اعتراض نمبر 85: کہ ابوحنیفہ نے خود ابو یوسف کو منع کیا کہ میری ہر بات کو نہ لکھا کرو کیونکہ میں ایک رائے اختیار کرتا ہوں اور اگلے دن اس کو چھوڑ دیتا ہوں۔
اعتراض نمبر 85:
کہ ابوحنیفہ نے خود ابو یوسف کو منع کیا کہ میری ہر بات کو نہ لکھا کرو کیونکہ میں ایک رائے اختیار کرتا ہوں اور اگلے دن اس کو چھوڑ دیتا ہوں۔
أخبرنا علي بن القاسم بن الحسن البصري، حدثنا علي بن إسحاق المادراني قال: سمعت العباس بن محمد يقول: سمعت أبا نعيم يقول: سمعت زفر يقول كنا نختلف إلى أبي حنيفة، ومعنا أبو يوسف، ومحمد بن الحسن، فكنا نكتب عنه، قال زفر فقال يوما أبو حنيفة لأبي يوسف: ويحك يا يعقوب لا تكتب كل ما تسمعه مني، فإني قد أرى الرأي اليوم فأتركه غدا، وأرى الرأي غدا وأتركه بعد غد.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے ساتھیوں کو اجازت نہ دیتے تھے کہ وہ بحث کو ہر لحاظ سے مضبوط ہونے سے پہلے اس کے مسائل لکھیں اور یہ ان کی انتہائی پرہیزگاری تھی۔ اور بے شک ابن ابی العوام نے طحاوی - محمد بن عبد الله الرعینی - سلیمان بن عمران - اسد بن الفرات کی سند سے نقل کیا ہے کہ اسد بن الفرات نے کہا کہ مجھے اسد بن عمرو نے کہا کہ وہ (یعنی فقہ مدون کرنے میں امام ابوحنیفہ کے ساتھی) ابوحنیفہ کے پاس کسی مسئلہ کے جواب میں مختلف جوابات دیتے تھے تو ایک اور جواب دیتا اور دوسرا اور جواب دیتا۔ پھر وہ اس کے سامنے پیش کرتے اور اس مسئلہ کے بارہ میں اس سے پوچھتے تو وہ کتابوں میں درج کرتے اور وہ ایک ایک مسئلہ میں تین تین دن تک ٹھہرے رہتے تھے پھر اس کو رجسٹر میں لکھتے اور اسی طرح ابوحنیفہ کے اصحاب میں سے جو کتابوں کو لکھتے تھے وہ چالیس آدمی تھے اور اسد بن عمرو ان کے لیے تیس سال ان مسائل کو لکھتے رہے۔ الخ
اور الصیمری نے العباس بن احمد الھاشمی - احمد بن محمد المسکی۔ علی بن محمد النخعی۔ ابراہیم بن محمد البلخی - محمد بن سعید الخوارزمی - اسحاق بن ابراہیم کی سند نقل کر کے کہا کہ اسحاق بن ابراہیم نے کہا کہ ابوحنیفہ کے ساتھی ایک ایک مسئلہ میں اس کے ساتھ غور و خوض کرتے تو جب اس محفل میں عافیہ موجود نہ ہوتے تو ابو حنیفہ کہتے کہ عافیہ کے آنے تک اس مسئلہ کا فیصلہ مت کرو۔ پس جب عافیہ حاضر ہوتے اور ان کے ساتھ مسئلہ میں اتفاق کرتے تو پھر وہ اس مسئلہ کو درج کرتے۔ اور اگر وہ ان سے موافقت نہ کرتے تو ابوحنیفہ کہتے کہ اس کو درج نہ کرو۔ الخ[1]
تو اس طریقہ کے ساتھ ایسی حیثیت سے ان کے مسائل پختہ ہوگئے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی ٹکرائے تو وہ اس کی سر کی چوٹی پر جا پڑتے ہیں۔
اور خطیب نے یہاں جو روایت نقل کی ہے وہ میں نے یحی بن معین کی تاریخ میں العباس بن محمد الدوری کی اس سے روایت دیکھی ہے۔ جو دمشق کے مکتبہ ظاہریہ میں خط قدیم کے ساتھ لکھی ہوٸی ہے[2]۔
اور اس کے بعد والی خبر میں اللہ کی قسم مجھے معلوم نہیں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایسا باطل ہو جس میں کوئی شک نہیں جو ابوحنیفہ کی طرف منسوب کی گئی ہے تو وہ قطعی طور پر کسی ایک خاص مسئلہ کے بارہ میں ہی ہو سکتی ہے[3]۔
اور اس سے بعد والی سند[4] میں ابن رزق۔ ابن سلم اور ابراہیم الجوہری ہیں۔ اور ابراہیم کی طرف الحافظ حجاج بن الشاعر نے یہ منسوب کیا ہے کہ وہ سویا ہوا علم حاصل کرتا تھا۔ یعنی استاد سے علم حاصل کرتے وقت سو جاتا تھا[5]۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ بے شک حفص بن غیاث ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے عرصہ دراز تک ابوحنیفہ کو لازم پکڑے رکھا اور اس کی وفات کے بعد فقہ کے اماموں میں شمار ہوتے تھے[6]۔
