اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے۔
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس عنوان[1] کے تحت خطیب نے ایسی خبروں کو بیان کیا ہے جن سے پتہ چلتا ہے ابو حنیفہ ایسے حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے جو ان کے مذہب کا نہ ہوتا تھا۔
ابن ابی العوام نے محمد بن احمد بن حماد، احمد بن القاسم البرتی، ابن ابی رزمہ ، ابو وہب ، ابو یحییٰ کی سند نقل کر کے کہا کہ ابو یحییٰ نے کہا کہ میں نے نضر بن محمد سے پوچھا کیا ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف تلوار اٹھانے کا نظریہ رکھتے تھے ؟ تو اس نے کہا معاذ اللہ الخ[2]
اور خطیب کی یہاں یہ کارروائی اس لیے ہے تا کہ ایسی چیز منسوب کر کے ان حکومتی عہدہ داروں سے اس کے خلاف مدد طلب کرے جو اس کے مذہب کے خلاف ہیں۔
اور جو خبریں اس نے اوزاعی کی طرف منسوب کی ہیں ، ان میں یہ بھی ہے کہ بیشک اس نے کہا کہ میں ان کے لیے ائمہ کے خلاف خروج کو جائز سمجھتا ہوں[3] اور اس کی سند میں ابن درستویہ ہے اور وہ ہمارے ہاں کوئی پسندیدہ آدمی نہیں ہے جیسا کہ وہ البرقائی اور اللالکائی کے ہاں پسندیدہ نہیں ہے[4]۔ پس وہ پسندیدہ ہو بھی کیسے سکتا ہے اس لیے کہ بیشک وہ چند دراہم کی خاطر نہ سنی ہوئی روایات بھی کر دیتا تھا۔
اور جو روایات اوزاعی کی طرف منسوب کی گئی ہیں، ان روایات میں سے یہ بھی ہے کہ تو ایسے آدمی کے پاس سے آیا ہے جو حضرت محمد ﷺ کی امت میں تلوار استعمال کرنے کا نظریہ رکھتا ہے اور تو اس کا تذکرہ ہمارے پاس کرتا ہے؟[5]
اور اس کی سند میں ابو الشیخ الاصبہانی ہے، اس کو الحافظ ابو احمد العسال نے ضعیف کہا ہے اور اس کا میلان الله تعالیٰ کے لیے جسم ماننے والوں کی طرف تھا اور اس کی سند میں عمر بن محمد الجوہری السذابی بھی ہے اور اس کی حدیث میں کچھ منکر باتیں ہوتی تھیں بلکہ یہ اس موضوع خبر میں متفرد ہے جو قرآن کے بارے میں ہے[6]۔
اور عبد الله بن المبارک کی طرف جو روایات منسوب کی گئی ہیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس میں ہے کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو ایسے آدمی کے پاس سے آیا ہے جو محمد ﷺ کی امت میں تلوار اٹھانے کا نظریہ رکھتا ہے[7] اور یہ خبر ایسی سند کے ساتھ ہے جس میں الحاکم ہے اور یہ آخر عمر میں بد ترین قسم کے اختلاط میں گرفتار ہو گیا تھا نیز احتمالی متعصب تھا اور اس کا راوی عبد اللہ بن محمود مجہول الصفت ہے اور اسی طرح ابو الوزير عمر بن مطرف تھا۔
اور جو روایات اوزاعی کی طرف منسوب کی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے کہا کہ میں تیرے بارہ میں سن رہا ہوں کہ تو ایسے آدمی کی تعریف کرتا ہے جو امت میں تلوار اٹھانے کا نظریہ رکھتا ہے[8] اور اس کی سند میں ابن دوما النعالی[9] اور ابن سلم اور الابار ہیں جن کا ذکر پہلے کئی بار ہو چکا ہے[10]۔ اور الحسن بن علی الحلوانی ہے اور وہ متکلم فیہ ہے اور امام احمد اس کو پسند نہ کرتے تھے۔
اور اسی طریقہ کے مطابق ہیں وہ دونوں خبریں جو اسحاق الفراری کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی خبر کی سند میں ابن دوما کی جگہ یزید بن یوسف الشامی ہے جس کے بارے میں ابن معین نے کہا کہ یہ ثقہ نہیں ہے اور نسائی نے کہا کہ یہ متروک ہے[11] اور پہلی خبر کے الفاظ یہ ہیں کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ میں تیرے بھائی کو خروج (حاکم وقت کے خلاف بغاوت) کا فتویٰ دیتا ہوں یعنی ابراہیم کے خلاف تو میں نے کہا اللہ تجھے اچھا بدلہ نہ دے تو اس نے کہا کہ یہ میری رائے ہے۔ راوی کہتا ہے کہ پھر میں نے ان کے سامنے نبی کریم ﷺ کی وہ حدیث بیان کی جس میں اس نظریہ کی تردید ہوتی ہے تو اس نے کہا کہ هذه خرافة یہ باطل بات ہے۔ یعنی نبی کریم ﷺ کی حدیث (معاذ اللہ )[12]۔ پس اگر اس واقعہ کو بالفرض صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کے قول 《هذه خرافة》 سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ اس کو نبی کریم ﷺ کی حدیث کی طرف پھیرا جائے بلکہ اس کی بات سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ الفزاری نے جو حکایت بیان کی تھی، یہ اشارہ اس کی طرف دلالت کرتا ہے نہ کہ حدیث کی طرف ورنہ تو 《ھذہ》 کے بجائے 《هذا 》 ہوتا اور الفزاری بہت غلطیاں کرنے والا تھا جیسا کہ ابن سعد نے الطبقات میں اور ابن قتیبہ نے المعارف میں اور ابن الندیم نے الفہرست میں اس کی صراحت کی ہے[13]۔ پس اس جیسا آدمی جب اندھیرے پر چلتا ہے اور بات کا مقصد واضح نہیں کرتا تو ہم اس کے دلی منشا کے مطابق کلام کو محمول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ یعنی وہ معنی جب عالم وجود میں ظاہر نہیں ہوا اور نہ ہی ہم اس کی بات اور اس کلام کی دلالت کو معلوم کر سکے ہیں تو پھر کیوں ہم اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے ائمہ میں سے کسی امام کی عزت کو داغدار کریں۔ اگرچہ حدیث کا ذکر بعض اوقات معنی کے سمجھنے میں یا الفاظ کی روایت میں بکثرت اغلاط پائے جانے کی وجہ سے اس کی اغلاط سے پردوں کو ہٹا دیتا ہے۔ پس اس کا سکوت حدیث سے اس کی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے ہوتا ہے ورنہ تو اس کے انکار کا کوئی معنی ہی نہیں۔ اس چیز کو ذکر کرنے میں جو اس کے لیے حجت قائمہ ہوتی ہے اور اہل شام کی کتنی ہی احادیث ہیں جن کی نفی اللہ تعالی کا یہ
فرمان کرتا ہے فَقَاتِلُوا الَّتي تبغِی کہ تم باغیوں کے خلاف لڑو[14]۔
اور دوسری خبر کی سند میں جو الفزاری سے ہے، اس میں ابن درستویہ ہے اور اس کی حالت کا بیان اور اس کی صراحت پہلے کئی دفعہ ہو چکی ہے[15]۔ پس ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر بیشک تو اپنے بھائی کے ساتھ قتل کر دیا جائے تو یہ تیرے حق میں بہتر ہے اس جگہ سے جہاں سے تو آیا ہے ، تو میں نے کہا کہ پھر آپ کو اس چیز سے کس نے روکا ہے کہ( آپ خروج نہیں کرتے) تو انہوں نے کہا کہ اگر میرے پاس لوگوں کی امانتیں نہ ہوتیں تو میں اس میں تاخیر نہ کرتا[16]۔ اور تاریخ بغداد کے پہلے مطبوعہ نسخہ میں "اسیت" کے الفاظ ہیں جو غلط ہیں ۔
اور باوجود یہ کہ ان اخبار میں کمزوریاں ہیں، ہم انکار نہیں کرتے کہ بیشک ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب ظالموں اور ظالم حکمرانوں کے ساتھ قتال میں مشہور ہے جبکہ ان کے ساتھ لڑائی میں مصلحت زیادہ غالب ہو جیسا کہ ان کے مذہب کی کتابوں میں با تفصیل مذکور ہے اور اسی لیے تو اوزاعی نے کہا کہ ہم نے ابو حنیفہ کو ہر چیز پر برداشت کیا یہاں تک کہ وہ ہمارے پاس تلوار کو لائے یعنی ظالموں کے ساتھ قتل کرنے میں، تو ہم نے اس کو برداشت نہ کیا۔ اور ابو حنیفہ کا مذہب ہر چیز میں سکوت نہ تھا۔
ابوبکر الرازی نے کہا کہ زید بن علی علیہما السلام کے معاملہ میں اس (ابو حنیفہ) کا کردار مشہور ہے اور اس کا اس کی طرف مال بھیجنا اور پوشیدہ طور پر اس کی مدد کے واجب ہونے کے اور اس کے ساتھ شریک ہو کر لڑائی کرنے کے فتوے دینا مشہور ہے اور اسی طرح تھا اس کا معاملہ محمد اور ابراہیم کے ساتھ جو کہ دونوں عبد اللہ بن الحسن کے بیٹے تھے اور اس کا ابو اسحاق الفزاری کو کہنا جبکہ اس نے اس کو کہا کہ آپ نے میرے بھائی کو ابراہیم کے ساتھ ہو کر بغاوت کا مشورہ کیوں دیا تھا یہاں تک کہ وہ قتل کر دیا گیا؟ تو انہوں نے کہا کہ تیرا بھائی جس طرف گیا ہے، وہ جگہ میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے اس جگہ سے جس طرف تو گیا ہے۔ اور ابو اسحاق بصرہ کی طرف چلا گیا تھا اور پختہ بات ہے کہ ان کے اس انداز کو صرف ان نا تجربہ کار اصحاب حدیث نے ہی برا سمجھا جنہوں نے الامر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو معدوم کر دیا تھا یہاں تک کہ ظالم لوگ مسلمانوں کے امور پر غالب آگئے الخ۔
پھر اس نے ذکر کیا کہ حجاج بن یوسف کے خلاف چار ہزار قراء نے خروج کیا تھا جن میں بڑے بڑے تابعین اور فقہاء بھی تھے۔ پھر انہوں نے اہواز کے مقام میں عبد الرحمن بن محمد بن الاشعث کے ساتھ ہو کر لڑائی لڑی ، پھر بصرہ میں ، پھر فرات کے کنارے کوفہ کے قریب ، دیر الجماجم میں ، اور وہ عبد الملک بن مروان کو معزول کرنا چاہتے تھے، اس پر لعنت کرتے اور اس سے براءت کا اظہار کرتے تھے ، پس کیا کوئی دل میں خدا خوفی رکھنے والا آدمی ان حضرات کو ایسے گمراہ شمار کرے کہ ملت سے ہٹائے ہوئے ہوں محض اس وجہ سے کہ وہ ظالم حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کا نظریہ رکھتے تھے۔ لیکن اللہ تعالٰی خواہشات کا ستیا ناس کرے کہ وہ فضیلت کو بھی عیب بنا دیتی ہیں۔
اور بیشک ابوبکر الرازی نے قاضی اور خلیفہ کے لیے عدالت کے شرط ہونے کے بارہ میں ابو حنیفہ کی رائے کی وضاحت میں تفصیل سے کلام کیا ہے اور یہ اس نے لا ينال عَهْدِى الظَّالِمِینَ کی تفسیر میں لکھا ہے۔ احکام القرآن کے اس حصہ کی طرف مراجعت کریں اور وہ اس کی عمدہ ابحاث میں سے ہے۔ اور زمخشری نے بھی اس آیت کی تفسیر میں ابو حنیفہ کی اس بارے میں رائے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالٰی ابو اسحاق الفزاری سے در گزر سے کام لے، جب اس نے اپنے بھائی کو گم پا کر اپنا وزن کم کر دیا تو فقیہ ملت کے بارے میں ہر مجلس اور محفل میں زبان درازی شروع کردی یہاں تک کہ رشید کی مجلس میں بھی جیسا کہ آپ اس کا ذکر ابن ابی حاتم کی الجرح والتعدیل کے مقدمہ میں پائیں گے۔ ایسی زبان درازی کرتا کہ نہ عقل اس کا ساتھ دیتی اور نہ ہی شریعت اور عقل مند لوگ اس کے ساتھ چشم پوشی کا معاملہ کرتے تھے اس لیے کہ ان کو اس کی ذاتی حالت معلوم تھی اور ابو حنیفہ کا اس بارے میں زیادہ سے زیادہ قصور یہ تھا جب اس کے بھائی نے ان سے فتوی طلب کیا تھا تو انہوں نے خدا تعالی کی جانب سے دیے گئے علم کے مطابق اس کو فتویٰ دیا تھا۔
اور اس خبر کے بعد خطیب نے ابو عوانہ سے نقل کیا کہ بیشک اس نے کہا کہ ابو حنیفہ مرجئہ تھے ، حکمرانوں کے خلاف تلوار اٹھانے کا نظریہ رکھتے تھے تو اس کو کہا گیا کہ پھر حماد بن ابی سلیمان کا طرز کیا تھا؟ تو اس نے کہا کہ یہ تو اس بارے میں اس کا استاد تھا۔[17]
اور اس کی سند میں جو الحسن بن ابی بکر ہے، وہ ابن شاذان ہے۔ خطیب نے کہا کہ وہ نبیذ پیتا تھا۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس نے یہ روایت اس وقت بیان کی ہو جبکہ وہ نشہ میں ہو۔ اور اس کا راوی ابراہیم بن محمد بن یحیی الزکی النیسابوری جو ہے، اس سے البرقانی راضی نہ تھا[18] اور اس کے حالات کی تفصیل خطیب کے ہاں موجود ہے۔ اور الہیثم بن جمیل کے بارے میں ابن عدی نے کہا کہ وہ حافظ نہ تھا ثقہ راویوں سے روایت کرنے میں غلطیاں کرتا تھا[19] اور ابو عوانہ الوضاح کے بارہ میں مجھے شک ہے کہ وہ ان دو مسئلوں کو پہچان بھی سکا ہو کہ وہ دو مسئلے کیا
ہیں؟ (اس لیے کہ وہ اتنی سمجھ کا مالک نہیں تھا کہ ان مسائل کو سمجھ سکتا) اور بیشک اس کے بارے میں سلیمان بن حرب نے کہا کہ وہ صرف اس قابل ہے کہ بکریاں چرائے اور اس کا معاملہ یہاں تک پہنچا کہ اس کو علی بن عاصم نے جھوٹا کہا اور دونوں مسئلوں میں جو ہم نے بیان کر دیے ہیں، اتنی ہی تفصیل کافی ہے۔
![]() |
[1]. ذكر ما حكي عن أبي حنيفة من رأيه في الخروج على السلطان:
[2]۔ سمعت أبا یحیی قال : قلت للنضر بن محمد : أبو حنيفة كان يرى السيف ؟ قال معاذ اللہ
(فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ت بہرائچی رقم 85 ، صفحہ 75)
![]() |
اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے۔ |
[3]۔أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا عبد الله بن جعفر بن درستويه، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثني صفوان بن صالح، حدثنا عمر بن عبد الواحد قال: سمعت الأوزاعي يقول: أتاني شعيب بن إسحاق وابن أبي مالك وابن علاق وابن ناصح فقالوا: قد أخذنا عن أبي حنيفة شيئا، فانظر فيه، فلم يبرح بي وبهم حتى أريتهم فمما جاؤني به عنه أنه أحل لهم الخروج على الأئمة.
[4]۔أبو بكر البرقاني : ضعفوه لأنه لما روى كتاب التاريخ عن يعقوب بن سفيان أنكروا عليه وقالوا له إنما حدث يعقوب بهذا الكتاب قديما فمتى سمعته؟
هبة الله بن الحسن الطبري : ضعيف
[5]۔ أخبرنا طلحة بن علي بن الصقر الكتاني، أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي قال: حدثني أبو شيخ الأصبهاني، حدثنا الأثرم. وأخبرنا إبراهيم بن عمر البرمكي، أخبرنا محمد بن عبد الله بن خلف الدقاق، حدثنا عمر بن محمد الجوهري، حدثنا أبو بكر الأثرم قال: سمعت أبا عبد الله يقول: قال ابن المبارك: ذكرت أبا حنيفة يوما عند الأوزاعي فأعرض عني، فعاتبته. فقال تجيء إلى رجل يرى السيف في أمة محمد صلى الله عليه وسلم فتذكره عندنا
![]() |
اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے۔ |
[6]۔ عمر بن محمد بن عيسى الجوهري هو عمر بن محمد بن عيسى بن سعيد المعروف بالسذابي قال الخطيب في بعض حديثه نكرة
(تاريخ بغداد ت بشار ج13/ص74)
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں اعتراض نمبر 33
[7]۔ أخبرني محمد بن أحمد بن يعقوب، أخبرنا محمد بن نعيم الضبي، أخبرنا أبو علي الحافظ، حدثنا عبد الله بن محمود المروزي قال: سمعت محمد بن عبد الله ابن قهزاد يقول: سمعت أبا الوزير أنه حضر عبد الله بن المبارك فروى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا، فقال له رجل: ما قول أبي حنيفة في هذا؟ فقال عبد الله: أحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتيء برجل كان يرى السيف في أمة محمد صلى الله عليه وسلم؟.
![]() |
اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے۔ |
[8]۔أخبرنا ابن دوما النعالي، أخبرنا أحمد بن جعفر بن سلم، حدثنا أحمد ابن علي الأبار، حدثنا الحسن بن علي الحلواني، حدثنا أحمد بن محمد، حدثنا عبد العزيز بن أبي رزمة عن ابن المبارك قال: كنت عند الأوزاعي، فذكرت أبا الحنيفة، فلما كان عند الوداع قلت: أوصني، قال: قد أردت ذلك ولو لم تسألني، سمعتك تطري رجلا يرى السيف في الأمة. قال: فقلت: ألا أخبرتني؟
![]() |
اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے۔ |
[9]۔حسن بن الحسين بن العباس بن الفضل بن المغيرة
الخطيب البغدادي : أفسد أمره بأن ألحق لنفسه السماع في أشياء لم تكن سماعه
[11].يزيد بن يوسف
الشهرة : يزيد بن يوسف الرحبي , الكنيه: أبو يوسف
يحيى بن معين : ليس بشيء، ومرة: لا يساوى شيئا، ومرة: ليس بثقة، ومرة: كذاب
أحمد بن شعيب النسائي : متروك الحديث شامي
أبو أحمد بن عدي الجرجاني : مع ضعفه يكتب حديثه
أبو الفتح الأزدي : متروك الحديث
أبو بكر البزار : لا بأس به
أبو حاتم الرازي : لم يكن بالقوي
أبو حاتم بن حبان البستي : سيء الحفظ كثير الوهم ممن يرفع المراسيل ولا يعلم ويسند الموقوف ولا يفهم فلما كثر ذلك منه في حديثه صار ساقط الاحتجاج به إذا انفرد أرجو ان احتج به فيما وافق الثقات لم يجرح في فعله لقدم صدقه
أبو دواد السجستاني : ضعيف
[12]۔ وقال الأبار: حدثنا منصور بن أبي مزاحم، حدثني يزيد بن يوسف قال: قال لي أبو إسحاق الفزاري: جاءني نعي أخي من العراق - وخرج مع إبراهيم بن عبد الله الطالبي - فقدمت الكوفة، فأخبروني أنه قتل وأنه قد استشار سفيان الثوري وأبا حنيفة، فأتيت سفيان أنبئه مصيبتي بأخي، وأخبرت أنه استفتاك؟
قال: نعم، قد جاءني فاستفتاني، فقلت: ماذا أفتيته؟ قال: قلت لا آمرك بالخروج ولا أنهاك، قال: فأتيت أبا حنيفة، فقلت له بلغني أن أخي أتاك فاستفتاك؟ قال: قد أتاني واستفتاني، قال: قلت: فبم أفتيته؟ قال: أفتيته بالخروج. قال: فأقبلت عليه فقلت: لا جزاك الله خيرا. قال: هذا رأيي. قال: فحدثته بحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم في الرد. لهذا، فقال هذه خرافة - يعني حديث النبي صلى الله عليه وسلم.
![]() |
اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے۔ |
[13]۔ وقال ابن سعد: كان ثقة فاضلا صاحب سنة وغزو، كثير الخطأ في حديثه
(تهذيب التهذيب 1/ 80)
▪︎ إبراهيم بن محمد بن الحارث بن أسماء بن خارجة. كان خيّرا فاضلا، غير أنه كان كثير الغلط في حديثه.
( المعارف ، ابن قتيبة الدينوري 1/514)
[14]۔ سورة الحجرات - الآية 9
[15]۔ أبو بكر البرقاني : ضعفوه لأنه لما روى كتاب التاريخ عن يعقوب بن سفيان أنكروا عليه وقالوا له إنما حدث يعقوب بهذا الكتاب قديما فمتى سمعته؟
هبة الله بن الحسن الطبري : ضعيف
مزید تفصیل کیلئے دیکھیں اعتراض نمبر 15 یا 39۔
[16]۔ أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا ابن درستويه حدثنا يعقوب قال: حدثني صفوان بن صالح الدمشقي، حدثني عمر بن عبد الواحد السلمي قال: سمعت إبراهيم بن محمد الفزاري يحدث الأوزاعي قال: قتل أخي مع إبراهيم الفاطمي بالبصرة، فركبت لأنظر في تركته، لقيت أبا حنيفة. فقال لي: من أين أقبلت وأين أردت؟ فأخبرته أني أقبلت من المصيصة وأردت أخا لي قتل مع إبراهيم، فقال: لو أنك قتلت مع أخيك كان خيرا لك من المكان الذي جئت منه. قلت: فما منعك أنت من ذاك؟ قال: لولا ودائع كانت عندي وأشياء للناس ما استأنيت في ذلك.
[17]۔أخبرنا الحسن بن أبي بكر، أخبرنا إبراهيم بن محمد بن يحيى المزكي النيسابوري، حدثنا محمد بن المسيب قال: سمعت عبد الله بن خبيق قال:
سمعت الهيثم بن جميل يقول: سمعت أبا عوانة يقول: كان أبو حنيفة مرجئا يرى السيف. فقيل له: فحماد بن أبي سليمان؟ قال: كان أستاذه في ذلك.
[18]۔ أبو بكر البرقاني : حديثه كثير الغرائب وفي نفسي منه شيء
[19]۔ أبو أحمد بن عدي الجرجاني : ليس بالحافظ، يغلط علي الثقات، وأرجو أنه لا يتعمد الكذب
![]() |
اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے۔ |
![]() |
اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے۔ |
کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امت پر تلوار چلانے کو جائز مانتے تھے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ایک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ امت پر تلوار چلانے کو (معاذ اللہ) جائز سمجھتے ہیں۔ آج اس پوسٹ میں ہم ان شاء اللہ اسی بات پر روشنی ڈالیں گے…
ابو اسحاق الفزاری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (امت پر) تلوار (چلانے) کو جائز سمجھتے تھے… (الضعفاء عقیلی)
اسی طرح کی بات امام اوزاعی رحمہ اللہ، ابو عوانہ رحمہ اللہ سے بھی ملتی ہے۔ حوالہ صرف الفزاری رحمہ اللہ کا اس لئے دیا کہ یہاں سند پر کلام کرنا مقصد نہیں بلکہ صحیح بات سامنے لانا مقصد ہے…
کیونکہ سب سے پہلی بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امت پر تلوار چلانے کو جائز نہیں سمجھتے، دراصل ظالم حکمران یا سلطان کے خلاف بغاوت کو (وقت پڑنے پر) جائز سمجھتے ہیں… اسی بات کو یہ مشہور کر دیا گیا ہے کہ وہ امت پر تلوار چلانے کو جائز سمجھتے ہیں… وضاحت کے لئے حوالہ جات پیش خدمت ہیں…
1:- حضرت نضر بن محمد قرشی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (امت پر) تلوار
(چلانے کو) جائز سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا معاذ اللہ (یعنی وہ اس بات کے قائل نہ تھے) (اخبار ابی حنیفہ رحمہ اللہ سند حسن)
2:- امام طحاوی رحمہ اللہ اپنی کتاب عقیدہ طحاویہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ہم امت محمدیہ میں سے کسی پر تلوار چلانا، اسے قتل کرنا جائز نہیں سمجھتے جب تک کہ وہ واجب القتل نہ قرار دیا جائے… (عقیدہ طحاویہ)
آگے فرماتے ہیں: ہم اپنے امام اور حکمران کے خلاف بغاوت کو درست نہیں سمجھتے چاہے وہ ظلم کریں، نہ ان کے لئے بددعا کرتے ہیں اور نہ ان کی اطاعت (پیروی) چھوڑتے ہیں… جب تک کہ وہ ہمیں نافرمانی کا حکم نہ دیں، اس وقت تک ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سمجھتے ہیں… (عقیدہ طحاویہ 11)
(اس وضاحت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ پہلی یہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حکمران کے خلاف بغاوت کو جائز نہیں سمجھتے چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر اس کی پیروی میں اللہ کی نافرمانی ہے تو پھر اس کی اطاعت کو جائز نہیں سمجھتے (بلکہ اس کے خلاف بغاوت کے قائل ہیں جیسا کہ اسلاف امت میں سے کئی لوگوں کا یہی ماننا ہے)
کیونکہ کسی بھی امام یا حکمران کی اطاعت تب تک ہی جائز ہے جب تک اس کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔ جب کسی امام یا حکمران کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی ہو تو پھر اس کی اطاعت جائز نہیں…
اب اس تعلق قرآن و احادیث بھی نقل فرما دیتے ہیں تاکہ اور بہتر وضاحت ہو جائے…
قرآن میں اللہ فرماتا ہے:
تم لڑائی کرو اس جماعت سے جو ظلم کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں… (سورہ حجرات 9)
اس کے علاوہ حکم ہے: اور وہ لوگ جن کے ساتھ ظلم یا زیادتی ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں…
(سورہ الشوریٰ 39)
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں: افضل جہاد ظالم حکمران کے خلاف کلمہ حق کہنا ہے
(سنن ابی داود حدیث 4344)
ایک اور حدیث میں ہے: ایک مسلمان کے ذمے اپنے حکمران کی سمع و اطاعت ہے چاہے وہ پسند کرے یا نہ کرے، سوائے اس کے کہ (حکمران کی طرف سے اللہ کی) نافرمانی کا حکم دیا جائے… بس اگر اسے نافرمانی (یا گناہ) کا حکم دیا جائے تو اس میں اس کی اطاعت نہیں
(صحیح مسلم)
اس کے علاوہ ایک اور حدیث میں ہے: شہیدوں کے سردار حضرت حمزہ بن عبد المطلب رحمہ اللہ ہیں اور وہ جو ظالم حکمران کے خلاف کلمہ حق کہنے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا
(مستدرک الحاکم حدیث 4884)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترغیب میں صحیح کہا ہے اور حضرت شعیب الارناؤط رحمہ اللہ نے بھی سیر اعلام النبلاء میں اس کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے…
معلوم ہوا ظالم حکمران کی اطاعت لازم ہے لیکن تب تک جب تک کہ اللہ کی نافرمانی نہ ہو، اللہ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت نہیں… اس لئے کلمہ حق کہنے کی وجہ سے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کو حجاج بن یوسف نے شہید کر دیا تھا… اس لئے تابعین کی ایک بڑی ثقہ جماعت نے حجاج بن یوسف کے خلاف خروج کیا تھا… اور حضرات صحابہ رحمہ اللہ میں حضرت حسین رحمہ اللہ اور حضرت ابن زبیر رحمہ اللہ کے خروج کا کون انکار کر سکتا ہے… لیکن اعتراض صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہوتا ہے…
کیا آپ نے کبھی سنا کہ حضرت عکرمہ (موالی/شاگرد حضرت ابن عباس رحمہ اللہ) بھی ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل تھے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے الکاشف 33/2 میں لکھا… اور اسی طرح حضرت اعمش رحمہ اللہ بھی خروج کے قائل تھے جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے الانتقاء میں نقل کیا… اور جیسا کہ ثقہ حضرت اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ نے حجاج کے خلاف خروج کیا اور انہیں قتل کر دیا گیا (تاریخ الاسلام 616/3)… اس کے علاوہ دیگر حضرات جو اپنے اپنے وقت میں اپنے اپنے علاقے میں ظالم حکمران کے خلاف خروج کے لئے نکلے…
شاید آپ میں سے اکثر نے نہیں سنا ہوگا کیونکہ اعتراض صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہوتا ہے، دیگر محدثین پر نہیں… جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر کئی محدثین خروج کے قائل ہیں…
معلوم ہوا کہ (عام حالات میں) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل نہیں بلکہ اس کی اطاعت کے ہی قائل ہیں… لیکن نافرمانی کی صورت میں اس کے خلاف خروج کے بھی قائل ہیں…
اس لئے جن لوگوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کیا ہے کہ وہ تلوار اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل ہیں… جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے حضرت حسن بن صالح ہمدانی رحمہ اللہ کے ترجمہ میں نقل کیا کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ان کے تعلق سے کہا کہ یہ امت پر تلوار اٹھانے کا قائل ہے (اور آگے اس قول کی وضاحت بھی ہے) یعنی ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کا قائل ہے… (میزان الاعتدال)
اس کے علاوہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ان کے ترجمہ میں لکھا کہ یہ تلوار اٹھانے کو جائز سمجھتے تھے یعنی ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل تھے جیسا کہ قدیم (پرانے) علماء کا یہی مذہب (ماننا) ہے (تہذیب التہذیب 288/2)
اس کے علاوہ حضرت شعیب الارناؤط رحمہ اللہ اور بشّار عواد صاحب کی تحقیق سے چھپی تقریب التہذیب میں صدوق حضرت علی بن ابی طلحہ رحمہ اللہ کے ترجمہ میں صراحت کی گئی ہے کہ ان پر (علی بن ابی طلحہ رحمہ اللہ) پر جو جرح کی گئی ہے وہ ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل ہونے کی وجہ سے کی گئی ہے اور وہ وجہ ضعف نہیں اور اس کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ثقہ تابعین کی جماعت نے عبد الرحمن بن اشعث کی قیادت میں حجاج بن یوسف کے خلاف خروج کیا تھا… (تحریر تقریب التہذیب 46/3)
رہی بات ابو اسحاق الفزاری رحمہ اللہ کی تو جیسا کہ بیان کیا کہ ان کا بھائی ابراہیم بن عبد اللہ بن حسن رحمہ اللہ سلطان کے خلاف خروج میں ساتھ دیتے ہوئے شہید ہو گیا تھا اور الفزاری رحمہ اللہ اس کا ذمہ دار امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو مانتا تھا، کیونکہ امام صاحب رحمہ اللہ کا اہل بیت رحمہ اللہ اور ابراہیم رحمہ اللہ کو مالی مدد کرنا منقول ہے اور آپ سلطان کے خلاف خروج کے فتوے دیتے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے…
اس لئے الفزاری رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو پسند نہیں کرتا تھا جیسا کہ مقاتل الطالبین میں اس کا خود کا بیان ہے اور جیسا کہ حضرت معلیمی رحمہ اللہ نے التنکیل 288 پر لکھا کہ الفزاری رحمہ اللہ خروج کا انکار کرتا تھا (یعنی خروج کرنے کا مخالف تھا)… اس لئے بھی الفزاری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں منقول جرح قبول نہیں…
اس کے علاوہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وقت کے بہت سے محدثین سلطان کے خلاف خروج کے نہ صرف قائل تھے بلکہ لوگوں کو بھی اس پر تیار کرتے… جیسا کہ مقاتل الطالبین میں منقول ہے…
امام مسعر بن کدام رحمہ اللہ نے ابراہیم رحمہ اللہ کو خط لکھا کہ آپ کوفہ آ جائیں ہم آپ کی مدد کریں گے…
اس کے علاوہ بقول امام فضل بن دکین رحمہ اللہ (ثقہ محدثین میں سے) امام ابو خالد الاحمر رحمہ اللہ، امام عیسیٰ بن یونس بن ابی اسحاق رحمہ اللہ، ان کے والد حضرت یونس بن ابی اسحاق رحمہ اللہ وغیرہ محدثین بھی خروج میں شامل ہوئے تھے… (مقاتل الطالبین 306، 310)
اس کے علاوہ امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے کہ اگر ان کی نگاہ ٹھیک ہوتی تو وہ ابراہیم کی مدد میں (خروج کے لئے) نکل پڑتے…
امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ اس خروج کو بدر صغریٰ (چھوٹی بدر) کہتے… (مقاتل الطالبین 313، 314)
اس لئے ابراہیم رحمہ اللہ کی مدد کرنے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو قید کر لیا گیا اور جیل میں ان کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا… (مناقب ابی حنیفہ رحمہ اللہ للذہبی 48)
ان تمام حوالوں سے معلوم ہوا کہ ظالم حکمران کے خلاف خروج کے بہت سے محدثین قائل ہیں لیکن نہ جانے اعتراض صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہوتا ہے…
Kya Imam Abu Hanifa r.a Ummat par TaLwar ChaLane ko Jayaz Mante the
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں