نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نصر المعبود تحقيق حديث عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ قسط نمبر 2


نصر المعبود تحقيق حديث عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ 

اس حدیث کی سند پر وارد ہونے والے کچھ مغالطے

مغالطہ نمبر1۔

محمد صاحب گوندلوی لکھتے ہیں :

حقیقت یہ ہے کہ حدیث ابن مسعود کا مدار عاصم بن کلیب پر ہے اور عاصم بن کلیب تفرد کی صورت میں قابل احتجاج نہیں میزان میں ہے

 [ قال ابن المديني لا يحتج بما انفرد به]

 چنانچہ ابن عبدالبر بھی تمہید میں لکھتے ہیں یہ حدیث بوجہ تفرد عاصم ضعیف ہے۔

[مسئلہ رفع الیدین پر محقانه نظر محمد گوندلوی ( متوفی 1405) ص:113 ناشر نعمانی کتب خانہ لاہور]

جواب: 

عاصم بن کلیب جمہور محدثین کے ہاں ثقہ ہے ملاحظہ فرمائیں:

عن احمد لا بأس بحديثه وقال ابن معين والنسائي ثقة وقال أبو حاتم صـالـح وقـال الآجـرى قـلـت لأبي داود عاصم بن كليب بن من قال ابن شهـاب كـان من العباد وذكر من فضله قلت كان مرجئا قال لا أدرى وقال في موضع آخر كان أفضل أهل الكوفة و....... وذكره ابن حبان في الثقات....... وقـال ابـن شـاهين في الثقات قال أحمد بن صالح المصرى يعد من وجوه الـكـوفـييـن الثقات وفي موضع آخر هو ثقة مأمون....... وقال ابن سعد كان ثقة يحتج به 

[ تهذيب التهذيب لابن حجر عسقلانی (متوفی 852) ج 5 ص:55 ناشر مطبعة دائرة المعارف النظامية]

وأما عاصم بن كليب وأبوه فثقتان.[1]

 عاصم من رجال مسلم، وهو ثقة.[2]

عاصم بن كليب الكوفى،وهو ثقة.[3]

عاصم بن كليب الجرمي:ثقة يحتج به.[4]

وعاصم بن كليب ثقة.[5]

[ 1 بيان الوهم والايهام لابن القطان (متوفی 628) ج 5 ص: 393 ناشر دار طيبة رياض]

[۔2 البدر المنير لابن الملقن (متوفی 804) ج 5 ص:296 ناشر دار الهجرة الرياض]

[۔3 سلسلة الاحاديث الصحيحة لناصر الدین البانی (متوفی 1420) ج 3 ص: 259 ناشر مكتبة المعارف الرياض]

[۔4 حاشية تفسير الطبري لاحمد محمد شاکر (متوفی 1370) ج 1 ص:484 نـاشـر مـؤسسه الرسالة] 

۔ 5 شـرح عـلـل الـتـرمـذى لزین الدین الدمشقی (متوفی 795) ج 2 ص: 874 ناشر مكتبه المنار]

حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

اس سند میں عاصم بن کلیب اور ان کے والد کلیب دونوں جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔

[ نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ص:28.27 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

امام بخاری نے عاصم بن کلیب کی روایت کو صیح البخاری میں تعلیقا نقل فرمایا ہے۔

وقـال عـاصـم: عن أبي بردة، قال: قلت: لعلي: ما القسية؟ 

قال: ثياب أنها من الشام أو من مصر، مضلعة فيها خرير وفيها أفقال الأنرنج۔

[ صحيح البخاري لمحمد بن اسماعيل البخاری (متوفی 256) ج7ص 151 ناشر دار طوق النجاة]

 زبیر علی زئی ایک راوی کے متعلق لکھتے ہیں: امام بخاری نے مؤمل بن اسماعیل سے اپنی صحیح بخاری میں تعلیقاً روایت لی ہے لہذا وہ ان کے نزدیک صحیح الحدیث ( ثقہ وصدوق ) ہیں.

[ نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ص:23 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

زبیر علی زئی لکھتے ہیں: (عاصم بن کلیب ) صحیح مسلم کے راوی ہیں۔

 نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ص:14 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

حدثنا ابن أبي عمر، قال: حدثنا سفيان، عن عاصم بن كليب، عن ابن أبي موسى قال: سمعت عليا يقول : نهایی رسول الله صلى الله عليه وسلم عـن الـقـسي، والميثرة الحمراء، وأن ألبس خاتمي في هذه وفي هذه وأشار إلى الشبابة والوسطى. هذا حديث حسن صحيح.[2]

 أخبرنا الحسن بن يعقوب العدل، ثنا محمد بن عبد الوهاب، ثنا جعفر بن عون، ثنا سفيان بن سعيد، عن عاصم بن كليب، عن أبيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه كان رآهم يطوفون بين الصفا والمروة قال:هذا مما أورثتكم أم إسماعيل هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه.[3]

(التعليق -من تلخيص الذهبي)صحیح

 حدثنا محمد بن القاسم بن زكريا حدثنا أبو كريب ثنا ابن إدريس عن عـاصـم بـن كـلـيـب بـهـذا وقـال: فكبر ورفع يديه فلما ركع طبق يديه بين ركبتيه فبلغ ذلك سـعـدا فـقال: صدق أخي كنا نفعل هذا ثم أمرنا بهذا ووضع الكفين على الركبتين. هذا إسناد ثابت صحيح.[4]

[۔2 سـنـن التـر مـذی لابی عيسى الترمذي (متوفی 279) ج 3 ص: 301 ناشر دار الغرب الاسلامی]

[۔3  مستدرک لـلـحـاكـم (متوفی 405) ج 2 ص: 297 ناشر دار الكتب العلمية]

[۔4  سـنـن الدار قطني للامام الدار قطنی (متوفی 358) ج 2 ص:137 ناشر مؤسسة الرسالة]

ان تمام عبارات کا خلاصہ

1- امام احمد فرماتے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں ۔ 

2- یحی بن معین فرماتے ہیں یہ ثقہ ہے۔ 

3.نسائی نے کہا کہ یہ ثقہ ہے۔

4 - ابوحاتم نے فرمایا کہ یہ ٹھیک ہے۔ 

5-ابوداؤد نے اس کی فضیلت بیان کی ۔

6. ابن حبان نے اس کو ثقات میں ذکر کیا۔ 

7۔ابن شاہین نے اس کو ثقات میں ذکر کیا

8-احمد بن صالح مصری نے کہا ثقہ اورمحفوظ ہے۔

9.ابن سعد نے کہا کہ یہ ثقہ ہے۔ 

10.ابن القطان فاسی نے کہا یہ ثقہ ہے۔ 

11. ابن الملقن نے کہا ثقہ ہے ۔ 

12- ناصر الدین البانی غیر مقلد نے کہا یہ ثقہ ہے۔ 

13-احمد محمد شاکر غیر مقلد نے کہا ثقہ ہے ۔ 

14. زین الدین دمشقی نے کہا ثقہ ہے ۔

 15. زبیرعلی زئی غیر مقلد نے کہا یہ ثقہ ہے۔ 

16. ( زبیر صاحب کے اصول کے مطابق امام بخاری کے ہاں ثقہ و صدوق ہے ۔

 17. ( زبیر صاحب کے اصول کے مطابق امام مسلم کے ہاں ثقہ ہے وصدوق ہے

18- امام حاکم کے ہاں صحیح الحدیث ہے 

19۔حضرت علامہ ذہبی کے ہاں صحیح الحدیث ہے ۔

20- امام دارقطنی کے ہاں صحیح الحدیث ہے ۔

 تنبیہ : 

اگر ہم اس طرح کی توثیقات لکھتے جائیں تو میرے گمان میں کم از کم پچاس تو لکھی جاسکتی ہیں لیکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوۓ اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔

 اور جہاں تک تعلق ہے علی بن مدینی کی اس جرح کا کہ عاصم حالت انفراد میں حجت ہے تو یہ جرح بقول محمد صاحب گوندلوی کے غیر مفسر ہے اس لیے مردود ہے چنانچہ محمد صاحب گوندلوی لکھتے ہیں:

محمد بن اسحاق پر جو جرحیں ہیں ان میں سے بعض غیر مفسر ہیں ......... غیر مفسر جرحیں مندرجہ ذیل ہیں .......... 

جب منفرد ہو تو حجت نہیں ۔ یہ سب جرحیں مبہم غیر مفسر ہیں اور مبہم جرح توثیق کے بعد مقبول نہیں ہوتی ۔

[ خیر الکلام لمحمد گوندلوی ( متوفی 1405) ص: 158 ناشر کتبہ نعمانیة لاہور]

حیرت کی بات ہے کہ جب گوندلوی صاحب کے پسندیدہ راوی محمد بن اسحاق پر حالت انفراد میں حجت نہ ہونے کی جرح ہو رہی ہے تو وہ غیر مفسر اور غیر مقبول بن جاتی ہے لیکن جب وہی جرح عاصم بن کلیب پر ہوتی ہے تو گوندلوی صاحب کے نزدیک مفسر اور مقبول بن جاتی ہے ایسے انصاف کو ہمارا دور سے سلام ۔

مغالطہ نمبر 2

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

حاکم نیشاپوری نے حافظ ابن حجر سے پہلے ان کو (یعنی سفیان ثوری کو) طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے؟.

[ مـعـرفة علوم الحديث ص:104 و جامع التحصيل ص.99]

 حاکم نیشاپوری حافظ ابن حجر سے زیادہ ماہر اور متقدم تھے اور درج ذیل دلائل کی روشنی میں حاکم کی بات صحیح اور حافظ ابن حجر کی بات غلط ہے ۔

[3نورالعینین لزبیر علی ص: 138 ناشر مکتبہ اسلامیہ لاہور]


جواب: 

زبیرعلی زئی صاحب کی یہ عبارت غلط فہمی پرمشتمل ہے امام حاکم نے اس عبارت کے تحت سفیان ثوری کو طبقہ ثالثہ کا مدلس ہرگز نہیں بتایا ہے۔ ماجرٰی دراصل یہ ہے کہ امام حاکم نے جب طبقہ ثالثہ کا بحث شروع فرمایا تو کہا کہ طبقہ ثالثہ کے مدلسین وہ ہیں جو مجہولین سے تدلیس کرتے ہیں پھران مدلسین کی کچھ مثالیں پیش فرمائیں آگے چل کر ایک فائدہ بیان فرمایا ہے وہ یہ کہ کچھ محدثین ایسے ہیں جو مجہولین سے روایت کرتے ہیں جیسے سفیان ثوری وغیرہ اور اسی طرح شعبة بن الحجاج وغیرہ تو بسا اوقات روایت عن الحجہولین کو طالب علم حدیث جرح سمجھتا ہے حالانکہ یہ جرح نہیں ۔ 

گویا کہ امام حاکم کی یہ عبارت جواب ہے سوال مقدر کا وہ سوال یہ ہے کہ آپ نے کہا وہ راوی جو مجہولین سے تدلیس کرتے ہیں ان کی وہ روایات غیر مقبول ہوگی پھر تو بہت سارے راوی ایسے ہیں جو مجہولین سے روایت کرتے ہیں جیسے سفیان ثوری شعبہ بن الحجاج وغیرہ؟ تو امام حاکم نے جواب دیا کہ روایت من الحجمولین کوئی جرح و عیب نہیں ہے لہذا روایت من المجہولین کرنے والے راویوں کی روایت مقبول ہوگی ۔ اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

قال أبو عبد الله: قد روى جماعة من الأئمة، عن قوم من المجهولين فمنهـم شـفيان الثوري،روى عن أبي همام السكوني، وأبي مسكين وأبي خالد الطائي، وغيرهم من المجهولين ممن لم يقف على أساميهم غير أبي همام، فإنه الوليد بن قيس إن شاء الله وكذلك شعبة بن الحجاج حدث، عن جماعة من المجهولين، فأما بقية بن الوليد، فحدث عن خلق من خلق الله لا يوقف على أنسابهم، ولا عدالتهم، وقال أحمد بن حنبل: إذا حدث بقية عـن الـمـشـهـوريـن فـرواياته مقبولة، وإذا حدث عن المجهولين فغير مقبولة، وعيسى بن موسى التيمي البخاري الملقب بغنجار شيخ في نفسهثقة مقبول، قد احتج به محمد بن إسماعيل البخاري في الجامع الصحيح غير أنه يحدث عن أكثر من مائة شيخ من المجهولين لا يعرفون بأحاديث مناكير، وربما توهم طالب هذا العلم انه بجرح فيه وليس كذلك۔

[معرفة علوم الحديث للامام حاکم (متوفی 405)ص: 106ناشر دار الكتب العلمية

قارئین کرام امید ہے آپ امام حاکم کی عبارت کا مطلب بخوبی سمجھ گئے ہونگے اس عبارت میں نکتے کی بات یہ ہے کہ امام حاکم اس عبارت میں فرماتے ہیں [ وکذالک شعبة بن الحجاج]اور سفیان ثوری کی طرح ہیں شعبۃ بن الحجاج یعنی جس طرح سفیان ثوری مجہولین سے روایت کرتے ہیں اسی طرح شعبۃ الحجاج بھی مجہولین سے روایت کرتے ہیں اب اگر بقول زبیر علی صاحب کے سفیان ثوری اس عبارت سے طبقہ ثالثہ کے مدلس ثابت ہو گئے تو شعبۃ بن الحجاج بھی طبقہ ثالثہ کے مدلس ثابت ہونگے حالانکہ شعبۃ بن الحجاج بالاتفاق طبقہ ثالثہ کا مدلس تو درکنار صرف مدلس بھی نہیں ہے 

چنانچہ اس کا مشہور مقولہ ہے [لان ازنی احب الى من ان ادلس ] یعنی تدلیس میرے نزدیک زنا سے زیادہ بری چیز ہے تو جب اس عبارت سے شعبۃ بن الحجاج کا طبقہ ثالثہ کا مدلس ثابت ہونا ناممکن ہے تو اسی عبارت سے سفیان ثوری کا بھی طبقہ ثالثہ کا مدلس ثابت ہونا ناممکن ہے کیونکہ امام حاکم نے دونوں پر ایک جیسا حکم لگایا ہے تو یا دونوں کو طبقہ ثالثہ کامدلس ماننا پڑے گا یا دونوں کو نہیں ۔

اور جب غیر مقلدین اس عبارت سے شعبہ کو طبقہ ثالثہ کا مدلس ماننے پر ہرگز تیارنہیں ہو سکتے تو احناف بھی اس عبارت سے سفیان ثوری کو طبقہ ثالثہ کے ماننے پر ہرگز تیار نہیں ہو سکتے ہیں ۔ 

ایک لطیفہ:

میں نے کسی زمانے میں زبیر صاحب کو فون کیا تھا۔ میں نے کہا آپ نے نورالعینین میں معرفۃ علوم الحدیث کے حوالے سے لکھا ہے کہ سفیان ثوری طبقہ ثالثہ کا مدلس ہے حالانکہ اس عبارت میں تو یہ بھی لکھا کہ وکذلک شعبة بن الحجاج تو زبیر صاحب نےکہا شعبہ کا ذکر یہاں غلط ہے خلاصہ یہ کہ اپنے مذہب کی حمایت میں اس نے کتاب کی عبارت کو غلط قراردیا لیکن اپنی غلط رای کو نہیں بدلا جیسے کسی نے کہا ہے: خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں ۔

نیز شعبہ کا ذکر اگر یہاں غلط ہوسکتا ہے تو سفیان ثوری کا ذکر بھی یہاں غلط ہوسکتا ہے ۔آخر سفیان کے ساتھ کیا دشمنی ہے اس کے حق میں یہ عبارت صحیح اور شعبہ کے حق میں غلط ایسے انصاف کو ہمارا دور سے سلام ۔

لیکن اگر ہم تھوڑی دیر کے لیے اس عبارت کو سفیان کے حق میں صحیح بھی مان لیں تو اس عبارت کے آخر میں لکھا ہے کہ یہ چیز جو سفیان میں موجود ہے یعنی روایت عن الجہولین میں جرح ہی نہیں ہاں طالب علم کبھی اس کو جرح سمجھتا ہے لیکن صحیح نہیں ہے ۔لہذا اس عبارت سے سفیان پر کوئی جرح ثابت نہیں ہوئی۔

فاٸده:

حافظ زبیر علی زئی صاحب کے استاذ محب اللہ شاہ راشدی زبیر صاحب کا رد کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:

اگر ہمارے دوست ( زبیر صاحب ) اور اس کے ہمنواؤں کو اس پر اصرار ہے کہ یہاں مجاہیل سے روایت کا مطلب ان سے تدلیس ہی ہے کیونکہ یہ عبارت وہ تدلیس کے نوع ہی میں لاۓ ہیں تو پھر گذارش ہے کہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ کہ امام شعبہ رحمہ اللہ بھی ضعفاء سے تدلیس کر تے تھے حالانکہ یہ سراسر باطل ہے امام شعبہ رحمہ اللہ تدلیس عن الضعفاءتو کجا و محض تدلیس سے ہی بری تھے۔

[ مقالات راشدیہ لمحب الله راشدی ( متوفی 1415 ) ج 1 ص : 311 ناشر مکتبہ نعمانیہ لاہور]

اور جہاں تک تعلق ہے زبیر صاحب کی اس بات کا کہ ( حاکم نیشاپوری حافظ ابن حجر سے زیادہ ماہر اور متقدم تھے اور درج ذیل دلائل کی روشنی میں حاکم کی بات صحیح اور حافظ ابن حجر کی بات غلط ہے ۔ یہ بات خود غلط ہے کیونکہ تحقیق کے بعد واضح ہو گیا کہ ابن حجر اور حاکم کی بات میں کوئی تضاد نہیں کہ ایک کی بات کو دوسرے کی بات پر ترجیح دی جائے ۔

 لہذا یہ زبیر صاحب کی اپنی غلط فہمی ہے ۔

نیز امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب مستدرک حاکم میں کئی مقامت پر سفیان ثوری کی معنعن روایات کو صحیح اور علی شرط البخاری و مسلم کہا ہے اگر امام حاکم رحمہ اللہ کے نزدیک سفیان ثوری طبقہ ثالثہ کے مدلس ہوتے تو اس کی معنعن روایات کو ضعیف کہتے لیکن جب صحیح کہا ہے تو معلوم ہو گیا کہ امام حاکم کے نزدیک سفیان ثوری طبقہ ثالثہ کے مدلس نہیں 

لہذا امام حاکم کی اس عبارت کا یہ مطلب بیان کرنا کہ سفیان ثوری طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں یہ [توجيه القول با لا يرضى به القائل ] ہے یعنی مصنف کے قول کا ایسا مطلب بیان کرنا ہے جس سے مصنف بھی راضی نہیں ہیں ۔

اگر کوئی یہ اشکال کرے کہ ممکن ہے کہ امام حاکم نے پہلے زمانے میں اس کی معنعن روایات کو صحیح کہا ہو اور معرفیۃ علوم الحدیث بعد میں لکھی ہو لہذا یوں امام حاکم کا رجوع ثابت ہوگا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مستدرک حاکم امام حاکم کی آخری تصنیف ہے وہ اس طرح کہ حضرت علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

فإن الحاكم إنما ألف "المستخرج "في أواخر عمره، بعد موت الدارقطني بمدة۔[1]

حاکم ( متوفی 405 ) نے مستدرک اپنی آخری عمر میں امام دارقطنی( متوفی 385) کی وفات کے کافی مدت کے بعد لکھی ہے ۔

 لہذا رجوع کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا ۔

[ 1 سيـر اعـلام الـنـبـلاء لاحـمـد بـن محمد بن عثمان الذهبی (متوفی 748) ج 12 ص:577 ناشر دار الحديث القاهره]

مغالط نمبر 3-

حافظ ابن حبان البستی فرماتے ہیں:

اور مدلس جو ثقہ و عادل ہیں جیسے ( سفیان ثوری ،اعش اور ابو اسحاق (السبیعی ) وغیرہم تو ہم ان کی ( بیان کردہ احادیث سے حجت نہیں پکڑتے الا یہ کہ انہوں نے سماع کی تصریح کی ہو۔

[  نورالعینین لزبیر علی ص:218.217 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: ابن حبان جرح میں متشدد شمار کیے جاتے ہیں اس لیے اکثر محدثین کے مقابلے میں اس کی جرح کا اعتبار نہیں کیا جائیگا جیسے کہ حضرت علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فيتأمل هذا، فإن ابن حبان صاحب تشنيع وشغب.

[ ميزان الاعتدال للذهبي (متوفی 748) ج 1 ص290 ناشر دار المعرفة بيروت]

 پس اس کے متعلق غور وفکر کیا جاۓ اس لیے کہ ابن حبان طعنہ باز اور فتنہ انگیز ہے۔

 نیز اس کے متعلق حضرت علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

وقد ذكـره أبـو عـمـرو بن الصلاح في طبقات الشافعية، وقال:ربما غلط الغلط الفاحش في تصرفاته

[  تذكرة الحفاظ للذهبي (متوفی 747) ج3 ص:90 ناشر دار الكتب العلميه]

ابوعمرو بن صلاح نے اس کے متعلق طبقات الشافعیۃ میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے تصرفات میں بہت بری غلطیاں کی ہیں ۔ 

میں بھی کہتا ہوں سفیان ثوری کی معنعن روایت کو قبول نہ کرنا یہ ان کی ان فحش غلطیوں میں سے ہے۔

مغالطہ نمبر 4 

حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں

امام علی بن عبد اللہ المدینی نے فرمایا لوگ سفیان ( ثوری ) کی حدیث میں یحی القطان کے محتاج ہیں کیونکہ وہ مصرح بالسماع روایات بیان کرتے تھے ۔

[ الكفاية للخطيب ص: 362 سندہ صحیح]

اس قول سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں :

اول: سفیان ثوری سے یحی بن سعید القطان کی روایت سفیان کے سماع پر محمول ہوتی ہے ۔

دوم : امام ابن المدینی امام سفیان ثوری کو طبقہ اولی یا ثانیہ میں سے نہیں سمجھتے تھے ورنہ یحی القطان کی روایت کامحتاج ہونا کیا ؟۔

[ تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات لزبیر علی زئی ج 3 ص: 308.307 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 جواب: اصلی عبارت میں ہے: 

حدثني أبو القاسم الأزهري، ثنا عبد الرحمن بن عمر الحلال، ثنا محمد بن أحمد بن يعقوب، ثنا جدي ..... وقال جدى: سألت على بن الـمـديني ...... قال على: والـنّـاس يحتاجون في حديث سفيان إلى يحيى الـقـطـان لحال الإخبار، يعني على أن سفيان كان يدلس وأن يحيى القطان كان يوقفه على ما سمع مما لم يسمع.

[  الكفاية للخطيب البغدادی (متوفی 463) ص: 362 ناشر المكتبة العلمية]

 اولا : اس عبارت میں سفیان کی تعین نہیں کہ سفیان سے مراد سفیان ثوری ہے یا سفیان بن عیینہ کیونکہ یحی بن سعید القطان جس طرح سفیان ثوری سے روایت کرتے ہیں اسی طرح سفیان بن عیینہ سے بھی روایت کرتے ہیں اور جس طرح سفیان ثوری مدلس میں اسی طرح سفیان بن عیینہ بھی مدلس ہیں تو جب تک سفیان کی اس عبارت میں تعیین ثابت نہیں کرو گے تب تک اس عبارت سے استدلال غلط ہے کیونکہ قائدہ مسلمہ ہے اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال ۔ دیکھیے :

[ عـون المعبود لشمس الحق عظیم آبادی (متوفی1329) ج 2 ص: 309 ناشر دار الكتب العلمية]

نیز راوی کے عدم تعیین کی وجہ سے زبیر صاحب کے نزدیک روایت ضعیف ہو جاتی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔

اگر محمود سے مراد محمود بن غیلان لیا جاۓ تو سند صحیح ہے اوراگر محمود بن اسحاق الخزاعی مراد لیا جاۓ تو سند منقطع ہے اسی شک کی وجہ سے راقم الحروف نے روایت کو ضعیف قرار دیا۔

[ جزء رفع الیدین مترجم لزبیر علی زئی ص: 75 ناشر مکتبہ اسلامیة تـاريـخ بغداد]

 ثانیا: یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ اس روایت کی سند میں پہلے راوی خطیب بغدادی کے استاذ ابوالقاسم الازھری کی توثیق ثابت نہیں اس کے متعلق خطیب بغدادی لکھتے ہیں :

وكـان أحـد الـمكثرين من الحديث كتابة وسماعا، ومن المعتنين به والجامعين له مع صدق وأمانة، وصحة واستقامة، وسلامة مذهب وحسن معتـقـد، ودوام درس لـلـقـرآن وسـمـعـنا منه المصنفات الكبار والكتب الطوال،وكان يسكن بدرب الآجر من نهر طابق.

[ للخطيب البغدادی (متوفی 463) ج 12 ص: 120 ناشر دار الغرب الاسلامی بیروت]

 بہت زیادہ حدیثیں لکھنے اور سننے والا تھا اور حدیث کی طرف توجہ دینے والا اور جمع کرنے والا تھا سچا امانت دار صحت و استقامت والا صحیح مذہب اور حسن اعتقاد والا اور درس قرآن پر ہمیشگی کرنے والا تھا ہم نے اس سے بڑی بڑی کتابیں سنی وہ نہر طابق میں گلی کے کشادہ دروازے پر رہتے تھے۔

اس پوری عبارت میں اگرچہ راوی کے علم و دیانتدار کا بیان ضرور ہے لیکن اس کے لیے ثقہ کا لفظ نہیں ہے ۔ جیسے کہ ایک راوی ہے عثمان بن محمد بن احمد بن مدرک اس کے متعلق زبیر صاحب لکھتے ہیں:

یادر ہے کہ عثمان بن محمد کا ثقہ ہونا معلوم نہیں اس کے بعد اس راوی کے لیے یہ عبارت نقل کرنے کے بعد زبیر صاحب لکھتا ہے:

قـال خـالـد بن سعد :عثمان بن محمد ممن عنى بطلب العلم ودرس المسائل وعقد الوثائق مع فضله وكان مفتى اهل موضعه توفی 320

خالد بن سعد نے کہا عثمان بن محمد طلب علم پر توجہ دینے والوں میں سے ہے اس نے مسائل پڑھاۓ اور فضیلت کے ساتھ ( ساتھ ) دستاویز میں لکھیں وہ اپنے موضع ( علاقے ) کا مفتی تھا 320ھ کو فوت ہوا۔ 

اس عبارت میں توثیق کا نام ونشان نہیں ہے ۔

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص: 207 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

ثالثا : عبدالرحمن بن ابی حاتم فرماتے ہیں:

عبـد الـرحـمـن نـا أبي قال سألت علی بن المديني من أوثق أصحاب الثورى؟ قال يحيى القطان وعبد الرحمن بن مهدى ووكيع وأبو نعيم وأبو نـعـيـم مـن الثقات، نا عبد الرحمن أنا أبو بكر بن أبي خيثمة فيما كتب إلى قال سمعت يحيى بن معين يقول وسئل عن اصحاب الثوري ايهم اثبت؟ فـقـال هـم خـمسـة يـحيى بن سعيد وعبد الرحمن بن مهدى ووكيع وابن المبارك وأبو نعيم.

 علی بن مدینی اور یحی بن معین کہتے ہیں کہ سفیان ثوری کے اثبت یعنی مظبوط شاگرد پانچ ہیں یحیی القطان ، وکیع اور عبداللہ بن مبارک ،عبدالرحمن بن مہدی اور ابونعیم ہیں ۔ علی بن مدینی اور یحیی بن معین نے وکیع اور عبداللہ بن مبارک کو جوسفیان سے حدیث ابن مسعود کے راوی ہیں مطلقا برابر درجے کا یعنی اثبت قرار دیا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علی بن مدینی اور یحیی بن معین کے نزدیک سفیان کی روایت یحیی سے جس طرح مطلقا قبول ہے چاہے سماع کی تصریح کرے چاہے نہیں اسی طرح وکیع اور سفیان سے بھی مطلقا قبول ہے چاہے سماع کی تصریح کرے چاہے نہیں ۔

[ الـجـرح والـتـعـديـل لابـن ابـي حـاتـم (متوفی 327) ج 7 ص: 62 ناشر مجلس دائرة المعارف العثمانيه]

مغالطہ:5

زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

یحیی بن سعید القطان نے فرمایا میں نے سفیان ( ثوری) سے صرف وہی کچھ لکھا ہے جس میں انہوں نے حدثتی اور حدثنا کہا ،سوائے دوحدیثوں کے ۔ ( کتاب العلل ومعرفةالرجال للامام احمد ج 1 ص: 270).

 [ تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات لزبیر علی زئی ج 3 ص: 308 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: 

اصلی عبارت اس طرح ہے:

قال أبي قال يحيى بن سعيد ما كتبت عن سفيان شيئا إلا قال حدثني أو حدثنا إلّا حديثين.

[العلل والمعرفہ الرجال للامام احمد بن حنبل (متوفی 241)ج 1 ص: 242 ناشر دار الخاني الرياض]

 اولا : اس عبارت میں بھی سفیان میں احتمال ہے کہ کونسا سفیان مراد ہے یہاں احتمال آ گیا اور اصول ہے [ اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال] کمامر۔ 

ثانیا: اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہاں سفیان سے مراد سفیان ثوری ہیں تو بھی ہمارے مدعا پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ یحیی بن سعید اس عبارت میں صاف فرما رہے ہیں کہ میں نے سفیان سے دو حدیثیں بغیر تصریح سماع کے لی ہیں اور یحیی نے ان کو ضعیف قرار نہیں دیا تو معلوم ہو گیا کہ یحیی کے نزدیک بھی سفیان ثوری کی تدلیس مقبول ہے ۔

 مغالطہ نمبر 6 

قسطلانی عینی اور کرمانی فرماتے ہیں : سفیان ( ثوری ) مدلس ہیں اور مدلس کی عن والی روایت حجت نہیں ہوتی الا یہ کہ دوسری سند سے (اس روایت میں ) سماع کی تصریح ثابت ہوجاۓ۔[1]

[ نورالعینین لزبیر علی ص: 217 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: اولا تو یہ حضرات سفیان ثوری کی معنعن روایت کو صحیح کہتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

1- علامہ بدرالدین عینی (متوفی 855) سے:

قال عبـد الرزاق عن سفيان الثوري عن سلمة بن كهيل، قال: حلف طاؤوس ما طاف أحد من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم لحجه وعمرته إلّا طوافا واحدا، وهذا إسناد صحيح.

 عبارت کا خلاصہ : 

علامہ بدرالدین عینی سفیان ثوری کی مذکورہ بالامعنعن روایت کو صیح بتارہے ہیں۔

[ عمدة القاری لبدر الدین عینی (متوفی 855) ج 9 ص: 281 ناشر دار احیاء التراث العربي]

2- علامہ قسطلانی ( متوفی 923) سے

وقال عبـد الـرزاق عن سفيان الثوري عن سلمة بن كهيل قال: حلف طاوس، مـا طـاف أحـد مـن أصـحـاب النبي صلى الله عليه وسلم لحجته وعمرته إلا طوافا واحدا . قال الحافظ ابن حجر:وهذا إسناد صحيح.

 عبارت کا خلاصہ: 

حضرت علامہ قسطلانی رحمہ اللہ، علامہ ابن حجر کے حوالے سے سفیان ثوری کی اس معنعن حدیث کو صحیح قرار دے رہے ہیں ۔ 

جہاں تک تعلق ہے ان حضرات کی ان عبارات کا تو یہ حضرات اپنی اس عبارت میں صحیح بخاری کی ایک حدیث کی دوسندوں میں فرق بیان کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کی پہلے معنعن روایت نقل کرنے کے بعد تصریح سماع والی روایت بیان کی ( تا کہ وہ شخص جوسفیان ثوری کے طبقہ ثانیہ کے مدلس ہونے سے ناواقف ہے اس کو یہ وہم نہ ہو کہ ) سفیان مدلس ہے اور مدلس کی معنعن روایت قبول نہیں کی جاتی ہے جب تک تصریح سماع نہ کرے تو ایسے واہم کے وہم کو دور کرنے کے لیے تصریح سماع والی سند لائی ہے ورنہ صحیحین میں تو ہر مدلس کی معنعن روایت صحیح ہوتی ہے جیسے کہ اس بات پر فریقین یعنی مقلدین وغیر مقلدین کا اتفاق ہے۔ 

[ ارشاد الساري لاحمد بن محمد القسطلانی (متوفی 932) ج 3 ص: 183 ناشر المطبعة الكبرى الاميرية]

مغالطہ نمبر 7۔

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

ابن الترکمانی الحنفی نے کہا الثوری مـدلس وقد عنعن ثوری مدلس ہیں اور انہوں نے یہ روایت عن سے بیان کی ہے۔ [الجواہرالنقی ج۔8:ص 362] ۔

[ نورالعینین لزبیر علی ص: 217 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

کہنا یہ چاہتے ہیں کہ حنفی عالم ابن الترکمانی نے بھی ایک معنعن روایت کو سفیان الثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف بتایا ہے لہذا سفیان ثوری کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے ۔ 

جواب: ابن الترکمانی کے کلام میں تعارض ہے کیونکہ اس نے دیگر مقامات پر سفیان ثوری کی معنعن حدیث کو صحیح کہا ہے چنانچہ ایک مقام پر لکھتے ہیں۔

رواه وكيع ثنا سفيان الثوري عن سليمان التيمى عن حيان بن عمير القيسـى عـن ابـن عباس سأله رجل يبيع الحرير إلى اجل فكره ان يشتريه یعنی بدون ما باعه وهذا سند صحیح۔

عبارت خلاصة :

 ابن الترکمانی سفیان ثوری کی اس معنعن حدیث کو صحیح قرار دے رہے ہیں ۔

[ الجوهر النقى لابن الترکمانی (متوفی 750) ج 5 ص: 331 ناشر دار الفكر]

جب ابن الترکمانی کے کلام میں تعارض ثابت ہو گیا تو غیر مقلدین کے اصول کے مطابق اس کے دونوں قول ساقط الاعتبار ہونگے ۔ جیسے کہ زبیر علی زئی لکھتے ہیں: عبدالرحمن بن صامت پر امام ابن حبان نے جرح کی ہے اور اسے (پھر ) کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔حافظ ذہبی نے بتایا کہ ابن حبان کے دونوں اقوال ساقط ہیں ۔ 

نورالعینین لزبیر علی ص:134 ناشر مکتبہ اسلامیہ

لہذا میں بھی کہتا ہوں جب ابن الترکمانی نے ایک مقام پر سفیان کی معنعن روایت کو رد کیا اور دیگر مقامات پر یہ کہا تو تعارض کی وجہ سے ان کے دونوں قول ساقط الاعتبار ہونگے ۔

مغالطہ نمبر 8.

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

نیموی تقلیدی نے سفیان ثوری کی بیان کردہ آمین والی حدیث پر یہ جرح کی کہ ثوری بعض اوقات تدلیس کرتے تھے اور انہوں نے اسے عن سے بیان کیا ہے ۔ دیکھیے : آثار السنن کا حاشیہ ص: (194ح 384).

[  تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات لزبیرعلی زئی ج.3 ص: 314 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب:

 اولا : نیموی نے سفیان ثوری کی تدلیس اور عنعنہ کی وجہ سے شعبہ کی روایت کو سفیان کی روایت پر ترجیح دی ہے لیکن نہ اس کی روایت کو رد کیا اور نہ ہی ضعیف کہا۔ کیونکہ ترجیح کا مطلب یہ ہے کہ دونوں روایات کی ہیں اگرچہ ایک کو دوسری پر ترجیح حاصل ہے ۔

اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

واما الثوري فكان ربما يدلس وقد عنعنه .يرجح مارواه شعبة من حديث الخفض. قلت فبهذا

[  آثار السنن لمحمد بن على النيموی (متوفی 1322)ص: 126 ناشر دار الحديث مـلتـان بـاکستـان]

بہر حال ثوری چونکہ بسا اوقات تدلیس بھی کرتے ہیں اور اس نے اس روایت کو عنعنہ سے روایت کیا ہے اس وجہ سے شعبہ کی خفض والی روایت کو ترجیح دی جاۓ گی ۔ 

تو ترجیح اور چیز ہے اور تضعیف اور چیز ہے اس نے شعبہ روایت کو سفیان کی روایت پر ترجیح ضرور دی ہے لیکن سفیان کی روایت کو ضعیف نہیں کہا ہے ۔ 

لہذا ترجیح ضعیف ہونے کو مستلزم نہیں ۔

مغالط نمبر 9۔

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

حسین احمد مدنی دیوبندی کانگریسی نے آمین والی روایت کے بارے میں کہا اور سفیان تدلیس کرتا ہے۔( تقریر ترمذی اردو ص:391) .

[ تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات لزبیرعلی زئی ج 3 ص 314 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: یہاں پر بھی وہی جواب ہے جو نیموی کی عبارت کا ہے ۔

مغالطہ نمبر 10۔

حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

ماسٹر امین اکاڑوی دیوبندی نے ایک روایت پر سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے جرح کی دیکھیے مجموعہ رسائل ( طبع قدیم ج 3ص: 331) اور تجلیات صفدر ( ج 5 ص:470).

 تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات لزبیرعلی زئی ج 3 ص 314 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: 

حضرت مولانا محمد امین صاحب کی اصلی عبارت اس طرح ہے: حضرت وائل بن حجر کی حدیث ابوداؤد سے جو پیش کرتے ہیں صحیح ہے کیونکہ اس میں سفیان مدلس، علاء بن صالح شیعہ ،محمد بن کثیر ضعیف ہے.

[ تجلیات صفدر لمحمد امین صفدر ج 5 ص:470  ناشر مکتبہ امدادیہ ملتان باکستان]

اس عبارت میں جو مولانا محمد امین صاحب نے سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے روایت کو رد کیا ہے وہ صرف اور صرف غیر مقلدین پر الزام قائم کرنے کےلیے کہ آپ کے نظریے کے مطابق تو سفیان کی معنعن روایت قبول نہیں پھر تو سفیان کی آمین بالجہر والی معنعن روایت بھی تمہارے نزدیک ضعیف ہونی چاہیے؟ نہ اس اعتبار سے کہ مولانا محمد امین صاحب کے نزدیک بھی سفیان ثوری کی تدلیس مضر ہے ۔ 

چنانچہ حضرت مولانا محمد امین صاحب نے سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کے متعلق عربی میں ایک مضمون لکھا ہے حضرت نے اس مضمون میں یہی بات لکھی ہے جو میں نے لکھ دی ہے ۔ 

چنانچہ حضرت لکھتے ہیں:

ولكن الآن يقول بعض غير المقلدين ان في سند حدیث ابن مسعود سـفـيـان وهـو مـدلـس فحديث ابن مسعود ضعيف . اقول ايها اللامذهبيون انظروا فـي حـديـث صحيح ابن خذيمةهناك ايضا يروی سفیان بعن وعمله ايضا مخالف لحديثه فما حكم ذالک الحدیث.

 آج کل کچھ غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ابن مسعود کی حدیث کی سند میں سفیان ہے اور وہ مدلس ہے اس لیے یہ روایت ضعیف ہے ۔ میں کہتا ہوں اے لامذہبو صحیح ابن خذیمہ میں دیکھو وہاں پر بھی سفیان ( سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کو عن کے ساتھ نقل کر رہے ہیں اور سفیان کا عمل اس ( سینے پر ہاتھ باندھنے والی حدیث کے خلاف ہے لہذا پھر اس حدیث کا آپ کے نزدیک کیا حکم ہوگا؟

[تـحـقـيـق حـديث صحيح ابن خديمة لمحمد امين في درهم الصرة مع مصنف ابن ابي شيبة ج 1 ص : 2 ناشر مكتبه امدادیه ملتان باکستان]

مغالطہ 11.

زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

سرفراز خان صفدر دیوبندی نے ایک روایت پر سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے جرح کی ہے خزائن السنن ( ج 2 ص: 77).

[ تحقیقی اصلاحی اورعلمی مقالات لزبیر علی زئی ج 3 ص:314.133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 اولا: حضرت شیخ سرفراز خان صفدر کے نزدیک سفیان ثوری کی تدلیس قبول ہے

چنانچہ حضرت لکھتے ہیں:

قتادہ کا شمار طبقہ اولی کے مدلسین میں ہوتا ہے جن کی تدلیس کسی کتاب میں مضر نہیں ہے (اس کے بعد امام حاکم کے حوالے سے قتادہ کو طبقہ اولی کا نقل کیا ہے) اس کے بعد لکھتے ہیں: 

علاہ جزائری علامہ ابن حزم سے محدثین کا ضابطہ بیان کرتے ہوۓ ان مدلسین کی فہرست بتاتے ہیں جن کی روایتیں باوجود تدلیس کے صحیح اور ان کی تدلیس سے صحت حدیث پر کوئی اثر نہیں پڑتا چنانچہ لکھتے ہیں:

منه كان جلة أصحاب الحديث وأئمة المسلمين كالحسن البصري وأبي إسحاق السبيعي وقتـائـة بـن دعـامـة وعـمـرو بن دينار وسليمان الأعمش وأبي الزبير وسفيان الثوري وسفيان بن عيينة۔

 ان مدلسین میں سے جلیل القدر محدث اور مسلمانوں کے امام شامل ہیں جیسے حسن بصری ابو اسحاق السبیعی قتادہ بن دعامه عمر و بن دینار سلیمن اعمش ابوالزبیرسفیان ثوری اور سفیان بن عیینہ وغیرہ ۔

[ احسن الکلام شیخ سرفراز خان صفدرحصه:1 ص:251.250 ناشر مکتبہ صفدریہ گوجرانوالہ پاکستان]

ثانیا: حضرت شیخ نے سفیان ثوری کو مدلس بتا کر روایت کو رد نہیں کیا ہے بلکہ شعبہ کی روایت کو سفیان کے مقابلے میں اصح قرار دیا ہے جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے سفیان کی روایت کو شعبہ کے مقابلے میں اصح قرار دیا ہے

 اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

سمعت محمدا يقول: حديث سفيان أصح من حديث شعبة في هذا وأخطأ شعبة في مواضع من هذا الحديث. 

 امام ترمذی فرماتے ہیں میں نے امام بخاری سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ سفیان کی حدیث شعبہ کی حدیث سے اصح ہے کیونکہ شعبہ نے اس حدیث میں بہت ساری جگہوں میں خطا کی ہے۔ 

[ سنن الترمذي لابي عيسى الترمذی (متوفی 279) ج 1 ص: 332 ناشر دار الغرب الاسلامی]

تو اب زبیر صاحب سے سوال ہے کہ امام بخاری نے اس عبارت میں سفیان ثوری کی روایت کو شعبہ کی روایت کے مقابلے میں اصح قرار دیا ہے تو آپ کیا فرمائیں گے کہ امام بخاری نے شعبہ کی روایت کو رد کر دیا ؟ یعنی امام بخاری کے نزدیک شعبہ غیر ثقہ ہے اور اس کی ان کے ہاں روایت مردود ہوتی ہے ہرگز نہیں ۔

 تو جب امام بخاری کے اصح کہنے سے شعبہ کی روایت مردود نہیں کہلائیگی تو حضرت شیخ کے شعبہ کی روایت کو اصح قرار دینے سے سفیان کی روایت مردود ثابت نہیں ہوگی ۔

مغالطہ نمبر 12.

زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

محمد تقی عثمانی دیوبندی نے سفیان ثوری پر شعبہ کی روایت کو ترجیح دیتے ہوۓ کہا سفیان ثوری اپنی جلالت قدر کے باوجود کبھی کبھی تدلیس بھی کرتے ہیں ۔ ( درس ترمذی ج 1 ص:521).

[ تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات لزبیرعلی زئی ج 3 ص 314 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب:

حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب نے سفیان ثوری کو مدلس قرار دے کر روایت کو رد نہیں کیا ہے صرف اتنا بتایا کہ جب کسی ایک ہی استاذ سے سفیان ثوری اور شعبہ میں کسی لفظ کے نقل کرنے میں اختلاف ہو جاۓ تو دونوں لفظ صحیح ہونگے لیکن شعبہ کے الفاظ اصح ہونگے لہذا سفیان کی تدلیس کی وجہ سے روایت کو رد نہیں کیا۔ پھر بھی اس عبارت سے میں نتیجہ نکالنا کہ سفیان کی معنعن روایت قبول نہیں محض ہٹ دھرمی ہے ۔

مغالطہ نمبر.13 

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

الذہبی میزان الاعتدال ج 2 ص: 179 

أنـه كـان يدلس عن الضعفاء،ولكن له نقد وذوق،ولا عبرة لقول من قال: يدلس ويكتب عن الكذابين.

حافظ ذہبی کی گواہی سے معلوم ہوا کہ سفیان رحمہ اللہ ضعیف لوگوں سے تدلیس کر تے تھے ۔ یاد رہے کہ جو ضعفاء سے تدلیس کرے اس کی عن ( بغیر تصریح سماع والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ 

ابوبکرالصيرفي ( متوفی 330) نے کتاب الدلائل میں کہا

كل من ظهر تدليسه عن غير الثقات لم يقبل خبره حتى يقول حدثني أو سمعته.

ہر راوی جس کی غیر ثقہ راویوں سے تدلیس ظاہر ہو جاۓ تو اس کی روایت اس وقت تک مقبول نہیں جب تک وہ ’حدثنی‘ یا ’سمعت‘‘ نہ کہے یعنی اس کے سماع کی تصریح کے بعد ہی اس کی روایت مقبول ہوتی ہے؟

[ نورالعینین لزبیرعلی زئی ص:132 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 جواب

میزان الاعتدال کی اصلی عبارت اس طرح ہے جس کے ابتدائی الفاظ زبیر صاحب کو پسند نہیں آۓ:

الـحـجة الثبـت ،متفق عليه، مع أنه كان يدلس عن الضعفاء ولكن له نقد وذوق

سفیان ثوری حجت ہے ثبت ہے متفق علیہ ہے باوجود اس کے کہ یہ ضعفاء سے تدلیس کرتے ہیں لیکن چونکہ اس کو حدیث کے پرکھنے کا استعداد حاصل ہے ( یہ چونکہ ضعفاء کی صحیح اور ضعیف حدیث پہچان لیتا ہے اس لیے ان سے صرف وہی روایت لیتا ہے جو صحیح ہو۔ جیسے کی مروی ہے کہ جب سفیان ثوری نے یہ اعلان کیا کہ کلبی سے روایت نہیں لینا تو سفیان سے کہا گیا پھر آپ اس سے روایت کیوں لیتے ہو؟ تو سفیان نے کہا [انـا اعـرف صـدقـه مـن كـذبـه] یعنی میں اس کے صحیح اور جھوٹ کو جانتا ہوں دیکھیے میزان الاعتدال ج 3 ص: 557 ناشر دارالمعرفۃ بیروت اور حدیث کے ساتھ ان کو مناسبت ہے (اس لیے یہ اگرچہ ضعفاء سے تدلیس کرے پھر بھی حجت ہے )

نیز غور فرمائیں علامہ ذہبی اس عبارت میں سفیان ثوری کو باوجود مدلس عن الضعفاء ہونے کے مطلقا حجت قرار دے رہے ہیں یہ نہیں فرما رہے کہ جب تصریح سماع کرے تو پھر حجت ہونگے اگر عن کے ساتھ روایت کرے تو حجت نہیں ہونگے ایسی بات نہیں مطلقا حجت ہے چاہے تصریح سماع نہ بھی کرے ۔

فائدہ:

حافظ زبیر علی زئی کے استاذ محب اللہ شاہ راشدی ابو جابر دامانوی کا رد کرتے ہوۓ

لکھتے ہیں:

بدقسمتی سے انہوں نے کتب رجال میں دیکھ لیا کہ سفیان الثوری رحمہ اللہ بھی مدلس ہیں حالانکہ حافظ رحمہ اللہ میزان میں ( جہاں سے ڈاکٹر صاحب نے بی نقل فرمایا ہے کہ يدلس عن الضعفاء ] وہ ضعفاء سے تدلیس کر تے تھے یہ بھی ساتھ ہی فرماتے ہیں:

له نقد و ذوق ولا عبرة لقول من قال يدلس و يكتب عن الكذابين

امام سفیان ثوری کو ناقدانہ بصیرت و ذوق تھا جس سے ان ضعفاء کی روایات صحیحہ کا امتیاز کر لیتا تھا اور اس آدمی کی بات کا کوئی اعتبار نہیں جو یہ کہتا ہے کہ امام ثوری رحمہ اللہ کذابوں ( جھوٹوں) سے تدلیس کرتا تھا اور ان سے روایات لکھا کرتا تھا۔ افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے يدلس عن الضعفاء تونقل فرمایا اور آگے جو کچھ تھا اس کو حذف کر دیا، اس لیے کہ یہ قطعہ ان کے موقف کے لیے مضر تھا؟ پھر یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے يـدلـس عـن الضعفاء والا ٹکڑا اس عبارت کے بعد ذکر فرمایا: [الـحـجة الثبـت ، متفق عليه، مع أنه كان يدلس عن الضعفاء ] يعنى امام ثوری رحمہ اللہ حجت ثبت محدثین کے درمیان متفقہ طور پر مقبول ہیں ۔ باوجود اس بات کے کہ وہ ضعفاء سے تدلیس کرتے تھے۔


اب قارئین کرام آپ ہی خود انصاف کریں وہ يـدلـس عن الضعفاء] سے پیشتر جو عبارت ہے وہ ڈاکٹر صاحب کے موقف کو کتنا بے معنی کر رہی ہے ۔اس سے تو صاف عیاں ہے کہ حافظ ذہبی کا موقف بھی وہی ہے جو حافظ ابن حجر کا ہے یعنی ان کی امامت و جلالتا وندرت تدلیس کی وجہ سے ائمہ حدیث نے ان کی معنعنہ روایات بھی قبول فرمائی ہیں ۔

[ مقالات راشدیہ لمحب الله راشدی ( متوفی 1415) ج 1 ص:302 ناشر مکتب نعمانی لاہور]

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے ۔ 

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

نیز علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کی معنعن روایات کو صحیح قرار دیا ہے ۔ 

ملاحظہ فرمائیں:

قـال الثـورى، عـن جعفر بن إياس، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس في قول الله -عز وجل: (إنا كفيناك المستهزئين)....... حدیث صحیح.

[ اعلام النبلاء للذهبی (متوفی 748) ج 1 ص:257 ناشر دار الحديث القاهره]

 حدثنا أبو العباس ، حدثنا العباس بن محمد،حدثنا الأسود بن عامر أنباً سفيان الثوري،عن وائل بن داؤد، عن سعيد بن عمير، عن عمه قال: سئل ه رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أفضل؟ قال: كسب مبرور هذا حديث صحيح الإسناد.

(التعليق -من تلخيص الذهبي) صحیح

عبارت کا خلاصہ : حضرت علامہ ذہبی سفیان ثوری کی اس معنعن حدیث کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔

[ مستدرک حـاكـم لابـي عبـد الله الحاكم (المتوفی 405)ج 2 ص:12 ناشر دارالكتب العلمية بيروت]

معلوم ہوا کہ علامہ ذہبی کے نزدیک سفیان ثوری کا [مـدلـس عـن الضعفاء ] ہونا صحت حدیث کے منافی نہیں ۔لہذا ذہبی کی عبارت کا یہ مطلب بیان کرنا [تـوجيـه القول بما لا يرضى به القائل] کے قبیل سے ہے یعنی مصنف کی عبارت کا ایسا مطلب بیان کرنا جس پر خودمصنف بھی راضی نہیں ۔

جان لو کہ یہ وہی طرز ہے جو خود زبیر صاحب نے بھی اپنے پسندیدہ راوی ابوقلابہ سے تدلیس کے الزام ہٹانے کے لیے اختیار کی ہے وہ اس طرح کہ علامہ ذہبی اور ابن حجر رحمہا اللہ نے ابوقلابہ کو مدلس قرار دیا ہے تو زبیر صاحب فرماتے ہیں یہ مدلس نہیں ( بلفظ زبیرعلی ) کیونکہ خود حافظ ذہبی نے ہی ابوقلابہ رحمہ اللہ کی متعدد عن والی روایات کو بخاری ومسلم کی شرط پر (صحیح علی شرطہما کہا ہے دیکھیے تلخیص المستدرک) ۔

[ مسئلۃ فاتحہ خلف الامام لزبیر علی زئی ص : 45 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 لہذا ہم نے بھی سفیان ثوری سے تدلیس مضر کے الزام ہٹانے کے لیے یہی طرز اختیار کی ہے۔

اور جہاں تک تعلق ہے صیرفی کے قول [كل من ظهر تدليسه عن غير الثقات لـم يـقـبـل خبره حتى يقول حدثني أو سمعت] کا تو صیرفی کے اس قول سے طبقہ اولی و ثانیہ کے مدلسین مستثنی ہیں اس لیے کہ یہ قاعدہ بالا تفاق اپنے عموم پر جاری نہیں ہوسکتا

ورنہ سفیان ثوری کی وہ معنعن روایات جو صحیحین میں موجود ہیں وہ بھی ضعیف کہلائینگی کیونکہ صیر فی نے صحیحین میں ہونے کی استثناء بھی نہیں کی ہے حالانکہ خود زبیر صاحب کے نزدیک بھی صحیحین میں تمام مدلسین کی معنعن روایات صحیح ہیں جیسے کہ زبیر صاحب لکھتے ہیں: اصول حدیث میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ مدلس کی تصریح سماع کے بغیر ( مثلا عن ) والی روایت ضعیف ہوتی ہے بشرطیکہ... روایت مذکورہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کے علاوہ ہو۔

[ جز رفع الیدین مترجم لزبیر علی زئی ص: 25 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 نیز اس قاعدے کو عام ماننے کی صورت سفیان ثوری کی وہ روایات بھی ضعیف ہو جائینگی جن میں ان کا متابع موجود ہے حالانکہ متابع کے موجود ہونے کی صورت میں سفیان ثوری کی متابعت والی روایت بھی صحیح ہوتی ہے جیسے کہ زبیر صاحب خود لکھتے ہیں :

 مدلس کی اگر معتبر متابعت ثابت ہو جاۓ تو اس کی روایت قوی ہو جاتی ہے سفیان ثوری اس روایت (یعنی عبداللہ بن سعود ) میں عاصم بن کلیب سے منفرد ہیں

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص:139 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 تو جس طرح زبیر صاحب کے نزدیک محدثین کی تصریح کے مطابق مدلسین کی صحیحین والی معنعن روایات اور متابعت والی معنعن روایات صیرفی کے اس اصول سے مستثنی ہونگی اسی طرح ہمارے نزدیک بھی سفیان ثوری کے طبقہ ثانیہ کی تصریح کرنے والے محدثین کے مطابق سفیان ثوری کی معنعن روایات مستثنی ہونگی۔

مغالطہ نمبر .14

صلاح الدین العلائی جاع التحصیل فی احکام المراسيل ص:99 وقال من يدلس عن اقوام مجهولين لا يدرى من هم كسفيان الثورى

یعنی سفیان ثوری ان مجہول لوگوں سے تدلیس کرتے تھے جن کا پتہ بھی نہیں چلتا۔ 

جواب: حافظ علائی رحمہ اللہ کی یہ عبارت اپنی نہیں ہے بلکہ حضرت نے یہ عبارت امام حاکم کی معرفہ علوم حدیث  کے حوالے سے نقل کی ہے لیکن حضرت سے اس عبارت سے نقل کرنے میں خطا ہوئی ہے اصلی کتاب معرفۃ علوم الحدیث کی اس عبارت میں سفیان ثوری کا تذکرہ نہیں ہے وہ عبارت ملاحظہ فرمائیں:

والجنس الثالث من التدليس قوم دلشوا على أقوام مجهولين لا يدرى من هم، ومن أين هم مثال ذلك ما أخبرناه الحسن بن محمد بن إسحاق.

 البتہ جب طبقہ ثالثہ کے مدلسین کا بحث ختم ہو جاتا ہے تو اس کے بعد امام حاکم نے ۔ فائدے کے طور پر بتایا ہے کہ جہاں تک تعلق ہے [ رواية عن المجهولين] كا تو سفیان ثوری اور دیگر محدثین جیسے امام شعبہ وغیرہم [ رواية عـن الـمجهولين] کرتے ہیں اور یہ جرح نہیں ہے ۔

[ مـعـرفـة عـلـوم الـحـديـث للامام حاکم (متوفی 405) ص: 105 ناشر دارالكتب العلمية بيروت]

اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

قال أبو عبد الله: قد روى جماعة من الأئمة، عن قوم من المجهولين فمنهم سفيان الثوري، روى عن أبي همام السكوني، وأبي مسكين، وأبي خالد الطائي، وغيرهم من المجهولين ممن لم يقف على أساميهم غير أبي همام، فإنه الوليد بن قيس إن شاء الله وكذلك شعبة بن الحجاج حدث، عن جماعة من المجهولين، فأما بقية بن الوليد، فحدث عن خلق من خلق الله لا يوقف على أنسابهم، ولا عدالتهم، وقال أحمد بن حنبل: إذا حدث بقية عـن الـمـشـهـوريـن فـرواياته مقبولة، وإذا حدث عن المجهولين فغير مقبولة، وعيسى بن موسى التيمي البخاري الملقب بغنجار شيخ في نفسه ثقة مقبول، قد احتج به محمد بن إسماعيل البخاري في الجامع الصحيح غير أنه يحدث عن أكثر من مائة شيخ من المجهولين لا يعرفون بأحاديث مناكير، وربما توهم طالب هذا العلم أنه بجرح فيه وليس كذلك.

[مـعـرفـة عـلـوم الـحـديـث للامام حاکم (متوفی 405) ص: 106 ناشر دار الكتب العلمية]

 لہذا حافظ علائی رحمہ اللہ سے عبارت کے نقل کرنے میں خطا ہوگئی ہے ظاہر ہے خطا سے کون محفوظ ہے۔ جیسے کہ زبیر علی زئی صاحب فرماتے ہیں: انسان خطا کا پتلا ہے ۔

[ جز رفع الیدین مترجم لزبیر علی زئی ص:26 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

فائده:

محب اللہ شاہ راشدی زبیر علی زئی کے استاذ ، زبیر علی زئی کا رد کر تے ہوۓ لکھتے ہیں :

 اور نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حافظ علائی نے حاکم کی کتاب معرفۃ علوم الحدیث سے اس موقف پر جو عبارت نقل فرمائی ہے اس میں ایسے اختصار سے کام لیا ہے کہ بات کچھ سے کچھ ہوگئی ہے اور اس سے زیادہ افسوس محترم دوست ( زبیر صاحب ) پر ہے کہ انہوں نے بھی حافظ علائی کی منقولہ عبارت جوں کی توں نقل کر دی ہے اور اصل کتاب ( معرفۃ علوم الحدیث امام حاکم ) کی طرف مراجعت ضروری ہی نہیں سمجھی واللہ بااللہ یہ طرز عمل ان کے علمی شان سے بمراحل بعید ہے۔ 

[ مقالات راشدیہ لمحب الله راشدی ( متوفی 1415) ج 1 ص: 309 ناشر مکتبہ نعمانیہ لاہور]

 نیز محب اللہ راشدی لکھتے ہیں:

 محترم دوست ( زبیر صاحب نے امام حاکم کی عبارت جامع التحصیل سے نقل فرمائی ہے اولی وانسب تو یہ تھا کہ وہ خود امام حاکم کی کتاب معرفہ علوم الحدیث متعلقہ فصل کو پوری طرح دیکھ کر کوئی رائے قائم فرماتے نقل دا نقل سے جو غلطیاں رونما ہوتی ہیں ان سے محترم دوست بخوبی واقف ہونگے امام حاکم رحمہ اللہ تو اس طرح فرماتے ہیں:

قال ابو عبد الله التدليس عندنا على ستة اجناس .

ابوعبداللہ (حاکم ) فرماتے ہیں پھر تدلیس ہمارے یہاں چھ جنسوں پر ہے

لیکن علامہ علائی جامع التحصیل میں اس طرح لکھتے ہیں:

وقـد قـسـم الـحـاكـم ابـو عبـد الله في كتابه (علوم الحدیث)اجناس المدلسين الى ستة اقسام

( حاکم ابوعبداللہ نے اپنی کتاب علوم الحدیث میں مدلسین کی جنسوں کو چھ قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

اہل علم ان دونوں عبارتوں میں جو باریق فرق ہے اس کو خیال میں رکھیں ۔

[ مقالات راشدیہ لمحب اللہ راشدی ( متوفی 1415) ج 1 ص : 307 ناشر مکتبہ نعمانی لاہور]

مغالطہ نمبر .15

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

حافظ ابن رجب ( شرح علل الترمذی جاص:385) وقال وقد كان الثورى و غيـره يـدلـسـون عمن لم يسمعوا منه ايضا 

یعنی سفیان ثوری وغیرہ ان لوگوں سے بھی تدلیس کر تے تھے جن سے ان کا سماع نہیں ہوتا تھا۔

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص:135 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

سرفراز صفدر اپنی کتاب احسن الکلام میں لکھتے ہیں: ابوقلابہ گو ثقہ تھے لیکن غضب کے مدلس تھے.... ابو قلابہ کی جن سے ملاقات ہوئی ان سے بھی اور جن سے نہیں ہوئی ان سے بھی سب سے تدلیس کرتے تھے۔ [ ج 2 .ص: 111] اگر حافظ ذہبی کے قول کی بنیاد پر ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ غضب کے مدلس قرار دیے جا سکتے ہیں تو حافظ ابن رجب کے قول پر سفیان ثوری کو غضب کا مدلس کیوں نہیں قرار دیا جاتا ؟.

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص:136 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

زبیر صاحب مزید لکھتے ہیں :

ابو قلابہ جو کہ مدلس نہیں تھے ان کے عنعنہ کو رد کرنا اور ثوری جو کہ ضعفاء سے تدلیس کرتے تھے ان کے عنعنہ کو قبول کرنا انصاف کا خون کرنے کے برابر ہے ۔اللہ تعالی ظالموں سے ضرور حساب لے گا اس دن اس کی پکڑ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔

 [ نورالعینین لزبیر علی زئی ص:136 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: 

حضرت شیخ سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ بلاشبہ ایک بہت بڑے محقق تھے لیکن حضرت کا ابوقلابہ کو غضب کا مدلس قرار دینا تحقیقی میدان میں درست نہیں ہے اس لیے کہ ابو قلابه کوحضرت سے پہلے متقدمین محدثین نے طبقہ اولی کا مدلس قرار دے کر اس کی تدلیس کو برداشت کیا ہے چنانچہ حضرت علامہ ذہبی رحمہ اللہ جس نے ابوقلابہ کے متعلق یہ الفاظ نقل کیے ہیں  ابو قلابہ کی جن سے ملاقات ہوئی ان سے بھی اور جن سے نہیں ہوئی ان سے بھی سب سے تدلیس کرتے تھے۔

 وہ بھی ابوقلابہ کے معنعن روایات کو صحیح کہتے ہیں دیکھیے تلخیص الذہبی علی مستدرک حاکم ج1 ص:284 ج 1 ص: 431 ج 1 ص: 445 اور ایک مقام پر لکھتے ہیں علی شرط البخاری ومسلم ج 3 : 477 ناشر دارالکتب العلمیة بیروت

 لہذا حضرت شیخ کا ذہبی کی اس عبارت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ابوقلابہ غضب کا مدلس ہے اس لیے اس کی معنعن روایت ضعیف ہے یہ [تـوجيـه القول بما لا يرضى به القائل ہے] ( یعنی مصنف کی عبارت کا ایسا مطلب بیان کرنا ہے جس پر مصنف بھی راضی نہیں)۔[ كـل احـديؤخذ من قوله ويترك الا رسول اللہ] یعنی ہر کسی کی بات لی بھی جاۓ گی اور رد بھی کی جاۓ گی سواۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔  اسی طرح ابن رجب کے ان الفاظ سے ( یعنی سفیان ثوری وغیرہ ان لوگوں سے بھی تدلیس کرتے تھے جن سے ان کا سماع نہیں ہوتا تھا۔ )زبیر علی زئی کا یہ نتیجہ نکالنا کہ سفیان ثوری بھی غضب کا مدلس ہے اور اس کی معنعن روایت بھی ضعیف ہے یہ نتیجہ تحقیقی میدان میں غلط ہے کیونکہ وہ ابن رجب حنبلی جو سفیان ثوری کے متعلق میں الفاظ لکھتے ہیں کہ [ سفیان ثوری وغیرہ ان لوگوں سے بھی تدلیس کر تے تھے جن سے ان کا سماع نہیں ہوتا تھا۔

 وہ خود بھی ان الفاظ کے لکھنے کے باوجود فرماتے ہیں کہ سفیان ثوری وغیرہ جیسے مدلسین کی تدلیس مضر نہیں ہے ۔

اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

ورخص في التدليس طائفة، قال يعقوب بن شيبة، من رخص فيه فإنما رخـص فـيـه عن ثقة سمع (منه) ، وأمـا مـن دلـس عـمن لم يسمع منه، فلم يرخص فيه،وكذا إذا دلس عن غير ثقة، كذا قال يعقوب وقد كان الثورى وغيره يدلسون عمن لم يسمعوا منه أيضاً، فلا يصح ما قال يعقوب.

[ شرح علل الترمذي لابن رجب حنبلی(متوفی 795) ج 2 ص:585 ناشر مكتبة المنار اردن]

 ایک جماعت نے تدلیس کی اجازت دی ہے ( یعنی مدلس کی معنعن روایت قبول کی ہے ) اور یعقوب بن شیبہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے تدلیس کی اجازت دی ہے تو وہ ثقہ سے تدلیس کی اجازت دی ہے لیکن جس نے ان لوگوں سے تدلیس کی جس سے اس کا سماع نہیں ہے تو اس تدلیس کی اجازت نہیں دی ہے یہ بات یعقوب نے کہی ہے حالانکہ ثوری اور دیگر محدثین بھی ایسے لوگوں سے تدلیس کرتے تھے جن سے ان سماع نہیں ہوتا تھا پس یعقوب کی بات درست نہیں ہے۔ ابن رجب کی عبارت کا حاصل یہ نکلا کہ ایسے لوگوں سے تدلیس کرنا جن سے سماع ثابت نہیں یہ حدیث کے لیے مضر نہیں ورنہ تو سفیان و دیگر محدثین کی معنعن روایات سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا

 لہذا سفیان کی تدلیس مضر نہیں اگرچہ بیان سے بھی تدلیس کرتے ہیں جن سے اس کا سماع ثابت نہیں ۔

لہذا زبیرعلی زئی کا ابن رجب حنبلی کے قول کی بنیاد پر سفیان ثوری کو غضب کا مدلس قراردینا [توجيه القول بما لا يرضى به القائل ] ہے (یعنی مصنف کی عبارت کا ایسا مطلب بیان کرنا ہے جس پر مصنف خود بھی راضی نہیں ہے۔) 

رہی زبیر صاحب کی یہ واویلا کہ ( ابوقلابہ جو کہ مدلس نہیں تھے ان کے عنعنہ کو رد کرنا اور ثوری جو کہ ضعفاء سے تدلیس کرتے تھے ان کے عنعنہ کو قبول کر نا انصاف کا خون کر نے کے برابر ہے ۔

 اللہ تعالی ظالموں سے ضرور حساب لے گا اس دن اس کی پکڑ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ ) 

تو اس کے جواب میں عرض یہ ہے کہ یہ جرم تو آپ کے معتمد شیخ ناصر الدین البانی غیر مقلد نے بھی کیا ہے جیسے کہ آپ نے خود لکھا ہے: 

علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ایک سند کو ابو قلابہ کی عنعنہ کی وجہ سے ضعیف کہا:

قال اسناده ضعيف لعنعنة ابي قلابة وهو مذكور بالتدليس

 (حاشیہ صحیح ابن خزیمہ ج 3 ص:268حدیث نمبر2043).

[ نورالعینین لزبیرعلی زئی ص:136 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 اب عرض یہ ہے کہ اگر ابو قلابہ کی عنعنہ کی وجہ سے حضرت شیخ سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کسی سند کو ضعیف قرار دے تو العیاذ باللہ وہ ظالم ٹھرے لیکن اگر وہی جرم یعنی ابوقلابہ کی عنعنہ کی وجہ سے روایت کو ناصر الدین البانی غیر مقلد ضعیف قرار دے تو پھر بھی آپ کے نزدیک رحمہ اللہ ٹھرے ایسے انصاف کو ہمارا دور سے سلام ۔

نیز تعجب کی بات یہ ہے کہ جب ابو قلابہ کے متعلق ذہبی نے کہا کہ یہ ان سے بھی تدلیس کرتا ہے جن سے ان کی ملاقات ہوئی ہے اور ان سے بھی جن سے اس کی ملاقات ثابت نہیں تو زبیر صاحب نے ذہبی کی اس گواہی کو ابوحاتم کے اس قول کا سہارا لے کر کہ ابو قلابہ تدلیس سے نہیں پہچانے جاتے تھے رد کر دیا یہ کہ کر کہ متقدمین کے مقابلے میں متآخرین کی بات کب قابل مسموع ہوسکتی ہے؟

 دیکھیے :نورالعینین ص: 137 تو اب زبیر صاحب سے عرض یہ ہے کہ سفیان ثوری کے متعلق  ابو عامر عبدالملک بن عمر ( متوفی 204) کا قول ہے کہ سفیان ثوری تدلیس نہیں کرتے تھے ۔

 اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

 روى البيهقي في "المدخل " عـن مـحـمـد بن رافع، قال: قلت لأبي عامر: كان الثوري يدلس؟ قال: لا، قلت : أليس إذا دخل كورة يعلم أن أهلها لا يكتبـون حـديـث رجل، قال: حدثني رجل، وإذا عرف الرجل بالاسم کناه، وإذا عرف بالكنية سماة، قال: هذا تزيين ليس بتدليس.

[ تدريب الراوى لجلال الدین سیوطی (متوفی 911) ج 1 ص:265 ناشر داط طیبه]

 تو یہاں آپ کے اصول کے مطابق ذہبی کی گواہی کہ سفیان ثوری ضعفاء سے تدلیس کرتے تھے کیوں رد نہیں ہوسکتی؟ (یعنی جب ابو حاتم کے قول سے ذہبی کی گواہی رد ہوسکتی ہے تو ابو عامر کے قول سے ذہبی کی گواہی کیوں رد نہیں ہوسکتی ؟ )  جبکہ سفیان ثوری کو ذہبی کے علاوہ متقدمین میں سے کسی محدث نے بھی مدلس عن الضعفاء نہیں کہا ہے؟

حدیث ابن مسعود پر بعض محدثین کا کلام اور اس کا جواب 

1-عبداللہ بن مبارک کا کلام اور اس جواب

 1- حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

شیخ الاسلام المجاہدالثقہ عبداللہ بن المبارک ( متوفی 181) نے کہا:

"لم يثبت حدیث ...... ابن مسعود“ 

ابن مسعود کی (طرف منسوب یہ حدیث ثابت نہیں ہے ۔

 جواب: یہ جرح غیر مفسر ہے اس لیے کہ عبد اللہ بن مبارک نے اس کے ثابت نہ ہونے کی وجہ بیان نہیں کی اس لیے مردود ہے۔ جیسے کہ زبیر علی زئی کے استاذوں کے استاذ ( دیکھیے : نورالعینین ص :272) اور غیر مقلدین کے رئیس المحدثین قدوۃ السالکین ( استاذ الاساتذہ محمد صاحب گوندلوی ( دیکھیے ٹائیٹل پیج خیر الکلام ) لکھتے ہیں:

 اگر جرح مفسر نہ ہوتو مقبول نہیں ہوتی ۔ اس کی مثال اس طرح ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ: هـذا الـحـديـث غير ثابت..... یہ حدیث ثابت نہیں ...... اور اس کی وجہ بیان نہ کرے اس صورت میں یہ جرح مقبول نہ ہو گی اکثر فقہاء اور محدثین کا یہی مذہب ہے ۔

[ خیرالکلام محمد گوندلوی ص:44 ناشر مکتبہ نعمانیہ]

ثانیاً: ابن دقیق العید رحمہ اللہ (متوفی 702 ) نے بھی اس جرح کو رد کیا ہے چنانچہ

لکھتے ہیں:

وعدم ثبوت الـخـبـر عـنـد ابن المبارك لا يمنع من النظر فيه، وهو يدور على عاصم بن كليب، وقد وثقه ابن معين.

[ الامـام فـي احـاديـث الاحكام لابن دقيق العيد (متوفی 702)بحواله نصب الراية للزيلعي (متوفی 762) ج 1 ص: 395 ناشر مؤسسة الريان]

 ابن مبارک کے ہاں اس حدیث کا عدم ثبوت اس حدیث پر عمل سے مانع نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کا مدار عاصم بن کلیب پر ہے اور وہ ثقہ ہے۔

 ثالثاً : حافظ زبیر علی زئی اپنی ایک پسندیدہ روایت کے متعلق لکھتے ہیں: بعض علماء نے لکھا ہے کہ امام بخاری امام ابوحاتم اور امام بیہقی نے اس روایت کو غیر محفوظ قرار دیا ہے تو عرض ہے کہ یہ جرح غیر مفسر ہے جبکہ اس حدیث کے تمام راوی امام بخاری امام ابو حاتم اور امام بیہقی کے نزدیک ثقہ ہیں تو اسے کس دلیل کی بنیاد پر غیر محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے؟ 

[ مسئلہ فاتحہ خلف الامام لزبیرعلی زئی ص 44 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

میں بھی اسی طرح کہ رہا ہوں کہ جب اس حدیث ابن مسعود کے تمام راوی عبد اللہ بن مبارک کے ہاں بھی ثقہ ہیں تو اسے کس دلیل کی بنیاد پر غیر ثابت قرار دیا جاسکتا ہے۔؟ 

رابعا سنن النسائی میں ابن مبارک یہ حدیث خود بھی روایت کر رہے ہیں اس لیے احتمال ہے کہ ابن مبارک کی یہ جرح اس حدیث کے علم حاصل ہونے سے پہلے کی ہو لیکن جب علم ہوا تو اس کو خود بھی روایت کرنا شروع کر دیا۔اور ایسے ممکن ہے کہ ایک محدث کے پاس ایک موقع پر کوئی حدیث نہیں ہوتی تو وہ اس کو بیان نہیں کرتے لیکن جب بعد میں مل جاتی ہے تو اس کو بیان کرتے ہیں جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ سے مروی ہے:

قال ابو عبد الله هذا الحديث ليس بخراسان في كتب ابن المبارک انما املى عليهم بالبصرة.

یہ حدیث خراسان میں ابن مبارک کی کتابوں میں نہیں تھی ہاں اس نے یہ حدیث اپنے شاگردوں کو بصرہ میں لکھوائی ۔

[ صحيح البخاري لمحمد بن اسماعیل البخاری (متوفی 256) ج 1 ص : 332ناشر قدیمی کتب خانه کراتشی باکستان]

2 - امام شافعی کا کلام اور اس کا جواب 

2- حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں: 

الامام الشافعی (متوفی 204) نے ترک رفع الیدین کی احادیث کو رد کر دیا کہ یہ ثابت نہیں ہیں ۔

دیکھیے کتاب الام ج 7 ص : 201 باب رفع اليدين في الصلاةوالسنن الكبرى للبيهقي ج 2 ص: 81 و فتح الباری ج  ص: 220].[2]

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص: 122 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب:

 اولا : کتاب الام میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث کا کوئی تذکرہ ہی نہیں ہے ۔ کتاب الام کی اصلی عبارت اس طرح ہے :

 فقلت : هل رووا فيه شيئا؟ قال: نعم ما لا تثبث نحن ولا أنتم ولا أهل الحديث منهم مثله.

[ الام للامام الشافعی (متوفی 204) ج 7 ص: 112 ناشر دار المعرفة بيروت]

 عبارت کا ترجمہ (میں نے شافعی سے کہا کہ کیا رفع الیدین نہ کر نے والوں نے ترک رفع الیدین پر کوئی روایت ذکر کی ہے تو امام شافعی نے فرمایا جی ہاں ۔لیکن ایسی روایات ذکر کی ہیں جن کو ہم اور آپ اور محدثین ثابت نہیں سمجھتے ۔

تو جب اس عبارت میں حدیث ابن مسعود کا تذکرہ ہی نہیں تو جرح کیسے ثابت ہوئی؟ 

حقیقت یہ ہے کہ ترک رفع الیدین کے سلسلے میں متعدد روایات ہیں ان میں سے زیادہ تر تو صحیح ہیں لیکن بعض روایات ضعیف بھی ہیں اس لیے ممکن ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک وہ ضعیف روایات پہنچی ہوں جن کو امام شافعی نے غیر ثابت قرار دیا ،

 اس عبارت سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ امام شافعی نے حدیث ابن مسعود کو بھی غیر ثابت کہا لہذا زبیر علی زئی کا حدیث ابن مسعود کے متعلق اس جرح کو نقل کرنا غلط ہے ۔ 

ثانیا: گر اس عبارت میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کے متعلق یہ جرح فرض بھی کی جائے تو یہ وہی جرح ہے جو ابن مبارک نے کی تھی کہ ثابت نہیں لہذا جو جواب اس جرح کا تھا اس کا بھی وہی جواب ہوگا۔ 

یعنی یہ جرح غیر مفسر ہے اس لیے قابل قبول نہیں ۔ اور جہاں تک تعلق ہے السنن الکبری للبیہقی کا تو السن الکبری للبیہقی کی اصلی عبارت اس طرح ہے:

قال الزغـفـراني قال: الشافعي في القديم: ولا يثبت عن علي وابن مسعود، یعنی ما رووه عنهما من أنهما كانا لا يرفعان أيديهما في شيء من الصلاة إلا في تكبيرة الافتتاح.

زعفرانی کہتے ہیں کہ امام شافعی قدیم قول میں کہتے تھے کہ علی اور ابن مسعود سے ترک رفع الیدین ثابت نہیں ہے۔

[ السنن الكبرى للبيهقى (متوفی 458) ج 2 ص: 114 ناشر دار الكتب العلمية]

زعفرانی کے اس قول سے تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ امام شافعی یہ جرح پہلے زمانے میں کرتے تھے اس کے بعد قول جدید میں رجوع کرلیا۔

لہذا جرح ثابت ہی نہیں ہوئی۔ 

اور جہاں تک تعلق سے فتح الباری کا تو فتح الباری کی اصلی عبارت اس طرح ہے:

 واحتجوا أيـضـا بـحـديـث بن مسعود أنه رأى النبي صلى الله عليه وسـلـم يرفع يديه عند الافتتاح ثم لا يعود أخرجه أبو داود ورده الشافعي بأنه لم يثبت

امام شافعی نے حدیث ابن مسعود کو یوں رد کیا کہ یہ ثابت نہیں ۔ 

[ فتح الباري لابن حجر عسقلانی (متوفی 852) ج 2 ص:220 ناشر دار المعرفة]

لہذا اس جرح کا بھی وہی جواب ہے جو ابن مبارک کی جرح کا جواب گزرا یعنی یہ جرح غیر مفسر ہے اس لیے مردود ہے۔ 

3. امام احمد بن حنبل کا کلام اور اس کا جواب 

3- حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

 امام احمد بن حنبل ( متوفی 241) نے اس روایت پر کلام کیا ہے ۔ دیکھیے :

[ جزء رفع اليـديـن : 32 مسـائـل احـمـد بـرواية عبد الله بن احمد ج 1 ص: 244 فقره: 326. نور العينين لزبير على ص: 131 ناشر مکتبه اسلامية]

 جواب:

 کلام کی وضاحت زبیر صاحب نے بھی نہیں کی ہے کہ کیا یہ کلام مضر یعنی روایت کو نقصان دہندہ بھی ہے یا نہیں زبیر صاحب کی ذمیداری تھی کہ وہ خود امام احمد بن حنبل سے نقل کرتے کہ یہ روایت اس کلام کے وجہ سے ضعیف ہے تو یہ جرح قابل غور ہوتی کیونکہ کلام تو بخاری اور مسلم کی روایات پر بھی ہوا ہے جیسے کہ عبداللہ روپڑی صاحب اپنی کتاب رفع یدین و آمین میں لکھتے ہیں :

جیسے بخاری مسلم کی بعض احادیث پر محدثین نے تنقید کی ہے ۔

[ رفع یدین و آمین لعبداللہ ص:133 بحوالہ نورالصباح شیخ حبیب اللہ]

 اور محمد صاحب گوندلوی صحیح مسلم کی ایک حدیث کو رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 صحیحین میں جو مدلسین کی روایات ہیں وہ سماع پر محمول ہیں مگر یہ قاعدہ ان احادیث میں چلتا ہے جہاں تنقید نہ ہوئی ہو یہ قاعدہ ہر جگہ جاری نہیں رہتا اور حدیث زیر بحث پر تنقید ہوچکی ہے۔

[ خیرالکلام محمد گوندلوی ص:305 ناشر مکتبه نعمانیہ]

تو اگر ہر تنقید و کلام حدیث کے لیے نقصان دہندہ ہو جاۓ تو بخاری ومسلم کی روایات بھی مردود ہونگی ۔لہذا جس طرح بخاری ومسلم کی روایات با وجود تنقید و کلام کے زبیر صاحب کے نزدیک بھی ضعیف ثابت نہیں ہوگی اسی طرح امام احمد کے اس کلام سے حدیث عبد اللہ بن مسعود بھی ضعیف ثابت نہیں ہوگی ۔

 وہ کلام یہ ہے جسے زبیر صاحب نے نقل نہیں کیا۔ 

قلت لابی حدیث عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة قال قال ابن مسعود الا اصلي بكم كما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فصلى فلم يرفع يديه الا مرة. حدثنا قال حدثني ابي حدثنا ابـو عبـد الرحمن الضرير قال كان وكيع ربما قال يعني ثم لا يعود قال ابي وكيـع يـقـول هذا من قبل نفسه يعنى ثم لا يعود قال ابي وقال الأشجعي في هذا الحديث فرفع يديه اول شيء قال ابي وحديث عاصم بن كليب رواه ابن ادريـس فـلم يقل ثم لا يعود حدثنا قال حدثني ابي حدثنا يحيى بن آدم قال امـلـى على عبد الله بن ادريس عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بـن الاسود قال حدثنا علقمة عن عبد الله بن مسعود قال علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر ورفع يديه وركع وطبق يديه فجعلها بين ركبتيه قبـلـغ سـعـدا فـقـال صـدق اخـى قـد كنّا نفعل ذلك ثم امرنا بهذا واخذ بـر كبتيـه غـاصـم بن كليب هكذا. قال ابی لفظ غير لفظ وكيع وكيع كان رجل يحمل على نفسه في حفظ الحديث.

 مسائل احمد برواية ابنه عبد الله ص: 71 ناشر المكتب الاسلامی بیروت]

عبداللہ بن احمد کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد بن جنبل سے حدیث ابن مسعود فلم برفع یدیہ الامرۃ. کے متعلق پوچھا تو میرے والد نے فرمایا ابوعبدالرحمن الضریر کہتے تھے کہ وکیع بسا اوقات لا یعود کے الفاظ کہتے تھے (یعنی بعض اوقات نہیں کہتے تھے) میرے والد نے فرمایا کہ وکیع ان الفاظ کو اپنی طرف سے کہتے تھے اور اشجعی نے اس حدیث میں کہا کہ پہلی مرتبہ میں ہاتھ اٹھاۓ اور عبداللہ بن ادریس نے جب عاصم بن کلیب سے یہ روایت نقل کی ہے تو اس میں لایعود کے الفاظ نہیں کہے ہیں چنانچہ میرے استاذ یحیی بن آدم کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ادریس نے مجھے عاصم بن کلیب سے یہ روایت لکھوائی تو وہ اس طرح تھی: 

حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز سکھائی پس تکبیر کہی اور اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور رکوع کیا اور رکوع میں تخلیق کی جب سعد رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث پہنچی تو اس نے کہا میرے بھائی عبداللہ سچ کہ رہے ہیں لیکن ہم تطبیق پہلے زمانے میں کرتے تھے پھر اللہ کے رسول نے ہمیں گھٹنوں کے پکڑنے کا حکم دیا۔ میرے والد نے فرمایا کہ عاصم کی حدیث میں ہے اور وکیع کے الفاظ اس کے علاوہ ہیں اور وکیع حدیث کے یاد کرنے میں اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔

 امام احمد کے اس کلام میں چار باتیں قابل غور ہیں ۔

 1- ابوعبدالرحمن الضریر کہتے تھے کہ وکیع بسا اوقات لا یعود کے الفاظ کہتے تھے (یعنی بعض اوقات نہیں کہتے تھے )

2 - وکیع ان الفاظ کواپنی طرف سے کہتے تھے 

3۔ اشجعی نے اس حدیث میں کہا کہ پہلی مرتبہ میں ہاتھ اٹھائے 

4 ۔عبداللہ بن ادریس کی روایت کو وکیع کے مقابلے میں ترجیح دینا جہاں تک تعلق ہے پہلی بات کا تو کبھی لا یعود کونقل نہ کرنا یہ اس روایت میں ان الفاظ کے عدم ثبوت کی دلیل نہیں کیونکہ محدثین کی عادت ہے بسا اوقات یہ حضرات حسب ضرورت روایت کو مختصر کر دیتے ہیں کما لا یخفی علی من لہ ذوق فی الحدیث ۔اسی بنیاد پر وکیع بن الجراح جب کسی مجلس میں صرف پہلے مقام پر رفع الیدین کے ثابت کرنے کی ضرورت محسوس کرتے تو روایت کو مختصر کر تے لا یعود کے الفاظ کو ذکر نہ کرتے اور جب کسی مجلس میں پہلی تکبیر کے علاوہ دیگر مقامات پر رفع الیدین کی نفی کرنے کی ضرورت محسوس کرتے تو اس روایت کو مکمل لا یعود کے الفاظ کے ساتھ نقل کرتے لہذا کسی موقع پر روایت کو مختصر نقل کرنا اس کی تفصیل کے منافی نہیں ہے۔

اور جہاں تک تعلق ہے دوسری بات کا تو اس کے دو جوابات ہیں۔ 

1. جب وکیع بن الجراح سب کے نزدیک ثقہ ہے خصوصا امام احمد بن حنبل کے ہاں تو ثقہ و متقی ہے چنانچہ اس کے متعلق امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:

 وقال أحمد بن حنبل: ما رأيت أحدا أوعى للعلم ولا أحفظ من وكيع قلت: كان أحـمـد يـعـظـم وكيعاً، ويفخمه.قال محمد بن عامر المصيصي: سألت أحمد: وكيع أحب إليك أو يحيى بن سعيد؟ فقال : وكيع قلت: كيف فضلته على يحيى، ويحيى ومكانه من العلم والحفظ والإتقان ما قد علمت؟قال: وكيع كان صديقاً لحفص بن غياث، فلما ولى القضاء ، هجره، وإن يحيى كان صديقاً لمعاذ بن معاذ، فلما ولى القضاء ، لم يهجره يحيى

[ سیر اعلام النبلاء للذهبي (متوفی 748) ج9 ص: 144 ناشر مؤسسة الرسالة]

میں نے وکیع سے بڑھ کر کسی کو بھی علم کی حفاظت کرنے والا اور احفظ یعنی زیادہ یاد داشت والانہیں دیکھا ذہبی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل وکیع کی بہت تعظیم کرتے تھے ۔محمد عامرالمصیصی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد سے پوچھا کہ آپ کو وکیع زیادہ محبوب ہے یا یحیی بن سعید ؟ 

تو امام احمد نے کہا وکیع ۔ میں نے پوچھا کیوں جبکہ یحیی کا علمی مقام اور حافظہ آپ کو معلوم ہے تو حضرت نے فرمایا میں اس لیے کہ اس کے دوست حفص بن غیاث کو جب قضا کا عہدہ ملا تو اس نے اس سے دوستی ہی ختم کر دی لیکن جب یحی کے دوست معاذ بن معاذ کوقضا کا عھدہ ملا تو اس نے اس سے دوستی ختم نہیں کی 

۔ تو ایسے ثقہ متقی راوی کی طرف بلا دلیل یہ نسبت کرنا کہ وکیع یہ الفاظ اپنی طرف سے کہتے تھے انتہائی نامناسب ہے۔

لہذا یہ کلام مردود ہے۔ جیسے کہ زبیر علی زئی صاحب ایک مقام پر کہتے ہیں:

بعض علماء نے لکھا ہے کہ امام بخاری امام ابو حاتم اور امام بیہقی نے اس روایت کو غیر محفوظ قرار دیا ہے تو عرض ہے کہ یہ جرح غیر مفسر ہے جبکہ اس حدیث کے تمام راوی امام بخاری امام ابو حاتم اور امام بیہقی کے نزدیک ثقہ ہیں تو اسے کس دلیل کی بنیاد پر غیر محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے؟

[ مسئلہ فاتحہ خلف الامام لزبیرعلی زئی ص:44 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

میں بھی کہتا ہوں کہ جب کسی امام احمد بن حنبل کے نزدیک ثقہ وامام ہے تو اسے کس دلیل کی بنیاد پر جھوٹ بنانے یا غلطی کرنے والا قرارد یا جا سکتا ہے ۔ 2- اس حدیث میں لایعود کے الفاظ کو نقل کرنے میں وکیع متفرد بھی نہیں ہے کیونکہ نسائی میں لم یعد کے الفاظ کو امام عبد اللہ بن مبارک نے بھی نقل کیا ہے تو کیا عبد اللہ بن مبارک بھی یہ الفاظ اپنی طرف سے نقل کرتے تھے؟

 حاشاوکلا۔ اور جہاں تک تعلق ہے تیسری بات کا تو اشجعی اگرچہ یہ الفاظ نقل نہ بھی کرے تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اسجعی سے اوثق رواۃ مثلا وکیع بن الجراح اور ابن مبارک اس لایعود کی زیادتی نقل کرتے ہیں 

۔اور زیادۃ الثقہ مقبول ہوتی ہے جیسے کہ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

 ایک کی روایت میں کسی بات کا ذکر ہو اور دوسری میں ذکر نہ ہوتو یہ کوئی جرح نہیں .......ثقہ کی زیادت محدثین کا ہاں مقبول ہوتی ہے ۔ 

[ جزء رفع الیدین مترجم لزبیرعلی زئی ص: 37 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

اس طرح میں بھی کہتا ہوں کہ جب وکیع اور عبداللہ بن مبارک کی بیان کردہ صیح روایت میں لایعود کی زیادتی موجود ہے تو اشجعی کی روایت میں مذکور نہ ہونا نفی کی دلیل نہیں ہے ۔

 اور جہاں تک تعلق ہے چوتھی بات یعنی عبداللہ بن ادریس کی روایت کو وکیع کی روایت پر ترجیح دینے کا تو یہ ترجیح کی صورت اس وقت پیش آتی جب وکیع کی روایت عبداللہ ابن ادریس کی روایت کے خلاف ہوتی جبکہ یہاں وکیع کی روایت میں پہلی تکبیر کے علاوہ دیگر مقامات پر رفع الیدین کی نفی ( لا یعود کے ساتھ ہے اور ابن ادریس کی روایت میں دیگر مقامات کا تذکرہ نہیں گویا کہ وکیع کی روایت میں وہ زیادت ہے جو ابن ادریس کی روایت میں نہیں تو جمہور محدثین کے ہاں اصول ہے کہ ثقہ کی زیادت قبول ہے ۔

 لہذا امام احمد کی جرح محدثین کے اصول کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ۔

 جیسے کہ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

 لہذا حافظ ابن عبدالبر کا قول اصول حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

 [ مسئلہ فاتحہ خلف الامام لزبیرعلی زئی ص:53 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 اور یہ جرح امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں اس طرح نقل کی ہے : 

وقال أحمد بن حنبل عن يحيى بن آدم قال : نظرت في كتاب عبد الله بن إدريس عن عاصم بن كليب ليس فيه: ثم لم يعد. فهذا أصح لان الكتاب أحـفـظ عند أهل العلم لأن الرجل ربما حدث بشيء ثم يرجع إلى الكتاب فيكون كما في الكتاب.

[۔ قـرـة الـعـيـنـيـن برفع اليدين في الصلاة لمحمد بن اسماعيل البخاري (متوفی 256) ص28 ناشر دار الارقم الكويت]

احمد بن حنبل اپنے استاذ یحی بن آدم سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ادریس کی کتاب میں یہ حدیث دیکھی جو عاصم بن کلیب سے مروی ہے اس کتاب میں لم یعد کے الفاظ نہیں تھے 

۔امام بخاری فرماتے ہیں یوں یعنی بغیر لم یعد کے زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ بسا اوقات کوئی شخص کوئی حدیث بیان کرتا ہے پھر جب کتاب کی طرف رجوع کرتا ہے تو کتاب میں اسی طرح پاتا ہے جس طرح بیان کی تھی ۔

 امام بخاری یہاں کہنا یہ چاہتے ہیں کہ عاصم بن کلیب سے لم یعد کی زیادت اگرچہ اس کے شاگرد سفیان ثوری کی روایت میں موجود ہے لیکن عبداللہ بن ادریس کی روایت میں یہ زیادت نہیں اور زیادہ صحیح حدیث عبداللہ بن ادریس کی ہے جو لم یعد کی زیادت سے خالی ہے ۔ 

جواب:

 اولا تو عبداللہ بن ادریس کی کتاب میں لم یعد کا نہ لکھا ہونا ہی اس حدیث میں ان الفاظ کے نہ ہونے کی دلیل نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ ان الفاظ کے لکھنے سے پہلے کوئی عذر پیش آیا ہو اور پھر لکھنے کا موقعہ نہ ملا ہو لیکن اگر تسلیم بھی کیا جائے کہ عبداللہ بن ادریس کی روایت میں لم کے الفاظ نہیں تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ سفیان ثوری ثقہ امام کی روایت میں لم یعد کی زیادت موجود ہے اور جمہور محدثین کے ہاں زیادت الثقیہ مقبول ہے لہذا امام بخاری کی یہ جرح صرف جمہور محدثین ہی نہیں بلکہ اپنے اس اصول کے بھی خلاف ہے جسے حضرت نے صحیح بخاری میں نقل کیا ہے اس لیے مردود ہے ۔ 

البتہ بخاری کی عبارت ملاحظہ فرمائیں: 

والزيادة مقبولة، والمفسّر يقضى على المبهم، إذا رواه أهل الثبت۔

[ صـحـيـح الـبـخـاري لـمـحمد بن اسماعيل البخاري (متوفی 256) ج 2 ص:126 ناشر دار طوق النجاة]

 اور زیادت قبول ہے اور حدیث مفسر مبہم کافیصلہ کرتی ہے جب اس کو ثقہ رواۃ نقل کر یں ۔ 

جیسے کہ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

لہذا حافظ ابن عبدالبر کا قول اصول حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

[ مسئلہ فاتحہ خلف الامام لزبیرعلی زئی ص: 53 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

4- ابوحاتم کا کلام اور اس کا جواب

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں ابوحاتم رازی ( متوفی 277 ) نے کہا:

 هذا خـطـاً يـقـال: وهـم فيه الثوري،وروى هذا الحديث عن عاصم جـمـاعـة فـقـالـوا كلهم: إن النبي صلى الله عليه وسلم افتتح، فرفع يديه ثم ركع، فطبق، وجعلها بين ركبتيه. ولم يقل أحد ما رواه الثورى.

 یہ حدیث خطا ہے کہا جا تا ہے کہ ( سفیان ثوری کو اس (کے اختصار ) میں وہم ہوا ہے ۔ کیونکہ ایک جماعت نے اس کو عاصم بن کلیب سے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کی پس ہاتھ اٹھائے پھر رکوع کیا اور تطبیق کی اور اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھا۔ کسی دوسرے نے ثوری والی بات بیان نہیں کی ہے ۔

 علل الحدیث ج 1 ص:96 ح 258]

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص:131 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: اولاً تو ابو حاتم متشدد ہیں جیسے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

قلت: قد علم تعنت أبي حاتم في الرجال، وإلا فالشيخان قد احتجا به.

[ تـذكـرة الحفاظ لمحمد بن احمد بن عثمان الـذهبـی (متوفی 748) ج 2 ص؛ 8 نـاشـر دار الكتب العلمية بيروت]

 میں کہتا ہوں اس سے ابو حاتم کا ضد اور ہٹ دھرمی معلوم ہوگئی کیونکہ اس نے اس راوی پر جرح کی ہے جس سے بخاری مسلم نے استدلال کیا ہے ۔ 

لہذا جب بقول ذہبی یہ ضدی قسم کا آدمی ہے تو سفیان ثوری کی اس صحیح حدیث کو اس کی جرح کی بنیاد پر کیسے ضعیف سمجھا جاسکتا ہے؟ 

نیز زبیر صاحب کے استاذوں کے استاذ محمد صاحب گوندلوی بھی لکھتے ہیں: جرح کرنے والا اگر متعنت اور متشدد ہو تو اس کی توثیق تو معتبر ہے جرح معتبر نہیں ...... متشددین میں ابوحاتم ( ان میں سے ایک ہیں )۔

[ خير الكلام محمد گوندلوی ص:46 ناشر مکتبه نعمانیہ]

ثانیا: یہ روایت ثوری کی خطا نہیں بلکہ ابوحاتم کی جرح خطا پر مشتمل ہے وہ اس طرح کہ ابو حاتم اس عبارت میں سفیان ثوری کے خطا کی وجہ یہ بتا رہے ہیں کہ عاصم بن کلیب سے اس روایت کو ایک جاعت نے نقل کیا ہے اور انہوں نے اس روایت میں لم یعد کے  الفاظ نقل نہیں کیے ہیں صرف سفیان ثوری نے نقل کیے ہیں تو یہ بات تحقیق کے میدان میں غلط ہے کیونکہ اس روایت کو جو ابو حاتم نے یہاں نقل کی ہے ان الفاظ کے ساتھ عاصم بن کلیب سے صرف عبداللہ بن ادریس نے نقل کی ہے اس کے علاوہ کوئی دوسرا نام سامنے نہیں آیا لہذا جماعت کی طرف نسبت کرنا ابوحاتم کی خطا ہے۔

یہاں صرف اتنی بات ہے کہ عاصم بن کلیب سے جب اس روایت کو عبد اللہ بن ادریس نقل کرتے ہیں تو لم یعد کے الفاظ نقل نہیں کر تے ہاں سفیان ثوری لم یعد کی زیادت کو نقل کرتے ہیں تو ہم پہلے کہ چکے ہیں کہ ثقہ کی زیادت قبول ہے۔

 تنبیہ: زبیر صاحب نے ابو حاتم کی عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے بریکیٹ میں جو اختصار کا لفظ لگایا ہے زبیر صاحب نے اپنی فیکٹری سے بنایا ہے ابوحاتم کی اس عبارت میں اس لفظ کا نام ونشان نہیں نیز کسی بھی محدث سے یہ وضاحت ثابت نہیں ہے کہ سفیان کو اس روایت کے اختصار میں وہم ہوا ہے حق بات یہ ہے کہ عبداللہ بن ادریس کی یہ روایت جو تطبیق کے سلسلے میں ہے یہ اور ہے اور سفیان ثوری کی روایت اور ہے لہذا کسی کی روایت کسی کے خلاف نہیں ہے تطبیق والی روایت اپنی جگہ پر صحیح ہے اور ترک رفع الیدین یعنی لم يعد والی روایت اپنی جگہ پر صحیح ہے ۔

5- امام دار قطنی  کا کلام اور اس کا جواب حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں :

 الامام دار قطنی (متوفی 354) نے اسے غیر محفوظ قرار : دیا۔ 

دیکھیے العلل للدار قطنی ج 5 ص:37 مسئله 804].

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص: 131 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: اولا :امام دارقطنی نے اس حدیث کی سند کو صیح قرار دیا ہے اورمتن میں لم یعد کے لفظ کو غیر محفوظ قرار دیا ہے چنانچہ لکھتے ہیں: 

وإسناده صحيح، وفيه لفظة ليست بمحفوظة، ذكرها أبو حذيفة في حديثه، عن الثوري، وهي قوله: ثم لم يعد.

[ العلل الواردة للدار قطنى (متوفی 358) ج 5 ص: 172 ناشر دار طيبة -رياض]

 اس حدیث کی سند صحیح ہے لیکن اس میں ایک لفظ ثم لم یعد غیر محفوظ ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ زبیر صاحب سند کے سلسلے میں امام دارقطنی کے فیصلے پر اعتاد نہیں کرتے کیونکہ زبیر صاحب نے اس حدیث کی سند کو سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف بتایا ہے لیکن متن کے بارے میں امام دارقطنی کے فیصلے پر اعتماد کرتے ہیں اور اسے غیر محفوظ قراردیتے ہیں ۔

ثانیا : یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ جب اس کی پسندیدہ روایت پر امام بخاری جیسے امیر المؤمنین فی الحدیث اور ابو حاتم و بیہقی غیر محفوظ کی جرح کرتے ہیں تو وہاں اس جرح کو غیر مفسر کرار دے کر رد کرتے ہیں لیکن جب امام دارقطنی عبد اللہ بن مسعود کی حدیث پر یہی جرح کرے تو اس جرح کو مفسر قرار دے کر ضعیف کہتے ہیں ایسے انصاف کو ہمارا دور سے سلام ۔

البتہ زبیر صاحب کی اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

بعض علماء نے لکھا ہے کہ امام بخاری امام ابوحاتم اور امام بیہقی نے اس روایت کو غیر محفوظ قرار دیا ہے تو عرض ہے کہ یہ جرح غیر مفسر ہے جبکہ اس حدیث کے تمام راوی امام بخاری امام ابو حاتم اور امام بیہقی کے نزدیک ثقہ ہیں تو اسے کس دلیل کی بنیاد پر غیر محفوظ قرار دیا جاسکتا ہے؟۔ 

[ مسئلہ فاتحہ خلف الامام لز بیر علی زئی ص:44 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

لہذا ہم بھی کہتے ہیں کہ امام دارقطنی کی یہ جرح غیر مفسر ہے اس لیے مردود ہے۔ 

6- ابن حبان کا کلام اور اس کا جواب

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں: حافظ ابن حبان ( متوفی 354) نے ( کتاب الصلاۃ)

میں کہا:

یہ روایت حقیقت میں سب سے زیادہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی علتیں ہیں جو اسے باطل قرار دیتی ہیں ۔

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص: 131 ناشر مکتبہ اسلامیہ] 

جواب:

 اولا : ابن حبان جرح میں متشدد شمار کیے جاتے ہیں اس لیے اس کی جرح کا اعتبار نہیں کیا جائیگا جیسے کہ حضرت علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

فيتأمل هذا، فإن ابن حبان صاحب تشنيع وشغب۔

 پس اس کے متعلق غور وفکر کیا جائے اس لیے کہ ابن حبان طعنہ باز اور فتنہ انگیز ہے۔

[ میزان الاعتدال للذهبي (متوفی 748) ج 1 ص 290 ناشر دار المعرفة بيروت

 ثانیا : غلطیاں کرتے ہیں : چنانچہ اس کے متعلق حضرت علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: 

وقد ذكـره أبـو عـمـرو بن الصلاح في طبقات الشافعية،وقال:ربما غلط الغلط الفاحش في تصرفاته.

 ابوعر و بن صلاح نے اس کے متعلق طبقات الشافعیۃ میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے تصرفات میں بہت بری غلطیاں کی ہیں ۔ 

[ تذکرہ الحفاظ للذهبي (متوفی 748)ج 3 ص 90 ناشر دار الکتب العلمیہ]

میں بھی کہتا ہوں اس روایت میں بلا وجہ علتیں نکالنا ان کی غلطیوں میں سے ہے ۔

 ثالثاً : غیر مقلد علماء نے بھی ابن حبان کے اس قول کو رد کیا ہے چنانچہ احمد محمد شاکر غیر مقلد لکھتے ہیں:

وهـذا الـحـديـث صححه ابن حزم وغيره من الحفاظ وهو حديث صحيح وما قالوه في تعليله ليس بعلة۔

[ سنن الترمذي بتحقيق احمد محمد شاكر ج 2 ص : 41 ناشر مكتبة و مطبعة مصطفى البابی]

اس حدیث کو ابن حزم اور دیگر حفاظ حدیث نے صحیح کہا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے اور وہ جو بعض لوگوں نے اس میں کوئی علت بیان کر کے ضعیف کرنے کی کوشش کی ہے وہ درحقیقت کوئی علت نہیں ۔

اور شعیب الارنوط اور محمد زهیر الشاویش غیر مقلد یہ دونوں حضرات شرح السنہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:

حسنه الترمذي و صححه غير واحد من الحفاظ وما قالوه في تعليله ليس بعلة.

[شرح السنة بتحقيق شعيب الارناؤط و محمد زهير الشاويش ج 3 ص: 24  ناشر المكتب الاسلامی بیروت]

اس حدیث کو ترمذی نے حسن قرار دیا ہے اور حفاظ میں سے بہت سارے حفاظ حدیث نے اس کو صحیح قرار دیا ہے ور وہ جو بعض لوگوں نے اس میں کوئی علت بیان کر کے ضعیف کرنے کی کوشش کی ہے وہ در حقیقت کوئی علت نہیں ۔ 

رابعا: یہ جرح غیر مفسر ہے کیونکہ ابن حبان نے وہ علتیں بیان نہیں کی ہیں کہ وہ کونسی علتیں ہیں جو اس روایت کو باطل کرتی ہیں ۔اس لیے یہ جرح مردود ہے ۔ 

7-امام ابوداؤد کا کلام اور اس کا جواب 

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

امام ابوداؤد سجستانی (متوفی 275 ) نے کہا 

هـذا حـديـث مـخـتـصـر من حديث طـويـل وليـس هـو بصحيح على هذا اللفظ سنن ابی داؤد نسخه حمصية ج 1ص :478ح 748].

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص:131 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: اولا : امام ابو داٶد رحمہ اللہ سے اس جرح کا ثبوت مشکوک ہے کیونکہ ابو داؤد کے بعض نسخوں میں اگرچہ یہ جرح موجود ہے لیکن متداول نسخوں میں موجود نہیں ہے تو جب اس جرح کے ثبوت میں شک و احتمال آ گیا تو اس سے استدلال بھی باطل ہو گیا کیونکہ متفق علیہ قاعدہ ہے [اذا جـاء الاحتـمـال بـطـل الاستدلال]

 جیسے کہ شمس الحق غیر مقلد نے اسی قاعدے سے استدلال کیا ہے: 

اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں: 

(يشير بكفيه) أي يرفع يديه (حين يقوم) للصلاة ويستفتح (وحين يسجد استدل به على رفع اليدين في السجود لكن الاستدلال به علیه نام لأنه يخـتـمـل أن يـكـون الـمـراد بـقـوله حين يسجد حين يرفع رأسه من الركوع لـلـشـجـود كـمـا في الرواية المتقدمة وإذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال.

[ عـون الـمـعبـود لـشـمـس الـحـق عظیم آبادی (1329) ج 2 ص: 309 ناشر دار الكتب العلمية] 

عبد الرحمن مبارکپوری غیر مقلد نے بھی اسی قاعدے سے استدلال کیا ہے

 اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

وأمـا حـديـث مـروان الأصغر فهو أيـضـا لا يدل على نسخ ذلك القانون لأن قول بن عمر فيه إنما نهى عن ذلك في الفضاء يحتمل أنه قد علم ذلك مـن رسـول الله صلى الله عليه وسلم ويحتمل أنه قال ذلك استنادا إلى الفعل الذي شاهده ورواه فكأنه لما رأى النبي صلى الله عليه وسـلـم فـي بيـت حفصة مستدبرا القبلة فهم اختصاص النهي بالبنيان فلا يكون هذا الفهم حجة فإذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال.

[  تحفة الأحوذي لعبد الرحمن مبارکفوری (متوفی 1353)ج 1  ص: 49 ناشر دار الكتب العلمية]

 قاضی شوکانی غیر مقلد نے اسی قاعدے سے استدلال کیا ہے اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں: 

ومع الاحتمال يسقط الاستدلال.

[ نيل الأوطار لمحمد بن على الشوكاني (متوفی 1250)ج 1 ص:246 ناشر دار الحدیث مصر]

ثانیا: ابن قطان فاسی نے ابو داؤد کی اس جرح کو اس کا وہم قرار دیا ہے ۔

اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

والذي توهمه أبو داود : من أنه مختصر، قد بين متوهمه من ذلك في كتابه، بإتباعه إياه حديث ابن إدريس، وروايته له عن عاصم بن كليب قال أبو داود: حـدثـنـا عـثـمـان بن أبي شيبة، قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود،عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود : ألا أصلى بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فصلی فلم يرفع يده إلا مرة. قال أبو داود:هذا الحديث مختصر من حديث طويل، وليس هو بصحيح على هذا اللفظ،حدثنا عثمان بن أبي شيبة،حدثنا بن إدريس ،عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود،عن علقمة، قال عبـد الله: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة: فكبر ورفع . يديه فلما ركع، طبق يديه بين ركبتيه، قال : فبلغ ذلک سعدا فقال: صدق أخي، قد كنا نفعل هذا ، ثم أمرنا بهذا يعني الإمساك على الركبتين ۔

[ بيـان الـوهـم والايهام لابن القطان الفاسی (متوفی 628) ج 3 ص:366 ناشر دار طيبة-الرياض]

 ثالثا : اس جرح کا بنیاداس بات پر ہے کہ عبداللہ بن ادریس کی روایت میں ہی زیادت موجود نہیں اور ہم ماقبل میں ثابت کر چکے ہیں کہ یہ جرح فاسد ہے لہذا فاسد پر مبنی جرح بھی فاسد ہے۔

8- یحی بن آدم کا کلام اور اس کا جواب 

یحی بن آدم ( متوفی 203) دیکھیے جزء رفع الیدین ص :32).

  نورالعینین لزبیر علی زئی ص:131 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب : یحیی بن آدم کی جرح کا جواب جرح نمبر 3 یعنی امام احمد بن حنبل کی جرح کے ضمن میں گذر چکا ہے وہاں دوبارہ دیکھیے ۔

9. امام بزار کا کلام اور اس کا جواب

 زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

 ابوبکر احمد بن عمر والبزار( متوفی 292) نے اس حدیث پر جرح کی۔

[البحر الزخارج 5: ص 47 ح 608].

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص: 133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب:

 اولا: امام بزار نے یہ جرح حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت پر نہیں کی ہے جس میں پہلی تکبیر کے علاوہ دیگر مقامات میں لم یعد کے لفظ کے ساتھ یا لم برفع یدیہ الا فی اول مرۃ  کے الفاظ کے ساتھ رفع الیدین کی نفی ہے بلکہ امام بزار نے یہ جرح حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت پر کی ہے جو تطبیق کے متعلق ہے لہذا تطبیق والی روایت پر کی ہوئی جرح کو ترک رفع الیدین والی روایت پر منطبق کرنا انصاف کو پاش پاش کرنا ہے البتہ وہ اصلی کلام ملاحظہ فرمائیں:

حدثنا عبد الله بن سعيد، ومحمد بن العباس الضبعى، قالا : نا عبد الله بن إدريـس عـن عـاصـم بـن كـلـيـب عـن عبـد الرحمن بن الأسود،عن علقمة، عن عبد الله أنه قال: ألا أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر ورفع يديه حين افتتح الصلاة،فلما ركع طبق يديه وجعلهما بين فخذيه ،فلما صلى قال: هكذا فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهـذا الـحـديـث رواه عاصم بن كليب، وعاصم في حديثه اضطراب، ولا سيما في حديث الرفع ذكره عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، عن عبـد الـلـه أنه رفع يديه في أول تكبيرة ،ورواه عن أبيه، عن وائل بن حجر، أنه رفع يديه حين افتتح الصلاة وحين رفع رأسه من الركوع، وروى عن محارب بن دثار، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم ذلك أيضاء وروى عن أبيه، عن رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أنه رآه يرفع في أول مرة 

قارئین کرام اس عربی عبارت کو بابار پڑھیں اور دیکھیں کہ کیا یہاں پر حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت کا کوئی تذکرہ ہے جس سے ہم نے استدلال کیا ہے ہرگز نہیں ۔ 

ثانیا: اس عبارت میں امام بزار نے عاصم بن کلیب کے متعلق فیصلہ کیا ہے کہ اس کی حدیث میں (ویسے بھی ) اضطراب ہوتا ہے (یعنی مضطرب الحدیث ہے ) خصوصا رفع الیدین والی روایت میں تو اضطراب ہے ہی ۔اب زبیر صاحب سے سوال ہے کہ کیا آپ

عاصم بن کلیب کے متعلق امام بزار کا فیصلہ تسلیم کر کے اس کو مضطرب الحدیث ماننے کے تیار ہو؟ ہرگز نہیں کیوں کہ عاصم بن کلیب کومضطرب الحدیث ماننے والی صورت میں آپ کی گاڑی بھی نہیں چلے گی آپ نے اپنی گاڑی چلانے کے لیے عاصم بن کلیب کو کئی مقامات پر ثقہ لکھا ہے جیسے کہ جزء رفع الیدین ص : 52 میں آپ نے عاصم بن کلیب کی حدیث کو صحیح لکھا ہے تو جب آپ خود امام بزار کا فیصلہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے تو دوسروں پر کیوں الزام قائم کرتے ہو؟

ثالثا : اس عبارت میں امام بزار نے عاصم بن کلیب کی رکوع سے سر اٹھانے کے بعد والی رفع الیدین کی روایت کو بھی مضطرب قرار دیا ہے لیکن آپ کو اس کے متعلق یہ جرح نظر نہیں آئی اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی ترک رفع الیدین والی روایت جس کا یہاں پر ذکر تک نہیں آپ نے اس جرح کو اس کے ساتھ منطبق کر دیا ایسے انصاف کو ہمارا دور سے سلام ۔

 10-محمد بن وضاح کا کلام اور اس کا جواب :

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

محمد بن وضاح (متوفی 289) نے ترک رفع یدین کی تمام احادیث کو ضعیف کہا التمهيد ج 9 ص: 221 وسنده قوی].

[ نورالعینین لزبیرعلی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامی]

 جواب : محمد بن وضاح کی یہ جرح غیر مفسر ہے جیسے کہ حافظ زبیر علی صاحب کے استاذوں کے استاذ محمد صاحب گوندلوی لکھتے ہیں : یہ جرح بھی غیر مفسر ہے کہ فلاں راوی ضعیف ہے اور ضعف کی وجہ بیان نہ کریں۔

[ خیر الکلا لمحمد گوندلوی ص۔44 نا شرمکتبه نعمانیہ]

میں بھی کہتا ہوں کہ محمد بن وضاح نے چونکہ اس روایت کے ضعیف ہونے کی وجہ بیان نہیں کی ہے اس لیے مردود ہے 

۔البتہ اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں: 

مـحـمـد بـن وضاح يقول الأحاديث التي تروى عن النبي صلى الله عليه وسلم في رفع اليدين ثم لا يعود ضعيفة كلها

[ التـمـهـيـد لـمـا فـي المؤطا لابن عبد البر (متوفی 463) ج 9 ص: 221 ناشر وزارة عموم الاوقاف]

 نیز جب بن سعد کاتب الواقدی نے عبدالاعلی راوی پر جرح کی کہ [ لم يكن بالقوی فـي الـحـدیث] یعنی یہ حدیث میں قوی نہیں بلکہ کمزور و ضعیف ہے تو زبیرعلی زئی نے اس جرح کو حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے غیر مفسر قرار دے کر رد کر دیا۔ دیکھیے۔

[ نورالعینین لزبیرعلی ص :93 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

11-امام بخاری کا کلام اور اس کا جواب 

: زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

امام بخاری ( متوفی 256) دیکھیے جزء رفع الیدین.

جواب: امام بخاری کے کلام کا جواب امام احمد رحمہ اللہ کے کلام نمبر 3 کے تحت گذر چکا ہے۔

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

12- ابن القطان الفاسی کا کلام اور اس کا جواب 

حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

ابن القطان الفاسی ( متوفی 228 ) سے زیلعی حنفی نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس زیادت ( دوبارہ نہ کر نے ) کوخطا قرار دیا۔[ نصب الرایۃ ج 1 ص: 395][1]

[ نورالعینین لزبیر علی ص :133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 جواب: ابن قطان فاسی کی کتاب بیان الوہم والایہام میں اس جرح کا نام ونشان نہیں جیسے کہ زبیر صاحب خود بھی اقرار کرتے ہیں کہ مجھے یہ کلام بیان الوہم والایہام میں نہیں ملا ( ج 3 ص: 365 تا 367 فقرہ1109) تاہم اشارہ ضرور ملتا ہے ۔

[ نورالعینین لزبیرعلی ص :133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 رہی بات اشارے کی تو اشارہ خود مبہم چیز ہوتا ہے جس سے یقینی طور پر کوئی چیز معلوم نہیں ہوسکتی ہے لیکن حق بات یہ ہے کہ ابن قطان فاسی کے اس کلام میں جرح کرنے والوں پر رد ہے چنانچہ ابن قطان ابوداؤد کی جرح [ليـس بـصـحيح على هذا اللفظ ] کو وہم قرار دے رہے ہیں ، وہ فرماتے ہیں:

والذي توهمه أبو داود:من أنه مختصر، قد بين متوهمه من ذلك في كتابه، بإتباعه إياه حديث ابن إدريس، وروايته له عن عاصم بن كليب . قال أبو داود: حدثنا عثمان بن أبي شيبة، قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عـاصـم بـن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود،عن علقمة قال: قال عبد الله بن مسعود: ألا أصـلـى بكـم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فـصـلى فلم يرفع يده إلا مرة. قال أبو داود:هذا الحديث مختصر من حـديـث طويل، وليس هو بصحيح على هذا اللفظ، حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا عبد الله بن إدريس،عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال عبد الله: علمنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصّلاة: " فكبر ورفع يديه، فلما / ركع، طبق يديه بين ركبتيه، قال: فبلغ ذلک شـعـدا فـقـال: صـدق أخي،قد كنا نفعل هذا، ثم أمرنا بهذا يعنى الإمساك على الركبتين فمن هذا زعم أبو داود أنه اختصر حديث وكيع، فتثبـج مـعـنـاة وكما فعل أبو داود فعل أحمد بن حنبل في هذا الحديث ، من معارضة رواية وكيع عن الثوري،برواية ابن إدريس. 

وہ جو ابو داؤد کو وہم ہوا ہے کہ اس نے کہا کہ یہ حدیث مختصر کی گئی ہے تو اس نے اپنے وہم پر دلیل یوں پیش کیا کہ ابو داود نے سفیان کی روایت کے بعد عبد اللہ بن ادریس کی روایت لائی (جس میں پہلی تکبیر میں رفع الیدن کا ذکر ہے اور پھر دوبارہ نہ کرنے کا ذکر نہیں ۔اور جس طرح ابوداؤد نے کیا ہے ( یعنی وکیع کی روایت کو عبداللہ بن ادریس کی روایت کے معارض سمجھا ہے اسی طرح احمد بن حنبل نے بھی وکیع عن الثوری کی روایت کوعبد اللہ بن ادریس کی روایت کے معارض سمجھا ہے (لہذا احمد بن حنبل کو بھی وہم ہوا ہے ) آگے ابن قطان لکھتے ہیں:

والذي فعله أبو محمد من إبهام علة هذا الحديث،والإحالة بها على محمد بن نصر يوهم أن عنده فيه مزيدا، وليس كذلك. والحديث عندی لعدالة رواته أقرب إلى الصحة، وما به علة سوى ما ذكرت.

[ بيـان الـوهـم والايهام لابن القطان الفاسی (متوفی 628) ج 3 ص:367 ناشر دار طيبة-الرياض]

 وہ جو ابو محمد نے اس حدیث میں مبہم علتیں بتائی ہیں اور ان کو محمد بن نصر کی طرف منسوب کیا ہے اس سے تو یہ وہم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں مزید بھی علتیں ہیں حالانکہ ایسی بات نہیں میرے نزدیک یہ حدیث راویوں کی عدالت کی وجہ سے صحت کے قریب ( یعنی حسن ہے) اور اس میں کوئی علت نہیں ہے سوائے اس کے جو میں نے ذکر کی ( وہ علت ابو داود سے ذکر کی تھی جس کو ابوداٶد کا وہم قرار دیا )

رہی بات زیلعی رحمہ اللہ کی تو زیلعی سے اس عبارت کے سمجھنے میں خطا ہوئی ہے بقول زبیر علی زئی انسان خطا کا پتلہ ہے دیکھیے [ جزء رفع الیدین ص:26] لہذا بقول ذہبی رحمہ الله (وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك إلا رسول الله).

[ تذكره الحفاظ للذهبي (متوفی 748) ج3 ص: 231 ناشر دار الكتب العلمية]

 13- عبدالحق الاشبیلی کا کلام اور اس جواب

 حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں : 

عبد الحق الاشبیلی نے کہا ’لا یصح‘‘ الاحکام الواسطی ج 1 ص:367).

[ نورالعینین لز بیرعلی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: اولاً تو صحیح کی نفی حسن کی نفی کو مستلزم نہیں ہے جیسے کہ غیر مقلد عالم شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں:

فمعنى لـم يـصـح ولم يثبت واحد وهو نفى السند الصحيح فيبقى تحته السند الحسن۔

[ اغنية الالـمـعـى لـشـمـس الـحق مع المعجم الصغير ج 2 ص: 158 ناشر دار الكتب العلمية بيروت]

لم يصح] اور [ لم يثبت کا معنی ایک ہی ہے یعنی یہ سند صحیح نہیں بلکہ حسن ہے۔ 

ثانیا : عبدالحق صاحب نے صحیح نہ ہونے کی وجہ بیان نہیں کی ہے اس لیے جرح غیر مفسر لہذا مردود ہے۔

14- ابن الملقن کا کلام اور اس کا جواب: 

حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

ابن الملقن ( متوفی 804) نے اسے ضعیف کہا البدر المنیر ج.3 ص 492).

[ نورالعینین لزبیرعلی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: ابن الملقن نے اس حدیث کے ضعف کے جتنے وجوہات بیان کیے ہیں وہ سب کے سب غلط ہیں مثلا ابن مبارک نے کہا کہ یہ حدیث ثابت نہیں امام احمد بن حنبل اور یحیی بن آدم نے اسے ضعیف قرار دیا ہے وغیرہ ان تمام حضرات کے اقوال پر ہم نظر قائم کر کے ان کے اقوال کو فاسد بتا چکے ہیں تو چونکہ ابن الملقن کا کلام بھی اسی فاسد کلام پر مشتمل ہے لہذا یہ [بـنـاء الـفـاسـد عـلى الفاسد] ہے۔

ابن الملقن کی اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

وأمـا الـجـواب عـن الـحـديث الثالث وهو حديث ابن مسعود فهو حديث ضعيف أيضا، قال البيهقي (في سنته ) قال ابن المبارک: لم يثبت عندي حديث ابن مسعود هذا 

البدرالمنير لابن الملقن (متوفی 804) ج 3 ص: 492 ناشر دار الهجرة الرياض]

15- حاکم کا کلام اور اس کا جواب

 حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں: الحاکم ( متوفی 405 ) الخلافیات للبیہقی بحوالہ البدرالمنير

[ نورالعينين لزبیرعلی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 ( جواب: حاکم کی جرح کا بنیاد اس بات پر ہے کہ عاصم بن کلیب صحیح کے شرائط کا راوی نہیں ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ عاصم بن کلیب کی روایت کو صحیح میں نہیں لایا گیا ہے اس لیے کہ عاصم روایات کو مختصر کرتے تھے اور بالمعنی نقل کرتے تھے لہذا یہ لفظ لم یعد اس روایت میں محفوظ نہیں ہے ۔

 دیکھیے اصلی عبارت :

وقال البيهقي: قال الحاكم: هذا الخبر مختصر من أصله، وعاصم بن كـلـيـب يـعـنـى الـمـذكـور فـي الـإســاد الأول لم يخـرج حديثه في الـصـحـيـح، وذلك أنـه كـان يـختصر (الأخبار يؤديها على المعنى، وهذه اللفظة ثم لم يعد غير محفوظة في الخبر.

[ البدرالمنير لابن الملقن (متوفی 804) ج 3 ص: 493 ناشر دار الهجرة الرياض]

جبکہ خود حاکم نے عاصم بن کلیب کی دیگر روایات کو صحیح علی شرط مسلم کہا ہے لہذا حاکم سے جرح اور تعدیل کے دونوں قول متعارض ہونے کی وجہ سے ساقط الاعتبار ہو گئے جیسے کہ ماقبل میں ذہبی سے یہ اصول نقل ہو چکا ہے ۔[تساقط قولاہ]۔ 

عـن عـاصـم بـن كليب، عن علقمة بن وائل، عن أبيه، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا ركع فرج بين أصابعه هذا حديث صحيح على شرط مسلم.

[ مستدرک للحاکم (متوفی 405) ج 1 ص : 346 ناشر دار الكتب العلمية]

 اگر کوئی کہے کہ امام حاکم کی مراد یہ ہے کہ عاصم بن کلیب صحیح بخاری کا راوی نہیں ہے تو میں جواب میں کہوں گا کیا حدیث کی صحت کے لیے بخاری کا راوی ضروری ہے صحیح مسلم کا ہونا کافی نہیں ہے مجھے یقین ہے کہ زبیر صاحب کی طرف سے بھی جواب یہی آۓ گا کہ صحت حدیث کے لیے بخاری کا راوی ہونا شرط نہیں ہے ورنہ پھر زبیر صاحب کی بھی گاڑی نہیں چلے گی کیونکہ وہ بھی اپنی گاڑی چلانے کے لیے عاصم بن کلیب کو ثقہ مانتے ہیں 

۔ 16- امام نووی کا کلام اور اس کا جواب

 النووی ( متوفی 670) نے کہا:اتفقوا على تضعيفه ( خلاصۃ الاحکام ج 1 ص:354 ح 180) یعنی امام ترمذی کے علاوہ سب متقدمین کا اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔

[ نورالعینین لزبیرعلی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب : محدثین نے امام نووی کی اس بات کو رد کیا ہے چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:

وقـال الـنّـووي في الخلاصة اتفقوا على تضعيف هذا الحديث قال الزركشي فـي تـخـريـجه ونقل الاتفاق ليس بجيد فقد صححه ابن حزم والدارقطني وابن القطان وغيرهم وبوب عليه النسائي الرخصة في ترك ذلك . قال ابـن دقيـق فـي الـإلـمـام: عاصم ابن كليب ثقة أخرج له مسلم وعبـد الـرحـمـن أخـرج لـه مـسـلـم أيضا وهو تابعي وثقه ابن معين وغيره انتهى. ونـقـل الحافظ ابن حجر أيضا في تخريج أحاديث الهداية تصحيح هذا الحديث عن ابن القطان والدارقطني.

[ اللآلىء الـمـصـنـوعة في الأحاديث الموضوعة لجلال الدين السيوطي (متوفی 911) ج 2 ص:18 ناشر دار الكتب العلمية]

نووی نے خلاصۃ الاحکام میں کہا ہے کہ محدثین نے اس حدیث کے ضعیف ہونے پر اتفاق کیا ہے زرکشی نے اس کی تخریج میں کہا ہے کہ نووی کا اس حدیث کے ضعف پراتفاق نقل کرنا اچھی بات نہیں کیونکہ اس حدیث کو ابن حزم نے صحیح کہا ہے اور دار قطنی اور ابن قطان وغیرہم نے بھی صحیح کہا ہے اور نسائی نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے کہ یہ باب ہے رفع الیدین کے چھوڑنے کی اجازت کے بیان میں اور ابن دقیق العید نے اپنی کتاب الالمام میں کہا ہے کہ عاصم بن کلیب ثقہ ہے مسلم کا راوی ہے تابعی ہے اسے ابن معین وغیرہ نے ثقہ کہا ہے اور ابن حجر نے تخریج احادیث ھدایہ میں اس حدیث کی ابن قطان اور دار قطنی سے تصحیح نقل کی ہے ۔

نیز زبیر صاحب کو بھی اس قول کے غلطی کا احساس تھا اس لیے امام ترمذی کی خود ہی استثناء کی حالانکہ اس کو یہ بھی معلوم تھا کہ نووی سے پہلے ابن حزم نے بھی اس حدیث کو صیح کہا نیز میں کہتا ہوں کہ نووی سے پہلے ابو علی طوسی متوفی 312) نے بھی اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ 

17- دارمی کا کلام اور اس کا جواب

الدارمي (متوفی 280) بـحـوالـه تهذيب السنن للحافظ ابن القيم الجوزية (ج 2 ص: 449).

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: زبیر صاحب یہ جرح نقل کرنے کے فورا بعد لکھتے ہیں: یہ حوالہ مجھے باسند صحیح نہیں ملا۔

[ نورالعینین لزبیر علی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

تو جب امام دارمی تک یہ جرح بقول آپ کے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہی نہیں تو پھر بھی جاریحین میں محض بیس کے عدد پورے کرنے کے لیے اس جرح کو شمار کرنا علم وانصاف کے خلاف ہے۔ 

کیونکہ ابن قیم نے یہ جرح دارمی سے بغیر حوالے سے نقل کی ہے ۔ دیکھیے :۔

[ تهذيب السنن مع عون المعبود ج 2 ص:318 ناشر دار الكتب العلمية]

18. بیہقی کا کلام اور اس کا جواب

للبیہقی ( متوفی 458) بحوالہ تہذیب السنن ( ج 2 ص: 459 ) وشرح المہذب للنووی( ج 3 ص: 403).

نورالعینین لزبیر علی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: زبیرصاحب یہ جرح نقل کرنے کے فورا بعد لکھتے ہیں: یہ حوالہ بھی باسند صحیح نہیں ملا.

نورالعینین لزبیر علی زئی ص:133 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

تو جب امام بیہقی تک یہ جرح بقول آپ کے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہی نہیں تو پھر بھی جاریحین میں محض بیس کے عدد پورے کرنے کے لیے اس جرح کو شکار کرنا علم وانصاف کے خلاف ہے۔

 کیونکہ ابن قیم نے یہ جرح بیہقی سے بغیر حوالے کے نقل کی ہے ۔ دیکھیے : تهـذيـب الـسـنـن مع عون المعبود ج 2 ص: 318 ناشر دار الكتب العلمية وشرح الـمـهـذب لـلـنووى (متوفی 676) ج 3 ص:403 ناشر دار الفكر]

19- محمد بن نصر مروزی کا کلام اور اس کا جواب

محمد بن نصر المروزی (متوفی 294) بحوالہ نصب الرایۃ ج 1 ص: 395 والاحکام الواسطى لعبد الحق الاشبیلی ج 1 ص: 347). 

[ نورالعینین لزبیرعلی زئی ص:134 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

جواب: نصب الرایۃ میں زیلعی نے محمد بن نصر سے اس کی کتاب رفع الیدین کے حوالے سے جرح تو نقل کی ہے لیکن جرح کی وجہ بیان نہیں کی ہے اس لیے یہ جرح بھی غیر مفسر ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

البتہ اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں: 

وقد اعتنى الإمام محمد بن نصر المروزي بتضعيف هذه اللفظة في کتاب رفع اليدين.

[ نـصـب الـرايـة لـجـمـال الدین زیلعی (متوفی 726) ج 1 ص: 395 ناشر مؤسسة الريان]

20 - ابن قدامہ کا کلام اور اس کا جواب :

ابن قدامہ المقدسی ( متوفی 620) نے کہا ضعیف (المغنی ج 1 ص: 295 مسئله 290).

[ نورالعینین لزبیرعلی زئی ص:134 ناشر مکتبہ اسلامیہ]

 جواب: ابن قدامہ نے حدیث ابن مسعود کے ضعف کی وجہ عبداللہ بن مبارک کی جرح لم يثبت حدیث ابن مسعود بتائی ہے اور دلائل کے ساتھ اس جرح کو فاسد بتا چکے ہیں لہذا یہ جرح چونکہ اس فاسد جرح پر مشتمل ہے اس لیے یہ بناءالفاسد علی الفاسد ہے۔

اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

فأما حـديثـاهـم فـضـعـيـفـان فـأمـا حديث ابن مسعود، فقال ابن المبارك: لم يثبت.

 المغني لابن قدامة (متوفی 620) ج 1 ص:358 ناشر مكتبة القاهرہ]

نصر المعبود تحقيق حديث عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ قسط نمبر3 کیلئے یہاں کلک کریں


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...