نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ثقہ،امام نضر بن محمد القرشیؒ(م۱۸۳؁ھ)نے امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ)کو ثقہ قرار دیا ہے۔

 

ثقہ،امام نضر بن محمد القرشیؒ(م۱۸۳؁ھ)نے امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ)کو ثقہ قرار  دیا ہے۔

-مولانا نذیر الدین قاسمی

         صدوق ،امام موفق بن احمد المکیؒ(م۵۶۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ

            اخبرنی الحافظ ابو الخیر عبد الرحیم بن محمد بن احمد فیما کتب الی من اصبہان انا ابو الفرج سعید بن ابی الرجاء الصیرفی باصبہان اذنا ابو الحسین محمد بن احمد الاسکاف انا ابو عبد اللہ محمد بن اسحاق بن مندۃ انا الامام ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی  قال اخبرنا عمران بن فرنیام انبا ابو الفضل انا وہب بن زمعۃ اخبرنی سہل ہو ابن مزاحم قال کنت عند النضر بن محمد فقیل لہ ان ابا غسان یقول کذا و کذا قال فغضب وقال ما ادری مایقول ہولاء الصبیان حدثنی الثقۃ الورع الذی کان یعز  علیہ ان یتکلم الا ما یوافق الاثر یعنی ابا حنیفۃ۔

سہل بن مزاحم ؒ کہتے ہیں کہ میں نضر بن محمد ؒ کے یہاں تھا کہ ان سے کہا گیا : ابو غسان ایسا ایسا کہتے ہیں ،راوی کہتے ہیں : اس پر  وہ خفا ہوگئے اور کہا : کیا پتہ یہ بچے کیا کہتے ہیں ، مجھ سے ایسے ثقہ اور پرہیزگارشخص نے حدیث بیان کی جنہیں حدیث شریف کے خلاف کوئی بات کرناگراں گزرتا تھا،یعنی کہ امام ابو حنیفہ ؒ  ۔(مناقب للمکی : ص۱۷۶،طبع بیروت)

سند کی تحقیق :

(۱)       امام ابو المؤید موفق بن احمد المکی ؒ(م ۵۶۸؁ھ) کی توثیق کے لئے دیکھئے مجلہ الاجماع : ش۴:ص۷۰ ۔

(۲)       حافظ ابو الخیر عبدالرحیم بن محمد بن احمد الاصبہانی ؒ (م ۵۶۸؁ھ) ،

(۳)      ابوالفرج سعید بن ابی رجاء ؒ(م ۵۳۲؁ھ)،

(۴)      ابوالحسین احمد بن محمد الاسکافی ؒ ،

(۵)      امام ابوعبداللہ محمد بن اسحق بن مندہؒ ۳۹۵؁ھ) ، وغیرہ کی توثیق مجلہ الاجماع : ش۴:ص۶۲ پر موجود ہے۔

(۶)       امام ابومحمد عبداللہ بن محمد الحارثی ؒ ۳۴۰؁ھ) کی توثیقمجلہ الاجماع : شمارہ نمبر۲:ص۸۹ پر ہے۔

(۷)      ابو زید ،عمران بن فرینامؒ بھی صدوق ہیں۔

            ان سے امام ابو محمد الحارثی ؒ (م۳۴۰؁ھ)،ابو الحسن، علی بن الحسن بن الخلیل بخاری ؒ(م۳۴۶؁ھ)، ابو حفص، عمرو بن محمد بن الحسین  بخاری ؒ(م۳۲۹؁ھ)،ابو عبد اللہ  محمد بن احمد ابن سعید بن یعقوب اللولوی الکلاباذیؒ(م۳۲۳؁ھ)وغیرہ نے روایت لی ہے۔(اکمال لابن ماکولا : ج۳: ص ۱۷۸،ج۷: ص ۱۴،الانساب للسمعانی : ج۱۱: ص ۱۸۰)

            ایسا راوی ابن حبانؒ(م۳۵۴؁ھ) کے اصول کی روشنی میں صدوق ہوتا ہے، جیسا کہ شیخ الالبانی ؒ نے کہا ہے۔(مجلہ الاجماع : ش۱۶:ص۳۱)

(۸)      ابو الفضل سے مراد ابو الفضل الفزاریؒ(م۳۰۶؁ھ) ثقہ،ثبت،امام ہیں۔(،ارشاد القاصی الدانی : ص۳۴۶)

(۹)       وہب بن زمعۃؒ سنن ترمذی و سنن نسائی کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۷۴۷۷)

(۱۰)     سہل بن مزاحمؒ بھی صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۵:ص ۱۶۵،کتاب الثقات لابن حبان : ج۸: ص۲۸۹، الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم : ج۴:ص۲۰۴)

(۱۱)      نضر بن محمد القرشیؒ(م۱۸۳؁ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب)         

            لہذا یہ سند حسن ہے۔واللہ اعلم

نوٹ :

مناقب للموفق بن احمد المکی کے مطبوعہ نسخہ میں ’’ابو الفضل انا وہب بن زمعۃ ‘‘ کے بجائے ’’ ابو الفضل انا ود بن زمعۃ ‘‘ آگیا ہے،جو کہ کاتب کی غلطی کا نتیجہ ہے۔(مناقب للمکی : ص۱۷۶،طبع بیروت)،کیونکہ الجامعۃ الاسلامیۃ، المدنیۃ المنورۃ کے مکتبہ رقم ۳۲۸۱ میں موجود  مناقب ابی حنیفۃ للمکی: : [FOLIO] نمبر ۴۳-۴۴ کے مخطوطہ میں  ’’ ابو الفضل انا وہب بن زمعۃ ‘‘ ہی موجود ہے۔

 

            لہذا صحیح ’’ ابو الفضل انا وہب بن زمعۃ ‘‘ ہے۔واللہ اعلم


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر17

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

-------------------------------------------------------------------------------------------

حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : وحدثني محمد قال : حدثني أحمد بن القاسم قال : ثنا ابن أبي رزمة قال : حدثني أبي ، عن النضر بن محمد قال : لم أر رجلاً الزم للأثر من أبي حنيفة ، قدم علينا يحيى بن سعيد - يعني الأنصاري - وأرى قال : وهشام بن عروة وأرى قال : وسعيد بن أبي عروة ، فقال لنا أبو حنيفة : انظروا أتجدون عند هؤلاء شيئاً نسمعه 

نضر بن محمد کہتے ہیں میں نے ابو حنیفہ سے زیادہ آثار (یعنی احادیث و آثارِ صحابہ) کا پابند کوئی شخص نہیں دیکھا۔ یحییٰ بن سعید — یعنی انصاری — ہمارے پاس آئے، اور ہشام بن عروہ، اور سعید بن ابی عروہ، تو ابو حنیفہ نے ہم سے کہا: دیکھو، کیا تمہیں ان (محدثین) کے پاس کوئی ایسی چیز ملتی ہے جو ہم سن لیں

( فضائل أبي حنيفة ص 219، سند صحیح )

اس روایت سے امام ابو حنیفہ کی حدیث سے گہری محبت، علم کے حصول میں عاجزی، اور اپنے سے بڑے محدثین کے سامنے ادب و انکساری کا جذبہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ وہ صرف خود کو عالم سمجھ کر رک نہیں گئے بلکہ ہر نئے آنے والے محدث کی بات سننے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل ان کے تقویٰ، اخلاص، علمی دیانت اور حق کی تلاش پر دلیل ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ امام ابو حنیفہ کی علمی عظمت کے باوجود وہ ہمیشہ علم میں اضافے کے طالب رہے، اور علمِ حدیث میں ان کی گہری دلچسپی محض  دعوے  کی نہیں بلکہ عملی صورت میں نمایاں تھی۔ 


حدثني أبي قال : حدثني أبي قال : حدثني محمد بن أحمد بن حماد قال :حدثني أحمد بن القاسم قال : ثنا ابن أبي رزمة قال :حدثني أبـو وهـب قال : سمعت النضر بن محمد يقول : كان أبو حنيفة إذا أدخل عليه الحق لا ينطلق لسانه بعد ذلك ، يعني أنه يقبله 

نضر بن محمد کہتے ہیں:

جب امام ابو حنیفہ کے سامنے حق بات پیش کی جاتی تو اس کے بعد ان کی زبان نہیں چلتی تھی، یعنی وہ (خاموش ہوکر) اس حق کو قبول کر لیتے تھے۔

( فضائل أبي حنيفة ص 219 ، سند صحیح

وضاحت:

یہ قول امام ابو حنیفہ کی دیانت داری، عاجزی اور حق پسندی کو بیان کرتا ہے کہ جب وہ کسی دلیل یا حق بات کے قائل ہو جاتے،  نہ ضد کرتے، نہ غیر ضروری بحث میں پڑتے، بلکہ سچائی کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینا ان کی علمی عظمت کا روشن پہلو ہے۔ ان کا یہ رویہ اس بات کا  ثبوت ہے کہ وہ اپنی بات پر اَڑے رہنے والے نہیں، بلکہ دلیل کے تابع عالم تھے۔

سمعت أبا یحیی قال : قلت للنضر بن محمد : أبو حنيفة كان يرى السيف ؟ قال معاذ اللہ 

(فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ت بہرائچی رقم 85 ، صفحہ 75)

اس روایت میں ابویحییٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نضر بن محمد سے پوچھا: "کیا امام ابو حنیفہ تلوار (یعنی حاکم وقت کے خلاف بغاوت) کے قائل تھے؟" تو نضر بن محمد نے فوراً جواب دیا: "معاذ اللہ" (اللہ کی پناہ، ہرگز نہیں)۔

یہ جملہ اس بات کی واضح تردید ہے کہ امام ابو حنیفہ کسی فتنہ یا بغاوت کے قائل تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ کا مزاج فتنہ و فساد سے پاک، امن پسند، اور اصولوں کے مطابق تھا۔  مزید تفصیل کیلئے  دیکھیں

اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...