اعتراض نمبر 74 :
کہ امام اوزاعی نے کہا کہ ابو حنیفہ نے اسلام کے کڑے کا ایک ایک حلقہ توڑ ڈالا ہے۔
أخبرنا ابن رزق البرقاني قالا: أخبرنا محمد بن جعفر بن الهيثم الأنباري، حدثنا جعفر بن محمد بن شاكر، حدثنا رجاء بن السندي قال: سمعت سليمان بن حسان الحلبي يقول: سمعت الأوزاعي - مالا أحصيه - يقول: عمد أبو حنيفة إلى عرى الإسلام فنقضها عروة عروة.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ خطیب نے اس کے ہم معنی ایک اور خبر بھی نقل کی ہے ابن رزق - ابن سلم - الابار - الحسن به بن علی الحلوانی۔ ابو توبہ - سلمہ بن کلثوم کی سند سے کہ
سلمہ بن کلثوم نے کہا کہ جب ابو حنیفہ کی وفات ہوئی تو اوزاعی نے کہا اللہ کا شکر ہے بے شک یہ آدمی اسلام کا ایک ایک حلقہ توڑتا تھا[1]۔
اس کا راوی محمد بن جعفر ہے اس میں کچھ خرابی تھی جیسا کہ خطیب نے کہا ہے۔
اور جعفر بن شاکر نوے سال کی عمر کو پہنچا اور اس کی یادداشت میں گڑ بڑ پیدا ہو گئی تھی۔
اور سلیمان بن الحسان کے بارہ میں ابو حاتم نے کہا کہ میں نے اس کے بارہ میں ابن ابی غالب سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں اس کو نہیں جانتا اور نہ ہی میں نے دیکھا ہے کہ بغداد والوں نے اس سے روایت کی ہو۔
اور دوسری سندمیں تین ساتھی (ابن رزق۔ ابن سلم اور الابار) اور الحلوانی ہیں۔
اور اس کو امام احمد اچھا نہ سمجھتے تھے جیسا کہ خطیب نے اس کا ذکر کیا ہے۔
اور سلمہ بن کلثوم کے بارہ میں دارقطنی نے کہا کہ یہ کثیر الوہم تھا۔
اور امام اوزاعی کی شان بہت بلند ہے اس بات سے کہ وہ مسلمانوں کے ائمہ میں سے کسی امام کے بارہ میں بے تکی بات کہیں اور ایسی جرح کریں جو مفسر نہیں ہے اور اس کی وضاحت بھی نہ کریں۔
یعنی اسلام کے کونسے کڑے کو ابو حنیفہ نے توڑا ہے۔
اور بے شک صحیح روایات میں تو اوزاعی سے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کرنا ثابت ہے۔
جیسا کہ خطیب نے اپنی سند کے ساتھ ص 338 میں لکھا ہے[2]۔ لیکن یہاں خطیب کو خواہش نے رسوا کر دیا۔
اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اس کا اس کے قائل سے ثبوت ہے تو یہ صرف غلطی ہے جس کے قائل پر مواخذہ کیا جا سکتا ہے اور کلام کی ایسی لغزش ہے جس سے توبہ کرنا واجب ہے۔
اور اس کے مثل ابن شہاب الزہری کا قول پہلے گزر چکا ہے اس میں جو اس نے احمد بن زھیر۔ احمد بن یونس۔ ابن ابی ذئب الازھری کی سند سے نقل کیا کہ زہری نے کہا کہ میں نے کوئی قوم نہیں دیکھی جو اہل مکہ سے بڑھ کر اسلام کے کڑے کو توڑنے والی ہو۔ اور ابن عبد البر نے کہا کہ حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے میرا خیال ہے کہ اس نے یہ قول ان کے بارہ میں بیع صرف اور عورتوں کے متعہ کی وجہ سے کیا ہے ۔الخ
اور عجیب بات ہے کہ جب کسی موضوع میں کسی عالم سے جلد بازی میں کوئی کلام نکلتی ہے تو اس کے بعد بہت سے لوگ اس کلمہ کو عقلمندی کا کلمہ سمجھتے ہوئے اس کی لغزش والی کلام کو بلا تکلف کرتے جاتے ہیں۔
لیکن بعض دفعہ وہ اس کو نتھنوں کے بل آگ میں اوندھا ڈال دیتی ہے۔
جبکہ وہ کھلم کھلا بہتان ہو جیسا کہ یہاں ہے۔ ہم اللہ تعالی سے سلامتی چاہتے ہیں[3]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔وأخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا الحسن بن علي، حدثنا أبو توبة، حدثنا سلمة بن كلثوم - وكان من العابدين ولم يكن في أصحاب الأوزاعي أحيى منه - قال: قال الأوزاعي، لما مات أبو حنيفة: الحمد لله، إن كان لينقض الإسلام عروة عروة
[2]۔ سند کی تحقیق کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع شمارہ 26 ص 24۔
[3]۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ :
بعض لوگ امام اوزاعی رحمہ اللک کی طرف سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات اور مذمتی روایات نقل کرتے ہیں ، جو کہ اصول جرح و تعدیل کی رو سے بالکل باطل ہیں ۔
1۔ خود فرقہ اہلحدیث غیر مقلدین کے نزدیک امام اوزاعی اور امام ابو حنیفہ رحمہھم اللہ کی ملاقات ثابت نہیں ہے (ضوابط الجرح والتعدیل - ص 103)
جب امام اوزاعی نے کبھی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملاقات ہی نہیں کی تو ، امام اوزاعی رحمہ اللہ کیسے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابو حنیفہ نے اسلام کو نقصان پہنچایا ہے وغیرہ وغیرہ ، ہاں امام اوزاعی رحمہ اللہ کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں ، جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہم عصر متعصب ابو اسحاق الفزاری ہیں ، چونکہ یہ خود امام صاحب سے انتہائی بغض اور عداوت رکھتے تھے (جس کا انکار غیر مقلدین بھی نہیں کرتے : التنكيل للمعلمی ص 288 ) لہذا انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف امام اوزاعی رحمہ اللہ کو غلط معلومات فراہم کیں ، امام اوزاعی رحمہ اللہ نے جب خود امام صاحب سے ملاقات نہیں کی اور امام صاحب کے متعلق منفی روایات سنی تو ان کو چاہیے تھا کہ امام صاحب سے ملاقات کر کے الزامات کی جانچ پڑتال فرماتے ، لیکن امام اوزاعی رحمہ اللہ نے سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہوئے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کی جبکہ دین مبین اسلام صرف سنی سنائی باتوں کی بناء پر الزامات لگانے کی تعلیم نہیں دیتا ، بہرحال جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مایہ ناز شاگرد ، امیر المومنین فی الحدیث امام عبداللہ بن مبارک ، امام اوزاعی کے پاس تشریف لے گئے تو امام اوزاعی رحمہ اللہ حقیقت سے واقف ہوئے ، امام اوزاعی اپنی غلطی پر نادم ہوئے ، تب انہوں نے امام صاحب کے خلاف مذمتی روایات سے رجوع کر لیا۔ ( سند کی تحقیق کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع شمارہ 26 ص 24 )۔
2۔ وہ روایات جن میں یہ ذکر ہیکہ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات پر شکر ادا کیا ، وہ بالکل باطل ہیں کیونکہ
▪︎ایک روایت میں سلمہ بن کلثوم راوی اگر چہ ثقہ ہیں لیکن امام دارقطنی رحمہ اللہ کے مطابق ان کو کثرت سے وہم ہوتا تھا اس لئے ان کی یہ بات حجت نہیں خاص کر کہ جب امام اوزاعی رحمہ اللہ نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے ملاقات کے بعد سابقہ مذمتی اقوال سے رجوع کر لیا تھا۔ ( بالفرض اگر کوئی یہ کہتا ہیکہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا دفاع ابو حنیفہ ثابت نہیں تو ، ہم کہیں گیں کہ پھر اوزاعی رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ملاقات بھی آپ حضرات کے نزدیک ثابت نہیں ہے ، تو بغیر ملاقات کے سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہوئے امام اوزاعی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر طعن کیا ، جس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے رتبہ پر تو کوئی حرف نہیں آتا ، البتہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہوئے کسی پر جھوٹا الزام لگانے سے امام اوزاعی رحمہ اللہ غیر مقلدین کے نزدیک ضرور گناہگار ٹہرے گیں )۔
▪︎ایک میں ابو اسحاق الفزاری ہیں ، اور یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف حجت نہیں ہو سکتے۔ (ابو اسحاق الفزاری کے بارے میں مزید تفصیل کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود ، تانیب الخطیب اعتراض نمبر 50 ، 51 )
▪︎ امام اوزاعی رحمہ اللہ نے امام محمد رحمہ اللہ کی كتاب السير الصغير کو دیکھا تو کہا کہ اہل عراق فن سیر و مغازی کیا جانیں صحابہ تو حجاز و شام میں تھے۔
(عراق اسلام کے لئے ) نیا شہر ہے۔
چنانچہ امام اوزاعی نے بھی فن سیر میں ایک کتاب لکھی چونکہ سیر و مغازی کا فن امام محمد و امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ سے سیکھا تھا۔ اس سے ان دونوں حضرات نے اس اعتراض کو امام اعظم رحمہ اللہ پر اعتراض تصور کیا امام محمد نے جواب الجواب کے طور پر " السير الكبير" لکھی جس میں امام اوزاعی رحمہ اللہ کی کتاب السیر کے بعض مقامات کا ضمنا رد لکھا مگر امام ابویوسف رحمہ اللہ نے کتاب "الرد على سير الاوزاعی " لکھی جو کہ مستقل رد ہے ، اگر امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مطابق امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اسلام کو نقصان پہنچانے والے تھے تو ، امام ابو یوسف رحمہ اللہ ضرور اس اعتراض کا رد فرماتے لیکن امام اوزاعی سے ایسا کوئی قول تب نہ تھا ، لہذا یہ ایک قرینہ ہیکہ آئمہ میں علمی اختلاف تو تھا لیکن اس قدر شدید الفاظ امام اوزاعی رحمہ اللہ سے ، امام صاحب کے خلاف ثابت نہیں۔
▪︎بالفرض اگر کہیں سے کچھ مذمتی الفاظ مل بھی جاتے ہیں ، تب بھی وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف حجت نہیں ، مثلا اکثر غیر مقلدین ہمارے خلاف ایک روایت پیش کرتے ہیں جس کا ایک حصہ یہ ہیکہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اوزاعی فقہ میں بھی ضعیف ہیں اور حدیث میں بھی ضعیف ہیں (تاریخ بغداد ت بشار 15/576)
اب ہمارا غیر مقلدوں سے سوال ہیکہ کیا وہ ان روایتوں کو ضعیف کہیں گے جو اوزاعی رحمہ اللہ سے کتب احادیث میں منقول ہیں ، اوزاعی رحمہ اللہ سے صحیحین میں جو روایتیں موجود ہیں کیا وہ ضعیف ہیں ؟ یقینا غیر مقلد یہاں مجبورا نفی میں جواب دیں گیں اور کہیں گیں کہ چونکہ امام احمد رحمہ اللہ عراقی تھے اور امام اوزاعی رحمہ اللہ شامی ، تو صرف تعصب کی وجہ سے امام احمد سے یہ جرح منقول ہے ، تو ہمارا جواب بھی ہیکہ کوفی محدث ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر شامی محدث اوزاعی رحمہ اللہ کی جرح ، اصول کے مطابق مردود ہے ۔
لہذا مذکورہ بالا تفصیل سے یہ بات ثابت ہوتی ہیکہ امام اوزاعی رحمہ اللہ شروع میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بدظن تھے کیونکہ ان کو غلط روایات فراہم کی گئی تھیں ، لیکن سچائی سامنے آنے کے بعد انہوں نے امام صاحب کے بارے میں منفی خیالات سے رجوع کر لیا ، اور امام اوزاعی رحمہ اللہ سے امام صاحب کی وفات پر خوشی منانے کی روایات بھی اصول جرح و تعدیل کے مطابق مردود ہیں.
(النعمان سوشل میڈیا سروسز)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں