نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 102 : کہ ابوبکر بن عیاش نے اسماعیل بن حماد سے کہا کہ تیرے دادا نے کتنی ہی حرام شرمگاہوں کو حلال کر دیا تھا۔


 اعتراض نمبر 102 :

 کہ ابوبکر بن عیاش نے اسماعیل بن حماد سے کہا کہ تیرے دادا نے کتنی ہی حرام شرمگاہوں کو حلال کر دیا تھا۔


أخبرنا ابن رزق، حدثنا عثمان بن أحمد الدقاق، حدثنا إدريس بن عبد الكريم قال: سمعت يحيى بن أيوب قال: حدثنا صاحب لنا ثقة. قال: كنت جالسا عند أبي بكر بن عياش فجاء إسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة، فسلم وجلس، فقال أبو بكر: من هذا؟ فقال: أنا إسماعيل يا أبا بكر، فضرب أبو بكر يده على ركبة إسماعيل ثم قال: كم من فرج حرام أباحه جدك؟

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ عبارت میں 《کم》 لا کر کثرت کو ظاہر کیا گیا ہے مگر اس میں سے کوئی ایک مثال بھی ذکر نہیں کی گئی تا کہ ہم اس کی طرف توجہ کرتے اور اس خبر کی سند میں ابن

رزق اور ابو عمرو بن السماک ہیں اور سند میں یوں کہنا کہ ہمارے ایک ساتھی نے بیان کیا ہے

جو ثقہ ہے تو یہ محدثین کے ہاں راوی کی جہالت کو دور نہیں کرتا بلکہ اس کی وجہ سے راوی

مجہول رہتا ہے۔ تو اس جیسی سند کے ساتھ ابن عیاش سے بالکل خبر ثابت نہیں ہو سکتی۔ 

اور اس کے بعد والی خبر[1] میں تینوں ساتھی (ابن رزق ،  ابن سلم اور الابار) ہیں۔ 

اور اس سے بعد والی سند[2] میں محمد بن العباس الخزاز اور ابو معمر اسماعیل بن ابراہیم الہروی ہیں اور خطیب نے خود پہلے ص 327 میں ابوبکر بن عیاش کا قول نقل کیا ہے کہ اس نے کہا کہ بے شک ابو حنیفہ کو اس لیے مارا گیا کہ اس نے قضاء تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا[3] اور یہاں کہہ رہا ہے کہ اس لیے مارا تھا کہ اس نے کپڑا بننے والے جولاہوں کا چودھری بننے سے انکار کر دیا تھا۔ 

حالانکہ پہلی خبر ہی صحیح ہے اور یہاں ابوبکر بن عیاش پر بہتان باندھا گیا ہے۔ 

علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ قضاء تسلیم کرنے سے انکار کی وجہ سے اس کو مارا جانا تواتر سے ثابت ہے۔

 بے شک خطیب کا ناک خاک آلود ہو۔ اور میں بعینہ رسوائی ہے۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]۔أخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا العباس بن صالح قال: سمعت أسود بن سالم يقول: قال أبو بكر بن عياش: سود الله وجه أبي حنيفة.

سند میں عباس بن صالح نا معلوم ہیں ، کتاب کے محقق دکتور بشار عواد کو بھی ان کا تعارف نہیں مل سکا ، لہذا یہ سند ضعیف ہے۔


[2]۔أخبرني أبو عبد الله محمد بن عبد الواحد، أخبرنا محمد بن العباس، حدثنا أحمد بن نصر الحافظ، حدثنا إبراهيم بن عبد الرحيم، حدثنا أبو معمر قال: قال أبو بكر بن عياش: يقولون إن أبا حنيفة ضرب على القضاء، إنما ضرب على أن يكون عريفا على طرز حاكة الخزازين.


یہ روایت کہ کہا جاتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کو قضا (جج بننے) کے لیے مجبور کیا گیا، لیکن حقیقت میں انہیں خزازین (ریشم کے کپڑے بنانے والوں) کے بافندوں کی نگرانی (عریف بننے) پر مجبور کیا گیا تھا ، متن میں صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہیکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو قضاء کا عہدہ پیش کیا گیا تھا ، جس پر انکار سے ان کو کوڑے لگائے گئے ، قید کیا گیا اور اسی قید میں وہ اس جہاں فانی سے ابدی جہاں کی طرف کوچ کر گئے۔ امام صاحب کے تمام سیرت نگار اس پر متفق ہیں ۔ لہذا ابو بکر بن عیاش رحمہ اللہ کا یہ انوکھا منفرد دعوی صحیح نہیں ہے ، اور کپڑے بنائے جانے والی جگہ میں نگرانی کا عہدہ ، ایسا کوئی عہدہ نہیں ہیکہ جس کے انکار پر حاکم کوڑے لگائے اور قید کروائے ، اور امام صاحب کی جہاں تعریف ہو رہی ہو وہاں بھی  لوگ اسے اعتراض میں بدل دیتے تھے ، مثلا

  حدثني أبو جعفر أحمد بن محمد بن سلامة قال: ثنا إبراهيم بن أبي داود قال: ثنا علي بن معبد بن شداد قال: ثنا عبيد الله بن عمر الرقي قال: ضرب ابن هبيرة أبا حنيفة على أن يلي له القضاء، فأبى أن يفعل، فقال الناس: استتابه.

ابن ہبیرہ نے امام ابو حنیفہؒ کو قاضی بننے پر مجبور کرنے کے لیے انہیں کوڑے لگائے، لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے انکار کر دیا۔ (متعصب یا حقیقت سے لاعلم) لوگوں نے کہا : ابن ہبیرہ نے ان سے توبہ کروا لی۔

(فضائل أبي حنيفة وأخباره لابن أبي العوام ت بہرائچی ص 66 ، سند بالکل صحیح ہے)

امام صاحب کے خلاف جھوٹ اتنا پھیلایا گیا کہ بعض ثقة لوگوں کو بھی وہ جھوٹ سچ لگنے لگا۔ اس کی واضح مثال اوپر بیان ہوئی ۔


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 41 : المقرئ ، المحدث ، أبو بكر بن عياش کی نظر میں امام اعظم ابو حنیفہ کا مقام و مرتبہ 

[3]۔ أَخْبَرَنَا أَبُو الحسن علي بن القاسم بن الحسن الشاهد بالبصرة، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن إسحاق المادرائي، قال: سمعت إبراهيم بن عُمَر الدهقان، يقول: سمعت أبا معمر، يقول: سمعت أبا بكر بن عياش، يقول: إن أبا حنيفة ضرب على القضاء

تاریخ بغداد ت بشار 14/449






تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...