نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نصر المعبود تحقيق حديث عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ قسط نمبر1


نصر المعبود تحقيق حديث عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ قسط نمبر1  

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ  کی ترک رفع یدین سے متعلق حدیث مبارکہ کی سند اور متن پر ہونے والے تمام اشکالات کے مدلل جوابات اور حضرت سفیان ثوری کی تدلیس پر سیر حاصل تحقیق

تالیف مناظر اسلام مولاناعلی اکبر جلبانی صاحب
( استاذ الحدیث جامعہ انوارالعلوم مہران ٹاؤن کورنگی کراچی)

 تحقیق حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ 

حدثنا هناد، قال: حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم بن عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود : ألا أصلى بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فصلى، فلم يرفع يديه إلا في أول مرة.

 [ سنن الترمذى للامام الترمذی (متوفی (279) ج 1ص .343ناشر دار الغرب الاسلامی]

حضرت علقمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ پھر نماز پڑھی اور ہاتھوں کو نہیں اٹھا یا مگر پہلی دفعہ میں ۔

-أخبرنا سويد بن نضر،قال: أنبأنا عبد الله بن المبارك، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة عن عبد الله قال: ألا أخبركم بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فقام فرفع يديه أول مرة ثم لم يعده

۔[سنن النسائي للامام احمد بن شعيب النسائي (متوفی 303) ج 2 ص: 182 ناشر مكتب المطبوعات الاسلامية]

حضرت علقمہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟

 پھر کھڑے ہوۓ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو پہلی دفعہ میں اٹھایا پھر دوبارہ نہیں اٹھاۓ ۔ 

--حدثنا ابن أبي داود، قال: ثنا نُعيم بن حماد، قال: ثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الأسود، عن علقمة، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يرفع يديه في أول تكبيرة ثم لا يعود۔.

[ شرح معانی الاثار لابی جعفر الطحاوی(متوفی 321).ج۔1 صرف:224 ناشر عالم الکتب]

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی تکبیر میں رفع الیدین کرتے تھے پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے ۔

                 توثیق حدیث ابن مسعود

1۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ (279) سے:

حديث ابن مسعود حديث حسن.

[ سـنـن الـتـر مـذي لـلامـام الترمذی (متوفی 279) ج 1 ص:343 ناشر دارالغرب الاسلامی]

 حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث حسن ہے۔ 

فائدہ: حافظ زبیرعلی زئی لکھتے ہیں:

کتاب اللہ اور حدیث رسول حجت اور معیار حق ہیں بشرطیکہ وہ حدیث مقبول ہو یعنی

متواتر یا صحیح یا حسن ہو۔

[  نورالعینین لزبیرعلی ص:59 ناشر مکتبہ اسلامی لاہور]

فائدہ: حافظ زبیر علی صاحب لکھتے ہیں:

محدثین کرام اپنی بیان کردہ روایات کی صحت وضعف سے دوسرے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ باخبر تھے۔

امام ترمذی اس حدیث کے ناقل نے بھی اس حدیث کو حسن کہ دیا لہذا اب (غیر مقلدین کے اصول کے مطابق) غیر ناقلین کی جرح کا اعتبار نہیں ہونا چاہیے۔

[   جزء رفع الیدین مترجم لزبیرعلی ص:41 ناشر مکتبہ اسلامیہ ]

2۔ امام ابو علی طوسی ( متوفی 312) سے

عبـد الـرحـمـن بـن الأسـود عن علقمة قال قال عبد الله بن مسعود الا أصلى بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فصلى بهم فلم يرفع يديه إلا مرة وفي الباب عن البراء وحديث ابن مسعود حسن.

عبارت کا خلاصہ : ابوعلی طوسی نے کہا ہے کہ حدیث ابن مسعود حسن ہے۔ 

[   مختصرالاحكام لابي على الطوسی (متوفی 312) ج3 ص: 103 ناشر مكتبة الغرباء الاثرية]

3 - ابن حزم غیر مقلد ( متوفی 456) سے

عـن عبـد الـرحـمـن بـن الأسـود عن علقمة عن ابن مسعود قال: ألا أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم -؟ فرفع يديه في أول تكبيرة ثم لم يعد إن هذا الخبر صحيح.

 حدیث عبداللہ بن مسعود صیح ہے۔

[ الـمـحلى بالآثار لعلی بن احمد بن سعيد بن حزم(متوفی 456) ج 3 ص: 4 ناشر دارالفكر بيروت]

 4- ابن دقیق العید رحمہ اللہ (702) سے

وعـدم ثبوت الـخـبـر عـنـد ابن المبارك لا يمنع من النظر فيه، وهو يدور على عاصم بن كليب، وقد وثقه ابن معين.

 ابن مبارک کے ہاں اس حدیث کا عدم ثبوت اس حدیث پرعمل سے مانع نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کا مدار عاصم بن کلیب پر ہے اور وہ ثقہ ہے۔ 

[الالمام باحاديث الاحكام لابن دقيق العيد (متوفی 702) بحواله نصب الراية للزيلعي (متوفی 762) ج 1 ص:395 ناشر مؤسسة الريان]

5 -مغلطائی بن کلیج رحمہ اللہ (762) سے:

فعلى هذا يكون حديثاً صحيحاً.

 پس یہ حدیث عبداللہ بن مسعود صحیح ہے

[ شرح سـنـن ابـن مـاجـه لمغلطائی بن کلیج (متوفی 762) ج 1 ص:1468 ناشر مكتبة نزار مصطفى

 6. احمد محمد شاکر غیر مقلد ( متوفی 1377) سے :

وهـذا الـحـديـث صححه ابن حزم وغيره من الحفاظ وهو حديث صحيح وما قالوه في تعليله ليس بعلة.

اس حدیث کو ابن حزم اور دیگر حفاظ حدیث نے صحیح کہا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے اور وہ جو بعض لوگوں نے اس میں کوئی علت بیان کر کے ضعیف کرنے کی کوشش کی ہے وہ در حقیقت کوئی علت نہیں ۔

[ .سنن الترمذي بتحقيق احمد محمد شاکر ج2 ص: 41 ناشر مكتبة و مطبعة مصطفى البابي]

7۔ عطاءاللہ حنیف غیر مقلد ( متوفی 1409) سے

قد تكلم ناس في ثبوت هذا الحديث والقوى انه ثابت من رواية عبد الله بن مسعود.

لوگوں نے اس حدیث کے ثبوت میں کلام کیا ہے ہے لیکن مظبوط بات یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود سے ثابت ہے۔ 

[  التـعـلـيـقـات السلفية على سنن النسائي لعطاء الله حنیف (متوفی 1409) ج 2 ص:107 ناشر المكتبة السلفية باكستان]

8 - ناصر الدین البانی غیر مقلد ( متوفی 1420) سے

قلت : إسـنـاده صـحـيـح على شرط مسلم،وقال الترمذي: حديث حسـن ، وقال ابن حزم: إنه "صحيح ،وقواه ابـن دقيق العيد والزيلعي والتركماني) ...... فالحق أنه حديث صحيح.

 میں کہتا ہوں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی حدیث کی سند صحیح مسلم کے شرط پر ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے اور ابن حزم نے بھی اس کو صحیح کہا ہے اور ابن دقیق العید اور زیلعی وترکمانی نے بھی اس حدیث کو مظبوط قرار دیا ہے ۔ 

[صحیح ابی داؤد لناصر الدین البانی (متوفی 1420) ج 3 ص: 338 ناشر مؤسسة غراس الكويت]

 9- شعیب الارناؤط غیر مقلد سے

10-محمد زھیر الشاویش غیر مقلد سے:

 یہ دونوں حضرات شرح السنہ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :

حسنه الترمذی و صححه غير واحد من الحفاظ وما قالوه في تعليله ليس بعلة۔

اس حدیث کو ترمذی نے حسن قرار دیا ہے اور حفاظ میں سے بہت سارے حفاظ حدیث نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور وہ جو بعض لوگوں نے اس میں کوئی علت بیان کر کے ضعیف کرنے کی کوشش کی ہے وہ درحقیقت کوئی علت نہیں

 [  شرح السنة بتحقيق شعيب الارناؤط و محمد زهير الشاويش ج3 ص: 24 ناشر المكتب الاسلامی بیروت]

محقق ومحدث شعیب ارنووطی رحمہ اللہ غیر مقلد نہیں بلکہ حنفی ہیں اور امام صاحب کا زبردست دفاع کرتے ہیں جس کو پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں۔

 "النعمان سوشل میڈیا سروسز"

 11۔ عبدالقادر الارناؤط غیر مقلد سے :

رواه أبو داود فى الصلاة، باب من لم يذكر الرفع عند الركوع والترمذي في الصلاة، باب ما جاء أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يرفع إلا في أول مرة، والنسائي في الافتتاح، باب الرخصة في ترك الرفع عند الرفع من الركوع، وإسناده صحيح۔

عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کی سند صحیح ہے ۔

[ حاشية جامع الاصول لعبد القادر الارناؤط ج 5 ص: 301 ناشر دارالكتب العلمية]

 12-سید عبداللہ ہاشم الیمانی المدنی غیر مقلد سے :

وقد رأيـت لاحـمـد شاكر رحمه الله في تعليقه على الترمذي كلاما نفيسـا انـقـله هـنـا لـفـائـدته قال وهذا الحديث یعنی حدیث ابن مسعود صـحـحـه ابـن حـزم وغيـره مـن الحفاظ وهو حديث صحيح وماقالوه في تعليله ليس بعلة.

میں نے احمد شاکر کی ترمذی کی تعلیقات میں عمدہ کلام دیکھا ہے اس کو یہاں فائدے کے لیے نقل کرتا ہوں وہ کلام یہ ہے کہ حدیث ابن مسعود کو ابن حزم اور دیگر حفاظ حدیث نے صحیح کہا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے اور وہ جو لوگوں نے اس میں علت بیان کی ہے وہ درحقیقت علت نہیں ہے۔ 

[ حاشیہ۔ 2 حاشية الـدراية لـلـسـيـد عبـد الـله هاشم الیمانی ج 1 ص: 150 ناشر دارالمعرفة بيروت]

13- شیخ ابو محمد امین اللہ پشاوری غیر مقلد ( معاصر ) سے: 

شیخ امین اللہ پشاوری حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اسی ترک رفع الیدین والی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

واخرج النسائي ج 1 ص:158 هذا الحديث بسند صحیح۔

 اس روایت کو امام نسائی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔

[فتـاوى الـديـن الـخالص لامين الله البشاوری • معاصر) ج 4 ص : 76 ناشر معارج کتب خانه بشاور]

اور آگے لکھتے ہیں

والظاهر ان الحديث صحيح ويدل على جواز عدم الرفع احيانا كما هوالشان في السنة.

ظاہر یہی ہے کہ یہ حدیث کی ہے اور کبھی کبھار رفع الیدین نہ کرنے پر دلالت کرتی ہے۔ 

جیسے کہ سنت کا شان ہے۔ 

[ فتـاوى الـديـن الـخـالص لامين الله البشاوری * معاصر) ج 4 ص :77 ناشر معارج کتب خانه بشاور]

14- دکتور طاہر محمد دردیری غیر مقلد سے:

 دکتورطاہر محمد لکھتے ہیں:

حـديـث الـمـدونة حديث حسن لان في سنده عاصم بن كليب وهو صدوق و بقية رجاله ثقات وقد حسنه الترمذي.

مدونۃ الکبری کی حدیث حسن ہے اس لیے کہ اس کی سند میں عاصم بن کلیب ہے اور وہ صدوق ہے اور بقیہ تمام راوی ثقہ ہیں اور امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ۔ 

 [تـخـريـج الاحاديث النبوية الواردة في مدونة الامام مالک بن انس ج 1 ص : 400 ناشر مركز البحث العلمي واحیاء التراث الاسلامی]

15-مسعود احمد صاحب امیر جماعت المسلمین سے

مسعوداحمد صاحب لکھتے ہیں:

اس حدیث کی سند بےشک حسن بلکہ صحیح ہے سند میں کوئی خاص خدشہ نہیں ہے نہ سند پر کسی نے کوئی خاص جرح ہی کی ہے اس حدیث پر جو کچھ جرح ہوئی ہے بلحاظ متن ہوئی ہے۔

[ رفع الیدین فرض ہے۔ص :33 ناشر مطبوعات اسلامی حسین آبادکراچی]

☆☆.ترک رفع الیدین کے متعلق حدیث عبداللہ ابن مسعود ؓ صحیح ہے 80 سے زائد سکین حوالہ جات ، مکمل پوسٹ کیلئے یہاں کلک کریں۔ 

" النعمان سوژل میڈیا سروسز"

 سفیان ثوری طبقہ ثانیہ کا مدلس ہے

 حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:

اس روایت کا دارو مدار امام سفیان ثوری رحمہ اللہ پر ہے جیسا کہ اس کی تخریج سے ظاہر ہے سفیان ثوری ثقہ حافظ ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے دیکھیے : تقریب التہذیب

[ص: 2445]

[ نورالعینین لزبیر علی ص:134 ناشر مکتبہ اسلامی لاہور]

( کہنا یہ چاہتا ہے کہ سفیان ثوری مدلس ہے اور میں اس روایت کو ( عن کے صیغے کے ساتھ نقل کر رہا ہے اور جمہور محدثین کے ہاں قاعدہ مسلمہ ہے کہ مدلس کی معنعن روایت ضعیف ہوتی ہے ۔

 لہذا یہ روایت سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے؟ ) 

جواب:

سفیان ثوری کا مدلس ہونا بھی تسلیم ہے اور یہ جمہور محدثین کا قاعدہ بھی تسلیم ہے لیکن عرض یہ ہے کہ یہ قاعدہ عام نہیں ہے یہی تو وجہ ہے کہ وہ مدلسین جن کی وہ روایات جو بخاری ومسلم میں ہیں بقول آپ کے وہ روایات بھی صحیح ہیں اگر اس قاعدے کو عام رکھا جائے تو بخاری ومسلم کی یہ روایات ضعیف ہو جائیں گی تو جس طرح یہ قاعدہ ان مدلسین پر منطبق نہیں کیا جاتا ہے تو یہ قائد و طبقہ اولی و ثانیہ کے مدلسین پر منطبق نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ محدثین کے ہاں مدلسین کے چند طبقات میں یہ اصول طبقہ اولی اور طبقہ ثانیہ کے مدلسین کے متعلق نہیں ہے بلکہ طبقہ ثالثہ ، رابعہ اور خامسہ والوں کے متعلق ہے جبکہ سفیان ثوری جمہور محدثین کے ہاں طبقہ ثانیہ کا مدلس ہے جس کی تدلیس کو محدثین نے قبول کیا ہے اور اس کی روایت کو صیح سمجھا ہے ۔ 

البتہ محدثین کی عبارات حاضر ہیں ۔ 

1- حافظ علائی رحمہ اللہ (متوفی 761) سے:

 حافظ علائی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

بل هم على طبقات . وثانيها من احتمل الأئمة تدليسه وخرجوا له في الصحيح وإن لم يصرح بالسماع وذلك إما لإمامته أو لقلة تدليسه في جنب ما روى أو لأنه لا يدلس إلا عن ثقة وذلك كالزهري وسليمان الأعمش  وإبراهيم النخعى وإسماعيل بن أبي خالد وسليمان التيمى وحميد الطويل والحكم بن عتبة ويحيى بن أبي كثير وابن جريج والثوري.

 مدلسین کے چند طبقات ہیں .......ان میں سے دوسرے طبقے کے وہ مدلسین ہیں جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور ان کی معنعن روایات کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے اگرچہ یہ لوگ سماع کی تصریح نہ بھی کریں وہ ان کی امامت کی وجہ سے یا ان کی کم تدلیس کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ وہ ثقہ کے علاوہ سے تدلیس نہیں کرتے اس کی مثال جیسے امام زھری سلیمان الأعمش ....... اورسفیان ثوری

[ جـامـع التحصيل في احكام المراسيل لحافظ خليل بن كيكلدي الدمشقي العلائی (المتوفی 761)ص 113. ناشر عالم الكتب بيروت]

2- حافظ ابوزرعہ رحمہ اللہ (متوفی 826) سے: 

حافظ ابوزرعہ عراقی رحمہ اللہ بھی حافظ علائی رحمہ اللہ کے اس قول پر اعتمادکرتے ہوۓ لکھتے ہیں:

قال الحافظ صلاح الدين العلائی: ......وثانيها: من احتمل الأئمة تدليسـه وخـرجـوا لـه في الصحيح وإن لم يصرح بالسماع، وذلك إما لإمـامتـه أو لـقـلـة تـدليـسـه فـي جنب ما روى، أو لأنه لا يدلس إلا عن ثقة، وذلك كالزهري وسليمان الأعمش وإبراهيم النخعي وإسماعيل بن أبي خـالـد وسليمان التيمي وحميد الطويل والحكم بن عتيبة ويحيى بن أبي كثير وابن جريج والثورى.

حافظ علائی نے کہا ہے مدلسین کے چند طبقات ہیں ..........ان میں سے دوسرے طبقے کے وہ مدلسین ہیں جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور ان کی معنعن روایات کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے اگرچہ یہ لوگ سماع کی تصریح نہ بھی کریں وہ ان کی امامت کی وجہ سے یا ان کی کم تدلیس کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ وہ ثقہ کے علاوہ سے تدلیس نہیں کرتے اس کی مثال جیسے امام زھری سلیمان الأعمش .......اورسفیان ثوری

[2 المدلسين لابي زرعة العراقي( المتوفی 826)ناشر دار الوفاء بيروت]

 3- سبط ابن عجمی رحمہ اللہ (متوفی 841) سے

 علامہ سبط ابن عجمی بھی حافظ علائی رحمہ اللہ کے اس قول پر اعتماد کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

ثـم اعـلـم أيهـا الواقف على هؤلاء انهم ليسوا على حد واحد بحيث يتوقف في كل ما قال فيه كل واحد منهم عن أو قال أو ان أو بغير أداة ولم يصرح بالسماع بل هم طبقات .........قال الحافظ العلائي: ثانيها - مـن احـتـمـل الائمة تدليسه وخرجوا له في الصحيح وان لم يـصـرح بـالـسـماع وذلك اما لامامته أو لقلة تدليسه في جنب ما روى أو لانه لا يـدلـس الا عـن ثقة وذلك كالزهرى وسليمان الاعمش وإبراهيم النخعي وإسماعيل بن أبي خالد وسليمان التيمى وحميد الطويل والحكم بن عتيبة ويحيى بن أبي كثير وابن جريج والثورى۔

 ان مدلسین پر واقف ہونے والے جان لو کہ تمام مدلسین ایک جیسے نہیں ہیں کہ اگر یہ لوگ عن یا قال یا ان یا بغیر کسی حرف کے کوئی روایت نقل کریں اور اس میں سماع کی تصریح نہ کریں تو وہ روایت واجب التوقف ہو ( یعنی غیر مقبول ہو بلکہ ان کے طبقات ہیں جیسے کہ حافظ علائی نے کہا ہے مدلسین کے چند طبقات ہیں۔.........ان میں سے دوسرے طبقے کے وہ مدلسین ہیں جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور ان کی معنعن روایات کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے اگر چہ یہ لوگ سماع کی تصریح نہ بھی کریں وہ ان کی امامت کی وجہ سے یا ان کی کم تدلیس کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ وہ ثقہ کے علاوہ سے تدلیس نہیں کرتے اس کی مثال جیسے امام زھری سلیمان الأمش .....اورسفیان ثوری

[ التبیین فی اسمإ المدلسین لسبط ابن العجمی (المتوفی 841)ص : 65 ناشر دارالکتب العلمیہ بیروت]

4 - علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (متوفی 852) سے:

 حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

الثـانيـة مـن احـتـمـل الائـمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثورى.

مدلسین کا دوسرا طبقہ وہ ہے جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور اس کی حدیث کو صیح میں نکالا ہیاس کی امامت یا کم تدلیس کی وجہ سے جیسے ثوری۔

[حاشیہ۔ 1 طبـقـات الـمـدلـسـيـن لابـن حجر عسقلانی (المتوفی 852)ص: 13 ناشر مكتبة الـمـنـار -عمان]

 5- محمد بن اسماعیل الامیرالیمانی (متوفی 1182) سے:

 امیر یمانی غیر مقلد لکھتے ہیں:

وقـد قـال الـحـافـظ ابـن حـجـر المدلسون الذين خرج حديثهم الـصـحـيـحـيـن ليسـوا فـي مـرتبة واحدة في ذلک بل هم على مراتب : الأولى: مـن لـم يـوصف بذلك إلا نـادرا وغـالـب روايـاتهـم مـصـرحة بالسماع...... الثانية : من أكثر الأئمة من أخراج حديثه إما لأمانته أو لكونه قـلـيـل التـدليس في جنب ما روى من الحديث الكثير أو أنه كان لا يدلس إلا عن ثقة. فمن هذا الضرب. .....قال و سفيان الثوري.

عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ ابن حجر عسقلانی نے سفیان ثوری کو طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے۔

[ تـوضيـح الافـكـار لامير اليماني (متوفی 1182) ج 1 ص:328 ناشردار الكتب العلمية]

6-عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد ( متوفی 1335)سے 

عبدالرحمن مبارکپوری غیر مقلد بھی علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے اس قول پر اعتماد کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:

والخلاصة قـلـت قـال الـحـافـظ في طبقات المدلسين وهم أي الـمـدلـسـون عـلـى مـراتـب الثانية من إحتمل الأئمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لإمامته وقلة تدليسه في جنب ما روی کالثوری أو كان لا يدلس إلا عن ثقة كابن عيينة۔

خلاصہ یہ ہے کہ میں کہتا ہوں کہ حافظ طبقات المدلسین میں فرماتے ہیں کہ مدلسین کے چند طبقات ہیں ان میں سے مدلسین کا دوسرا طبقہ وہ ہے جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور اس کی حدیث کو صیح میں نکالا ہے اس کی امامت یا کم تدلیس کی وجہ سے جیسے ثوری۔

[ تحفة الأحوذي لعبدالرحمان مبارکفوری المتوفی 1335) ج 1 ص : 32 ناشر دار الكتب العلمية بيروت]

7- محمد صاحب گوندلوی غیر مقلد ( متوفی1405)سے:

 غیر مقلدین کے رئیس المحمدثین قدوة الصالحین استاذ الاساتذہ اور زبیرعلی زئی کے استاذوں کے استاذ حافظ محمد صاحب گوندلوی جس کے متعلق شیخ البانی نے کہا:[ مـار ایـت تحت اديم السماء اعلم من الحافظ المحدث الجوندلوی]

 (مقدمه مقالات محدث گوندلوی ص: 31) وہ اپنی تایید میں آنے والی ایک روایت کے متعلق لکھتے ہیں :

 سوال: اس کی سند میں سفیان ہے جو مدلس ہے؟

جواب: سفیان دوسرے طبقے کا مدلس ہے طبقات المدلسین ص: 9 ۔

 دوسرے طبقے کے متعلق حافظ ابن حجر نے لکھا ہے ائمہ حدیث نے ان کی تدلیس برداشت کی ہے اور ان کی حدیث صحیح سمجھی ہے کیونکہ یہ لوگ امام تھے اور تدلیس کم کرتے تھے جیسے امام ثوری ہیں۔

 خیر الکلام محمد گوندلوی ص :214 ناشر مکتبہ نعمانیہ

 8- محب اللہ شاہ راشدی غیر مقلد ( متوفی 1415) سے : 

غیر مقلدین کے محدث العصر محب اللہ شاہ راشدی زبیر علی زئی کے استاذ جس کے متعلق زبیر علی زئی یہ القاب لکھتے ہیں : [ كـان فـريـد عـصـره وقيع دهـره ونسيج وحــده و امـام وقتــه]

 ( دیکھیے تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات ج 2 ص : 494 ناشر مکتبہ اسلامیہ میں لکھتے ہیں:

محترم دوست ( زبیرعلی زئی ) ابتداء میں (میرے متعلق تحریر فرماتے ہیں: 

اور پھر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی کتاب طبقات المدلسین سے ثابت کیا کہ امام سفیان ثوری اور امام سلیمان بن مہران الاعمش مرتبہ ثانیہ کے مدلسین ہیں جن کا عنعنہ بھی قابل قبول ہے۔ 

حالانکہ یہ بات نہیں ۔امام سفیان ثوری کے متعلق تو بلا شبہ میں نے لکھا ہے کہ چونکہ میں طبقات المدلسین مؤلف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ میں یہ مرتبہ ثانیہ میں مذکور ہے ۔ لہذا اس کا عنعنہ مقبول ہے۔

[مقالات راشدیہ لمحب اللہ شاہ راشدی ج1 ص: 305 ناشر نعمانی کتب خانہ لاہور]

 فائدہ: ماجری یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر جوتے پہننے سے منع فرمایا اس روایت کی سند میں سفیان ثوری واقع ہیں اور وہ اپنے استاذ عبداللہ بن دینار سے اس روایت کو عن کے ساتھ نقل کرتے ہیں تو باوجود اس کے اس روایت کو شارجہ کے ایک عالم شیخ عبدالرؤف نے صحیح قرار دیا تو کراچی کے ایک غیر مقلد عالم ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی نے اس حدیث کو ضعیف لکھا تو غیر مقلدین کے اس محدث العصر محب اللہ راشدی نے دامانوی کا رد لکھا اور اس حدیث کو سچ ثابت کیا پھر زبیر علی زئی نے اپنے استاد محب اللہ شاہ کا رد لکھا کہ یہ روایت سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے تو محب اللہ شاہ نے اپنے شاگرد زبیر علی زئی کے رد میں یہ مذکورہ بالا عبارت لکھی ہے جو ہم نے اوپر نقل کی ہے ۔ 

9- بدیع الدین شاہ غیر مقلد ( متوفی 1416) سے:

 غیر مقلدین کے شیخ العرب والعجم بقول ثناء اللہ امرتسری امام الجرح والتعد میں [دیکھیے : مقدمہ خطبات راشدیہ از عبد اللہ ناصر رحمانی]

 شاہ بدیع الدین شاہ راشدی اپنی تایید میں آنے والی ایک روایت کے متعلق کہتے ہیں: 

اگر کوئی کہے کہ اس کی سند میں سفیان ثوری واقع ہیں اور وہ مدلس ہیں تو اس کا جواب

دوطرح سے ہے: اولاً یہ کہ سفیان ثوری طبقہ اولی کے مدلسین میں سے ہیں اور بقاعدہ محدثین ان کی تدلیس مقبول ہوگی چاہے سماع کی تصریح نہ بھی کریں ملاحظہ ہو طبقات المدلسین لابن حجر.

[ خطبات راشدیہ لبدیع الدین شاہ راشدی ص : 22 ناشر جمعیت اہل حدیث سندھ]

اور یہی موصوف اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

 سوال: سفیان ثوری مدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے؟

 جواب: اولا : اس کی عنعن بوجہ مرتبہ ثانیہ ہونے کے معتبر ہے قال ابن حجر فی طبقات المدلسین ص:2.

[ نشـاط الـعبـد بجهر ربنا ولك الحمد لبدیع الدین شاہ راشدی ص :18 ناشر مكتبه دعوة السلفية]

10- شیخ حمادالانصاری( متوفی 1418) سے: 

بلا دعرب کے شیخ حماد الانصاری لکھتے ہیں:

ثـانـيـا مـن احـتـمـل الأئـمـة تـدليـسـه وخرجوا له في الصحيح وإن لم يصرح بالسماع وذلك لـواحـد مـن أسباب ثلاثة:إما لإمامته وإما لقلة تدليسـه فـي جـنـب مـا روى وإمـا لأنـه لا يـدلـس إلا عن ثقة، كالزهرى وسـلـيـمـان الأعـمـش وإبراهيم النخعي وإسماعيل بن أبي خالد وسليمان التيمى وحميد الطويل والحكم بن عتيبة ويحى بن أبي كثير وابن جريح والثورى.

مدلسین کا دوسرا طبقہ وہ ہے جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور اس کی حدیث کو صحیح میں نکالا ہے اگرچہ دو سماع کی تصریح نہ بھی کریں یہ ان کی امامت یا قلت تدلیس یا اس وجہ سے کہ وہ ثقہ کے علاوہ سے تدلیس نہیں کر تے جیسے زھری... اورثوری

[التدليس والمدلسون للشيخ حماد بن محمد الانصاري (المتوفی 1418) ج 2 ص: 94 نـاشـر مـجـلـة الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة]

 11- ناصرالدین البانی غیر مقلد ( متوفی 1420) سے: 

شیخ ناصر الدین البانی بھی علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے اس قول پر اعتماد کرتے ہوۓ لکھتے ہیں:

زكـريـا بـن أبـي زائـدة قـلت وهو ثقة، ولكنه كان يدلس،وقد عنعنه عندهم جميعا إلـكـنـه يبدو أنه قليل التدليس،ولذلك أورده الحافظ في الـمـرتبة الثانية مـن رسالته طبقات المدلسين وهي المرتبة التي يورد فيها مـن احـتـمـل الأئـمـة تـدليسه، أخرجوا له في "الصحيح" لإمـامتـه وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوری.

میں کہتا ہوں کہ زکریا بن ابی زائدہ ثقہ ہے لیکن مدلس ہے اور اس نے یہ روایت معنعن نقل کی ہے لیکن ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ کم تدلیس کرتا ہے اس لیے حافظ نے اس کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ہے اور وہ وہ طبقہ ہے جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور اس کی حدیث کو صحیح میں نکالا ہیاس کی امامت یا کم تدلیس کی وجہ سے جیسے ثوری۔ 

[سلسلة الأحاديث الصحيحة لناصر الدین البانی (متوفی 1420) ج 4 ص: 209 ناشر مكتبة المعارف-الرياض]

12- شیخ عثیمین ( متوفی 1421) سے:

بلاد عرب کے شیخ محمد بن صالح عثیمین حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی پر اعتماد کر تے ہوۓ لکھتے ہیں:

وقد رتبهم الحافظ إلى خمس مراتب : . الثانية -من احتمل الأئـمـة تـدليسه، وأخرجوا له في "الصحيح"؛ لإمـامتـه، وقلة تدليسه في جنب ما روی؛ کسفیان الثورى۔

حافظ ابن حجر نے مدلسین کو پانچ طبقات میں مرتب کیا ہے ( فرماتے ہیں ) مدلسین کا دوسراطبقہ وہ ہے جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور اس کی حدیث کو صیح میں نکالا ہے اس کی امامت یا کم تدلیس کی وجہ سے جیسے سفیان ثوری۔ 

[مـصـطـلـح الـحـديـث لـمـحـمـد بـن صـالح العثمين (المتوفی 1421)ص:15 ناشر مكتبة العلم القاهره]

13۔ شیخ مسفر بن غرم اللہ سے

بلاد عرب کے شیخ مسفر بن غرم اللہ الدمینی لکھتے ہیں:

(سـفـيـان الثـورى وقـد جعله الحافظ في المرتبة الثانية لامامته وقلة تدلیسه و تخریج حديثه في الصحيحين.

سفیان ثوری کو حافظ ابن حجر نے اس کی امامت اور قلت تدلیس اور اس کی حدیث صحیحین میں ہونے کی وجہ سے طبقہ ثانیہ میں شمار کیا ہے ۔

[تدليس في الحديث للشيخ مسفر بن غرم الله ص : 266]

 14- یحیی گوندلوی ( متوفی 2009 ع ) غیر مقلد سے :

 یحی گوندلوی لکھتے ہیں: حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:

سـفـيـان الثوري الامـام الـمشهور الفقيه العابد الحافظ الكبيروصفه النسائي وغيره بالتدليس وقال البخاري ما اقل تدليسه.

امام سفیان ثوری مشہور امام فقیہ عابد اور بہت بڑے حافظ تھے۔امام نسائی وغیرہ نے ان کو مدلس کہا اور امام بخاری نے فرمایا ان کی تدلیس بہت کم ہے ۔

حافظ ابن حجر نے مدلسین کو پانچ طبقوں میں تقسیم کیا ہے اور امام ثوری کو دوسرے طبقے میں شمار کیا

ہے، دیکھیے

[ طبقات المدلسين ص :32] 

اور دوسرے طبقے کی خود ہی وضاحت فرمادی:

الثـانيـة مـن احـتـمـل الأئـمـة تـدليسه، وأخرجوا له في "الصحيح"؛ لإمـامتـه، وقلة تدليسه في جنب ما روى؛ كسفيان الثورى او كان لا يدلس الا عن ثقة كابن عيينة.

دوسرا طبقہ جن کی تدلیس کو ائمہ نے قبول کیا ہے ان کی امامت اور قلت تدلیس کی وجہ سے صحیح میں احادیث لی ہیں جیسا کہ ثوری تھے یا پھر اس طبقے میں ایسے راوی ہیں جو صرف ثقہ راویوں سے تدلیس کرتے تھے جیسا کہ امام ابن عیینہ حافظ ابن حجر کی اس اصولی تحریر سے واضح ہو گیا ہے کہ اگرچہ امام ثوری مدلس تھے مگر ان کی تدلیس مضر نہیں جو حدیث کی صحت پر اثر انداز ہو اور حدیث کو تدلیس کی وجہ سے رد کر دیا جاۓ ۔

[خیر البراہين في الجهر بالتامین لیحیی گوندلوی ص 26.25]

 15- شیخ ابو محمد امین اللہ پشاوری غیر مقلد ( معاصر ) سے: 

غیر مقلدین کے شیخ الحدیث امین اللہ پشاوری حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترک رفع الیدین والی روایت پر ناقدین کی طرف سے یہ اعتراض ( کہ سفیان ثوری مدلس ہے اور یہاں وہ اس روایت کو عن کے ساتھ بیان کر رہے ہیں) نقل کر کے ناقدین کا یوں رد کرتے ہیں:

اجيـب عـنـه بان سفيان ممن يقبل تدليسه كما ذكر ذالک ابن حجر والـمـبـار كـفـورى . ...... والـمـدلـسـون على خمس مراتب : المرتبة ... الـمـرتبة الثانية من احتمل الائمة تدليسه واخرجوا له الاولى في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ماروی کالثوری.

 اس اعتراض کا جواب یہ دیا جاۓ گا کہ سفیان ان مدلسین میں سے ہے جس کی تدلیس کو قبول کیا جاتا ہے جیسے کہ ابن حجر اور مبارکپوری نے ذکر کیا ہے .......( ابن حجر نے کہا ہے کہ مدلسین کے پانچ طبقات ہیں ان میں دوسرا طبقہ ان مدلسین کا ہے جن کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا ہے اور اس کی روایت کو اپنی صحیح میں لایا ہے ان کی امامت اور کم تدلیس کی وجہ سے اس کی مثال ہے سفیان ثوری ۔

[ فتاوی الدین الخالص لامين الله البشاوری * معاصر) ج 4 ص: 77 ناشر معارج كتب خانه بشاور]

 16- شیخ ابو فوزان کفایت اللہ سنابلی غیر مقلد سے :

 شیخ ابوفوزان کفایت اللہ سنابلی لکھتے ہیں:

 حافظ ابن حجر ( متوفی 852) نے کہا:

الثـانيـة مـن احـتـمـل الأئـمـة تـدليـسـه، وأخرجوا له في "الصحيح"؛ لإمامته، وقلة تدليسه في جنب ما روی؛ کسفیان الثورى.

دوسرا طبقہ مدلسین کا جن کی تدلیس کو محدثین نے برداشت کیا ہے اوران کی احادیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ان کی امامت اور ان کی مرویات میں قلت تدلیس کی وجہ سے، جیسے امام ثوری ہیں ۔

[ .نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں لکفایت اللہ سنابلی ص: 337 ناشر مکتبہ بیت السلام لاہور]

ایک فائدہ عظیمہ:

اس کتاب پر علمائے اہل حدیث پاک و ہند میں سے 15 علماء کی تقریظات موجود ہیں جنہوں نے اس کتاب کی تائید و توثیق کی ہے ان پندرہ اہل علم کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں: 

تقریظات علمائے پاکستان

1۔فضیلۃ الشیخ ارشادالحق اثری

2-فضیلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف 

3-فضیلۃ الشیخ مولانا مبشر ربانی

4 ۔فضیلۃ الشیخ حافظ ابتسام الہی ظہیر

5-فضیلۃ الشیخ مولانا داؤد ارشد

6۔فضیلۃ الشیخ مولانا محمد رفیق طاہر

تقریظات علمائے ہند

7۔فضیلۃ الشیخ مولاناعبدالمعید مدنی

8-فضیلۃ الشیخ مولانا صلاح الدین مقبول احمد مدنی 

9۔فضیلۃ الشیخ مولانا رضاء اللہ عبدالکریم مدنی

 10-فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالسلام سلفی

11-فضیلۃ الشیخ مولانا محفوظ الرحمن فیضی

12-فضیلۃ الشیخ مولانا شعبان بیدارصفوائی

13-فضیلۃ الشیخ مولانا سرفراز فیضی 

14 - فضیلہ الشیخ نصیر احمد رحمانی 

15-فضیلۃ الشیخ ابوزید ضمیر ۔ دیکھیے.

[ فہرست نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں لکفایت اللہ سنابلی ص:8.7 ناشر مکتبہ بیت السلام لاہور]

گویا کہ مذکورہ بالا پندرہ علماء اور مصنف سمیت (16.سولہ ) اہل علم اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ سفیان ثوری طبقہ ثانی کا مدلس ہے اور اس کی تدلیس مقبول ہے۔ 

سفیان کی معنعن روایت بقول محدثین مقبول ہے۔ 

1- علامہ ابن حزم غیر مقلد ( متوفی 456) سے:

 علامہ ابن حزم غیر مقلد لکھتے ہیں :

وأمـا الـمـدلـس فينقسم إلى قسمين أحدهما حافظ عدل ربما أرسل حـديثـه وربـمـا أسـنـده وربـمـا حدث به على سبيل المذاكرة أو الفتيا أو المناظرة فلم يذكر له سندا وربما اقتصر على ذكر بعض رواته دون بعض فهـذا لا يـضـر ذلك سائر رواياته شيئا لأن هذا ليس جرحة ولا غفلة...... وسـواء قـال أخبرنا فلان أو قال عن فلان أو قال فلان عن فلان کل ذلک واجـب قـبـولـه مـا لم يتيقن أنه أورد حديثا بعينه إيرادا غير مسند...... وهذا الـنـوع مـنـهـم كـان جـلـة أصـحـاب الحديث وأئمة المسلمين كالحسن البـصـرى وأبى إسـحـاق السبيعي وقتادة بن دعامة وعمرو بن دينـار وسليمان الأعمش وأبي الزبير وسفيان الثوري وسفيان بن عيينة.

مدلس راوی کی دو قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم ان مدلسین کی ہے جو حافظ اور عادل ہوتا ہے کبھی روایت کو مرسلا نقل کرتا ہے کبھی سندا اور کبھی بطور مذاکرہ کے اس کو بیان کرتا ہے کبھی بطورفتوی کے اور کبھی بطور مناظرے کے اور کبھی روایت کے بعض راویوں کو ذکر کرتا ہے سوائے بعض کے یہ چیز اس مدلس کے تمام روایات کو کوئی نقصان نہیں دے گی کیونکہ یہ جرح ہی نہیں ہے برابر ہے کہ وہ اخبرنا کہے یا عن فلان کہے ہر حال میں اس کی حدیث کو قبول کرنا واجب ہے جبتک یہ یقین نہ ہو جاۓ کہ اس نے فلاں روایت بغیر سند کے نقل کی ہے... اور اس قسم کے بڑے بڑے محدثین اور ائمہ گذرے ہیں جیسے حسن بصری .. سفیان ثوری ۔ 

[الاحـكـام فـي اصـول الاحكام لابن حزم( المتوفی 456) ج 1 ص : 141 ناشر دار الآفاق الجديده بيروت]

۲- علامہ سخاوی رحمہ اللہ (متوفی 902) سے: 

حضرت علامہ سخاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

ومـا أشار إليه شيـخـنـا من إطلاق تخريج أصحاب الصحيح لطائفة منهم، حيث جـعـل منهـم قسـما احتمل الأئمة تدليسه، وخرجوا له في الصحيح لإمامته، وقلة تدليسه في جنب ما روی کالثوری۔

 ہمارے شیخ نے مدلسین کی ایک ایسی قسم بتائی ہے جن کی تدلیس کوائمہ نے برداشت کیا ہے اور اس کی حدیث کو صحیح میں نکالا ہے اس کی امامت اور قلت تدلیس کی وجہ سے جیسے سفیان ثوری ۔

[ فتح المغيث للسخاوى (متوفی 902) ج 1 ص : 233 ناشر مكتب السنة -مصر]

3- شیخ طاہرالجزائری ( متوفی 1338) سے:

 شیخ طاہرالجزائری بھی ابن حزم کے گذشتہ قول پر اعتماد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

وقـد تـعـرض ابـن حـزم لذكر التدليس في كتاب الإحكام فقال في فصل من يلزم قبول نقله الأخبار وأما المدلس فينقسم قسمين أحـدهما حافظ عدل ربما أرسل حديثه وربما أسنده وربما حدث به على سبيل المذاكرة أو الفتيا أو المناظرة فلم يذكر له سندا وربما اقتصر على ذكر بعض رواته دون بعض فهذا لا يضر ساير رواياته شيئا لأن هذا ليس جرحة ولا غفلة ......... وسواء قال أخبرنا فلان أو قال عن فلان أو قال فلان عن فلان كل ذلك واجب قبوله ما لم يتيقن أنه أورد حديثا بعينه إيرادا غيـر مـشـنـد ......... وهذا النوع منه كان جلة أصحاب الحديث وأئـمـة الـمـسـلـمـيـن كـالـحسن البصري وأبي إسحاق السبيعي وقتادة بن دعامة وعمرو بن دينار وسليمان الأعمش وأبي الزبير وسفيان الثوري.

 ابن حزم نے اپنی کتاب الاحکام میں کہا ہے مدلس راوی کی دوقسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم ان مدلسین کی ہے جو حافظ اور عادل ہوتا ہے کبھی روایت کو مرسلا نقل کرتا ہے کبھی سندا اور کبھی بطور مذاکرہ کے اس کو بیان کرتا ہے کبھی بطورفتوی کے اور کبھی بطور مناظرے کے اور کبھی روایت کے بعض راویوں کو ذکر کرتا ہے سواۓ بعض کے یہ چیز اس مدلس کے تمام روایات کو کوئی نقصان نہیں دے گی کیونکہ یہ جرح ہی نہیں ہے برابر ہے کہ وہ اخبرنا کہے یا عن فلان کہے ہر حال میں اس کی حدیث کو قبول کرنا واجب ہے جبتک یہ یقین نہ ہو جاۓ کہ اس نے فلاں روایت بغیر سند کے نقل کی ہے .......  اور اس قسم کے بڑے بڑے محدثین اور ائمہ گذرے ہیں جیسے حسن بصری ... سفیان ثوری۔

[تـوجيـه الـنـظر الى اصول اهل الاثر لطاهر بن صالح الجزائري( المتوفی 1338) ج 2 ص : 572 ناشر مكتبة المطبوعات الاسلامية -حلب]

سفیان ثوری کی معنعن روایات صحیح ہیں

1ابوزرعہ رازی (متوفی 264) سے:

 -2 ابوحاتم محمد بن ادریس الرازی ( متوفی 277 ) سے

 أبي وأبا زرعة عـن حـديـث رواه عـمـر بن شبيب ،عن عبد الله بن عيسى، عن حفص وعبيدالله ابني أخى سالم ابن أبي الجعد،عن سالم، عن ثوبان، عـن النبي (ص) قال: الصدقة تدفع ميتة الشوء قالا : هذا خطأ؛ رواه سفيان الثوري ، عن عبد الله بن عيسى، عن عبد الله بن أبي الجعد، عن ثوبان؛ وهو الصحيح.

عبارت کا خلاصہ یہ دونوں حضرات ابو حاتم وابو زرعة سفیان ثوری کی مذکورہ بالا معنعن روایت کو صیح کہہ رہے ہیں ۔

[ عـلـل الـحـديـث لابـن ابـي حـاتـم (المتوفی 327) ج 2 ص:592 ناشر مطابع الحميضي]

 3امام دارقطنی ( متوفی385 ) سے:

وروى بـعـض هـذا الـحـديـث سفيان الثوري، عن داود بن أبي هند وجـابـر، عـن الشعبي، عن جابر : أن النبى صـلـى الـلـه عليه وسلم، قال للأنصار، وهو الصحيح.

عبارت کا خلاصہ : امام دارقطنی ، سفیان ثوری کی مذکورہ بالامتنعن روایت کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔

[حاشیہ۔2 الـعـلـل الـوارده في الاحاديث النبوية لدار قطنی (المتوفی 385) ج 6 ص: 191 ناشر دار طيبة]

-4 امام حاکم (متوفی 405) سے

أخبرنا أبو بكر بن أبي دارم الحافظ، بالكوفة، ثنا محمد بن عثمان بـن مـحـمـد العبسي، ثنا أبي، ثنا زيد بن الحباب، ثنا سفيان الثوري، عن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جابر رضي الله عنهم، قال: حج النبي صلى الله عليه وسلم حجتين قبل أن يهاجر يعني وحج بعدما هاجر - حجة قرن معها عمرة هذا حديث صحيح.

عبارت کا خلاصہ :امام حاکم ،سفیان ثوری کی مذکورہ بالامعنعن روایت کو صحیح قرار دے رہے ہیں ۔

 مستدرک حـاكـم لابی عبد الله الحاكم (المتوفی 405) ج 1 ص : 642 ناشر دار الكتب العلمية بيروت]

5- امام نووی رحمہ اللہ (متوفی 676 ) سے:

وروى ابـن أبي حاتم بإسناده الصحيح عن سفيان الثورى،عن عمرو بن سعيد، عن أمه، قالت : قدم علينا ابن عمر مكة، فسألوه.

عبارت کا خلاصہ: امام نووی سفیان ثوری کی اس معنعن حدیث کو صیح قرار دے رہے ہیں۔ 

تهـذيـب الاسـمـاء واللغات للنووى( المتوفی 626) ج 1 ص: 133 ناشر دار الكتب العلمية بيروت]

-6 حضرت علامہ ابن تیمیہ متوفی 728) سے

وقد روى البيهقى بإسناد صحيح في باب كراهية الدخول على الـمـشـركـيـن يـوم عيـدهـم فـي كنائسهم؛ والتشبه بهم يوم نيروزهم ومهرجانهم عن سفيان الثوري عن ثور بن يزيد عن عطاء بن دينار قال: قال عمر بن الخطاب -رضي الله عنه لا تعلموا رطانة الأعاجم ولا تدخلوا على المشركين في كنائسهم يوم عيدهم فإن الشخط ينزل عليهم .

عبارت کا خلاصہ: ابن تیمیہ سفیان ثوری کی اس معنعن حدیث کو صیح قرار دے رہے ہیں ۔

[ مـجـمـوع الـفـتـاوى لابـن تـيـمـيـه الـمـتـوفی 728) ج 25 ص : 325 ناشر مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية]

 7حضرت علامہ ذہبی رحمہ اللہ (متوفی 748) سے

 حدثنا أبو العباس،حدثنا العباس بن محمد،حدثنا الأسود بن عـامـر ، أنبأ سفيان الثوري، عن وائل بن داود، عن سعيد بن عمير، عن عمه قال: شـيـل رسـول الله صلى الله عليه وسلم أي الكسب أفضل؟ قال: كسب مبرور هذا حديث صحيح الإسناده.

(التعليق -من تلخيص الذهبي) صحیح

عبارت خلاصۃ : حضرت علامہ ذہبی سفیان ثوری کی اس معنعن حدیث کو صحیح قرار دے رہے ہیں۔

[ مستدرک حـاكـم لابـي عبـد الله الحاكم (المتوفی 405)ج 2 ص: 12 ناشردار الكتب العلمية بيروت]

-8حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852) سے:

قـال عـبـد الـرزاق عـن الثـورى عـن زياد بن علاقة عن بشر بن قيس، قال: كنا عند عمر في رمضان فأفطرنا ثم ظهر أن الشمس لم تغرب فقال عمر:من أفطر فليقض يوما مكانه، إسناده صحيح. 

 عبارت کا خلاصہ: حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی سفیان ثوری کی اس معنعن حد یث کو صحیح قرار دے رہے ہیں ۔ 

 [الاصابة في تمييز الصحابة لابن حجر عسقلانی (متوفی 852) ج 1 ص:470 ناشر دار الكتب العلمية]

-9 علامہ محمد بن احمد قسطلانی ( متوفی 923) سے:

وقـال عبـد الـرزاق عن سفيان الثوري عن سلمة بن كهيل قال: حلف طاوس،مـا طـاف أحـد مـن أصـحـاب النبي صلى الله عليه وسلم لحجته وعمرته إلا طوافا واحدا. قال الحافظ ابن حجر:وهذا إسناد صحيح. 

عبارت کا خلاصہ: حضرت علامہ قسطلانی رحمہ اللہ، علامہ ابن حجر کے حوالے سے سفیان ثوری کی اس معنعن حدیث کوحیح قرار دے رہے ہیں ۔ 

[ ارشاد السارى لاحمد بن محمد القسطلانی (متوفی 923) ج 3 ص: 183 ناشر الـمـطبعة الكبرى الاميرية]

-10 ارشادالحق اثری غیر مقلد سے :

حدثنا أبو إسماعيل الترمذي ثنا قبيصة بن عقبة ثنا سفيان الثوري عن معمر عن يحيى بن أبي كثير عن عبد الله بن أبي قتادة عن أبيه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يطول في الركعة الأولى من الظهر كي يدرك الناس. إسناده حسن.

عبارت کا مفہوم : ارشادالحق اثری سفیان ثوری کی اس معنعن حدیث کے متعلق لکھتے ہیں حدیث حسن ہے۔

[  مسـنـد السـراج بتـحـقيق ارشاد الحق اثری ص: 71 ناشر إدارة العلوم الأثرية فيصل آباد -باكستان]

تنبیہ: اگر ہم اس طرح کے اقوال محدثین مزید نقل کرنا چاہیں تو بفضلہ تعالی نقل کر سکتے ہیں لیکن اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان دس محدثین کے اقوال پر اکتفا کرتے ہیں ۔ 

سفیان ثوری قلیل التدلیس ہے

سفیان ثوری قلیل التدلیس ہے اور قلیل التدلیس راوی کی معنعن روایت محمد ثین کے ہاں مقبول ہوتی ہے ۔ جیسے کہ ہندستان کے ایک غیر مقلد عالم فضیلتہ الشیخ کفایت اللہ سنابلی اول سفیان ثوری کے قلیل التدلیس ہونے پر محدثین کے اقوال نقل کرتے ہیں اور بعد میں ان محدثین کے اقوال نقل کر کے جنہوں نے کہا ک قلیل التدلیس کی معنعن روایت قبول ہوتی ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سفیان ثوری کی معنعن روایات مقبول ہیں چنانچہ اس کی اصلی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

اب ہم ان دیگر ائمہ کے اقوال ذکر کرتے ہیں جنہوں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس کی کثرت کی نفی کی ہے یعنی انہیں قلیل التدلیس بتلایا ہے ۔ 

1- چنانچہ امام علاٸ رحمہ اللہ ( متوفی 741) نے کہا ہے

سفيان بن سعيد الثورى الامام المشهور تقدم انه يدلس ولكن ليس بالكثير ۔

سفیان بن سعید الثوری مشہور امام ہیں یہ بات گذر چکی ہے کہ وہ تدلیس کرتے ہیں لیکن زیادہ نہیں،

[ جـامـع الـتـحـصـيـل لـلعلائي ص:186]

2- امام ولی الدین ابن عراقی رحمہ اللہ (المتوفی 826) نے کہا:

سفيان بن سعيد الثورى الامام المشهور يدلس ولكن ليس بالكثير.

 سفیان بن سعید ثوری مشہور امام ہیں یہ تدلیس کرتے ہیں لیکن زیادہ نہیں۔ 

[ تحفة التـحـصـيـل فـي ذكـر رواة المراسيلص: 130]

3- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (متوفی 852) نے کہا:

الثـانيـة مـن احـتـمـل الأئـمـة تـدليسـه، وأخرجوا له في "الصحيح"؛ لإمامته، وقلة تدليسه في جنب ما روی؛ کسفیان الثوری.

 حافظ ابن حجر ( متوفی 852) نے کہا: دوسرا طبقہ مدلسین کا جن کی تدلیس کو محدثین نے برداشت کیا ہے اور ان کی احادیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ان کی امامت اور ان کی مرویات میں قلت تدلیس کی وجہ سے، جیسے امام ثوری ہیں ۔

[ طبقات المدلسين لابن حجر ص: 13]

 دوسری جگہ کہا:

وكان ربما دلس ( سفیان ثوری ) کبھی کبھار تدلیس کرتے تھے۔

[ تقريب التهذيب لابن حجر(رقم 2445]

 قلیل التدلیس مدلس کا عنعنہ بالاتفاق مقبول ہوتا ہے۔

 گزشتہ تفصیل سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ائمہ و محدثین نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو قلیل التدلیس بتلایا ہے اور ان سے کثرت تدلیس کی نفی کی ہے لہذا جب قلیل التدلیس تو ان کا عنعنہ مقبول ہے۔ ۔۔۔

محدثین کے اقوال

اب ذیل میں محدثین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:

 1.امام علی بن المدینی رحمه الله (المتوفی 234) مدلس کے بارے میں فرماتے ہیں:

اذا كان الغالب عليه التدليس فلا حتى يقول حدثنان.

جب تدلیس اس پر غالب آ جاۓ تب تو وہ حجت نہیں یہاں تک کہ وہ تحدیث ( سماع کی صراحت کرے)

امام علی بن مدینی کا یہ قول اس سلسلے میں بہت ہی واضح اور صریح ہے کہ ہر مدلس کا عنعنہ رد نہیں ہوگا بلکہ صرف کثیر التدلیس مدلس ہی کا عنعنہ رد ہوگا اور قلیل التدلیس مدلس کا عنعنہ مقبول ہوگا۔

[ الكفاية للبغدادي (ج 2 ص: 387) اسناده صحیح]

2-امام بخاری رحمہ اللہ (متوفی 256) فرماتے ہیں:

لا اعـرف لـسـفـيـان الثوري عن حبيب بن ابی ثابت ولا عن سلمة بن كهيـل ولا عـن مـنـصـور وذكـر مشـايـخ كثيرة لا اعرف لسفيان هؤلاء تدليساما اقل تدليسه

سفیان ثوری کی حبیب بن ابی ثابت سلمہ بن کہیل اور منصور سے اور کئی مشایخ کا ذکر کیا اور کہا سفیان ثوری کی ان سے تدلیس میں نہیں جانتا ان کی تدلیس بہت کم ہے سفیان ثوری کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ بیان بھی اس بات کی دلیل ہے کہ قلیل التدلیس کا عنعنہ مقبول ہوگا۔

[  علل الترمذی (ص: 388]

3- امام ترمذی رحمہ اللہ (متوفی 279) کا بھی یہی موقف ہے 

۔ ۵- امام سخاوی رحمہ اللہ (متوفی 902) فرماتے ہیں:

والرابع ان كان وقوع التدليس منه نادرا قبلت عنعنته ونحوها والا فلا. 

مدلسین کی روایت سے متعلق چوتھی رائے یہ ہے کہ اگر مدلس سے تدلیس کبھی کبھار ہوئی ہو تو اس کا عنعنہ وغیرہ مقبول ہوگا ورنہ نہیں ۔

[ فتح المغيث بشرح الفية الحديث ج 1 ص :230]

 - علامہ البانی رحمہ اللہ عصر حاضر کے عظیم محدث گذرے ہیں آپ فرماتے ہیں:

وجـعـلـوا الـمـدلسين طبقات منهم من من يغتفر تدليسه لقلته وتقبل عنعنتهم.

[ النصيحة (ص:28.27]

محدثین نے مدلسین کے طبقات بناۓ ہیں ان میں بعض ایسے ہیں جن کے قلیل التدلیس ہونے کی وجہ سے ان کی تدلیس معاف ہے اوران کا عنعنہ مقبول ہے ۔

 سنابلی کی یہ پوری تحریر ملاحظہ فرمائیں: 

[ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں لکفایت اللہ سنابلی ص:344.336 ناشر مکتبہ بیت السلام لاہور]

بالآخر لکھتے ہیں:

اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ قلیل التدلیس ہیں لہذا ان کا عنعنہ مقبول ہے یہی وجہ ہے کہ سفیان ثوری کی احادیث کو ائمہ نقد جب ضعیف کہتے ہیں تو سفیان ثوری کی عنعنہ کو علت نہیں بناتے بلکہ دیگر علل کی بنیاد پر اس کی تضعیف کرتے ہیں ۔ 

[حاشیہ۔1 نماز میں سینے پر ہاتھ باندھیں لکفایت اللہ سنابلی ص: 327 ناشر مکتبہ بیت السلام لاہور]

(نصر المعبود تحقيق حديث عبد الله بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ ) قسط نمبر2 کیلئے یہاں کلک کریں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...