اعتراض نمبر 81: کہ مالک بن انس سے کعب کے اس قول کے متعلق پوچھا گیا جو اس نے حضرت عمر کے سامنے کہا تھا کہ عراق میں لاعلاج بیماری ہے تو اس نے کہا کہ اس سے مراد دین میں ہلاکت ہے اور ان میں سے ابو حنیفہ بھی ہے۔
اعتراض نمبر 81:
کہ مالک بن انس سے کعب کے اس قول کے متعلق پوچھا گیا جو اس نے حضرت عمر کے سامنے کہا تھا کہ عراق میں لاعلاج بیماری ہے تو اس نے کہا کہ اس سے مراد دین میں ہلاکت ہے اور ان میں سے ابو حنیفہ بھی ہے۔
أخبرنا إبراهيم بن مخلد المعدل، حدثنا محمد بن أحمد بن إبراهيم الحكيمي، حدثنا القاسم بن المغيرة الجوهري، حدثنا مطرف أبو مصعب الأصم قال: سئل مالك بن أنس عن قول عمر - في العراق - بها الداء العضال. قال: الهلكة في الدين ومنهم أبو حنيفة.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ خطیب نے ایک اور خبر امام مالک سے ابن رزق کے طریق سے نقل کی ہے کہ ابو معمر نے ولید بن مسلم سے روایت کی ہے کہ مجھے مالک نے کہا۔
کیا تمہارے اندر کوئی ایسا آدمی ہے جو ابو حنیفہ کے نظریہ کے مطابق کلام کرتا ہو؟
تو میں نے کہا ہاں تو اس نے کہا کہ تمہارے شہر میں رہنا ہی مناسب نہیں ہے[1]۔
پھر خطیب نے الصواف عبد اللہ بن احمد ابو محمد ولید بن مسلم کی سند سے اس جیسی ایک اور خبر نقل کی ہے[2]۔
اور پہلی سند میں محمد بن احمد الحکیمی ہے۔ البرقانی نے کہا کہ اس کی احادیث میں منکر باتیں ہوتی تھیں[3]۔
اور اس کا راوی ابو مصعب مطرف الاصم کے بارہ میں ابن عدی نے کہا کہ وہ ابن ابی ذٸب اور مالک سے منکر روایات کرتا تھا۔
اسی لیے ابو الولید الباجی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
اور دوسری سند میں ابن رزق اور ابو معمر اسماعیل بن ابراہیم الہذلی الہروی ہے اور یہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے آزمائش کے دور میں حکومتی نظریہ قبول کر لیا تھا اور کہا کفرنا و خرجنا کہ ہم نے کفر اختیار کیا اور بچ نکلے۔ اور کہا جاتا ہے کہ ابن معین نے کہا کہ یہ الہذلی رقہ کی طرف چلا گیا تھا اور اس نے پانچ ہزار حدیثیں بیان کیں تو ان میں سے تین ہزار میں غلطیاں کیں۔
اور اس کا راوی ولید بن مسلم جو ہے اس کے بارہ میں ابن عدی نے کہا کہ یہ تدلیس فاحش کیا کرتا تھا[4]۔
اور تیسری خبر میں عبد اللہ بن احمد ان دونوں (ابو معمر اور ولید بن مسلم) کے ساتھ ہے تو یہ سندیں ہی ببانگ دہل کہہ رہی ہیں کہ بے شک یہ خبر امام مالک سے ثابت ہی نہیں ہے[5]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1] - أخبرنا ابن رزق، أخبرنا محمد بن عبد الله بن إبراهيم، حدثنا جعفر بن محمد بن الحسن القاضي، حدثنا إبراهيم بن عبد الرحيم، حدثنا أبو معمر، حدثنا الوليد بن مسلم قال: قال لي مالك بن أنس: أيتكلم برأي أبي حنيفة عندكم؟
قلت: نعم! قال: ما ينبغي لبلدكم أن تسكن.
[2] - أخبرنا علي بن محمد المعدل، أخبرنا محمد بن أحمد بن الحسن الصواف، أخبرني عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثنا أبو معمر عن الوليد بن مسلم قال: قال لي مالك بن أنس: أيذكر أبو حنيفة ببلدكم؟ قلت: نعم! قال: ما ينبغي لبلدكم أن تسكن.
[3] - محمد بن أحمد بن إبراهيم بن قريش بن حازم بن صبح بن صباح
أبو بكر البرقاني : ثقة إلا أنه يروي مناكير
الخطيب البغدادي : قد اعتبرت أنا حديثه فقلما رأيت فيه منكرا
( لسان المیزان 6/511 )
[4]۔ ہماری تحقیق میں یہ روایت صرف ولید بن مسلم ہی کے واسطہ سے منقول ہے اور خود غیر مقلدین کے نزدیک ولید بن مسلم ضعیف ہیں ، ملاحظہ ہو۔
" ولید نے صرف امام اوزاعی ہی سے ضعیف اور موضوع حدیثیں نہیں روایت کی ہیں، بلکہ امام مالک سے بھی اس طرح کی بے اصل حدیثی
(غیر مقلد ڈاکٹر سیّد سعید احسن عابدی : روشنی ص 166 ، 167 ، )
لہذا غیر مقلدین کے اصول کے مطابق یہ روایت ضعیف ہے
[5].امام مالک رحمہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ :
محدث و مجتہد ، امام مالک رحمہ اللہ کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ، آپ رحمہ اللہ کہ فقہ ، فقہ حنفی سے کافی مماثلت رکھتی ہے ، فقہ کا ہر طالب علم یہ بات اچھی طرح جانتا ہے ۔ بعض لوگ امام مالک رحمہ اللہ سے امام اعظم پر جروحات پیش کرتے ہیں ، ذیل میں ان کا جائزہ لیا جائے گا۔
جروحات کی وجوہات :
وجہ نمبر 1: قیاس
دیگر محدثین عظام کی طرح امام مالک رحمہ اللہ بھی ابتداء میں قیاس شرعی کو دین میں ذاتی رائے کی وجہ سے پسند نہ کرتے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تب تک " قیاس شرعی " باقاعدہ ایک علم بن کر سامنے نہ آیا تھا ۔
چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے قیاس کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر چند جروحات کیں ہیں۔
حدثنا عبد الوارث بن سفيان ثنا قاسم بن أصبغ ووهب بن مسرة قالا نا ابن وضاح ثنا أبو جعفر بن سعيد بن الهيثم الأيلي قال أخبرنا عبد الله بن مسلمة القعنبي قال: سمعت مالكًا يقول: ما زال هذا الأمر معتدلًا حتى نشأ أبو حنيفة فأخذ فيهم بالقياس فما أفلح ولا أنجح
قال ابن وضاح: وسمعت أبا جعفر الأيلي يقول: سمعت خالد بن نزار يقول: سمعت مالكًا يقول: لو خرج أبو حنيفة على هذه الأمة بالسيف كان أيسر عليهم مما أظهر فيهم من القياس والرأي.
( جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر 2/1079 )
مفہوم یہ کہ امام مالک نے کہا کہ ابو حنیفہ کا قیاس اور رائے کرنا زیادہ خطرناک ہے بنسبت کہ وہ تلوار لیکر امت کے خلاف نکلتے ، امت ٹھیک تھی جب تک ابو حنیفہ کا قیاس نہ تھا۔
جواب:
یہ جروحات مردود ہے۔
اول : جیسا کہ 2 مالکی آئمہ نے تصریح کی ہے جن کی تفصیل یہ ہے
1۔ محدث ابو الولید الباجی مالکی (المنتقی 7/300)
2۔محدث ابن عبد البر مالکی
(جامع بیان العلم 2/1079)
یہاں ہم ابن عبد البر رحمہ اللہ کی عبارت پیش کرتے ہیں۔
جن کے بارے میں امام جرح و تعدیل ، امام ذہبی فرماتے ہیں
"الإمام العلامة ، حافظ المغرب ، شيخ الإسلام ، صاحب التصانيف الفائقة ، كان إمامًا دَيِّنًا، ثِقة، مُتْقِنًا، علامةً، مُتبَحِّرًا، صاحِبَ سُنة واتباع " (سیر 158-18/153 ) ،
قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں
" شيخ علماء الأندلس وكبير محدثيها في وقته، وأحفظ من كان بها لسُنّةٍ مَشْهورة "
( ترتيب المدارك ٨/ ١٢٧ )
امام ابن عبدالبر لکھتے ہیں :
" وأفرط أصحاب الحديث في ذم أبي حنيفة رحمه الله وتجاوزوا الحد في ذلك ، والسبب الموجب لذلك عندهم إدخاله الرأي والقياس على الآثار واعتبارهما ، وأكثر أهل العلم يقولون : إذا صح الأثر من جهة الإسناد بطل القياس والنظر ، وكان رده لما رد من الأحاديث بتأويل محتمل ، وكثير منه قد تقدمه إليه غيره وتابعه عليه مثله ممن قال بالرأي ، وجل ما يوجد له من ذلك ما كان منه اتباعا لأهل بلده كإبراهيم النخعي وأصحاب ابن مسعود إلا أنه أغرق وأفرط في تنزيل النوازل هو وأصحابه والجواب فيها برأيهم واستحسانهم ، فيأتي منهم من ذلك خلاف كثير للسلف وشنع هي عند مخالفيهم بدع وما أعلم أحدا من أهل العلم إلا وله تأويل في آية أو مذهب في سنة رد من أجل ذلك المذهب بسنة أخرى بتأويل سائغ أو ادعاء نسخ ، إلا أن لأبي حنيفة من ذلك كثيرا وهو يوجد لغيره قليلا " .
(جامع بیان العلم وفضلہ 2/1079)
امام ابن عبدالبر کے کلام کا خلاصہ :
▪︎ اصحاب الحدیث نے بے اعتدالی اور بے انصافی سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کی ہے۔
▪︎امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اگر کسی حدیث کو رد کیا ہے تو اس کی کوئی تاویل کی ہے ، جو انوکھی بات نہیں کہ صرف انہوں نے ہی کی ہو ، بلکہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے پہلے بھی علماء یہی کرتے تھے جیسے ان کے شہر کے ابراہیم نخعی اور اصحاب ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کیا تھا ، لہذا ان پر طعن و تشنیع جائز نہیں۔
▪︎واقعات فرض کر کے ان سے مسائل اخد کرنا ، ناسخ منسوخ کا حکم لگانا اور تاویل کرنا ، کون سے اہل علم ایسے ہیں جنہوں نے یہ سب نہیں کیا ؟ ابو حنیفہ نے کوئی بدعت تو نہیں کی ۔
دوم : جس طرح ابتداء میں رواة کے حالات بیان کرنے کو بعض لوگ غیبت سمجھتے تھے ویسے ہی ابتداء میں بعض محدثین قیاس شرعی کو دین میں ذاتی رائے کہہ کر مذمت کرتے تھے ۔
ابتداء میں جب علم قیاس معروف نہ تھا تو محدثین یہ سمجھ رہے تھے کہ قیاس محض رائے ہے اور دین میں رائے کی کوئی اہمیت نہیں ، لیکن جیسے جیسے علم قیاس مدون ہوا اور مشہور ہوا تو بعد کے محدثین قیاس اور رائے کو برا نہ سمجھتے تھے ، یہی وجہ ہیکہ امام شافعی اور امام احمد بھی قیاس کرتے تھے ، قیاس کے منکر اہل ظواہر تھے جن کی فقہ کب کی ختم ہو گئی ۔
حدثني عمرو بن علي وحسن الحلواني كلاهما، عن عفان بن مسلم، قال: كنا عند إسماعيل ابن علية، فحدث رجل عن رجل، فقلت: إن هذا ليس بثبت، قال: فقال الرجل: اغتبته؟ قال إسماعيل: ما اغتابه، ولكنه حكم انه ليس بثبت.
عفان بن مسلم سے روایت ہے، ہم اسمٰعیل بن علیہ کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص نے دوسرے شخص سے ایک حدیث روایت کی۔ میں نے کہا: وہ معتبر نہیں۔ وہ شخص بولا: تو نے اس کی غیبت کی۔ اسمٰعیل نے کہا: اس نے غیبت نہیں کی بلکہ حکم لگایا اس پر کہ وہ معتبر نہیں۔ (مقدمہ صحیح مسلم رقم 84)
محدثین نے خود لکھا کہ علم الجرح و التعدیل حدیث نبوی کی حفاظت کا ذریعہ ہے ، غیر عادل راویوں کے عیوب و نقائص بیان کرنا ، دین و شریعت کی حفاظت اور مدافعت کے لیے ضروری ہے ، غیبت نہیں ہے بلکہ ایک دینی فریضہ اور شرعی ضرورت ہے جس کے پورا کرنے پر اجروثواب ملے گا۔
اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کیلئے فقہاء نے رائے اور قیاس کا بھی سہارہ لیا ورنہ آج فقہ اسلامی مکمل طور پر مدون نہ ہوتا ، روز مرہ کے جدید مسائل پیش آتے اور ان کو حل موجود نہ ہوتا جیسا کہ آج بھی غیر مقلدین جدید فقہی مسائل میں کبھی حنفیوں کے در در جاتے ہیں کبھی شوافع وغیرہ کے ۔ اگر ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر مجتہدین نے قیاس کو استعمال کر کے دین کو تباہ کیا ہے تو معترض کو چاہیے کہ وہ صرف قرآن و حدیث سے ہی تمام جدید فقہی مسائل کا جواب دیکر امت اور دین اسلام کو مزید تباہ ہونے سے بچائے ، لیکن معترض صرف اعتراض کرنا جانتے ہیں ، مسائل کا حل ان کے پاس نہیں۔
سوم : امام مالک رحمہ اللہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی کتب سے علمی طور پر استفادہ فرماتے تھے
(فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ص 235 ، اسنادہ حسن ، الاجماع شمارہ 14 ص 59 )
معلوم ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ کی رائے اور قیاس کو اچھا سمجھتے تھے ، تبھی ابو حنیفہ سے استفادہ کرتے تھے ،
خلاصہ کلام:
امام مالک رحمہ اللہ نے قیاس کی وجہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کی ، لیکن جب قیاس شرعی کی حقیقت سامنے آئی تو ، نہ صرف امام مالک نے قیاس کو مسائل میں استعمال کیا بلکہ امام امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے علمی استفادہ بھی کیا ۔
نکتہ :
بہت سے غیر مقلد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف بیع خیار والی روایت پیش کرتے ہیں ، اور بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ امام مالک جس روایت کو موطا میں ذکر کریں ، اس پر ضرور عمل کرتے ہیں ، جب کہ بیع خیار کی روایت موطا میں موجود ہے
(موطا امام مالك رواية ابن القاسم رقم 488)
لیکن اس مسئلے پر امام مالک رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ساتھ ہیں
( عبدالعزيز علوي غیر مقلد : فوائد و مسائل تحت الحديث مسلم رقم 3855
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم حدیث/صفحہ نمبر: 3855 )
غیر مقلدین کیا امام مالک پر حدیث مخالفت کا الزام لگائیں گے ؟
کیا امام مالک رحمہ اللہ پر قیاس کی وجہ سے صحیح حدیث چھوڑنے کا الزام لگائیں گے ؟
بہرحال جرح کی وجہ نمبر 1 کے متعلق مزید تفصیل کیلئے دیکھیں الاجماع شمارہ نمبر 14 میں "امام مالک کے نزدیک امام ابو حنیفہ ثقہ ہیں۔ "
وجہ نمبر 2 : خشیت باری تعالی
دوسری وجہ امام مالک رحمہ اللہ کا تقوی ، خوف الہی و خشیت باری تعالی تھی کہ قیاس شرعی سے جن مسائل کو امام مالک رحمہ اللہ نے مدون کروایا تھا ، آپ رحمہ اللہ اس خوف سے روتے تھے کہ کہیں وہ مسائل غلط نہ ہوں ، حالانکہ اگر مسائل غلط بھی ہوں تب بھی امام مالک ایک اجر کے مستحق تھے
(صحیح مسلم 4487 )
لیکن کمال تقوی و ورع کی وجہ سے وہ قیاس استعمال کرنے کے بعد خشیت رکھنے لگے ،
جیسا کہ حدیث سے ثابت ہیکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے ڈرنے کے بارے میں بیان فرمایا تو ایک صحابی حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کاش میں ایک درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا
(سنن ابن ماجہ 4190 ، حسن)
قارئین ، جب صحابی ، جن سے جنت کا وعدہ ہو چکا ہے ، اللہ ان سے راضی ہیں ، لیکن وہ پھر بھی کمال تقوی کی وجہ سے اس قسم کے الفاظ ادا کر رہے ہیں تو ، معلوم ہو جاتا ہیکہ ان کے تقوی کا معیار کتنا زبردست ہو گا ، اس قسم کے الفاظ دیگر صحابہ کرام سے بھی منقول ہیں ۔
اب یہی تقوی امام مالک رحمہ اللہ میں بھی تھا کہ انہوں نے قیاس شرعی کا استعمال کر کے دین سے مسائل اخذ کئے تھے جو کہ بالکل بھی غلط کام نہیں لیکن کمال تقوی کی وجہ سے وہ ڈرتے تھے ، جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے استفادہ کرتے تھے اور اہل الرائے قیاس شرعی میں خاص مہارت رکھتے تھے ، امام مالک سے منقول ہیکہ ان سے معلوم کیا گیا کہ آپ نے ابو حنیفہ کو دیکھا ہے؟ فرمایا جی ہاں میں نے ان کو ایسا پایا کہ اگر وہ اس لکڑی کے ستون کے متعلق تم سے دعویٰ کرتے کہ یہ سونے کا ہے تو اس کو دلیل سے سونے کا ثابت کر دیتے۔
سب سے پہلے یہ روایت ملاحظہ ہو۔
٢٠٨١ - أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ لُبَابَةَ، ثنا مَالِكُ بْنُ عَلِيٍّ الْقُرَشِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مَالِكٍ فَوَجَدْتُهُ بَاكِيًا فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ ثُمَّ سَكَتَ عَنِّي يَبْكِي فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ مَا الَّذِي يُبْكِيكَ؟ قَالَ لِي: «يَا ابْنَ قَعْنَبٍ إِنَّا لِلَّهِ عَلَى مَا فَرَطَ مِنِّي، لَيْتَنِي جُلِدْتُ بِكُلِّ كَلِمَةٍ تَكَلَّمْتُ بِهَا فِي هَذَا الْأَمْرِ بِسَوْطٍ وَلَمْ يَكُنْ فَرَطَ مِنِّي مَا فَرَطَ مِنْ هَذَا الرَّأْيِ وَهَذِهِ الْمَسَائِلِ، وَقَدْ كَانَ لِي سَعَةٌ فِيمَا سُبِقْتُ إِلَيْهِ»
مفہوم : عبداللہ بن مسلمہ القعنبی کا بیان ہے ایک مرتبہ میں امام مالک ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا وہ رو رہے تھے میں نے سلام کیا ، انہوں نے جواب تو دے دیا ، مگر روتے رہے میں نے کہا: کیا صدمہ پہنچا ہے کہ آپ اس طرح آب دیدہ ہیں ؟ تو فرمایا: بھائی میرا معاملہ اب خدا ہی کے ہاتھ ہے ، مجھ سے بہت زیادتی ہو چکی ہے ۔ کاش اس معاملے میں میرے لفظ لفظ پر ایک ایک کوڑا مجھے مارا جاتا اور میں نے اپنی رائے سے کچھ نہ کہا ہوتا ، اتنے بہت سے فتوے نہ دیئے ہوتے
اگلے بزرگ (پہلے گزرے ہوئے) جو کچھ بیان کر گئے ہیں اس میں میرے لیے بڑی گنجائش تھی!
(یعنی انکے اقوالات پر اکتفاء کرتا اپنا قیاس پیش نہ کرتا )
( جامع بيان العلم وفضله برقم:2081 وسندہ حسن)
یعنی اخیر عمر میں امام مالک رحمہ اللہ جب فقہ مدون کر چکے تھے ، تب ان کو تقوی کی وجہ سے قیاس شرعی پر خوف ہوتا تھا ، حالانکہ وہ غلط نہ تھے ، اس کے باوجود ڈرتے تھے ، اسی وجہ سے انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر بھی جرح کی .
امام مالک سے جروحات ملاحظہ ہوں (اصل جرح صرف دو ہیں کہ ابو حنیفہ دین سے دھوکہ کرنے والا ہے ، دوسرا یہ کہ عراق کی لا علاج بیماری ہے اور ابو حنیفہ بھی عراق والوں میں سے ہے ، مختلف کتب میں مختلف سندوں سے صرف یہی دو روایتیں بیان ہوئی ہیں ، اس کے علاوہ جو روایتیں ہیں یا تو ضعیف ہیں یا ان کا جواب ہو چکا ہے ، تفصیلی حوالہ جات اخیر میں ذکر کئے جائے گے)
قال ابن عدي (ج٧ص٢٤٧٣):
ثنا ابن أبي داود ثنا الربيع بن سليمان الحيري عن الحارث بن مسكين عن ابن القاسم قال: قال مالك: الداء العضال الهلاك في الدين وأبو حنيفة من الداء العضال.
* قال أحمد في «العلل» (ج٢ص٥٤٧):
قال منصور : وسمعت مالك بن أنس وذكر أبا حنيفة فقال: كاد الدين.
و(ج٣ص١٦٤) وفيه: كاد الدين كاد الدين.
* قال الإمام أحمد في «العلل» (ج١ص٤٨٦):
حدثنا عبد الله بن إدريس قال: قلت لمالك بن أنس: كان عندنا علقمة والأسود فقال: قد كان عندكم من قلب الأمر هكذا.
قال عبد الله بن أحمد: وقلب أبي كفه على ظهرها.
* قال أبو نعيم في «الحلية» (ج٦ص٣٢٥):
حدثنا سليمان بن أحمد ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثني منصور بن أبي مزاحم قال: سمعت مالك بن أنس، وذكر أبو حنيفة فقال: كاد الدين ومن كاد الدين فليس من أهله.
قال الخطيب (ج١٣ ص٤٢١):
أنبأنا علي بن محمد المعدل أخبرنا أبو علي بن الصواف أخبرنا عبد الله بن أحمد حدثنا منصور بن أبي مزاحم قال سمعت مالك بن أنس وذكر أبا حنيفة فقال: كاد الدين كاد الدين.
* وقال الخطيب (ج١٣ص٤٢٢):
أخبرنا رزق أخبرنا أبو بكر الشافعي حدثنا جعفر بن محمد بن الحسن القاضي قال سمعت منصور بن أبي مزاحم يقول: سمعت مالكًا يقول: إن أبا حنيفة كاد الدين ومن كاد الدين ليس له دين.
وقال جعفر: حدثنا الحسن بن علي الحلواني قال: سمعت مطرفًا يقول: سمعت مالكًا يقول: الداء العضال العضال الهلاك في الدين، وأبو حنيفة من الداء العضال.
قال الخطيب (ج١٣ ص٤٠٠):
أنبأنا علي بن محمد المعدل أخبرنا أبو علي بن الصواف أخبرنا عبد الله بن أحمد بن حنبل حدثنا منصور بن أبي مزاحم قال سمعت مالك بن أنس - وذكر أبا حنيفة - فقال: كاد الدين كاد الدين.
جواب :
کیا یہ جروحات قابل قبول ہیں ؟
ہر گز نہیں کیونکہ سب سے پہلے تو خود مالکیہ نے ان جروحات کا رد کیا ہے جیسا کہ وجہ نمبر 1 کے شروع میں ابن عبد البر اور امام الباجی رحمہ اللہ سے حوالہ دیا گیا ہے۔
اب یہاں امام ابو الولید الباجی کی عبارت پیش کرتے ہیں
امام ابو الولید الباجی کا تعارف امام ذہبی یوں کرواتے ہیں
الإمام العلامة ، الحافظ ، ذو الفنون ، القاضي (سیر 18/535 )
، وہ لکھتے ہیں کہ
وَقَدْ رَوَى عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ أَخْبَرَنِي مُطَرِّفٌ أَنَّهُمْ سَأَلُوا مَالِكًا عَنْ تَفْسِيرِ الدَّاءِ الْعُضَالِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَذَلِكَ أَنَّهُ ضَلَّلَ النَّاسَ بِوَجْهَيْنِ بِالْإِرْجَاءِ وَبِنَقْضِ السُّنَنِ بِالرَّأْيِ.
وَقَالَ أَبُو جَعْفَرٍ الدَّاوُدِيُّ هَذَا الَّذِي ذَكَرَهُ ابْنُ حَبِيبٍ إنْ كَانَ سَلِمَ مِنْ الْغَلَطِ وَثَبَتَ فَقَدْ يَكُونُ ذَلِكَ مِنْ مَالِكٍ فِي وَقْتِ حَرَجٍ اضْطَرَّهُ لِشَيْءٍ ذُكِرَ لَهُ عَنْهُ مِمَّا أَنْكَرَهُ فَضَاقَ بِهِ صَدْرُهُ فَقَالَ ذَلِكَ، وَالْعَالِمُ قَدْ يَحْضُرُهُ ضِيقُ صَدْرٍ فَيَتَقَوَّلُ مَا يَسْتَغْفِرُ اللَّهَ عَنْهُ بَعْدَ وَقْتٍ إذَا زَالَ غَضَبُهُ.
قَالَ الْقَاضِي أَبُو الْوَلِيدِ ﵁ وَعِنْدِي أَنَّ هَذِهِ الرِّوَايَةَ غَيْرُ صَحِيحَةٍ عَنْ مَالِكٍ؛ لِأَنَّ مَالِكًا ﵁ عَلَى مَا يُعْرَفُ مِنْ عَقْلِهِ وَعِلْمِهِ وَفَضْلِهِ وَدِينِهِ وَإِمْسَاكِهِ عَنْ الْقَوْلِ فِي النَّاسِ إلَّا بِمَا يَصِحُّ عِنْدَهُ وَثَبَتَ لَمْ يَكُنْ لِيُطْلِقَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ مَا لَمْ يَتَحَقَّقْهُ وَمِنْ أَصْحَابِ أَبِي حَنِيفَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَقَدْ شُهِرَ إكْرَامُ مَالِكٍ لَهُ وَتَفْضِيلُهُ إيَّاهُ، وَقَدْ عُلِمَ أَنَّ مَالِكًا ذَكَرَ أَبَا حَنِيفَةَ بِالْعِلْمِ بِالْمَسَائِلِ وَأَخَذَ أَبُو حَنِيفَةَ عَنْهُ أَحَادِيثَ وَأَخَذَ عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمُوَطَّأَ وَهُوَ مِمَّا أَرْوِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ عَبْدِ بْنِ أَحْمَدَ ﵁، وَقَدْ شُهِرَ تَنَاهِي أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْعِبَادَةِ وَزُهْدُهُ فِي الدُّنْيَا، وَقَدْ اُمْتُحِنَ وَضُرِبَ بِالسَّوْطِ عَلَى أَنْ يَلِيَ الْقَضَاءَ فَامْتَنَعَ، وَمَا كَانَ مَالِكٌ لِيَتَكَلَّمَ فِي مِثْلِهِ إلَّا بِمَا يَلِيقُ بِفَضْلِهِ وَلَا نَعْلَمُ أَنَّ مَالِكًا تَكَلَّمَ فِي أَحَدٍ مِنْ أَهْلِ الرَّأْيِ وَإِنَّمَا تَكَلَّمَ فِي قَوْمٍ مِنْ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ:
أَدْرَكْتُ بِالْمَدِينَةِ قَوْمًا لَمْ تَكُنْ لَهُمْ عُيُوبٌ فَبَحَثُوا عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ فَذَكَرَ النَّاسُ لَهُمْ عُيُوبًا وَأَدْرَكْت بِهَا قَوْمًا كَانَتْ لَهُمْ عُيُوبٌ سَكَتُوا عَنْ عُيُوبِ النَّاسِ فَسَكَتَ النَّاسُ عَنْ عُيُوبِهِمْ فَمَالِكٌ يُزَهِّدُ النَّاسَ عَنْ الْعُيُوبِ وَمِنْ أَيْنَ يَبْحَثُ فِي عُيُوبِ النَّاسِ وَكَيْفَ يَذْكُرُ الْأَئِمَّةَ بِمَا لَا يَلِيقُ بِفَضْلِهِ
اور عبد الملک بن حبیب نے روایت کی مطرف سے کہ امام مالک سے "داء العضال" کے معنی کے بارے میں سوال کیا ، تو امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : ابو حنیفہ اور ان کے ساتھیوں نے لوگوں کو دو طریقوں سے گمراہ کیا ہے ، ایک تو "ارجاء" کے ذریعے اور دوسرے "رائے" یعنی قیاس سے سنتوں کو منسوخ کرنے کے ذریعے۔
ابو جعفر داودي نے کہا کہ ابن حبیب کی ذکر کردہ روایت اگر صحیح ہے اور ثابت ہے، تو یہ ممکن ہے کہ یہ مالک کی طرف سے کسی سخت وقت میں کہا گیا ہو، جب انہیں کچھ ایسی باتیں سنائی گئی ہوں جو انہیں پسند نہ آئی ہوں، اور اس وقت ان کے دل میں تنگی ہو، تو انہوں نے ایسا کہا ہو، اور عالم بھی بعض اوقات دل کی تنگی کی حالت میں ایسی باتیں کہہ دیتا ہے جس کی استغفار بعد میں کرتا ہے جب غصہ ختم ہو جاتا ہے۔
قاضی ابو الولید الباجی مالکی رحمہ اللہ نے کہا کہ میرے نزدیک یہ روایت امام مالک رحمہ اللہ کی طرف سے صحیح نہیں ہے، کیونکہ امام مالک کی عقل، علم، فضیلت، دین اور لوگوں کے بارے میں تحقیق کی جانب ان کا احتیاط ایسے نہیں کہ وہ کسی مسلمان پر بغیر تحقیق کے کوئی بات کہیں۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد عبد اللہ بن المبارک ہیں، جن کا امام مالک نے احترام کیا اور انہیں فضیلت دی۔ یہ معلوم ہے کہ امام مالک نے ابو حنیفہ کو مسائل میں علم کے اعتبار سے بیان کیا اور ابو حنیفہ نے ان سے احادیث لیں، اور محمد بن حسن نے ان سے موطا لیا، جو کہ ابو ذر عبد بن احمد سے روایت ہے۔
ابو حنیفہ کی عبادت اور دنیا سے زہد بھی مشہور ہے ، اور انہیں قضاء کے لیے منتخب کیا گیا تو انہوں نے انکار کیا، تو امام مالک ایسے شخص کے بارے میں نہ بول سکتے تھے سوائے اس کے جو ان کی فضیلت کے مطابق ہو، اور ہم نہیں جانتے کہ مالک نے اہل الرائے کے بارے میں کچھ کہا ہو، بلکہ انہوں نے صرف اہل حدیث کے بارے میں نقل کی بنیاد پر بات کی ہے۔
امام مالک نے کہا: میں نے مدینہ میں ایسے لوگوں کو دیکھا جو خود میں کوئی عیب نہیں رکھتے تھے، لیکن انہوں نے لوگوں کے عیبوں کی تلاش کی اور لوگوں نے ان کے عیبوں کا ذکر کیا، اور میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے خود عیب تھے مگر انہوں نے دوسروں کے عیبوں کی طرف سے خاموشی اختیار کی، تو لوگوں نے ان کے عیبوں پر خاموشی اختیار کی۔ مالک لوگوں کو عیبوں کی تلاش سے منع کرتے ہیں اور ائمہ کے بارے میں ایسی باتوں کا ذکر نہیں کرتے جو ان کی فضیلت کے مطابق نہ ہو۔
خلاصہ :
▪︎ امام ابو الولید باجی کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ہر جرح مردود ہے
▪︎امام صاحب کے شاگردوں کی امام مالک عزت کرتے تھے (اگر ابو حنیفہ نے دین تباہ کیا ہے تو ، ابو حنیفہ کی فقہ کو تصنیف کرنے والے محمد بن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کو امام مالک نے کیوں موطا کا سماع کرایا ،
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
یروی عن مالک بن انس وغیرہ، وکان من بحورالعلم والفقہ قویا فی مالک‘
امام محمدؒ نے امام مالک بن انس اور دیگر محدثین سے روایت حدیث کی ہے، اور آپ علم یعنی کتاب و سنت اور فقہ کے سمندر تھے، اور امام مالکؒ سے روایت کرنے میں قوی و مضبوط تھے۔
(لسان المیزان:۵؍۱۲۷،۱۲۸)
اگر امام مالک رحمہ اللہ عراق کے ابو حنیفہ کو پسند نہ کرتے تھے تو جس بندے نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کو لکھا ، جمع کیا ، اس عراق کے محمد بن حسن الشیبانی کو موطا کا سماع کیوں کروایا ، کیوں اپنی مجلس حدیث میں بیٹھنے دیا ، اور یہ بات ایک دو مجلسوں کی نہیں 3 سال کی رفاقت کی بات ہے۔ )
دوم : اگر قیاس کی وجہ سے ابو حنیفہ دین سے دھوکہ کرنے والا ہے کاد الدین ہے ، تو قیاس تو امام مالک نے بھی کیا ہے ، فقہ مالکی ، فقہ حنفی سے کس قدر ملتی جلتی ہے ، سب بخوبی جانتے ہیں ، تو کیا امام مالک رحمہ اللہ اپنی جرح خود پر قبول کریں گیں ، خود کا کاد الدین کہیں گے ؟
معلوم ہوا کہ وقتی طور پر ، ایک خاص تقوی کی کیفیت کی وجہ سے اگر ان سے یہ جروحات ادا ہوئی ہیں تو اصول جرح و تعدیل کی رو سے وہ یکسر باطل ہیں ،
کیونکہ قیاس کا استعمال انہوں نے خود بھی کیا ہے۔ کیا امام مالک رحمہ اللہ نے آخری عمر میں قیاس کے مسائل سے رجوع کیا ؟ اگر نہیں کیا تو قارئین بتائیں کہ ، صرف ابو حنیفہ پر اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے ؟
اگر کوئی ان سب باتوں سے متفق نہیں ، پھر بھی ذد لر ڈٹا ہے تو ہم اس کیلئے ، خطیب بغدادی کا حوالہ پیش کرتے ہیں ، جس کی کتاب سے ہمارے خلاف روایات پیش کی جاتی ہیں
ذكر بعضهم: أن مالكا عابه جماعة من أهل العلم في زمانه بإطلاق لسانه في قوم معروفين بالصلاح والديانة والثقة والأمانة.
( تاریخ بغداد 1/223)
خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ کچھ علماء نے یہ بات ذکر کی ہے کہ امام مالک بن انس نے اپنے زمانے کے مشہور اہل علم لوگوں پر ملالت و عیب گوئی کی ہے اور اپنی زبان ہر اس شخص پر استعمال کی ہے جو اپنے دینداری ، ثقاہت اور نیکی میں معروف تھے ۔
نکتہ :ابن اسحاق کے بارے میں ہماری رائے یہی ہیکہ وہ سیر و مغازی کے امام ہیں ، البتہ احکام میں جہاں وہ منفرد ہوں اور اسی طرح تدلیس کر رہے ہوں ،وہاں وہ حجت نہیں
یہ الزامی حوالہ ہے وگر نہ ہماری رائے وہی ہے جو امام ذہبی کی ہے
قلت: كلا، ما عابهم إلا وهم عنده بخلاف ذلك، وهو مثاب على ذلك، وإن أخطأ اجتهاده، رحمة الله عليه.
( سیر 7/48 )
خلاصہ کلام :

امام مالک رحمہ اللہ نے قیاس کو استعمال کر کے فقہ مدون کیا ، لیکن اخیر عمر میں خشیت باری تعالی کے سبب وہ روتے تھے جیسا کہ چند صحابہ فرماتے تھے کاش ہم پیدا ہی نہ ہوتے ، امام مالک نے قیاس کے ماہر ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کیں ، لیکن وہ جروحات اصول جرح و تعدیل کی رو سے مسترد ہیں ، ماہر اسماء الرجال کے آئمہ مثلا امام مزی ،ذہبی ، ابن حجر رحمہ اللہ نے ان جروحات کی طرف التفات ہی نہیں کیا ، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایسی تمام جروحات اصول کے مطابق اس قابل ہی نہیں کہ امام صاحب کی ذات مجروح ہو سکے۔
قارئین مزید تفصیل کیلئے دیکھیں
" النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود
▪︎ تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض نمبر 67 ، 69 ، 81 ، 82 ، 83
▪︎تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 19 :امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰ھ)
امام مالک بن انس ؒ (م۱۷۹ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں ۔
▪︎غایۃ الامانی مقدمۃ الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی (مکمل )
![]() |
( النعمان سوشل میڈیا سروسز )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں