نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 46 : کہ سفیان اور اوزاعی نے کہا کہ اس امت میں سب سے منحوس بچہ جو پیدا ہوا وہ ابو حنیفہ ہے۔


 اعتراض نمبر 46 : 
کہ سفیان اور اوزاعی نے کہا کہ اس امت میں سب سے منحوس بچہ جو پیدا ہوا وہ ابو حنیفہ ہے۔

أخبرني علي بن أحمد الرزاز، أخبرنا علي بن محمد بن سعيد الموصلي قال: حدثنا الحسن بن الوضاح المؤدب، حدثنا مسلم بن أبي مسلم الحرقي، حدثنا أبو إسحاق الفزاري قال: سمعت سفيان الثوري والأوزاعي يقولان: ما ولد في الإسلام مولود أشأم على هذه الأمة من أبي حنيفة، وكان أبو حنيفة مرجئا يرى السيف. قال لي يوما: يا أبا إسحاق أين تسكن؟ قلت: المصيصة، قال: لو ذهبت حيث ذهب أخوك كان خيرا. قال: وكان أخو أبي إسحاق خرج مع المبيضة على المسودة فقتل.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کا ایک راوی علی بن احمد الرزاز کا ایک بیٹا تھا جو اس کی کتابوں میں نئی سنی سنائی باتیں شامل کر دیتا تھا جیسا کہ خطیب نے کہا ہے[1]۔ تو اب کیسے اس کی روایت پر اعتماد ہو سکتا ہے؟

 اور علی بن محمد بن سعید الموصلی کو ابو نعیم نے جھوٹا کہا ہے اور ابن الفرات نے کہا کہ یہ راوی اختلاط کا شکار تھا اور کوئی قابل تعریف نہ تھا[2].

 اور مسلم بن ابی مسلم عبد الرحمن الجرمی کو خطیب نے ثقہ کہا ہے لیکن اللسان میں ہے کہ بے شک وہ بعض اوقات غلطیاں کر جاتا تھا۔ اور بیہقی نے کہا کہ وہ قوی نہ تھا۔ اور ابوالفتح الازدی نے کہا کہ وہ ایسی احادیث بیان کرتا تھا جن کا کوئی متابع نہیں پایا جاتا[3]۔ 

اور الفزاری تو تعصب میں انتہائی درجہ کو پہنچا ہوا تھا[4]۔ اور اگر یہ خبر ثوری اور اوزاعی سے ثابت ہو جائے تو دونوں

صرف اس ایک کلمہ کی وجہ سے خواہش اور لاپروائی کے گڑھے میں ایسے گر جائیں گے (اور

اٹھنے کی ہمت نہ رکھیں گے) جیسے ان دونوں کا مذہب ان دونوں کے بعد ایسا ناپید ہوا کہ مضبوط فقہ کے سامنے ان دونوں مذہبوں کے لیے اٹھنے کی ہمت ہی نہ رہی۔ اور پھر حدیث میں ہے 

لا شوم فی الاسلام 

کہ اسلام میں نحوست نہیں۔ تو ان حضرات نے یا تو یہ بات کی ہی نہیں اور اگر کہی ہے تو حدیث کی مخالفت کی وجہ سے اس کا اعتبار نہیں) اور اگر فرض کر لیا جائے کہ نحوست ان تین چیزوں (عورت سواری، مکان) جن کا ذکر حدیث[5] میں ہے کے علاوہ کسی اور چیز میں بھی پائی جاتی ہے اور یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ ہمارے امام منحوس ہیں تو ان دونوں (ثوری اور اوزاعی) کو کیسے معلوم ہو گیا کہ وہ نحوست کے سب سے اونچے درجے میں ہے۔ پس ان دونوں سے تصور نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا ان کی زبان سے نکلے جس کے قائل کا ہر ایک کی جانب سے رد کیا جاتا ہو۔ اور اس امت میں تمام منحوسوں سے بڑھ کر منحوس ہونے کی پہچان تو صرف وحی کے ذریعہ سے معلوم ہو سکتی ہے اور وحی کا زمانہ تو ختم ہو چکا ہے۔ تو ایسے من گھڑت افسانہ پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ

《لا حول ولا قوة الا بالله 》

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔



[1]۔ عَلِيُّ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ دَاوُدَ بْن مُوسَى بْن بيان، أَبُو الحسن المعروف بابن طيب الرّزّاز:


حَدَّثَنِي بعض أصحابنا قَالَ: دفع إِلَى علي بْن أَحْمَد الرزاز- بعد أن كف بصره- جزءا بخط أبيه فيه: أمالي عَن بعض الشيوخ، وفي بعضها سماعه بخط أبيه العتيق والباقي فيه تسميع له بخط طري فقال: أنظر سماعي العتيق [هو] ما قرئ عليَّ، وما كان فيه تسميع بخط طري فاضرب عليه. فإني كان لي ابن يعبث بكتبي ويسمع لي فيما لم أسمعه. أو كما قَالَ.

حَدَّثَنِي الخلال قَالَ: أخرج إِلَى الرزاز شيئا من مسند مسدد فرأيت سماعه فيه بخط جديد، فرددته عليه.

قلت: وقد شاهدت أنا جزءا من أصول الرزاز بخط أبيه فيه أمالي عَن ابن السماك، وفي بعضها سماعه بالخط العتيق، ثم رأيته قد غير فيه بعد وقت وفيه إلحاق بخط جديد. 


[2]۔ على بن محمد بن سعيد الموصلي. شيخ أبي نعيم الحافظ.

قال أبو نعيم: كذاب.

وقال ابن الفرات: مخلط غير محمود.

(میزان الاعتدال فی نقد الرجال 

دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت - لبنان-ط 1 1963 , ج: 3- ص: 154)

[3]۔ مسلم بن أبي مسلم الجرمي

أبو الفتح الأزدي : حدث بأحاديث لا يتابع عليها

أبو بكر البيهقي : غير قوی

[4]۔دیکھیں اعتراض نمبر 45

اعتراض 45 کہ ابو حنیفہ حاکم وقت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتے تھے

ابو اسحاق فزاری نہ صرف امام ابو حنیفہؒ کے سخت مخالف اور متعصب تھے، بلکہ کثرتِ خطا کے بھی مرتکب تھے۔ اسی وجہ سے ان کی امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جرح یا روایت قابلِ اعتبار نہیں ہے۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھیں  "النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود

اعتراض نمبر 17: امام ابو حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے


[5]۔ حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني سالم بن عبد الله، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" إنما الشؤم في ثلاثة في الفرس والمراة والدار".

 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے۔ گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔

(صحیح مسلم 2588 )

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...