نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 135: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ نہ ثقہ ہیں اور نہ مامون ہیں۔


 اعتراض نمبر  135:

 کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ نہ ثقہ ہیں اور نہ مامون ہیں۔


أخبرني علي بن أحمد الرزاز، أخبرنا علي بن محمد بن معبد الموصلي، حدثنا ياسين بن سهل، حدثنا أحمد بن حنبل، حدثنا مؤمل قال: ذكروا أبا حنيفة عند سفيان الثوري، فقال: غير ثقة ولا مأمون، غير ثقة ولا مأمون.

 أخبرنا محمد بن عمر بن بكير المقرئ، أخبرنا عثمان بن أحمد بن سمعان الرزاز، حدثنا هيثم بن خلف، حدثنا محمود بن غيلان قال: حدثنا المؤمل قال: ذكر أبو حنيفة عند الثوري وهو في الحجر، فقال: غير ثقة ولا مأمون، فلم يزل يقول حتى جاز الطواف.

أخبرنا أبو سعيد بن حسنويه، أخبرنا عبد الله بن محمد بن عيسى الخشاب، حدثنا أحمد بن مهدي، حدثنا إبراهيم بن أبي الليث قال: سمعت الأشجعي غير مرة قال: سأل رجل سفيان عن أبي حنيفة فقال: غير ثقة، ولا مأمون غير ثقة ولا مأمون، غير ثقة ولا مأمون.


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ پہلی سند میں علی بن احمد الرزاز ہے یہ وہی ہے جس کی کتابوں میں اس کا بیٹا نئ سنی سنائی باتیں شامل کر دیتا تھا[1]۔ اور الموصلی غیر ثقہ ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے[2]۔  اور تینوں مطبوعہ نسخوں میں علی بن محمد بن معبد الموصلی ہے جو کہ سعید سے معبد کی طرف تصحیف ہے اور صحیح علی بن محمد بن سعید الموصلی ہے جیسا کہ بیان ہوا۔ اور مومل متروک الحدیث ہے[3]۔ اور دوسری سند میں ھیثم بن خلف کے ساتھ مومل بھی ہے۔ اور تیسری سند میں ابراہیم بن ابی اللیث نصر الترمذی ہے جس کے بارہ میں ابن معین کہتے تھے کہ اگر منصور بن المعتمر جیسے آدمی بھی اس کے پاس آتے جاتے رہیں تب بھی وہ کذاب ہی تھا اور اس کو کئی آدمیوں نے کذاب کہا ہے[4]۔ مگر خطیب کی نظر میں اس جیسی روایت ناقلین کے ہاں محفوظ روایات کے زمرہ میں سے ہے۔ اور ثوری اگر چہ ابوحنیفہ سے علیحدہ ہو چکے تھے لیکن وہ انحراف کی اس حد تک نہ پہنچے تھے کہ اس کے بارہ میں اس جیسی باطل کلام کہتے[5] اور بے شک پہلے گزر چکا ہے کہ سفیان ثوری ابوحنیفہ کے تعریف کیا کرتے تھے[6]۔


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔


[1]عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ بْن مُوسَى بْن بيان، أَبُو الحسن المعروف بابن طيب الرّزّاز:

حَدَّثَنِي بعض أصحابنا قَالَ: دفع إِلَى علي بْن أَحْمَد الرزاز- بعد أن كف بصره- جزءا بخط أبيه فيه: أمالي عَن بعض الشيوخ، وفي بعضها سماعه بخط أبيه العتيق والباقي فيه تسميع له بخط طري فقال: أنظر سماعي العتيق [هو] ما قرئ عليَّ، وما كان فيه تسميع بخط طري فاضرب عليه. فإني كان لي ابن يعبث بكتبي ويسمع لي فيما لم أسمعه. أو كما قَالَ. حَدَّثَنِي الخلال قَالَ: أخرج إِلَى الرزاز شيئا من مسند مسدد فرأيت سماعه فيه بخط جديد، فرددته عليه. قلت: وقد شاهدت أنا جزءا من أصول الرزاز بخط أبيه فيه أمالي عَن ابن السماك، وفي بعضها سماعه بالخط العتيق، ثم رأيته قد غير فيه بعد وقت وفيه إلحاق بخط جديد. 

[2]۔ على بن محمد بن سعيد الموصلي. شيخ أبي نعيم الحافظ.

قال أبو نعيم: كذاب.

وقال ابن الفرات: مخلط غير محمود. (میزان الاعتدال فی نقد الرجال 

دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت - لبنان-ط 1 1963 , ج: 3- ص: 154 

[3]مومل بن اسماعیل ضعیف ہیں ، مومل بن اسماعیل کے ضعف پر 100 سلفیوں کے حوالے  " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ میں الاجماع شمارہ نمبر 5 یونیکوڈ میں موجود ہیں 

[4]۔( سؤالات ابن الجُنَيْد لابن مَعِين ص ٧٢ ، الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي ١/‏٤٧ ، تاريخ الإسلام - ت بشار ٥/‏٧٧٨ ، ديوان الضعفاء ١/‏١٩ )


[5]۔یہ روایت دیگر کتب میں بھی ضعیف راوی مومل بن اسماعیل کے واسطے سے مَذکُورَہے 

(تاريخ أبي زرعة الدمشقي ١/‏٥٠٧ ، المجروحين لابن حبان ت حمدي ١٧/‏٤١١  ، الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/‏٢٦٨ ، الكامل: ٧/ ٢٤٧٢ ، تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين ١/‏١٨٤ ، الاحتجاج بالشافعي ١/‏٥٨ ، ذكر من اختلف العلماء ونقاد الحديث فيه ١/‏٩٥  )










[6]۔ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے طرزِ عمل سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت کا روشن ثبوت

اعتراض سے اعتراف تک: امام سفیان ثوریؒ کا امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں رویہ

تمہید

تاریخی روایات اور معتبر اسناد سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں عمومی رویہ بظاہر سخت اور معترضانہ تھا۔ مگر جب بھی ان سے کسی شاگرد نے براہِ راست سوال کیا — جیسے کہ عبد اللہ بن مبارک، یحییٰ بن ضریس یا امام ابو قطن نے — تو امام سفیان ثوری رحمہ اللہ نہ تو کسی علمی خطا یا شرعی غلطی کی طرف اشارہ کر سکے، اور نہ ہی امام ابو حنیفہ پر اپنے اعتراض کی کوئی معقول دلیل پیش کر سکے۔ بلکہ ہر موقع پر: وہ خاموش ہو جاتے، ندامت کا اظہار کرتے، سر جھکا لیتے، نظریں نیچی کر لیتے، اور آخرکار امام ابو حنیفہ کی علمی عظمت، تقویٰ، اور دیانت کا برملا اعتراف کرتے۔

1. عبداللہ بن مبارک اور امام سفیان ثوری کا مکالمہ

عبد الله بن المبارك قال: سألت أبا عبد الله سفيان بن سعيد الثوري عن الدعوة للعدو أواجبة هي اليوم؟ فقال: قد علموا على ما يقاتلون، قال ابن المبارك: فقلت له: إن أبا حنيفة يقول في الدعوة ما قد بلغك، قال فصوب بصره وقال لي: كتبت عنه؟ قلت: نعم، قال فنكس رأسه ثم التفت يمنياً وشمالاً، ثم قال: كان أبو حنيفة شديد الأخذ للعلم، ذاباً عن حرام الله عز وجل عن أن يستحل، يأخذ بما صح عنده من الأحاديث التي تحملها الثقات وبالآخر من فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما أدرك عليه علماء الكوفة، ثم شنّع عليه قوم نستغفر الله، نستغفر الله.

(فضائل ابي حنيفة, ابی ابی العوامؒ رقم 144 اسنادہ حسن ،  الانتقاء ,ابن عبد البر المالكي– مناقب ائمه اربعه , ابن عبد الهادي الحنبلیؒ)


عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ کے بارے میں سوال کیا تو امام ثوری رحمہ اللہ نے پہلے سر جھکا لیا، نظر نیچی کر لی، دائیں بائیں دیکھا، اور پھر امام ابو حنیفہ کی خوب تعریف کی۔ انہوں نے کہا: "ابوحنیفہ علم کو سختی سے اخذ کرنے والے تھے، حرام چیزوں سے سختی سے بچاتے تھے، ثقہ راویوں سے صحیح احادیث لیتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور علماء کوفہ (صحابہ و تابعین) کے عمل پر عمل کرتے تھے۔" آخر میں امام سفیان ثوری نے ان پر طعن کرنے والوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دو مرتبہ استغفار کیا۔ (فضائل ابی حنیفہ: روایت نمبر 144، اسناد حسن)


2. یحییٰ بن ضریس اور سفیان ثوری کا مکالمہ

جب امام ابو حنیفہؒ کے استدلال کا طریقہ (اصول استنباط - قرآن، سنت، اقوال صحابہ، پھر اجتہاد) امام سفیانؒ کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ کوئی واضح اعتراض نہ کر سکے۔سائل کے بار بار پوچھنے پر بھی وہ کوئی معقول وجہ نہ بتا سکے کہ وہ امام ابو حنیفہؒ پر اعتراض کیوں کرتے ہیں۔ بلکہ خاموش ہو گئے 

حوالہ: تاریخ بغداد 15/504، اسنادہ صحیح

جب یحییٰ بن ضریس رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح کی وجہ دریافت کی، تو امام ثوری کوئی معقول جواب پیش نہ کر سکے۔ یہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے پاس امام ابو حنیفہ کے خلاف کوئی مضبوط علمی دلیل موجود نہ تھی۔


3. امام ابو قطن اور سفیان ثوری کا واقعہ

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ بعض مجالس میں بیان کرتے کہ امام ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔ تاہم جب ان سے اس کا سبب دریافت کیا گیا تو انہوں نے وضاحت کی کہ یہ توبہ کفر سے متعلق نہ تھی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض اوقات تعصب کی بنا پر ادھورا واقعہ بیان یعنی جب تک ان سے پوچھا نہ گیا تو وہ ادھوری روایت بیان کرتے تھے کہ ابو حنیفہ سے کفر سے توبہ کی جس کو بڑے بڑے محدثین جیسے ابن عیینہ ، احمد بن حنبل نے بھی جوں کا توں بیان کیا ، جس سے امام ابو حنیفہ کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا ، بڑے بڑے محدثین نے پوری روایت جاننے کی کوشش تک نہ کی ، لیکن جب امام شعبہ کے شاگرد امام ابو قطن نے ہمت کر کے سفیان ثوری سے پورا واقعہ پوچھا تو سفیان ثوری پہلے نادم ہوئے ، جھوٹ تو بول نہ سکتے تھے اس لئے سچائی بتائی کہ وہ توبہ کفر سے تھی ہی نا۔ قارئین اگر امام ابو قطن یہ بات سفیان ثوری سے نہ پوچھتے تو شاید آج تک محدثین یہی ادھوری بات بتاتے اور لکھتے رہتے کہ ابو حنیفہ نے دو بار کفر سے توبہ کی ۔ الغرض محدثین نے ہمیشہ امام ابو حنیفہ کے بغض میں ان کےخلاف الزامات کی تحقیق نہیں کی ، جیسی ادھوری کچی پکی روایت سنی وہی آگے بیان کی ۔

 اللہ ان کی مغفرت فرمائے.

(مزید تفصیل کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود ،  تانیب الخطیب امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر  42 ) 

خلاصہ و نتیجہ

مندرجہ بالا تین مضبوط روایات اور واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ:


اعتراضات کی کوئی مضبوط بنیاد نہ تھی: اگر امام ابو حنیفہ واقعی کسی علمی یا دینی خطا کے مرتکب ہوتے تو امام سفیان ثوری جیسے جلیل القدر محدث دلیل اور وضاحت کے ساتھ ان کی غلطی بیان کرتے۔ مگر خاموشی، سر جھکانا، اور استغفار کرنا  اس بات کی علامت ہے کہ  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کی گئی جروحات اور اعتراضات کی کوئی علمی بنیاد نہیں تھی۔

محض وقتی معاصرت اور دور کے اختلافات کا اثر تھا: امام سفیان ثوری اور امام ابو حنیفہ ایک ہی زمانے کے عظیم علماء تھے۔ علمی میدان میں بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ معاصرین کے درمیان سختی اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ امام سفیان ثوری کا طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اعتراضات بھی زیادہ تر اسی وقتی معاصرت کا نتیجہ تھے، نہ کہ کسی اصولی نقص یا دینی خیانت پر مبنی۔

باطنی اعترافِ عظمت: امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ظاہری طور پر کچھ سخت باتیں کہنے کے باوجود جب حقیقت سے سامنا ہوتا، تو امام ابو حنیفہ کی علم پرستی، دیانت، اور سنت کی پیروی کو تسلیم کرتے اور ان پر ہونے والے طعن پر اللہ سے استغفار کرتے۔

امام ابو حنیفہ کی حقانیت کا غیر شعوری اعتراف: انسان کا اصل کردار اُس وقت سامنے آتا ہے جب وہ تنہائی یا غیر رسمی گفتگو میں دل کی بات کرتا ہے۔ امام سفیان ثوری کا شاگردوں کے سامنے بار بار امام ابو حنیفہ کی عظمت کا اعتراف اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دل کی گہرائیوں میں وہ امام ابو حنیفہ کو عظیم امام مانتے تھے۔




آخری نتیجہ:

 حقیقت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم و تقویٰ کا ایسا روشن مینار تھے کہ ان کے مخالفین بھی جب دیانت سے سوچتے، تو ان کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکتے۔


مزید تفصیل کیلئے دیکھیں

اعتراض نمبر 18 : امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جروحات کا تحقیقی جائزہ

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...