحابہ کو رائے پر اور پیش آنے والے غیر منصوص مسائل کو منصوص مسائل کی طرف لوٹا کر مثل کو مثل کے ساتھ ملا کر احکام کی تربیت دی۔ 

اور نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے جو مجتہد تھے وہ رائے کے مطابق قول کرتے تھے اور اسی طرح تابعین فقہاء کا طریق تھا۔

 اور خطیب جلدی ہی بھول گیا ہے اس کو جو اس نے الفقيه والمتفقہ میں سندوں کے ساتھ رائے کے اثبات میں لکھا ہے۔

 اور یقینی بات ہے کہ دین کا معاملہ مکمل ہو گیا تھا لیکن اس کا نام اور کامل ہونا پیش آنے والے مسائل میں رائے اور افتاء سے نہیں روکتا بلکہ یہ تمام اور کمال کا حصہ ہی ہے کیونکہ پیش آنے والے غیر منصوص تمام مسائل کا کتاب و سنت میں ہونا محال ہے بلکہ پیش آنے والے مسائل تو جہان ختم ہونے تک پیش آتے رہیں گے اور ان کے حل کے لیے اہل استنباط اور رای کی جانب احتیاجی ہوگی۔

 اور رائے مطلقا مذموم نہیں ہے بلکہ صرف وہ رائے مذموم ہے جو کتاب و سنت و دلالت لغت سے مدد لیے بغیر خواہشات نفسانیہ کی وجہ سے ہو۔ 

اور جن ائمہ کی اتباع کی جاتی ہے ان میں یہ حالت کہاں پائی جاتی ہے؟

 اور مالک ہی تو ابو حنیفہ کے بارہ میں لیث بن سعد کو جواب دینے والے تھے جبکہ اس نے کہا تھا کہ میرا خیال ہے کہ آپ عراقی ہو گئے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اے مصری میں ابو حنیفہ کے ساتھ عراقی ہو گیا ہوں۔ بے شک وہ یقینا فقیہ ہے[3]۔ 

جیسا کہ اس کو قاضی عیاض نے المدارک کی ابتداء میں روایت کیا ہے[4]

اور وہی مالک جن کے پاس صرف ابو حنیفہ سے حاصل کردہ ساٹھ ہزار کے قریب مسائل تھے جیسا کہ اس کو طحاوی نے اپنی سند کے ساتھ عبد العزیز الدراوردی سے روایت کیا ہے۔ اور اس کو مسعود بن شیبہ نے کتاب التعلیم میں نقل کیا ہے۔ اور وہ ابو حنیفہ کی کتابوں سے استفادہ کرتے تھے جیسا کہ اس کا ذکر ابو العباس بن ابی العوام نے اپنی سند کے ساتھ اس میں کیا ہے جو اس نے اپنے دادا کی کتاب میں اضافہ کیا ہے اور وہ کتاب ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب کے فضائل میں ہے.اور کتب خانہ ظاہریہ دمشق میں موجود ہے۔ 

اور جب کبھی امام ابو حنیفہ مدینہ میں آتے تو امام مالک ان سے مسجد نبوی میں رات گئے تک علم کا مذاکرہ کیا کرتے تھے جیسا کہ اس کا ذکر الموفق، الخوارزمی وغیرہ نے کیا ہے[5]۔

 تو اس جیسا آدمی اس جیسی بات اس جیسے آدمی کے متعلق کیسے کہہ سکتا ہے؟ 

پس ایسی روایت سے اللہ کی پناہ ہے۔

 اور بے شک الباجی نے شرح الموطا میں اس جیسی فضول باتوں سے امام مالک کو بالکل بری الذمه  قرار دیا ہے[6]۔  اور وہ مالک اور اس کے اقوال کو باقی لوگوں کی بہ نسبت زیادہ جانتے تھے۔

 اور جو شخص یہ تصور کرتا ہے کہ امام مالک نے فقیہ الملت جیسی شخصیت کے بارہ میں تو در کنار کسی عام شخص کے بارہ میں یہ کہا ہوگا کہ اسلام میں اہل اسلام پر اس سے زیادہ مضر کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا تو یہ تصور یقینا بے تکی بات کرنا اور بن دیکھے تیر مارنا ہے۔


 اور خطیب نے یہ خبر ایک اور سند سے نقل کی ہے جو ابن رزق۔ ابن سلم۔ الاہار۔ ابو الازهر النيسابوری حبیب کاتب مالک ۔مالک کی سند سے ہے جس میں ہے کہ امام مالک نے کہا کہ اس امت پر ابو حنیفہ کا فتنہ ابلیس کے فتنہ سے بھی دو لحاظ سے زیادہ مضر ہے۔ 

ایک ارجاء کے لحاظ سے اور دوسرا اس لحاظ سے جو اس نے سنتوں کو توڑنے کے لیے قوانین وضع کیے ہیں[7]۔

 اور یہ تعصب کے سلسلہ کے طریق کا ایک اور بہتان ہے اور اس کی سند میں ابن رزق ابن سلم اور الابار ہیں اور ان پر حبیب بن رزیق کا اضافہ ہے جو کہ امام مالک کا کاتب تھا۔

 اس کے بارہ میں ابو داؤد کہتے تھے کہ یہ اکذب الناس ہے۔

 اور ابن عدی نے کہا کہ اس کی ساری حدیثیں من گھڑت ہیں۔ اور امام احمد نے کہا کہ یہ ثقہ نہیں ہے اور ابن حبان نے کہا کہ یہ ثقہ راویوں کا نام لے کر موضوع روایات روایت کرتا تھا جیسا کہ میزان الاعتدال میں ہے[8]۔ اور اس کا راوی ابو الازھر ہے اور اس کے آخر میں یاء نہیں ہے اور تینوں مطبوعہ نسخوں میں یاء کا اضافہ کر کے ابو الازہری لکھا ہوا ہے تو یہ غلط ہے۔ 

اور بے شک پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ ابو حنیفہ کی طرف جس ارجاء کی نسبت کی جاتی ہے اور وہ جس معنی میں اس کا نظریہ رکھتے ہیں وہی خالص سنت ہے۔ 

اور اس کے خلاف یا تو خوارج کی طرف میلان ہوگا یا معتزلہ کی طرف اور بہر حال سنتوں کو توڑنا تو یہ ائمہ متبوعین کی شان نہیں ہے اگرچہ ان کے بارہ میں بعض ایسے لوگوں نے من گھڑت یہ بات منسوب کی ہے

جن کا فہم تنگ ہے اور ان کی طبیعت جامد ہے اور ان کے ذہن مفہوموں کی باریکی سے دور ہیں۔

 تو وہ ان کے بارہ میں بیشک ہر وہ چیز کہتے رہیں جو ان پر ان کا جہل املاء کروائے۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔



[1]۔ الاسم: إسحاق بن إبراهيم

الكنية: أبو يعقوب

النسب: الحنيني, المدني الأصل

ابن حجر : ضعيف [تقريب التهذيب (1/ 126)]

الذهبى :

ضعفوه [الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة (2/ 93)]

وقال النسائي: ليس بثقة [تهذيب الكمال (2/ 396)]

 رأيت أحمد بن صالح لا يرضى الحنيني [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (2/ 208)]


وخرج الحاكم حديثه في مستدركه. وقال أبو أحمد الحاكم: في حديثه بعض المناكير. [إكمال تهذيب الكمال (2/ 79)]

وقال أبو الفتح الأزدي: أخطأ في الحديث [تهذيب التهذيب (1/ 114)]

وقال البخاري: في حديثه نظر [تهذيب التهذيب (1/ 114)]

سمعت ابن حماد يقول: قال البخاري: إسحاق بن إبراهيم الحنيني، عن مالك وهشام بن سعد، في حديثه نظر. [الكامل في الضعفاء (1/ 554)]

وذكره أبو حاتم بن حبان في كتاب " الثقات "، وقال: كان يخطئ [تهذيب الكمال (2/ 396)]


[2].  2105 - وقد ذكر يحيى بن سلام ، قال : سمعت عبد الله بن غانم في مجلس إبراهيم بن الأغلب يحدث عن الليث بن سعد ، أنه قال : " أحصيت على مالك بن أنس سبعين مسألة ، كلها مخالفة لسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم مما قال فيها برأيه قال : ولقد كتبت إليه أعظه في ذلك "

[3].صحیح عبارت یوں ہیکہ لیث بن سعد نے فرمایا آپ ابو حنیفہ کے ساتھ پسینہ پسینہ ہو گئے ، امام مالک نے کہا اے مصری ، میں ابو حنیفہ کے ساتھ پسینہ پسینہ ہو گیا


[4]۔ ترتيب المدارك وتقريب المسالك 1/152

[5]۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایک دوسرے کی  عزت و توقیر کرتے تھے اور علمی استفادہ فرماتے تھے ، اگرچہ اسلاف کے دشمن ، محدثین کے نام پر غیر مقلدیت پھیلانے والے متعصب متشدد غیر مقلد معلمی یمانی نے التنکیل میں اس سچائی کا گلہ اپنے بدبودار قلم کے ہاتھوں گھونٹا ہے لیکن اہل حق پر سچائی مخفی نہیں اور یہ روایات سندا ثابت ہیں جیسا کہ الاجماع شمارہ 14 ص 59 میں تفصیل موجود ہے۔

[6]۔ المنتقی 7/300


[7]۔أخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا أبو الأزهري النيسابوري، حدثنا حبيب كاتب مالك بن أنس عن مالك بن أنس قال: كانت فتنة أبي حنيفة أضر على هذه الأمة من فتنة إبليس في الوجهين جميعا، في الإرجاء، وما وضع من نقص السنن.

[8]۔حبيب بن إبراهيم كاتب مالك بن أنس

أبو أحمد الحاكم : ذاهب الحديث

أبو أحمد بن عدي الجرجاني : عامة حديث حبيب موضوع المتن مقلوب الإسناد ولا يحتشم حبيب في وضع الحديث على الثقات وأمره بين في الكذابين

أبو الفتح الأزدي : متروك الحديث

أبو حاتم الرازي : ليس بثقة، متروك الحديث روى عن ابن أخي الزهري أحاديث موضوعة

أبو حاتم بن حبان البستي : يروي عن الثقات الموضوعات، كان يدخل عليهم ما ليس من أحاديثهم فكل من سمعه بعرضه فسماعه ليس بشيء

أبو دواد السجستاني : كان من أكذب الناس، ومرة: كان يضع الحديث

أبو زرعة الرازي : يضع الحديث

أحمد بن حنبل : ليس بثقة، كان يحيل الحديث ويكذب، ولم يكن يوثقه وأثنى عليه شرا

أحمد بن شعيب النسائي : متروك الحديث، ومرة: متروك أحاديثه كلها موضوعة

ابن حجر العسقلاني : متروك، كذبه أبو داود وجماعة

الدارقطني : متروك

علي بن المديني : عرض عليه عشرين حديثا من حديثه فقال: هذا كله كذب

يحيى بن معين : كذاب ليس بشيء


___________________________


امام مالک اور امام ابو حنیفہ :

قال ابن وضاح ، وسمعت أبا جعفر الأيلي يقول : سمعت خالد بن نزار يقول : سمعت مالكا يقول : " لو خرج أبو حنيفة على هذه الأمة بالسيف كان أيسر عليهم مما أظهر فيهم من القياس والرأي " 

امام مالک نے کہا کہ ابو حنیفہ کا قیاس اور رائے کرنا زیادہ خطرناک ہے بنسبت کہ وہ تلوار لیکر امت کے خلاف نکلتے۔

( جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر 2/1079 )

جواب: 

اول : یہ جرح مردود ہے جیسا کہ 2 مالکی آئمہ نے تصریح کی ہے جن کی تفصیل یہ ہے 

1۔ محدث ابو الولید الباجی مالکی (المنتقی 7/300)

2۔محدث ابن عبدالبر مالکی

(جامع بیان العلم 2/1079)


دوم : امام مالک رحمہ اللہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتب سے علمی طور پر استفادہ فرماتے  تھے

 (فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ص 235 ، اسنادہ حسن ، الاجماع شمارہ  14 ص 59 )

معلوم ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ کی رائے اور قیاس کو اچھا سمجھتے تھے ، تبھی ان سے استفادہ کرتے تھے ، مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  الاجماع شمارہ نمبر 14 میں "امام مالک کے نزدیک امام ابو حنیفہ ثقہ ہیں۔"


(النعمان سوشل میڈیا سروسز)




تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...