بعض محدثین نے قیاس اور رائے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض وغیرہ کئے۔
جواب:
اول : جس طرح ابتداء میں رواة کے حالات بیان کرنے کو بعض لوگ غیبت سمجھتے تھے ویسے ہی ابتداء میں بعض محدثین قیاس شرعی کو دین میں ذاتی رائے کہہ کر مذمت کرتے تھے ۔
ابتداء میں جب علم قیاس معروف نہ تھا تو محدثین یہ سمجھ رہے تھے کہ قیاس محض رائے ہے اور دین میں رائے کی کوئی اہمیت نہیں ، لیکن جیسے جیسے علم قیاس مدون ہوا اور مشہور ہوا تو بعد کے محدثین قیاس اور رائے کو برا نہ سمجھتے تھے ، یہی وجہ ہیکہ امام شافعی اور امام احمد بھی قیاس کرتے تھے ، قیاس کے منکر اہل ظواہر تھے جن کی فقہ کب کی ختم ہو گئی ۔
حدثني عمرو بن علي وحسن الحلواني كلاهما، عن عفان بن مسلم، قال: كنا عند إسماعيل ابن علية، فحدث رجل عن رجل، فقلت: إن هذا ليس بثبت، قال: فقال الرجل: اغتبته؟ قال إسماعيل: ما اغتابه، ولكنه حكم انه ليس بثبت.
عفان بن مسلم سے روایت ہے، ہم اسمٰعیل بن علیہ کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک حدیث روایت کی۔ میں نے کہا: وہ معتبر نہیں۔ وہ شخص بولا: تو نے اس کی غیبت کی۔ اسمٰعیل نے کہا: اس نے غیبت نہیں کی بلکہ حکم لگایا اس پر کہ وہ معتبر نہیں۔
(مقدمہ صحیح مسلم رقم 84)
محدثین نے خود لکھا کہ علم الجرح و التعدیل حدیث نبوی کی حفاظت کا ذریعہ ہے ، غیر عادل راویوں کے عیوب و نقائص بیان کرنا ، دین و شریعت کی حفاظت اور مدافعت کے لیے ضروری ہے ، غیبت نہیں ہے بلکہ ایک دینی فریضہ اور شرعی ضرورت ہے جس کے پورا کرنے پر اجروثواب ملے گا۔
اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کیلئے فقہاء نے رائے اور قیاس کا بھی سہارہ لیا ورنہ آج فقہ اسلامی مکمل طور پر مدون نہ ہوتا ، روز مرہ کے جدید مسائل پیش آتے اور ان کو حل موجود نہ ہوتا جیسا کہ آج بھی غیر مقلدین جدید فقہی مسائل میں کبھی حنفیوں کے در در جاتے ہیں کبھی شوافع وغیرہ کے ۔ اگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر مجتہدین نے قیاس کو استعمال کر کے دین کو تباہ کیا ہے تو معترض کو چاہیے کہ وہ صرف قرآن و حدیث سے ہی تمام جدید فقہی مسائل کا جواب دیکر امت اور دین اسلام کو مزید تباہ ہونے سے بچائے ، لیکن معترض صرف اعتراض کرنا جانتے ہیں ، مسائل کا حل ان کے پاس نہیں۔
دوم : صحیح سند سے امام ابو حنیفہ کا غلام خاندان سے ہونا ثابت نہیں ہے ، بالفرض اگر امام ابو حنیفہ غلام ہوتے ، تب بھی تو یہ کوئی معیوب بات نہیں کیونکہ بہت سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم غلام تھے بعد میں آزاد ہوئے ( مثلا مشہور صحابی حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ ) ، جب کفر سے اسلام قبول کرنے والے کو پچھلی گزری کفریہ زندگی کا طعن دینا جائز نہیں ، تو غلامی کا طعن دینا کیسے جائز ہو سکتا ہے جبکہ صراحت ہیکہ بیشک اللہ کی نظر میں سب سے زیادہ معزز و محترم وہ شخص ہے جو متقی ہے۔ (الحجرات آیت 13)۔
( النعمان سوشل میڈیا سروسز)
---------------------------------------------------------------
امام مالک اور امام ابو حنیفہ :
قال ابن وضاح ، وسمعت أبا جعفر الأيلي يقول : سمعت خالد بن نزار يقول : سمعت مالكا يقول : " لو خرج أبو حنيفة على هذه الأمة بالسيف كان أيسر عليهم مما أظهر فيهم من القياس والرأي "
امام مالک نے کہا کہ ابو حنیفہ کا قیاس اور رائے کرنا زیادہ خطرناک ہے بنسبت کہ وہ تلوار لیکر امت کے خلاف نکلتے۔
( جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر 2/1079 )
جواب:
اول : یہ جرح مردود ہے جیسا کہ 2 مالکی آئمہ نے تصریح کی ہے جن کی تفصیل یہ ہے
1۔ محدث ابو الولید الباجی مالکی (المنتقی 7/300)
2۔محدث ابن عبدالبر مالکی
(جامع بیان العلم 2/1079)

دوم : امام مالک رحمہ اللہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتب سے علمی طور پر استفادہ فرماتے تھے
(فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ص 235 ، اسنادہ حسن ، الاجماع شمارہ 14 ص 59 )
معلوم ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ کی رائے اور قیاس کو اچھا سمجھتے تھے ، تبھی ان سے استفادہ کرتے تھے ، مزید تفصیل کیلئے دیکھیں الاجماع شمارہ نمبر 14 میں "امام مالک کے نزدیک امام ابو حنیفہ ثقہ ہیں۔"
(النعمان سوشل میڈیا سروسز)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں