امام ابو عبدالرحمن المقرئ سے منقول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا جائزہ :
اعتراض نمبر 1
قال ابن أبي حاتم رحمه الله في «الجرح والتعديل»:
أنا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني كتب إليّ عن أبي عبد الرحمن المقريء قال: كان أبو حنيفة يحدثنا فإذا فرغ من الحديث قال: هذا الذي سمعتم كله ريح وباطل. أهـ.
ابو عبدالرحمن المقری کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ ہمیں حدیث سناتے اور جب اس سے فارغ ہوتے تو کہتے: یہ جو تم سب نے سنا ہے یہ سب ریح وباطل ہے
اعتراض نمبر 2 :
قال الخطيب رحمه الله (ج١٣ ص٤٢٥):
أخبرني ابن الفضل أخبرنا دعلج بن أحمد أخبرنا أحمد بن علي الأبار حدثني محمد بن غيلان حدثنا المقريء قال سمعت أبا حنيفة يقول: عامة ما أحدثكم به خطأ.
قال ابن عدي (ج٧ ص٢٤٧٣):
ثناه عبد الله بن محمد بن عبد العزيز حدثني محمود بن غيلان ثنا المقريء سمعت أبا حنيفة يقول: ما رأيت أفضل من عطاء وعامة ما أحدثكم خطأ.
قال أبو بكر الخطيب (ج١٣ ص٤٢٥):
أخبرني الحسن بن أبي طالب حدثنا عبيد الله بن محمد بن حبابة حدثنا عبد الله بن محمد البغوي حدثنا ابن المقريء حدثنا أبي قال سمعت أبا حنيفة يقول: ما رأيت أفضل من عطاء وعامة ما أحدثكم به خطأ. اهـ.
ابوحنیفہ نے کہا کہ میں تم سے جو بیان کرتا ہوں اس کا اکثر خطا ہوتا ہے۔
جواب : یہ قول 《وَعَامَّةُ مَا أحَدَّثَكُمْ بِهِ خَطَأٌ》 بہت سے محدثین نے مختلف الفاظ کے ساتھ اپنی اپنی کتب نقل کیا ہے لیکن اس قول کو صحیح طرح سے نقل نہیں کیا گیا اور اس قول کی سند اور متن دونوں میں اضطراب ہے جو اس قول کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
تمہید :
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ان کے جلیل القدر شاگرد امام ابوعبد الرحمٰن المقرئ ( أبو عبد الرحمن عبد الله بن يزيد بن عبد الرحمن الأهوازي البصري المكي ) نقل فرماتے ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى بْنُ أَبِي مَسَرَّةَ قَالَ: ثنا الْمُقْرِئُ قَالَ: ثنا أَبُو حَنِيفَةَ قَالَ: 《مَا رَأَيْتُ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءٍ》
کہ میں نے ( تابعین میں سے ) حضرت عطاء سے افضل کسی آدمی کو نہیں دیکھا۔
( أخبار مكة - الفاكهي - ط ٢ ٢/٣٢١ )
یہی قول امام صاحب کے دوسرے شاگردوں نے بھی نقل کیا ہے ۔
٢١٣٢ - وَذَكَرَ عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ قَالَ حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مُخَلَّدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ
٢١٣٦ - وَحَدَّثَنَا حَكَمُ بْنُ مُنْذِرٍ، نا يُوسُفُ بْنُ أَحْمَدَ نا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ خَدَّامٍ الْفَقِيهُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ، ثنا شُعَيْبُ بْنُ أَيُّوبَ الصَّيْرَفِيُّ، سَنَةَ سِتِّينَ وَمِائَتَيْنِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا يَحْيَى الْحِمَّانِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَلَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْذَبَ مِنْ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ
لیکن دوسرے راویوں نے اس قول کو اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے ، جس کی سند اور متن دونوں میں اضطراب ہے اور وہ اضافہ ضعیف ہے۔
▪︎ اضافے والی روایت کے متن میں اضطراب :
1۔ ابن عدی رحمہ اللہ (نے الکامل 237/8 )اور خطیب بغدادی (تاریخ بغداد 15/555) میں اس قول کو یوں نقل کرتے ہیں ثقہ راوی امام ابو القاسم البغوی نقل کرتے ہیں کہ
ما رأيت أفضل من عطاء، وعامة ما أحدثكم به خطأ
