اعتراض نمبر118:
کہ ابن ابی شیبہ نے کہا کہ میں ابوحنیفہ کو یہودی خیال کرتا ہوں۔
أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطيّ ، حدّثنا عبد الله ابن محمّد بن عثمان المزنيّ- بواسط- حدّثنا طريف بن عبد الله قال: سمعت ابن أبي شيبة- وذكر أبا حنيفة- فقال: أراد كان يهوديا.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ یہ روایت بھی خطیب کی نظر میں ایسی ہے کہ اس کو ناقلین کے ہاں محفوظ کے زمرہ میں شمار کیا جاۓ ؟ خود اس نے ابو العلاء الواسطی کے بارہ میں کہا ہے کہ میں نے اس کے اصول متضاد دیکھے ہیں۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں اس کا سماع بنیاد ہے یا تو قلم سے اصلاح کے قابل ہے یا چھری کے ساتھ ان کو کھرچ دینا چاہیے اور وہ ہاتھ پکڑنے والی مسلسل روایت کرنے میں منفرد ہے۔ تفصیل کے لیے خطیب کی تاریخ ص 96 ج 3 دیکھیں[1] اور اس کا شیخ عبد اللہ بن محمد المزنی جو کہ ابن الثقاء الحافظ الواسطی ہے جو کہ الساجی کے ساتھیوں میں سے ہے اور مشہور ہے کہ جب اس نے حدیث الطیر روایت کی تو اہل واسط نے اس سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ جیسا کہ امام ذہبی کی طبقات الحفاظ ص 165 ج 3 میں ہے۔ اور اس حکایت کا ایک راوی طریف بن عبید اللہ الموصلی ضعیف ہے اس کی منکر روایات تھیں۔ امام دار قطنی نے کہا کہ وہ ضعیف ہے۔ اور ابو زکریا یزید بن محمد بن الیاس نے اپنی تاریخ میں کہا کہ وہ محدثین کے زمرہ میں سے نہ تھا۔ اس کی وفات 304 ھ میں ہوئی۔اور وہ ابن الثقاء کے شیوخ میں سے ہے[2]۔ تفصیل کے لیے اللسان دیکھیں۔ اور ظاہر بات یہ ہے کہ بے شک ابن ابی شیبہ جو کہ طریف کا شیخ ہے وہ محمد بن عثمان ہے جو کہ رب تعالی کے لیے جسم ماننے والا تھا اور کذاب تھا۔
اس کو بہت سے حضرات نے کذاب کہا ہے۔ تفصیل کے لیے الذہبی کی میزان اور تکملة الرد على نونية ابن القیم دیکھیں[3]۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خطیب کو اگرچہ القاضی ابو الطیب کی مجلس میں فقہ سیکھنے کا موقعہ کم ملا ہے مگر وہ اتنی بات احسن طریقہ سے جانتا ہو گا کہ جو شخص کسی مسلمان کو اے یہودی کہہ کر پکارتا ہے تو فقہ کی کتابوں کے باب التعزیر میں اس کا کیا حکم ہے؟ یہ تو عام مسلمان کے بارہ میں ہے چہ جائیکہ مسلمانوں کے اماموں میں سے ایسے امام کو کہا جائے جس کو نصف امت بلکہ امت کی دو تہائی اکثریت نے اپنے دین کے معاملہ میں اپنا امام بنایا ہے۔
اس لیئے کہ ان کے نزدیک اس کا دین اور اس کا علم قابل اعتماد تھا۔
اور خلاصہ یہ ہے کہ سند حال بھی آپ نے دیکھا لیا اور متن کا بھی جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے مگر اس کے باوجود خطیب اس نے خبر کو لکھتا ہے اس لیے کہ کہ اس نے شرم و حیاء کو بالائے طاق رکھ دیا ہے ہم اللہ تعالی سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسی حالت سے بچائے اور محفوظ رکھے۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔أبا العلاء القاضي الواسطي شيخ الخطيب، واسمه محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان، فهو ضيف لا يُعتمد على حفظه كما قال الحافظ في «اللسان» (٥/ ٢٩٤). واتَّهمه الخطيب بوضع حديثين. «تاريخ بغداد» (٣/ ٣١٠، ٣١٤)،
[2]۔ طريف بن عبد الله الموصلي، أبو الوليد.
• ذكره الدَّارَقُطْنِيّ في «الضعفاء والمتروكين» (٣٠٧)، وقال حدث عنه الشافعي أبو بكر.
• قال محمد بن أبي الفوارس قرأت على أبي الحسن الدَّارَقُطْنِيّ، قال طريف بن عبيد الله الموصلي، حدث عنه أبو بكر الشافعي، ضعيف. «تاريخ بغداد» ٩ ٣٦٥.
(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله ١/٣٣٥)
[3]۔ ابن ابی شیبہ سے مراد حدیث کی مشہور کتاب المصنف کے مولف " ابوبکر بن ابی شیبہ " رحمہ اللہ متوفی 234ھ نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد محمد بن عثمان بن أبي شيبة أبو جعفر الكُوفِيّ متوفی 297ھ ہیں کیونکہ طریف بن عبداللہ متوفی 304ھ کا ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ سے روایت کرنا ثابت نہیں ، دوسری بات یہ ہیکہ امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے امام ابو حنیفہ سے مصنف ابن ابی شیبہ میں کئی روایات لائی ہیں ، تقریبا 40 روایات قارئین النعمان سوشل میڈیا سروسز کی پیشکش دفاع احناف موبائل ایپ لائبریری میں کتاب "مصنف ابن ابی شیبہ میں امام صاحب سے مروی بیالیس روایات" تالیف مولانا علی معاویہ بہاری صاحب میں دیکھ سکتے ہیں۔
احادیث مسلمان سے ہی روایت کی جاتی ہیں ، لہذا اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہیکہ یہاں ابوبکر مراد نہیں ورنہ وہ اپنی کتاب میں امام صاحب سے روایات کیوں لاتے ؟ یہاں طریف اپنے شیخ (محمد بن عثمان ) بن ابی شیبہ سے روایت کر رہا ہے ، محمد بن عثمان متکلم فیہ راوی ہے ، کئی ایک حفاظ نے اس پر سخت جروحات کیں ہیں ۔
ابراہیم بن اسحاق الصواف نے کہا: "یہ جھوٹا ہے، لوگوں کی احادیث چراتا ہے اور دوسروں کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتا ہے جو ان کی نہیں ہوتیں۔"
داود بن یحییٰ نے کہا: "یہ جھوٹا ہے، اس نے بہت سی چیزیں گھڑ لی ہیں، اور دوسروں پر ایسی احادیث ڈال دیتا ہے جو انہوں نے کبھی بیان ہی نہیں کیں۔"
ابن خراش نے کہا: "یہ کھلا جھوٹا ہے، اسناد میں اضافہ کرتا ہے، ان کو جوڑتا ہے، اور احادیث گھڑتا ہے۔"
مطّین نے کہا: "یہ جھوٹا ہے، ہم نے اسے بچپن سے ہی جھوٹ بولتے دیکھا ہے۔"
عبد اللہ بن احمد نے کہا: "یہ کھلا جھوٹا ہے، ایک بات کو دوسری سے بدل دیتا ہے، اور حیرانی کی بات ہے کہ لوگ اس سے روایت لیتے ہیں۔"
جعفر بن محمد الطیالسی نے کہا: "یہ جھوٹا ہے، لوگوں کی طرف ایسی احادیث منسوب کرتا ہے جو انہوں نے کبھی بیان نہیں کیں، آخر اس نے یہ احادیث کب سنی؟ میں اسے بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔"
عبد اللہ بن ابراہیم بن قتیبہ نے کہا: "اس نے ابن عبدوس کی کتابیں لے لیں اور انہیں اپنی بتانے لگا، اور ہم اسے ہمیشہ سے جھوٹا جانتے ہیں۔"
محمد بن احمد العدوی نے کہا: "یہ ہمیشہ سے جھوٹا تھا، یہاں تک کہ جب اس نے یہ روایات سنیں، تو انہیں اپنی بنا لیا۔"
جعفر بن ہذیل نے کہا: "یہ جھوٹا ہے۔"
الخلیلی نے کہا: "اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے۔"
حاکم نے دارقطنی کے حوالے سے کہا: "یہ ضعیف ہے۔"
حمزہ نے کہا: "کہا جاتا تھا کہ اس نے ابو انس کی کتاب لی اور اس سے لکھ کر حدیثیں بیان کرنے لگا۔"
برقانی نے کہا: "میں ہمیشہ سے شیوخ کو سنتا آیا ہوں کہ وہ اس پر جرح کرتے تھے۔"
ابن المنادی نے کہا: "اس سے روایت کرنے والے اکثر لوگ اضطراب کا شکار ہوتے ہیں۔"
یہ راوی حشوی مجسمی تھا ، تفصیل یہاں دیکھیں
بعض نے اس راوی کی توثیق بھی کی ہے اور مطین سے جروحات تو تعصب پر محمول کیا ہے ، ہم دیکھتے ہیں کہ بعض محدثین ، اپمے ہم نوا محدث پر اگر تعصب سے جرح کی گئی ہوں تو اس کا دفاع کرتے ہیں کہ تعصب والی جرح مردود ہوتی ہے لیکن وہاں محدثین ایسے بھی ہیں جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر سفیان ثوری رحمہ اللہ اور دیگر متعصبیں کی جرح کو قبول کرتے ہیں ، محدثین کا یہ دوغلا پن افسوسناک ہے ۔ بہرحال یہ راوی محمد بن عثمان متکلم فیہ ہے ، جبکہ سند کے دو اور راوی بھی ضعیف ہیں لیکن اس کے باوجود خطیب بغدادی نے اس قسم کی لا یعنی روایت سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جو طعن کیا ہے ، اس کا اجر انہیں ضرور ملے گا۔
نکتہ : مصنف ابن ابی شیبہ میں جو باب امام صاحب کے رد پر ہے ، اس کا جواب کئی اہل علم دے چکے ہیں ، قارئین درج ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔
النعمان سوشل میڈیا سروسز کی موبائل ایپ دفاع احناف لائبریری اور ہمارے ٹیلیگرام مکتبہ (النعمان سوشل میڈیا سروسز ٹیلیگرام) پر موجود کتب
النکت الطریفہ از امام کوثری رحمہ اللہ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں