نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 107 : کہ امام شافعی نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ کے اصحاب کی کتابوں میں ایک کتاب دیکھی جس کے ایک سو تیس اوراق تھے تو ان میں سے میں نے اسی اوراق ایسے شمار کیے جو کہ کتاب وسنت کے خلاف تھے۔


 اعتراض نمبر 107 : 


کہ امام شافعی نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ کے اصحاب کی کتابوں میں ایک کتاب دیکھی جس کے ایک سو تیس اوراق تھے تو ان میں سے میں نے اسی اوراق ایسے شمار کیے جو کہ کتاب وسنت کے خلاف تھے۔  ابو محمد نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیاد ہی غلط تھی تو جو مسائل ان سے نکالے گئے تو وہ بھی غلط ہی رہے۔


أخبرنا أحمد بن محمد العتيقي والحسن بن جعفر السلماسي والحسن بن علي الجوهري قالوا: أخبرنا علي بن عبد العزيز البرذعي، أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم، أخبرنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال: قال لي محمد بن إدريس الشافعي: نظرت في كتب لأصحاب أبي حنيفة، فإذا فيها مائة وثلاثون ورقة، فعددت منها ثمانين ورقة خلاف الكتاب والسنة. قال أبو محمد:

لأن الأصل كان خطأ فصارت الفروع ماضية على الخطأ.

وقال ابن أبي حاتم: حدثني الربيع بن سليمان المرادي قال: سمعت الشافعي يقول: أبو حنيفة يضع أول المسألة خطأ ثم يقيس الكتاب كله عليها.

وقال أيضا: حدثنا أبي، حدثنا هارون بن سعيد الأيلي قال: سمعت الشافعي يقول: ما أعلم أحدا وضع الكتاب أدل على عوار قوله من أبي حنيفة.

الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ خطیب نے ابو حنیفہ کا ترجمہ شروع کرنے سے لے کر یہاں تک صبر کیا کہ امام شافعی سے ابوحنیفہ پر عیب والی کوئی روایت ذکر نہ کی۔ حلانکہ اس نے ابو حنیفہ کے خاص اصحاب کی اس بارہ میں روایات ذکر کی ہیں۔ اور یہاں اس نے اپنے دل کو ٹھنڈا کیا اور امام شافعی سے چار روایات اس ضمن میں ذکر کی ہیں۔ اور بے شک البرذعی جن حالات میں گھرا ہوا ہے، ان کو واضح کر کے میں پہلی روایت کی سند میں کلام نہیں کروں گا اور نہ ان وجوہ کو بیان کروں گا جو جرح میں اس کے شیخ کا ضد بازی میں مشہور ہونا ثابت ہے۔ اور نہ اس کو بیان کروں گا جو اس پر اس کا وہ اعتقاد املاء کرواتا تھا جو اس نے حرب بن اسماعیل سے سیکھا تھا۔ 

اور نہ ہی وہ باتیں نقل کروں گا جو ابن عبد الحکم کے بارہ میں الحميدی اور الربيع الموذن نے کہی ہیں۔ بلکہ میں متعین کرتا ہوں کہ بے شک اس روایت کا متن جس کو امام شافعی رحمہ اللہ نے محمد بن عبد الحکم کے پاس راز رکھا یہ تو اس روایت کے خلاف ہے ، 

امام شافعی سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ سارے لوگ فقہ میں ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔ 

اور یہ بھی تواتر سے ثابت ہے کہ انہوں نے امام محمد بن الحسن سے اس قدر کتابوں کا علم حاصل کیا جو ایک اونٹ کا بوجھ بن جاتا ہے اور یہ کہ انہوں نے کہا کہ فقہ میں تمام لوگوں سے بڑھ کر احسان مجھ پر امام محمد کا ہے[1]۔ 

اور اس کے علاوہ بھی صریح روایات موجود ہیں جو اہل علم کی کتابوں میں اسناد کے ساتھ لکھی ہوتی ہیں۔اور خود خطیب نے اپنی تاریخ میں ان کو لکھا ہے۔ بلکہ میں یہاں صرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تینوں مطبوعہ نسخوں میں اور دار الکتب المصریہ کے قلمی نسخہ میں اس مقام پر جو نص نقل کی گئی ہے وہ غلط ہے۔

اور یہاں اس لیے کہ اس میں 《کتب 》کا کلمہ نکرہ واقع ہے جو کہ ابو حنیفہ کے تمام اصحاب کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ان اوراق کو اصحاب ابی حنیفہ کی تمام کتب قرار نہیں دیا جا سکتا۔

کیونکہ روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ ایسی کتابیں تھیں جن کے صرف ایک سو بیس ورق تھے بلکہ اوراق کی یہ تعداد تو بتلاتی ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی کتاب ہی ہوگی۔

 اور یہ چھوٹی سی کتاب ابو حنیفہ کے تمام اصحاب کی تالیف تو نہیں ہو سکتی بلکہ صرف کسی ایک کی ہوگی اور یہ تو میرے خیال کے مطابق بالکل ظاہر اور واضح بات ہے۔ 

تو شاید اصل روایت یوں ہو کہ "میں نے ابو حنیفہ کے کسی ساتھی کی ایک چھوٹی سی کتاب دیکھی جس کے ایک سو تیس اوراق تھے تو میں نے اس میں اسی اوراق کتاب و سنت کے خلاف شمار کیے"۔

 تو اصل عبارت کے نقل کرنے میں یا تو لکھنے والے نے غلطی کی یا راویوں میں سے کسی سے غلطی ہوئی۔ یہاں تک کہ عبارت کی وہ شکل بن گئی جو بیان ہوئی ہے۔

 اور ہم امام شافعی کی شان بہت بلند سمجھتے ہیں اس سے کہ انہوں نے کوئی غیر معقول بات کہی ہو۔ پس امام شافعی نے صرف محمد بن الحسن سے جو علم حاصل کیا وہ کتابیں پورے ایک بختی اونٹ کا بوجھ ہیں۔ اور اس کا اعتراف خود ان کو ہے۔ اور امام محمد بن الحسن کی جن کتابوں کا مطالعہ امام شافعی نے کیا وہ بھی تمام اصحاب ابی حنیفہ کی کتابیں نہ تھیں بلکہ انہوں نے ابو یوسف کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا ہے اور ان کتابوں میں صرف الامالی کی تین سو کے قریب جلدیں ہیں اور امام شافعی نے وكيع بن الجراح اور اسد بن عمرو اور یوسف بن خالد السمتی وغیرہ اصحاب ابی حنیفہ سے بہت کچھ سنا ہے اور ان کی کتابوں سے تو کتب خانے بھرے ہوئے ہیں۔

 اور بعض کتابیں تو ایسی ہیں کہ ان کے اوراق اتنے ہیں کہ امام شافعی کی تمام تالیفات کے کلمات اور جملے بھی اتنے نہ ہوں گے۔ 

تو اس صورت میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ بے شک اس کا قول صرف ایسی چھوٹی سی کتاب کے بارہ میں ہے جس کے صرف اتنے اوراق ہوں تو اگر وہ اس مذکورہ کتاب کا صراحت سے ذکر کر دیتے اور اس کے مسائل میں سے جو کتاب و سنت کے خلاف تھے ان کو ظاہر کر دیتے تو اس میں امام شافعی کا کیا بگڑتا تھا۔جبکہ وہ اس کتاب کے دو ثلث مسائل تھے۔

 پس اگر وہ ایسا کر دیتے تو ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کا مولف اگر زندہ ہوتا تو صحیح بات کی طرف رجوع کر لیتا۔ 

یا وہ اس کا جواب دے دیتا اور اگر مرگیا ہوتا تو اس کے شاگردوں میں سے ہی کوئی اٹھ کھڑا ہوتا جو اس کا جواب لکھ دیتا تو اس کو لینے یا جواب دینے کا نفع عام ہو جاتا اور مسائل میں سے غلط اور

درست واضح ہو جاتے۔

 اور اگر فرض کر لیا جائے کہ ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے کسی نے ایک چھوٹی سی کتاب میں اکثر مسائل غلط لکھے ہیں تو اس کی وجہ سے ابوحنیفہ پر کیا اعتراض ہے؟ 

اور خود امام شافعی نے ان مسائل سے رجوع کیا جو کتاب الحجہ میں جمع ہیں جو سارے کے سارے ان کے قدیم مسائل مشہور ہیں اور اس کو دھو ڈالنے اور اس سے اعراض کرنے کا حکم دیا۔ 

اور وہ تو بہت بڑی جلد ہے جس کے اوراق آٹھ سو سے کم نہ ہوں گے۔ 

اور اگر امام شافعی ان قدیم اقوال کو کتاب وسنت کے خلاف نہ سمجھتے تو ان سے رجوع نہ کرتے اور نہ ہی اس بارہ میں اتنا تشدد کرتے۔ 

تو امام شافعی کے لیے کیسے گنجائش ہو سکتی ہے کہ وہ کسی کو ایسی خطاء پر عار دلائیں جو خطاء ان کی اپنی خطاء کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے۔

 اور یہ عالم جس کی خطا فرض کی گئی ہے اس نے تو ابھی تک اپنی خطا کا اعتراف کیا ہی نہیں جیسا کہ اعتراف امام شافعی نے اپنے قدیم مسائل کی غلطی کا کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس چھوٹی سی کتاب کے لکھنے والے کے پاس ایسے دلائل ہوں جو معترض کے اعتراض کو دفع کر سکیں۔

 اگر یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ اعتراض کیا تھے ؟

 اور علماء میں یہ پایا جاتا ہے کہ وہ جلد بازی میں کسی بات کو

کتاب و سنت کے خلاف ہونے کا حکم دے دیتے ہیں۔

 مگر جب گہری نظر سے اس کلام میں غور کیا جاتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ جس کو کتاب و سنت کے خلاف قرار دیا گیا ہے وہ تو کتاب و سنت کے بالکل موافق ہے۔ اور یہی بات درست ہے!

 اور ہاں یہاں ایک راوی محمد بن عبد الله بن عبد الحکم جو امام شافعی سے اس روایت کا راوی ہے اس نے خود ایک کتاب لکھی جس کا نام اس نے رکھا 《ما خالف فيه الشافعي كتاب الله وسنة رسوله》 (يعنى اس کتاب میں وہ مسائل بتلائے گئے ہیں جن میں امام شافعی نے کتاب اللہ اور سنت رسول کی مخالفت کی ہے) جیسا کہ اس کا ذکر ابن السبکی وغیرہ نے کیا ہے۔ 

تو کیا ہم اس کی اس بات کی بھی تصدیق کر دیں صرف یہ دیکھتے ہوئے کہ اس راوی کی تعریف میں ابن خزیمہ نے بہت مبالغہ کیا ہے۔ 

کیونکہ اس نے کہا ہے کہ آسمان کے نیچے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو محمد بن عبد الله بن عبد الحکم سے زیادہ صحابہ اور تابعین کے اختلاف کو جاننے والا ہو۔ 

اور اگر اصل حکایت میں عبارت یوں ہوتی کہ امام شافعی نے کہا ہوتا کہ میں نے ابوحنیفہ کی کتاب میں دیکھا تو پھر سند کی خرابی سے چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے وہ معنی درست ہو سکتا تھا جو مخالف لے رہا ہے۔ مگر بے شک کلام مرسل ہے جو کچھ منہ میں آیا کہہ دیا گیا ہے اس کی وضاحت کیے بغیر کہ ابو حنیفہ کی کتابوں میں سے وہ کونسی کتاب تھی؟

 اور بہر حال وہ روایت جو خطیب نے امام شافعی سے کی ہے کہ بے شک اس نے کہا کہ ابو حنیفہ پہلے غلط مسئلہ گھڑتے ہیں پھر ساری کتاب کو اس پر قیاس کرتے ہیں۔

 تو ہم اس کی سند کے راویوں کے بارہ میں کلام نہیں کرتے۔ اگرچہ ان میں پہلی سند کے راویوں کے ساتھ الربیع المرادی بھی ہے جس کے بارہ میں ابو یزید القراطیسی کلام کرتے ہیں۔ پھر جو اس نے کہا ہے ہم بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بے شک مجتہد کبھی فروعی مسائل میں غلطی کر جاتا ہے۔ اور ابوحنیفہ کے بھی فقہ میں بعض ابواب اس قبیل سے ہیں۔ پس کتاب الوقف میں انہوں نے قاضی شریح کے قول کو لیا اور اس کو بنیاد بنا کر اس کے مطابق مسائل نکالے تو اس کتاب کے فروع غیر مقبول ٹھہرے۔ یہاں تک کہ ان مسائل کو ان کے دونوں ساتھیوں (ابو يوسف اور محمد) نے بھی رد کر دیا۔

 اور اسی طرح انہوں نے کتاب المزارعہ میں ابراہیم النخعی کے قول کو بنیاد بنایا تو اس پر فروعی مسائل نکالے لیکن ابو حنیفہ کے اس قبیل سے جو مسائل ہیں ان کی تعداد تو ایک ہاتھ کی انگلیوں تک بھی نہیں پہنچتی۔ 

خلاف اس کے کہ عیب لگانے والے (یعنی امام شافعی، اگر ان سے یہ حکایت ثابت ہو جائے) کے مسائل اس قبیل سے اس کثرت سے ہیں کہ ان کے ہم مذہب بڑے بڑے فقہاء حیران رہ جاتے ہیں تو آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ عمل کے لیے مذہب میں قدیم اور جدید مسائل کے درمیان سے مسئلہ انتخاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ 

اور جن مسائل میں ان کے اماموں کے دو دو قول پائے جاتے ہیں ان کے جوابات دیتے ہیں۔ پھر وہ شکوہ کرتے ہیں کہ یہاں اصول کے مطابق فروع میں طریق اختیار نہیں کیا گیا اور اصل اور فروع میں مطابقت نہیں ہے۔ 

اور اس کی وضاحت کا یہ موقعہ نہیں۔

اس کا مقام اور ہے اور بہر حال ابو جعفر الایلی نے جو امام شافعی کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ بے شک وہ کسی آدمی کو نہیں جانتے کہ اس نے کتاب لکھی ہو اور وہ اس کے قول کی ، کمزوری پر دلالت کرتی ہو۔

 جتنا کہ ابوحنیفہ کی کتاب اس کے قول کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے اور اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بے شک ابوحنیفہ ضعف کے مقامات میں اپنے کلام میں اخفاء کے طریق پر نہ چلتے تھے (یعنی اگر قول میں کچھ کمزوری ہوتی تو وہ اس کمزوری کو چھپاتے نہیں تھے اور یہ تو علم میں اس کی امانت داری ہے۔ اور جو اس نے یہ قول اس کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ کی رائے کو جادوگر کے دھاگے کے مشابہ دیکھا ہے ادھر کھینچتا ہے تو سبز ہوتا ہے، ادھر کھینچتا ہے تو زرد ہو جاتا ہے[2]۔ 

تو اس حکایت کی سند میں ابن رزق اور ابو عمرو بن السماک ہیں تو ہم یقین نہیں کر سکتے کہ امام شافعی نے ابوحنیفہ کی فقہ کے بارہ میں اس قسم کی کلام کی ہو۔ 

حالانکہ آپ کو علم ہے کہ وہ اور اس کے اصحاب اپنی کتاب میں اس کا ذکر تعریف کے ساتھ اور ان کے حق میں دعاء کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔

 اور جن باتوں کا جواب دینا چاہتے ہوں ان کا جواب دلیل سے دینے میں عاجز نہ تھے کہ وہ بے حیاء لوگوں جیسے شور شرابے کی پناہ لیتے۔ 

نیز یہ بات بھی ہے کہ یہ بات منافی ہے اس کے جو پہلے بیان ہو چکی کہ بے شک اگر ابو حنیفہ کی کلام میں کوئی عیب ہوتا تو وہ اپنے کلام میں عیب کو واضح چھوڑتے تھے تا کہ دیکھنے والا اس کی رائے کو دیکھ سکے، پھر وہ غلطی میں نہ پڑے جیسا کہ یہ عادت ہوتی ہے ان لوگوں کی جو اپنے دین کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ہاں یہ بات ہے کہ ابو حنیفہ اپنے اصحاب کے ساتھ مسائل کا مذاکرہ کرنے کے دوران مسئلہ میں ایک احتمال ذکر کرتے تو وہ لوگ ان کی تائید کرتے جو ان کے ارد گرد ہوتے تھے۔

 پھر وہ اپنے اصحاب سے پوچھتے کہ ان کے پاس اس سے معارض کوئی صورت ہے تو پیش کرے تو جب وہ محسوس کرتے کہ یہ لوگ اس صورت کو ماننے کے راستہ پر چل پڑے ہیں تو خود اس کے الٹ صورت پیش کرتے جو پہلے پیش کی ہوتی تھی۔

 اور وہ اس انداز سے پیش کرتے تھے کہ سامعین ان کی دوسری رائے کو درست قرار دینے میں اکتفا

کر لیتے تو پھر وہ ان سے پوچھتے کہ اس نئی رائے کے بارہ میں ان کے پاس کوئی اعتراض ہے تو پیش کریں تو جب وہ دیکھتے کہ ان کے پاس کچھ نہیں تو تیسری صورت پیش کر دیتے تو سارے کے سارے اس تیسری رائے کی طرف منتقل ہو جاتے اور پھر آخر میں ان تمام صورتوں میں سے ایک کے بارہ میں فیصلہ فرماتے کہ یہی صورت درست ہے۔ اور اس کو مضبوط دلائل کے ساتھ ثابت کرتے۔

 اور یہ جادوگر کے دھاگے کی قبیل سے نہیں ہے بلکہ یہ تو فقہ سیکھنے سکھانے میں ایسا امتیازی طریق ہے جو اس نے اور اس کے اصحاب فقہاء نے اختیار کیا۔ 

اور ابن ابی العوام نے ابراہیم بن احمد بن سهل - القاسم بن عسان عن ابیہ۔ ابو سليمان الجوزجانی۔

محمد بن الحسن کی سند نقل کر کے کہا کہ محمد بن الحسن نے کہا کہ ابو حنیفہ بغداد تشریف لاتے تھے تو ان کے تمام اصحاب جمع ہو جاتے اور ان میں ابو یوسف ، زفر اور اسد بن عمرو اور اس کے اصحاب میں عام متقدمین فقہاء ہوتے تھے۔

 تو ایک دفعہ ان کو ایک ایسا مسئلہ معلوم ہو گیا جس کو دلائل کی تائید حاصل تھی اور انہوں نے اس کو مضبوط کرنے میں بڑی ترتیب سے کام لیا۔ 

اور کہنے لگے کہ جب ابو حنیفہ رحمہ اللہ تشریف لائیں گے تو ہم پہلے ہی مسئلہ ان سے پوچھیں گے۔ 

تو جب ابو حنیفہ رحمہ اللہ تشریف لائے تو اسی مسئلہ کے بارہ میں انہوں نے پہلے ان سے

پوچھا تو جو جواب ان لوگوں نے تیار کر رکھا تھا ابو حنیفہ نے اس کے علاوہ جواب دیا تو وہ حلقہ کے کناروں سے زور زور سے بولنے لگے۔

 اے ابو حنیفہ تیرا شہر مسافری کا ہے( یعنی اس میں تیرا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے) تو اس نے ان سے کہا نرمی کرو نرمی کرو۔

 تم کیا کہتے ہو تو انہوں نے کہا کہ بات اس طرح نہیں ہے جو تم نے کہی ہے ، تو اس نے کہا کہ کیا بات دلیل سے ہو گی یا بغیر دلیل کے؟ تو انہوں نے کہا کہ دلیل سے ہوگی۔

 تو انہوں نے کہا کہ لاؤ دلیل پیش کرو۔ 

پھر اس نے ان سے مناظرہ کیا تو دلائل کے ساتھ ان پر غالب آگیا۔ یہاں تک کہ ان کو اپنے قول کی طرف پھیر دیا۔ 

اور انہوں نے یقین کر لیا کہ وہ غلطی پر تھے تو اس نے

کہا کہ کیا تم اب سمجھ چکے ہو تو انہوں نے کہا ہاں۔ 

تو اس نے کہا کہ تمہارا اس شخص کے بارہ میں کیا نظریہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہ بات غلط ہے اور تمہاری ہی بات صحیح تھی۔ 

تو وہ کہنے لگے کہ ایسا نہیں ہو سکتا بے شک یہی بات صحیح ہے۔

 تو ان سے مناظرہ کیا۔ 

یہاں تک کہ ان کو بات سے پھیر دیا۔ تو وہ کہنے لگے اے ابو حنیفہ پہلے تو نے ہمیں ہمارے قول سے پھیر کر ظلم کیا کیونکہ حق تو ہمارے ساتھ تھا۔ تو اس نے کہا کہ تمہارا اس شخص کے بارے میں کیا نظریہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ پہلی بات بھی غلط تھی اور یہ دوسری بات بھی غلط ہے اور درست تیسری بات ہے۔

 تو وہ کہنے لگے کہ ایسا نہیں ہو سکتا تو اس نے کہا پس غور سے سنو اور اس نے تیسرا قول گھڑ لیا اور اس پر ان سے مناظرہ کیا یہاں تک کہ ان کو اپنے قول کی طرف پھیر دیا تو انہوں نے یقین کر لیا۔ 

اور وہ کہنے لگے اے ابو حنیفہ ہمیں بتاؤ کہ ان میں سے درست صورت کون سی ہے تو اس نے کہا کہ درست پہلی بات ہی تھی جو میں نے تمہیں جواب میں کہی تھی اور اس علت کی وجہ سے وہ درست ہے۔

 اور یہ مسئلہ ان ہی تین صورتوں سے نہیں لگتا (بلکہ اور صورت بھی بن سکتی ہے) اور ان میں سے ہر ایک پہلو کی فقہ میں دلیل موجود ہے۔

 مگر یہ صورت درست ہے اس کو لے لو اور اس کے ماسوا کو چھوڑ دو۔ الخ۔[3]

 اگر عیب لگانے والا اس کو جادو سمجھتا ہے تو یہ نعمانی جادو ہے جس نے فقھاء کی عقلوں پر جادو کیا یہاں تک کہ عیب لگانے والے پر بھی۔

 یہ بابلی جادو نہیں ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرتا ہے۔ 

اور فقہ کی جماعت اسی طرح کی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے تو اس کے اصحاب امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

اور ابن ابی العوام نے محمد بن احمد بن حماد - محمد بن شجاع - الحسن بن ابی مالک - ابو یوسف کی سند نقل کر کے کہا کہ ابو یوسف نے کہا کہ جب ابو حنیفہ کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتا تھا تو وہ کہتے کہ تمہارے پاس اس کے بارہ میں کیا اقوال ہیں ؟ تو جب ہم آثار روایت کرتے اور ذکر کرتے اور جو چیز ان کے پاس ہوتی وہ بھی اس کو ذکر کر دیتے تو پھر غور و فکر کرتے۔ پھر اگر دو مختلف اقوال میں سے ایک میں آثار زیادہ ہوتے تو اس کو لے لیتے۔ 

اگر دونوں قولوں میں (صحابہ و تابعین کے اقوال قریب قریب اور برابر ہوتے تو) نظر و فکر کے بعد ان میں سے ایک کو اختیار کر لیتے تھے۔ الخ [4] 


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔ 


[1]۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے امام محمد رحمہ اللہ کی تعریف و توثیق پر دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود 

● سلسلہ دفاع امام محمد ، قسط نمبر 1 :

 الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی

 امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں (مکمل )

 از حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ


[2]۔ أخبرنا ابن رزق، حدثنا عثمان بن أحمد الدقاق، حدثنا محمد بن إسماعيل الرقي، حدثني أحمد بن سنان بن أسد القطان قال: سمعت الشافعي يقول:

ما شبهت رأي أبي حنيفة إلا بخيط السحارة يمد كذا فيجئ أخضر، ويمد كذا فيجئ أصفر.


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ بِشْرٍ الْوَاسِطِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ سِنَانٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «مَا شَبَّهْتُ رَأْيَ أَبِي حَنِيفَةَ إِلَّا بِخَيْطِ سَحَارٍ إِذَا مَدَدْتَهُ كَذَا خَرَجَ أَصْفَرَ وَإِذَا مَدَدْتَهُ كَذَا خَرَجَ أَحْمَرَ»

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة ٩/‏١١٦ )


امام شافعی فرماتے ہیں "میں نے امام ابو حنیفہ کے رائے کی مشابہت صرف جادوگر کے دھاگے سے کی ہے، جو یوں بڑھتا ہے تو سبز آتا ہے، اور یوں بڑھتا ہے تو زرد آتا ہے۔"

جواب : یہاں یہ معلوم نہیں کہ ابو حنیفہ سے کون مراد ہیں؟ نعمان بن ثابت(امام اعظم)؟ یا امام شافعی کے استاد (ابو حنیفہ بن سماک بن فضل الشھابی) یاان کے شاگرد (ابو حنیفہ یعنی قحزم بن عبداللہ)؟۔بالفرض اگر ثابت ہو کہ یہاں مراد ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ہیں تو تب بھی مجتہد ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے ، بلکہ اس جرح سے امام شافعی کا رجوع ثابت ہے اور آپ امام اعظم نعمان بن ثابت کو سب سے بڑا فقیہ مانتے تھے (تاریخ بغداد 15/474:سند صحیح) ،امام شافعی فرماتے ہیں جو شخص ابو حنیفہ کی کتابیں نہیں دیکھے گا ، وہ فقہ میں ماہر نہیں ہو سکتا (اخبار ابی حنیفہ صیمری 87 ، سند حسن) اور امام صاحب سے آخری دم تک روایت کرتے رہے (سنن کبری بیہقی 8/167)۔

یہ جرح امام شافعی کے استاد یا شاگرد کے بارے میں ہو سکتی ہے کیونکہ آداب الشافعی ومناقب 1/130 میں ہیکہ" امام شافعی کہتے جب ابو حنیفہ غلطی کرتے ان کے شاگرد کہتے صحیح جواب یہ نہیں ہے"۔ یہاں امام شافعی آنکھوں دیکھا حال بتا رہے جو کہ امام اعظم کے دور کا تو ہو نہیں سکتا کیونکہ امام شافعی کی پیدائش ، امام صاحب کے وفات کے سال ہے۔اسی طرح جرح اپنے شاگرد ابو حنیفہ(قحزم) پر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ وہ بھی مفتی تھے اور کتب میں نقل کرتے ہوئے غلطی ممکن ہے ان سے بھی۔ایک فرق یہ بھی ہیکہ جب امام شافعی امام ابو حنیفہ کے بارے میں کچھ کہتے تھے تو ساتھ رضی اللہ عنہ لکھتے تھے (الام 6/226) لہذا یہ سب اس بات کی طرف اشارہ ہیکہ یہاں جرح امام ابو حنیفہ(نعمان بن ثابت) پر نہیں ہے ، اگر تھی بھی تو رجوع ہو چکا ہے۔ 

[3]۔ فضائل أبي حنيفة وأخباره لابن أبي العوام ت بہرائچی ص 111، 112 ۔


[4]  قارئین دیکھیں :  "النعمان سوشل میڈیا سروسز"  کی ویب سائٹ پر موجود


اعتراض نمبر 34 : امام شافعی رحمہ اللہ  سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح : 


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر21 : "امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں"























تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...