ترجمہ : میں نے حضرت عطاء سے افضل کسی کو نہیں دیکھا اور جو میں آپ سے بیان کرتا ہوں وہ عام طور پر غلط ہوتا ہے۔
2۔ جبکہ مسند ابن الجعد میں یہی ثقہ راوی امام ابو القاسم البغوی اسی روایت کو کچھ اس طرح نقل کرتے ہیں۔
١٩٧٨ - حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُقْرِئِ، نَا أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: «مَا رَأَيْتُ أَفْضَلَ مِنْ عَطَاءٍ، وَعَامَّةُ مَا حَدَّثَكُمْ بِهِ خَطَأٌ»
( مسند ابن الجعد ١/٢٩٢ )
میں نے عطاء سے افضل کسی کو نہیں دیکھا اور انہوں نے مجھ سے جو بیان کیا وہ غلط ہے ۔
قارئیں یہ تھا روایت کے متن کا اضطراب۔
اضافے والی روایت کی سند میں اضطراب :
ثقہ راوی محمود بن غیلان رحمہ اللہ اس قول 《 وعامة ما أحدثكم خطأ 》 کو کبھی امام ابو عبد الرحمن المقری سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ سے سنا
(▪︎ الأسامي والكنى - أبو أحمد الحاكم - ت الأزهري ٣/٦٤ )
کبھی وہ امام ابو عبدالرحمن المقری کے بیٹے " محمَّد بن عبد الله بن يزيد المقرئ متوفی 256ھ " سے نقل کرتے ہیں کہا انہوں نے امام ابو حنیفہ سے سنا ( تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية ١٣/٤٠٣ )
(جبکہ محمَّد بن عبد الله بن يزيد المقرئ تو امام صاحب کا شاگرد ہی نہیں ہے ، ان کا سماع امام ابو حنیفہ سے ثابت نہیں ہے ، جبکہ ان کے والد امام مقری امام صاحب کے اجل تلامذہ میں سے ہیں) ۔ معلوم ہوا کہ یہ اضافہ 《جو میں تمہیں بیان کرتا ہوں وہ اکثر غلط ہوتا ہے》سند اور متن کے اضطراب کی وجہ سے ضعیف ہے ۔
یہ اضافہ ضعیف اس لئے بھی ہیکہ ، اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اکثر و پیشتر غلط روایات بیان کرتے تھے تو ثقہ محدث امام المقرئ ان سے آخری دم سے روایات (اس میں حدیث بھی ہو سکتی ہے اور فقہ بھی) کیوں نقل کرتے رہے ؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت کرنا تو اور بھی خطرناک بات ہے۔
اگر معلوم تھا کہ امام صاحب غلط روایات دے رہے ہیں تو ثقہ محدث نے باطل روایات آخری عمر تک کیسے اور کیوں روایت کیں ؟
امام صاحب سے جان بوجھ کر غلط روایات نقل کرنے کے باوجود بھی امام المقرئ پر کسی نے جرح کیوں نہیں کی ؟ جبکہ آئمہ نے تو واضح امام القرئ کو ثقہ کہا ہے۔
مثلا :
أبو القاسم بن بشكوال : شيخ لا بأس به
أبو يعلى الخليلي : ثقة حديثه عن الثقات محتج به ويتفرد بأحاديث
أحمد بن شعيب النسائي : ثقة
ابن أبي حاتم الرازي : صدوق
ابن حجر العسقلاني : ثقة فاضل أقرأ القرآن نيفا وسبعين سنة
ابن عبد البر الأندلسي : ثقه، حجة في ما نقل
الذهبي : الحافظ الثقة
عبد الباقي بن قانع البغدادي : ثقة
محمد بن سعد كاتب الواقدي : ثقة كثير الحديث
محمد بن عبد الله المخرمي : أثنى عليه
لہذا منطقی طور پر بھی یہ روایت کہ امام صاحب کا خود فرمانا کہ اکثر میں تمہیں غلط بیان کرتا ہوں ، یہ غلط ہے۔
امام المقرئ رحمہ اللہ کا آخری دم تک امام صاحب سے روایات نقل کرنے کا ثبوت:
1۔ امام المقرئ متوفی 213 ھ کے شاگرد ثقہ محدث بشر بن موسى بن صالح الأسدي البغدادي (پیدائش ١٩٠ - وفات ٢٨٨ هـ سير أعلام النبلاء ج ١٣ ص ٣٥٢) ، امام مقرئ کی وفات 213 ھ میں ہوئی ہے جس وقت بشر بن موسی رحمہ اللہ کی عمر 23 سال تھی ، یہ ثقہ محدث یعنی بشر بن موسی ، اپنے استاد المقرئ رحمہ اللہ کے واسطہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے احادیث بیان کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، ثنا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ: «لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ»
( المعجم الکبیر للطبرانی 4/96 )
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک اور روایت بھی بشر بن موسی ، المقرئ اور امام ابو حنیفہ سے ، امام المقرئ کے ترجمہ میں نقل کی ہے۔
أَخْبَرَنَا ابْنُ قُدَامَةَ، وَابْنُ البُخَارِيِّ إِجَازَةً، قَالاَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ بنُ البَنَّاءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الجَوْهَرِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ القَطِيْعِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بنُ مُوْسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ المُقْرِئُ، عَنْ أَبِي حَنِيْفَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ: أنَّه رَآهُ يُصَلِّي فِي قَمِيْصٍ خَفِيْفٍ، لَيْسَ عَلَيْهِ إِزَارٌ، وَلاَ رِدَاءٌ. قَالَ: وَلاَ أَظُنُّهُ صَلَّى فِيْهِ إِلاَّ لِيُرِيَنَا أَنَّهُ لاَ بَأْسَ بِالصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ
جس پر محشی نے لکھا ہے إسناده صحيح، وهو في «مسند» أبي حنيفة برقم (٨١) ( سير أعلام النبلاء - ط الرسالة ١٠/١٦٨ )
یعنی دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا امام المقرئ کے ترجمہ میں المقرئ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت نقل کرنا (جسے محشی نے صحیح لکھا ہے)، اس بات پر دلالت کرتا ہیکہ امام ابو حنیفہ سے یہ قول بالکل بھی ثابت نہیں کہ وہ جو المقرئ سے بیان کرتے تھے عام طور پر غلط ہوتا تھا۔
2۔ دوسرے شاگرد الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، المُسْنِدُ، أَبُو يَحْيَى عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ بنِ أَبِي مَسَرَّة المَكِّيُّ متوفی 279ھ ۔ آپ امام مقرئ کے آخری دور کے شاگردوں میں سے ہیں ، آپ امام مقرئ کے واسطہ سے امام ابو حنیفہ سے احادیث بیان کرتے ہیں
وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَسَرَّةَ، قثنا الْمُقْرِئُ، قثنا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْ سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّتِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ۔۔۔ الخ
( مسند أبي عوانة دار المعرفة 4/205 : رقم 6503 )
لہذا ثابت ہوا کہ امام مقرئ رحمہ اللہ امام صاحب سے روایات بیان کرتے تھے ، اگر امام صاحب غلط بیان کرتے تھے تو ثقہ محدث کا ان سے روایات نقل کرنا کوئی منطقی بات نہیں ۔
مطالبہ :
بالفرض اگر اب بھی کوئی نام نہاد اہلحدیث ہمارے جواب کو اپنی غیر مقلدانہ ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے نہیں مانتا تو ہم کہتے ہیں بالفرض ہم نے مان لیا کہ یہ قول ثابت ہے ، اول تو ہماری تاویل یہ ہو گی کہ امام صاحب نے اپنے شاگردوں کے سامنے چند من گھڑت روایات بیان کی ہو گیں کہ یہ روایت فلاں کذاب راوی کی وجہ سے باطل ہے ، یہ روایت فلاں راوی نے من گھڑت بیان کی ۔ تو اس صورت حال میں امام صاحب نے کہا ہو گا یہ جو روایات تمہین بیان کر رہا ہوں یہ غلط ہیں (استاد اپنے شاگردوں کو کھرے کھوٹے کا فرق ایسے ہی بیان کرتا ہے) ، اگر غیر مقلد اس توجیہ سے بھی خوش نہیں تو ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ کم سے کم المقرئ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے واسطے سے وہ روایات ثبوت کے طور پر پیش کریں جو باطل ہیں ، جن کی کوئی اصل نہیں ، جو من گھڑت ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ غیر مقلدین ہر اس روایت کو بھی باطل ، بے اصل اور ضعیف کہیں جو المقرئ سے منقول ہیں خصوصا صحیحین میں 30 سے زائد روایات جن کی سند میں امام المقرئ موجود ہیں۔
اعتراض نمبر 3 :
قال ابن عدي (ج٧ ص٢٤٧٥):
ثنا عبد الملك ثنا يحيى بن عبدك قال سمعت المقريء يقول: حدثنا أبو حنيفة وكان مرجئًا، يمد بها صوته عاليًا، قيل للمقريء: فأنت لم تروي عنه وكان مرجئًا؟ قال: إني أبيع اللحم مع العظام. أهـ.
أَخْبَرَنَا ابن رزق، قَالَ أَخْبَرَنَا جَعْفَر الخلدي، قَالَ: حَدَّثَنَا ابن عَبْد الله بن سُلَيْمَان الحَضْرَمِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن يزيد المُقْرِئ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: دعاني أَبُو حنيفة إلى الإرجاء، فأبيت
حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ عَبد الحميد، حَدَّثَنا ابْن أبي بزة سَمِعت المقري يَقُول، حَدَّثَنا أَبُو حنيفة وكان مرجئا ودعاني إِلَى الإرجاء فأبيت عَلَيْهِ.
امام المقرئ نے کہا کہ ہمیں ابو حنیفہ حدیث بیان کرتے تھے ، اور وہ مرجئہ میں سے تھے اور ارجاء کی طرف دعوت دیتے تھے لیکن میں نے اس سے انکار کیا۔
جواب :
پہلی بات تو یہ کہ اس قول میں جرح جیسا کچھ نہیں. اگر امام مقرئ کا مقصد جرح ہوتا یا انکے نزدیک امام ابو حنیفہ کا عقیدہ بدعت ہوتا تو وہ آخری عمر تک ان سے روایت ہی کیوں کرتے ؟
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امام مقرئ کے نزدیک اگرچہ ارجاء کا عقیدے میں انہیں شاید امام ابو حنیفہ سے اختلاف تھا لیکن اس اختلاف کے باوجود وہ ان سے روایت کرنے کو صحیح تسلیم کرتے تھے. اور ان پر ذاتی حملہ کرنے کے بجائے انہوں نے استاد کا احترام رکھتے ہوئے ان سے روایت حدیث کو ترجیح دی.
جہاں تک بات ہے " گوشت کے ساتھ ہڈی بیچنے" والے جملہ کی تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ امام مقرئ اختلاف کے باوجود فائدہ مند علم کو رد نہیں کرتے تھے . کیونکہ امام مقرئ کے نزدیک امام ابو حنیفہ سے روایت کرنے میں کوئی شرعی عذر مانع نہیں تھا ، اور چونکہ امام ابو حنیفہ فقہ اور حدیث میں انکے نزدیک قابل اعتماد تھے اس لئے اختلاف کے باوجود وہ ہمیشہ ان سے روایت کرتے رہے وہ بھی بغیر کسی جرح کے یا تنقید کے .
رہی بات ارجاء کی تو امام ابو حنیفہ کا عقیدہ اہل سنت کے مطابق تھا جیسا کہ امام شہرستانی نے الملل والنحل میں اور امام عبد القاہر بغدادی نے الفرق بین الفرق میں وضاحت کی ہے.
بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جن محدثین کے نزدیک ارجاء کا عقیدہ بدعت تھا وہ بھی اسے راوی کی عدالت کے مانع نہیں مانتے تھے. اس لئے اگرچہ امام بخاری کسی راوی کو ارجاء کا عقیدہ رکھنے والا بھی کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی صحیح بخاری میں اس سے روایت بھی لاتے ہیں جیسا کہ ایوب بن عائذ اور يحيى الوحاظی دونوں کی طرف امام بخاری نے ارجاء کی نسبت بھی کی ہے اور ساتھ ہی ان سے صحیح بخاری میں روایت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ راوی کی بدعت اسکے ثقہ ہونے کے منافی نہیں.
ٹھیک اسی طرح امام مقرئ کا قول امام ابو حنیفہ کی علمی اور دینی عظمت کے منافی نہیں. بلکہ انکا طریقہ بتا رہا ہے کہ علم کی طلب میں وسعت ظرف اور اختلافات کو برداشت کرنا ضروری ہے اور بڑے حضرات اپنے طرزِ عمل سے آنے والے لوگوں کے لئے اصول اور طریقہ طے کر دیتے ہیں. اور یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ امام ابو حنیفہ کا مرجئہ ہونا اہل السنۃ کے دائرے میں ہی آتا ہے.
مرجئہ اہل سنت اور مرجئہ اہل بدعت
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر جرح: ایک تحقیقی جائزہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ایک بہت اہم موضوع جو کافی زیر بحث رہتا ہے وہ ہے ارجاء کا... اور اس کے قائل یعنی مرجئہ کا... کیونکہ لوگوں کو اس کی زیادہ تفصیل معلوم نہیں اس لیے بے علمی میں لوگ اس پر اعتراض اور بحث کرتے ہیں۔۔۔ اس لیے آج ہم ارجاء اور اس کی تفصیل دیکھیں گے اور جانیں گے کہ مرجئہ اہل سنت اور مرجئہ اہل بدعت میں کیا فرق ہے... اور لوگ کس طرح بے علمی میں مرجئہ اہل بدعت والے اعتراض مرجئہ اہل سنت پر بھی کرتے ہیں...
ارجاء کی تعریف: ارجاء کا اصل معنی ہے تاخیر اور مہلت دینا... جیسا کہ علامہ محمد بن عبدالکریم شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے تعلق سے لکھتے ہیں – ارجاء کے 2 معنی ہیں: - (1) تاخیر کرنا قرآن میں ہے قالوا ارجه واخاه (انہوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی کو مہلت دے) یعنی ان کے بارے میں فیصلہ کرنے میں تاخیر سے کام کرنا چاہیے، انہیں مہلت دینی چاہیے۔..
(2) امید دلانا (یعنی یہ بھروسہ دینا کہ ایمان لانے کے بعد گناہ نقصان نہیں دیتے [جیسا کہ مرجئہ اہل بدعت کا کہنا ہے])
(3) کچھ کے نزدیک ارجاء یہ بھی ہے کہ گناہ کبیرہ کرنے والے کا فیصلہ قیامت پر چھوڑ دیا جائے اور دنیا میں اس کے لیے جنتی یا جہنمی ہونے کا فیصلہ نہ کیا جائے (جیسا کہ مرجئہ اہل سنت کا کہنا ہے)
(4) کچھ کے نزدیک ارجاء یہ بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پہلے خلیفہ کے بجائے 4 خلیفہ قرار دیا جائے... (الملل و النحل 137)
تو اس لحاظ سے جو لوگ کبیرہ گناہ کرنے والے کا فیصلہ اللہ اور قیامت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ اللہ چاہے تو معاف کردے اور جنت میں بھیج دے یا سزا دے کر جہنم میں ڈال دے، وہ سب مرجئہ (اہل سنت) ہیں... اس لیے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدثین کو مرجئہ کہا گیا ہے... جیسا کہ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: پھر رہے کہ قونوی رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو مرجئہ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ کبیرہ گناہ کرنے والے کا فیصلہ اللہ کی رضا پر چھوڑ دیتے ہیں... اور ارجاء کے معنی کی موخر (تاخیر) کرنے کے ہیں۔۔۔ (شرح فقہ الاکبر 64)
تو معلوم ہوا کہ مرجئہ اپنے میں بھی 2 طرح کے لوگ ہیں... ایک مرجئہ اہل بدعت جن کے بارے میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: پھر مرجئہ مذمومہ بدعتی قدریہ سے الگ ایک فرقہ ہے، جن کا عقیدہ یہ ہے کہ ایمان لانے کے بعد کوئی کبیرہ گناہ نقصان دینے والا نہیں جیسا کہ کفر کے بعد کوئی نیکی فائدہ مند نہیں، ان کا ماننا ہے کہ مسلمان جیسا بھی ہو اسے کبیرہ گناہ کے لیے عذاب نہیں دیا جائے گا... بس اس ارجاء (اہل بدعت) اور اس ارجاء (اہل سنت [امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ]) میں کیا نسبت ؟ (شرح فقہ الاکبر 65)
جبکہ مرجئہ اہل سنت یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ: اور ہم یہ نہیں کہتے کہ مومن کے لیے گناہ مضر (نقصان دہ) نہیں اور نہ ہم اس کے قائل ہیں کہ مومن بالکل جہنم میں داخل نہیں ہوگا اور نہ یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اگرچہ فاسق ہو دنیا سے ایمان کی حالت میں نکلا ہو... اور نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہماری تمام نیکیاں مقبول ہیں اور تمام گناہ معاف ہیں جیسا کہ مرجئہ (اہل بدعت) کا عقیدہ ہے۔۔۔ (فقہ الاکبر 227-234)
اس وضاحت سے مرجئہ اہل سنت اور اہل بدعت کے عقیدہ کا صاف واضح فرق پتہ چل گیا اور ایک اہم بات معلوم ہوئی کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ خود مرجئہ (اہل بدعت) کے عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ ان کے خلاف (صحیح) عقیدہ رکھتے ہیں۔۔۔
اب رہی یہ بات کہ پھر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو مرجئہ کیوں کہا گیا اور محدثین نے ان پر اعتراض کیوں کرا... تو بات دراصل یہ ہے کہ ایک تو محدثین کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے اور دوسرا یہ کہ مرجئہ (اہل بدعت) اپنے فرقے کی نسبت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کرتے تھے (تاکہ ان کے باطل عقائد کو کسی بڑے امام کے نام سے سپورٹ مل سکے اور لوگ انہیں صحیح سمجھیں) [یہاں ایک بات قابل غور یہ بھی ہے کہ کچھ لوگ فروعی مسائل میں تو حنفی تھے یعنی عام معاملات میں احناف جیسا نظریہ رکھتے تھے لیکن عقائد میں باطل نظریات کے ماننے والے تھے اب چونکہ وہ اپنی نسبت احناف کی طرف کرتے تھے تو اس لیے یہ سمجھا گیا کہ احناف کا عقیدہ ہی یہ ہے].... اور اس کا رد خود دیگر محدثین نے کرا ہے جیسا کہ امام شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: تعجب ہے کہ غسان (مرجئہ اہل بدعت) بھی اپنے مذہب کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب سا ظاہر کرتا تھا اور امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی مرجئہ شمار کرتا تھا غالبًا یہ جھوٹ ہے... مجھے زندگی عطا کرنے والے کی قسم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب کو تو مرجئہ اہل سنت کہا جاتا تھا۔۔۔ (الملل و النحل 139)
اسی طرح کی بات امام عبدالقادر بن طاہر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کہی ہے۔۔۔ (الفرق بین الفرق 179)
معلوم ہوا کہ غسان اپنے باطل نظریات کو لوگوں میں عام کرنے کے لیے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اپنی نسبت کرتا تھا، جب کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے خود مرجئہ کا رد موجود ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔۔۔
اب ذکر کرتے ہیں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس عقیدہ کی جس کو سمجھانے میں غلط فہمی ہوئی ہے... لیکن اس سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایمان اور اعمال میں فرق کرتے ہیں (یعنی اعمال کو ایمان کا حصہ نہیں مانتے) جب کہ محدثین اعمال کو ایمان کا حصہ تسلیم کرتے ہیں... امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے کہ اور ایمان نام ہے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کرنے کا، اہل آسمان اور اہل زمین کا ایمان گھٹتا بڑھتا نہیں، ایمان اور توحید میں سب مومن برابر ہیں اور اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں (یعنی درجے میں ایک دوسرے سے افضل یا کمتر ہیں) (فقہ الاکبر 251)... جب کہ محدثین کے مطابق اعمال ایمان کا حصہ ہے اور انسان کے ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے... اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی باتوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان درجے اور فضیلت میں ایک دوسرے سے کم یا زیادہ ہوتے ہیں... چونکہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق ایمان اور توحید میں سب ایک جیسے ہیں (یعنی ایک ہی بات کا اقرار اور تصدیق کرتے ہیں کہ اللہ ہی صرف بندگی کے لائق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں – اس معاملے میں اور عقیدہ میں کمی زیادتی نہیں ہوتی سب لوگ اور فرشتے اسی چیز کا اقرار اور تصدیق کرتے ہیں اور اس میں کوئی ایک دوسرے سے افضل یا کمتر نہیں ہوسکتا کیونکہ سبھی ایک ہی چیز کی گواہی دے رہے ہیں)....
فرق اعمال سے پیدا ہوتا ہے جو بندہ جیسے اعمال کرتا ہے اس کا درجہ ویسا ہی بن جاتا ہے... اچھے اعمال سے درجات بلند ہوتے ہیں اور اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے جب کہ برے اعمال سے درجات میں کمی آتی ہے... خلاصہ یہ کہ اعمال انسان کے درجات میں کمی زیادتی کا سبب بنتے ہیں۔۔۔ جب کہ جو محدثین اعمال کو ایمان کا حصہ تسلیم کرتے ہیں ان کے مطابق انسان کے ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے لیکن اگر ہم دیکھیں تو وہ کمی زیادتی بھی اعمال ہی کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی اچھے اعمال کرے تو درجات میں بلندی کے ساتھ ایمان میں زیادتی اور برے اعمال کرے تو درجات میں گراوٹ یعنی ایمان میں کمی... کہنے کا مقصد دونوں ہی معاملات میں نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ کمی اور زیادتی کا سبب اعمال ہیں جیسے اعمال ویسا نتیجہ۔۔۔
یہاں ایک بات قابل غور سے بھی ہے کہ انسان کے اپنے اعمال برباد کرنے سے اس کے ایمان پر اثر نہیں پڑتا، یعنی اگر کوئی مسلمان ظالم ہے یا گنہگار ہے تو اس سے اس کی توحید پر اثر نہیں پڑتا رہتا وہ بھی ایمان والا ہی ہے ہاں ظلم یا گناہ کی وجہ سے سزا کا مستحق ضرور بن جاتا ہے۔۔۔ اس لیے جو مسلمان نیک اعمال کرتا ہے تو جنت کا مستحق بن جاتا ہے لیکن جو گناہ کی وجہ سے جہنم کا مستحق بنتا ہے لیکن آخرکار اپنے ایمان کی وجہ سے آخر میں جنت ضرور جاتا ہے... تو معلوم ہوا کہ اعمال برباد کرنے کی وجہ سے ایمان برباد نہیں ہوتا اور اعمال کے برباد ہونے کی وجہ سے وہ ایمان سے بھی خارج نہیں ہوتا بلکہ رہتا ایمان والا ہی ہے۔۔۔ اس بات سے ایمان اور اعمال میں فرق کو سمجھا جا سکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے اچھا ہونے سے دوسرا اچھا نہیں ہوتا اسی طرح کسی ایک کے خراب ہونے کا اثر دوسرے پر نہیں پڑتا۔۔۔ ایمان صحیح ہے تو یہ دلیل نہیں کہ اعمال بھی صحیح ہوں گے اور ایمان ہی صحیح نہیں تو اچھے اعمال کسی کام کے نہیں... خلاصہ یہ کہ اگر انسان کے کوئی نیک اعمال ہی اس کے کھاتے میں نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا ایمان بھی ختم ہو گیا، بلکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان بچا کر اس دنیا سے لے گیا وہ تو جنت میں (ایک دن ضرور) جائے گا۔۔۔
تو یہ اختلاف صرف لفظی ہے یعنی بات امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین ایک ہی کہہ رہے ہیں بیان کرنے کا انداز الگ الگ ہے۔۔۔ مثال کے طور پر کوئی کہے کہ جنت میں جانے کا آسان طریقہ کیا ہے ایک شخص کہے کہ نیک اعمال کرو جنت میں پہنچ جاؤ گے جب کہ دوسرا شخص کہے کہ گناہوں سے بچ جاؤ جنت میں پہنچ جاؤ گے اب اگرچہ دونوں شخصوں کے مشورے اور الفاظوں میں فرق ہے لیکن نتیجہ جنت میں انٹری ہی ہے، اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کے بیچ بات کو بیان کرنے میں فرق ہے لیکن دونوں کا نتیجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان کے درجات میں کمی زیادتی ہوتی ہے اور وہ کمی زیادتی اعمال ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔۔۔
اس لیے صدر الدین علی بن محمد رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ایمان کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ اہل سنت کے درمیان جو اختلاف ہے وہ محض لفظی اختلاف ہے۔۔۔ (شرح عقیدہ طحاویہ 462)
اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ نزاع (اختلاف) صرف لفظی ہے۔۔۔ (تفہیمات الہیہ 28/1)
اب ذکر کرتے ہیں کہ کیا صرف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی مرجئہ اہل سنت والا عقیدہ رکھتے ہیں اور کیا صرف انہیں ہی مرجئہ کہا گیا ہے...
امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: مسعر (بن کدام رحمۃ اللہ علیہ)، حماد بن ابی سلیمان رحمۃ اللہ علیہ، نعمان (بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ)، عمرو بن مرہ رحمۃ اللہ علیہ، عبد العزیز بن ابی رواد رحمۃ اللہ علیہ، ابو معاویہ رحمۃ اللہ علیہ، عمر بن زر رحمۃ اللہ علیہ یہ سب مرجئہ (اہل سنت) تھے...
میں (امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ) کہتا ہوں ارجاء تو بڑے بڑے علماء کی جماعت کا مذہب رہا ہے، اس کے قائل پر گرفت (اعتراض) نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ (میزان الاعتدال 99/4)
امام شہرستانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
جیسے کہ منقول ہے ان لوگوں کو مرجئہ کہا گیا ہے حضرت حسن بن محمد بن علی بن ابی طالب رحمۃ اللہ علیہ، امام سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ، حضرت طلق بن حبیب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت عمرو بن مرہ رحمۃ اللہ علیہ، محارب بن دثار رحمۃ اللہ علیہ، مقاتل بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ، ضر رحمۃ اللہ علیہ، عمر بن ضر رحمۃ اللہ علیہ، حماد بن ابی سلیمان رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ، امام محمد بن حسن رحمۃ اللہ علیہ، قدید بن جعفر رحمۃ اللہ علیہ... حالانکہ یہ سب حدیث کے امام ہیں اور کبیرہ گناہ کرنے والے کی تکفیر کے قائل نہیں اور اس کے ابدی (ہمیشہ) جہنمی کا حکم نہیں لگاتے... برخلاف خوارج اور قدریہ کے (وہ ایسا کرتے ہیں) (الملل و النحل 142)
اسی طرح امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
بعض محدثین نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر ارجاء کا الزام لگایا ہے حالانکہ اہل علم میں سے ایسے لوگ کثرت سے موجود ہیں جن کو مرجئہ کہا گیا ہے... لیکن جس طرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی امامت کی وجہ سے اس میں برا پہلو ظاہر کیا گیا ہے دوسروں کے بارے میں ایسا نہیں کیا گیا... اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض حضرات ان سے بہت جلتے تھے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے تھے جن سے ان کا دامن بالکل پاک تھا... اور ان کے بارے میں نامناسب باتیں گھڑی (بنائی) جاتی تھی، حالانکہ علماء کی ایک بڑی جماعت نے ان کی تعریف کی ہے اور ان کی فضیلت کا اقرار کیا ہے۔۔۔ (جامع بیان العلم 1081)
معلوم ہوا کہ ارجاء بہت سے محدثین کا مذہب ہے اور اس کے ماننے والوں پر اعتراض کرنا صحیح نہیں۔۔۔
اصل مضمون کا لنک
Murjiah AhLe Sunnat aur Murjiah AhLe Bid’at
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں