نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 87 : کہ وکیع نے کہا کہ ہمیں ابوحنیفہ نے بیان کیا کہ بے شک اس نے عطاء سے سنا ہے۔ اگر اس نے عطاء سے سنا ہے۔


 اعتراض نمبر  87 : 
کہ وکیع نے کہا کہ ہمیں ابوحنیفہ نے بیان کیا کہ بے شک اس نے عطاء سے سنا ہے۔ اگر اس نے عطاء سے سنا ہے۔


أَخْبَرَنَا ابن رزق، أخبرنا عثمان بن أحمد، حدّثنا حنبل، حدّثنا الحميديّ، حدّثنا وكيع، حَدَّثَنَا أَبُو حنيفة أنه سمع عطاء- إن كان سمعه-.


الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ میرے خیال کے مطابق 《 إن كان سمعه》 کا لفظ وکیع کے بعد والے کسی راوی نے درج کر دیا ہے اور غالب یہی ہے کہ یہ الحمیدی کے الفاظ ہیں اور بالکل وکیع کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس لیے کہ بے شک محمد بن ابان اور محمد بن سلام اور یحیی ابن جعفر وغیرہ جو وکیع کے خاص اصحاب ہیں وہ تو وکیع سے روایت کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ کی عطاء سے سماعت ثابت ہے۔

 جیسا کہ آپ مسانید ابی حنیفہ کی احادیث میں اس کا مصداق پائیں گے اور ابن حبان نے یقین کے صیغے کے ساتھ ابو حنیفہ کی عطاء سے سماعت کا ذکر کیا ہے۔

 اور خود خطیب نے بھی ترجمہ کی ابتداء میں یقین کے صیغہ کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے[1] تو یہاں اس کے مختلف روایت نہ جانے کیسے ذکر کر رہا ہے؟ 

اور قدیم زمانہ سے لے کر ابو الحجاج المزی ، امام ذہبی اور علامہ ابن حجر تک جتنے حضرات نے امام ابو حنیفہ کا تذکرہ کیا ہے ان تمام کے کلمات اس بارہ میں ایک ہی جیسے ہیں کہ ابو حنیفہ کی عطاء بن ابی رباح سے سماعت ثابت ہے۔ اور لوگوں کے ہاں یہ بات بالکل محل نزاع نہیں ہے۔

 اور اگر کسی اشتباہ کی وجہ سے کسی نے بظاہر اس سے اس کی سماعت کا انکار کیا ہے تو اس نے ایسا جواب پایا جس سے اس کا شبہ دور ہوتا گیا۔ پس اگر اشتباہ عمر کے لحاظ سے ہے تو کم از کم ابو حنیفہ کی ولادت کے بارہ میں جو قول کیا گیا ہے وہ 80 ھ ہے اور ابن حبان نے 70 ھ ذکر کیا ہے۔

 اور ابن زواد نے جو روایات کی ہیں ان میں 61 ھ ہے اور ان میں سے جو قول بھی لیا جائے اس کے مطابق تصور نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے عطاء رحمہ اللہ کو نہ پایا ہو اس لیے کہ عطاء رحمہ اللہ کی وفات 114 ھ میں ہے اور یہ بات مشہور ہے کہ ابو حنیفہ نے پچپن حج کیے ہیں اور امام ترمذی نے کتاب العلل میں ابو حنیفہ کا قول ذکر کیا ہے کہ میں نے عطاء سے افضل کوئی نہیں دیکھا یعنی اہل مکہ میں سے۔

 اور ابن عبدالبر نے جامع بیان العلم ص 45 ج 1 میں اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ ابو حنیفہ نے 93ھ میں حج کیا  جب ان کا حج اس سن میں ثابت ہے تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے عطاء جو کہ مکہ کے عالم تھے ان سے ملاقات نہ کی ہو۔

 پس ظاہر ہو گیا کہ اس سماع کے بارہ میں طعن کرنے والا عطاء سے ابو حنیفہ کی روایت کے بارہ میں اندھا نہیں بلکہ اپنی ذاتی بیماری کی وجہ سے اندھی راہ چلنے والا ہے اور اس کے بعد قارئین کرام یہ بھی جان لیں کہ بے شک اس خبر کی سند میں ابن رزق اور ابی عمرو بن السماک اور الحمیدی جیسے حضرات ہیں جن کا کھلا تعصب تفصیل سے معلوم ہو چکا ہے جس کی یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ 

مگر یہ بتانا ضروری ہے کہ بے شک ابن ابی حاتم نے یہ روایت اپنے باپ سے اور اس نے الحمیدی سے روایت کی ہے تو زیادتی الحمیدی سے ہے اور وہ اکثر ابن عيينة کا کلام جب روایت کرتا ہے تو اس کی کلام ختم ہونے پر خاموش نہیں رہتا بلکہ اس کی کلام کے متصل کلام کرتا جاتا ہے تو مخاطب کو کلام کی ابتداء اور اس کی انتہاء کا پتہ ہی نہیں چلتا (تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں بھی الحمیدی نے ایسا ہی کیا ہے تو ان کان سمعہ کی زیادتی الحمیدی کی جانب سے ہے۔) [2]۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔ تاریخ بغداد ت بشار 15/445


[2]۔ امام حمیدی رحمہ اللہ کا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تعصب :


امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ :


امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے اساتذہ میں سے ایک نام مفتی حرم امام عطاء رحمہ اللہ کا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا امام عطاء سے سماع ، اس قدر مشہور اور معروف ہیکہ اس کا انکار امام صاحب کے مخالفین نے بھی نہیں کیا سوائے امام حمیدی جنہوں نے تعصب میں آ کر اپنی طرف سے ، اپنی باتوں کو کسی اور کے کلام کے ساتھ ملایا اور بعد کے چند لوگوں نے اس الحاق شدہ کلام کو پیش کیا۔


سب سے پہلے امام صاحب سے صحیح روایت ہیکہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے عطاء سے افضل (اہل مکہ کے تابعیں میں سے) کسی کو نہیں دیکھا ۔ 


مَا رَأَيْتُ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءٍ»

(أخبار مكة - الفاكهي - ط ٢ ٢/‏٣٢١ )


٢١٣٥ - حَدَّثَنَا حَكَمُ بْنُ مُنْذِرٍ، نا يُوسُفُ بْنُ أَحْمَدَ، نا أَبُو رَجَاءٍ مُحَمَّدُ بْنُ حَمَّادٍ الْمُقْرِئُ، ثنا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ، ثنا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ "


٢١٣٦ - وَحَدَّثَنَا حَكَمُ بْنُ مُنْذِرٍ، نا يُوسُفُ بْنُ أَحْمَدَ نا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ خَدَّامٍ الْفَقِيهُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ، ثنا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ الصَّيْرَفِيُّ، سَنَةَ سِتِّينَ وَمِائَتَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا يَحْيَى الْحِمَّانِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَلَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ» 


(جامع بيان العلم وفضله 2/‏1098)

 

امام صاحب کے سیرت نگاروں نے یقین کے ساتھ اس بات کا ذکر کیا ہیکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ امام عطاء رحمہ اللہ کے شاگرد رہے ہیں ، اس بارے میں کوئی دوسری رائے ہے ہی نہیں۔ 


لیکن اس کے باوجود مخالفین چند روایات پیش کرتے ہیں۔


حدثنا عبد الرحمن نا أبي نا الحميدي  نا وكيع نا أبو حنيفة أنه سمع عطاء إن كان سمعه.

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ١/‏٢٢٦ )


أَخْبَرَنَا ابن رزق، أخبرنا عثمان بن أحمد، حدّثنا حنبل، حدّثنا الحميديّ، حدّثنا وكيع، حَدَّثَنَا أَبُو حنيفة أنه سمع عطاء- إن كان سمعه-.

(تاريخ بغداد ت بشار ١٥/‏٥٤٤ )


یہ روایات جس میں امام وکیع رحمہ اللہ شک کے ساتھ کہتے ہیں کہ امام صاحب نے عطاء سے سنا ہے ، بالکل غلط ہیں اور امام وکیع رحمہ اللہ پر بہتان ہیں کیونکہ محدثین نے وہ روایات بیان کیں ہیں جس میں امام وکیع رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ کے واسطہ سے امام عطاء سے روایت کرتے ہیں۔ اگر مخالفین کے مطابق امام وکیع شک میں مبتلا تھے تو پھر امام وکیع سے (وکیع -ابو حنیفہ - عطاء ) کی سند سے ہمیں کتب احادیث میں روایات کیوں ملتی ہیں ؟ 


اگر وکیع رحمہ اللہ شک میں مبتلا تھے تو انہوں نے امام صاحب سے وہ روایات کیوں اخذ کیں جس میں امام صاحب عطاء سے نقل کر رہے ہیں ؟


معلوم ہوا کہ وکیع رحمہ اللہ کسی شک میں مبتلا نہ تھے بلکہ وہ یقین سے کہتے تھے کہ امام صاحب نے عطاء رحمہ اللہ سے سنا ہے ، اس بات کے دلائل میں چند اسناد  (جس میں وکیع -ابو حنیفہ - عطاء سے روایت کرتے ہیں) ملاحظہ ہوں۔ 


٦٠٩٢ - حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَطَاءً، عَنْ وَلَدِ الزِّنَا يَؤُمُّ الْقَوْمَ، فَقَالَ: «لَا بَأْسَ بِهِ، أَلَيْسَ مِنْهُمْ مَنْ هُوَ أَكْثَرُ صَوْمًا وَصَلَاةً مِنَّا»

( المصنف ابن أبي شيبة - ت الحوت ٢/‏٣٠)


٢٢٨٥٥ - حدثنا أبو بكر قال: حدثنا وكيع عن أبي حنيفة قال: سألت عطاء عنه فقال: لا بأس به.

(المصنف ابن أبي شيبة - ت الشثري ١٢/‏٩٢)


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ صَالِحٍ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ الْأَسْدِيُّ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ زَنْجَلَةَ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حَنِيفَةَ قَالَ: سَأَلْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ عَنِ الصَّلَاةِ خَلْفَ وَلَدِ الزِّنَا؟ فَقَالَ وَمَا بَأْسٌ بِذَلِكَ؟ رُبَّمَا يَكُونُ أَكْثَرَ صَلَاةٍ مِنَّا


(الإرشاد في معرفة علماء الحديث للخليلي ١/‏٣١٩)


لہذا ثابت ہوا کہ خود وکیع تو امام صاحب کا عطاء سے سماع کو مانتے ہیں البتہ بعد میں کسی راوی نے اپنی طرف سے اضافہ کیا کہ (ان کان سمعہ) اور روایت میں شک ڈالنے کی کوشش کی۔ اور یہ اضافی شک کی عبارت ڈالنے والا امام حمیدی رحمہ اللہ کے علاوہ کوئی نہیں۔ اس لئے کہ یہ روایت ہمیں تاریخ بغداد اور  ابن ابی حاتم کی الجرح والتعدیل کے علاوہ نہیں ملی اور سب سے پہلے یہ شک والی روایت ابن ابی حاتم نے نقل کی ہے


حدثنا عبد الرحمن نا أبي نا الحميدي  نا وكيع نا أبو حنيفة أنه سمع عطاء إن كان سمعه.

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ١/‏٢٢٦ )


 جس میں وکیع سے الحمیدی نقل کر رہے ہیں ۔ اور الحمیدی تو امام صاحب سے حد درجہ تعصب رکھتے تھے اور یہ شک والا اضافہ ان کے تعصب کا ایک اور ثبوت ہے ، امام حمیدی نے اپنی طرف سے روایت میں اضافہ کیا جبکہ حمیدی ہی کے معاصر امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے وہ  روایات جمع کی ہیں جس میں وکیع - ابو حنیفہ - عطاء کی سند ہے۔ لہذا امام وکیع رحمہ اللہ اس الزام سے بری ہیں۔ 


امام حمیدی کے تعصب کی ایک اور مثال : 


سمعت الحميدي يقول قال أبو حنيفة قدمت مكة فأخذت من الحجام ثلاث سنن لما قعدت بين يديه قال لي استقبل القبلة فبدأ بشق رأسي الأيمن وبلغ إلى العظمين، قال الحميدي فرجل ليس عنده سنن عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أصحابه في المناسك وغيرها كيف يقلد أحكام الله في المواريث والفرائض والزكاة والصلاة وأمور الإسلام۔


امام بخاری کہتے ہیں کہ میں نے حمیدی کو یہ کہتے ہوئے سنا انہوں نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں مکہ آیا تو میں نے حجام سے تین سنتیں سیکھی کہ میں اس کے سامنے بیٹھا تو اس نے مجھے کہا قبلے کی طرف منہ کرو ، پھر اس نے میرے سر کے دائیں طرف سے شروع کیا اور استرا ہڈیوں تک پہنچایا۔

 حمیدی نے کہا ایسا آدمی جس کے پاس مناسک وغیرہ کی سنتیں نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہیں نہ صحابہ سے تو وہ میراث ، فرائض ،زکوۃ ،نماز اور دیگر امور اسلام میں کیسے اس کی تقلید کی جائے گی۔

 [التاريخ الصغير 2/ 43]۔


جواب :


 امام حمیدی رحمہ اللہ نے تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو نہ دیکھا ہے نہ ان سے کچھ سماع کیا ہے ۔ امام حمیدی کی پیدائش ، امام صاحب کی وفات کے بعد ہے۔ پھر ان کا امام ابو حنیفہ کی شان گھٹانے کیلئے غیر مستند واقعہ بیان کرنا ، یہ اس بات کی دلیل ہیکہ وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے چڑ رکھتے تھے اور اس سے بھی عجیب بات ہیکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حمیدی رحمہ اللہ سے اس بات کو نقل کیا جبکہ وہ جانتے تھے کہ ان کا سماع ابو حنیفہ سے نہیں ہے۔ 


محدث ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ نے فرمایا


أفرط بعض أصحاب الحديث في ذمّ أبي حنيفة، وتجاوزوا الحدّ في ذلك 

 (جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر 2/1080 )


 بعض اصحاب الحدیث نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بہت  بے اعتدالی کے ساتھ مخالفت کی ہے۔ 


یہی وہ باتیں تھیں جو بعد کے محدثین و آئمہ جرح و تعدیل نے نظر میں رکھ کر امام صاحب کا دفاع کیا ، اور ان کو ثقہ قرار دیا ، اور ان کے مناقب بیان کئے  ورنہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے زمانے کے قریبی اصحاب الحدیث نے تو ان پر بے بنیاد الزامات کی بارش کی ہے ، یا تو تعصب کی وجہ سے یا غلط فہمی کی وجہ سے یا معاصرانہ چشمک یا بعض متعصب متشدد محدثین کی اندھی تقلید کی وجہ سے۔



خلاصہ کلام:


حضرت عطاء ؒ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا استفادہ کرنا اس قدر مشہور و معروف ہے اور اتنی زیادہ صحیح روایات سے ثابت ہیکہ اس کے بارے میں اختلاف ہے ہی نہیں ۔ تمام تاریخ دانوں اور سیرت نگاروں نے عطاء رحمہ اللہ کو امام صاحب کے اساتذہ کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جبکہ اس اعتراض میں 《اگر انہوں نے سماع کیا》یہ الفاظ امام وکیع رحمہ اللہ کے نہیں بلکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے تعصب رکھنے والے محدث امام حمیدی رحمہ اللہ کے ہیں۔ اس بات کی دلیل یہ ہیکہ مصنف ابن ابی شیبہ ت الحوت ٢/‏٣٠ جبکہ الارشاد للخلیلی ١/‏٣١٩ میں امام وکیع رحمہ اللہ خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت عطاءؒ سے پوچھتے ہیں ۔۔ الخ ، لہذا ان روایتوں سے یہ معلوم ہوتا ہیکہ امام وکیع رحمہ اللہ امام صاحبؒ کو امام عطاءؒ کا شاگرد مانتے تھے تبھی تو خود ان سے عطاءؒ کے واسطے سے نقل کر رہے ہیں وگرنہ غیر مستند روایت وکیع رحمہ اللہ جیسا ثقہ محدث کیوں لے ؟ جب وکیع رحمہ اللہ نے یہ بات کی کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے امام عطاء سے سنا ہے ، اس بات کے آگے محدث حمیدی نے اپنے الفاظ ملائے کہ اگر انہوں نے سماع کیا ہے ، اور پھر بعد کے راویوں نے دونوں جملے ساتھ ملا کر نقل کرنا شروع کیا ، اسی لئے امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بعض اصحاب الحدیث نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بہت  بے اعتدالی/تشدد کے ساتھ مخالفت/جرح/ کی ہے(جامع بیان العلم2/1080)


مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود 


▪︎ ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 56 ، 59 ،  68 ۔ 


▪︎ امام اعظم  ابو حنیفہ رحمہ اللہ 

پر متفرق اعتراضات 

اعتراض نمبر 1 : امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

اعتراض نمبر 13 : ایک حجام (نائی) اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے واقعہ کی تحقیق۔


▪︎ دفاع احناف لائبریری میں موجود رسالہ : امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت ، مصنف : مولانا ابو حمزہ زیشان صاحب

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...