امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان ایک مناظرہ
مَا ذُكِرَ مِنْ مُنَاظَرَةِ الشَّافِعِيِّ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ وَغَيْرِهِ
أنا أَبُو الْحَسَنِ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: أَيُّهُمَا أَعْلَمُ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ ، يَعْنِي: مَالِكًا وَأَبَا حَنِيفَةَ.
قُلْتُ: عَلَى الإِنْصَافِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِالْقُرْآنِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ، يَعْنِي مَالِكًا.
قُلْتُ: فَمَنْ أَعْلَمُ بِالسُّنَّةِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ صَاحِبُكُمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِأَقَاوِيلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُتَقَدِّمِينَ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ.
قَالَ الشَّافِعِيُّ: قُلْتُ: فَلَمْ يَبْقَ إِلا الْقِيَاسُ، وَالْقِيَاسُ لا يَكُونُ إِلا عَلَى هَذِهِ الأَشْيَاءِ، فَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الأُصُولَ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ يِقِيسُ
(كتاب آداب الشافعي ومناقبه - ط العلمية ١٢٠ ، الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ١/١٣ ، تاريخ الإسلام - ت بشار ٤/٧٢٨)
جس کا خلاصہ سے یہ ہے کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ہر علم میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر ترجیح دیتے تھے۔
جواب: یہ واقعہ بھی خلاف عقل و نقل ہے۔
کیونکہ پہلی بات اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو پھر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ آخری وقت تک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کے پابند کیوں رہے؟
کیوں وہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی تائید میں کتابیں لکھتے تھے؟
کیونکہ انہوں نے (امام مالک رحمۃ اللہ علیہ) اور اہل مدینہ کے رد میں کتاب لکھی لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے رد میں کتاب نہیں لکھی۔
پھر بات امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی لوٹ کر آتی ہے کہ پھر کیوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کو اہمیت دیتے ہیں اور فقہ میں سب سے زیادہ احسان امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا مانتے ہیں؟
کیوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے اونٹوں کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے نہیں؟
کیوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کی دلیل میں حدیثیں نقل کرتے ہیں لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے معاملے میں ایسا نہیں کرتے؟
دراصل اس روایت کی بنیاد ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے جھوٹ کی طرف امام ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ اور امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ (شاگرد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ) نے اشارہ کیا ہے۔ حالانکہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "میزان الاعتدال" میں ابن عبدالحکم کا دفاع کرتے ہوئے اسے جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والا نہیں کہا لیکن اتنی بات امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی منظور ہے کہ ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔
وہی غلطی اس واقعے میں بھی نظر آتی ہے جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ مالکی فقہ کو ماننے والے تھے ان کی روایت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف کیسے قبول ہو سکتی ہے جبکہ روایت میں کئی نقص (کمیاں اور غلطیاں) صاف واضح ہیں…
پھر خود ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے رد میں
"الرد على الشافعي فيما يخالف فيه القرآن"
نام کی کتاب لکھی ہے
(تاریخ الاسلام 410/6 ، طبقات الشافعية الكبرى للسبكي ٢/٦٩ ، اصطلاح المذهب عند المالكية ١/١٣٢ )
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ خود امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی قرآن
و سنت کے خلاف عمل کرنے والا سمجھتے تھے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں