نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 91: کہ عبد الله بن المبارک نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ سے جو چیز بھی روایت کی ہر چیز کو چھوڑ دیا۔ پھر اللہ سے بخشش مانگی اور توبہ کی

 اعتراض نمبر 91: 
کہ عبد الله بن المبارک نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ سے جو چیز بھی روایت کی ہر چیز کو چھوڑ دیا۔ پھر اللہ سے بخشش مانگی اور توبہ کی

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس روایت کا راوی زکریا جو ہے وہ ابن سھل المروزی ہے اور اس تک سند وہی ہے جو پہلی روایت کی سند ہے تو اس میں عمر بن محمد الجوھری ہے اور وہ السذابی ہے جو الحسن بن عرفہ - یزید بن ہارون ز حماد بن سلمہ ۔ قتادہ - عکرمہ - ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن اللہ کی سند سے روایت نقل کرنے میں منفرد ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ”میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جس نے میرا کلمہ پڑھا میں اس کو اپنی جنت میں داخل کروں گا اور جس کو میں اپنی جنت میں داخل کروں گا تو وہ میرے عذاب سے امن پائے گا اور قرآن میرا کلام ہے اور مجھ سے نکلا ہے۔" اور امام ذہبی نے خطیب کی سند سے اس کو نقل کرنے کے بعد کہا کہ یہ موضوع روایت ہے اور جو موضوع روایت کرنے میں منفرد ہو تو اس سے بہت ممکن ہے کہ وہ ابو حنیفہ کے بارہ میں ابن المبارک کی زبان سے جو چاہے کرتا پھرے۔

 اور سند میں کتنے بڑے بڑے حنابلہ ہیں۔ اور ابو بکر المروزی نے کتاب الورع میں ذکر کیا ہے جو احمد کی روایت سے ہے کہ بے شک ابن راہویہ نے ابن المبارک کی کتابوں سے تین سو سے زائد ایسی حدیثیں منتخب کیں جو ابو حنیفہ کے مذہب کی دلیلیں تھیں اور ان کو ابن المبارک کی وفات کے بعد عراق لے کر آیا تاکہ ان کے بارہ میں اہل علم سے پوچھے اور وہ خیال کرتا تھا کہ روئے زمین پر کوئی بھی ایسا آدمی نہیں ہے جو ابوحنیفہ کا رد کر سکے۔ 

تو وہ بصرہ میں عبدالرحمن بن مہدی سے ملا تو ابن مہدی نے ابو تمیلہ کا مرثیہ اس کے سامنے پڑھا جو اس نے ابن المبارک کی وفات پر کہا تھا۔ 

اور وہ مرثیہ طویل ہے اور ابن مہدی مرثیہ سن کر روتا رہا کیونکہ اس کے دل میں ابن المبارک کی بہت قدر و منزلت تھی اور جب وہ اس کے اس شعر تک پہنچا۔

وبرأى النعمان كنت بصيرا

حين يوتي مقايس النعمان

اے ابن المبارک " تو نعمان کی رائے کو بہت اچھی طرح جاننے والا تھا جبکہ نعمان کے قیاسی مسائل پیش کیے جاتے تھے۔ " تو اس نے یہ کہتے ہوئے اس کی کلام کو قطع کر دیا کہ ہے شک تو نے شعر بگاڑ دیا ہے اور کہا کہ ابن المبارک کا عراق میں ابو حنیفہ سے روایت کرنے کے علاوہ اور کوئی گناہ نہیں ہے جیسا کہ یہ حکایت تفصیل سے ابن قتیبہ کی کتاب الاختلاف فی اللفظ کے مقدمہ میں بیان کی گئی ہے اور ابوحنیفہ سے اس کے انحراف کی وجہ بھی ذکر کی گئی ہے۔ اور اگر ابن مہدی کو علم ہوتا کہ ابن المبارک نے ابو حنیفہ سے روایت کرنے سے رجوع کر لیا تھا تو وہ تو چیخ چیخ کر اس کا ذکر کرتا اور اس جیسی شخصیت کا ابوحنیفہ سے انحرافی اور ابن المبارک کے پاس ابن مہدی کا اہتمام سے آنا جانا تو اس لائق ہے کہ اگر اس (ابن المبارک نے رجوع کیا ہوتا تو اس (ابن مہدی کو رجوع کا علم ہوتا۔) 

اور اسی طرح اگر ابن المبارک کا ابوحنیفہ سے علم حاصل کرنے اور روایت لینے نے رجوع کر لینا صحیح ہوتا تو ابو تمیلہ اپنے مرثیہ میں ان الفاظ سے اس کی مدح نہ کرتا کہ تو نعمان کی رائی کا بہت اچھی طرح واقف تھا۔ 

اور آدمی کے شہر والے اس کے حالات کو بہتر جانتے ہیں۔

 اور ابن عبدالبر نے الانتقاء ص 123 میں اپنی سند کے ساتھ ابن المبارک کا واقعہ ذکر کیا ہے کہ بے شک انہوں نے ایک ایسے آدمی سے کہا جس نے ان کی مجلس میں ابوحنیفہ پر طعن کیا تھا کہ چپ ہو جا۔ 

اللہ کی قسم اگر تو ابوحنیفہ ، دیکھتا تو یقیناً عقلمند اور عالی نسب کو دیکھتا اور بے شک ابن المبارک ابو حنیفہ کا ذکر اچھے کلمات سے کرتے تھے اور ان کی تعریف اور مدح کرتے تھے۔

 اور ابو اسحاق الفزاری ابو حنیفہ سے بغض رکھتا تھا اور جب وہ جمع ہوتے تو ابو اسحاق کو جرات نہ ہوتی تھی کہ ابن المبارک کے سامنے ابوحنیفہ کے بارہ میں ذرا بھی کچھ ذکر کر سکے۔

اور ابوالقاسم بن ابی العوام نے محمد بن احمد بن حماد احمد بن القاسم البرتی ابن ابی رزمہ عبدان کی سند نقل کر کے کہا کہ عبدان نے کہا کہ میں نے عبد الله بن المبارک کو کہتے ہوئے سنا کہ لوگ جب ابوحنیفہ کا تذکرہ برائی سے کرتے ہیں تو مجھے یہ بات بری لگتی ہے اور میں ان پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف کھاتا ہوں۔ اس کے علاوہ اور بھی ان سے ایسے اقوال موجود ہیں جن سے بہتان تراشوں کی بہتان تراشی کا بھید کھل جاتا ہے۔ 

اور بہر حال خطیب نے جو اس کے بعد روایت کی ہے کہ ابو داؤد نے کہا کہ ابن المبارک نے کہا کہ ابو حنیفہ کی مجلس حضور علیہ السلام پر درود شریف پڑھنے سے خالی ہوتی تھی اور ہم ابوحنیفہ کی مجلس میں سفیان ثوری سے چوری چھپے جاتے تھے تو اس کی سند مقطوع ہے۔

 اس لیے کہ ابو داؤد نے ابن المبارک کو نہیں پایا اور ان کے درمیان بیابان ہیں۔

 نیز ابو داود تک سند بیان کرنے میں بھی خطیب منفرد ہے۔

 اور ابو صالح محمد سعید بن حماد الجلودی نے جو کہا ہے قال ابو داؤد تو یہ بھی انقطاع کا صیغہ ہے۔

 اور ابو داؤد تو ابو حنیفہ کی امامت کا اقرار کرنے والے لوگوں میں سے ہیں جیسا کہ ابن عبدالبر کی روایت میں پہلے گزر چکا ہے۔

 بلکہ ابو بشر الدولابی کی روایت میں ہے جو کہ ابراہیم الجوزجانی۔ عبدان کی سند سے ہے کہ ابن المبارک نے کہا کہ مجھے ثوری کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اچھا لگتا تھا۔ 

میں جب چاہتا تو اس کو نماز پڑھتے ہوئے اور جب چاہتا تو عبادت میں اور جب چاہتا تو فقہ میں دقیق مسائل حل کرتے ہوئے دیکھتا۔ الخ۔ 

یہاں ابو حنیفہ کے ذکر کا ذرا بھی اشارہ کیے بغیر ابن المبارک کا قول ہے۔

 اور بہتان تراش نے خبر میں ہیر پھیر کردی اور مرضی کے مطابق اضافہ کر دیا یہاں تک کہ ابو حنیفہ کی مجلس کو ایسا بنا دیا کہ اس میں نہ تو نبی کریم ﷺ کا ذکر ہوتا اور نہ ہی آپ پر درود شریف ہوتا۔ 

اے اللہ تیری ذات پاک ہے۔ یہ ابن المبارک پر ایسا بہتان تراشی کا بہتان ہے، جس کا پردہ چاک ہے۔ جب مخالفین کی روایات کے مطابق یہ بات ثابت ہے جو کہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں (ابن المبارک) نے ابو حنیفہ سے چار سو حدیثیں حاصل کیں اور کوئی حدیث ایسی نہیں جس کی روایت میں نبی کریم ﷺ کا ذکر اور آپ پر درود شریف نہ ہو تو یہ دعوی (کہ ابوحنیفہ کی محفل درود شریف سے خالی ہوتی تھی انتہائی بے شرمی کی

بات ہے۔

اور بے شک ابن ابی العوام نے ابراھیم بن احمد بن سهل القاسم بن غسان عن ابيه بشر بن یحی۔ ابن المبارک کی سند سے بیان کیا ہے کہ ابن المبارک نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ سے بڑھ کر اپنی مجلس میں زیادہ حلم والا اور اچھی عادت والا اور باوقار نہ کسی عالم کو اور نہ غیر عالم کو دیکھا ہے۔

 اور البتہ تحقیق ہم ایک دن جامع مسجد میں اس کے ساتھ تھے تو ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ اچانک ایک سانپ چھت سے گر کر ابو حنیفہ کی گود میں جا گرا تو انہوں نے دامن جھاڑ کر اس کو پھینک دینے سے زیادہ کوئی عمل نہ کیا اور ہم میں سے ہر آدمی بھاگ گیا تو ابن المبارک سے پوچھا گیا کہ اے ابو عبد الرحمن آپ بھی بھاگ گئے تھے تو اس نے کہا کہ میں تو بھاگنے میں ان سب سے زیادہ تیز تھا۔ پھر وہ شروع ہوئے ابو حنیفہ کی اور اس کے اخلاق کی تعریف کرنے لگے۔ الخ

تو کیا اس جیسا آدمی وہ کچھ کہہ سکتا ہے جو ابو حنیفہ کے بارہ میں اس سے خطیب نے نقل کیا ہے۔ اللہ تعالی تعصب کا ستیا ناس کرے۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا 

 

عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ترک کرنا ثابت نہیں ۔

مزید تفصیل قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ( تانیب الخطیب ) امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 89 میں دیکھ سکتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...