غایۃ الامانی
مقدمۃ
الفضل الربانی
فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی
-
مولانا نذیر الدین قاسمی
امام،مجتہد،مفسر،محدث،
فقیہ،ابو عبد اللہ محمد بن الحسن بن فرقد
الشیبانیؒ(م۱۸۹ھ) مشہور ثقہ، ضابط،حافظ الحدیث
اور بےمثال عالم،لغوی،نحوی،فصیح،ذکی،بلیغ
تھے۔چنانچہ آپ ؒ کی توثیق و ثناء درج ذیل ہیں۔
فقہ اور حدیث میں
مقام :
(۱) ثقہ،ثبت،حافظ
الحدیث،امام قاضی ابو یوسفؒ(م۱۸۲ھ) نے
معلی بن منصور ؒ(م۲۱۱ھ) سے کہا :
’’ ألزمه
فإنه أعلم الناس ‘‘
محمد بن الحسن ؒ کو لازم پکڑو! اس لئے کہ وہ أعلم
الناس ہیں (یعنی وہ لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن و حدیث کو جاننے والے ہیں) ۔(فضائل
ابی حنیفہ لابن ابی العوام : ص۳۵۳)[1]
اسی طرح
ایک اور روایت میں قاضی ابو یوسفؒ(م۱۸۲ھ)
نے امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) کے حافظہ
کی تعریف فرمائی ہے۔(فضائل ابی حنیفہ : ص ۳۵۹-۳۶۰)[2]
(۲) مشہور
ثقہ،مجتہد،ناصر الحدیث امام شافعیؒ(م۲۰۴ھ) کہتے ہیں کہ
’’
من اھل الصدق فی الحدیث ‘‘
امام
محمد ؒ(م۱۸۹ھ) حدیث میں صدوق ہیں۔(کتاب
الام :ج۳: ص ۲۲۵)
- ایک اور
روایت میں امام شافعیؒ(م۲۰۴ھ) کہتے ہیں کہ
’’مارأیت
اعقل ولا ازھد ولا
أفقه ولا
اورع ولا احسن نطقا وایراداً من محمد بن الحسن‘‘
میں نے کوئی شخص عقلمندی ، پرہیزگاری،فقاہت ، تقویٰ اور اچھی گفتگو کرنے
میں امام محمد بن حسنؒ جیسا نہیں دیکھا۔
(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ للذھبی:ص۵۵)[3]
-
تیسری
روایت میں ہے کہ :
’’ وقف
رجل على الشافعي فسأله عن مسألة فأجابه، فقال له الرجل: يا أبا عبد الله خالفك
الفقهاء، فقال له الشافعي: وهل رأيت فقيها قط؟ اللهم إلا أن تكون رأيت محمد بن
الحسن فإنه كان يملأ العين والقلب، وما رأيت مبدنا قط أذكى من محمد بن الحسن،
وَقَالَ
ابن حبيش: حَدَّثَنِي
جعفر بن ياسين، قَالَ: كنت عند المزني فوقف عليه رجل فسأله عن أهل العراق،
فقال: له ما تقول في أبي حنيفة؟ قَالَ سيدهم.
قَالَ: فأبو
يوسف؟ قَالَ: أتبعهم للحديث.
قَالَ: فمحمد بن
الحسن؟ قَالَ أكثرهم: تفريعا.
قَالَ فزفر؟ قَالَ: أحدهم قياسا ‘‘
ایک شخص نے امام
شافعیؒ سے ایک مسئلہ معلوم کیا ، آپ نے اس کا جواب دیا، اس پر اس شخص نے کہا :
ابو عبد اللہ ! فقہاء نے آپ کی مخالفت کی ہے، تو امام شافعیؒ نے اس سے کہا : کیا
تم نے کبھی کوئی فقیہ دیکھا بھی ہے ؟ إلا
یہ کہ تم نے محمد بن الحسن ؒ کو دیکھا ہو، وہ یقیناً آنکھ اور دل کو بھردیتے تھے،
میں نے کسی فربہ بدن کو محمد بن الحسن سے زیادہ ذکی نہیں دیکھا۔
جعفر
بن یاسین کہتے ہیں کہ ایک شخص امام مزنیؒ کے پاس آئے اور ان سے اہل عراق کے بارے
میں معلوم کیا ،
اس
شخص نے کہا : آپ امام ابو حنیفہ ؒ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
امام مزنیؒ نے کہا : وہ ان کے سردار ہیں ، اس نے کہا : اور ابو یوسف ؟
امام
مزنیؒ نے کہا: وہ ان میں سب سے زیادہ حدیث
کے متبع ہیں ،
اس
نے کہا : اور محمد بن الحسن ؟ امام مزنیؒ نے کہا : انہوں نے (اصولوں سے )سب سے زیادہ
تفریع کی،
اس
نے کہا : اور زفر ؟ امام مزنیؒ نے کہا
: سب سے تیز قیاس کرنے والے تھے )۔
(تاریخ
بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دارالکتب العلمیۃ،بیروت
، تاریخ بغداد بتحقیق شیخ بشار العواد
معروف : ج۲ : ص ۵۶۶)[4]
-
چوتھی روایت میں فرماتے ہیں کہ:
ما تكلم أحدٌ في الرأي إلا وهو
عيالٌ على أهل العراق, وما رأيت مثل محمد بن الحسن۔
ہر وہ شخص جو فقہ سے تعلق رکھتا ہے وہ اہل عراق کا محتاج ہے، اور میں نے محمد
بن الحسن جیسا نہیں دیکھا۔(مناقب
الشافعی للآبری : ج۱: ص ۷۸)[5]
-
پانچویں روایت
میں فرماتے ہیں کہ
’’ ما رأت
عيناي مثل محمد بن الحسن، ولم تلد النساء
في زمانه مثله ‘‘
امام
شافعی ؒ (م۲۰۴ھ) نے فرمایا : میری
آنکھوں نے محمد بن الحسن ؒ جیسا نہیں دیکھا،
اور نہ عورتوں نے ان جیساان کے زمانے
میں پیدا کیا۔(مناقب الشافعی للبیہقی : ج۱ : ص ۱۶۱)[6]
-
چھٹی روایت میں
فرماتے ہیں کہ
’’كتب
الشافعي إلى محمد بن الحسن وقد طلب منه كتبه لينسخها فأخرها عنه فكتب إليه قل لمن
لم تر عين من رآه مثله۔۔۔۔۔۔‘‘
امام شافعی ؒ (م۲۰۴ھ) کہتے ہیں کہ : کہہ دو
امام محمد بن حسن ؒ سے،جن کو دیکھنے والوں کی آنکھ نے ان جیسا نہیں دیکھا۔(اخبار ابی حنیفۃ
و اصحابہ : ص ۱۲۷)[7]
-
ساتویں روایت میں فرماتے ہیں کہ
’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد کأنہ علیہ نُزل ‘‘
میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو امام
محمدؒ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو، (اور امام محمدؒ قرآن کا علم اتنا زیادہ رکھتے تھے کہ) گویا قرآن
اترا ہی آپ پر ہے۔
(فضائل
ابی حنیفۃ اخبارہ و مناقبہ لابن ابی العوام
: ص ۳۵۰)[8]
-
آٹویں
روایت میں کہتے ہیں کہ
’’ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن‘‘
میں
نے امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) سے زیادہ
عقلمند کسی کو نہیں دیکھا۔(تاریخ بغداد
: ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار کتب العلمیۃ،بیروت
، اور تاریخ بغداد بتحقیق شیخ بشار
العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ )[9]
-
اسی
طرح ایک اور روایت میں امام صاحب ؒ کہتے
ہیں کہ
’’
عَنِ الشَّافِعِيِّ، قَالَ:. . . وَكَانَ
مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، جَيِّدَ الْمَنْزِلَةِ‘‘
امام
محمد ؒ کا علمی مقام بہت خوب تھا ۔(
آداب الشافعی و مناقبہ لابن ابی حاتم : ص
۲۶)[10]
-
دسویں
روایت میں امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ
’’
لم يزل محمد بن الحسن عندي عظيما جليلا‘‘
امام محمد بن الحسنؒ میرے نزدیک برابر ایک عظیم اور جلیل القدر شخص
تھے۔(مناقب الشافعی للبیہقی : ج۱: ص ۱۱۷)[11]
-
ایک اور صحیح
روایت میں امام شافعیؒ (م۲۰۴ھ) کا قول موجود ہے کہ
’’ أمن
الناس علي في الفقه محمد بن الحسن ‘‘
فقہ (سکھانے ) میں
سب سے زیادہ مجھ پر احسان امام محمدبن حسنؒ کا ہے۔ (تاریخ بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع
دار کتب العلمیۃ،بیروت
، اور تاریخ بغداد بتحقیق شیخ بشار
العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۷)[12]
یہی وجہ ہے کہ امام ابن الفراتؒ (م۸۰۷ھ)
اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:
’’وکان الشافعیؒ یثنی علی محمد بن الحسن، ویفضلہ، وقد تواتر عنہ
بالفاظ مختلفۃ‘‘
امام شافعیؒ نے امام محمد
بن حسنؒ کی تعریف کی ہے، اور آپ کی فضیلت کو تسلیم کیا ہے، امام شافعیؒ سے بالتواتر
آپ کی تعریف اور فضیلت میں مختلف الفاظ منقول ہیں۔ (بحوالہ شذرات الذھب:۱؍۳۲۳)
حافظ الدنیا امام ابن حجر
عسقلانیؒ (م۸۵۲ھ)
امام محمدؒ کے تذکرے میں ارقام فرماتے ہیں
’’وکان الشافعی یعظمہ فی العلم‘‘
امام شافعیؒ نے علم (حدیث
وغیرہ) میں امام محمدؒ کی عظمتِ شان کو تسلیم کیا ہے۔ (تعجیل
المنفعۃ:ص۴۰۹)
حافظ المغرب ابن عبدالبر المالکیؒ
(م۴۶۳ھ)
نے بھی یہ تصریح کی ہے کہ :
’’وکان الشافعی یثنی علی محمد بن الحسن ویفضلہ، ویقول: مارأیت قط
سمینا اعقل منہ، قال وکان افصح الناس، کان اذا تکلم خیل الیٰ سامعہ ان القرآن نزل
بلغتہ، وقال الشافعی: کتبت عن محمد بن الحسن وقر بعیر‘‘
امام
شافعیؒ نے امام محمد بن حسنؒ کی تعریف کی ہے، اور آپ کی فضیلت کو بیان کیا ہے ، امام
شافعیؒ فرماتے تھے میں نے کبھی بھی کوئی جسیم شخص امام محمدؒ سے زیادہ عقل مند نہیں
دیکھا، اور فرمایا کہ امام محمدؒ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح تھے، جب آپ بات کرتے
تو سننے والے کو یوں محسوس ہوتا کہ قرآن آپ ہی کی زبان میں اترا ہے، امام شافعیؒ
نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے امام محمد بن حسنؒ سے ایک بارِ شُتر کے برابر علم لکھا
تھا۔(الانتفاء:ص:۱۷۴،۱۷۵)
امام شافعی ؒ نے امام محمد ؒ سے روایت بھی لی ہے :
-
خود
امام شافعی ؒ (م۲۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ
’’كتبت
عن محمد بن الحسن وقر حمل‘‘
میں نے امام محمد بن الحسن سے ایک اوٹ پر لادے جانے کے بقدر (روایات اور علم کی کتابیں) لکھی ہیں۔(مناقب
الشافعی للآبری : ص ۷۶)[13]
-
ایک جگہ ان کا ارشاد ہے کہ
’’
حملت عن محمد بن الحسن [حمل] بختي ليس عليه إلا سماعي‘‘
امام شافعی ؒ(م۲۰۴ھ) کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن الحسن ؒ
سے ایک
بختی اوٹ کے بقدر علم حاصل کیا ،جس
کو میں نے خود ان سے سنا تھا۔ (مناقب
الشافعی للآبری : ص ۷۸)[14]
- ایک اور روایت میں
امام صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ
’’ ما رأيت أحدا
قط إذا تكلم رأيت القرآن نزل بلغته إلا محمد بن الحسن فأنه كان إذا تكلم رأيت
القرآن نزل بلغته ولقد كتبت عنه حمل بعير ذَکَرٍ وإنما
قلت ذكر لأنه بلغني أنه يحمل أكثر مما تحمل الأنثى‘‘
میں نے
کسی کو نہیں دیکھا کہ جب وہ بات کرے تو مجھے ایسا محسوس ہو کہ قرآن اس کی زبان
میں نازل ہوا ہے، سوائے محمد بن الحسن ؒ کے، کیونکہ جب وہ بات کرتے تھے تو مجھے
ایسا ایسا لگتا کہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے، اور میں نے ان سے ایک نر
اونٹ کے (وزن اٹھانے کے) بقدر علم حاصل کیا ہے، اور میں نے نر اونٹ اس لئے کہا
کیوں کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اونٹنی سے زیادہ وزن اٹھاتا ہے ۔(اخبار
ابی حنیفہ و اصحابہ : ص۱۲۸)[15]
اور ائمہ اسلاف و محدثین
نے بھی صراحت کی ہےکہ امام شافعی ؒ نے امام
محمد ؒ سے روایت لی ہے۔چنانچہ محدثِ ناقدحافظ شمس الدین ذہبیؒ (م۱۸۹ھ) نے
تصریح کی ہے کہ:
’’واما الشافعیؒ فاحتج بمحمد بن الحسن فی الحدیث‘‘
امام شافعیؒ (م۲۰۴ھ) نے
حدیث میں امام محمد بن حسنؒ سے حجت پکڑی ہے۔(مناقب
ابی حنیفۃ وصاحبہ:ص۵۵، تاریخ الاسلام: ۴؍۹۵۶)
نیزحافظ ابن تیمیہ
ؒ(م۷۲۸ھ)،حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸ھ)،حافظ ابن عبد الہادیؒ(م۷۴۴ھ)،حافظ
عبد القادر القرشیؒ(م۷۷۵ھ)،حافظ ابن کثیرؒ(م۷۷۴ھ)، حافظ ابن عبدالبرؒ
(م۴۶۳ھ)،حافظ خطیب بغدادیؒ
(م۴۶۳ھ)، امام ابو سعد سمعانیؒ
(م۵۶۲ھ)،حافظ ا بن
الجوزیؒ (م۵۹۷ھ)،حافظ ابو القاسم
عبد لکریم الرافعی ؒ (م۶۲۳ھ)،امام ابن خلکانؒ (م۶۸۱ھ)، حافظ ابن الاثیرؒ(م۶۳۰ھ) ، محدث ابن الفراتؒ
(م۸۰۷ھ) اور امام ابن العماد
حنبلیؒ (م۱۰۸۹ھ) وغیرہ
نے بھی تصریح کی ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے اخذِ علم کیا تھا، اور انہوں نے
آپ سے فقہ اور حدیث کی روایت کی ہے۔
اور امام محمدؒ (م۱۸۹ھ) کی بعض احادیث امام
شافعیؒ (م۲۰۴ھ) کی ’’مسند‘‘
میں بھی موجود ہیں۔ دیکھئے (ص : ۶۲-۶۳)
اور
امام ابو عبد اللہ الشافعیؒ(م۲۰۴ٗھ)
صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہے۔جیسا کہ سلفی شیخ ابو الحسن السیلمانی اور سلفی عالم ابو
عمرو الوصابی غیرہ نے ثابت کیا ہے۔(الاتحاف
النبیل : ج۲ : ص ۱۱۱،دراسات حدیثیۃ متعلقۃ
بمن لایروی الا عن ثقۃ : ص ۳۲۱)
اس
پوری تفصیل سےمعلوم ہوا کہ امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) امام شافعیؒ (م۲۰۴ھ) کے نزدیک صدوق ،بلکہ ثقہ ہیں۔والحمد للہ
(۳) ثقہ،حافظ،قاضی،ابو عبد اللہ محمد بن سماعہؒ(م۲۳۳ھ)
فرماتے ہیں کہ
’’ محمد بن
الحسن والحسن بن زياد وهما فقيها الدنيا ‘‘
امام محمدؒ(م۱۸۹ھ) اور امام
حسن بن زیادؒ(م۲۰۴ھ) (پوری) دنیا
کے فقیہ ہیں۔(فضائل ابی حنیفہ : ص ۳۵۶)[16]
(۴) ثقہ،امام، اسد بن فرات ؒ(م۲۱۳ھ) کے نزدیک بھی امام محمد ؒ(م۱۸۹ھ) صدوق
ثابت ہوئے ہیں۔(فضائل ابی حنیفہ : ص ۳۲۳)[17]
(۵) امام یحیی بن معین ؒ (م۲۳۳ھ) نے ان
سے روایت لی ہے۔ چنانچہ وہ خود کہتے ہیں کہ
’’ كتبت الجامع الصغير عن
محمد بن الحسن
‘‘
میں نے امام محمدؒ سے ’’الجامع الصغیر‘‘ لکھی۔(فضائل
ابی حنیفہ :ص۳۵۰)
اور ائمہ جرح و تعدیل مثلاً
حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)
اور حافظ قاسم ابن قطلوبغاؒ (م۸۷۹ھ)
وغیرہ نے بھی تصریح کی ہےکہ امام یحیی بن معینؒ
نے امام محمدؒ سے روایات لکھی ہیں۔(مناقب
ابی حنیفہ وصاحبہ:ص۵۰،
تاج التراجم :ص۱۵۹)
اور
امام یحیی بن معین ؒ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے،جس کا اقرار غیر مقلدین کرچکے ہیں۔(مقالات زبیر علی زئی
: ج۱ :ص ۴۴۹)
لہذا امام یحیی بن معین ؒ (م۲۳۳ھ)
کے نزدیک بھی امام محمدؒ ثقہ ہیں۔ [18]
(۶) ثقہ،ثبت،حافظ الحدیث، خالد بن عبد اللہ
الواسطیؒ(م۱۸۲ھ)امام محمد ؒ(م ۱۸۹ھ) کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے اور ان کی تعظیم کرتے ۔(فضائل
ابی حنیفہ ص: ۳۵۱-۳۵۲) [19]
(۷) صدوق،حافظ الحدیث،امام یحیی بن صالح الوحاظی ؒ(م۲۲۲ھ) کہتے ہیں کہ
’’
محمد بن الحسن أفقه نفسا منه ‘‘
فی
نفسہ امام محمد ؒ، امام مالکؒ سے بھی
زیادہ مضبوط فقیہ ہیں۔(تاریخ بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دارالکتب العلمیۃ،بیروت
، تاریخ بغداد بتحقیق شیخ بشار
العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵)[20]
(۸) امام
العلل،حافظ علی بن المدینیؒ(م۲۳۴ھ) فرماتے ہیں کہ
’’محمد
بن الحسن صدوق‘‘
امام محمد ؒ صدوق ہیں۔(تاریخ بغداد:ج۲: ص ۱۷۸، طبع
دارالکتب العلمیۃ،بیروت)[21]
(۹) مشہور
ثقہ،امام ابو عبید ،قاسم بن سلام ؒ (م۲۲۴ھ)
فرماتے ہیں کہ
’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد بن الحسن‘‘
میں
نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو امام محمد بن حسنؒ سے بڑھ کر کتاب اللہ (قرآن کریم)
کا عالم ہو۔(تاریخ بغداد:ج۲:ص۱۷۲)[22]
(۱۰) امام اہل
السنۃ،امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱ھ)
کے صاحبزادے ثقہ،حافظ،امام عبداللہ بن احمدؒ
(م۲۹۰ھ)
کہتے ہیں کہ
’’کتب ابی عن ابی یوسف ومحمد ثلاثہ قماطر، قلت لہ کان ینظر فیھا،
قال کان ربما ینظر فیھا‘‘
میرے والد امام احمدؒ(م۲۴۱ھ) نے امام ابو یوسفؒ اور
امام محمدبن حسنؒ سے تین قماطیر (بڑے تھیلے) علم کے لکھے تھے، (راوی کہتے ہیں کہ) میں
نے امام عبداللہؒ سے پوچھا کہ: کیا آپ کے والد اُن کا مطالعہ بھی کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، بسااوقات اُن کا مطالعہ بھی
کیا کرتے تھے۔ (تاریخ بغداد:ج۳: ص ۲۲۵)
شیخ عبدالرحمن الیمانی المعلمیؒ
غیرمقلد (م۱۳۸۶ھ)
اس قول کے ذیل میں لکھتے ہیں:
’’فالظاھر انہ کتب عنھما مما یرویانہ من الآثار‘‘
اس قول سے ظاہر یہی ہے کہ
امام احمدؒ نے امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ سے ان دونوں کی احادیث لکھی تھیں۔(التکنیل:۱؍۱۶۵)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام
احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱ھ) نے امام محمد ؒ سے روایت لی ہے۔اور یہی بات حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ(م۸۷۹ھ)نے بھی
کہی ہے۔
اور
امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱ھ) اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت لیتے تھے۔
لہذا امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ)، امام احمد ؒ
کے نزدیک ثقہ ہیں۔[23]
- نیز ایک
روایت میں امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ دقیق مسائل کہاں سے حاصل کئے
ہیں ؟ تو انہوں فرمایا:
’’من کتب محمد بن الحسن‘‘
کہ
امام محمد بن حسنؒ کی کتابوں سے ۔ (تاریخ
بغداد:ج۲:ص۱۷۴)
معلوم ہوا کہ امام صاحبؒ(م۲۴۱ھ)، امام محمدؒ (م۱۸۹ھ)
کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے تھے۔
(۱۱) صدوق،امام اسماعیل بن توبۃ القزوینیؒ(م۲۴۲ھ)
نے کہا :
’’ امام المسلمين محمد بن
الحسن الشيباني رحمة الله عليه ‘‘۔(بغیۃ
الطلب : ج۱۰: ص ۴۳۴۹)
(۱۲) امام الائمہ،امام ابوبکر ابن خزیمہؒ(م۳۱۱ھ) نے امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) کو ’’ أَئِمَّةُ الدِّينِ،
أَرْبَابُ الْمَذَاهِبِ ‘‘ میں شمار کیا ہے۔(احادیث فی ذم الکلام : ص۱۰۰)[24]
(۱۳) ثقہ،فقیہ امام احمد بن کامل القاضیؒ(م۳۵۰ھ)
فرماتے ہیں کہ
’’ أبو
عبد الله محمد بن الحسن صاحب أبي حنيفة مولى لبني شيبان وكان موصوفا بالكمال وكانت
منزلته في كثرة الرواية والرأي والتصنيف لفنون
علوم الحلال والحرام منزلة رفيعة يعظمه أصحابه جدا‘‘
امام ابو عبداللہ محمد بن
حسنؒ صاحب ابی حنیفۃ
(م۱۸۹ھ) بنو شیبان قبیلہ کے مولیٰ
تھے، آپ فضل وکمال کے ساتھ موصوف تھے، اور آپ حدیث اور فقہ کو کثرت سے روایت کرنے
، اور حلال و حرام کے علوم میں مختلف کتابیں تصنیف کرنے میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے،
اور آپ کے تلامذہ (امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ) آپ کی بڑی تعظیم کرتے
تھے۔(اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ
: ص ۱۲۵)
(۱۴) امام ابو بکر جصاص الرازی ؒ (م۳۷۰ھ) نے آپؒ کو امام مالکؒ(م۱۷۹ھ) کے ’’الاصحاب
الثقات‘‘ میں شمار کیا ہے۔ [25]
(۱۵) ثقہ حافظ امیر المومنین فی الحدیث،امام ابو
الحسن الدارقطنیؒ (م۳۸۵ھ)نے اپنے کتاب ’’غرائب مالک‘‘ میں امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) کو ثقہ، حافظ الحدیث قرار دیا ہے۔
- نیز ایک اور روایت میں کہتے ہیں کہ
’’وعندی
لا یستحق الترک‘‘
امام محمدؒ میرے نزدیک (روایت حدیث میں ) ترک کر دینے کے مستحق نہیں ہیں،
یعنی آپؒ مقبول الروایۃ ہیں۔[26]
(۱۶) مشہور ،ثقہ،حافظ الحدیث ،شیخ المحدثین ،صاحب
المستدرک ،امام ابو عبد اللہ الحاکم الصغیرؒ(م۴۰۵ھ) کے نزدیک بھی امام
محمد ؒ (م۱۸۹ھ) ثقہ،فقیہ ،اور
ائمہ المسلمین میں سےہیں۔[27]
(۱۷) ثقہ،حافظ،امام ابوبکر البیہقیؒ (م۴۵۸ھ)
کے نزدیک بھی امام محمد ؒ(م۱۸۹ھ) صدوق،فقیہ،اور اکابر فقہاء میں سے ہیں۔[28]
(۱۸) ثبت، حافظ المغرب،امام ابن عبد البرؒ(م۴۶۳ھ)
نے آپؒ کو فقیہ،عالم اور حافظ الحدیث
قرار دیا ہے۔[29]
(۱۹) مشہور امام،حجت،شمس الائمۃ، ابو بکر السرخسیؒ(م۴۸۳ھ)
فرماتے ہیں کہ
’’ محمد موثوق
به فيما يروي ‘‘
امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ)
روایت کرنے میں ثقہ ہیں۔(المبسوط
للسرخسی: ج۳۰: ص ۲۸۲)
(۲۰) صدوق،امام عبدالکریم شہرستانیؒ (م۵۴۸ھ)
نے آپؒ کو ائمہ حدیث میں شمار کیا ہے۔[30]
(۲۱) مشہورشیخ،الواعظ
الکبیر یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ (م۵۵۰ھ) فرماتے
ہیں کہ
’’وکتب الحدیث ، وکان فقیھا عالما شھما نبیلا‘‘
امام
محمدؒ نے حدیث لکھی اور آپ فقیہ عالم سمجھدار اور معزز شخص تھے۔(منازل الائمۃ الاربعۃ
۸۸)
(۲۲) امام
ابوسعد عبدالکریم السمعانیؒ (م۵۶۲ھ)
نے امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) کو ’’الامام
الربانی‘‘ کہا ہے،جو کہ ان کے صدوق ہونے پر دلالت کرتا ہے۔[31]
(۲۳) حافظ الشام،امام
ابو القاسم ثقۃ
الدین ابن عساکرؒ(م۵۷۱ھ) کے نزدیک بھی امام محمدؒ میں کوئی حرج نہیں اور آپؒ ضابط
ہیں۔[32]
(۲۴) حافظ سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۴ھ) نے کہا :
’’ وكان
محمَّدٌ إمامًا في جميع العلوم ‘‘
امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) تمام
علوم الاسلامیہ میں امام تھے۔(مرآۃ الزمان : ج۱۳: ص ۱۳۰)
(۲۵) امام علی بن انجبؒ(م۶۷۴ھ) کہتے ہیں کہ
’’امام
عالم ، کبیر القدر، شائع الذکر‘‘
امام ، عالم ، بڑی شان والے اور مشہور
ہیں۔ (الدر
الثمین فی اسماء المصنفین:ص۱۵۹)
(۲۶) حافظ ابن عبد الھادیؒ(م۷۴۴ھ) کہتے
ہیں کہ
’’والقاضی
الامام العلامۃ فقیہ العراق ابو عبداللہ محمد بن الحسن الشیبانی احد شیوخ الاما م الشافعی‘‘۔(مناقب
الائمۃ الاربعۃ:ص۶۰)
(۲۷) حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) فرماتے ہیں کہ
’’محمد
بن الحسن بن فرقد، العلامۃ ، فقیہ العراق‘‘۔
- نیز ایک اور جگہ کہا کہ
’’وکان مع تبحرہ فی الفقہ یضرب بذکائہ المثل‘‘
آپ فقہ میں تبحر رکھنے کے
ساتھ ساتھ اپنی ذکاوت (ذہانت) میں بھی ضرب المثل تھے۔
- اور
حافظ ذہبیؒ نے آپؒ کو فقیہ،علامہ،اہل عراق کے مفتی،احد الاعلام،امام،مجتہد
قرار دیا ہے۔
- اسی طرح
انہوں نے آپ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ : امام اور مجتہد تھے، اور آپ کا شمار انتہائی ذہین
اور فصیح لوگوں میں ہوتا ہے۔ نیز آپؒ کو
ہدایت یافتہ ائمہ میں بھی شمار کیا ہے۔
- اور آپ
کے متعلق یہ بھی لکھتے ہیں کہ :
’’وکان رحمۃ اللہ آیۃ فی الذکاء، ذاعقل تام، وسودد، وکثرۃ تلاوۃ
القرآن‘‘
امام محمدؒ ، دانائی میں ایک نشانی تھے، اور آپ انتہائی عقل مند، سردار
اور قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کر نے والے تھے۔
- ایک
مقام پر لکھا کہ
’’وقال من الجاہ والحشمۃ مالا یزید علیہ‘‘
امام محمدؒ نے وہ عزت اور
شان وشوکت پائی ہے کہ اس سے زیادہ ناممکن ہے۔
- امام موصوفؒ
نے آپ کے بارے میں یہ بھی تصریح کی ہے کہ :
’’یروی عن مالک بن انس وغیرہ، وکان من بحورالعلم والفقہ قویا فی
مالک‘‘
امام محمدؒنے امام مالک بن
انس اور دیگر محدثین سے روایت حدیث کی ہے، اور آپ علم (کتاب و سنت) اور فقہ کے سمندر
تھے، اور امام مالکؒ سے روایت کرنے میں قوی (مضبوط) تھے۔ (لسان المیزان:۵؍۱۲۷،۱۲۸)
اسی طرح ان کی غیر مالک والی روایت کو حسن کہا ہے۔
یعنی خلاصہ یہ کہ حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)کے نزدیک امام
محمدؒ(م۱۸۹ھ) مالک اور غیر مالک
دونوں کی روایتوں میں قوی ہیں۔[33]
(۲۸) امام،حافظ الحدیث جمال الدین عبداللہ بن یوسف زیلعیؒ
(م۷۶۲ھ)
نے آپ ؒ کی روایت کے بارے میں لکھا ہے:
’’اثر جید‘‘
کہ یہ اثر (کی سند) جید ہے۔
(۲۹) امام
صلاح الدین صفدیؒ (م۷۶۴ھ)
کہتے ہیں کہ
’’وکان اماما مجتھدا من
الاذکیاء الفصحاء‘‘
امام محمدؒ ، امام اور مجتہد
تھے، اور آپ کا شمار ذہین اور فصیح لوگوں میں
ہوتا ہے۔ [34]
(۳۰) امام
اسعدالدین الیافعیؒ(م۷۶۸ھ) نے کہا :
’’ قاضي
القضاة وفقيه العصر ‘‘۔(مرآۃ
الزمان : ج۱: ص ۳۲۶)
(۳۱) امام
شمس الدین محمدبن عبدالرحیم ابن الفرات المصری (م۸۰۷ھ)
نے کہا کہ
’’محمد
بن الحسن بن فرقد الشیبانی الامام الربانی صاحب ابی حنیفۃ…‘‘۔[35]
(۳۲) حافظ
نورالدین ہیثمیؒ (م۸۰۷ھ) امام محمد ؒ کی ایک روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’رواہ الطبرانی فی الاوسط والکبیر، واسناد الکبیر حسن‘‘
اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم
الاوسط‘‘ اور ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے، اور المعجم الکبیر کی سند حسن ہے۔
حافظ ہیثمیؒ (م۸۰۷ھ)
’’المعجم الکبیر‘‘
کی جس حدیث کی سند کو حسن قرار دے رہے ہیں، اس سند کے ایک راوی امام محمدبن حسنؒ بھی
ہیں۔
معلوم ہوا کہ امام ہیثمیؒ
(م۸۰۷ھ) کے نزدیک امام محمدؒ حسن الحدیث اور صدوق ہیں۔ [36]
(۳۳) مشہور حافظ،امام ،مقری شمس الدین الجزریؒ(م۸۳۳ھ)
نے کہا کہ
’’ الإمام
الكبير فقيه زمانه ‘‘۔(مناقب
الاسد الغالب : ص ۷۰)
(۳۴) مشہور،امام،امیر المومنین فی الحدیث ،حافظ ابن
حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲ھ) نے امام محمد ؒ
کی کئی روایات کی تصحیح فرمائی ،جس سے امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) کا، ان کے نزدیک صدوق ہونا واضح ہے۔[37]
(۳۵) امام،محدث عینیؒ(م۸۵۵ھ) نے امام محمد
ؒ کو ثقہ قرار دیا ہے۔(نخب الافکار :
ج۱۶: ص ۳۴۷)
(۳۶) ثقہ،حافظ الحدیث،امام قاسم بن قطلوبغاؒ(م۸۷۹ھ)
نےکہا :
’’ الإمام
الربانی الإمام الجلیل العالم العلامۃ المجتھد الحجۃ
البالغۃ محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی رحمہ اللہ تعالیٰ صاحب الإمام أبی حنیفۃ
النعمان رحمہ اللہ تعالیٰ ‘‘۔
ایک اور مقام پر کہا :
’’ الشیخ
الإمام العلامۃ الحجۃ محمد بن الحسن الشیبانی
‘‘۔(مخطوطہ
مناقب ابو حنیفۃ و اصحابہ للقاسم :
ص:۱۰۵،۹۴)
(۳۷) امام یوسف بن تغریؒ(م۸۷۴ھ) نے کہا :
’’ الفقيه
العلامة شيخ الإسلام وأحد العلماء الأعلام مفتى العراقين
۔۔۔۔۔ وكان إماماً فقيهاً محدثاً مجتهداً ذكياً،
انتهت إليه رياسة العلم في زمانه بعد موت أبي يوسف‘‘۔(النجوم
الزاھرۃ : ج۲: ص ۱۳۰-۱۳۱)
(۳۸) حافظ محمد بن یوسف صالحی ؒ(م۹۴۳ھ) نے
امام محمد ؒ کو ثقہ کہا ہے۔(عقود الجمان : ص ۶۲)
(۳۹) امام شمس
الدین محمد بن عبدالرحمن ابن الغزی شافعیؒ
(م۱۱۶۷) نے کہا :
’’الامام ، الحبر، البحر، المجتہد،
الحنفی، صاحب المؤلفات الکثیرۃ ‘‘۔ (دیوان الاسلام:۴؍۱۳۶)
(۴۰) شیخ ابو الفیض،محمد المکیؒ(م۱۴۱۱ھ) نے
کہا :
’’ الإِمَام الْحجَّة أبي
عبد الله مُحَمَّد بن الْحسن الشَّيْبَانِيّ
‘‘۔(العجالۃ
: ص۳۸)
(۴۱) شیخ محمد یعقوبی نے بھی امام محمدؒ کو ثقہ
کہا ہے۔(تحریج احادیث الاختیار : ص
۱۵۴۱، ت یعقوبی)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فقہ و حدیث
میں امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) ائمہ و علماء کےنزدیک ثقہ،ضابط،حافظ الحدیث،فقیہ
اور حجت ہیں۔
[1] اس روایت کی سند
کے تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں۔فضائل ابی حنیفہ،ثقہ ،ثبت امام،حافظ ابن ابی العوام ؒ (م۳۳۵ھ) کی
تصنیف ہے، جس کا اقرار ائمہ محدثین کرچکے۔
(مجلہ الاجماع : ش۲: ص۵ )، لہذا
اس کا انکار کرنا باطل و مردود ہے۔اور
محمد بن عبد الرحمٰن بن بکر الطبری ؒ کی روایت کو حافظ ذہبیؒ نے حسن کہا ہے۔(ص:
۱۰۷)، لہذا وہ بھی صدوق ہیں اور یہ
روایت حسن ہے۔
[2] ثقہ،امام ابو القاسم، ابن ابی
العوامؒ(م۳۳۵ھ) اس روایت کو یوں ذکر کرتے ہیں : قال: سمعت أحمد
بن محمد بن سلامة يقول: سمعت أحمد بن أبي عمران يقول: سمعت الطبري يقول: قال
إسماعيل ابن حماد بن أبي حنيفة: كان محمد بن الحسن يبكر إلى مجالس الحديث، ونبكر
نحن إلى أبي يوسف، فيجيء محمد وقد مضت المسائل، ونحن نتحدث فيعيد عليه أبو يوسف ما
يمضي، فجاء يوماً ونحن نتحدث فسأله أبو يوسف عن مسألة مرت من المناسك فأجاب فيها
بخلاف ما مضى، فقال له أبو يوسف: ليس هذا الجواب، فتنازعا فيها، فقال محمد لأبي
يوسف: ليس هذا قوله إلى أن دعا بالكتاب، فإذا الجواب كما قال محمد بن الحسن، فقال
أبو يوسف: هكذا يكون الحفظ۔(ص:
۳۵۹-۳۶۰)،
یہ
سند حسن ہے۔ امام طحاویؒ(م۳۲۱ھ)،احمد ابن ابی عمران مشہور ائمہ ثقات میں
ہیں، محمد بن عبد الرحمٰن بن بکر
الطبری ؒ کی توثیق گزرچکی،اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہؒ(م۲۱۲ھ) صدوق
ہیں،ان کی توثیق مجلہ الاجماع : ش۱۲:ص۲۳ پر موجود ہے۔
[3] یہ روایت حافظ
ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے ابن کاس النخعیؒ(م۳۲۴ھ) کی کتاب
’’تحفۃ
السلطان فی مناقب النعمان‘‘ سے لی ہے۔ اور یہ
روایت صحیح اور اس کے تمام روات
ثقہ ہیں۔اور اس روایت میں موجود ثقہ راوی ۱حمد بن محمد بن سفیان الکوفیؒ (م۲۹۷ھ)
کے تفرد کی وجہ سے حافظ ذہبیؒ نے
اس قول کو منکر کہا ہے۔ لہذا یہ کلام اس
قول کے عدم حجت ہونے پر دلالت نہیں کرتا،تفصیل کے لئے دیکھئے ص :۱۲۸۔
[4] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے
(ص:۹۰)
[5] اس روایت کے تمام
روات صدوق ہیں ۔لہذا روایت حسن ہے۔ دیکھئے (ص:۹۱)
[6] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے
(ص:۹۲)
[7] یہ روایت بھی حسن ہے۔ دیکھئے (ص:۹۴)
[8] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے (ص:۱۰۷)
[9] اس روایت کے تمام
روات ثقہ ہیں۔(ص:۱۱۳)
[10] یہ روایت حسن ہے۔(ص:۱۱۱)
[11] یہ روایت بھی متابعات کی وجہ سے حسن ہے۔(ص:۱۱۳)
[12] دیکھئے ص : ۱۱۳۔
[13] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے (ص:۱۱۱)
[14] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے (ص:۱۰۹)
[15] یہ روایت حسن ہے۔ دیکھئے (ص:۱۱۰)
[16] ثقہ،حافظ ابن ابی
العوامؒ(م۳۳۵ھ) اس کی سند یوں ذکر کرتے ہیں : قال أبو جعفر: وقال
أبو خازم في حديثه: قال بكر: قال ابن سماعة ۔۔۔۔(ص:
۳۵۶)، یہ سند حسن ہے اور اس کے تمام روات توثیق ص :۳۹ پر موجود ہے۔
[17] ثبت ،حافظ ابن ابی
العوامؒ(م۳۳۵ھ) اس روایت کو یوں ذکر کرتے ہیں : ثنا أحمد بن محمد بن سلامة قال: كتب إلي ابن ابی ثور ،
وقال: سمعته من سليمان بن عمران، عن أسد ابن الفرات، عن محمد بن الحسن، عن أسد بن
عمرو، عن أبي حنيفة في أكل لحم العقعق قال: لا بأس به، قال أسد بن الفرات: ثم سألت
أسد بن عمرو فحدثني به عن أبي حنيفة۔(ص: ۳۴۳)،
یہ
سند حسن ہے،امام طحاوی ؒ(م۳۲۱ھ)،اسد ابن الفرات ؒ (م۲۱۳ھ) مشہور
ائمہ ثقات میں سے ہیں۔ابو الربیع سلیمان
بن عمران الافریقی ؒ(م۲۷۰ھ) مشہور قاضی
الافریقہ ،عادل،صاحب فضیلت اور درست بات کرنے والے یعنی صدوق ہیں۔(الدباج المذہب : ج۱: ص ۳۷۶، شجرة النور الزكية في طبقات
المالكية:ج۱: ص ۱۰۶) ،
اسی
طرح ابن ابی ثور ؒ سے مراد ابو العباس
محمد بن عبد اللہ بن حمدون ابن ابی ثور
الرعینیؒ(م۲۹۹ھ) ہے، جو کہ
افریقہ کے قاضی،مذہب حنفی کے امام،عالم، فقیہ اور عربی کےفاضل تھے ۔(سلم الوصول : ج۳: ص ۱۵۹،تاج التراجم : ص ۲۶۳،الجواہر
المضیۃ
: ج۲: ص ۶۶)، لہذا ابن ابی ثور ؒ بھی صدوق ہیں۔
نوٹ : فضائل ابی حنیفۃ
لابن ابی العوام کے
مطبوعہ نسخہ میں ’ كتب إلي ابن
ابی ثور ‘
کے بجائے ’ ناولني عيسى بن روح ‘
آگیا ہے۔جو کہ کاتب کی غلطی ہے۔کیونکہ
اسی کتاب میں باقی تمام مقامات پر امام طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ)
اور سلیمان بن عمران الافریقی ؒ(م۲۷۰ھ) کے درمیان ابن ابی ثور ؒ(م۲۹۹ھ) ہی موجود ہے۔نیز
ائمہ نے صراحت بھی کی ہے۔ ابن ابی ثور ؒ(م۲۹۹ھ) نے سلیمان بن عمران
الافریقی ؒ(م۲۷۰ھ) سے روایت لی ہے اور
ان سے امام طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ) نے روایت لی ہے۔(تاریخ مصر لابن
یونس : ج۲ : ص ۲۱۲)،لہذا صحیح ’ كتب إلي ابن ابی ثور ‘ ہی
ہے۔ واللہ اعلم
[18] دیکھئے ص : ۱۳۳۔
[19] امام ابو القاسم
ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵ھ) اس روایت
کو یوں ذکر کرتے ہیں : قال: حدثني أحمد
بن محمد بن سلامة قال: سمعت إبراهيم بن أبي داود يقول: سمعت يحيى بن صالح الوحاظي
يقول: حججت مع محمد بن الحسن، فلما كنا بمنى رأيت خالد بن عبد الله، فكنت في مجلسه
فازدحم عليه أصحاب الحديث حتى آذوه، فقال: عسى لو سئل هؤلاء عن مسألة من الفقه ما
عرفوا الجواب فيها، فقلت له: أصلحك الله فسلهم، عسى أن يكون فيهم من ليس كذلك،
فسأل عن مسألة، فأجبته أنا فيها فاستحسن جوابي، وقال لي: ممن تعلمت هذا، فقلت: من
محمد بن الحسن، وهو حاج معك، قال: فقال لي: إذا فرغنا فامض بي إلى مضربه حتى أسلم
عليه، فلما فرغنا مضيت معه إلى محمد بن الحسن، فلما رآه محمد قام إليه وأعظمه۔(ص:
۳۵۱-۳۵۲)، یہ سند حسن ہے اور اس کے
تمام روات مشہور ائمہ ثقات ہیں۔
[20] یہ روایت حسن ہے۔
دیکھئے (ص:۹۶)
[21] یہ روایت حسن
ہے۔ضعیف راوی کے مقابلے میں ، حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ(م۸۵۲ھ) نے عبد اللہ
بن علی بن المدینیؒ کی روایت ترجیح
دی ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے (ص:۱۳۴)،
لہذا ثقہ راوی کی روایت نہ ہونے کی صورت میں عبد اللہ بن علی بن المدینیؒ کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی۔
[22] یہ روایت متناً
صحیح ہے۔ دیکھئے (ص:۱۰۶)
[23] تفصیل کے
لئےدیکھئے ص : ۱۳۱۔
[24] اس کی سند حسن ہے۔
[25] امام ابو بکر
جصاصؒ(م۳۷۰ھ) ایک روایت کے تحت کہتے ہیں کہ
’’ لأن
أصحاب مالك الثقات كلهم يروونه موقوفا على ابن عمر رضي الله عنهما من قوله، غير مرفوع
إلى النبي صلى الله عليه وسلم ‘‘
اس
لئے اس روایت کو تمام کے تمام ثقہ اصحاب مالک نے امام مالک ؒسے موقوفاً ابن عمر ؓ
کے قول کی صورت میں روایت کیا ہے،نہ کہ مرفوعاً۔(شرح مختصر الطحاوی للجصاص :
ج۱: ص ۳۹۷)
غور
فرمائے ! امام جصاص ؒ نے کہا کہ تمام کے تمام
ثقہ اصحاب مالک نے اس روایت کو امام مالک ؒ سے موقوفاً روایت کیا ہے۔
اور
اگر چہ دوسری طریق سے ہی مگر امام محمد ؒ نے بھی اس حدیث کو امام مالکؒ(م۱۷۹ھ)
سے معنی موقوفاً ہی نقل کیا ہے۔(موطا
امام محمد : حدیث نمبر ۱۲)
نیز
امام مالکؒ (م۱۷۹ھ) سے امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ)نے بھی مکمل موطا روایت
کی ہے اور آپؒ امام مالکؒ کے قدیم
شاگردوں میں سے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ص :۵۱-۵۳۔
معلوم
ہوا کہ امام ابو بکر جصاصؒ(م۳۷۰ھ) کے نزدیک امام محمد ؒ ثقہ اصحاب
مالک میں شمار ہوتے ہیں۔
[26] تفصیل کے لئے
دیکھئے ص :۱۳۸۔
[27] دیکھئے ص :۱۴۳۔
[28] دیکھئے ص :۱۴۶۔
[29] دیکھئے ص :۱۴۷۔
[30] دیکھئے ص :۱۴۹۔
[31] دیکھئے (ص :۱۵۰)۔
[32] دیکھئے (ص :۱۴۹)۔
[33] تفصیل کے لئے
دیکھئے ص :۱۵۴-۱۵۶۔
[34] دیکھئے ص :۱۶۲۔
[35] دیکھئے
ص :۱۶۳۔
[36] دیکھئے ص :۱۶۰۔
[37] دیکھئے ص :۱۶۵۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر13
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں