بعض محدثین نے قیاس اور رائے کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض وغیرہ کئے۔
اس مضمون میں ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر رائے اور قیاس کے استعمال کی وجہ سے کیے گئے اعتراضات کا جائزہ لیں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ اعتراضات کس حد تک درست ہیں اور ان کا تاریخی اور علمی پس منظر کیا ہے۔ ساتھ ہی ہم امام ابو حنیفہ کی علمی عظمت، فقہی مہارت اور حدیث کے علم میں ان کی گہری بصیرت پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
قیاس کا ارتقاء اور محدثین کی سوچ میں تبدیلی
اول : جس طرح ابتداء میں رواة کے حالات بیان کرنے کو بعض لوگ غیبت سمجھتے تھے ویسے ہی ابتداء میں بعض محدثین قیاس شرعی کو دین میں ذاتی رائے کہہ کر مذمت کرتے تھے ۔ابتداء میں جب علم قیاس معروف نہ تھا تو محدثین یہ سمجھ رہے تھے کہ قیاس محض رائے ہے اور دین میں رائے کی کوئی اہمیت نہیں ، لیکن جیسے جیسے علم قیاس مدون ہوا اور مشہور ہوا تو بعد کے محدثین قیاس اور رائے کو برا نہ سمجھتے تھے ، یہی وجہ ہیکہ امام شافعی اور امام احمد بھی قیاس کرتے تھے ، قیاس کے منکر اہل ظواہر تھے جن کی فقہ کب کی ختم ہو گئی ۔حدثني عمرو بن علي وحسن الحلواني كلاهما، عن عفان بن مسلم، قال: كنا عند إسماعيل ابن علية، فحدث رجل عن رجل، فقلت: إن هذا ليس بثبت، قال: فقال الرجل: اغتبته؟ قال إسماعيل: ما اغتابه، ولكنه حكم انه ليس بثبت.
عفان بن مسلم سے روایت ہے، ہم اسمٰعیل کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک حدیث روایت کی۔ میں نے کہا: وہ معتبر نہیں۔ وہ شخص بولا: تو نے اس کی غیبت کی۔ اسمٰعیل نے کہا: اس نے غیبت نہیں کی بلکہ حکم لگایا اس پر کہ وہ معتبر نہیں۔ (مقدمہ صحیح مسلم رقم 84)
محدثین نے خود لکھا کہ علم الجرح و التعدیل حدیث نبوی کی حفاظت کا ذریعہ ہے ، غیر عادل راویوں کے عیوب و نقائص بیان کرنا ، دین و شریعت کی حفاظت اور مدافعت کے لیے ضروری ہے ، غیبت نہیں ہے بلکہ ایک دینی فریضہ اور شرعی ضرورت ہے جس کے پورا کرنے پر اجروثواب ملے گا۔
اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کیلئے فقہاء نے رائے اور قیاس کا بھی سہارہ لیا ورنہ آج فقہ اسلامی مکمل طور پر مدون نہ ہوتا ، روز مرہ کے جدید مسائل پیش آتے اور ان کو حل موجود نہ ہوتا جیسا کہ آج بھی غیر مقلدین جدید فقہی مسائل میں کبھی حنفیوں کے در در جاتے ہیں کبھی شوافع وغیرہ کے ۔ اگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر مجتہدین نے قیاس کو استعمال کر کے دین کو تباہ کیا ہے تو معترض کو چاہیے کہ وہ صرف قرآن و حدیث سے ہی تمام جدید فقہی مسائل کا جواب دیکر امت اور دین اسلام کو مزید تباہ ہونے سے بچائے ،
لیکن معترض صرف اعتراض کرنا جانتے ہیں ، مسائل کا حل ان کے پاس نہیں۔
علمِ علل الحدیث کی محدود تدوین
جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علم علل الحدیث میں معرفت کی بنیاد پر بعض حدیث پر کلام کرتے تو اس کو بعض محدثین یہ سمجھتے کہ امام ابو حنیفہ اپنی رائے سے حدیث کو رد کر رہے ہیں۔ امام ابو حنیفہ کا علل الحدیث سے حدیث کی جانچ کرنے کو بعض محدثین یہ سمجھتے تھے کہ امام صاحب اپنی رائے سے حدیث کو ترک کرتے ہیں
ابتداء میں میں علمِ علل الحدیث اپنی مکمل صورت میں مدون نہیں ہوا تھا۔ علمِ علل ایک نہایت باریک اور دقیق فن ہے، جس میں احادیث کے مخفی نقائص کو پہچانا جاتا ہے۔ اس علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اسے "سب سے دقیق اور بلند پایہ علم" قرار دیا ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ "یہ علم صرف اسے حاصل ہوتا ہے جسے اللہ نے غیر معمولی فہم اور حفظ عطا کیا ہو"۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اس علم کی فطری بصیرت عطا فرمائی تھی۔ باوجود اس کے کہ علمِ علل اُس زمانے میں مدون نہیں تھا، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ گہری بصیرت کے ذریعے حدیث کی علتوں کو پہچان لیتے تھے۔ چنانچہ بعض روایات، جو بظاہر صحیح دکھائی دیتی تھیں، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ان کی گہرائی میں جا کر ان کے نقص کو پہچانا اور امت کو علمی بنیاد پر ان کے عمل سے روکا۔ بعد کے محدثین نے بھی کئی مواقع پر ان کی تحقیق کی تصدیق کی۔ مثلا
اکثر غیر مقلدین امام اعظم کے خلاف تاریخ بغداد سے ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ امام صاحب نے ایک حدیث کو سجع (شاعری کی ایک قسم ) کہہ کر رد کیا۔
أخبرنا أبو بكر البرقاني قال: قرأت على محمد بن محمود المحمودي - بمرو - حدثكم محمد بن علي الحافظ، حدثنا إسحاق بن منصور، أخبرنا عبد الصمد عن أبيه قال: ذكر لأبي حنيفة قول النبي صلى الله عليه وسلم " أفطر الحاجم والمحجوم " فقال: هذا سجع.
اب یہاں ہمارا جواب یہ ہیکہ 《 افطر الحاجم والمحجوم》 والی حدیث ہی منسوخ ہے ،
امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت پر کلام کیا ہے ، جبکہ بعض دیگر محدثین نے بھی اس صحیح سند سے مروی روایت پر کلام کیا ہے جس کی تفصیل نصب الرایہ للزیلعی میں دیکھیں ۔ مزید یہ کہ غیر مقلد البانی نے بھی اس کو منسوخ کہا ہے۔ بلکہ علل الحدیث کے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس روایت کو "باطل" کہا ہے (علل رقم 732) جو کہ سجع سے کہیں گنا زیادہ سخت لفظ ہے تو سب سے پہلے امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ پر گستاخی کا فتوی لگایا جائے ۔ لیکن وہاں متعصب اصحاب الحدیث کی زبانوں کو تالا لگ جائے گا کہ یہاں ابو حنیفہ تو ہے نہیں ، یہاں ہمارا ابو حاتم رازی رحمہ اللہ ہے ، لہذا وہ کہیں گیں کہ علل الحدیث کی وجہ سے ، اس روایت کو ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے باطل کہا ہے ، تو یہی علل اگر ابو حنفیہ رحمہ اللہ استعمال کریں تو اصحاب الحدیث کے آئمہ ، بلا سوچے سمجھے اندھی تقلید میں ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام نامی تک بگاڑنے ، لعن طعن اور کافر کہنے تک آ جاتے ہیں ، اللہ ہمیں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر تعصب کرنے والوں سے درگزر فرمائے ۔
اعتراض نمبر 53 کہ ابو حنیفہ نے حدیث کو مسجع اور ولاء کے بارہ میں حضرت عمر کے فیصلہ والی روایت کو قول شیطان کہا۔
اسی طرح امام صاحب نے سفیاں ثوری رحمہ اللہ کے تعلق سے ایک علل کی ایک بات یوں کہی کہ , ابن عدی کہتے ہیں :
"حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز، حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الحميد الحماني سمعت أبا سعد الصاغاني يقول جاء رجل إلى أبي حنيفة فقال ما ترى في الأخذ عن الثوري فقال اكتب عنه ما خلا حديث أبي إسحاق عن الحارث عن علي وحديث جابر الجعفي."
ایک شخص ابو حنیفہ کے پاس آیا اور پوچھا ثوری سے روایت لینے کے بارے میں آپکی کیا راۓ ہے ابو حنیفہ نے کہا :"کہ ان سے روایت لکھ سکتے ہو سوائے حدیث ابی اسحاق عن حارث عن علی اور جابر جعفی کی روایت سےـ" (الكامل ابن عدي ج٢ ص ٣٢٨) یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا علل الحدیث سے واقفیت کی ایک مثال ہیکہ امام صاحب نے اس وقت خاص سند کی خامی بتائی جب باقیوں کا دھیان نہ تھا ۔ اسی طرح جابر جعفی کی حقیقیت کسی پر عیاں نہ تھی یہاں تک کہ امام صاحب نے اس کو کذاب کہا اور بعد کے تمام محدثین نے اسی امام صاحب کی اس جرح کو بالکل قبول کیا ، تفصیل دیکھیں (امام ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام 393 ) لہٰذا جب بعض محدثین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعض فیصلوں پر تعجب یا اعتراض کیا، تو یہ اختلاف دراصل علمِ علل کی اُس وقت کی محدود تفہیم کی وجہ سے تھا۔
محدثین کا محاسبہ
کیا امام ابو حنیفہؒ پر ہونے والی تنقید ہمیشہ درست بنیاد پر تھی؟
بعض محدثین نے امام ابو حنیفہؒ کی رائے پر تنقید کی اور اسے ناپسندیدہ قرار دیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کا یہ مؤقف درست تھا یا نہیں؟ مثلاً امام احمدؒ نے بھی امام ابو حنیفہؒ کی رائے کو برا کہا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس تنقید کی بنیاد کا جائزہ لیں، تاکہ اصل حقیقت ہمارے سامنے آ سکے۔
جب ہم امام احمد بن حنبلؒ جیسے جلیل القدر محدث کی علمی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ ان کے زہد، تقویٰ، حفظ حدیث اور سنت سے محبت کی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ مگر جب یہی امام احمد ، امام ابو حنیفہؒ اور انکے اصحاب ( امام ابو یوسف اور امام محمد ) کے متعلق جو کچھ فرماتے ہیں اس سے امام احمد کا کچھ اور ہی ( سخت مزاجی والا ) پہلو ظاہر ہوتا ہے، ملاحظہ ہو :
سألت أحمد بن حنبل فقلت: ما تقول في أبي حنيفة؟ قال: رأيه مذموم وحديثه لا يذكر ترجمہ :- میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: آپ ابو حنیفہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ فرمایا: اس کی رائے قابل مذمت ہے اور اس کی حدیث روایت نہیں کی جاتی۔ تو ایک جستجو کرنے والا طالب علم ٹھٹھک جاتا ہے، اور سوال کرتا ہے:
کیا واقعی امام احمد کا یہ فتویٰ علمی دیانت کا عکاس ہے؟
کیا ابو حنیفہؒ کی "رائے" بدتر تھی اُن راویوں سے جنہیں امام احمد نے خود یا ان کے دیگر ساتھی جیسے امام یحیی بن معین وغیرہ نے "کذاب"، "رافضی"، "قدری"، "جہمی"، "مرجئی" اور "خبیث" جیسے الفاظ سے یاد کیا، مگر پھر بھی ان سے روایت کی؟
کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جابر الجعفی کے تعلق سے امام احمد سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا "ﻭﺇﻧﻤﺎ ﺗﺮﻙ اﻟﻨﺎﺱ ﺣﺪﻳﺚ ﺟﺎﺑﺮ ﻟﺴﻮء ﺭﺃﻳﻪ ﻛﺎﻥ ﻟﻪ ﺭﺃﻱ سوء" لوگوں نے جابر کی حدیث کو صرف اس وجہ سے چھوڑ دیا کہ اس کی رائے خراب تھی؛ اس کی رائے بُری تھی. یہاں امام احمد جابر الجعفی ( کذاب ) کی رائے کو برا بھی کہہ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی مسند میں اس سے کئی جگہ روایات بھی لائے ہیں. ایک طرف وہ راوی ہے جسکی رائے بری ہونے اور کذاب ہونے کا اقرار خود امام احمد کو ہے دوسری طرف امام ابو حنیفہ نہ جھوٹے ہیں اور نہ انکی رائے ( چاہے عقیدہ ہو یا قیاس ) وہ غلط نہیں ہیں لیکن ان سے روایات نہیں لائے. اس کے علاوہ سب سے پہلے امام احمد جس شخص کے پاس حدیث پڑھنے بیٹھے ہیں یعنی امام ابو یوسف ان کے بارے میں امام احمد سے سوال ہوا تو فرمایا : ﻭﻗﺎﻝ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: ﺳﺄﻟﺖ ﺃﺑﻲ، ﻣﻦ ﺃﺳﺪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ. ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺻﺪﻭﻗﺎ، ﻭﺃﺑﻮ ﻳﻮﺳﻒ ﺻﺪﻭﻕ، ﻭﻟﻜﻦ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻻ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﺮﻭﻯ ﻋﻨﻬﻢ ﺷﻲء. «اﻟﻌﻠﻞ» (5332)
ترجمہ :- ابو یوسف صدوق ہیں لیکن ابو حنیفہ کے اصحاب سے کچھ بھی روایت نہیں کرنا چاہیے۔
وہیں دوسری طرف جب امام احمد سے سے جابر الجعفی کے بارے میں سوال ہوا
" ﻭﻗﺎﻝ اﻟﻤﻴﻤﻮﻧﻲ: ﻗﻠﺖ (ﻳﻌﻨﻲ ﺃﺑﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ) : ﺟﺎﺑﺮ اﻟﺠﻌﻔﻲ؟ ﻗﺎﻝ ﻟﻲ: ﻛﺎﻥ ﻳﺮﻯ اﻟﺘﺸﻴﻊ. ﻗﻠﺖ: ﻳﺘﻬﻢ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ؟ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﻣﻦ ﻃﻌﻦ ﻓﻴﻪ، ﻓﺈﻧﻤﺎ ﻳﻄﻌﻦ ﺑﻤﺎ ﻳﺨﺎﻑ ﻣﻦ اﻟﻜﺬﺏ. ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻱ ﻭاﻟﻠﻪ، ﻭﺫاﻙ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﻴﻦ، ﺇﺫا ﻧﻈﺮﺕ ﺇﻟﻴﻬﺎ. «ﺳﺆﻻاﺗﻪ 466 ( موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل 186/1 )
ترجمہ :- میمونی کہتے ہیں میں نے (یعنی امام احمد بن حنبل سے) پوچھا: "جابر الجعفي (کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں)؟" تو انہوں نے فرمایا: "وہ تشیع (یعنی شیعہ نظریات) رکھتا تھا۔" میں نے پوچھا: "کیا اس کی حدیث کو جھوٹ کا الزام دیا جاتا ہے؟" تو انہوں نے مجھے جواب دیا: "جس نے اس پر طعن کیا ہے، اس نے دراصل اس چیز پر طعن کیا ہے جس کے بارے میں جھوٹ کا خدشہ ہوتا ہے۔"پھر فرمایا: "جی ہاں، اللہ کی قسم، اور یہ (جھوٹ کا اثر) اس کی حدیث میں ظاہر ہے، جب تم اسے دیکھو۔"
لیکن اس کے باوجود جابر سے جگہ جگہ مسند میں روایت لائے ہیں. کیا یہی انصاف ہے کہ جو شخص آپکا پہلا استاد ہے اور آپ کے نزدیک سچا اور حدیث میں قابل اعتبار بھی ہے لیکن آپ اس سے کچھ روایت نہیں کرتے دوسری طرف جابر الجعفی جو خود آپ کے نزدیک مجروح ہے اس سے جگہ جگہ روایات نقل کی جاتی ہیں.
ایسی ہی کچھ اور مثالیں پیش خدمت ہیں جس میں امام احمد، بدعقیدہ اور مجروح راویوں سے روایت کرتے ہیں جنہیں وہ خود "کذاب، قدری، مرجئی، شیعہ ( رافضی ) " وغیرہ مانتے ہیں:
1:- جابر بن يزيد الجعفي — جابر الجعفی کے بارے میں جب امام احمد سے پوچھا گیا " ﻓﻘﺎﻝ: ﺇﻱ ﻭاﻟﻠﻪ، ﻭﺫاﻙ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﻴﻦ، ﺇﺫا ﻧﻈﺮﺕ ﺇﻟﻴﻬﺎ. «ﺳﺆﻻاﺗﻪ 466 ( موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل 186/1 )
ترجمہ :- فرمایا: "جی ہاں، اللہ کی قسم، اور یہ (جھوٹ کا اثر) اس کی حدیث میں ظاہر ہے، جب تم اسے دیکھو۔"
لیکن اس جھوٹے راوی سے کئی احادیث اپنی مسند میں لائے ہیں (مسند أحمد ط دار الحديث: ٨٤٥، ٢١٥٣، ٢٥٢٥، ٣٢١٧، ٣٨٨٧، ٤٠٧٢، ٥٠٥٤)۔
2:- حصين بن عمر الأحمسي — جس کے بارے میں امام احمد نے کہا " ﺇﻧﻪ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺬﺏ" (الفتح الرباني ٢٣/٢٢٣، الضعفاء الكبير ١/٣١٤)،مگر اس سے روایت بھی کی (مسند أحمد ط الرسالة ١/٥٤٢)۔
3:- عمرو بن جابر الحضرمي — امام احمد کے بقول یہ حضرت جابر بن عبد الله سے مناکیر بیان کرتا ہے (تهذيب التهذيب 3/259، الجرح والتعديل 6/223)۔ لیکن اس سے کئی مقامات پر حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہی احادیث لی گئیں (مسند أحمد ٢٢/٢٠٦، ٢٢/٢٠٧، ٢٢/٣٦٣، ٢٢/٣٦٤)۔
4:- تليد بن سلیمان المحاربي — جس کو امام یحیی بن معین کذاب کہتے ہیں اور خود امام احمد جس کے بارے میں کہتے ہیں "ﻭﻫﻮ ﻋﻨﺪﻱ ﻛﺎﻥ ﻳﻜﺬﺏ " (الكامل في ضعفاء الرجال ٢/٢٨٤ ، تهذيب الكمال 4/ 320) ، لیکن پھر بھی مسند میں اس سے روایت لائے ہیں. (الكامل في ضعفاء الرجال ٢/٢٨٤، تهذيب الكمال 4/320)
بلکہ عبد الله الجديع کے مطابق:
"تَليد بن سلیمان المحاربی الکوفی ان راویوں میں سے ایک تھے جن سے امام احمد بن حنبل نے احادیث سنی تھیں، اور امام احمد نے ان کی تعریف بھی کی ہے" (تحرير علوم الحديث ١/٥٤٠)
یہاں سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ تلید بن سلیمان وہ خبیث روافضی راوی ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی پر گالیاں بکتا تھا۔ مگر اس سے روایت کرنے میں کوئی کراہت محسوس نہیں کی جاتی، بلکہ تعریف بھی کی جاتی ہے۔
عجیب نکتہ : امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، خصوصاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر سبّ و شتم (گالم گلوچ) کرنے والا شخص گویا کہ کافر یعنی اسلام سے خارج ہے۔ یہ موقف امام احمد سے صحیح اسانید کے ساتھ منقول ہے، جیسا کہ درج ذیل روایات میں واضح ہے:
٧٧٩ - أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنْ مَنْ يَشْتِمُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعَائِشَةَ؟ قَالَ: مَا أُرَآهُ عَلَى الْإِسْلَامِ ( السنة لأبي بكر بن الخلال ، سند صحیح )
ابو بکر المروذی کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے پوچھا کہ جو شخص ابوبکر، عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم کو گالی دیتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: میں اسے اسلام پر نہیں سمجھتا۔
وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «مَنْ شَتَمَ أَخَافُ عَلَيْهِ الْكُفْرَ مِثْلَ الرَّوَافِضِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ شَتَمَ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ لَا نَأْمَنُ أَنْ يَكُونَ قَدْ مَرَقَ عَنِ الدِّينِ ( السنة لأبي بكر بن الخلال ، سند صحیح )
عبدالملک بن عبد الحمید کہتے ہیں: میں نے امام احمد کو فرماتے سنا: "جو شخص (صحابہ کو) گالی دے، مجھے اس کے بارے میں کفر کا خوف ہوتا ہے، جیسے روافض۔ پھر فرمایا: جو نبی ﷺ کے صحابہ کو گالی دے، ہم اس بات سے نہیں بچ سکتے کہ وہ دین سے نکل چکا ہو۔"
٧٨١ -أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: ثنا أَبُو طَالِبٍ، أَنَّهُ قَالَ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: الرَّجُلُ يَشْتِمُ عُثْمَانَ؟ فَأَخْبَرُونِي أَنَّ رَجُلًا تَكَلَّمَ فِيهِ، فَقَالَ: هَذِهِ زَنْدَقَةٌ ( السنة لأبي بكر بن الخلال ، سند حسن )
زکریا بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ ابو طالب نے امام احمد سے پوچھا: اگر کوئی شخص حضرت عثمان کو گالی دے؟ اور مجھے بتایا گیا کہ ایک شخص نے ان کے بارے میں کچھ کہا۔ تو امام احمد نے فرمایا: یہ زندقہ (الحاد و نفاق) ہے۔
٧٨٢ - أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبِي عَنٍ رَجُلٍ شَتَمَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ: «مَا أُرَاهُ عَلَى الْإِسْلَامِ» ( السنة لأبي بكر بن الخلال ، سند صحیح )
عبداللہ بن احمد کہتے ہیں: میں نے اپنے والد (امام احمد) سے پوچھا کہ اگر کوئی نبی ﷺ کے کسی صحابی کو گالی دے؟ تو فرمایا: "میں اسے اسلام پر نہیں سمجھتا۔"
لیکن اس کے باوجود، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تلید بن سلیمان رافضی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیتا تھا، مگر امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں اس شخص سے روایت لی ( حالانکہ یہ شخص خود امام احمد کے اقوال کی روشنی میں دین سے خارج ٹھہرتا ہے ۔ دوسری طرف، انہوں نے اپنے استاذ قاضی ابو یوسف سے روایت لینے کو پسند نہیں کیا، حالانکہ انہی امام احمد نے انہیں ( روایت حدیث ) میں "صدوق" کہا ہے۔ اور امام ابو یوسف کے عقائد بھی بالکل درست ہیں.
یہ تھا محدثین کے امام، امام احمد بن حنبل کا "عدل" اور "انصاف" اہلِ رائے فقہائے احناف کے ساتھ!
رافضی تلید بن سلیمان، جو حضرت عثمانؓ جیسے جلیل القدر صحابی پر سبّ و شتم کرتا تھا — ( بقول امام احمد زندیق کی روایت قبول ) ،لیکن قاضی ابو یوسفؒ جیسے صدوق، ثقہ اور فقیہ استاد سے صرف اس لیے روایت نہ لی کہ وہ اہلِ رائے سے تھے ، ابو حنیفہ کے لائق شاگرد تھے۔
اگر عقیدے کے فاسد ہونے کے باوجود روایت قبول ہے، تو کیا صرف فقہی اختلاف روایت ترک کرنے کا جواز بن سکتا ہے؟ یا پھر یہ تسلیم کیا جائے کہ امام احمد جیسے بڑے محدث بھی احناف کے خلاف تعصب کی گرفت سے محفوظ نہ رہ سکے؟
سوال غیر مقلدین سے ہے: کیا آپ اس علمی تضاد کی کوئی معقول توجیہ پیش کر سکتے ہیں — یا صرف خاموشی ہی ایک واحد جواب ہے؟
5:- محمد بن ميسر الصاغاني — جسے یحییٰ بن معین نے "جہمی، شیطان" کہا، امام احمد خود اسے مرجئا کہتے ہیں لیکن اس ان سے روایت بھی لی ہے (تهذيب الكمال 26/535)۔
6:- محمد بن الحسن بن أتش — جسے امام احمد نے خود قدری کہا (الضعفاء للعقيلي 4/57)، مگر اسی سے روايات بيان کیں (مسند أحمد ٩/٣٨٠، ٩/٣٨١، ٩/٣٨٢، ٣٦/٤٨٢، العلل رواية عبد اللَّه 1762)۔
7:- حسان بن عطية الشامي الساحلي — جس کے عقیدے پر قدری ہونے کا الزام تھا، پھر بھی مسند احمد میں اس کی روايات موجود ہیں (مسند احمد 7006) ۔
اب آخر میں بات کرتے ہیں امام ابو حنیفہ اور انکے اصحاب ( امام ابو یوسف اور امام محمد ) کے عقیدہ ( ان کی رائے ) کے بارے میں . تو جس اعتقادی دستاویز کو اہل السنہ والجماعت کے اجماعی عقیدے کا آئینہ کہا جا سکتا ہے تو وہ "عقیدہ طحاویہ" ہے۔ امام طحاویؒ، جو تیسری صدی ہجری کے وسط میں عالم اسلام کے جید فقہاء و محدثین میں شمار ہوتے ہیں، انہوں نے اپنی اس مختصر مگر جامع کتاب میں امت کے مسلمہ عقائد کو مختصر نکات میں بیان کیا۔
لیکن قابل غور نکتہ یہ ہے کہ امام طحاویؒ نہ صرف خود حنفی المسلک تھے، بلکہ اس عقیدہ کی بنیاد انہوں نے امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، اور امام محمدؒ کے عقائد پر رکھی۔ چنانچہ انہوں نے آغاز میں واضح کیا: "هذا ذكر بيان عقيدة أهل السنة والجماعة على مذهب فقهاء الملة: أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي، وأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري، وأبي عبد الله محمد بن الحسن الشيباني رحمهم الله."
یہ اعلان اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ اور ان کے دونوں جلیل القدر تلامذہ اہل السنہ والجماعت کے معتمد عقائد پر تھے۔ نہ ان کا عقیدہ بدعت پر تھا، نہ وہ جہمی تھے، نہ مرجئی، نہ قدری، نہ اہل ضلال۔ اس لئے چاہے احناف ہوں یا شوافع، مالکی ہوں یا حنابلہ دنیا بھر کے مدارس میں "عقیدہ الطحاویہ" ہی پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے بلکہ خود غیر مقلدین کے مدارس میں بھی اسی کی شرح پڑھائی جاتی ہے.
تو جن ائمہ کے عقیدے پر بنیاد رکھ کر یہ نصاب تیار ہوا اور جن کے اقوال کو "مرجع حق" مان کر عقیدہ مرتب کیا گیا، انہی ائمہ کو بدعتی، جہمی، مرجئی، عقل پرست، اور زندیق کہنے میں کوئی جھجک نہیں کی جاتی.
کیا یہ یہی انصاف ہے کہ:
جو شخص بد عقیدہ، کذاب، راوی ضعیف، روافض، خبیث العقیدہ ہو، اس سے روایت بھی لی جائے. اور جو شخص اہل سنت کا علمبردار، فقیہ، مجتہد مطلق، زاہد، عابد، متقی، امانت دار ہو — اس پر طعن کیا جائے، اور اس کی روایات کو رد؟
تو اس پوسٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ جب امام احمد بن حنبل جیسے معتدل امام کا رویہ احناف کے تعلق سے اتنا سخت اور دوہرے معیار پر مبنی نظر آتا ہے تو جو حضرات جرح و تعدیل میں متشدد شمار کئے جاتے ہیں انکا امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف و امام محمد کے تعلق سے کتنا سخت رویہ ہوگا. اس لئے ضرورت ہے کہ ان حضرات سے مروی جروحات کو انکے علمی درجہ کی وجہ سے آنکھ بند کر کے تسلیم نہ کیا جائے بلکہ اصل حقیقت اور جرح کے پیچھے کے اسباب کو دیکھا جائے آیا کہ وہ جرح درست بھی ہے یا نہیں. اس جرح کی جو وجہ بیان کی گئی وہ صحیح ہے بھی یا نہیں. اس سے انسان کی عدالت مجروح ہوتی بھی یا نہیں. کیا جو جرح کی گئی وہ کسی غلط فہمی، تعصب، آپسی اختلافات، یا رائے کی بنیاد پر ہوئے کسی اختلاف کی بنیاد پر تو نہیں تھی. اگر ایسا ہی تھا تو ایسی جرح نہ صرف قابل ترک ہوتی بلکہ اسی بنیاد پر بعد کے محدثین یعنی امام مزی، امام ذہبی اور امام ابن حجر نے انکو اہمیت نہیں دی.
رائے کی بنیاد پر محدثین کی تنقید کا نشانہ بننے والے ثقہ و صدوق رواۃ
▪︎ قال عبد اللَّه: سمعت أبي يقول: أهل الرأي لا يروى عنهم الحديث.
امام احمد نے کہا اہل الرای سے احادیث روایت نہیں کی جائے گی. "العلل" برواية عبد اللَّه (١٧٠٧)
حالانکہ راوی کے حفظ و عدالت کے ہوتے ہوئے اہل الرائے ہونا یہ سرے سے کوئی علت ہی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس سے حدیث روایت نا کی جائے نا ہی اہل علم میں سے آج تک کسی نے صحت حدیث کے لئے ایسی کوئی شرط مقرر فرمائی ہے کہ راوی رائے و اجتھاد سے پیدل ہو۔
▪︎ شعیب ابن اسحاق جوکہ امام احمد کے نزدیک خود صاحب حفظ و عدالت تھا ان کے متعلق امام احمد سے پوچھا گیا تو جواب میں امام احمد نے کہا
وقال عبدالله في العلل ومعرفة الرجال :
3127 - وَسَأَلته عَن شُعَيْب بن إِسْحَاق قَالَ : مَا أرى بِهِ بَأْسا وَلكنه جَالس أَصْحَاب الرَّأْي كَانَ جَالس أَبَا حنيفَة . یعنی امام احمد کہتے ہیں میرے نزدیک اس راوی میں کوئی خرابی موجود نہیں ہے سوائے یہ کہ اصحاب الرائ کی مجالس اور امام ابو حنیفہ کی مجلس میں بیٹھتا تھا.
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ راوی میں ایسی کوئی خرابی موجود نہیں جس کی وجہ سے اس کی حدیث مشکوک ہو لیکن پھر بھی امام احمد رحمہ اللہ کو ان سے اصحاب الرائے کی مجالس میں بیٹھنے کا گلہ ہے ۔ یعنی ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کرنے کے قابل ہے ، وہ تمام شرائط جو محدثین رکھتے ہیں اس پر پورا اترتا ہے ، اس کے باوجود امام احمد نے اس سے خرابی یہ نکالی کہ وہ امام ابو حنیفہ کی مجلس میں بیٹھتا ہے ، یہ سراسر تعصب ہے ، ابو حنیفہ کی مجلس میں تو عبداللہ بن مبارک بھی بیٹھتے تھے ، وہی عبداللہ بن مبارک جن سے صحیح اسانید سے امام ابو حنیفہ کے مناقب منقول ہیں ۔ بہرحال امام احمد کا اہل الرائے سے رویہ غیر منصفانہ ہے۔
▪︎ امام ابو حنیفہ کے مشہور شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ کے متعلق امام احمد سے پوچھا گیا کہ محمد بن حسن شیبانی جو کہ امام ابو حنیفہ کے شاگرد ہیں اور اصحاب الرائے میں سے ہے انکے بارے میں کیا فرماتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا میں ان سے کچھ بھی روایت نہیں کرتا ۔ سألت ابی عن محمد بن الحسن صاحب ابی حنیفة صاحب الرای قال لا اروی عنه شیئا، ( العلل ومعرفۃ الرجال 5329 مع 5330)
حالانکہ امام احمد رحمہ اللہ جن کی شاگردی پر ناز کرتے تھے اور کہتے تھے کہ فقہ و حدیث صرف شافعی رحمہ اللہ میں ہے ، وہ شافعی رحمہ اللہ امام محمد بن حسن رحمہ اللہ کے گن گاتے نظر آتے ہیں ، مسند شافعی ہو یا کتاب الام ، ہر جگہ امام شافعی رحمہ اللہ ، اپنے استاد محمد بن حسن الشیبانی کی علمی جلالت کے گرویدہ پائے جاتے ہیں ، قارئین تفصیل مضمون کے آخر میں لنک پر دیکھ سکتے ہیں ۔ معلوم ہوا ، امام احمد بن حنبل کا امام محمد سے رویہ نا انصافی پر مبنی تھا اور اپنے استاد شافعی رحمہ اللہ کے موقف کے صریح مخالف تھا۔
▪︎ اسی طرح امام قاضی ابو یوسف کے جید لائق شاگرد امام ابو یعلی معلی بن منصور رحمہ اللہ ثقہ ہیں ، امام بخاری نے ان سے صحیح میں روایت لی ہے ، تمام آئمہ ان کی تعریف و توصیف کرتے نظر آتے ہیں سوائے امام احمد کے ، جنہوں نے اپنے اس انوکھے رویہ پر کوئی جواب نہیں دیا ۔ بعض کی رائے یہ ہیکہ امام احمد نے ان پر جھوٹ کی تہمت بھی لگائی تھی لیکن ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی نفی کی ہے ، البتہ امام احمد کے اقوال سے معلوم ہوتا ہیکہ چونکہ امام معلی بن منصور رازی ، حنفی تھے ، بس اسی وجہ سے انہوں نے ان سے حدیث نہ لی ۔ امام احمد کہتے تھے کہ معلی بن منصور اہل الرائے سے ہیں ، ان کی کتب تصنیف کرتے ہیں لہذا وہ جھوٹ سے بچ نہ سکتے ہیں ، یہ بھی امام احمد کا ایک غلط اندازہ ہے ، کتنے ہی لوگ امام ابو حنیفہ یا صاحبین کی مجلس میں بیٹھتے تھے ، بخاری شریف میں کتنے ہی راوی حنفی ہیں ، کیا وہ سب بھی جھوٹے تھے ؟ مکی بن ابراہیم جھوٹے تھے ؟ ابو عاصم النبیل ، عبداللہ بن مبارک ؟
▪︎ ایک مشہور ثقہ امام ہیں جن کا نام ہے حماد بن دلیل رحمہ اللہ ، خطیب بغدادی لکھتے ہیں
٤٢٠٦ - حَمَّاد بْن دليل أَبُو زيد قاضي المدائن حدث عَنْ سفيان الثوري، وعمر بْن نافع، والحسن بْن عمارة، وأبي حنيفة النعمان بْن ثابت، وَكَانَ قد أخذ الفقه عَنْ أَبِي حنيفة.
یعنی امام حماد بن دلیل نے علم فقہ امام ابو حنیفہ سے سیکھا
ان کی توثیق پیش خدمت ہے
1...امام یحی بن معین کہتے ہیں لیس به بأس ھو ثقة
دوسری جگہ کہتے ہیں حماد بن دلیل ابو زید قاضی المدائن وکان ثقة.. (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری 4/376)
2...ابن عمار کہتے ہیں حماد بن دلیل.. وکان من ثقات الناس
( تاریخ بغداد 8/148)
3...امام ابو داؤد صاحب السنن کہتے ہیں ابو زید قاضی المدائن لیس به بأس
(تاریخ بغداد 8/148)
4...امام مغلطائی کہتے ہیں ذکرہ ابو حفص ابن شاھین فی جملة الثقات قال ھو عندی فی الطبقة الثالثة من المحدثین..
(اکمال تھذیب الکمال 4/138)
5...وقال ابن ابی حاتم عن ابیه من الثقات
(اکمال تھذیب الکمال رقم 1336)
اسی طرح بہت سارے ائمہ حدیث نے اسکی توثیق کی ہے۔
اب چونکہ حماد بن دلیل جوکہ ثقہ امام ہیں انھوں نے علم فقہ امام ابو حنیفہ سے حاصل کیا تھا ، اس بنیاد پر امام احمد رحمہ اللہ رائے و قیاس کی مخالفت کے سبب ان پر جرح کرنے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ مھنی بن یحییٰ کہتے ہیں سألت احمد عن حماد بن دلیل قال کان قاضی المدائن لم یکن صاحب حدیث کان صاحب رای قلت سمعت منه شیئا قال حدیثین.
میں نے امام احمد سے پوچھا حماد بن دلیل کے بارے میں تو انھوں نے کہا کہ مدائن کے قاضی تھے لیکن صاحب حدیث نہ تھے (یعنی حدیث سے شوق و شغف نہیں رکھتے تھے) بلکہ صاحب رای تھے (یعنی قیاس و اجتھاد کے فاعل و قائل تھے) میں نے پوچھا کیا اپ نے ان سے کچھ سنا ہے امام احمد نے کہا ہاں صرف دو حدیثیں سنی ہیں۔ (موسوعة اقوال الإمام أحمد رقم 612)
حافظ ابن حجر رح انکا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ﺣﻤﺎﺩ اﺑﻦ ﺩﻟﻴﻞ ﻣﺼﻐﺮ ﺃﺑﻮ ﺯﻳﺪ ﻗﺎﺿﻲ اﻟﻤﺪاﺋﻦ ﺻﺪﻭﻕ ﻧﻘﻤﻮا ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺮﺃﻱ
تقریب التھذیب رقم 1497
یعنی حماد بن دلیل صدوق درجے کا راوی ہے رائے کی وجہ سے ان پر اعتراض کیا گیا ہے ۔
علامہ البانی رائے کے اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں قلت: وهذا ليس بجرح، فالحديث جيد الإسناد میں( البانی )کہتا ہوں یہ سرے سے جرح ہی نہیں ہے لہذا حدیث اعلی سند والی ہے انتہی (سلسلۃ الأحاديث الصحیحۃ رقم 1233) معلوم ہوا کہ رائے و اجتھاد کی مخالفت پر مبنی جرح مردود ہوتی ہے
امام ابو حنیفہؒ کی رائے کی تعریف و توصیف
أخبرنا أبو نعيم الحافظ، حدثنا محمد بن إبراهيم بن علي، حدثنا أبو عروبة الحراني قال: سمعت سلمة بن شبيب يقول: سمعت عبد الرزاق يقول: سمعت ابن المبارك يقول: إن كان أحد ينبغي له أن يقول برأيه، فأبو حنيفة ينبغي له أن يقول برأيه.
امام عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر کسی مسئلہ میں اپنی رائے سے کچھ کہنے کا حق ( اگر کسی کو ہو تو ) تو امام ابو حنیفہ
رحمہ اللّٰہ اس کے اہل (حقدار) ہیں ۔ (تاریخ بغداد)
حدثني أبي قال: حدثني أبي قال: حدثني محمد بن جعفر بن أعين قال: سمعت يعقوب بن شيبة يقول: حدثني إسحاق بن أبي إسرائيل قال: سمعت عبد الرزاق يقول: قال عبد الله بن المبارك: إن كان إلى الرأي فهو أشهدهم رأياً يعني: النعمان بن ثابت.
امام عبد اللہ ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اگر رائے (اجتہاد) کی بات ہو تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سب سے مضبوط رائے والے ہیں۔ (فضائل ابی حنیفہ رح , صفحہ 84 , سندہ صحیح)
عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں: "قول ابی حنیفہ عندنا اثر اذا لم یکن فیہ اثر" یعنی امام ابو حنیفہ کا قول ہمارے نزدیک اثر (صحابہ کے قول) کی طرح ہوتا ہے جب کوئی اثر موجود نہ ہو (فضائل ابی حنیفہ، ص84، اسنادہ صحیح)۔جب ایک جلیل القدر محدث عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ یہ فرمائیں کہ اگر کسی مسئلے میں کوئی حدیث یا صحابی کا اثر موجود نہ ہو، تو ہمارے نزدیک امام ابو حنیفہ کا قول اثر کے درجہ میں ہوتا ہے" — تو یہ محض ایک تعریفی جملہ نہیں بلکہ امام ابو حنیفہؒ کی حدیث میں ثقاہت، مہارت، اور دینی مقام کی صریح گواہی ہے۔ ان کی فقاہت، اصولی بصیرت، اور فہم الحدیث پر خود محدثین کو ایسا اعتماد تھا کہ وہ ان کے اجتہاد کو حجت مانتے تھے۔امام شافعیؒ جیسی شخصیت، جنہیں خود ائمہ فقہاء و محدثین کا پیشوا کہا جاتا ہے، کسی کی علمی عظمت کا اعتراف کرے، تو وہ صداقت کی مہر بن جاتی ہے ۔ امام شافعیؒ جنہیں امام احمد بن حنبلؒ نے نہ صرف دوسری صدی کا مجدد اور امت محمدیہ ﷺ کے لیے اللہ کی رحمت قرار دیا بلکہ ان کے قول کو حدیث کے بعد سب سے مضبوط حجت کہا: "اگر حدیث نہیں تو شافعی کا قول اور اس کی دلیل ہی سب سے مضبوط بات ہے!" (تهذيب التهذيب 3/497، تهذيب الكمال 24/355، الجرح والتعديل 7/201) ایسا جلیل القدر امام جب امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں یہ فرما دے: "میں نے ابو حنیفہؒ سے بڑا فقیہ کسی کو نہیں پایا " (تاریخ بغداد، ت بشار 474/15، سند صحیح) تو یہ صرف مدح نہیں ہے بلکہ علمی طور پر امام ابو حنیفہ کے قدر منزلت کا اعتراف ہے ۔ امام شافعیؒ نے امام مالکؒ، احمد بن حنبلؒ، اسحاق بن راہویہؒ، ابو ثورؒ سمیت بے شمار جید محدثین و فقہاء کو دیکھا، مگر فوقیت دی تو صرف امام اعظم ابو حنیفہؒ کو ۔ امام مکی بن ابراہیمؒ، جو امام بخاری کے اساتذہ میں سے ہیں، نے امام ابو حنیفہ کو "اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم" کہا (تاریخ بغداد، ج13، ص344، اسنادہ صحیح)۔جلیل القدر صحابی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پوتے، قاضی کوفہ، فقیہِ وقت اور امامِ مجتہد حضرت قاسم بن معن رحمہ اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا: "کیا آپ، جو ابنِ مسعودؓ کی نسل سے ہیں، اس بات پر راضی ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ جیسے شخص کے شاگردوں میں شامل ہوں؟" اس پر حضرت قاسم بن معنؒ نے جلال کے ساتھ فرمایا: "لوگوں نے کسی کی مجلس کو امام ابو حنیفہؒ کی مجلس سے زیادہ نفع بخش نہیں پایا" (الانتقاء 134/1 ، اسنادہ حسن)
حضرت قاسم بن معنؒ کا یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ امام ابو حنیفہؒ روایتِ حدیث اور فقہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے سچے اور مستحق علمی وارث ہیں. ابوبکر بن عیاش رحمہ اللہ کہتے ہیں: "نعمان بن ثابت (یعنی امام ابو حنیفہؒ) بہت سمجھدار تھے، اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے فقہاء میں سے تھے۔"( فضائل ابی حنیفہ رقم 103 ، اسنادہ حسن ) مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
رائے اور اجتہاد: کیا یہ صرف ابو حنیفہ کا جرم ہے؟ابن عبد البر رحمہ اللہ جن کے بارے میں امام جرح و تعدیل ، امام ذہبی فرماتے ہیں "الإمام العلامة ، حافظ المغرب ، شيخ الإسلام ، صاحب التصانيف الفائقة ، كان إمامًا دَيِّنًا، ثِقة، مُتْقِنًا، علامةً، مُتبَحِّرًا، صاحِبَ سُنة واتباع " (سیر 158-18/153 ) ، قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں " شيخ علماء الأندلس وكبير محدثيها في وقته، وأحفظ من كان بها لسُنّةٍ مَشْهورة " ( ترتيب المدارك ٨/ ١٢٧ )
امام ابن عبدالبر لکھتے ہیں : " وأفرط أصحاب الحديث في ذم أبي حنيفة رحمه الله وتجاوزوا الحد في ذلك ، والسبب الموجب لذلك عندهم إدخاله الرأي والقياس على الآثار واعتبارهما ، وأكثر أهل العلم يقولون : إذا صح الأثر من جهة الإسناد بطل القياس والنظر ، وكان رده لما رد من الأحاديث بتأويل محتمل ، وكثير منه قد تقدمه إليه غيره وتابعه عليه مثله ممن قال بالرأي ، وجل ما يوجد له من ذلك ما كان منه اتباعا لأهل بلده كإبراهيم النخعي وأصحاب ابن مسعود إلا أنه أغرق وأفرط في تنزيل النوازل هو وأصحابه والجواب فيها برأيهم واستحسانهم ، فيأتي منهم من ذلك خلاف كثير للسلف وشنع هي عند مخالفيهم بدع وما أعلم أحدا من أهل العلم إلا وله تأويل في آية أو مذهب في سنة رد من أجل ذلك المذهب بسنة أخرى بتأويل سائغ أو ادعاء نسخ ، إلا أن لأبي حنيفة من ذلك كثيرا وهو يوجد لغيره قليلا " . (جامع بیان العلم وفضلہ 2/1079)
امام ابن عبدالبر کے کلام کا خلاصہ :
▪︎ اصحاب الحدیث نے بے اعتدالی اور بے انصافی سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کی ہے۔
▪︎امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اگر کسی حدیث کو رد کیا ہے تو اس کی کوئی تاویل کی ہے ، جو انوکھی بات نہیں کہ صرف انہوں نے ہی کی ہو ، بلکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پہلے بھی علماء یہی کرتے تھے جیسے ان کے شہر کے ابراہیم نخعی اور اصحاب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ، لہذا ان پر طعن و تشنیع جائز نہیں۔
▪︎واقعات فرض کر کے ان سے مسائل اخد کرنا ، ناسخ منسوخ کا حکم لگانا اور تاویل کرنا ، کون سے اہل علم ایسے ہیں جنہوں نے یہ سب نہیں کیا ؟ ابو حنیفہ نے کوئی بدعت تو نہیں کی ۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ جن کے بارے میں امام جرح و تعدیل ، امام ذہبی فرماتے ہیں "الإمام العلامة ، حافظ المغرب ، شيخ الإسلام ، صاحب التصانيف الفائقة ، كان إمامًا دَيِّنًا، ثِقة، مُتْقِنًا، علامةً، مُتبَحِّرًا، صاحِبَ سُنة واتباع " (سیر 158-18/153 ) ، قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں " شيخ علماء الأندلس وكبير محدثيها في وقته، وأحفظ من كان بها لسُنّةٍ مَشْهورة " ( ترتيب المدارك ٨/ ١٢٧ )
امام ابن عبدالبر لکھتے ہیں : " وأفرط أصحاب الحديث في ذم أبي حنيفة رحمه الله وتجاوزوا الحد في ذلك ، والسبب الموجب لذلك عندهم إدخاله الرأي والقياس على الآثار واعتبارهما ، وأكثر أهل العلم يقولون : إذا صح الأثر من جهة الإسناد بطل القياس والنظر ، وكان رده لما رد من الأحاديث بتأويل محتمل ، وكثير منه قد تقدمه إليه غيره وتابعه عليه مثله ممن قال بالرأي ، وجل ما يوجد له من ذلك ما كان منه اتباعا لأهل بلده كإبراهيم النخعي وأصحاب ابن مسعود إلا أنه أغرق وأفرط في تنزيل النوازل هو وأصحابه والجواب فيها برأيهم واستحسانهم ، فيأتي منهم من ذلك خلاف كثير للسلف وشنع هي عند مخالفيهم بدع وما أعلم أحدا من أهل العلم إلا وله تأويل في آية أو مذهب في سنة رد من أجل ذلك المذهب بسنة أخرى بتأويل سائغ أو ادعاء نسخ ، إلا أن لأبي حنيفة من ذلك كثيرا وهو يوجد لغيره قليلا " . (جامع بیان العلم وفضلہ 2/1079)
امام ابن عبدالبر کے کلام کا خلاصہ :
▪︎ اصحاب الحدیث نے بے اعتدالی اور بے انصافی سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کی ہے۔
▪︎امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اگر کسی حدیث کو رد کیا ہے تو اس کی کوئی تاویل کی ہے ، جو انوکھی بات نہیں کہ صرف انہوں نے ہی کی ہو ، بلکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پہلے بھی علماء یہی کرتے تھے جیسے ان کے شہر کے ابراہیم نخعی اور اصحاب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ، لہذا ان پر طعن و تشنیع جائز نہیں۔
▪︎واقعات فرض کر کے ان سے مسائل اخد کرنا ، ناسخ منسوخ کا حکم لگانا اور تاویل کرنا ، کون سے اہل علم ایسے ہیں جنہوں نے یہ سب نہیں کیا ؟ ابو حنیفہ نے کوئی بدعت تو نہیں کی ۔
خلاصہ کلام :
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے اور قیاس نہ صرف شرعی اصولوں پر مبنی تھے بلکہ ان کی علمی عظمت کو معاصر اور بعد کے جید علماء نے دل و جان سے تسلیم کیا۔ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنی رائے سے کچھ کہنے کا حقدار ہے تو وہ امام ابو حنیفہ ہیں، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے انہیں اپنے زمانے کا سب سے بڑا فقیہ قرار دیا۔ اسی طرح مکی بن ابراہیم اور قاسم بن معن جیسے علماء نے ان کی فقہی بصیرت اور حدیثی مہارت کی کھل کر تعریف کی۔ امام ابو حنیفہ کی رائے قرآن و سنت سے اخذ کردہ تھی اور ان کا قیاس دین کے تحفظ اور جدید مسائل کے حل کے لیے ایک ناگزیر ذریعہ تھا۔ عقیدہ طحاویہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کا منہج اہل السنت والجماعت کے عین مطابق تھا۔ لہٰذا، ان پر کیے گئے اعتراضات یا تو غلط فہمیوں کا نتیجہ تھے یا تعصب کی عکاسی کرتے تھے۔ امام اعظم کی علمی میراث آج بھی فقہ اسلامی کی بنیاد ہے، اور ان کی خدمات امت کے لیے مشعل راہ ہیں۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے اور قیاس نہ صرف شرعی اصولوں پر مبنی تھے بلکہ ان کی علمی عظمت کو معاصر اور بعد کے جید علماء نے دل و جان سے تسلیم کیا۔ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنی رائے سے کچھ کہنے کا حقدار ہے تو وہ امام ابو حنیفہ ہیں، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے انہیں اپنے زمانے کا سب سے بڑا فقیہ قرار دیا۔ اسی طرح مکی بن ابراہیم اور قاسم بن معن جیسے علماء نے ان کی فقہی بصیرت اور حدیثی مہارت کی کھل کر تعریف کی۔ امام ابو حنیفہ کی رائے قرآن و سنت سے اخذ کردہ تھی اور ان کا قیاس دین کے تحفظ اور جدید مسائل کے حل کے لیے ایک ناگزیر ذریعہ تھا۔ عقیدہ طحاویہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کا منہج اہل السنت والجماعت کے عین مطابق تھا۔ لہٰذا، ان پر کیے گئے اعتراضات یا تو غلط فہمیوں کا نتیجہ تھے یا تعصب کی عکاسی کرتے تھے۔ امام اعظم کی علمی میراث آج بھی فقہ اسلامی کی بنیاد ہے، اور ان کی خدمات امت کے لیے مشعل راہ ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں