اعتراض نمبر 82 :
کہ امام مالک نے کہا کہ اگر ابو حنیفہ اس ستون کو سونے کا کہے تو وہ اس کو ثابت کر کے دکھائے گا ۔ ابو محمد نے کہا کہ اس سے مالک کی مراد یہ ہے کہ ابو حنیفہ کے سامنے بے شک حق ظاہر ہو جائے تو وہ حق کی طرف نہیں لوٹتا بلکہ اپنی خطا کے باوجود دلیل سے اپنی بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
أخبرنا أحمد بن محمد العتيقي والحسين بن جعفر السلماسي والحسن بن علي الجوهري قالوا: أخبرنا علي بن عبد العزيز البرذعي، أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي حاتم الرازي، حدثنا أبي، حدثنا ابن أبي سريج قال: سمعت الشافعي يقول: سمعت مالك بن أنس - وقيل له: تعرف أبا حنيفة؟ فقال: نعم! ما ظنكم برجل لو قال: هذه السارية من ذهب لقام دونها حتى يجعلها من ذهب، وهي من خشب أو حجارة؟ قال أبو محمد: يعني أنه كان يثبت على الخطأ ويحتج دونه ولا يرجع إلى الصواب إذا بان له.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ ابن ابی حاتم نے متن کے الفاظ تبدیل کرنے کے بعد از خود ہی اس کی تفسیر کی ہے اور پہلے خطیب نے ہی ص 338[1] میں نقل کیا ہے کہ بے شک مالک نے کہا ہاں میں نے ایسے آدمی کو دیکھا ہے کہ اگر وہ تیرے ساتھ اس ستون کے بارہ میں کلام کرے تو اپنی دلیل کے ساتھ وہ اس کو سونے کا کر دکھائے گا۔ الخ
اور ابن ابی سریج نے مالک تک اپنی سند کے ساتھ جو الفاظ نقل کیے ہیں جس کو ابو محمد حیان نے ابو العباس الجمال سے روایت کیا ہے وہ الفاظ یہ ہیں کہ ہاں میں نے ایسے آدمی کو دیکھا ہے کہ اگر وہ اس ستون کو دیکھے حالانکہ وہ پتھر کا ہے تو وہ کہے کہ بے شک وہ سونے کا ہے تو وہ اپنی دلیل کے ساتھ اس کو ثابت کر دکھائے گا۔
اور اس کے مثل ابو اسحاق الشیرازی کی طبقات الفقہاء میں ہے۔
اور ابن الجوزی نے المنتظم میں کہا ہے کہ ابو حنیفہ کی ذہانت اور اس کی فقاہت کے بارہ میں لوگوں کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سفیان ثوری اور ابن المبارک دونوں کہا کرتے تھے کہ ابو حنیفہ افقہ الناس ہیں۔
اور مالک سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے ابو حنیفہ کو دیکھا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایسے آدمی کو دیکھا ہے کہ اگر وہ تیرے ساتھ اس ستون کے متعلق کلام کرے کہ وہ سونے کا ہے تو وہ اپنی دلیل سے ثابت کر دکھائے گا۔
اور امام شافعی نے کہا کہ سارے لوگ فقہ میں ابو حنیفہ کے محتاج ہیں۔ الخ[2]
پس آپ دیکھیں گے کہ ابن الجوزی باوجودیکہ ابو حنیفہ اور اس کے اصحاب سے کنارہ کش تھے وہ امام مالک کے کلام کو ابو حنیفہ کی فقاہت اور ذہانت پر دلیل کے ضمن میں نقل کر رہے ہیں اور اسی طرح سبط ابن الجوزی کی کتاب الانتصار والترجیح میں ہے۔
اور ابن عبد البر نے الانتقاء ص 146 میں احمد بن محمد ابو عمر بن الحباب احمد بن الفضل الدینوری محمد بن جریر احمد بن خالد الخلال الشافعی کی سند نقل کر کے کہا کہ امام شافعی نے فرمایا کہ ایک دن امام مالک سے عثمان البتی کے بارہ میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کان رجلا مقاربا کہ وہ درمیانہ درجہ کا آدمی تھا۔
اور ان سے ابن شبرمہ کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ درمیانہ درجہ کا آدمی تھا۔
تو ان سے پوچھا گیا پس ابو حنیفہ کیسے ہیں تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ تمہارے ان ستونوں کے پاس آئے پھر وہ تمہیں قیاس سے قائل کرنے لگے کہ بے شک وہ ستون لکڑی کے ہیں (حالانکہ وہ لکڑی کے نہ ہوں) تو تم یقین کر لو گے کہ بے شک وہ لکڑی کے ہیں۔ الخ[3]
اور یہ ساری خبریں اس بات پر دلالت کے لیے نقل کی گئی ہیں جو اللہ تعالی نے ابو حنیفہ کو عمدہ رائے اور معانی کی تہہ تک پہنچنے اور علم میں وسعت کی قوت دے رکھی تھی۔
عداوت کی وجہ سے اس میں عیب پر دلالت کے لیے نہیں نقل کی گئی۔
اور جس طرح مالک نے ابو حنیفہ کی تعریف کی ہے اسی جیسی تعریف بعض حضرات نے امام شافعی کی بھی مدح کرتے ہوئے کی ہے نہ کہ اس میں عیب بتانے کے لیے۔
لیکن روایت میں راوی ابن ابی حاتم المسکین جس کے بارہ میں کہا جاتا تھا کہ بائیں جانب والے کاتب نے اس کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔ (یعنی وہ بہت زیادہ پرہیز گار تھا پھر اس کو حرب بن اسماعیل السیرجانی نے اعتقاد میں برباد کر دیا یہاں تک کہ وہ اہل حق متکلمین کے خلاف کمر بستہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ بے شک یہ کہنا کہ قرآن کے الفاظ مخلوق ہیں تو یہ بھی کفر ہے۔
اس طرح کہنے والا ملت سے
نکل جاتا ہے اور کتاب الرد علی الجہمیہ میں وہ چیزیں ذکر کی گئی ہیں جو اس کی عقل کی خرابی پر دلالت کرتی ہیں اور وہ بے پناہ دشمنی چھپاتا تھا ان لوگوں کے بارہ میں جو قرآن کریم کے الفاظ کو مخلوق کہتے تھے۔
پس عقلیں تقسیم کرنے والی ذات بڑی پاک ذات ہے۔
پس آپ دیکھیں گے کہ وہ اسی وجہ سے امت کے حفاظ کے شیخ بخاری کے بارہ میں بھی کلام کرنے سے نہ بچتا تھا۔
اس کو ابوزرعہ اور ابوحاتم نے ترک کر دیا تھا۔
پس جب اس کی یہ حالت حدیث کی روایت کرنے والوں کے بارہ میں ہے تو پھر اس کی رائے اہل فقہ اور روایت کے بارہ میں کیا ہوگی۔
اور اس نے خود اعتراف کیا کہ وہ علم کلام سے ناواقف ہے۔ جیسا کہ کتاب الاسماء والصفات ص 269 میں ہے مگر اس کے باوجود آپ دیکھیں گے کہ وہ علم اصول الدین کی تنگ جگہوں میں داخل ہوتا ہے۔ تفویض (کہ متشابہات کے ظاہر پر ایمان رکھنا اور مفہوم کو اللہ کی طرف سونپ دینا) اور تنزیہہ (جو چیزیں اللہ تعالی کے لیے لائق نہیں ان سے اس کو منزہ ماننا) کے نظریہ سے دور ہٹنے والا تھا تو اس کے قدم پھسل گئے۔
اس کی حالت یہ تھی کہ جو کام اس نے کیا ہوتا اس کے متعلق گمان کرتا کہ اس نے نہیں کیا۔ اور وہ روایت بالمعنی نقل کرتا تو اس کو بالکل ہی بدل دیتا۔
اور یہی وہ شخص ہے جس کے
بارہ میں بے تکی باتیں کہنے والے کہتے تھے کہ بے شک کاتب شمال وہ چیز پاتا ہی نہیں جو اس کے خلاف لکھے (یعنی انہوں نے اس کو اتنا پارسا مشہور کر رکھا تھا)
بے شک کتاب الجرح والتعدیل میں اس نے کہا کہ ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی نے میری طرف ابو عبد الرحمن المقرٸ سے جو روایت لکھ کر بھیجی اس میں لکھا کہ ابو عبد الرحمن المقرٸ نے کہا کہ ابو حنیفہ نے ہمارے سامنے حدیثیں بیان کیں۔ پھر جب حدیث سے فارغ ہوئے تو کہا یہ کہ سب جو کچھ تم نے سنا ہے وہ سب ہوا اور بے اصل ہیں[4]۔
پھر کہا کہ ابراہیم بن يعقوب الجوزجانی نے مجھے لکھ کر بھیجا کہ مجھے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا کہ میں نے جریر کو کہتے ہوئے سنا کہ محمد بن جابر الیمامی نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں[5]۔
پھر کہا کہ ہمیں احمد بن منصور المروزی نے بتلایا کہ میں نے سلمہ بن سلمان سے سنا وہ کہتا تھا کہ عبد اللہ یعنی ابن المبارک نے کہا کہ بے شک میرے ساتھی ابو حنیفہ سے روایت کرنے کے بارہ میں مجھے ملامت کرتے ہیں۔
اور یہ اس لیے کہ بے شک اس نے محمد بن جابر کی کتاب لی جس میں اس نے حماد بن ابی سلیمان سے مروی روایات لکھی ہوئی تھیں پھر وہ روایات حماد سے کرنے لگے حالانکہ انہوں نے وہ روایات اس سے نہیں سنی تھیں[6]۔
ابی حاتم باقی لوگوں کی بہ نسبت زیادہ جانتے ہیں کہ بے شک الجوزجانی اہل کوفہ سے کنارہ کش تھے۔
یہاں تک کہ اہل نقد کی اس کے بارہ میں رائے پختہ ہو گئی کہ اہل کوفہ کے بارہ میں اس کی بات قابل قبول نہیں ہے۔
اور وہ ناصبی خبیث حریزی مذہب کا تھا[7]۔
اس کی ایک لونڈی نے چوزہ لیا تا کہ اس کو ذبح کرائے تو اس نے اس کو ذبح کرنے والا کوئی نہ پایا تو یہ کہنے لگا سبحان اللہ ایک چوزے کو ذبح کرنے والا نہیں ملتا اور علی ایک صبح میں بیس ہزار سے اوپر مسلمانوں کو ذبح کر دیتا تھا۔ الخ[8]۔
(حضرت علیؓ کے بارہ میں اس کا ایسا نظریہ تھا، معاذ اللہ )
پس اس جیسے خبیث آدمی کی بات کی تصدیق کیا ابو حنیفہ کے بارہ میں کوئی متقی پرہیز گار کر سکتا ہے؟
پھر اس روایت میں محمد بن جابر الیمامی الاعمی ہے جس کے بارہ میں امام احمد نے کہا کہ
اس سے صرف وہی آدمی حدیث بیان کرے گا جو اس سے بھی زیادہ شریر ہوگا اور ابن معین
اور نسائی نے اس کو ضعیف کہا۔ پس ابن ابی حاتم اس جیسے آدمی کی سند سے ابو حنیفہ کو (علم و عمل) سے خالی کر دینے کا ارادہ رکھتا ہے[9]۔
یہاں تک کہ اپنی ان روایات میں پائی جانے والی باتوں سے بھی خالی کرنا چاہتا ہے جو اس نے اپنے ایسے شیخ سے بیان کی ہیں جس کا ساتھ اس کو عرصہ دراز تک حاصل رہا اور اس کی وجہ سے وہ روایات فقہ میں پیش کی جاتی ہیں۔
لیکن تعصب اسی طرح دن کو رات بناتا رہتا ہے۔
علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق تو راوی کے اپنے خط کا بھروسہ نہیں ہوتا جب تک وہ اس کا ذکر نہ کرے جس سے روایت کی گئی ہے تو محمد بن جابر الاعمی کی کتاب پر کیسے بھروسہ ہو سکتا ہے جس کے بارہ میں معلوم ہی نہیں کہ اس کی کتاب کس نے لکھی۔
اور اگر ہم اس چیز سے پردے ہٹانے شروع کریں جو ابن ابی حاتم نے ردی قسم کے اعتقاد چھپا رکھے تھے اور جن کو اہل حق کے مقابلہ میں اٹھائے پھرتا تھا تو کلام طویل ہو جائے گی۔ پس اسی اشارہ پر اکتفا کرتے ہیں تا کہ معلوم کیا جا سکے کہ اس سے اس کے فن کی صرف وہی بات کی جا سکتی ہے جس میں اس کا تعصب بھڑکا ہوا نہ ہو۔
پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ بے شک فلاں آدمی کا کاتب شمال اس کے خلاف کچھ نہیں لکھتا تو اس قول کی وجہ سے تو جرات کے ساتھ غیوب پر جا پڑتا ہے (یعنی اس کو غیب کا علم ہے جس سے اس نے معلوم کیا کہ اس کا بائیں جانب کا فرشتہ اس کے خلاف کچھ نہیں لکھتا) نیز یہ تو تعریف میں مبالغہ کرنا ہے اور ان دونوں چیزوں کا ہر دیندار آدمی انکار کرتا ہے۔
ہم اللہ تعالی سے حفاظت کی درخواست کرتے ہیں[10]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1].تاریخ بغداد ت بشار 15/463 اسنادہ صحیح
[2]. المنتظم في تاريخ الأمم والملوك 8/131
[3].مناقب الشافعي للبيهقي 1/536 ، الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ١/١٤٦ ، المنتخب من ذيل المذيل ١/١٣٩ — أبو جعفر ابن جرير الطبري
[4]۔. نا عبد الرحمن انا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى عن أبي عبد الرحمن المقرئ قال: كان أبو حنيفة يحدثنا فإذا فرغ من الحديث قال: هذا الذي سمعتم كله ريح وباطل
الجرح والتعديل - الرازي - ج ٨ - الصفحة ٤٥٠
ابو عبدالرحمن المقری کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ ہمیں حدیث سناتے اور جب اس سے فارغ ہوتے تو کہتے: یہ جو تم سب نے سنا ہے یہ سب ریح وباطل ہے
جواب :
یہ روایت بالکل باطل ہے کیونکہ
1. جوزجانی کی اہل کوفہ کے بارے میں متعصبانہ جرح
1۔ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی اہلِ کوفہ کے بارے میں شدید متشدد تھا، اور اس کی کوفی محدثین کے خلاف جرح کا اعتبار ہی نہیں کیا جاتا۔امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"وممن ينبغي ان يتوقف في قبوله قوله في الجرح من كان بينه وبين من جرحه عداوة سببها الاختلاف في الاعتقاد، فإن الحاذق إذا تأمل ثلب أبى إسحاق الجوزجاني لأهل الكوفة رأى العجب، وذلك لشدة انحرافه في النصب وشهرة أهلها بالتشيع، فتراه لا يتوقف في جرح من ذكره منهم بلسان ذلقة وعبارة طلقة، حتى أنه اخذ يلين مثل الأعمش وأبى نعيم وعبيد الله بن موسى۔۔الخ" (لسان الميزان 1/16) یعنی ایسے شخص کی جرح سے احتراز کرنا چاہیے، جو عداوت کی بنیاد پر کسی کو جرح کرے۔ سمجھدار شخص جب جوزجانی کی اہلِ کوفہ کے متعلق جرح اور طعن دیکھے گا، تو تعجب کرے گا، کیونکہ اس کا جھکاؤ ناصبیت کی طرف تھا اور اہلِ کوفہ تشیع کے حوالے سے مشہور تھے۔ لہٰذا وہ تعصب کی بنا پر ان پر نکتہ چینی کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے اعمش، ابو نعیم، عبیداللہ بن موسیٰ ثقة محدثین کو بھی کمزور قرار دیا
جوزجانی کے تعصب کی سب سے بڑی دلیل
جوزجانی کے تعصب کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس نے امام ابو حنیفہؒ پر "چوری" کا جھوٹا الزام لگایا، جیسا کہ امام ابن ابی حاتم کی الجرح والتعديل میں جو جانی کے واسطہ سے منقول ہے کہ محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں(الجرح والتعديل - الرازي - ج 8 - الصفحة 450) حالانکہ اسی قول کے فوراً بعد صحیح سند سے امام عبداللہ بن مبارکؒ نے اس واقعے کی اصل حقیقت بیان کر دی ہے۔ امام ابن مبارکؒ فرماتے ہیں:" وذاك أنه أخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان، فروى عن حماد ولم يسمعه منه" (الجرح والتعديل، ج 8، ص 450) یعنی امام ابو حنیفہ نے محمد بن جابر کے پاس رکھی ہوئی حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں حاصل کیں ، اور پھر ان کتابوں سے حماد کی روایات بیان کرنے لگے، حالانکہ انہوں نے یہ روایات براہِ راست حماد سے نہیں سنیں۔
اس روایت میں "أخذ" (حاصل کرنا) کا لفظ ہے، جس کا مطلب کسی کی کتاب لینا، مانگنا، یا اس سے استفادہ کرنا ہے — نہ کہ چوری۔ لیکن جوزجانی نے اسی واقعے کو تعصب کی بنیاد پر توڑ مروڑ کر "سرق" یعنی چوری بنا کر پیش کیا.
معلوم ہوتا ہے کہ جوزجانی ناصبی کو امام ابو حنیفہؒ کے خلاف شدید تعصب تھا، اور اسی تعصب کی بنیاد پر اس نے کتابیں "اخذ" جیسے جائز عمل کو بھی "سرقہ" یعنی چوری کا رنگ دے کر امام ابو حنیفہؒ کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ یہ اس بات کی مثال ہے کہ بعض ثقہ سمجھے جانے والے راویوں نے تعصب میں آ کر امام اعظمؒ کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود مضمون
اعتراض نمبر 20 : محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں ۔
ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ:
وأما الجوزجاني، فقد قلنا غير مرة : إن جرحه لا يقبل فى أهل الكوفة، لشدة انحرافه، ونصبه. (فتح الباری : 1/446، دار المعرفہ بیروت)
یعنی: جہاں تک جوزجانی کا تعلق ہے، تو ہم کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ سخت ناصبی ہونے اور راہِ اعتدال سے ہٹ جانے کی بنا پر اہلِ کوفہ کے بارے میں اس کی جرح قابلِ قبول نہیں۔
غیر مقلدین کی تصریحات
کچھ غیر مقلدین جوزجانی کو ناصبی نہیں مانتے، ان کے لیے انہی کے اکابرین کی تصریحات پیش کی جاتی ہیں:
▪︎ زبیر علی زئی (غیر مقلد): جوزجانی (ناصبی) (نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 28)
▪︎ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری: جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔ اہل کوفہ اور محبان اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے. (حدیث عود روح اور ڈاکٹر عثمانی کی جہالتیں، 14 ستمبر 2017)
▪︎ مولانا اسماعیل سلفی (غیر مقلد): انہوں نے ابن حجر کے حوالہ سے جوزجانی کو ناصبی اور اہل کوفہ کا دشمن لکھا ہے۔ (مقالات حدیث، صفحہ 579)
زبیر علی زئی نے بھی جوزجانی کو متشدد لکھا ہے۔ (فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، صفحہ 577)
▪︎ ابویحییٰ نور پوری (غیر مقلد): "جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔ اہل کوفہ اور محبان اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے۔ اگر کوئی ایک بھی معتبر محدث کسی کوفی راوی کو ثقہ قرار دے تو جوزجانی کی جرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی." (حدیث عود روح، ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ)
چونکہ ثقہ محدثین جیسے امام شعبہ اور یحییٰ بن معین نے امام ابو حنیفہؒ کی توثیق کی ہے، اس لیے جوزجانی کی جرح — جو ناصبیت، تعصب اور اہلِ کوفہ سے دشمنی پر مبنی ہے — ردی کی ٹوکری کے لائق ہے۔
پس، امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جوزجانی کی جرح ناقابلِ قبول ہے۔
2۔ امام ابو عبدالرحمن المقری ، آخر دم تک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت بیان کرتے رہے ہیں ،
اگر امام صاحب حدیث مبارکہ کو باطل کہتے تھے تو ثقہ محدث ابو عبدالرحمن المقری ان سے روایت کیوں بیان کرتے ؟
امام المقرئ رحمہ اللہ کا آخری دم تک امام صاحب سے روایات نقل کرنے کا ثبوت:
1۔ امام المقرئ متوفی 213 ھ کے شاگرد ثقہ محدث بشر بن موسى بن صالح الأسدي البغدادي (پیدائش ١٩٠ - وفات ٢٨٨ هـ سير أعلام النبلاء ج ١٣ ص ٣٥٢) ، امام مقرئ کی وفات 213 ھ میں ہوئی ہے جس وقت بشر بن موسی رحمہ اللہ کی عمر 23 سال تھی ، یہ ثقہ محدث یعنی بشر بن موسی ، اپنے استاد المقرئ رحمہ اللہ کے واسطہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے احادیث بیان کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، ثنا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، فِي الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ: «لِلْمُسَافِرِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ وَلَيَالِيهِنَّ، وَلِلْمُقِيمِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ»
( المعجم الکبیر للطبرانی 4/96 )
امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک اور روایت بھی بشر بن موسی ، المقرئ اور امام ابو حنیفہ سے ، امام المقرئ کے ترجمہ میں نقل کی ہے۔
أَخْبَرَنَا ابْنُ قُدَامَةَ، وَابْنُ البُخَارِيِّ إِجَازَةً، قَالاَ: أَخْبَرَنَا عُمَرُ بنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ بنُ البَنَّاءِ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الجَوْهَرِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ القَطِيْعِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بنُ مُوْسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ المُقْرِئُ، عَنْ أَبِي حَنِيْفَةَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ: أنَّه رَآهُ يُصَلِّي فِي قَمِيْصٍ خَفِيْفٍ، لَيْسَ عَلَيْهِ إِزَارٌ، وَلاَ رِدَاءٌ. قَالَ: وَلاَ أَظُنُّهُ صَلَّى فِيْهِ إِلاَّ لِيُرِيَنَا أَنَّهُ لاَ بَأْسَ بِالصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ
جس پر محشی نے لکھا ہے إسناده صحيح، وهو في «مسند» أبي حنيفة برقم (٨١) ( سير أعلام النبلاء - ط الرسالة ١٠/١٦٨ )
یعنی دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کا امام المقرئ کے ترجمہ میں المقرئ کی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت نقل کرنا (جسے محشی نے صحیح لکھا ہے)، اس بات پر دلالت کرتا ہیکہ امام ابو حنیفہ سے یہ قول بالکل بھی ثابت نہیں کہ وہ جو المقرئ سے بیان کرتے تھے عام طور پر غلط ہوتا تھا۔
2۔ دوسرے شاگرد الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، المُسْنِدُ، أَبُو يَحْيَى عَبْدُ اللهِ بنُ أَحْمَدَ بنِ أَبِي مَسَرَّة المَكِّيُّ متوفی 279ھ ۔ آپ امام مقرئ کے آخری دور کے شاگردوں میں سے ہیں ، آپ امام مقرئ کے واسطہ سے امام ابو حنیفہ سے احادیث بیان کرتے ہیں
وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَسَرَّةَ، قثنا الْمُقْرِئُ، قثنا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْ سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّتِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ۔۔۔ الخ
( مسند أبي عوانة دار المعرفة 4/205 : رقم 6503 )
لہذا ثابت ہوا کہ امام مقرئ رحمہ اللہ امام صاحب سے روایات بیان کرتے تھے معلوم ہوا ، یہ روایت باطل ہے اور امام صاحب پر اعتراض مردود ہے۔
[5] ، [6] ۔اعتراض
: اعتراض :
نا عبد الرحمن انا إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فيما كتب إلى حدثني إسحاق بن راهويه قال سمعت جريرا يقول قال محمد بن جابر اليمامي: سرق أبو حنيفة كتب حماد منى.
اسحاق بن راهويه کہتے ہیں میں نے جریر کو سنا کہ محمد بن جابر اليمامى نے کہا کہ ابو حنیفہ نے مجھ سے حماد کی کتابیں چوری کیں
الجرح والتعديل - الرازي - ج 8 - الصفحة 450
جواب :
یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ
1. جوزجانی کی اہل کوفہ کے بارے میں متعصبانہ جرح
1۔ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی اہلِ کوفہ کے بارے میں شدید متشدد تھا، اور اس کی کوفی محدثین کے خلاف جرح کا اعتبار ہی نہیں کیا جاتا۔امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"وممن ينبغي ان يتوقف في قبوله قوله في الجرح من كان بينه وبين من جرحه عداوة سببها الاختلاف في الاعتقاد، فإن الحاذق إذا تأمل ثلب أبى إسحاق الجوزجاني لأهل الكوفة رأى العجب، وذلك لشدة انحرافه في النصب وشهرة أهلها بالتشيع، فتراه لا يتوقف في جرح من ذكره منهم بلسان ذلقة وعبارة طلقة، حتى أنه اخذ يلين مثل الأعمش وأبى نعيم وعبيد الله بن موسى۔۔الخ" (لسان الميزان 1/16) یعنی ایسے شخص کی جرح سے احتراز کرنا چاہیے، جو عداوت کی بنیاد پر کسی کو جرح کرے۔ سمجھدار شخص جب جوزجانی کی اہلِ کوفہ کے متعلق جرح اور طعن دیکھے گا، تو تعجب کرے گا، کیونکہ اس کا جھکاؤ ناصبیت کی طرف تھا اور اہلِ کوفہ تشیع کے حوالے سے مشہور تھے۔ لہٰذا وہ تعصب کی بنا پر ان پر نکتہ چینی کرتا رہا، یہاں تک کہ اس نے اعمش، ابو نعیم، عبیداللہ بن موسیٰ ثقة محدثین کو بھی کمزور قرار دیا
ابن حجر رحمہ اللہ کا فیصلہ:
وأما الجوزجاني، فقد قلنا غير مرة : إن جرحه لا يقبل فى أهل الكوفة، لشدة انحرافه، ونصبه. (فتح الباری : 1/446، دار المعرفہ بیروت)
یعنی: جہاں تک جوزجانی کا تعلق ہے، تو ہم کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ سخت ناصبی ہونے اور راہِ اعتدال سے ہٹ جانے کی بنا پر اہلِ کوفہ کے بارے میں اس کی جرح قابلِ قبول نہیں۔
غیر مقلدین کی تصریحات
کچھ غیر مقلدین جوزجانی کو ناصبی نہیں مانتے، ان کے لیے انہی کے اکابرین کی تصریحات پیش کی جاتی ہیں:
▪︎ زبیر علی زئی (غیر مقلد): جوزجانی (ناصبی) (نماز نبوی صحیح احادیث کی روشنی میں مع حصن المسلم - صفحہ 28)
▪︎ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری: جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔ اہل کوفہ اور محبان اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے. (حدیث عود روح اور ڈاکٹر عثمانی کی جہالتیں، 14 ستمبر 2017)
▪︎ مولانا اسماعیل سلفی (غیر مقلد): انہوں نے ابن حجر کے حوالہ سے جوزجانی کو ناصبی اور اہل کوفہ کا دشمن لکھا ہے۔ (مقالات حدیث، صفحہ 579)
زبیر علی زئی نے بھی جوزجانی کو متشدد لکھا ہے۔ (فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، صفحہ 577)
▪︎ ابویحییٰ نور پوری (غیر مقلد): "جوزجانی اپنے علم و فضل کے باوجود متعصب ناصبی تھے۔ اہل کوفہ اور محبان اہل بیت پر ناحق جرح کرنا ان کا معمول ہے۔ اگر کوئی ایک بھی معتبر محدث کسی کوفی راوی کو ثقہ قرار دے تو جوزجانی کی جرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائے گی." (حدیث عود روح، ایک غیر جانبدارانہ تجزیہ)
چونکہ ثقہ محدثین جیسے امام شعبہ اور یحییٰ بن معین نے امام ابو حنیفہؒ کی توثیق کی ہے، اس لیے جوزجانی کی جرح — جو ناصبیت، تعصب اور اہلِ کوفہ سے دشمنی پر مبنی ہے — ردی کی ٹوکری کے لائق ہے۔
پس، امام ابو حنیفہؒ کے خلاف جوزجانی کی جرح ناقابلِ قبول ہے۔
2)۔ محمد بن جابر یمامی خود غیر مقلدین کے ہاں سخت ضعیف راوی ہیں۔
یہاں غیر مقلد ایک اور روایت پیش کرتے ہیں کہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَابِرٍ قَالَ: جَاءَنِي أَبُو حَنِيفَةَ يَسْأَلُنِي عَنْ كِتَابِ حَمَّادٍ، فَلَمْ أَعْطِهِ كِتَابًا، فَدَسَّ إِلَيَّ ابْنَهُ فَدَفَعْتُ كُتُبِي إِلَيْهِ، فَدَفَعَهَا إِلَى أَبِيهِ، فَرَوَاهَا أَبُو حَنِيفَةَ مِنْ كُتُبِي، عَنْ حَمَّادٍ
محمد بن عیسی نے ہم سے روایت کی: ابراہیم بن سعید نے ہم سے روایت کی: محمد بن حمید نے جریر سے، اور جریر نے محمد بن جابر سے روایت کی کہ ابو حنیفہ میرے پاس آئے اور حماد کی کتاب کے بارے میں پوچھا۔ میں نے انہیں کوئی کتاب نہیں دی، لیکن ان کے بیٹے نے مجھے ایک خفیہ پیغام بھیجا، جس پر میں نے اپنی کتابیں انہیں دے دیں اور انہوں نے انہیں اپنے والد کے پاس پہنچا دیا۔ پھر ابو حنیفہ نے ان کتابوں کو میرے ذریعے حماد سے روایت کیا۔
(الضعفاء الكبير للعقيلي ٤/٢٦٨)
جواب :
یہ روایت بھی غیر مقلدین کو مفید نہیں کیونکہ سند میں راوی محمد بن حمید الرازی پر کذاب اور سخت ضعیف ہونے کی جروحات ہیں۔
محمد بن حميد بن حيان
الجرح والتعديل :
محمد بن إسماعيل البخاري :
حديثه فيه نظر، ومرة: تركه
أحمد بن شعيب النسائي :
ليس بثقة، ومرة: كذاب
أبو حاتم الرازي :
ضعيف جدا، وقال مرة: كذاب، لا يحسن يكذب
أبو حاتم بن حبان البستي :
كان ممن ينفرد عن الثقات بالأشياء المقلوبات ولا سيما إذا حدث عن شيوخ بلده
أبو زرعة الرازي :
تركه، ومرة: رماه بالكذب
إسحاق بن منصور الكوسج :
أشهد علي محمد بن حميد، وعبيد بن إسحاق العطار بين يدي الله أنهما كذابان
عبد الرحمن بن يوسف بن خراش :
كان والله يكذب، ومرة: ضعيف الحديث جدا
محمد بن مسلم بن وارة :
تركه، ومرة: كذاب
يعقوب بن شيبة السدوسي :
كثير المناكير
3)۔ جبکہ اس بارے میں صحیح ترین روایت ، اسی صفحہ پر موجود ہیکہ
نا عبد الرحمن نا أحمد بن منصور المروزي قال سمعت سلمة بن سليمان قال قال عبد الله - يعنى ابن المبارك: ان أصحابي ليلومونني في الرواية عن أبي حنيفة، وذاك انه اخذ كتاب محمد بن جابر عن حماد بن أبي سليمان فروى عن حماد ولم يسمعه منه.
امام عبد الله بن مبارک کہتے ھیں: میرے اصحاب مجھے ابوحنیفہ سے روایت کرنے پر ملامت کرتے ھیں، وہ اِس لئے ، کہ ابو حنیفہ نے محمد بن جابر یمامی کے یہاں رکھی ھوئی حماد بن ابی سلیمان کی کتابیں حاصل کر لیں، پھر ابو حنیفہ اِن کتابوں سے روایت بیان کرنے لگے ، حالانکہ انہوں نے یہ کتابیں حماد سے نہیں سنی تھیں۔
الجرح والتعديل - الرازي - ج ٨ - الصفحة ٤٥٠
روایت میں یہ ہیکہ انہوں نے یہ کتابیں اخذ کیں ، نہ کہ چوری کیں ، اخذ کا مطلب یہ ہو سکتا ہیکہ یا تو وہ کتب خرید لیں ، یا وقتی طور پر ان سے ادھار لیں تا کہ روایات نقل کریں وغیرہ وغیرہ لیکن چوری ہر گز نہیں کیں۔
" چوری " کا لفظ یا تو جوزجانی ناصبی کا کوفی محدثین کے بارے میں تعصب کی وجہ سے ہے یا پھر محمد بن جابر یمامی کا الزام۔
جب کہ صحیح ترین سند سے ثقہ محدث عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ یہی فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے یہ کتابیں اخذ کیں تھیں ، سرقہ / چوری نہیں ۔
فائدہ نمبر 1 :
اب جب خود حماد رحمہ اللہ سے روایات نہ سنی تھیں ، بلکہ ان کی کتاب سے بیان کر رہے تھے ، تو یہ کوئی غلط بات نہیں ، کتنے ہی محدثین دوسرے محدثین کی کتب سے روایات نقل کرتے ہیں اور آگے بیان کرتے ہیں ، مثلا ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے پاس امام محدث یوسف صیدلانی مکی رحمہ اللہ کی کتاب تھی ، جس سے وہ الانتقاء میں روایات نقل کرتے ہیں ۔ اس کی بیسیوں مثالیں ہیں ، لیکن غیر مقلدیت ، امام ابو حنیفہ کی ضد میں تعصب اور جہالت کی کسی بھی حد جا سکتی ہے۔
فائدہ نمبر 2 : یہاں معترض کہہ سکتا ہیکہ بعض شاگرد ، عبداللہ بن مبارک سے ابو حنیفہ کی روایات نہ لکھتے تھے ، جواب یہ ہیکہ اول تو یہاں وہ مذکور ہی نہیں ، نا معلوم ہیں ، معلوم ہی نہیں کہ وہ کون کون تھے جن کو ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی روایت لکھنا گوارا نہ تھا ، لہذا نا معلوم لوگوں کی وجہ سے فقیہ ملت پر اعتراض ہو ہی نہیں سکتا ۔ دوم یہ کہ جب استاد یعنی عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ خود ابو حنیفہ کی روایات لکھوا رہے ہیں ، لیکن چند نا معلوم شاگرد ، اپنے ہے استاد کو ملامت کر رہے (یاد رہے یہ استاد معمولی بندہ۔ نہیں امیر المومنین فی الحدیث ہے) ، تو وہ شاگرد اپنی کم حیثیتی کو دکھلا رہے ہیں کہ امیر المومنین فی الحدیث کو ملامت کر رہے ہیں ، یہی وجہ ہیکہ وہ اس قابل تھے ہی نہ کہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ان کے نام ذکر کرتے۔ (یعنی علم حدیث میں ان کی کچھ وقعت تھی ہی نہیں ، ان کا کچھ علمی مقام تھا ہی نہیں ، وگرنہ عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ ضرور نام لیتے کہ میرے فلاں ذی علم طالب علم کو ناگوار گزرا ۔ چونکہ یہاں ملامت کرنے والے چند معمولی درجہ کے لوگ تھے ، جو نہ تو امیر المومنین فی الحدیث کے مرتبہ کو جانتے ہیں کہ الٹا ان کو ملامت کر رہے ہیں بلکہ امیر المومنین فی الحدیث کے استاد محترم فقیہ ملت جن کے بارے میں ابن مبارک فرماتے ہیں کہ میں نے سب سے بڑا فقیہ ابو حنیفہ کو دیکھا ہے (تاریخ بغداد ت بشار 15/469 اسنادہ صحیح) ، ان پر بھی طعن کرنے کی جسارت کر رہے ہیں ، لہذا عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے ایسے نا خلف طالب علموں کا نام ہی زبان پر نہ لیا۔)
بعض غیر مقلدین کہتے ہیں کہ محمد بن جابر یمامی کو ضعیف کہو گے تو ترک رفع الیدین کہاں سے ثابت کرو گے ، ان کیلئے ذیل میں صرف 2 حوالے ہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاتِهِ إِلَّا حِينَ افْتَتَحَ الصَّلَاةَ“۔
’’حضرت اسودؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کےساتھ نماز پڑھی تو انہوں نے نماز میں کسی جگہ بھی رفع یدین نہیں کیا سوائے ابتداءنمازکے‘‘۔
(رواۃ ابن أبی شیبۃ فی المصنف وسندصحیح علی شرط الشیخین: ج۲، ص۶۱)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحِمَّانِيُّ، قَالَ:حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَيَّاش، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ إبْرَاهِيمَ، عَنْ الأَسْوَدِ، قَالَ: رَأَيْت عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةٍ، ثُمَّ لاَ يَعُود۔ قَالَ: وَرَأَيْت إبْرَاهِيم، وَالشَّعْبِيَّ يَفْعَلاَنِ ذَلِكَ۔ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: فَهَذَا عُمَرُ رضي الله عنه لَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ أَيْضًا إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الآُولَى فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ لِأَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَيَّاشٍ، وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ إنَّمَا دَارَ عَلَيْهِ، فَإِنَّهُ ثِقَةٌ حُجَّةٌ، قَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ وَغَيْرُهُ‘‘۔
’’حضرت ابراہیم نے اسود سے نقل کی ہے کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ وہ پہلی تکبیرمیں صرف ہاتھ اٹھاتے پھر دوبارہ ہاتھ نہ اٹھاتے اور میں نے ابراہیم نخعیؒ اور شعبی ؒ کو اسی طرح کرتے دیکھا۔ امام طحاویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حضرت عمررضی اﷲعنہ جو اس روایت کے مطابق صرف پہلی تکبیرمیں ہاتھ اٹھاتے ہیں اور یہ روایت صحیح ہے۔ کیونکہ اس کا دارمدار حسن بن عیاش راوی پر ہے۔ اور وہ قابل اعتماد وپختہ راوی ہے۔ جیساکہ یحییٰ بن معینؒ وغیرہ نے بیان کیا ہے‘‘۔
(المعانی الآثار للطحاوی: ج۱، ص۲۲۸؛ نصب الرایۃ: ج۱، ص۴۰۵، رقم ۱۷۲۴)
[7]۔ الثقات لابن حبان ٨/٨١
[8]۔ تهذيب التهذيب ١/١٨٢
[9]۔ أحمد بن حنبل : لا يحدث عنه إلا شر منه، ومرة: ربما ألحق في كتابه أو يلحق في كتابه يعنى الحديث، ومرة: يروي أحاديث مناكير وهو معروف بالسماع يقولون رأوا في كتبه نحو حديثه عن حماد فيه اضطراب، ومرة: منكر أنكره جدا، ومرة: ليس به بأس
أحمد بن شعيب النسائي : ضعيف
أحمد بن صالح الجيلي : ضعيف
الذهبي : سيئ الحفظ
عبد الرحمن بن مهدي : ضعفه، ومرة: كان يحدث عنه ثم تركه بعد
عمرو بن علي الفلاس : صدوق كثيرالوهم، متروك الحديث
محمد بن إسماعيل البخاري : ليس بالقوي، يتكلمون فيه، روى مناكير
[10]۔ امام مالک رحمہ اللہ سے جروحات کے متعلق تفصیلی جواب کیلئے دیکھیں " النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں