نصر المعبود تحقيق حديث عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ قسط نمبر3
نصر المعبود تحقيق حديث عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ قسط دوم کیلئے یہاں کلک کریں
حدیث ابن مسعود کے متن پر بحث
حدیث ابن مسعود میں رکوع کے رفع الیدین کی نفی
حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں : سفیان ثوری کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد کے رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے لہذا یہ روایت مجمل ہے ۔
[ نورالعینین لزبیرعلی ص:139 ناشر مکتبہ اسلامی لاہور]
جواب :
اولا : نسائی ، ترمذی اور طحاوی کی روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں پہلی دفعہ کے علاوہ اور کسی بھی مقام میں رفع الیدین نہیں ہوتی تھی تو ظاہر ہے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت بھی رفع الیدین نہیں ہوتی تھی کیونکہ اس حدیث میں تمام مقامات میں رفع الیدین کی نفی کی جار ہی سواۓ پہلی تکبیر کے تو معلوم ہو گیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت نیز دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین ہوتی تو پہلی تکبیر کی رفع الیدین کی طرح اس رفع الیدین کی بھی استثناء ہوتی لیکن جب صرف پہلی تکبیر کی رفع الیدین کی استثناء کی گئی تو واضح ہوگیا کہ پہلی تکبیر کے علاوہ اور کسی مقام پر رفع الیدین نہیں ہوئی۔
۔لہذا اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد کے رفع الیدین کا عدم ذکر نہیں بلکہ روایت میں واضح طور پر پہلی تکبیر کے علاوہ دیگر تمام مقامات میں رفع الیدین کی نفی ہے لہذا اس روایت کو مجمل سمجھنا اندھا پن ہے۔
ثانیاً: حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں۔
تمام امراض کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ کتاب وسنت اور اجماع پر سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں عمل کیا جاۓ ۔
[ دین میں تقلید کا مسئلہ لحافظ زبیر علی ص: 91 ناشر نعمان پبلیکیشنز]
عبارت کا خلاصہ یہ نکلا کہ حدیث کو بجائے اپنی فہم کے سلف صالحین کے فہم کے ساتھ سمجھنا چاہیے اب آیئے دیکھتے ہیں کہ سلف صالحین اس حدیث کا مفہوم کیا سمجھتے ہیں ۔
ملاحظہ فرمائیں:
1- ابن عبدالبر رحمہ اللہ ( متوفی 463) سے
ولـم يـروعـن أحـد مـن الصحابة ترك الرفع عند كل خفض ورفع ممن لم يختلف فيه إلا بن مسعود وحدة
2 الاستـذكـار لابـن عبـد البـر (متوفی 463) ج 1 ص:410 ناشر دار الكتب العلمية]
صحابہ میں سے کسی سے بھی ہر اونچ نیچ میں رفع الیدین کا ترک مروی نہیں ہے مگر اس سے اس کے خلاف بھی مروی ہے سواۓ عبد اللہ بن مسعود کے اس سے صرف ہر اونچ نیچ میں ترک رفع الیدین مروی ہے۔
2- زین الدین العراقی رحمہ اللہ ( متوفی 806) سے:
قال ابن عبد البر لم يرو عن أحد من الصحابة ترك الرفع عند كل خفض ورفع ممن لم يختلف عنه فيه إلا ابن مسعود وحده.
[ طرح التثريب في شرح التقريب لزين الدين العراقی (متوفی 806) ج 2 ص:255 ناشر دار احیاء التراث العربی]
ابن عبدالبر نے کہا ہے صحابہ میں سے کسی سے بھی ہر اونچ نیچ میں رفع الیدین کا ترک مروی نہیں ہے مگر اس سے اس کے خلاف بھی مروی ہے سواۓ عبد اللہ بن مسعود کے اس سے صرف ترک رفع مروی ہے ۔
3. علامہ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852) سے:
وقال بن عبدالبر كل من روى عنه ترك الرفع في الركوع والرفع منه روى عنه فعله إلّا بن مسعود.
فتح الباري لابن حجر عسقلانی (متوفی 852) ج 2 ص: 219 ناشر دار المعرفة بيروت]
ابن عبدالبر نے کہا کے کہ ہر وہ صحابی جس سے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ترک رفع الیدین منقول ہے اس سے رفع الیدن کرنا بھی منقول ہے سواۓ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے اس سے صرف رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ترک رفع الید میں منقول ہے۔
4- قاضی شوکانی غیر مقلد ( متوفی 1250) سے:
وقال ابن عبد البر : كل من روى عنه ترك الرفع في الركوع والرفع منه روى عنه فعله إلا ابن مسعود.
[ نيل الأوطـار لـمـحـمـد بن علی الشوکانی(متوفی 1250)ج 2 ص: 209 ناشر دار الحديث مصر]
ابن عبدالبر نے کہا کے کہ ہر وہ صحابی جس سے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ترک رفع الیدین منقول ہے اس سے رفع الیدین کرنا بھی منقول ہے سواۓ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ کے اس سے صرف رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سراٹھاتے وقت ترک رفع الیدین منقول ہے ۔
5.شمس الحق عظیم آبادی (متوفی 1329) سے
وقال بن عبد البر كل من روى عنه ترك الرفع في الركوع والرفع منه روى عنه فعله إلا بن مسعود.
عـون الـمعبود لشمس الحق عظیم آبادی (متوفی 1329)ج 2 ص: 289 ناشر دار الكتب العلمية]
ابن عبدالبر نے کہا کے کہ ہر وہ صحابی جس سے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ترک رفع الیدین منقول ہے اس سے رفع الیدین کرنا بھی منقول ہے سواۓ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے اس سے صرف رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سراٹھاتے وقت ترک رفع الیدین منقول ہے ۔
6 - عطاء اللہ حنیف غیر مقلد ( متوفی 1409) سے
وكل من روى عنه من الصحابة ترك الرفع فيهما روى عنه فعله إلا ابن مسعود.
[ التـعـلـيـقـات السلفية على سنن النسائي لعطاء الله حنیف (متوفی 1409) ج 2 ص: 8 نـاشـر المكتبة السلفية باكستان]
ابن عبدالبر نے کہا کے کہ ہر وہ صحابی جس سے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ترک رفع الیدین منقول ہے اس سے رفع الیدین کرنا بھی منقول ہے سواۓ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے اس سے صرف رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سراٹھاتے وقت ترک رفع الیدین منقول ہے ۔
7۔ علامہ زرقانی (متوفی 1122) سے:
وكل من روى عنه من الصحابة ترك الرفع فيهما روى عنه فعله إلا ابن مسعود. -
[ شـرح الـزرقـاني على المؤطا لمحمد بن عبد الباقی (متوفی 1122)ج 1 ص:294 ناشر مكتبة الثقافة الدينية]
ابن عبدالبر نے کہا کے کہ ہر وہ صحابی جس سے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ترک رفع الیدین منقول ہے اس سے رفع الیدن کرنا بھی منقول ہے سواۓ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کے اس سے صرف رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سراٹھاتے وقت ترک رفع الیدین منقول ہے۔
ان عبارات کا خلاصہ یہ نکلا کہ حضرت علامہ ابن عبد البر ، حضرت علامہ زین الدین عراقی ، حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی ، حضرت علامہ محمد بن عبدالباقی ، قاضی شوکانی غیر مقلد شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد عطاء اللہ حنیف غیر مقلد کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی اس حدیث سے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کی نفی سمجھ میں آ رہی ہے لہذا ہمیں بھی اس حدیث میں رکوع میں جانے اور سراٹھانے والی رفع الیدین کی نفی سمجھ میں آ رہی ہے۔
حدیث ابن مسعود میں غیر مقلدین کے مغالطے
مغالطہ نمبر1 .
حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:
اگر اس روایت کو عام تصور کیا جائے تو پھر تاریکین رفع الیدین کا خود اس روایت پر عمل نہیں
(1) وہ وتر میں تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع سے پہلے رفع الیدین کرتے ہیں
( 2 ) وہ عیدین میں تکبیر تحریمہ کے بعد رفع الیدین کرتے ہیں؟.
[ نورالعینین لزبیرعلی ص:139 ناشر مکتبہ اسلامی لاہور]
جواب: اس حدیث میں پانچوں وقت کی عام نماز کا بیان ہوا ہے لہذا اس روایت میں رفع الیدین کی نفی عام نمازوں میں ہو رہی ہے نہ کہ خاص نمازوں میں ، یہی تو وجہ ہے کہ کتب حدیث میں جب نماز وتر کا بیان ہوتا ہے تو وہاں صلاۃ کے ساتھ وتر کا ذکر ہوتا ہے کہا جاتا ہے صلاۃ الوتر اسی طرح جہاں عیدین کا بیان ہوتا ہے تو وہاں صلاۃ کے ساتھ عیدین کا ذکر ہوتا ہے کہا جا تا ہے صلاۃ العیدین بخلاف عام نمازوں کے ان میں کسی قید کا ذکر نہیں ہوتا ہے لہذا اس نفی سے عیدین اور وتر کی رفع الیدین کی نفی نہیں ہوگی ۔
مغالطہ نمبر 2 -
حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد کے رفع الیدین کا ذکر نہیں ہے ۔
امام فقیہ محدث ابوداود رحمہ اللہ علیہ نے اس ضعیف حدیث پر باب باندھا ہے باب من لم يذكر الرفع عند الركوع یعنی باب اس کا جس نے رکوع سے پہلے رفع الیدین کا ذکر نہیں کیا۔
اور یہ بات عام طلباء کو بھی معلوم ہے کہ ( ثبوت ذکر کے بعد ) عدم ذکر سے نفی ذکر لازم نہیں ہے۔
[ نورالعینین لزبیرعلی ص:139 ناشر مکتبہ اسلامی لاہور]
جواب: اگر معیار محدث کا باب باندھنا ہے تو امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے ترک ذالک یعنی یہ باب ہے رفع الیدین کے چھوڑ نے کے بیان میں اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے باب ما جاء ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ یعنی یہ باب ہے اس بیان میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ کے علاوہ اور کسی جگہ میں رفع الیدین نہیں کیا دیکھیے :
[ ترمذی مع شرح احمد محمد شاكر ج 2 ص: 40 ناشر قاهره]
رہی بات امام ابوداؤد کی تو حضرت امام ابوداؤد رحمہ اللہ خود بھی عدم ذکر سے عدم وجود پر استدلال کرتے ہیں چنانچہ امام ابوداؤد ایک مقام پر باب باندھتے ہیں بــــاب تـرک الاذان فـي الـعـيـدين
باب ہے عید کی نماز میں اذان کے چھوڑنے کے بیان میں اور آگے روایت ذکر کرتے ہیں عدم ذکر والی ۔
وہ روایت یہ ہے:
حدثنا محمد بن كثير ، أخبرنا سفيان، عن عبد الرحمن بن عابس، قال: سأل رجـل ابـن عبـاس،أشهدت العيد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم، ولولا منزلتي منه ما شهدته من الصغر ،فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم العلم الذي عند دار كثير بن الصلت فصلى، ثم خطب ولم يذكر أذانا ولا إقامة۔
[ سنن ابی داؤد لـسـلـيـمـان بـن اشعث (متوفی 275) ج 1 ص:298 ناشر المكتبة العصرية]
حضرت عبدالرحمن بن عابس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عبداللہ بن عباس سے پوچھا کہ کیا تم نے رسول اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عید کی نماز پڑھی ہے؟
انہوں نے کہا ہاں اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں میری قدر و منزلت نہ ہوتی تو میں اپنی کم عمری کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کھڑا نہیں ہوسکتا تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور اس کے بعد خطبہ دیا۔
( مگر ابن عباس نے ) اذان اور اقامت کا ذکر نہیں کیا۔
نیز سر کا مسح تین دفعہ کرنا حضرت عثمان کی روایت سے ثابت ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں:
حـمـران، قال رأيت عثمان بن عفان توضأ، فذكر نحوه، ولم يذكر المضمضة والاستنشاق، وقال فيه: ومسح رأسه ثلاثا، ثم غسل رجليه ثلاثا، ثم قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم توضأ هكذا.
[ سـنـن ابی داؤد لـسـلـيـمـان بـن اشعث (متوفی 275) ج 1 ص : 26 ناشر المكتبة العصرية]
حمران سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو وضو کرتے ہوۓ دیکھا ہے اور مذکورہ حدیث بیان کی مگر اس میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا ذکر نہیں کیا اور اس روایت میں یہ ہے کہ آپ نے سر پر تین مرتبہ مسح کیا اور پھر تین مرتبہ پاؤں دھوۓ اس کے بعد ( حضرت عثمان نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضوکرتے دیکھا ہے۔
لیکن حضرت امام ابوداؤد نے باوجود اس کے حضرت عثمان کی بعض روایات میں تثلیث سے کے عدم ذکر سے نفی پر استدلال کیا ہے ۔
چنانچہ امام ابوداؤد لکھتے ہیں :
قال أبو داود :أحاديث عثمان رضي الله عنه الصحاح كلها تدل على مسـح الـرأس أنه مرة، فإنهم ذكروا الوضوء ثلاثا،وقالوا فيها ومسح رأسه ولم يذكروا عددا كما ذكروا في غيره "
ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ وضو کے سلسلہ میں جو احادیث صحیحہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہیں وہ سب کی سب اس پر دلالت کرتی ہیں کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہے کیونکہ راویوں نے اس رایت میں اعضاء وضو کا تین مرتبہ دھونا ذکر کیا ہے مگر سر کے مسح کے بارے میں صرف اتنا کہا ہے کہ سرکا مسح کیا یعنی سر کے مسح میں کوئی عدد ذکر نہیں کیا جیسا کہ دیگر ارکان میں کیا ہے۔
حضرت عثمان کی روایت میں تثلیث مسح کے ثبوت کے بعد بعض روایات میں عدم ذکر سے امام ابوداؤد کا نفی پر استدلال کرنا یہ دلیل ہے اس بات پر کہ کسی چیز کے ثبوت کے بعد اس کے عدم ذکر سے بھی اس کی نفی سمجھی جاتی ہے لہذا زبیرعلی کا یہ کہنا کہ (ثبوت ذکر کے بعد ) عدم ذکر سے نفی ذکر لازم نہیں ہے ۔ امام ابو داؤد کے اصول کے مطابق غلط ہے ۔
اثر عبداللہ بن مسعود
حدثنا وكيع، عن مسعر ، عن أبي معشر، عن إبراهيم، عن عبد الله، أنه كان يرفع يديه في أول ما يستفتح، ثم لا يرفعهما۔
مصنف ابن ابی شیبة لعبد الله بن ابی شیبة (متوفی 235) ج 1 ص: 213 ناشر مكتبة الرشد الرياض]
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اس پہلی تکبیر میں رفع الیدین کرتے تھے جس کے ساتھ نماز شروع کرتے تھے پھر اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے۔
اعتراض نمبر1۔
حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ 32 یا 33 ہجری کو فوت ہوۓ ہیں ( تہذیب یب ض6.ص: 25) اور ابراہیم بن یزید نخعی 37 ہجری کے بعد پیدا ہوئے تھے ملاحظہ ہو( تہذیب التہذیب ج 1 ص: 155 ) لہذا یہ سند منقطع ہے۔
[ نورالعینین لز بیرعلی زئی ص:126 ناشر مکتبہ اسلامیہ]
جواب:
ابراہیم نخعی جب بھی حضرت عبداللہ بن مسعود کی کوئی روایت بغیر واسطے کے بیان کرتے تھے تو وہ روایت اس کو بہت سارے صحابہ وتابعین سے پہنچی ہوتی تھی اس لیے اس کی عبداللہ بن مسعورضی اللہ تعالی عنہ سے بغیر واسطے کے بیان کی ہوئی روایت، واسطے سے بیان کی ہوئی روایت سے زیادہ مظبوط ہے ۔
چنانچہ حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی نقل کرتے ہیں:
وقـال الأعـمـش قـلـت لإبـراهـيـم أسـنـد لى عن ابن مسعود فقال إبراهيم: إذا حـدثـتـكـم عن رجل عن عبد الله فهو الذي سمعت وإذا قلت قال عبد الله فهو عن غيرواحد عن عبد الله.
تهذيب التهذيب لابن حجر عسقلانی (متوفی 852) ج 1 ص :177 ناشر مطبعة دائرة المعارف النظامية]
جب اعمش نے ان سے کہا کہ جب آپ ابن مسعود سے مجھے حدیث سنائیں تو میرے سامنے سند بیان کرو کہ یہ حدیث آپ کو ابن مسعود سے کس نے سنائی تو ابراہیم نخعی نے کہا کہ جب میں آپ کو حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث کسی متعین شخص سے سناؤں تو سمجھ لینا کہ وہ روایت مجھ تک صرف اس راوی کے واسطے سے پہنچی ہوگی لیکن جب میں عبد اللہ بن مسعود کی روایت بغیر واسطے کے ذکر کروں تو سمجھ لینا کہ وہ حدیث مجھے عبداللہ بن مسعود سے بہت سارے لوگوں کے واسطے سے پہنچی ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ ابراہیم نخعی عبداللہ بن مسعود سے بغیر سنے روایت بیان نہیں کرتے تھے کسی جماعت سے سن کر ہی کرتے تھے لیکن روایت بیان کرتے وقت سند اس لیے بیان نہیں کرتے تھے کہ اتنے سارے استاذوں کا ایک ہی حدیث میں نام لینا مشکل ہوتا تھا لہذا ابراہیم نخعی کی روایت عبد اللہ بن مسعود سے منقطع ثابت نہیں ہوئی کیونکہ بلا واسطہ نقل نہیں کرتے ۔
اعتراض نمبر 2-
حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:
اگر کہا جائے کہ یہ روایت ابراہیم نخعی نے غیر واحد ( کئی اشخاص سے سنی ہے یا ایک جماعت سے سنی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ غیر واحد اور جماعت دونوں نامعلوم اور غیر متعین ہیں لہذا ان سے استدلال مخدوش ہے۔
[ نورالعینین لزبیرعلی زئی ص:166 ناشر مکتبہ اسلامیہ]
جواب: حافظ ابن قیم لکھتے ہیں:
ومن المعلوم أن بين إبراهيم وعبد الله أئمة ثقات لم يسم قط متهما، ولا مـجـروحـا، ولا مجهولا، فشيوخه الذين أخذ عنهم، عن عبد الله أئمة أجلاء نبلاء وكانوا كما قيل: شرح الكوفة، وكل من له ذوق في الحديث إذا قـال إبـراهيم: قال عبد الله لم يتوقف في ثبوته عنه، وإن كان غيره ممن في طبقته لو قال : قال عبد الله، لا يحصل لنا الثبث بقوله، فإبراهيم عن عبد الـلـه نظير ابن المسيب عن عمر ونظير مالک عن ابن عمر، فإن الوسائط بين هؤلاء وبيـن الـصـحابة رضي الله عنهم إذا سموهم وجدوا من أجل الناس وأوثقهم وأصدقهم، ولايسمون سواهم البتة.
[ زادالمعاد لابن القيم (متوفی 751) ج 5 ص:580 ناشر مؤسسة الرسالة بيروت]
یہ بات معلوم ہے کہ ابراہیم اور عبداللہ کے درمیان جو لوگ واسطہ ہیں وہ امام ہیں ثقہ ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی متہم یا مجروح یا مجہول نہیں پایا گیا ہے پس ابراہیم کے وہ شیوخ جن سے عبداللہ کی روایتیں نقل کی ہیں وہ حضرات بڑے بڑے جلیل القدرکوفہ کے چراغ تھے پس ہر وہ شخص جس کو حدیث کے ساتھ کچھ مناسبت ہو گی وہ شخص ابراہیم بن عبد اللہ کی روایت کے ثبوت میں توقف تک نہیں کرے گا ہاں ابراہیم کا دوسرا ہم عصر اگر عبداللہ سے اسی طرح روایت نقل کرے گا تو ہمارے نزدیک ثابت نہیں ہوگی ۔ پس ابراہیم کی روایت عبد اللہ سے اس طرح مظبوط ہوتی ہے جس طرح سعید بن المسیب کی روایت حضرت عمر سے اور امام مالک کی روایت ابن عمر سے اس لیے کہ ان حضرات اور صحابہ کرام کے درمیاں ایسے واسطے ہیں کہ جب ان کا نام ذکر ہوگا تو وہ لوگوں میں سب سے بڑے اور زیادہ مضبوط اور زیادہ سچے ہونگے ایسے لوگوں کے علاوہ بلکل نہیں ہونگے ۔
اعتراض 3 .
حافظ زبیر علی زئی گوندلوی صاحب کے حوالے سے لکھتے ہیں : لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ روایت فی نفسہ قابل حجت بھی ہوسکتی ہے کیونکہ حجت ہونا یا نہ ہونا تو اتصال وانقطاع اور صحت وضعف پر موقوف ہے یہ عبارت مرویات ابراہیم کے قابل حجت ہونے پر دال نہیں ہے۔
اولا:اس لیے کہ ممکن ہے کہ دو تین کوفی جمع ہوکر اسے حدیث سنائیں اور وہ تینوں ضعیف الحافظہ ہوں ۔
ثانیا: پتہ نہیں کہ سلسلہ اسناد عبد اللہ تک کتنے واسطوں سے پہنچتا ہے ۔ بعض اوقات تابعی اور صحابی کے درمیان دو چار بلکہ سات واسطے بھی ہوتے ہیں ان کے متعلق تحقیقات نہایت ضروری ہیں ۔
ثالثا ممکن ہے ابراہیم کے نزدیک وہ ثقہ ہوں مگر دیگر ائمہ فن کے ہاں ضعیف ہوں ۔
[والجرح مقدم على التعديل ] - تعديل مبہم مقلد کا مایہ ناز ہوسکتی ہے ایک تشنہ تحقیق کی سیرابی کے لیے نا کافی ہے ۔
ان ہی خدشات کی روشنی میں جرح وتعدیل کے ایک بہت بڑے امام نے فرمایا ہے کہ ابراہیم سے عبداللہ کی روایات ضعیف ہیں ۔
یعنی امام ذہبی کا میزان الاعتدال ج 1 ص: 35 میں ارشاد ہے:
قلت : استـقـر الأمـر عـلـى أن إبراهيم حجة، وأنه إذا أرسل عن ابن مسعود وغيره فليس ذلك بحجة . انتهى.
قال الامام الشافعي ان ابراهيم النخعي لو روى عن على و عبد الله وانه اذا ارسل عن ابن مسعود و غیره فلیس ذالک بحسن انتهی کلامه
یعنی امام شافعی نے کہا ابراہیم نخعی اگر علی اور عبد اللہ بن مسعود سے روایت کریں تو وہ قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ ابراہیم کی ان میں سے کسی ایک سے بھی ملاقات نہیں ہوئی ہے ۔
اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ امام شافعی اور امام ذہبی نے ابراہیم نخعی کی عبداللہ بن مسعود سے روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
[ نورالعینین لزبیرعلی زئی ص:167.166 ناشر مکتبہ اسلامیہ]
مراسیل ابراہیم نخعی بالاجماع صحیح ہیں
جواب: ابراہیم نخعی کی مرسل روایات خصوصا حضرت عبد اللہ بن مسعود سے، محدثین کے بالاجماع قبول ہیں ۔ جیسے کہ حضرت علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:
وأجمعوا أن مراسيل إبراهيم صحاح.
[ الاستذكار لابن عبد البر (متوفی 463) ج 6 ص :137 ناشر دار الكتب العلمية]
محدثین کا اجماع ہے کہ ابراہیم کی مرسل روایات صحیح ہیں ۔
1- حضرت علامہ ابن عبدالبر ( متوفی 463) سے
اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ اپنا فیصلہ یوں سناتے ہیں:
قال أبو عمر إلى هذا نزع من أصحابنا من زعم أن مرسل الإمام أولى مـن مـشـنـده لأن فـي هـذا الـخـبـر ما يدل على أن مراسيل إبراهيم النخعي أقـوى مـن مـسـانـيـده وهـو لـعمرى كذلك إلا أن إبراهيم ليس بعيار على غیرہ۔
[ التمهيد لابن عبد البر (متوفی 463) ج 1 ص: 37 ناشر وزارة عموم الاوقاف]
اعمش والی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم نخعی کی مرسل روایات ، اس کی مسند روایات سے زیادہ مضبوط ہیں ۔اور مجھے میری زندگی کی قسم یہی بات صیح ہے ۔
2 - امام احمد بن حنبل ( متوفی 241) سے
3 - امام بیہقی ( متوفی 458 ) سے:
وقـال أحـمـد بـن حـنبل مرسلات إبراهيم النخعي لا بأس بها وخص البيهقى ذلك بما أرسله عن ابن مسعود دون غيره.
[ جامع التحصيل للحافظ علائی (متوفی 761) ص: 88 ناشر عالم الكتب بيروت]
امام احمد بن عقیل نے فرمایا ہے کہ ابراہیم نخعی کی مرسل روایات میں کوئی خرابی نہیں ہے اور اسی طرح امام بیہقی کا بھی فرمان ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کی وہ مرسل روایات جو حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہیں ان میں تو کوئی خرابی نہیں البتہ دیگر حضرات سے اس کی مرسل روایت قبول نہیں کی جائینگی ۔
4.یحی بن معین (متوفی 233) سے:
ومـرسـلات إبـراهـيـم صـحيحة إلا حـديـث تاجر البحرين وحديث الضحك في الصلاة.
[ تاریخ یحیی بن معين برواية الدورى (متوفی 233) ج 3 ص: 206 ناشر دار احیاء التراث العربي]
ابراہیم کی مرسل روایات صحیح ہیں سواۓ تاجر البحرین اور نماز میں ہنسی والی روایت کے۔
وسمعت يحيى يقول مرسلات ابراهيم اصح من مرسلات سعيد بن المسيب والحسن۔
[ تاريخ يحى بن معين برواية الداوری (متوفی 233) ج 1 ص : 120 ناشر مجمع اللغة العربية]
یحی بن معین کہتے ہیں کہ ابراہیم کی مرسل روایات میرے نزدیک سعید بن مسیب حسن بصری کی مرسل روایات سے زیادہ پسندیدہ ہیں ۔
اور جہاں تک تعلق ہے حضرت علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی عبارت کا تو علامہ ذہبی سے اس کے خلاف بھی ثابت ہے چنانچہ حضرت لکھتے ہیں:
وإن صح الإسناد إلـى تـابـعـي متـوسـط الطبقة،كمراسيل مجاهد وإبراهيم، والشعبى. فهو مرسل جيد لا بأس به.
[ الموقظة في علم مصطلح الحديث لمحمد بن احمد بن عثمان الذهبي (متوفی 748) ص : 40 ناشر مكتبة المطبوعات الاسلامية]
اور اگر متوسط طبقہ کے تابعی تک سند صحیح ثابت ہوتی ہے جیسے مجاہد ،ابراہیم ،اورشعبی کی مرسل روایات تو یہ مرسلات عمدہ ہیں ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔ اور جہاں تک تعلق ہے امام شافعی کی عبارت کا تو امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب الام میں سر توڑ کوشش کے باوجود یہ عبارت نہیں ملی اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ زبیر صاحب نے بھی اس حوالے کی خود ذمہ داری نہیں لی ہے بلکہ گوندلوی صاحب کے کندھے پر بندوق رکھ کر گولی چلائی ہے ۔
لہذا جب تک یہ عبارت امام شافعی کی کتاب الام سے ثابت نہیں ہوتی ہے تب تک ہم پر اس عبارت کے ساتھ الزام قائم نہیں کیا جا سکتا۔ بقیہ باتیں گوندلوی صاحب اور زبیر صاحب کی محض دل بہلانے والی ہیں اس لیے ان باتوں کا جواب لکھنا فضول ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں