اعتراض نمبر 107 : کہ امام شافعی نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ کے اصحاب کی کتابوں میں ایک کتاب دیکھی جس کے ایک سو تیس اوراق تھے تو ان میں سے میں نے اسی اوراق ایسے شمار کیے جو کہ کتاب وسنت کے خلاف تھے۔
اعتراض نمبر 107 :
کہ امام شافعی نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ کے اصحاب کی کتابوں میں ایک کتاب دیکھی جس کے ایک سو تیس اوراق تھے تو ان میں سے میں نے اسی اوراق ایسے شمار کیے جو کہ کتاب وسنت کے خلاف تھے۔ ابو محمد نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیاد ہی غلط تھی تو جو مسائل ان سے نکالے گئے تو وہ بھی غلط ہی رہے۔
أخبرنا أحمد بن محمد العتيقي والحسن بن جعفر السلماسي والحسن بن علي الجوهري قالوا: أخبرنا علي بن عبد العزيز البرذعي، أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم، أخبرنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال: قال لي محمد بن إدريس الشافعي: نظرت في كتب لأصحاب أبي حنيفة، فإذا فيها مائة وثلاثون ورقة، فعددت منها ثمانين ورقة خلاف الكتاب والسنة. قال أبو محمد:
لأن الأصل كان خطأ فصارت الفروع ماضية على الخطأ.
وقال ابن أبي حاتم: حدثني الربيع بن سليمان المرادي قال: سمعت الشافعي يقول: أبو حنيفة يضع أول المسألة خطأ ثم يقيس الكتاب كله عليها.
وقال أيضا: حدثنا أبي، حدثنا هارون بن سعيد الأيلي قال: سمعت الشافعي يقول: ما أعلم أحدا وضع الكتاب أدل على عوار قوله من أبي حنيفة.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ خطیب نے ابو حنیفہ کا ترجمہ شروع کرنے سے لے کر یہاں تک صبر کیا کہ امام شافعی سے ابوحنیفہ پر عیب والی کوئی روایت ذکر نہ کی۔ حلانکہ اس نے ابو حنیفہ کے خاص اصحاب کی اس بارہ میں روایات ذکر کی ہیں۔ اور یہاں اس نے اپنے دل کو ٹھنڈا کیا اور امام شافعی سے چار روایات اس ضمن میں ذکر کی ہیں۔ اور بے شک البرذعی جن حالات میں گھرا ہوا ہے، ان کو واضح کر کے میں پہلی روایت کی سند میں کلام نہیں کروں گا اور نہ ان وجوہ کو بیان کروں گا جو جرح میں اس کے شیخ کا ضد بازی میں مشہور ہونا ثابت ہے۔ اور نہ اس کو بیان کروں گا جو اس پر اس کا وہ اعتقاد املاء کرواتا تھا جو اس نے حرب بن اسماعیل سے سیکھا تھا۔
اور نہ ہی وہ باتیں نقل کروں گا جو ابن عبد الحکم کے بارہ میں الحميدی اور الربيع الموذن نے کہی ہیں۔ بلکہ میں متعین کرتا ہوں کہ بے شک اس روایت کا متن جس کو امام شافعی رحمہ اللہ نے محمد بن عبد الحکم کے پاس راز رکھا یہ تو اس روایت کے خلاف ہے ،
امام شافعی سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ سارے لوگ فقہ میں ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔
اور یہ بھی تواتر سے ثابت ہے کہ انہوں نے امام محمد بن الحسن سے اس قدر کتابوں کا علم حاصل کیا جو ایک اونٹ کا بوجھ بن جاتا ہے اور یہ کہ انہوں نے کہا کہ فقہ میں تمام لوگوں سے بڑھ کر احسان مجھ پر امام محمد کا ہے[1]۔
اور اس کے علاوہ بھی صریح روایات موجود ہیں جو اہل علم کی کتابوں میں اسناد کے ساتھ لکھی ہوتی ہیں۔اور خود خطیب نے اپنی تاریخ میں ان کو لکھا ہے۔ بلکہ میں یہاں صرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تینوں مطبوعہ نسخوں میں اور دار الکتب المصریہ کے قلمی نسخہ میں اس مقام پر جو نص نقل کی گئی ہے وہ غلط ہے۔
اور یہاں اس لیے کہ اس میں 《کتب 》کا کلمہ نکرہ واقع ہے جو کہ ابو حنیفہ کے تمام اصحاب کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ ان اوراق کو اصحاب ابی حنیفہ کی تمام کتب قرار نہیں دیا جا سکتا۔
کیونکہ روایت کے الفاظ ہیں کہ وہ ایسی کتابیں تھیں جن کے صرف ایک سو بیس ورق تھے بلکہ اوراق کی یہ تعداد تو بتلاتی ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سی کتاب ہی ہوگی۔
اور یہ چھوٹی سی کتاب ابو حنیفہ کے تمام اصحاب کی تالیف تو نہیں ہو سکتی بلکہ صرف کسی ایک کی ہوگی اور یہ تو میرے خیال کے مطابق بالکل ظاہر اور واضح بات ہے۔
تو شاید اصل روایت یوں ہو کہ "میں نے ابو حنیفہ کے کسی ساتھی کی ایک چھوٹی سی کتاب دیکھی جس کے ایک سو تیس اوراق تھے تو میں نے اس میں اسی اوراق کتاب و سنت کے خلاف شمار کیے"۔
تو اصل عبارت کے نقل کرنے میں یا تو لکھنے والے نے غلطی کی یا راویوں میں سے کسی سے غلطی ہوئی۔ یہاں تک کہ عبارت کی وہ شکل بن گئی جو بیان ہوئی ہے۔
اور ہم امام شافعی کی شان بہت بلند سمجھتے ہیں اس سے کہ انہوں نے کوئی غیر معقول بات کہی ہو۔ پس امام شافعی نے صرف محمد بن الحسن سے جو علم حاصل کیا وہ کتابیں پورے ایک بختی اونٹ کا بوجھ ہیں۔ اور اس کا اعتراف خود ان کو ہے۔ اور امام محمد بن الحسن کی جن کتابوں کا مطالعہ امام شافعی نے کیا وہ بھی تمام اصحاب ابی حنیفہ کی کتابیں نہ تھیں بلکہ انہوں نے ابو یوسف کی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا ہے اور ان کتابوں میں صرف الامالی کی تین سو کے قریب جلدیں ہیں اور امام شافعی نے وكيع بن الجراح اور اسد بن عمرو اور یوسف بن خالد السمتی وغیرہ اصحاب ابی حنیفہ سے بہت کچھ سنا ہے اور ان کی کتابوں سے تو کتب خانے بھرے ہوئے ہیں۔
اور بعض کتابیں تو ایسی ہیں کہ ان کے اوراق اتنے ہیں کہ امام شافعی کی تمام تالیفات کے کلمات اور جملے بھی اتنے نہ ہوں گے۔
تو اس صورت میں یہی ثابت ہوتا ہے کہ بے شک اس کا قول صرف ایسی چھوٹی سی کتاب کے بارہ میں ہے جس کے صرف اتنے اوراق ہوں تو اگر وہ اس مذکورہ کتاب کا صراحت سے ذکر کر دیتے اور اس کے مسائل میں سے جو کتاب و سنت کے خلاف تھے ان کو ظاہر کر دیتے تو اس میں امام شافعی کا کیا بگڑتا تھا۔جبکہ وہ اس کتاب کے دو ثلث مسائل تھے۔
پس اگر وہ ایسا کر دیتے تو ہو سکتا ہے کہ اس کتاب کا مولف اگر زندہ ہوتا تو صحیح بات کی طرف رجوع کر لیتا۔
یا وہ اس کا جواب دے دیتا اور اگر مرگیا ہوتا تو اس کے شاگردوں میں سے ہی کوئی اٹھ کھڑا ہوتا جو اس کا جواب لکھ دیتا تو اس کو لینے یا جواب دینے کا نفع عام ہو جاتا اور مسائل میں سے غلط اور
درست واضح ہو جاتے۔
اور اگر فرض کر لیا جائے کہ ابو حنیفہ کے اصحاب میں سے کسی نے ایک چھوٹی سی کتاب میں اکثر مسائل غلط لکھے ہیں تو اس کی وجہ سے ابوحنیفہ پر کیا اعتراض ہے؟
اور خود امام شافعی نے ان مسائل سے رجوع کیا جو کتاب الحجہ میں جمع ہیں جو سارے کے سارے ان کے قدیم مسائل مشہور ہیں اور اس کو دھو ڈالنے اور اس سے اعراض کرنے کا حکم دیا۔
اور وہ تو بہت بڑی جلد ہے جس کے اوراق آٹھ سو سے کم نہ ہوں گے۔
اور اگر امام شافعی ان قدیم اقوال کو کتاب وسنت کے خلاف نہ سمجھتے تو ان سے رجوع نہ کرتے اور نہ ہی اس بارہ میں اتنا تشدد کرتے۔
تو امام شافعی کے لیے کیسے گنجائش ہو سکتی ہے کہ وہ کسی کو ایسی خطاء پر عار دلائیں جو خطاء ان کی اپنی خطاء کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے۔
اور یہ عالم جس کی خطا فرض کی گئی ہے اس نے تو ابھی تک اپنی خطا کا اعتراف کیا ہی نہیں جیسا کہ اعتراف امام شافعی نے اپنے قدیم مسائل کی غلطی کا کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس چھوٹی سی کتاب کے لکھنے والے کے پاس ایسے دلائل ہوں جو معترض کے اعتراض کو دفع کر سکیں۔
اگر یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ اعتراض کیا تھے ؟
اور علماء میں یہ پایا جاتا ہے کہ وہ جلد بازی میں کسی بات کو
کتاب و سنت کے خلاف ہونے کا حکم دے دیتے ہیں۔
مگر جب گہری نظر سے اس کلام میں غور کیا جاتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ جس کو کتاب و سنت کے خلاف قرار دیا گیا ہے وہ تو کتاب و سنت کے بالکل موافق ہے۔ اور یہی بات درست ہے!
اور ہاں یہاں ایک راوی محمد بن عبد الله بن عبد الحکم جو امام شافعی سے اس روایت کا راوی ہے اس نے خود ایک کتاب لکھی جس کا نام اس نے رکھا 《ما خالف فيه الشافعي كتاب الله وسنة رسوله》 (يعنى اس کتاب میں وہ مسائل بتلائے گئے ہیں جن میں امام شافعی نے کتاب اللہ اور سنت رسول کی مخالفت کی ہے) جیسا کہ اس کا ذکر ابن السبکی وغیرہ نے کیا ہے۔
تو کیا ہم اس کی اس بات کی بھی تصدیق کر دیں صرف یہ دیکھتے ہوئے کہ اس راوی کی تعریف میں ابن خزیمہ نے بہت مبالغہ کیا ہے۔
کیونکہ اس نے کہا ہے کہ آسمان کے نیچے کوئی آدمی ایسا نہیں ہے جو محمد بن عبد الله بن عبد الحکم سے زیادہ صحابہ اور تابعین کے اختلاف کو جاننے والا ہو۔
اور اگر اصل حکایت میں عبارت یوں ہوتی کہ امام شافعی نے کہا ہوتا کہ میں نے ابوحنیفہ کی کتاب میں دیکھا تو پھر سند کی خرابی سے چشم پوشی سے کام لیتے ہوئے وہ معنی درست ہو سکتا تھا جو مخالف لے رہا ہے۔ مگر بے شک کلام مرسل ہے جو کچھ منہ میں آیا کہہ دیا گیا ہے اس کی وضاحت کیے بغیر کہ ابو حنیفہ کی کتابوں میں سے وہ کونسی کتاب تھی؟
اور بہر حال وہ روایت جو خطیب نے امام شافعی سے کی ہے کہ بے شک اس نے کہا کہ ابو حنیفہ پہلے غلط مسئلہ گھڑتے ہیں پھر ساری کتاب کو اس پر قیاس کرتے ہیں۔
تو ہم اس کی سند کے راویوں کے بارہ میں کلام نہیں کرتے۔ اگرچہ ان میں پہلی سند کے راویوں کے ساتھ الربیع المرادی بھی ہے جس کے بارہ میں ابو یزید القراطیسی کلام کرتے ہیں۔ پھر جو اس نے کہا ہے ہم بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بے شک مجتہد کبھی فروعی مسائل میں غلطی کر جاتا ہے۔ اور ابوحنیفہ کے بھی فقہ میں بعض ابواب اس قبیل سے ہیں۔ پس کتاب الوقف میں انہوں نے قاضی شریح کے قول کو لیا اور اس کو بنیاد بنا کر اس کے مطابق مسائل نکالے تو اس کتاب کے فروع غیر مقبول ٹھہرے۔ یہاں تک کہ ان مسائل کو ان کے دونوں ساتھیوں (ابو يوسف اور محمد) نے بھی رد کر دیا۔
اور اسی طرح انہوں نے کتاب المزارعہ میں ابراہیم النخعی کے قول کو بنیاد بنایا تو اس پر فروعی مسائل نکالے لیکن ابو حنیفہ کے اس قبیل سے جو مسائل ہیں ان کی تعداد تو ایک ہاتھ کی انگلیوں تک بھی نہیں پہنچتی۔
خلاف اس کے کہ عیب لگانے والے (یعنی امام شافعی، اگر ان سے یہ حکایت ثابت ہو جائے) کے مسائل اس قبیل سے اس کثرت سے ہیں کہ ان کے ہم مذہب بڑے بڑے فقہاء حیران رہ جاتے ہیں تو آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ عمل کے لیے مذہب میں قدیم اور جدید مسائل کے درمیان سے مسئلہ انتخاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اور جن مسائل میں ان کے اماموں کے دو دو قول پائے جاتے ہیں ان کے جوابات دیتے ہیں۔ پھر وہ شکوہ کرتے ہیں کہ یہاں اصول کے مطابق فروع میں طریق اختیار نہیں کیا گیا اور اصل اور فروع میں مطابقت نہیں ہے۔
اور اس کی وضاحت کا یہ موقعہ نہیں۔
