اعتراض نمبر 76 : کہ اوزاعی نے کہا کہ اہل اسلام پر ابو حنیفہ سے بڑھ کر زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔
اعتراض نمبر 76 : کہ اوزاعی نے کہا کہ اہل اسلام پر ابو حنیفہ سے بڑھ کر زیادہ نقصان پہنچانے والا کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔
أخبرنا أبو نصر أحمد بن إبراهيم المقدسي - بساوة - حدثنا عبد الله محمد بن جعفر - المعروف بصاحب الخان، بأرمية - قال: حدثنا محمد بن إبراهيم الديبلي، حدثنا علي
ابن زيد، حدثنا علي بن صدقة قال: سمعت محمد بن كثير قال:
سمعت الأوزاعي يقول: ما ولد مولود في الإسلام أضر على الإسلام من أبي حنيفة.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں محمد بن کثیر المصیصی ہے جس کو امام احمد نے بہت ضعیف کہا ہے اور ابو حاتم نے کہا کہ وہ میرے نزدیک ثقہ نہیں ہے[1]۔
اور علی بن صدقہ بہت زیادہ غریب روایات لانے والا ہے[2]۔
اور علی بن زید الفرائضی کے بارہ میں محدثین نے کلام کیا ہے[3]۔
اور اللہ ہی جانتا ہے اس کے حال کو جس کے بارہ میں اس سے زیادہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ ارمیہ میں صاحب الخان تھا (یعنی اس کا حال مکان علم سے بعید ہے لہذا وہ مجهول الصفت ہے)[4] تو ان وجوہات کی بنا پر اس روایت کا سقوط ظاہر ہو گیا[5]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ محمد بن كثير بن أبي عطاء
أبو أحمد الحاكم : ليس بالقوي عندهم
أبو أحمد بن عدي الجرجاني : له روايات عن معمر والأوزاعي خاصة أحاديث عداد مما لا يتابعه أحد عليه
أبو جعفر العقيلي : حدث عن معمر بمناكير لا يتابع منها على شيء
أبو حاتم الرازي : رجل صالح، وفي حديثه بعض الإنكار
أبو حاتم بن حبان البستي : يخطئ ويغرب
أبو دواد السجستاني : لم يكن يفهم الحديث
أحمد بن حنبل : منكر الحديث يروي أشياء منكرة ومرة: لم يكن عندي ثقة ومرة: ليس بشيء يحدث بأحاديث مناكير ليس لها أصل، ومرة عن البخاري ضعفه أحمد
أحمد بن شعيب النسائي : ليس بالقوي، كثير الخطأ
ابن حجر العسقلاني : صدوق كثير الغلط
الذهبي : صدوق اختلط بأخره، ومرة: ليس بشيء
زكريا بن يحيى الساجي : صدوق كثير الغلط
صالح بن محمد جزرة : صدوق كثير الخطأ
علي بن المديني : ضعفه
محمد بن إسماعيل البخاري : لين جدا، يروي مناكير
[2]۔الثقات لابن حبان ٨/٤٧١
[3]۔ علي بن زيد بن عبد الله الفرضي، يكنى أبا الحسن
قال ابن يونس: تكلموا فيه.
(لسان الميزان ت أبي غدة ٥/٥٤٠)
نیز مسلمہ بن قاسم خود ضعیف ہیں لہذا ان کی توثیق کا فائدہ نہیں
[4]۔ خود معلمی یمانی نے بھی اس راوی کو مجہول ہی مانا ہے
( التنکیل 2/532)
[5]۔ خلاصہ یہ ہیکہ یہ روایت باطل ہے کیونکہ سند میں
▪︎محمد بن کثیر المصیصی ضعیف ہیں
▪︎عبد الله محمد بن جعفر صاحب الخان مجہول ہیں
▪︎أبو نصر أحمد بن إبراهيم المقدسي کا ترجمہ نہ ہمیں ملا ہے نہ ہی ایک سلفی مصنف و محقق محمد محب الدين أبو زيد کو۔
(منهج الخطيب البغدادي في نقد الحديث - من خلال كتابه تاريخ بغداد ص 262 )
▪︎علي بن زيد بن عبد الله الفرضي پر کلام کیا گیا ہے اور کسی نے توثیق نہیں کی اور مسلمہ بن قاسم خود ضعیف ہیں
اس روایت کی ایک اور سند امام احمد رحمہ اللہ کی کتاب العلل میں بھی موجود ہے
حدثني الحسن بن عبد العزيز الجروي الجذامي قال سمعت أبا حفص عمرو بن أبي سلمة التنيسي قال سمعت الأوزاعي يقول ما ولد في الاسلام مولود أضر على الاسلام من أبي حنيفة وأبي مسلم صاحب
(العلل - أحمد بن حنبل - ج ٢ - الصفحة ٥٤٦)
لیکن اس روایت کی سند میں
▪︎"عمرو بن أبي سلمة التنيسي " ہیں ، جن کو خود امام احمد بن حنبل ضعیف کہتے ہیں اور دیگر محدثین نے بھی ان پر کلام کیا ہے کہ ان کو وہم بہت زیادہ ہوتا تھا اور وہ ضعیف ہیں ۔
أحمد بن حنبل :
غلط في أحاديث، ومرة: ضعفه
زكريا بن يحيى الساجي :
ضعيف
أبو جعفر العقيلي :
في حديثه وهم
أبو حاتم الرازي :
يكتب حديثه ولا يحتج به
يحيى بن معين :
ضعيف
ابن حجر العسقلاني :
صدوق له أوهام، ومرة: ليس له في صحيح البخاري سوى حديثين متابعة
بعض غیر مقلدین نے بھی ان کو ضعیف کہا ہے مثلا غیر مقلدین کی حدیث کی ویب سائٹ اسلامک اردو بکس ڈاٹ کام میں سنن ابن ماجہ روایت نمبر 329 ، 1470 میں لکھا ہے کہ
" سند میں عمرو بن ابی سلمہ ضعیف ہیں "
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے جروحات کے متعلق مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 74 میں دیکھ سکتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں