نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 15: امام ابو حنیفہ کے ہاں جوتے کی عبادت جائز ہے۔

 

اعتراض نمبر 15:

 کہ امام ابو حنیفہ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی ایک جوتے کی عبادت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتا ہے تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں تو سعید نے کہا کہ یہ تو کھلا کفر ہے۔

أخبرنا محمد بن الحسين بن الفضل القطان، أخبرنا عبد الله بن جعفر بن درستويه، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثني علي بن عثمان بن نفيل، حدثنا أبو مسهر، حدثنا يحيى بن حمزة - وسعيد يسمع - أن أبا حنيفة قال: لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله، لم أر بذلك بأسا. فقال سعيد: هذا الكفر صراحا.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اب ہمیں ایسے مخالفین کا سامنا ہے جن کا صواب (درست بات کہنے کی توفیق) ضائع ہو چکا ہے اس جھوٹ کو گھڑنے کی وجہ سے جو انہوں نے امام ابو حنیفہ پر باندھا ہے۔ کیا کسی نے جہان میں کوئی ایسا آدمی دیکھا ہے جو جوتے کی عبادت کرے یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں ابو حنیفہ سے پوچھے تو وہ اس کو درست قرار دیں؟ اور کیا ابو حنیفہ جوتے کی عبادت کی طرف دعوت دینے والے تھے حالانکہ امت محمدیہ کے اکثر طبقہ نے زمانہ یکے بعد دیگرے گزرنے کے باوجود ان کو دین میں اپنے لیے امام بنالیا ہے۔

 پس اے مجنون متعصبو! تم اپنی بات کو لکھنے سے پہلے پرکھ تو کر لیا کرو تا کہ تم اس کو ابو حنیفہ اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں دلیل بنا سکو اور پختہ بات ہے کہ تم جس دن اس جیسے بیہودہ کلام کو لکھتے ہو تو خود ایک میزان درج کر جاتے ہو جس کے ساتھ تمام امتوں اور مذاہب والوں کے سامنے تمہارا عقل اور دین میں انتہائی گرا ہوا ہونا واضح طور پر پہچانا جاتا ہے۔ اور یہ بہت ظاہر بات ہے جس کی وجہ سے سند کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت تو نہیں رہتی مگر ہم تبرعا اس پر بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 

اس کا راوی عبد اللہ بن جعفر جو ہے وہ ابن درستویہ ہے جو کہ چند دراہم کی خاطر ان لوگوں سے بھی حدیث بیان کر دیتا تھا جن سے اس کی ملاقات نہ ہوئی ہوتی۔ پس اگر آپ اس کو ایک درہم دیں تو وہ آپ کی مرضی کے مطابق جھوٹی باتیں گھڑ کر پیش کر دے گا اور اس کی روایت خاص کر الدوری اور یعقوب سے منکر ہے اور البرقانی اللکانی کا قول اس کے بارے میں مشہور ہے اور خطیب اور اس کے پیروکاروں کی پشتیں اس تہمت کا بوجھ اٹھانے سے کمزور ہیں جو اس بیہودہ کہنے والے اخباری کے کندھوں پر لدی ہوئی ہے۔

 اور خطیب  عبداللہ بن جعفر سے اس جیسی بہت سی من گھڑت روایات نقل کی ہیں۔ اور ابو مسهر ، عبد الاعلیٰ بن مسهر الدمشقی ہے جس نے قرآن کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کے بارے میں جو آزمائش آئی تھی، اس میں حکومتی نظریہ کو قبول کر لیا تھا تو جن لوگوں کے نزدیک آزمائش میں (غلط مسئلہ) کو قبول کر لینے والے کی روایت مطلقاً مردود ہے تو ان کے نزدیک اس کی روایت مردود ہوگی۔

 اور یحیی بن حمزہ قدری فرقہ کا ہے، اس کی بات ائمہ اہل السنت کے رد میں دلیل نہیں بنائی جا سکتی اور اس کے ساتھ یہ بات بھی رد کے لیے کافی ہے کہ اس جیسا کلام کسی عقل مند سے صادر نہیں ہو

سکتا۔

اور خطیب نے  کہا جو کہ القاسم بن حبیب کا کلام ہے اور اس پہلے کلام کے ہم معنی ہے کہ 

ﻗﺎﻝ ﺍﻟﺨﻄﻴﺐ : ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺍﺑﻦ ﺭﺯﻕ، ﺃَﺧْﺒَﺮَﻧَﺎ ﺃَﺣْﻤَﺪ ﺑْﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﺑْﻦ ﺳﻠﻢ، ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺍﻷ‌ﺑﺎﺭ، ﺣﺪّﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ ﺍﻷ‌ﻋﻠﻰ ﺑﻦ ﻭﺍﺻﻞ، ﺣﺪّﺛﻨﺎ ﺃﺑﻲ، ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺍﺑﻦ ﻓﻀﻴﻞ ﻋﻦ ﺍﻟْﻘَﺎﺳِﻢ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺐ ﻗَﺎﻝَ: ﻭﺿﻌﺖ ﻧﻌﻠﻲ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﺼﻰ ﺛُﻢَّ ﻗُﻠْﺖُ ﻷ‌ﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ: ﺃﺭﺃﻳﺖ ﺭﺟﻠًﺎ ﺻﻠﻰ ﻟﻬﺬﻩ ﺍﻟﻨﻌﻞ ﺣَﺘَّﻰ ﻣﺎﺕ، ﺇِﻻ‌ ﺃَﻧَّﻪُ ﻳﻌﺮﻑ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻘﻠﺒﻪ؟ ﻓَﻘَﺎﻝَ: ﻣﺆﻣﻦ, ﻓَﻘُﻠْﺖُ: ﻻ‌ ﺃﻛﻠﻤﻚ ﺃﺑﺪًﺍ

میں نے سنگریزوں والی زمین پر جوتا رکھا پھر میں نے ابو حنیفہ سے کہا کہ آپ ایسے آدمی کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں جو مرتے دم تک اس جوتے کے لیے نماز پڑھتا ہے مگر بیشک وہ اپنے دل میں اللہ کو جانتا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ شخص مومن ہے تو میں نے کہا کہ میں آپ سے کبھی کلام نہ کروں گا۔

 اور قاسم بن حبیب التمار وہ ہے جو امام ترمذی کے ہاں قدریہ اور مرجئہ کی مذمت والی حدیث کا راوی ہے اور ابن معین نے کہا کہ یہ لیس بشئ ہے اور ابن ابی حاتم کے الفاظ یوں ہیں کہ میرے باپ نے اسحاق بن منصور کے واسطہ سے یحیی بن معین کا یہ قول نقل کیا ہے کہ قاسم بن حبیب جو کہ نزار بن حیان سے حدیث بیان کرتا ہے، وہ لاشئی درجہ کا راوی ہے الخ

( ان الفاظ کو ائمہ جرح و تعدیل نے جرح کے چوتھے درجہ میں لکھا ہے) اور ابن ابی حاتم نے قاسم بن حبیب کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے، اس سے مراد وہ حدیث ہے جو ترمذی نے مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں نقل کی ہے اور ابن حبان کا اس کو ثقہ کہنا اس جرح کے مقابل نہیں ہو سکتا بلکہ جرح مقدم ہے اور ابن سعد نے اس کے بارے میں محمد بن فضیل سے نقل کیا ہے جو اس روایت کو نقل کرنے والا ہے کہ بعض محدثین نے اس کے متعلق لا يحتج به کہا ہے (جو کہ الفاظ جرح میں سے تیسرے درجے کے الفاظ ہیں) اور سند کی ابتدا میں ابن رزق اور ابن مسلم اور الابار ہیں (جو اس روایت کے من گھڑت ہونے کے لیے کافی دلیل ہے اور خبر ایسی ہے کہ اس کا کسی عقل مند سے صادر ہونے کا تصور نہیں کیا جا سکتا پس اس کے جھوٹ ہونے کے شواہد قائم ہیں (مگر افسوس کہ) خطیب کے نزدیک اس طرح کی روایت محفوظ ہے۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

الاسم: القاسم بن حبيب

النسب: التمار، الكوفي

ابن حجر

لين [تقريب التهذيب (1/ 790)]

الذهبى

ضعف [الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة (4/ 27)]

يحيى بن معين

نا عبد الرحمن قال: ذكره أبي، عن إسحاق بن منصور، عن يحيى بن معين أنه قال: القاسم بن حبيب الذي يحدث، عن نزار بن حيان لا شيء [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم (7/ 108)]

قال إسحاق بن منصور، عن ابن معين: لا شيء. [تهذيب التهذيب (3/ 408)]

قال إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين: لا شيء [تهذيب الكمال (23/ 340)]

(النعمان سوشل میڈیا سروسز)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...