اس کا مقام اور ہے اور بہر حال ابو جعفر الایلی نے جو امام شافعی کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ بے شک وہ کسی آدمی کو نہیں جانتے کہ اس نے کتاب لکھی ہو اور وہ اس کے قول کی ، کمزوری پر دلالت کرتی ہو۔
جتنا کہ ابوحنیفہ کی کتاب اس کے قول کی کمزوری پر دلالت کرتی ہے اور اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بے شک ابوحنیفہ ضعف کے مقامات میں اپنے کلام میں اخفاء کے طریق پر نہ چلتے تھے (یعنی اگر قول میں کچھ کمزوری ہوتی تو وہ اس کمزوری کو چھپاتے نہیں تھے اور یہ تو علم میں اس کی امانت داری ہے۔ اور جو اس نے یہ قول اس کی طرف منسوب کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابوحنیفہ کی رائے کو جادوگر کے دھاگے کے مشابہ دیکھا ہے ادھر کھینچتا ہے تو سبز ہوتا ہے، ادھر کھینچتا ہے تو زرد ہو جاتا ہے[2]۔
تو اس حکایت کی سند میں ابن رزق اور ابو عمرو بن السماک ہیں تو ہم یقین نہیں کر سکتے کہ امام شافعی نے ابوحنیفہ کی فقہ کے بارہ میں اس قسم کی کلام کی ہو۔
حالانکہ آپ کو علم ہے کہ وہ اور اس کے اصحاب اپنی کتاب میں اس کا ذکر تعریف کے ساتھ اور ان کے حق میں دعاء کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔
اور جن باتوں کا جواب دینا چاہتے ہوں ان کا جواب دلیل سے دینے میں عاجز نہ تھے کہ وہ بے حیاء لوگوں جیسے شور شرابے کی پناہ لیتے۔
نیز یہ بات بھی ہے کہ یہ بات منافی ہے اس کے جو پہلے بیان ہو چکی کہ بے شک اگر ابو حنیفہ کی کلام میں کوئی عیب ہوتا تو وہ اپنے کلام میں عیب کو واضح چھوڑتے تھے تا کہ دیکھنے والا اس کی رائے کو دیکھ سکے، پھر وہ غلطی میں نہ پڑے جیسا کہ یہ عادت ہوتی ہے ان لوگوں کی جو اپنے دین کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ہاں یہ بات ہے کہ ابو حنیفہ اپنے اصحاب کے ساتھ مسائل کا مذاکرہ کرنے کے دوران مسئلہ میں ایک احتمال ذکر کرتے تو وہ لوگ ان کی تائید کرتے جو ان کے ارد گرد ہوتے تھے۔
پھر وہ اپنے اصحاب سے پوچھتے کہ ان کے پاس اس سے معارض کوئی صورت ہے تو پیش کرے تو جب وہ محسوس کرتے کہ یہ لوگ اس صورت کو ماننے کے راستہ پر چل پڑے ہیں تو خود اس کے الٹ صورت پیش کرتے جو پہلے پیش کی ہوتی تھی۔
اور وہ اس انداز سے پیش کرتے تھے کہ سامعین ان کی دوسری رائے کو درست قرار دینے میں اکتفا
کر لیتے تو پھر وہ ان سے پوچھتے کہ اس نئی رائے کے بارہ میں ان کے پاس کوئی اعتراض ہے تو پیش کریں تو جب وہ دیکھتے کہ ان کے پاس کچھ نہیں تو تیسری صورت پیش کر دیتے تو سارے کے سارے اس تیسری رائے کی طرف منتقل ہو جاتے اور پھر آخر میں ان تمام صورتوں میں سے ایک کے بارہ میں فیصلہ فرماتے کہ یہی صورت درست ہے۔ اور اس کو مضبوط دلائل کے ساتھ ثابت کرتے۔
اور یہ جادوگر کے دھاگے کی قبیل سے نہیں ہے بلکہ یہ تو فقہ سیکھنے سکھانے میں ایسا امتیازی طریق ہے جو اس نے اور اس کے اصحاب فقہاء نے اختیار کیا۔
اور ابن ابی العوام نے ابراہیم بن احمد بن سهل - القاسم بن عسان عن ابیہ۔ ابو سليمان الجوزجانی۔
محمد بن الحسن کی سند نقل کر کے کہا کہ محمد بن الحسن نے کہا کہ ابو حنیفہ بغداد تشریف لاتے تھے تو ان کے تمام اصحاب جمع ہو جاتے اور ان میں ابو یوسف ، زفر اور اسد بن عمرو اور اس کے اصحاب میں عام متقدمین فقہاء ہوتے تھے۔
تو ایک دفعہ ان کو ایک ایسا مسئلہ معلوم ہو گیا جس کو دلائل کی تائید حاصل تھی اور انہوں نے اس کو مضبوط کرنے میں بڑی ترتیب سے کام لیا۔
اور کہنے لگے کہ جب ابو حنیفہ رحمہ اللہ تشریف لائیں گے تو ہم پہلے ہی مسئلہ ان سے پوچھیں گے۔
تو جب ابو حنیفہ رحمہ اللہ تشریف لائے تو اسی مسئلہ کے بارہ میں انہوں نے پہلے ان سے
پوچھا تو جو جواب ان لوگوں نے تیار کر رکھا تھا ابو حنیفہ نے اس کے علاوہ جواب دیا تو وہ حلقہ کے کناروں سے زور زور سے بولنے لگے۔
اے ابو حنیفہ تیرا شہر مسافری کا ہے( یعنی اس میں تیرا ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہے) تو اس نے ان سے کہا نرمی کرو نرمی کرو۔
تم کیا کہتے ہو تو انہوں نے کہا کہ بات اس طرح نہیں ہے جو تم نے کہی ہے ، تو اس نے کہا کہ کیا بات دلیل سے ہو گی یا بغیر دلیل کے؟ تو انہوں نے کہا کہ دلیل سے ہوگی۔
تو انہوں نے کہا کہ لاؤ دلیل پیش کرو۔
پھر اس نے ان سے مناظرہ کیا تو دلائل کے ساتھ ان پر غالب آگیا۔ یہاں تک کہ ان کو اپنے قول کی طرف پھیر دیا۔
اور انہوں نے یقین کر لیا کہ وہ غلطی پر تھے تو اس نے
کہا کہ کیا تم اب سمجھ چکے ہو تو انہوں نے کہا ہاں۔
تو اس نے کہا کہ تمہارا اس شخص کے بارہ میں کیا نظریہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہ بات غلط ہے اور تمہاری ہی بات صحیح تھی۔
تو وہ کہنے لگے کہ ایسا نہیں ہو سکتا بے شک یہی بات صحیح ہے۔
تو ان سے مناظرہ کیا۔
یہاں تک کہ ان کو بات سے پھیر دیا۔ تو وہ کہنے لگے اے ابو حنیفہ پہلے تو نے ہمیں ہمارے قول سے پھیر کر ظلم کیا کیونکہ حق تو ہمارے ساتھ تھا۔ تو اس نے کہا کہ تمہارا اس شخص کے بارے میں کیا نظریہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ پہلی بات بھی غلط تھی اور یہ دوسری بات بھی غلط ہے اور درست تیسری بات ہے۔
تو وہ کہنے لگے کہ ایسا نہیں ہو سکتا تو اس نے کہا پس غور سے سنو اور اس نے تیسرا قول گھڑ لیا اور اس پر ان سے مناظرہ کیا یہاں تک کہ ان کو اپنے قول کی طرف پھیر دیا تو انہوں نے یقین کر لیا۔
اور وہ کہنے لگے اے ابو حنیفہ ہمیں بتاؤ کہ ان میں سے درست صورت کون سی ہے تو اس نے کہا کہ درست پہلی بات ہی تھی جو میں نے تمہیں جواب میں کہی تھی اور اس علت کی وجہ سے وہ درست ہے۔
اور یہ مسئلہ ان ہی تین صورتوں سے نہیں لگتا (بلکہ اور صورت بھی بن سکتی ہے) اور ان میں سے ہر ایک پہلو کی فقہ میں دلیل موجود ہے۔
مگر یہ صورت درست ہے اس کو لے لو اور اس کے ماسوا کو چھوڑ دو۔ الخ۔[3]
اگر عیب لگانے والا اس کو جادو سمجھتا ہے تو یہ نعمانی جادو ہے جس نے فقھاء کی عقلوں پر جادو کیا یہاں تک کہ عیب لگانے والے پر بھی۔
یہ بابلی جادو نہیں ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرتا ہے۔
اور فقہ کی جماعت اسی طرح کی ہوتی ہے اور اسی وجہ سے تو اس کے اصحاب امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔
اور ابن ابی العوام نے محمد بن احمد بن حماد - محمد بن شجاع - الحسن بن ابی مالک - ابو یوسف کی سند نقل کر کے کہا کہ ابو یوسف نے کہا کہ جب ابو حنیفہ کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتا تھا تو وہ کہتے کہ تمہارے پاس اس کے بارہ میں کیا اقوال ہیں ؟ تو جب ہم آثار روایت کرتے اور ذکر کرتے اور جو چیز ان کے پاس ہوتی وہ بھی اس کو ذکر کر دیتے تو پھر غور و فکر کرتے۔ پھر اگر دو مختلف اقوال میں سے ایک میں آثار زیادہ ہوتے تو اس کو لے لیتے۔
اگر دونوں قولوں میں (صحابہ و تابعین کے اقوال قریب قریب اور برابر ہوتے تو) نظر و فکر کے بعد ان میں سے ایک کو اختیار کر لیتے تھے۔ الخ [4]
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ امام شافعی رحمہ اللہ سے امام محمد رحمہ اللہ کی تعریف و توثیق پر دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
● سلسلہ دفاع امام محمد ، قسط نمبر 1 :
الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی
امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں (مکمل )
از حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ
[2]۔ أخبرنا ابن رزق، حدثنا عثمان بن أحمد الدقاق، حدثنا محمد بن إسماعيل الرقي، حدثني أحمد بن سنان بن أسد القطان قال: سمعت الشافعي يقول:
ما شبهت رأي أبي حنيفة إلا بخيط السحارة يمد كذا فيجئ أخضر، ويمد كذا فيجئ أصفر.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ بِشْرٍ الْوَاسِطِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ سِنَانٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «مَا شَبَّهْتُ رَأْيَ أَبِي حَنِيفَةَ إِلَّا بِخَيْطِ سَحَارٍ إِذَا مَدَدْتَهُ كَذَا خَرَجَ أَصْفَرَ وَإِذَا مَدَدْتَهُ كَذَا خَرَجَ أَحْمَرَ»
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة ٩/١١٦ )
امام شافعی فرماتے ہیں "میں نے امام ابو حنیفہ کے رائے کی مشابہت صرف جادوگر کے دھاگے سے کی ہے، جو یوں بڑھتا ہے تو سبز آتا ہے، اور یوں بڑھتا ہے تو زرد آتا ہے۔"
جواب : یہاں یہ معلوم نہیں کہ ابو حنیفہ سے کون مراد ہیں؟ نعمان بن ثابت(امام اعظم)؟ یا امام شافعی کے استاد (ابو حنیفہ بن سماک بن فضل الشھابی) یاان کے شاگرد (ابو حنیفہ یعنی قحزم بن عبداللہ)؟۔بالفرض اگر ثابت ہو کہ یہاں مراد ابو حنیفہ نعمان بن ثابت ہیں تو تب بھی مجتہد ایک اجر کا مستحق ہوتا ہے ، بلکہ اس جرح سے امام شافعی کا رجوع ثابت ہے اور آپ امام اعظم نعمان بن ثابت کو سب سے بڑا فقیہ مانتے تھے (تاریخ بغداد 15/474:سند صحیح) ،امام شافعی فرماتے ہیں جو شخص ابو حنیفہ کی کتابیں نہیں دیکھے گا ، وہ فقہ میں ماہر نہیں ہو سکتا (اخبار ابی حنیفہ صیمری 87 ، سند حسن) اور امام صاحب سے آخری دم تک روایت کرتے رہے (سنن کبری بیہقی 8/167)۔
یہ جرح امام شافعی کے استاد یا شاگرد کے بارے میں ہو سکتی ہے کیونکہ آداب الشافعی ومناقب 1/130 میں ہیکہ" امام شافعی کہتے جب ابو حنیفہ غلطی کرتے ان کے شاگرد کہتے صحیح جواب یہ نہیں ہے"۔ یہاں امام شافعی آنکھوں دیکھا حال بتا رہے جو کہ امام اعظم کے دور کا تو ہو نہیں سکتا کیونکہ امام شافعی کی پیدائش ، امام صاحب کے وفات کے سال ہے۔اسی طرح جرح اپنے شاگرد ابو حنیفہ(قحزم) پر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ وہ بھی مفتی تھے اور کتب میں نقل کرتے ہوئے غلطی ممکن ہے ان سے بھی۔ایک فرق یہ بھی ہیکہ جب امام شافعی امام ابو حنیفہ کے بارے میں کچھ کہتے تھے تو ساتھ رضی اللہ عنہ لکھتے تھے (الام 6/226) لہذا یہ سب اس بات کی طرف اشارہ ہیکہ یہاں جرح امام ابو حنیفہ(نعمان بن ثابت) پر نہیں ہے ، اگر تھی بھی تو رجوع ہو چکا ہے۔
[3]۔ فضائل أبي حنيفة وأخباره لابن أبي العوام ت بہرائچی ص 111، 112 ۔
[4]
۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
کچھ لوگ امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح نقل کرتے ہیں۔ آج کی پوسٹ میں ہم ان جرحوں کا جائزہ لیں گے... ان شاء اللہ۔
جرح نمبر 1:
أخبرنا أحمد بن محمد العتيقي والحسن بن جعفر السلماسي والحسن بن علي الجوهري قالوا: أخبرنا علي بن عبد العزيز البرذعي،
وقال ابن أبي حاتم: حدثني الربيع بن سليمان المرادي قال: سمعت الشافعي يقول: أبو حنيفة يضع أول المسألة خطأ ثم يقيس الكتاب كله عليها.
وقال أيضا: حدثنا أبي، حدثنا هارون بن سعيد الأيلي قال: سمعت الشافعي يقول: ما أعلم أحدا وضع الكتاب أدل على عوار قوله من أبي حنيفة.
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں (امام) ابو حنیفہ رحمہ اللہ پہلے غلط مسئلہ گھڑتے ہیں پھر ساری کتاب اسی پر قیاس کرتے ہیں (تاریخ بغداد ت بشار 567/15)۔
جواب 1: یہاں یہ واضح نہیں کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کون مراد ہیں، کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے ایک استاد کا نام بھی ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہے اور ایک شاگرد کا نام بھی ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہے۔ اس قول سے واضح نہیں ہوتا کہ یہاں کن ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بات ہو رہی ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کے استاد ابو حنیفہ رحمہ اللہ :
قال الشافعي أخبرني أبو حنيفة بن سماك بن الفضل الشهابي
( الرسالة - الإمام الشافعي - الصفحة ٤٥٠ )
الدولابي في الكنى والأسماء (ج ١ ص ١٥٩ و ١٦٠) قال:
«وأبو حنيفة بن سماك بن الفضل، روى عنه الشافعي». ثم قال: «حدثنا الربيع بن سليمان الشافعي قال: أنبأنا محمد بن إدريس الشافعي قال: حدثنا أبو حنيفة بن سماك بن الفضل الشهابي
اور شاگرد ابو حنیفہ رحمہ اللہ :
333 - قحزم بن عبد الله بن قحزم، أبو حنيفة الأسواني الفقيه.
وقال ابن عبد البر : يروي عن الشافعي كثيرا من كتبه ، وكان مفتيا وأصله من القبط، كتب كثيرا من كتب الشافعي وصحبه ، وروى عنه عشرة أجزاء.
(الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء - ابن عبد البر - الصفحة ١١٥)
جواب 2: بالفرض مان لیں کہ یہاں ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مراد امام نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ہیں، تو کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اجتہادی امر کی بات ہو رہی ہے کیونکہ غلطی عام طور پر اسی میں ہوتی ہے۔ لیکن اگر بالفرض یہ بھی مان لیں کہ واقعی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے کسی مسئلے میں غلطی ہوئی، تب بھی وہ قابل اعتراض نہیں بلکہ حدیث رسول ﷺ کی روشنی میں مجتہد کو ایک اجر (ثواب) پھر بھی ملے گا۔
جواب 3: اگر یہ مانیں کہ یہ جرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر ہے، تو ہم کہیں گے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس سے رجوع کر لیا تھا کیونکہ آپ سے صحیح سند سے منقول ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو سب سے بڑا فقیہ مانتے ہیں، جیسا کہ تاریخ بغداد 474/15 میں نقل کیا گیا ہے۔
أَخْبَرَنَا علي بن القاسم، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن إسحاق المادرائي، قَالَ: حَدَّثَنَا زكريا بن عَبْد الرَّحْمَن، قَالَ: حَدَّثَنِي عبد الله بن أَحْمَد، قال: قال هارون بن سعيد: سمعت الشافعي، يقول: ما رأيت أحدا أفقه من أبي حنيفة
اور جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ اپنی کتاب "الام" میں جگہ جگہ (امام محمد رحمہ اللہ کے ساتھ) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے لیے "رضی اللہ عنہ" استعمال کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں ان لوگوں کی کیا اہمیت تھی۔
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - وَأَخْبَرَنِي أَبُو يُوسُفَ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ .....
قال أخبرني محمد بن الحسن أن أبا حنيفة رضي الله تعالى عنه
(الام 6/226)
جواب 4: تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ اپنے آخری وقت تک (اور ان سے روایت کرنے والے ربیع بن سلیمان رحمہ اللہ بھی اپنے آخری وقت تک، پھر ان سے روایت کرنے والے راوی بھی اپنے آخری وقت تک) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے تھے۔ جو دلیل ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی باتوں کا جو مطلب مخالفین نے سمجھا ہے وہ درست نہیں۔
١٦٣٠٩ - أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، أنبأ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أنبأ الشَّافِعِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، أنبأ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ﵁ أَنَّهُ قَالَ: عَقْلُ الْمَرْأَةِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ عَقْلِ الرَّجُلِ فِي النَّفْسِ، وَفِيمَا دُونَهَا
(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية ٨/١٦٧ )
١٥٩٢٨ - وَأَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، أنبأ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أنبأ الشَّافِعِيُّ، أنبأ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، أنبأ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ،
( السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية ٨/٥٩ )
١٦٠٧٤ - أَخْبَرَنَا أَبُو سَعِيدِ بْنُ أَبِي عَمْرٍو، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ، أنبأ الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، أنبأ الشَّافِعِيُّ، أنبأ مُحَمَّدٌ، هُوَ ابْنُ الْحَسَنِ، أنبأ أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ،
(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية ٨/١٠٥ )
جواب 5: امام شافعی رحمہ اللہ سے باسند حسن منقول ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں نہیں دیکھے گا (ان سے علم حاصل نہیں کرے گا) اسے فقہ میں مہارت حاصل نہیں ہوگی...
حَدثنَا الْعَبَّاس بن أَحْمد قَالَ ثَنَا أَحْمد بن مُحَمَّد بن المنصوري قَالَ ثَنَا عَليّ بن مُحَمَّد النَّخعِيّ قَالَ ثَنَا الْحسن بن قُتَيْبَة قَالَ ثَنَا خرملة بن يحيى قَالَ سَمِعت الشَّافِعِي يَقُول من لم ينظر فِي كتب أبي حنيفَة لم يتبحر فِي الْفِقْه
(اخبار ابو حنیفہ رحمہ اللہ 87)۔
ان اقوال سے معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کی کتابوں کی کیا اہمیت تھی۔
اب دیکھا جائے تو جہاں جہاں امام شافعی رحمہ اللہ کی (امام) ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح ہے، اس کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ معلوم نہیں کہ یہاں کون سے ابو حنیفہ رحمہ اللہ مراد ہیں... ہو سکتا ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے استاد یا اپنے شاگرد میں سے کسی کے بارے میں یہ بات کہی ہو اور نقل کرنے والوں نے اسے امام نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے بارے میں سمجھ لیا ہو۔ ہم ایسا کیوں کہہ رہے ہیں اس پر بھی روشنی ڈال دیتے ہیں..
پہلی وجہ :
تو یہ ہے کہ قول میں واضح نہیں کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کون مراد ہیں۔ یہاں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد یا شاگرد بھی مراد ہو سکتے ہیں کیونکہ پہلی بات دونوں میں سے کسی کی بھی کسی محدث نے صریح توثیق نہیں کی۔
دوسری بات یہ کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (قحزم بن عبداللہ) نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے کئی کتابیں نقل کی ہیں جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "تاریخ الاسلام" 591/6 میں نقل کیا ہے۔ ممکن ہے کہ قحزم سے کتاب نقل کرنے یا کوئی مسئلہ بیان کرنے، یا کسی مسئلے کا استدلال کرنے میں غلطی ہوئی ہو جس کی طرف امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کیا ہو۔ کیونکہ قحزم مفتی تھے اور ظاہر ہے ان کے سامنے ایسے مسائل آتے ہوں گے جن میں قیاس کی ضرورت ہو اور ان سے قیاس کرنے میں غلطی ہو جاتی ہو۔
دوسری وجہ:
یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے خود امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ) کی تعریف منقول ہے اور ان کا خود کا قول امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کی اہمیت واضح کرتا ہے جیسا کہ اوپر نقل کیا گیا۔
تیسری وجہ:
یہ ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے کچھ ایسے اقوال بھی منقول ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی جرح اپنے استاد ابو حنیفہ پر بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ ایک قول جسے امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ نے "آداب الشافعی و مناقب" 130/1 میں نقل کیا ہے
کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جب کسی مسئلے میں خطا کرتے تو ان کے اصحاب (شاگرد) کہتے کہ آپ نے اس مسئلے کا جواب نہیں دیا (یعنی اپنے مسئلے کی صحیح وضاحت نہیں کی)"۔
اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس کا واقعہ ہے اور ظاہر بات ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ نہیں پایا تو وہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس کا واقعہ بغیر سند ذکر کیے (کہ ان تک یہ بات کیسے پہنچی) کیسے نقل کر سکتے ہیں؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ممکن ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں بیٹھے ہوں اور وہاں یہ واقعہ پیش آیا ہو۔
اس کے علاوہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (مسند الشافعی میں) بیان کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے (ایک مسئلہ) پوچھا گیا کہ اگر آدھی رات کو فجر طلوع ہو جائے تو کیا حکم ہے؟ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: "اے لنگڑے آدمی! چپ ہو جا"۔ اب یہاں بھی ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس کی بات بغیر کسی سند کے نقل کی جا رہی ہے۔ تو جس شخص یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ ہی نہیں پایا وہ بغیر کسی سند کے بار بار کسی ایسے شخص کی مجلس کا واقعہ کیوں نقل کریں گے جس کا زمانہ انہوں نے پایا ہی نہیں؟
اس کے علاوہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا کہ "ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جب کسی شخص سے مناظرہ کرتے تو ان کی آواز بلند (تیز) ہو جاتی"۔ اب یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ جب امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ ہی نہیں پایا تو وہ ان کے مناظرے کے بارے میں کیسے کوئی بات بغیر سند بیان کیے کہہ سکتے ہیں؟ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شاید امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مراد اپنے استاد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہوں۔
اب کوئی کہے کہ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ) کے ترجمے میں یہ جرح نقل کی ہے تو ہم کہیں گے کہ کسی محدث کا اسے امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمے میں نقل کرنا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ واقعی امام نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہی ہو۔ ممکن ہے کنیت ایک جیسی ہونے کی وجہ سے اسے امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ سمجھ کر ان کے ترجمے میں نقل کر دیا گیا ہو۔
اب کوئی کہے کہ پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی جو تعریف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے تو اس سے مراد امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں؟ تو ہم کہیں گے کہ مختلف قرائن اس بات کی طرف دلالت کرتے ہیں کہ اس سے امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ ہی مراد ہیں۔
پہلا قرینہ:
جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے "رضی اللہ عنہ" کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو واضح دلیل ہے کہ یہاں امام نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ مراد ہیں۔
دوسرا قرینہ: فقہ کے معاملے میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ (نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ) ہی مشہور ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کوئی صریح توثیق ہمیں نہیں ملی۔
تیسرا قرینہ: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب "دیوان شافعی" میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف میں بہت خوبصورت شعر منقول ہے جس میں وضاحت ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام المسلمین ہیں اور ان جیسی مثال کسی مشرقی یا مغربی شہر یا کوفہ میں نہیں ملتی۔ یہ صریح دلیل ہے کہ تعریف امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نعمان بن ثابت کی جا رہی ہے، کیونکہ آپ ہی شہر کوفہ کے اور امت کے امام ہیں۔
اس سے واضح ہوتا ہے کہ جو تعریف کے اقوال ہیں وہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے لیے ہی منقول ہیں۔
جرح 2:
اس کے علاوہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے درمیان ایک مناظرہ بھی کتابوں میں نقل کیا گیا ہے
مَا ذُكِرَ مِنْ مُنَاظَرَةِ الشَّافِعِيِّ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ وَغَيْرِهِ
أنا أَبُو الْحَسَنِ، أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي حَاتِمٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قَالَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: أَيُّهُمَا أَعْلَمُ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ ، يَعْنِي: مَالِكًا وَأَبَا حَنِيفَةَ.
قُلْتُ: عَلَى الإِنْصَافِ؟ قَالَ: نَعَمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِالْقُرْآنِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ، يَعْنِي مَالِكًا.
قُلْتُ: فَمَنْ أَعْلَمُ بِالسُّنَّةِ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ صَاحِبُكُمْ.
قُلْتُ: فَأَنْشُدُكَ اللَّهَ، مَنْ أَعْلَمُ بِأَقَاوِيلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُتَقَدِّمِينَ: صَاحِبُنَا أَوْ صَاحِبُكُمْ؟ قَالَ: صَاحِبُكُمْ.
قَالَ الشَّافِعِيُّ: قُلْتُ: فَلَمْ يَبْقَ إِلا الْقِيَاسُ، وَالْقِيَاسُ لا يَكُونُ إِلا عَلَى هَذِهِ الأَشْيَاءِ، فَمَنْ لَمْ يَعْرِفِ الأُصُولَ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ يِقِيسُ
(كتاب آداب الشافعي ومناقبه - ط العلمية ١٢٠ ، الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ١/١٣ ، تاريخ الإسلام - ت بشار ٤/٧٢٨)
جس کا خلاصہ سے یہ ہے کہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ ہر علم میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر ترجیح دیتے تھے۔
جواب: یہ واقعہ بھی خلاف عقل و نقل ہے۔
کیونکہ پہلی بات اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو پھر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ آخری وقت تک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کے پابند کیوں رہے؟
کیوں وہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کی تائید میں کتابیں لکھتے تھے؟
کیونکہ انہوں نے (امام مالک رحمۃ اللہ علیہ) اور اہل مدینہ کے رد میں کتاب لکھی لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے رد میں کتاب نہیں لکھی۔
پھر بات امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف بھی لوٹ کر آتی ہے کہ پھر کیوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کو اہمیت دیتے ہیں اور فقہ میں سب سے زیادہ احسان امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا مانتے ہیں؟
کیوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ سے اونٹوں کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے نہیں؟
کیوں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کی دلیل میں حدیثیں نقل کرتے ہیں لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے معاملے میں ایسا نہیں کرتے؟
دراصل اس روایت کی بنیاد ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے جھوٹ کی طرف امام ربیع بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ اور امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ (شاگرد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ) نے اشارہ کیا ہے۔ حالانکہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "میزان الاعتدال" میں ابن عبدالحکم کا دفاع کرتے ہوئے اسے جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والا نہیں کہا لیکن اتنی بات امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی منظور ہے کہ ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔
وہی غلطی اس واقعے میں بھی نظر آتی ہے جیسا کہ اوپر تفصیل بیان کی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ مالکی فقہ کو ماننے والے تھے ان کی روایت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف کیسے قبول ہو سکتی ہے جبکہ روایت میں کئی نقص (کمیاں اور غلطیاں) صاف واضح ہیں…
پھر خود ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے رد میں
"الرد على الشافعي فيما يخالف فيه القرآن"
نام کی کتاب لکھی ہے
(تاریخ الاسلام 410/6 ، طبقات الشافعية الكبرى للسبكي ٢/٦٩ ، اصطلاح المذهب عند المالكية ١/١٣٢ )
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ خود امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی قرآن و سنت کے خلاف عمل کرنے والا سمجھتے تھے۔
جرح نمبر 3:
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کی کتاب دیکھی جس میں 130 صفحات تھے اور 80 صفحات قرآن و سنت کے خلاف تھے۔
أخبرنا أحمد بن محمد العتيقي والحسن بن جعفر السلماسي والحسن بن علي الجوهري قالوا: أخبرنا علي بن عبد العزيز البرذعي، أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم، أخبرنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال: قال لي محمد بن إدريس الشافعي: نظرت في كتب لأصحاب أبي حنيفة، فإذا فيها مائة وثلاثون ورقة، فعددت منها ثمانين ورقة خلاف الكتاب والسنة. قال أبو محمد:
لأن الأصل كان خطأ فصارت الفروع ماضية على الخطأ
(تاریخ بغداد ت بشار 15/567 ، مناقب الشافعي للبيهقي ١/١٧٠ )
جواب 1: اس کی سند میں بھی ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ ہیں جن کے بارے میں اوپر تفصیل گزر چکی ہے۔ اس کے حجت نہ ہونے کے لئے یہی کافی ہے۔
جواب 2: ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ کبھی بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں کی کتاب دیکھی اور کبھی بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دیکھی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، ثَنَا أَبُو زَكَرِيَّا النَّيْسَابُورِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبْدِ الْحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «نَظَرْتُ فِي كِتَابٍ لِأَبِي حَنِيفَةَ فِيهِ عِشْرُونَ وَمِائَةُ، أَوْ ثَلَاثُونَ وَمِائَةُ وَرَقَةٍ فَوَجَدْتُ فِيهِ ثَمَانِينَ وَرَقَةً فِي الْوُضُوءِ وَالصَّلَاةِ، وَوَجَدْتُ فِيهِ إِمَّا خِلَافًا لِكِتَابِ اللهِ أَوْ لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَوِ اخْتِلَافَ قَوْلٍ أَوْ تَنَاقُضٍ أَوْ اخْتِلَافَ قِيَاسٍ
(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 9/103)
یعنی دونوں اقوال میں تضاد ہے، جو اس قول کے ضعف کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
جواب 3: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب اور مثال کے طور پر کوئی مسئلہ ذکر کیوں نہیں کیا جو قرآن و سنت کے خلاف ہو تاکہ تحقیق کی جا سکے کہ واقعی وہ بات قرآن و سنت کے خلاف ہے بھی یا نہیں۔
جواب 4: امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنے کئی مسائل سے آخر عمر میں رجوع کر لیا تھا، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ خود پہلے اپنے اقوال کو قرآن و سنت کے خلاف سمجھتے تھے؟
جواب 5: قول سے ظاہر ہے کہ وہ ایک چھوٹی سی کتاب تھی جس میں صرف 130 صفحات تھے، یعنی کسی مجہول شاگرد کی کتاب سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر کیسے اعتراض ہو سکتا ہے جبکہ یہ واضح نہیں کہ وہ کتاب کس شاگرد کی تھی اور اس میں کون سے مسائل غلط تھے۔
جواب 6: اگر وہ کتاب کا نام ظاہر کر دیا جاتا تو ممکن ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد یا ان کے شاگرد کے شاگرد اس کا جواب لکھ دیتے یا کم سے کم غلط بات سے رجوع کر لیتے، لیکن ایسا کچھ نہیں ملتا۔
جواب 7: ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ نے تو خود امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے رد میں کتاب لکھی ہے، پھر ایک راوی کی بات امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف تو اعتراض کے طور پر پیش کی جائے لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف پیش نہ کی جائے، ایسا دوہرا معیار کیوں؟
حاصل کلام:
غرض ابن عبدالحکم رحمۃ اللہ علیہ یا کسی اور واسطے سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف جرح مقبول نہیں کیونکہ
1۔ ایک تو وضاحت نہیں کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے کون مراد ہیں۔
2۔ دوسری بات کئی اقوال جو ہم نے یہاں نقل نہیں کیے، وہ اپنے معنی کے لحاظ سے ہی غیر واضح ہیں (یعنی ان سے معلوم نہیں ہوتا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے کہنے کا مقصد کیا ہے)۔
3۔ تیسرا، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی توثیق و تعریف منقول ہے اور اس صورت میں توثیق ہی مقدم ہوگی کیونکہ توثیق واضح ہے اور جرح غیر مفسر اور غیر واضح۔
"امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ کی نظر میں"
امام شافعی رحمہ اللہ جو خود مجتہد اور محدث ہیں جن کے بلند مرتبے پر سب متفق ہیں، وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا کیا احترام اور عزت کرتے ہیں؟ آج کی پوسٹ میں ان شاء اللہ ہم جانیں گے۔
1: أَخْبَرَنَا علي بن القاسم، قَالَ: حَدَّثَنَا علي بن إسحاق المادرائي، قَالَ: حَدَّثَنَا زكريا بن عَبْد الرَّحْمَن، قَالَ: حَدَّثَنِي عبد الله بن أَحْمَد، قال: قال هارون بن سعيد: سمعت الشافعي، يقول: ما رأيت أحدا أفقه من أبي حنيفة.
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"میں نہیں جانتا کوئی شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بڑا فقیہ ہو..."
(تاریخ بغداد ت بشار 474/15 ، سند صحیح)
راویوں کی توثیق:
(1). علی بن قاسم بصری رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا
(سیر اعلام النبلاء 240/17)
(2). علی بن اسحاق بصری رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں، امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں امام، محدث، حجت کہا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء 334/15)
(3) . زکریا بن یحییٰ الساجی بصری رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا۔
(تاریخ الاسلام 117/7)
(4). عبداللہ بن احمد یعنی عبدان رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن عماد حنبلی رحمہ اللہ نے کہا۔
(شذرات الذہب 33/4)
(5) . ہارون بن سعید رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا۔
(تقریب التہذیب 1014)
معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
2:- حَدثنَا الشريف ابو الْحسن الْعَبَّاس بن أَحْمد بن الْفضل الْهَاشِمِي قَالَ ثَنَا احْمَد بن مُحَمَّد بن المنصوري قَالَ ثَنَا عَليّ بن مُحَمَّد بن كأس النَّخعِيّ قَالَ ثَنَا أَحْمد بن ابي خَيْثَمَة قَالَ ثَنَا سَلمَة النَّحْوِيّ قَالَ قَالَ سُلَيْمَان بن دَاوُد الْهَاشِمِي قَالَ لي الشَّافِعِي قَول أبي حنيفَة أعظم من أَن يدْفع بالهوينا
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول بہت عظیم مرتبے والا ہے جسے ہم آسانی سے (اپنی رائے) سے رد نہیں کر سکتے۔
(أخبار أبي حنيفة وأصحابه ١/٨٧ ، سند حسن )
راویوں کی توثیق:
(1). عباس بن احمد ہاشمی رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے نقل کیا۔ (تاریخ بغداد 57/14)
(2) . احمد بن محمد بن منصور رحمہ اللہ ثقہ ہیں کیونکہ امام صیمری اور ذہبی رحمھم اللہ نے انہیں امام کہا ہے ، جبکہ امام قاسم قطلوبغا نے ان کو ثقات میں شامل کیا ہے
(تاریخ بغداد 275/6 ، تاريخ الإسلام - ت تدمري ٢٦/٢٢٥، الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة ٢/٧٦ ، أقوال الطحاوي في التفسير من أول القرآن حتى نهاية سورة التوبة جمعًا ودراسة ص 31)
(3) ۔ امام ابن کاس رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے کہا۔
(تاریخ بغداد 540/13)
(4). احمد بن ابی خیثمہ رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے نقل کیا۔
(تاریخ الاسلام 481/6)
(5) . سلمہ النحوی رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے لکھا۔
(تاریخ بغداد 194/10)
(6) . سلیمان بن داؤد ہاشمی رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے لکھا۔
(تاریخ بغداد 41/10)
معلوم ہوا کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کسی قول کو محض اپنی کسی رائے سے رد نہیں کیا جا سکتا۔
3:- حَدثنَا الْعَبَّاس بن أَحْمد قَالَ ثَنَا أَحْمد بن مُحَمَّد بن المنصوري قَالَ ثَنَا عَليّ بن مُحَمَّد النَّخعِيّ قَالَ ثَنَا الْحسن بن قُتَيْبَة قَالَ ثَنَا خرملة بن يحيى قَالَ سَمِعت الشَّافِعِي يَقُول من لم ينظر فِي كتب أبي حنيفَة لم يتبحر فِي الْفِقْه
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو شخص امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتابیں نہیں دیکھے گا، اسے فقہ میں مہارت حاصل نہیں ہوگی۔"
(أخبار أبي حنيفة وأصحابه ١/٨٧ )
راویوں کی توثیق:
(1.) عباس بن احمد رحمہ اللہ کی توثیق گزر چکی۔
(2). احمد بن محمد بن منصور رحمہ اللہ کی توثیق بھی گزر چکی۔
(3). امام ابن کاس رحمہ اللہ کی توثیق بھی گزر چکی۔
(4)۔ حسن بن قتیبہ کے واسطے سے امام ابن عدی رحمہ اللہ نے "الکامل" میں روایت لی ہے اور انہوں نے ان کا تذکرہ کتاب میں نہیں کیا، جو امام ابن عدی رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔
(5)۔ حرملہ بن یحییٰ رحمہ اللہ صدوق ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا۔
(تقریب التہذیب 229)
معلوم ہوا اس سند میں کوئی خرابی نہیں۔
4:-أَخْبَرَنَا أَبُو طاهر مُحَمَّد بن علي بن مُحَمَّد بن يُوسُف الواعظ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عبيد الله بن عثمان بن يحيى الدقاق، قَالَ: حَدَّثَنَا إبراهيم بن مُحَمَّد بن أَحْمَد أَبُو إسحاق البخاري، قَالَ: حَدَّثَنَا عباس بن عزير أَبُو الفضل القطان، قَالَ: حَدَّثَنَا حرملة بن يحيى، قال: سمعت مُحَمَّد بن إدريس الشافعي، يقول: الناس عيال على هؤلاء الخمسة، من أراد أن يتبحر في الفقه فهو عيال على أبي حنيفة.
قال: وسمعته، يعني: الشافعي، يقول: كان أَبُو حنيفة ممن وفق له الفقه
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو شخص فقہ میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا محتاج ہے۔"
اور فرماتے ہیں:
"امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو فقہ کی توفیق و مہارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی ہے۔"
(تاریخ بغداد ت بشار 474/15)
راویوں کی توثیق:
(1)۔ محمد بن علی بن یوسف رحمہ اللہ صدوق ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے کہا۔
(تاریخ بغداد 173/4)
(2) ۔ عبید اللہ بن عثمان رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے کہا۔
(تاریخ بغداد 109/12)
(3)۔ ابراہیم بن محمد البخاری رحمہ اللہ بھی صدوق ہیں، امام حاکم رحمہ اللہ نے ان کی روایت کو مسلم کی شرط پر کہا اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس کے علاوہ امام حاکم رحمہ اللہ نے انہیں وقت کے فقیہ اہلِ نظر میں شمار کیا، جو ان کے علم میں بلند مرتبے کو ظاہر کرتا ہے۔
(تاریخ بغداد 102/7)
(4)۔ عباس بن عزیز سے ایک جماعت نے روایت کیا ہے۔ ان کی نہ کوئی توثیق ہے اور نہ جرح۔
اور حرملہ رحمہ اللہ سے اس طرح کی بات روایت کرنے میں یہ منفرد بھی نہیں۔ حسن بن قتیبہ نے عباس بن عزیز ہی کی طرح کی بات نقل کی ہے۔
شاید اسی لیے محقق نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔
(5)۔ حرملہ بن یحییٰ رحمہ اللہ کی توثیق گزر چکی۔
معلوم ہوا اس کی سند میں کوئی خرابی نہیں۔
5:- أَخْبَرَنَا أَبُو نعيم الحافظ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن إبراهيم بن علي، قال: سمعت حمزة بن علي البصري، يقول: سمعت الربيع، يقول: سمعت الشافعي، يقول: الناس عيال على أبي حنيفة في الفقه
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لوگ فقہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے محتاج ہیں۔"
(تاریخ بغداد 474/15 غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی کے پسندیدہ محقق بشار عواد معروف نے سند کو حسن کہا ہے ، مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه ١/٣٠ ، مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم ١/٢٢ ، سير أعلام النبلاء - ط الرسالة ٦/٤٠٣ ، مكانة الإمام أبي حنيفة في الحديث ١/٩٣ ، التهذيب في فقه الإمام الشافعي ١/٤٢ ، طبقات الحفاظ للسيوطي ١/٨٠ ،طبقات علماء الحديث ١/٢٦١ ، الوافي بالوفيات ٢٧/٩٣ ، مرآة الجنان وعبرة اليقظان ١/٢٤٢ ، البداية والنهاية ت شيري ١٠/١١٤ ،لوامع الأنوار البهية ٢/٤٦٠ ، المنتقى من مسموعات مرو للضياء المقدسي ١/٢٣٢ ، شذرات الذهب في أخبار من ذهب ٢/٢٣٠ ، عقد الجيد في أحكام الاجتهاد والتقليد ١/٢٨، اخبار ابی حنیفہ رحمہ اللہ، الانتقاء، فضائل ابی حنیفہ رحمہ اللہ)
راویوں کی تحقیق:
(1) ۔ ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ ثقہ ہیں جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا۔
(سیر اعلام النبلاء 354/17)
(2)۔ محمد بن ابراہیم بن علی رحمہ اللہ بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے کہا۔
(تاریخ اصبہان 267/2)
(3)۔ حمزہ بن علی رحمہ اللہ کی توثیق ہمیں نہیں ملی، لیکن اس کا اثر قول پر نہیں پڑتا کیونکہ یہی بات دیگر کئی اسناد سے منقول ہے اور بعد کے محدثین نے بھی اس قول کو اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، جو اس کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(4)۔ ربیع بن سلیمان بھی ثقہ ہیں جیسا کہ امام ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا۔
(تقریب التہذیب 320)
معلوم ہوا اس کی سند قابلِ اعتبار ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں