نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض : ابوحنیفہ نے کہا کہ میں تم سے جو بیان کرتا ہوں اس کا اکثر خطا ہوتا ہے۔

 

                       ابوحنیفہ نے کہا کہ میں تم سے جو بیان کرتا ہوں اس کا اکثر خطا ہوتا ہے۔

جواب : یہ قول 《وَعَامَّةُ مَا أحَدَّثَكُمْ بِهِ خَطَأٌ》 بہت سے محدثین نے مختلف الفاظ کے  ساتھ اپنی اپنی کتب نقل کیا ہے لیکن اس قول کو صحیح طرح سے نقل نہیں کیا گیا اور اس قول کی سند اور متن دونوں میں اضطراب ہے جو اس قول کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتا ہے۔

تمہید : 

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ان کے جلیل القدر شاگرد امام  ابوعبد الرحمٰن المقرئ ( أبو عبد الرحمن عبد الله بن يزيد بن عبد الرحمن الأهوازي البصري المكي ) نقل فرماتے ہیں 

حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى بْنُ أَبِي مَسَرَّةَ قَالَ: ثنا الْمُقْرِئُ قَالَ: ثنا أَبُو حَنِيفَةَ قَالَ: 《مَا رَأَيْتُ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءٍ》

کہ میں نے ( تابعین میں سے ) حضرت عطاء سے افضل کسی آدمی کو نہیں دیکھا۔ ( أخبار مكة - الفاكهي - ط ٢ ٢/‏٣٢١ )

یہی قول امام صاحب کے دوسرے شاگردوں نے بھی نقل کیا ہے ۔

٢١٣٢ - وَذَكَرَ عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ قَالَ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مُخَلَّدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ

٢١٣٦ - وَحَدَّثَنَا حَكَمُ بْنُ مُنْذِرٍ، نا يُوسُفُ بْنُ أَحْمَدَ نا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ خَدَّامٍ الْفَقِيهُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ، ثنا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ الصَّيْرَفِيُّ، سَنَةَ سِتِّينَ وَمِائَتَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا يَحْيَى الْحِمَّانِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَلَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ


لیکن دوسرے راویوں نے اس قول کو اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے ، جس کی سند اور متن دونوں میں اضطراب ہے اور وہ اضافہ ضعیف ہے۔ 

▪︎ اضافے والی روایت کے متن میں اضطراب :

1۔ ابن عدی رحمہ اللہ (نے الکامل 237/8 )اور خطیب بغدادی (تاریخ بغداد 15/555) میں اس قول کو یوں نقل کرتے ہیں  ثقہ راوی امام ابو القاسم البغوی نقل کرتے ہیں کہ 

ما رأيت أفضل من عطاء، وعامة ما  أحدثكم به خطأ

ترجمہ : میں نے حضرت عطاء سے افضل کسی کو نہیں دیکھا اور  جو میں آپ سے بیان کرتا ہوں وہ عام طور پر غلط ہوتا ہے۔

2۔ جبکہ مسند ابن الجعد میں یہی ثقہ راوی امام ابو القاسم البغوی اسی روایت کو  کچھ اس طرح نقل کرتے ہیں۔

١٩٧٨ - حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُقْرِئِ، نَا أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: «مَا رَأَيْتُ أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءٍ، وَعَامَّةُ مَا حَدَّثَكُمْ بِهِ خَطَأٌ»

( مسند ابن الجعد ١/‏٢٩٢ )

میں نے عطاء سے افضل کسی کو نہیں دیکھا اور انہوں نے مجھ سے  جو بیان کیا وہ غلط ہے ۔





قارئیں یہ تھا روایت کے متن کا اضطراب۔

اضافے والی روایت کی سند میں اضطراب :

ثقہ راوی محمود بن غیلان رحمہ اللہ اس قول 《 وعامة ما أحدثكم خطأ 》  کو کبھی امام ابو عبد الرحمن المقری سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ سے سنا 

(▪︎ الأسامي والكنى - أبو أحمد الحاكم - ت الأزهري ٣/‏٦٤ )

 کبھی وہ امام ابو عبدالرحمن المقری کے بیٹے " محمَّد بن عبد الله بن يزيد المقرئ متوفی 256ھ " سے نقل کرتے ہیں کہا انہوں نے امام ابو حنیفہ سے سنا  ( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١٣/‏٤٠٣ )

(جبکہ محمَّد بن عبد الله بن يزيد المقرئ تو امام صاحب کا شاگرد ہی نہیں ہے ، ان کا سماع امام ابو حنیفہ سے ثابت نہیں ہے  ، جبکہ ان کے والد امام مقری امام صاحب کے اجل تلامذہ میں سے ہیں) ۔ معلوم ہوا کہ یہ اضافہ 《جو میں تمہیں بیان کرتا ہوں وہ اکثر غلط ہوتا ہے》سند اور متن کے اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے  ۔

 یہ اضافہ ضعیف اس لئے بھی ہیکہ ، اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اکثر و پیشتر غلط روایات بیان کرتے تھے تو ثقہ محدث امام المقرئ ان سے آخری دم سے روایات (اس میں حدیث بھی ہو سکتی ہے اور فقہ بھی) کیوں نقل کرتے رہے ؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت کرنا تو اور بھی خطرناک بات ہے۔ 

 اگر معلوم تھا کہ امام صاحب غلط روایات دے رہے ہیں تو ثقہ محدث نے باطل روایات آخری عمر تک کیسے اور کیوں روایت کیں  ؟

امام صاحب سے جان بوجھ کر غلط روایات نقل کرنے کے باوجود بھی امام المقرئ پر کسی نے جرح کیوں نہیں کی ؟ جبکہ آئمہ نے تو واضح امام القرئ کو ثقہ کہا ہے۔

مثلا :

أبو القاسم بن بشكوال : شيخ لا بأس به

أبو يعلى الخليلي : ثقة حديثه عن الثقات محتج به ويتفرد بأحاديث

أحمد بن شعيب النسائي : ثقة

ابن أبي حاتم الرازي : صدوق

ابن حجر العسقلاني : ثقة فاضل أقرأ القرآن نيفا وسبعين سنة

ابن عبد البر الأندلسي : ثقه، حجة في ما نقل

الذهبي : الحافظ الثقة

عبد الباقي بن قانع البغدادي : ثقة

محمد بن سعد كاتب الواقدي : ثقة كثير الحديث

محمد بن عبد الله المخرمي : أثنى عليه

 لہذا منطقی طور پر بھی یہ روایت کہ امام صاحب کا خود فرمانا کہ اکثر میں تمہیں غلط بیان کرتا ہوں ، یہ غلط ہے۔ 

امام المقرئ رحمہ اللہ کا آخری دم تک امام صاحب سے روایات نقل کرنے کا  ثبوت:

1۔ امام المقرئ متوفی 213 ھ کے شاگرد ثقہ محدث بشر بن موسى بن صالح الأسدي البغدادي  (پیدائش ١٩٠ - وفات ٢٨٨ هـ سير أعلام النبلاء ج ١٣ ص ٣٥٢)  ، امام مقرئ کی وفات 213 ھ میں ہوئی ہے جس وقت بشر بن موسی رحمہ اللہ کی عمر 23 سال تھی ، یہ ثقہ محدث یعنی بشر بن موسی ، اپنے استاد المقرئ رحمہ اللہ کے واسطہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے احادیث بیان کرتے ہیں۔ 

حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، ثنا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ: «لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ»

( المعجم الکبیر للطبرانی 4/96 )

امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک اور روایت بھی بشر بن موسی ، المقرئ  اور امام ابو حنیفہ سے ، امام المقرئ کے ترجمہ میں نقل کی ہے۔

أَخْبَرَنَا ابْنُ قُدَامَةَ، وَابْنُ البُخَارِيِّ إِجَازَةً، قَالاَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ بنُ البَنَّاءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الجَوْهَرِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ القَطِيْعِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بنُ مُوْسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ المُقْرِئُ، عَنْ أَبِي حَنِيْفَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ: أنَّه رَآهُ يُصَلِّي فِي قَمِيْصٍ خَفِيْفٍ، لَيْسَ عَلَيْهِ إِزَارٌ، وَلاَ رِدَاءٌ. قَالَ: وَلاَ أَظُنُّهُ صَلَّى فِيْهِ إِلاَّ لِيُرِيَنَا أَنَّهُ لاَ بَأْسَ بِالصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ 

