نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر118: کہ ابن ابی شیبہ نے کہا کہ میں ابوحنیفہ کو یہودی خیال کرتا ہوں۔



اعتراض نمبر118:

کہ ابن ابی شیبہ نے کہا کہ میں ابوحنیفہ کو یہودی خیال کرتا ہوں۔


أخبرنا القاضي أبو العلاء محمد بن علي الواسطيّ ، حدّثنا عبد الله ابن محمّد بن عثمان المزنيّ- بواسط- حدّثنا طريف بن عبد الله قال: سمعت ابن أبي شيبة- وذكر أبا حنيفة- فقال: أراد كان يهوديا.


الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ یہ روایت بھی خطیب کی نظر میں ایسی ہے کہ اس کو ناقلین کے ہاں محفوظ کے زمرہ میں شمار کیا جاۓ ؟ خود اس نے ابو العلاء الواسطی کے بارہ میں کہا ہے کہ میں نے اس کے اصول متضاد دیکھے ہیں۔ اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں اس کا سماع بنیاد ہے یا تو قلم سے اصلاح کے قابل ہے یا چھری کے ساتھ ان کو کھرچ دینا چاہیے اور وہ ہاتھ پکڑنے والی مسلسل روایت کرنے میں منفرد ہے۔ تفصیل کے لیے خطیب کی تاریخ ص 96 ج 3 دیکھیں[1] اور اس کا شیخ عبد اللہ بن محمد المزنی جو کہ ابن الثقاء الحافظ الواسطی ہے جو کہ الساجی کے ساتھیوں میں سے ہے اور مشہور ہے کہ جب اس نے حدیث الطیر روایت کی تو اہل واسط نے اس سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ جیسا کہ امام ذہبی کی طبقات الحفاظ ص 165 ج 3 میں ہے۔ اور اس حکایت کا ایک راوی طریف بن عبید اللہ الموصلی ضعیف ہے اس کی منکر روایات تھیں۔ امام دار قطنی نے کہا کہ وہ ضعیف ہے۔ اور ابو زکریا یزید بن محمد بن الیاس نے اپنی تاریخ میں کہا کہ وہ محدثین کے زمرہ میں سے نہ تھا۔ اس کی وفات 304 ھ میں ہوئی۔اور وہ ابن الثقاء کے شیوخ میں سے ہے[2]۔ تفصیل کے لیے اللسان دیکھیں۔ اور ظاہر بات یہ ہے کہ بے شک ابن ابی شیبہ جو کہ طریف کا شیخ ہے وہ محمد بن عثمان ہے جو کہ رب تعالی کے لیے جسم ماننے والا تھا اور کذاب تھا۔

 اس کو بہت سے حضرات نے کذاب کہا ہے۔ تفصیل کے لیے الذہبی کی میزان اور تکملة الرد على نونية ابن القیم دیکھیں[3]۔

 اس کے علاوہ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ خطیب کو اگرچہ القاضی ابو الطیب کی مجلس میں فقہ سیکھنے کا موقعہ کم ملا ہے مگر وہ اتنی بات احسن طریقہ سے جانتا ہو گا کہ جو شخص کسی مسلمان کو اے یہودی کہہ کر پکارتا ہے تو فقہ کی کتابوں کے باب التعزیر میں اس کا کیا حکم ہے؟ یہ تو عام مسلمان کے بارہ میں ہے چہ جائیکہ مسلمانوں کے اماموں میں سے ایسے امام کو کہا جائے جس کو نصف امت بلکہ امت کی دو تہائی اکثریت نے اپنے دین کے معاملہ میں اپنا امام بنایا ہے۔

 اس لیئے کہ ان کے نزدیک اس کا دین اور اس کا علم قابل اعتماد تھا۔

 اور خلاصہ یہ ہے کہ سند حال بھی آپ نے دیکھا لیا اور متن کا بھی جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے مگر اس کے باوجود خطیب اس نے خبر کو لکھتا ہے اس لیے کہ کہ اس نے شرم و حیاء کو بالائے طاق رکھ دیا ہے ہم اللہ تعالی سے درخواست کرتے ہیں کہ ایسی حالت سے بچائے اور محفوظ رکھے۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔



[1]۔أبا العلاء القاضي الواسطي شيخ الخطيب، واسمه محمد بن علي بن أحمد بن يعقوب بن مروان، فهو ضيف لا يُعتمد على حفظه كما قال الحافظ في «اللسان» (٥/ ٢٩٤). واتَّهمه الخطيب بوضع حديثين. «تاريخ بغداد» (٣/ ٣١٠، ٣١٤)،


[2]۔ طريف بن عبد الله الموصلي، أبو الوليد.

• ذكره الدَّارَقُطْنِيّ في «الضعفاء والمتروكين» (٣٠٧)، وقال حدث عنه الشافعي أبو بكر.

• قال محمد بن أبي الفوارس قرأت على أبي الحسن الدَّارَقُطْنِيّ، قال طريف بن عبيد الله الموصلي، حدث عنه أبو بكر الشافعي، ضعيف. «تاريخ بغداد» ٩ ٣٦٥.

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله ١/‏٣٣٥)


[3]۔ ابن ابی شیبہ سے مراد حدیث کی مشہور کتاب المصنف کے مولف " ابوبکر بن ابی شیبہ " رحمہ اللہ متوفی 234ھ نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد محمد بن عثمان بن أبي شيبة أبو جعفر الكُوفِيّ متوفی 297ھ ہیں کیونکہ طریف بن عبداللہ متوفی 304ھ کا ابوبکر بن ابی شیبہ رحمہ اللہ سے روایت کرنا ثابت نہیں ، دوسری بات یہ ہیکہ امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے امام ابو حنیفہ سے مصنف ابن ابی شیبہ میں کئی روایات لائی ہیں ، تقریبا 40 روایات قارئین النعمان سوشل میڈیا سروسز کی پیشکش دفاع احناف موبائل ایپ لائبریری میں کتاب "مصنف ابن ابی شیبہ میں امام صاحب سے مروی بیالیس روایات" تالیف مولانا علی معاویہ بہاری صاحب میں دیکھ سکتے ہیں۔احادیث مسلمان سے ہی روایت کی جاتی ہیں ، لہذا اس بات سے بھی معلوم ہوتا ہیکہ یہاں ابوبکر مراد نہیں ورنہ وہ اپنی کتاب میں امام صاحب سے روایات کیوں لاتے ؟ یہاں طریف اپنے شیخ (محمد بن عثمان ) بن ابی شیبہ سے روایت کر رہا ہے ، محمد بن عثمان متکلم فیہ راوی ہے ، کئی ایک حفاظ نے اس پر سخت جروحات کیں ہیں ۔ 

محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر جروحات:

1۔ أبو الحسين بن المنادي:

قَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ عَنْهُ عَلَى اضْطِرَابٍ فِيهِ

ترجمہ: لوگوں نے اس سے بہت روایتیں نقل کی ہیں، مگر اس کی روایتوں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔

2۔ أبو بكر البرقاني:

لَمْ أَزَلْ أَسْمَعُهُمْ يَذْكُرُونَ أَنَّهُ مَقْدُوحٌ فِيهِ

ترجمہ: میں ہمیشہ اہلِ علم کو یہ کہتے سنتا رہا کہ اس راوی پر قدح (عیب) کیا گیا ہے۔

3۔ الحاكم عن الدارقطني:

ضَعِيفٌ

4۔ الدارقطني:

يُقَالُ: إِنَّهُ أَخَذَ كِتَابَ غَيْرِ مُحَدِّثٍ

ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک ایسی کتاب روایت کی جو کسی محدث کی نہ تھی۔

5۔ مطين الحضرمي:

كَانَ سَيِّءَ الرَّأْيِ فِيهِ

محدث مطین رحمہ اللہ محمد بن عثمان کے بارے میں بری رائے رکھتے تھے۔

6۔ الخَليلي:

ضَعَّفُوهُ

جبکہ درج ذیل آئمہ نے محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کو جھوٹا کذاب یا وضاع کہا ہے۔ 

7۔ إبراهيم بن إسحاق الصواف

8۔ جعفر بن محمد الطيالسي

9۔ جعفر بن هذيل الكوفي

10۔ داود بن يحيى

11۔ عبد الرحمن بن يوسف بن خراش

12۔ عبد الله بن أحمد بن حنبل

13۔ عبد الله بن أسامة الكلبي

14۔ عبد الله بن إبراهيم بن قتيبة 15۔ محمد بن أحمد العدوي

مذکورہ بالا 8 حفاظ نے محمد بن عثمان پر کذب کی جرح کی ہے جس کو ابن عقدہ نقل کرتے ہیں ، بعض کے مطابق ابن عقدہ پر خود کلام ہے لیکن صحیح بات یہ ہیکہ ابن عقدہ پر نہ حدیث کے متن گھڑنے کا الزام صحیح ہے اور نہیں سند گھڑنے کا ۔ ان پر کلام وجادات [نسخوں] کی وجہ سے ہوا ہے۔کیوں کہ وہ وجادات کو مجہول شیوخ سے بیان کرتے تھے، جن کی وجہ سے ان کی روایات کو مناکیر میں شمار کیا جانے لگا۔ بعض ائمہ نے ان کے بارے میں جرح بلکہ ان پر جھوٹ اور حدیث گھڑنے کی تہمت لگائی ہے۔ لیکن کئی ائمہ ان پر کئے گئے جروحات کے جوابات دئے ہیں ۔چنانچہ :حافظ حمزہ سہمی ؒ (م ۴۲۷؁ھ)   کہتے ہیں کہ :’’ ما یتھم مثل أبی العباس بالوضع إلا طبل ‘‘ابو العباس جیسے شخص پر وہی حدیث گھڑنے کا الزام لگاسکتا ہے ، جس کو کچھ آتا جاتا نہ ہو ، امام دارقطنی ؒ (م ۳۸۵؁ھ)  نے یہاں تک کہدیا کہ : ’’ أشھد أن من اتھمہ  بالوضع  فقد کذب ‘‘ میں شہادت دیتا ہوں  کہ جو کوئی ابو العباس ابن عقدہ ؒ پر وضع حدیث کی تہمت لگائے، وہ جھوٹا ہے۔اسی طرح ، حافظ ذہبیؒ نے کہا :’’ ما علمت ابن عقدۃ اتھم بوضع حدیث أما الإسناد فلا أدری ‘میں نہیں جانتا کہ ابن عقدۃ ؒ پر حدیث کا متن گھڑنے کا الزام لگایا گیا ہے، جہاں تک سند کی بات ہے ، تو میں نہیں جانتا ۔  تقریباً یہی بات  حافظ ابن عبد الہادی ؒ ( م ۷۴۴؁ھ)  نے بھی کہی ہے ۔ (طبقات علماء حدیث : جلد۳: صفحہ ۳۱)حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م ۸۵۲؁ھ)  ایک اور کتاب میں کہتے ہیں کہ :أبو العباس الهمداني هو ابن عقدة  حافظ كبير، إنما تكلموا فيه بسبب المذهب، ولأمور أخرى ولم يُضَعَّف بسبب المتون أصلا. فالإسناد حسن۔ابو العباس الہمدانی ؒ ، وہ ابن عقدہ ؒ ہیں ، بڑے حافظ الحدیث ہیں ، ان پر (ان کے) مذہب  اور دیگر امور کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے ، جبکہ متون حدیث کی وجہ سے ان کی تضعیف ہر گز نہیں کی گئی ، پس یہ سند حسن ہے۔ (التلخیص الحبیر : جلد۱ : صفحہ ۲۳۹)ایک جگہ مزید وضاحت سے فرماتے ہیں کہ :’’ وأما أبو العباس بن عقدة فكان من كبار الحفاظ، حتى قال الدارقطني: أجمع أهل الكوفة أنه لم يكن بها من زمن ابن مسعود أحفظ منه، ولم يتهم بالكذب، وإنما كان يعاب بالتشيع، وكثرة رواية المناكير، لكن الذنب فيها لغيره. ‘‘جہاں تک ابو العباس ابن عقدہؒ کی بات ہے ، تو وہ بڑے حفاظ حدیث میں ہیں ، یہاں تک کہ امام دارقطنیؒ نے کہا کہ : اہل کوفہ کا اجماع ہے کہ ابن مسعود ؓ کے زمانہ سے (ان کے زمانہ تک) ابن عقدہ ؒ سے زیادہ حافظہ والا کوئی نہیں ہوا ،  ان پر جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی گئی ، البتہ ان کے شیعہ ہونے اور کثرت سے منکر روایتیں بیان کرنے کا عیب ان پر لگایا گیا ، لیکن اس میں خطا اور غلطی دوسرے کی وجہ سے ہے۔ (موافقۃ الخبر الخبر : جلد۲: صفحہ ۱۱۱)حافظ ؒ کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ ان کی روایات میں مناکیر کا ذمہ دار اوپر کا راوی ہے ، نہ کہ ابن عقدہؒ۔

محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر جرحِ کذب اور سلفی محققین کی آراء "

بعض سلفی محققین نے محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر وارد کذب کی جرح کو معتبر تسلیم کیا ہے۔ ان محققین نے اپنے سے پہلے تمام ائمہ و ناقدین (ابن عدی ، خطیب بغدادی ، ذہبی ، ابن حجر) کی آراء کا جائزہ لینے کے بعد اپنی رائے قائم کی۔ ذیل میں چند سلفی محدثین کے اقوال نقل کیے جا رہے ہیں:

16۔ السلفی المحقق عبد الله بن حمد اللحيدان:

قلت: الذي يظهر مما تقدم أن محمد بن عثمان بن أبي شيبة كذاب (مختصر تلخيص الذهبي ٢/‏٦٦٥)

ترجمہ: میں کہتا ہوں: سابقہ تمام بیانات سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ محمد بن عثمان بن أبي شيبة جھوٹا ہے۔

17.سلفی محققین کی عمومی رائے:

محمد بن عثمان مختلف فيه، مشاه بعضهم، وكذبه آخرون(تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن، ط دار التفسير ١٩/‏٣٦٨)

محمد بن عثمان کے بارے میں اختلاف ہے، بعض نے ان کی توثیق کی جبکہ دوسروں نے انہیں جھوٹا قرار دیا۔

18.الدكتور وسيم عصام شبلي:

محمد بن عثمان بن أبي شيبة، حافظ متهم بالكذب ووضع الحديث(زهر الفردوس = الغرائب الملتقطة من مسند الفردوس ٧/‏٢٧٣)

ترجمہ:محمد بن عثمان بن أبي شيبة، اگرچہ حافظِ حدیث تھے، لیکن ان پر جھوٹ بولنے اور حدیثیں گھڑنے کا الزام ہے۔

19.الشيخ عبد الله بن صالح الفوزان:

وهذا فيه نظر، لأمرين: الأول: محمَّد بن عثمان بن أبي شيبة مختلف فيه ، وقد ذكره الذهبي نفسه في كتابه «الضعفاء» وقال: (كذبه عبد الله بن أحمد، ووثقه صالح جَزَرة) ، فكيف يصحح حديثه هنا؟! (منحة العلام في شرح بلوغ المرام ٧/‏٥١٠)

ترجمہ: اس پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے، کیونکہ محمد بن عثمان مختلف فیہ راوی ہیں، امام ذہبی نے خود انہیں اپنی کتاب الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور کہا: "انہیں عبد الله بن أحمد نے جھوٹا قرار دیا، جبکہ صالح جزرة نے توثیق کی"، تو ایسی صورت میں ان کی روایت کو صحیح کیسے کہا جا سکتا ہے؟

20 : غیر مقلد سلفی محقق محمد ضیاء الرحمن اعظمی :

قلت: لا يحتمل تفرّد محمد بن عثمان بن أبي شيبة؛ لأنه مختلف فيه، فكذبه عبد الله بن أحمد ابن حنبل، وقال ابن خراش: كان يضع الحديث۔۔۔ والخلاصة أنه إذا توبع فلا بأس به، أما إذا تفرّد فلا يحتمل تفرده.(الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل المرتب على أبواب الفقه ٤/‏٥٦٢ )

چنانچہ یحیی بن معین سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو ضعیف کہنے والی روایت میں بھی محمد بن عثمان بن ابی شیبہ منفرد ہیں لہذا وہ غیر مقبول ہیں۔

21۔ غیر مقلد ناصر الدین البانی : 

قلت: وهذا إسناد واهٍ، محمد بن عثمان هذا: مختلف فيه، 

ایک اور جگہ لکھتے ہیں :

 ومحمد بن عثمان بن أبى شيبة فيه اختلاف كثير، تراه فى «الميزان» للذهبى، وفى غيره. وحسبك هنا أن الذهبى نفسه قد أورده فى «الضعفاء» وقال: «كذبه عبد الله بن أحمد، ووثقه صالح جزرة». قلت: فمثله كيف يصحح حديثه؟ ! لاسيما وقد خالف فى وصله أبا داود صاحب «السنن» كما رأيت، وظنى أن الذهبى لم ينتبه لهذه المخالفة، وإلا لما صححه. والله أعلم.

حالانکہ محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کے بارے میں کافی اختلاف ہے، جیسا کہ تم اسے امام ذہبی کی "الميزان" اور دیگر کتب میں دیکھ سکتے ہو۔ یہی کافی ہے کہ خود امام ذہبی نے بھی اسے اپنی کتاب "الضعفاء" میں ذکر کیا ہے اور کہا: "عبد اللہ بن احمد نے اسے جھوٹا کہا، اور صالح جزرہ نے اس کی توثیق کی۔" میں (البانی) کہتا ہوں:ایسے راوی کی حدیث کیسے صحیح مانی جا سکتی ہے؟!خاص طور پر جب اس نے حدیث کو متصل طور پر بیان کیا ہو، جبکہ امام ابو داود نے اسی حدیث کو منقطع روایت کیا ہے،  میرا گمان ہے کہ امام ذہبی اس مخالفت پر متوجہ نہیں ہوئے، ورنہ وہ اس حدیث کو درست قرار نہ دیتے۔ ( إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل ٧/‏١٠٧ )

22۔ غیر مقلد غالی سلفی مقبل بن هادی الوادعی  :

قلت: فالذي يظهر لي أنه ضعيف 

میں کہتا ہوں: میرے نزدیک جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ یہ راوی ضعیف  ہے۔ (رجال الحاكم في المستدرك ٢/‏٢٥٤) 


آئمہ حدیث کی جروحات :

 محدثین نے واضح طور پر محمد بن عثمان پر کذب اور حدیث گھڑنے کا الزام لگایا، بعض محدثین نے ابن عقدہ سے منقول جروحات کو معتبر جانا ہے اور ان جروحات کو محمد بن عثمان کے خلاف پیش کیا ہے ، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ ابن عقدہ کی محمد بن عثمان پر نقل کی گئی جروحات لائق اعتماد ہیں ، اگر وہ لائق اعتماد نہ ہوتی تو محدثین کبھی بھی ان کو وقعت نہ دیتے  

23۔ (٢٠٦) مُحَمَّد بن عُثْمَان بن أبي شيبَة أَبُو جَعْفَر الْعَبْسِي الْكُوفِي الْحَافِظ، قَالَ ابْن خرَاش كَانَ يضع الحَدِيث. (تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة ١/‏١١٠ — ابن عراق)


24۔ ٥٨١٣ - مُحَمَّد بن عُثْمَان بن أبي شيبَة الْعَبْسِي حَافظ وَثَّقَهُ جزرة وَكذبه عبد الله بن أَحْمد (المغني في الضعفاء)

22۔ ٣٨٧٣ - محمد بن عثمان بن أبي شيبة: كذبه عبد الله بن أحمد، ووثقه صالح جزرة. (ديوان الضعفاء ١/‏٣٦٥)

25 ۔ ثمَّ قَالَ: وَهَذَا لَا يَصح، فِي إِسْنَاده مُحَمَّد بن عُثْمَان (بن أبي شيبَة) كذبه عبد الله بن أَحْمد بن حَنْبَل، (البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير ٨/‏٣٥١)

26۔ ٣١١٩ - مُحَمَّد بن عُثْمَان بن مُحَمَّد بن أبي شيبَة أَبُو جَعْفَر روى عَن أَبِيه وَيحيى بن معِين وَغَيرهمَا كذبه عبد الله بن [أَحْمد] بن حَنْبَل وَغَيره (الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي ٣/‏٨٤)

27۔ أَمَّا حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ فَفِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ وَقَدْ كَذَّبَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَغَيْرُهُ (العلل المتناهية في الأحاديث الواهية ١/‏١١٩) 

28.حافظ ابن حجرؒ کے الفاظ یہ ہیں : 

قلت محمد بن عثمان ضعيف  (تلخیص الحبیر : جلد۱ : صفحہ ۴۴۳)

محمد بن عثمان ضعیف ہے


محمد بن عثمان بن أبي شيبة پر کذب اور وضع حدیث کی جروحات محض انفرادی یا سطحی نوعیت کی نہیں، بلکہ یہ بات متعدد جلیل القدر ائمہ حدیث نے صراحت کے ساتھ بیان کی ہے، جن کو کبار آئمہ مثلا امام ذہبی ، ابن حجر ، ابن عراق ، ابن کثیر رحمھم اللہ  نے ثابت مانا ہے۔ ان ہی بنیادوں پر بعد کے سلفی محققین نے بھی محمد بن عثمان پر وارد ان جروحات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی ضعیف اور غیر قابل اعتماد حیثیت کی تائید کی، اور بعض نے تو صراحت کے ساتھ انہیں کذاب تک قرار دیا، جیسا کہ عبد الله بن حمد اللحيدان، وسیم عصام شبلی، اور دیگر کے اقوال سے ظاہر ہوتا ہے۔ جب ائمہ حدیث کی نظر میں محمد بن عثمان جیسے راوی کو حدیثِ نبوی جیسی حساس و مقدس روایت میں قابل اعتماد نہیں سمجھا گیا، تو محض حکایات، آثار یا تاریخ میں اُن پر اعتماد کرنا بدرجۂ اولیٰ زیادہ مشکوک اور ناقابل حجت ہے۔

 بہرحال یہ راوی محمد بن عثمان متکلم فیہ ہے ، جبکہ سند کے دو اور راوی بھی ضعیف ہیں لیکن اس کے باوجود خطیب بغدادی نے اس قسم کی لا یعنی روایت سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جو طعن کیا ہے ، اس کا اجر انہیں ضرور ملے گا۔ 

نکتہ : مصنف ابن ابی شیبہ میں جو باب امام صاحب کے رد پر ہے ، اس کا جواب کئی اہل علم دے چکے ہیں ، قارئین درج ذیل لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔


النعمان سوشل میڈیا سروسز کی موبائل ایپ دفاع احناف لائبریری اور ہمارے ٹیلیگرام مکتبہ (النعمان سوشل میڈیا سروسز ٹیلیگرام) پر موجود کتب

النکت الطریفہ از امام کوثری رحمہ اللہ

امام اعظم ابو حنیفہ اور حافظ ابوبکر ابن ابی شیبہ

مصنف ابن ابی شیبہ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے رد پر باب


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 19 :امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) امام مالک بن انس ؒ (م۱۷۹؁ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...