نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

 اعتراض نمبر 47:  کہ قاضی ابو یوسف نے کہا کہ ابو حنیفہ مرجئہ جہمی تھے اور ہم ان سے صرف سبق پڑھتے تھے، دین میں ان کے مقلد نہ تھے۔


 اعتراض نمبر 47: 

کہ قاضی ابو یوسف نے کہا کہ ابو حنیفہ مرجئہ جہمی تھے اور ہم ان سے صرف سبق پڑھتے تھے، دین میں ان کے مقلد نہ تھے۔

أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا محمد بن الحسن بن زياد النقاش أن محمد بن علي أخبره عن سعيد بن سالم قال: قلت لقاضي القضاة أبي يوسف: سمعت أهل خراسان يقولون: إن أبا حنيفة جهمي مرجىء؟ قال لي: صدقوا، ويرى السيف أيضا.

قلت له: فأين أنت منه؟ فقال: إنما كنا نأتيه يدرسنا الفقه، ولم نكن نقلده ديننا.

الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ شفاء الصدور کا مصنف النقاش کذاب گمراہ اور اللہ کی مخلوق میں سے گھٹیا لوگوں میں سے تھا[1]۔ اور الدانی المقری مشرق سے بہت دور علاقہ کا تھا۔ 

اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس پر اس کی بدنامیاں مخفی نہ ہوتیں۔ 

اور سعید بن سلمہ الباہلی ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔[2]

اور تینوں مطبوعہ نسخوں میں سلمہ کی جگہ سالم ہے اور یہ غلطی ہے۔

 اور ابو یوسف رحمہ اللہ اس جیسی فضول کلام سے بالکل بری ہیں۔ اور ہم متعصب جماعت کی شکایت اللہ تعالی کی بارگاہ ہی میں کرتے ہیں۔ 

آپ ان کو دیکھیں گے کہ کبھی کسی شخص کی جانب ایک بات منسوب کرتے ہیں اور کبھی اس کی ضد منسوب کرتے ہیں۔

 پس انہوں نے یہاں ابو یوسف رحمہ اللہ کے بارہ میں بیان کیا کہ وہ ابو حنیفہ کو جہمیت کی طرف منسوب کرتے تھے اور خود جھم کے مذہب سے بری تھے۔ 

اور دوسری جگہ انہوں نے خود ابو یوسف کو جہمی شمار کیا ہے۔ 

العقیلی نے ابو یوسف کے ترجمہ میں عبد اللہ بن الحسين النيلي احمد بن ابی سریج۔الحسن بن حکیم القرشی اور وہ اور یحی اور ہمارے اصحاب سنی تھے۔ (پھر آگے اس نے) بقیة کی سند نقل کر کے کہا کہ بقیہ نے کہا کہ مجھے اہل علم میں سے ایک آدمی نے بتلایا کہ بے شک وہ گواہی دیتا ہے کہ ابو یوسف " جہمی تھے۔ الخ۔[3] 

اور جب کسی واقعہ میں ابوحنیفہ اور اس کے اصحاب پر طعن اور عیب ہو تو ان حضرات کو سند میں کئی قسم کی کمزوریاں بھی کوئی نقصان نہیں دیتیں۔ 

آپ ان متعصبوں کو دیکھیں گے کہ وہ کبھی ابو حنیفہ اور محمد بن الحسن کو جہمی شمار کرتے اور ابو یوسف کو جہم کے مذہب سے بری مانتے اور کبھی ان سب

کو جہم کے مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور خلاصہ یہ ہے کہ بے شک ابو حنیفہ نے قرآن کریم کے بارہ میں جو کچھ کہا ہے حق ہی کہا ہے۔ اور وہ کلام نفسی کو قدیم کہتے ہیں جو باقی صفات کی طرح اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہے اور جو کلام مخلوق کے ساتھ قائم ہے اس کو اسی طرح حادث مانتے ہیں جیسا کہ مخلوق کی ذات اور صفات حادث ہیں۔ 

اور جس آدمی نے اس قول کی وجہ سے ابو حنیفہ کو جہمیہ میں شمار کیا ہے تو اس نے اس پر بہت بڑا افتراء باندھا۔ اور اس نے جھم کے قول کو سمجھا ہی نہیں۔ 

اور رہا معاملہ ارجاء کا جس کی طرف ابو حنیفہ کی نسبت کرتے ہیں تو اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ بے شک ایمان پختہ یقین اور کلمہ کا نام ہے اور عمل اس کا رکن اصلی نہیں ہے۔ اور اگر اس کا یہ قول نہ ہوتا تو ساری امت کو ایمان سے خارج ماننا پڑتا اس لیے کہ بے شک ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی وقت کسی نہ کسی عمل میں کوتاہی کر ہی جاتا ہے اور ایمان کے کسی رکن میں خلل ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ 

اور بہر حال تلوار اٹھانا جس کا نظریہ ابو حنیفہ رکھتے تھے تو وہ حق کی تلوار ہے جو اٹل باطل کے خلاف سونتی ہوئی تھی جبکہ اس کے ساتھ فیصلہ کرنا ضروری ہو جائے۔ پس اس حجت کے ساتھ مخالفین کا ظلم ظاہر ہو گیا

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]. محمد بن الحسن بن محمد بن زياد بن هارون بن جعفر بن مسند أبي بكر النقاش الموصلي

وَقَالَ طَلْحَةُ بنُ مُحَمَّدٍ الشَّاهد: كَانَ النَّقَّاش يَكْذِبُ فِي الحَدِيْثِ, وَالغَالِبُ عَلَيْهِ القَصَصُ.

وَقَالَ أبي بَكْرٍ البَرْقَانِيُّ: كُلُّ حَدِيْث النَّقَّاشِ مُنكر.

وَقَالَ الحَافِظُ هِبَة اللهِ اللاَّلْكَائِيّ: تَفْسِيْر النَّقَّاش إِشْفَى الصُّدور لاَ شفَاء الصُّدورِ.

وَقَالَ الخَطِيْبُ فِي حَدِيْثِهِ: مَنَاكِيرُ بِأَسَانيدَ مَشْهُوْرَة.

رَوَى أبي بَكْرٍ, عَنْ أَبِي غَالِب, عَنْ جدِّهِ مُعَاوِيَةَ بنِ عَمْرٍو, عَنْ زَائِدَةَ, عَنْ لَيْث, عَنْ مُجَاهد, عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللهَ لاَ يقبل دعاء حبيب على حبيبه".

قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: فَرَجَعَ عَنْهُ حِيْنَ قُلْتُ لَهُ: هُوَ مَوْضُوْع.

(سير أعلام النبلاء ج 15 الصفحة 575) 

[2]۔ دیکھیں اعتراض نمبر 24

[3]۔حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ النُّهَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَكِيمٍ الْقُرَشِيُّ، وَكَانَ يُجَالِسُ أَحْمَدَ وَيَحْيَى وَأَصْحَابَنَا سِنِينَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا بَقِيَّةُ , قَالَ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ قَدْ أَشْهَدَ عَلَى أَبِي يُوسُفَ أَنَّهُ جَهْمِيٌّ

( كتاب الضعفاء الكبير للعقيلي 4/443)

جواب ۔ وہ کون آدمی تھا جس نے گواہی دی کہ امام ابو یوسف جہمی تھے ؟ جب روایت ہی مجہول ہے تو امام صاحب پر اعتراض کیسے ہو سکتا ؟ جبکہ متعدد روایات سے امام ابو یوسف رحمہ اللہ سے جہمیت کی تردید منقول ہے (تاریخ بغداد ت بشار 15/514 )

حدثني أبو سليمان محمد بن سليم المروزي قال حدثني أبو الدرداء محمد بن عبد العزيز بن منيب قال سمعت محمد بن بشر بن العبدي قال حدثني أخي قال رأيت أبا يوسف في المنام وعلى عنقه صليب قلت من أعطاك هذا قال يحيى اليهودي

( كتاب الضعفاء الكبير للعقيلي 4/443)

جواب : 

یہ روایت مردود ہے کیونکہ

1۔ اس میں امام عقیلی کا شیخ ابو سلیمان محمد بن سلیم المروزی نامعلوم شخص ہے۔

2۔اس کے علاوہ محمد بن بشر کے بھائی سے کون مراد ہے یہ بھی واضح نہیں ہے. اس لئے مجہول راویوں کی سند سے مذکور جرح مردود ہے۔

 3۔اچھے خواب اللہ کی طرف سے اور برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ، جیسا کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اچھے خواب اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں پس جب کوئی اچھے خواب دیکھے تو اس کا ذکر صرف اسی سے کرے جو اسے عزیز ہو اور جب برا خواب دیکھے تو اللہ کی اس کے شر سے پناہ مانگے اور شیطان کے شر سے اور تین مرتبہ تھوتھو کر دے اور اس کا کسی سے ذکر نہ کرے پس وہ اسے ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا (بخاری 7044)۔

 یہ برا خواب بھی کسی مجہول کا گھڑا ہوا ہے جو ثقہ محدث ابو یوسف رحمہ اللہ سے متنفر تھا ، ہم ایسے متعصبین کی شکایت بارگاہ الہی میں ہی کرتے ہیں۔ 







4۔خود فرقہ اہلحدیث کے بدنام زمانہ متضاد شخصیت زبیر علی زئی لکھتے ہیں

"صحابۂ کرام کے بعد کسی اُمتی کا خواب حجت نہیں ہے "

(کتاب الاربعین لابن تیمیہ ص 114)


لہذا درج بالا وجوہات کی بناء پر امام قاضی القضاہ قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ پر اعتراض باطل ہے ۔


یہاں جدید فرقہ اہلحدیث کے زبیر علی زئی کی طرف سے نقل کردہ باطل جروحات کے جوابات ذکر کرنا فائدہ سے خالی نہیں۔

"النعمان سوشل میڈیا سروسز" یہ اقتباس مولانا ظہور الحسینی صاحب کی کتاب " تلامذہ امام ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام" سے پیش کر رہا ہے۔


امام ابو جعفر العقیلی سے منسوب جرح کا جواب


 علی زئی لکھتے ہیں: 

آپ نے قاضی ابو یوسف کو کتاب الضعفاء میں ذکر کر کے جروح نقل کی ہیں۔ دیکھئے ج 4 ص 438 تا 444

[الحديث شمارہ 19، ص 52]


جواب: 

امام عقیلی احناف کے خلاف انتہائی متعصب ہیں، 

اور امام ابوحنیفہ سے لے کر ان کے زمانے تک کا کوئی حنفی شاہد ہی ان کے تعصب سے محفوظ رہا ہو، اور خود زبیر علی زئی نے تصریح کی ہے کہ:

تعصب والی جرح مردود ہوتی ہے۔ [الحدیث 22/44]

لہٰذا امام عقیلی جیسے متعصبین کا امام ابو یوسف کہ جن کی تحقیقات پر ہر دور میں امت کی اکثریت اعتماد کرتی آئی ہے، کو ضعفاء میں ذکر کرنا کچھ وقعت نہیں رکھتا۔


ثانیا: امام عقیلی نے اپنے تمام تر تعصب کے باوجود اگرچہ امام ابو یوسف کے خلاف جروح نقل

کی ہیں( جن میں سے اکثر کی حقیقت آپ ما قبل ملاحظہ کر چکے ہیں ) لیکن خود انہوں نے آپ پر کوئی جرح نہیں کی ،

 اس کا مطلب ہے کہ امام عقیلی جیسے متعصب شخص کو بھی امام ابو یوسف میں کوئی ایسی چیز نہیں مل سکی کہ جس کی بنیاد پر وہ آپ پر جرح کرتے۔


ثالثاً۔ خود غیر مقلدین کے نزدیک بھی امام عقیلی سخت متعنت اور متشدد ہیں یہاں تک کہ انہوں 

نے امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ کبیر اور نامورحافظ الحدیث امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کو بھی معاف نہیں کیا، اور ان کو بھی کتاب الضعفاء میں ذکر کر دیا۔

مولانا نذیر احمد رحمانی غیر مقلد (جن کو علی زئی "مولانا المحقق الفقیہ" کے القاب سے یاد

کرتے ہیں) 

[تعداد رکعات قیام رمضان صفحہ7]

امام عقیلی کے رد میں بحوالہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں :


ذكره العقيلي في كتاب الضعفاء فبئس ما صنع ..... الى ان قال قال فمالک عقل یا عقیلی اتدرى فيمن تكلم

 [انوار المصابيح ص 111]

عقیلی نے امام علی بن مدینی کو کتاب الضعفاء میں ذکر کر کے بہت برا کیا ہے۔ 

اسے عقیلی ! تیری عقل کہاں چلی گئی؟ 

کیا تو جانتا ہے کہ کس شخص پر تو تنقید کر رہا ہے؟“

 ہم یہاں علی زئی سے ان کے اپنے محقق اور فقیہ کی زبان سے گزارش کرتے ہیں کہ

 اے عقل کے اندھے ! 

امام ابو یوسف کے خلاف عقیلی سے جرح نقل کرتے وقت تیری عقل کہاں چلی گئی؟

 کیا تو نہیں جانتا کہ امام ابو یوسف وہ عظیم شخص ہیں کہ ایک نہیں ہزاروں عقیلی بھی ہوں تو وہ سب مل کر بھی آپ کے علم و فضل کے پاسنگ بھی نہیں ہو سکتے ؟

نیز رحمانی صاحب لکھتے ہیں : چار حضرات ( ابن معین ، نسائی، عقیلی اور ابن عدی)

 کا متعنتین میں شمار ہونا تو بالکل واضح ہے۔

[ انوار المصابيح ص 111 ]

شیخ عبد الرحمن الیمانی غیر مقلد نے بھی عقیلی کو متشدد قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ

 فقد كان في العقيلي تشدد ما فينبغي التثبت فيما يقول من عند نفسه في مظان تشدده

 [التنكيل 465/1]

"بے شک عقیلی میں قدرے تشدد پایا جاتا ہے لہٰذا جب وہ تشدد میں آکر اپنی طرف سے کسی پر جرح کریں تو اس کو قبول کرنے میں احتیاط برتی جائے ۔“


 لہذا جب خود غیر مقلدین کو بھی یہ تسلیم ہے کہ امام عقیلی جرح میں متشدد اور متعنت ہیں تو پھر علی زئی ان کی جرح کو امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے خلاف کیوں پیش کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ممدوح مولانا ارشاد الحق اثری نے تصریح کی ہے کہ

یہ طے شدہ بات ہے کہ متعنت کی جرح قابل قبول نہیں

 [توضيح الكلام 312/1]

 اور خود علی زئی کا اپنا بیان بھی حافظ جوزجانی سے منسوب جرح کے جواب میں گزر چکا ہے

[تلامذہ ص 230 ، النعمان سوشل میڈیا سروسز]

جس میں علی زئی نے متعنت کی جرح کو مردود قرار دیا ہے۔


.........................

پیشکش : 

النعمان سوشل میڈیا سروسز


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...