نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امت پر تلوار چلانے کو جائز مانتے تھے؟

 


کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امت پر تلوار چلانے کو جائز مانتے تھے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ایک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ امت پر تلوار چلانے کو (معاذ اللہ) جائز سمجھتے ہیں۔ آج اس پوسٹ میں ہم ان شاء اللہ اسی بات پر روشنی ڈالیں گے…

ابو اسحاق الفزاری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (امت پر) تلوار (چلانے) کو جائز سمجھتے تھے… (الضعفاء عقیلی)

اسی طرح کی بات امام اوزاعی رحمہ اللہ، ابو عوانہ رحمہ اللہ سے بھی ملتی ہے۔ حوالہ صرف الفزاری رحمہ اللہ کا اس لئے دیا کہ یہاں سند پر کلام کرنا مقصد نہیں بلکہ صحیح بات سامنے لانا مقصد ہے…

کیونکہ سب سے پہلی بات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امت پر تلوار چلانے کو جائز نہیں سمجھتے، دراصل ظالم حکمران یا سلطان کے خلاف بغاوت کو (وقت پڑنے پر) جائز سمجھتے ہیں… اسی بات کو یہ مشہور کر دیا گیا ہے کہ وہ امت پر تلوار چلانے کو جائز سمجھتے ہیں… وضاحت کے لئے حوالہ جات پیش خدمت ہیں…

1:- حضرت نضر بن محمد قرشی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (امت پر) تلوار

(چلانے کو) جائز سمجھتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا معاذ اللہ (یعنی وہ اس بات کے قائل نہ تھے) (اخبار ابی حنیفہ رحمہ اللہ سند حسن)

2:- امام طحاوی رحمہ اللہ اپنی کتاب عقیدہ طحاویہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ہم امت محمدیہ میں سے کسی پر تلوار چلانا، اسے قتل کرنا جائز نہیں سمجھتے جب تک کہ وہ واجب القتل نہ قرار دیا جائے… (عقیدہ طحاویہ)

آگے فرماتے ہیں: ہم اپنے امام اور حکمران کے خلاف بغاوت کو درست نہیں سمجھتے چاہے وہ ظلم کریں، نہ ان کے لئے بددعا کرتے ہیں اور نہ ان کی اطاعت (پیروی) چھوڑتے ہیں… جب تک کہ وہ ہمیں نافرمانی کا حکم نہ دیں، اس وقت تک ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت سمجھتے ہیں… (عقیدہ طحاویہ 11)

(اس وضاحت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ پہلی یہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ حکمران کے خلاف بغاوت کو جائز نہیں سمجھتے چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو، لیکن اگر اس کی پیروی میں اللہ کی نافرمانی ہے تو پھر اس کی اطاعت کو جائز نہیں سمجھتے (بلکہ اس کے خلاف بغاوت کے قائل ہیں جیسا کہ اسلاف امت میں سے کئی لوگوں کا یہی ماننا ہے)

کیونکہ کسی بھی امام یا حکمران کی اطاعت تب تک ہی جائز ہے جب تک اس کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو۔ جب کسی امام یا حکمران کی اطاعت میں اللہ کی نافرمانی ہو تو پھر اس کی اطاعت جائز نہیں…

اب اس تعلق قرآن و احادیث بھی نقل فرما دیتے ہیں تاکہ اور بہتر وضاحت ہو جائے…

قرآن میں اللہ فرماتا ہے:

تم لڑائی کرو اس جماعت سے جو ظلم کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئیں… (سورہ حجرات 9)

اس کے علاوہ حکم ہے: اور وہ لوگ جن کے ساتھ ظلم یا زیادتی ہو تو وہ بدلہ لیتے ہیں…

(سورہ الشوریٰ 39)

احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں: افضل جہاد ظالم حکمران کے خلاف کلمہ حق کہنا ہے

(سنن ابی داود حدیث 4344)

ایک اور حدیث میں ہے: ایک مسلمان کے ذمے اپنے حکمران کی سمع و اطاعت ہے چاہے وہ پسند کرے یا نہ کرے، سوائے اس کے کہ (حکمران کی طرف سے اللہ کی) نافرمانی کا حکم دیا جائے… بس اگر اسے نافرمانی (یا گناہ) کا حکم دیا جائے تو اس میں اس کی اطاعت نہیں

(صحیح مسلم)

اس کے علاوہ ایک اور حدیث میں ہے: شہیدوں کے سردار حضرت حمزہ بن عبد المطلب رحمہ اللہ ہیں اور وہ جو ظالم حکمران کے خلاف کلمہ حق کہنے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا

(مستدرک الحاکم حدیث 4884)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے مستدرک میں اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح الترغیب میں صحیح کہا ہے اور حضرت شعیب الارناؤط رحمہ اللہ نے بھی سیر اعلام النبلاء میں اس کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے…

معلوم ہوا ظالم حکمران کی اطاعت لازم ہے لیکن تب تک جب تک کہ اللہ کی نافرمانی نہ ہو، اللہ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت نہیں… اس لئے کلمہ حق کہنے کی وجہ سے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کو حجاج بن یوسف نے شہید کر دیا تھا… اس لئے تابعین کی ایک بڑی ثقہ جماعت نے حجاج بن یوسف کے خلاف خروج کیا تھا… اور حضرات صحابہ رحمہ اللہ میں حضرت حسین رحمہ اللہ اور حضرت ابن زبیر رحمہ اللہ کے خروج کا کون انکار کر سکتا ہے… لیکن اعتراض صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہوتا ہے…

کیا آپ نے کبھی سنا کہ حضرت عکرمہ (موالی/شاگرد حضرت ابن عباس رحمہ اللہ) بھی ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل تھے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے الکاشف 33/2 میں لکھا… اور اسی طرح حضرت اعمش رحمہ اللہ بھی خروج کے قائل تھے جیسا کہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے الانتقاء میں نقل کیا… اور جیسا کہ ثقہ حضرت اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص رحمہ اللہ نے حجاج کے خلاف خروج کیا اور انہیں قتل کر دیا گیا (تاریخ الاسلام 616/3)… اس کے علاوہ دیگر حضرات جو اپنے اپنے وقت میں اپنے اپنے علاقے میں ظالم حکمران کے خلاف خروج کے لئے نکلے…

شاید آپ میں سے اکثر نے نہیں سنا ہوگا کیونکہ اعتراض صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہوتا ہے، دیگر محدثین پر نہیں… جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر کئی محدثین خروج کے قائل ہیں…

معلوم ہوا کہ (عام حالات میں) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل نہیں بلکہ اس کی اطاعت کے ہی قائل ہیں… لیکن نافرمانی کی صورت میں اس کے خلاف خروج کے بھی قائل ہیں…

اس لئے جن لوگوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کیا ہے کہ وہ تلوار اٹھانے کو جائز سمجھتے ہیں تو اس کا مطلب ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل ہیں… جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے حضرت حسن بن صالح ہمدانی رحمہ اللہ کے ترجمہ میں نقل کیا کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ان کے تعلق سے کہا کہ یہ امت پر تلوار اٹھانے کا قائل ہے (اور آگے اس قول کی وضاحت بھی ہے) یعنی ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کا قائل ہے… (میزان الاعتدال)

اس کے علاوہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ان کے ترجمہ میں لکھا کہ یہ تلوار اٹھانے کو جائز سمجھتے تھے یعنی ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل تھے جیسا کہ قدیم (پرانے) علماء کا یہی مذہب (ماننا) ہے (تہذیب التہذیب 288/2)

اس کے علاوہ حضرت شعیب الارناؤط رحمہ اللہ اور بشّار عواد صاحب کی تحقیق سے چھپی تقریب التہذیب میں صدوق حضرت علی بن ابی طلحہ رحمہ اللہ کے ترجمہ میں صراحت کی گئی ہے کہ ان پر (علی بن ابی طلحہ رحمہ اللہ) پر جو جرح کی گئی ہے وہ ظالم حکمران کے خلاف خروج کے قائل ہونے کی وجہ سے کی گئی ہے اور وہ وجہ ضعف نہیں اور اس کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ثقہ تابعین کی جماعت نے عبد الرحمن بن اشعث کی قیادت میں حجاج بن یوسف کے خلاف خروج کیا تھا… (تحریر تقریب التہذیب 46/3)

رہی بات ابو اسحاق الفزاری رحمہ اللہ کی تو جیسا کہ بیان کیا کہ ان کا بھائی ابراہیم بن عبد اللہ بن حسن رحمہ اللہ سلطان کے خلاف خروج میں ساتھ دیتے ہوئے شہید ہو گیا تھا اور الفزاری رحمہ اللہ اس کا ذمہ دار امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو مانتا تھا، کیونکہ امام صاحب رحمہ اللہ کا اہل بیت رحمہ اللہ اور ابراہیم رحمہ اللہ کو مالی مدد کرنا منقول ہے اور آپ سلطان کے خلاف خروج کے فتوے دیتے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے…

اس لئے الفزاری رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو پسند نہیں کرتا تھا جیسا کہ مقاتل الطالبین میں اس کا خود کا بیان ہے اور جیسا کہ حضرت معلیمی رحمہ اللہ نے التنکیل 288 پر لکھا کہ الفزاری رحمہ اللہ خروج کا انکار کرتا تھا (یعنی خروج کرنے کا مخالف تھا)… اس لئے بھی الفزاری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں منقول جرح قبول نہیں…

اس کے علاوہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے وقت کے بہت سے محدثین سلطان کے خلاف خروج کے نہ صرف قائل تھے بلکہ لوگوں کو بھی اس پر تیار کرتے… جیسا کہ مقاتل الطالبین میں منقول ہے…

امام مسعر بن کدام رحمہ اللہ نے ابراہیم رحمہ اللہ کو خط لکھا کہ آپ کوفہ آ جائیں ہم آپ کی مدد کریں گے…

اس کے علاوہ بقول امام فضل بن دکین رحمہ اللہ (ثقہ محدثین میں سے) امام ابو خالد الاحمر رحمہ اللہ، امام عیسیٰ بن یونس بن ابی اسحاق رحمہ اللہ، ان کے والد حضرت یونس بن ابی اسحاق رحمہ اللہ وغیرہ محدثین بھی خروج میں شامل ہوئے تھے… (مقاتل الطالبین 306، 310)

اس کے علاوہ امام اعمش رحمہ اللہ فرماتے کہ اگر ان کی نگاہ ٹھیک ہوتی تو وہ ابراہیم کی مدد میں (خروج کے لئے) نکل پڑتے…

امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ اس خروج کو بدر صغریٰ (چھوٹی بدر) کہتے… (مقاتل الطالبین 313، 314)

اس لئے ابراہیم رحمہ اللہ کی مدد کرنے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو قید کر لیا گیا اور جیل میں ان کو زہر دے کر شہید کر دیا گیا… (مناقب ابی حنیفہ رحمہ اللہ للذہبی 48)

ان تمام حوالوں سے معلوم ہوا کہ ظالم حکمران کے خلاف خروج کے بہت سے محدثین قائل ہیں لیکن نہ جانے اعتراض صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہوتا ہے…


Kya Imam Abu Hanifa r.a Ummat par TaLwar ChaLane ko Jayaz Mante the


تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...