جس پر محشی نے لکھا ہے إسناده صحيح، وهو في «مسند» أبي حنيفة برقم (٨١) ( سير أعلام النبلاء - ط الرسالة ١٠/‏١٦٨ )

یعنی دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا امام المقرئ کے ترجمہ میں المقرئ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت نقل کرنا (جسے محشی نے صحیح لکھا ہے)، اس بات پر دلالت کرتا ہیکہ امام ابو حنیفہ سے یہ قول بالکل بھی ثابت نہیں کہ وہ جو  المقرئ سے بیان کرتے تھے عام طور پر غلط ہوتا تھا۔ 

2۔ دوسرے شاگرد الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، المُسْنِدُ، أَبُو يَحْيَى عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ بنِ أَبِي مَسَرَّة المَكِّيُّ متوفی 279ھ ۔ آپ امام مقرئ کے آخری دور کے شاگردوں میں  سے ہیں ، آپ امام مقرئ کے واسطہ سے امام ابو حنیفہ سے احادیث بیان کرتے ہیں 

وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَسَرَّةَ، قثنا الْمُقْرِئُ، قثنا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْ سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّتِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ۔۔۔ الخ 

( مسند أبي عوانة دار المعرفة 4/205 : رقم 6503 )

لہذا ثابت ہوا کہ امام مقرئ رحمہ اللہ امام صاحب سے روایات بیان کرتے تھے ، اگر امام صاحب غلط  بیان کرتے تھے تو ثقہ محدث کا ان سے روایات نقل کرنا کوئی منطقی بات نہیں ۔

مطالبہ : 

بالفرض اگر اب بھی کوئی نام نہاد اہلحدیث ہمارے جواب کو اپنی غیر مقلدانہ ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے نہیں مانتا تو ہم کہتے ہیں بالفرض ہم نے مان لیا کہ یہ قول ثابت ہے ،

 اول تو ہماری تاویل یہ ہو گی کہ امام صاحب نے اپنے شاگردوں کے سامنے چند من گھڑت روایات بیان کی ہو گیں کہ یہ روایت فلاں کذاب راوی کی وجہ سے باطل ہے ، یہ روایت فلاں راوی نے من گھڑت بیان کی ۔ تو اس صورت حال میں امام صاحب نے کہا ہو گا یہ جو روایات تمہین بیان کر رہا ہوں یہ غلط ہیں (استاد اپنے شاگردوں کو کھرے کھوٹے کا فرق ایسے ہی بیان کرتا ہے) ، 

اگر غیر مقلد اس توجیہ سے بھی خوش نہیں تو ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ کم سے کم المقرئ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے واسطے سے وہ روایات ثبوت کے طور پر پیش کریں جو باطل ہیں ، جن کی کوئی اصل نہیں ، جو من گھڑت ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ غیر مقلدین ہر اس روایت کو بھی باطل ، بے اصل اور ضعیف کہیں جو المقرئ سے منقول ہیں  خصوصا صحیحین میں 30 سے زائد روایات جن کی سند میں امام المقرئ موجود ہیں۔

ایک بات، دو معیار: سفیانؒ پر سکوت، ابو حنیفہؒ پر شور؟

 یہ ہے کہ ہمیں اس سے ملتا جلتا ایک قول امام سفیان ثوریؒ کا بھی صحیح سند سے ملتا ہے۔مشہور  جلیل القدر محدث امام سفیان ثوریؒ نے فرمایا:

حدثنا زيد بن الحباب قالقال سفيان الثوريإن قلت إني أحدثكم كما سمعت فقد كذبت. "العلل" رواية عبد اللَّه (1309)

"اگر میں یہ کہوں کہ میں تمہیں حدیث ویسے ہی بیان کر رہا ہوں جیسے میں نے سنی تھی، تو یقیناً میں جھوٹ بول رہا ہوں۔"

اس قول سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ اپنی روایت میں ممکنہ غلطی یا کمی کا امکان بیان کر رہے ہیں۔ اس سے ان کی نیت یا صداقت پر کوئی اعتراض نہیں، بلکہ یہ ایک عاجزی اور انسان ہونے کا اظہار ہے، کہ وہ معصوم نہیں اور ممکن ہے کہ بیان کرتے وقت کہیں نہ کہیں لفظی یا معنوی فرق آ جائے۔اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر یہی بات امام اعظم ابو حنیفہؒ فرماتے تو بعض متعصب لوگ فوراً انہیں "کذاب" (جھوٹا) کہنے لگتے، حالانکہ سفیان ثوریؒ کا یہی قول اُن کے اپنے اصولوں کے خلاف نہیں سمجھا جاتا۔ہم اہلِ حق اور حنفی اہلِ علم چونکہ تمام سلف صالحین کا احترام کرتے ہیں، اور ان کے بارے میں حسنِ ظن رکھتے ہیں، اس لیے ہم اس قول کی مثبت تاویل کرتے ہیں:

  1. یا تو امام سفیان ثوریؒ کا مطلب یہ تھا کہ وہ بعض اوقات روایت بالمعنی کرتے ہیں یعنی حدیث کو مفہوم کے اعتبار سے بیان کرتے ہیں نہ کہ لفظ بہ لفظ۔

  2. یا وہ اپنی عاجزی کا اظہار کر رہے تھے کہ انسان ہونے کے ناطے ان سے کمی کوتاہی ہو سکتی ہے، اور وہ خود کو خطا سے پاک نہیں سمجھتے۔

اسی طرح جب امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ:

"میں جو کہتا ہوں، اُس میں اکثر خطا کا امکان ہوتا ہے"

تو اس سے بھی یہی مراد ہوتی ہے کہ وہ ایک متواضع عالم تھے جو اپنی رائے کو قطعی نہیں سمجھتے تھے، اور وہ بھی بشری تقاضے کے تحت اپنی بات کو خطا سے مبرا نہیں سمجھتے تھے۔ یہ نہ ان کے علم کی کمی ہے نہ صداقت کی نفی۔

مگر افسوس کہ غیر مقلدین ہمیشہ امام ابو حنیفہؒ کے کسی بھی جملے کو غلط رنگ دے کر پیش کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف یہی انداز اگر امام سفیان ثوریؒ یا دیگر محدثین سے ظاہر ہو تو وہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں، اور تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ غیر مقلدین کو امام ابو حنیفہؒ سے ذاتی بغض ہے، جو فقہی سطح پر صرف فقہ حنفی کے خلاف شدید انداز میں ظاہر ہوتا ہے۔ حالانکہ نہ وہ فقہ شافعی کے خلاف اتنی شدت دکھاتے ہیں اور نہ ہی فقہ حنبلی کے خلاف، خاص طور پر سعودی عرب کی فقہ حنبلی کے خلاف تو وہ بولنا بھی گوارا نہیں کرتے، کیونکہ وہاں سے ان کی مالی پشت پناہی (فنڈنگ) جاری رہتی ہے۔یہ رویہ نہ صرف علمی دیانت کے خلاف ہے بلکہ سلف صالحین کے دعوے داروں کے کردار پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔

خلاصہ و نتیجہ:

اس قول "وعامة ما أحدثكم به خطأ" کی سند اور متن دونوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قول ضعیف اور ناقابلِ اعتبار ہے۔ امام ابو حنیفہؒ سے اس کی نسبت، علمی، عقلی اور اصولی لحاظ سے درست نہیں۔ اگر یہ قول بالفرض ثابت بھی ہو تو وہ امام ابو حنیفہؒ کی عاجزی اور طلبہ کو کھرے کھوٹے کی پہچان کروانے کے تناظر میں ہوگا، نہ کہ ان کی صداقت یا فقہی استقامت پر کوئی طعن۔ اسی طرح کا ایک قول امام سفیان ثوریؒ سے بھی منقول ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی باتیں علمائے سلف کی انکساری اور علمی احتیاط کی علامت ہوتی تھیں، نہ کہ جھوٹ یا غلطی کا اقرار۔

لہٰذا امام ابو حنیفہؒ پر اس قول کی بنیاد پر اعتراض کرنا علمی خیانت ہے، جبکہ اسی طرح کے اقوال دوسرے ائمہ کے بارے میں تاویل سے کام لینا کھلا تعصب اور دوہرا معیار ہے۔ اہلِ علم کو زیب دیتا ہے کہ وہ انصاف، تحقیق، اور حسنِ ظن کے اصولوں پر قائم رہیں، نہ کہ فقہی یا فکری تعصب کی بنیاد پر فتوے لگائیں۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...