ہاں ائمہ کے ہاں یہ صورت پائی جاتی رہی ہے کہ ایک ہی مسئلہ کے کئی جوابات ان سے روایت کیے جاتے رہے جیسا کہ امام مالک صاحب سے مسح علی الخفین کے بارہ میں چھ روایات ہیں۔
اور امام شافعی کی کتاب الام میں شفعہ کے متعلق کئی جواہات ہیں اور جیسا کہ حنبلی مذہب میں ابن احمد کی کتاب الرعایہ الکبری میں عشر اٹھانے سے متعلق کئی جوابات ہیں اور یہی صورت بہت سے ابواب میں پائی جاتی ہے۔
رہا امام ابوحنیفہ کا مذہب تو آپ ہر مسئلہ میں ظاہر الروایہ مسائل میں ان کا صرف ایک ہی قول پائیں گے۔ اور کتب نوادر کے مسائل کا حکم ظاہر الروایہ کے مسائل کے پہلو میں ہے اور ان کا حکم ایسے ہی ہے جیسا کہ قراءت متواترہ کے مقابلہ میں قراءت شاذہ کا حکم ہے۔ تو ان میں اس کا جو قول ہے اس کو شمار نہیں کیا جائے گا مگر اسی صورت میں کہ اس مسئلہ میں ظاہر الروایہ میں ان سے کوئی روایت نہ پائی جائے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ روایات نوادر کی قدر و منزلت کا مدار اس کے راویوں کی قدر و منزلت پر ہو گا۔ (یعنی جس منزلت کا راوی ہوگا اسی کے مطابق روایت کا درجہ ہوگا۔)[7]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ أخبار أبي حنيفة وأصحابه ١/١٥٦
[2]۔ تاريخ ابن معين - رواية الدوري ٣/٥٠٤
[3]۔أخبرني الخلّال، حدّثنا محمّد بن بكران، حدّثنا محمّد بن مخلد، حدّثنا حمّاد بن أبي عمر، حَدَّثَنَا أَبُو نعيم قال: سمعت أبا حنيفة يقول لأبي يوسف: لا ترو عني شيئا، فإني والله ما أدري أمخطئ أنا أم مصيب؟
جواب :
یہ قول کسی ایک خاص مسئلہ پر ہو گا ، اگر یہ ہر قول کے بارے میں ہوتا تو فقہ حنفی آج مدون نہ ہوتا اور بعض اوقات انسان خشیت باری تعالی سے بھی ایسے کلمات کہتا ہے جو اصل معانی سے زیادہ خشیت کو ظاہر کرتے ہیں لیکن معترضین اس کو سمجھ نہیں پاتے ، جیسا کہ سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ کاش میں درخت ہوتا (سنن ابن ماجہ 4190) اب کوئی جاہل ہی ہو سکتا ہے جو اس قول سے یہ مطلب نکالے کہ صحابی اپنی صحابیت سے خوش نہ تھے ، اشرف المخلوقات ہونے کے بجائے ایک درخت ہونے کی تمنا کر رہے تھے ، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ مذکورہ صحابی رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کمال تقوی اور ڈر کی بناء پر یہ کلمات کہہ رہے تھے۔ ویسے ہی ممکن ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے خشیت باری تعالی سے یہ الفاظ کہے ہوں ، اور ان کے لائق شاگرد تو اس کیفیت اور قول کے پوشیدہ اسرار کو سمجھ گئے ، البتہ مفسد ذہن کے معترض لوگ اعتراض کرنے لگ گئے کہ ابو حنیفہ اپنی فقہ کو خود غلط سمجھتے تھے۔
مزید تفصیلی جواب قارئین النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر دیکھیں
تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر 84 حاشیہ نمبر 5
[4]۔أخبرنا ابن رزق، أخبرنا ابن سلم، حدّثنا إبراهيم بن سعيد، حَدَّثَنَا عُمَر بن حفص بن غياث عن أبيه قال: كنت أجلس إلى أبي حنيفة فأسمعه يسأل عن مسألة في اليوم الواحد فيفتي فيها بخمسة أقاويل، فلما رأيت ذلك تركته وأقبلت على الحديث.
[5]۔ (تاريخ بغداد وذيوله - ط العلميه الجزء : 6 صفحة : 91)
[6]۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد محدث امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ :
یہ بات کوئی انوکھی نہیں کہ فقہی ابواب میں ایک ہی مسئلے پر ایک ہی امام کی ایک سے زائد رائے ہو سکتی ہیں مثلا خفین پر امام مالک رحمہ اللہ سے سات روایات منقول ہیں ، جن کی تفصیل تانیب الخطیب ص 234 کے حاشیہ میں ہے ۔ لہذا اول تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں کہ کسی کی ایک مسئلے پر مختلف رائے ہوں ۔
دوم : بعض لوگ آسانی پسند ہوتے ہیں ، وہ مشکل کاموں پر آسان کاموں کو ترجیح دیتے ہیں ، اکثر آئمہ فقہ کے بجائے حدیث کی تعلیم اور مجلس کو اس لئے چنتے تھے کہ حدیث کی مجلس میں صرف حفظ حدیث کا اہتمام ہوتا تھا ، قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرنا یا فقہ کو مدون کرنا ، ان مجالس میں نہ ہوتا تھا ، چونکہ فقہ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا نام ہے جو کہ مشکل کام ہے بنسبت یہ کہ حدیث کو صرف حفظ کیا جائے ۔ جیسے تفسیر قرآن کا درس دینا زیادہ مشکل ہے بنسبت حفظ قرآن کا کہ 7 سالہ بچہ بھی حافظ قرآن ہو سکتا ہے جبکہ قرآنی تفسیر اور علوم التفسیر پر عبور انتہائی مشکل کام ہے ، اسی طرح حدیث کو صرف یاد کرنا آسان ہے جبکہ قرآن و حدیث دونوں کو یاد بھی کرنا اور اس سے مسائل اخذ کرنا یعنی فقہ حد درجہ مشکل کام ہے ، اسی لئے محدث امام اعمش رحمہ اللہ سے صحیح سند سے منقول ہیکہ انہوں نے فرمایا
يا معشر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة
اے فقہاء کی جماعت ، تمہاری مثال تو طبیبوں کی سی ہے اور ہماری مثال پنساری کی سی ہے
( الكامل في ضعفاء الرجال 8/238 : اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے ، مفصل تحقیق کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود رسالہ
"امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت" ص 14 ، 15 ، ڈاکٹر کا کام ، کیمسٹ یا پنساری سے ہزار درجہ زیادہ مشکل اور اہم ہوتا ہے لہذا یہ قول ہمارے دعوی پر دلیل ہے)
سوم :
٢١١٨ - وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ نا الْحَسَنُ نا يَعْقُوبُ نا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «كُنْتُ أُجَالِسُ أَبَا حَنِيفَةَ فَرُبَّمَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ خَمْسَةَ أَقْوَالٍ يَنْتَقِلُ مِنْ قَوْلٍ إِلَى قَوْلٍ فَقُمْتُ عَنْهُ وَتَرَكْتُهُ وَطَلَبْتُ الْحَدِيثَ»
امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ سے جو یہ منقول ہیکہ انہوں نے کسی مسئلہ پر بہت زیادہ رائے دیکھتے ہوئے ، فقہ کی مجلس چھوڑ دی اور حدیث کی مجلس میں بیٹھنے لگے تو اس کی وجہ ان کی طبیعت کی آسان پسندی تھی۔ اور انہوں نے مجلس فقہ کی بجائے حدیث کی مجلس کو چن لیا ۔ یہاں یہ بات دھیان رہے کہ انہوں نے کسی بھی وقت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ یا ان کی صحبت کو ترک نہیں کیا ، اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
امام ابن کرامہ حنفی ایک دن امام وکیع حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے خطا کی تو امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ خطا کر کیسے سکتے ہیں ؟ حالانکہ ان کے ساتھ ابو یوسف اور امام زفر اپنے قیاس کی مہارت سمیت موجود ہیں اور یحیی بن ابی زائدہ ، حفص بن غیاث ، حبان اور مندل اپنے حفظ حدیث کے ساتھ موجود ہیں اور قاسم بن معن عربی لغت کی معرفت کے ساتھ موجود ہیں اور داؤد طائی اور فضیل بن عیاض اپنے زہد اور تقوی کے ساتھ موجود ہیں جس کے ہم نشین ایسے ہوں اس سے خطا نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اگر وہ خطا کرے گا تو یہ ہم نشین اس کو صحیح کی طرف پھیر دیں گے۔
( تاريخ بغداد ت بشار 16/365 ، مفصل تحقیق کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود رسالہ
"امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت" ص 62 ، 63 )
فائدہ : امام ابن کرامہ رحمہ اللہ کی وفات کے بارے میں 254 ہجری ، 256 ہجری اور ابن حبان رحمہ اللہ کے مطابق 265 ہجری کے اقوال ہمیں ملتے ہیں ۔ بالفرض اگر ان کی وفات 250 ہجری میں بھی ہو ، تب بھی ان کی ولادت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ متوفی 150 ھ کے بعد ہے اور ابن کرامہ رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات کے بہت عرصہ بعد ، محدث امام وکیع رحمہ اللہ سے حفص بن غیاث رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ کی مجلس کے شرکاء میں ذکر کرنا ، اس بات کی دلیل ہیکہ حفص بن غیاث رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ کی فقہ کو ترک نہیں کیا ، ہاں ان کا میلان حدیث کی تعلیم کی طرف تھا جو کہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔
خلاصہ کرام :
چونکہ حفص بن غیاث رحمہ اللہ محدث تھے ، تو ان کا میلان حدیث کی مجالس کی طرف ہوا ، لیکن اس کے باوجود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کسے شاگردی اور عقیدت کی وجہ سے انہوں نے کبھی بھی امام صاحب کی فقہ کو ترک نہیں ، نہ مجلس فقہ سے ہمیشہ کیلئے رخصت چاہی ، حدیث کی مجلس کو فقہ کی مجلس پر فوقیت یا ترجیح دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے فقہ حنفی ترک کر دیا کیونکہ ثقہ محدث امام وکیع رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات کے بعد امام ابن کرامہ رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ حفص بن غیاث حفظ حدیث کے ساتھ امام صاحب کی مجلس کے شرکاء میں سے تھے(تاریخ بغداد ت بشار 16/365) ۔ اگر حفص رحمہ اللہ نے فقہ حنفی اور مجلس ابی حنیفہ ترک کر دی تھی تو کوفہ کے محدث وکیع رحمہ اللہ امام صاحب کی وفات کے بعد تک یہ کیوں بیان کر رہے ہیں کہ حفص مجلس کے شرکاء میں سے تھے ۔ معلوم ہوا غیر مقلدین یہاں بھی رسواء ہو گئے ہیں الحمد اللہ
[7]۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد امام الزاھد داود الطائی رحمہ اللہ :
اعتراض : غیر مقلدین یہ شوشہ چھوڑتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد ، جناب امام داود الطائی رحمہ اللہ نے فقہ حنفی کو ترک کر دیا تھا اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر تنقید کی۔
تمہید :
سب سے پہلے غیر مقلدین نام نہاد فرقہ اہلحدیث کا اقتباس ، محترم قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے ۔
"بعضوں نے تو صرف مجلس چھوڑنے پر اکتفا نہ کیا ، بلکہ امام صاحب کو ہدف تنقید بھی بنایا۔ مثال کے طور پر امام داؤد الطائی رحمہ اللہ شروع میں تو امام صاحب کی صحبت میں رہے‘ لیکن جلد ہی ان پر زہد و ورع کا غلبہ ہوا تو انہوں نے امام صاحب کی مجلس چھوڑ دی۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ أخبرنا الحسن بن أبی طالب أخبرنا علی بن عمرو الحریری أن علی بن محمد بن کاس النخعی حدثھم قال حدثنا أحمد بن أبی أحمد الختلی حدثنا محمد بن اسحاق البکائی حدثنا الولید ابن عقبۃ الشیبانی قال لم یکن فی حلقۃ أبی حنیفۃ أرفع صوتا من داؤد الطائی ثم إنہ تزھد واعتزلھم وأقبل علی العبادۃ۔ ‘‘[1]
’’ہمیں حسن بن أبی طالب نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں علی بن عمرو حریری نے خبر دی کہ علی بن محمدبن کاس نخعی نے انہیں بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں أحمد بن أبی أحمد ختلی نے بیان کیاہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن اسحاق بکائی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں ولید بن عقبہ شیبانی نے بیان کیا: امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ کے حلقہ درس میں داؤد طائی رحمہ اللہ سے زیادہ اونچی آواز والا کوئی شخص نہ تھا۔ پھر اس پر زہد طاری ہوگیا تو اس نے امام صاحب اور آپ کے شاگردوں کی مجلس کو چھوڑ دیا اور عبادت کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو گیا۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ ہی کی ایک اور روایت کے الفاظ ہیں :
’’أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق أخبر جعفر بن محمد بن نصیر الخلدی حدثنا محمد بن عبد اللّٰہ ابن سلیمان الحضرمی حدثنا عبد اللّٰہ بن أحمد بن شبویہ قال سمعت علی بن المدینی یقول سمعت ابن عیینۃ یقول کان داؤد الطائی ممن علم وفقہ قال وکان یختلف إلی أبی حنیفۃ حتی نفد فی ذلک الکلام قال فأخذ حصاۃ فحذف بھا انسانا فقال لہ یا أبا سلیمان طال لسانک وطالت یدک؟ قال فاختلف بعد ذلک سنۃ لا یسأل ولا یجیب فلما علم أنہ یصبر عمد إلی کتبہ فغرقھا فی الفرات ثم أقبل علی العبادۃ وتخلی۔ "
ہمیں محمد بن أحمد بن رزق نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں جعفر بن محمد بن نصیر خلدی نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں محمد بن عبد اللہ بن سلیمان حضرمی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد اللہ بن أحمد بن شبویہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ میں نے علی بن مدینی رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ابن عیینہ رحمہ اللہ سے سنا‘ وہ فرما رہے تھے: داؤد طائی رحمہ اللہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے علم و فقاہت حاصل کی اور وہ امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے بڑھ چڑھ کر اختلاف کرتے تھے یہاں تک کہ جس مسئلے کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے تو امام داؤد طائی رحمہ اللہ (غصے سے)کچھ کنکریاں لے کر کسی انسان پر پھینک دیتے۔ ایک دفعہ امام صاحب نے داؤد طائی رحمہ اللہ کو کہا: تمہاری زبان کے ساتھ ساتھ تمہارے ہاتھ بھی لمبے ہو گئے ہیں ؟راوی کہتے ہیں : اس کے بعد بھی وہ ایک سال تک اختلاف کرتے رہے لیکن اس طرح کہ نہ توکوئی سوال کرتے تھے اور نہ ہی کسی مسئلے کا جواب دیتے تھے۔ پس جب امام صاحب کو معلوم ہو گیاکہ وہ صبر بھی کر سکتے ہیں تو وہ ان کتابوں کی طرف متوجہ ہوئے جو انہوں نے امام صاحب سے لکھی تھیں اور انہیں دریائے فرات میں پھینک دیا۔ ‘‘
( عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد جلد 2 - صفحہ 274 ، 275 )
غیر مقلدین کے اعتراض کا جواب :
غیر مقلدین نے یہاں کمال مہارت کے ساتھ 6 خیانتیں کیں ہیں۔
خیانت نمبر 1 :
روایت کے الفاظ یہ ہیں
《وكان يختلف إلى أبي حنيفة 》، جب 《أختلف》کا لفظ 《إلى》کے ساتھ آئے تو اس کا معنی ہوتا ہے "آمد و رفت یعنی آتے جاتے رہنا " ، اس کا معنی "بڑھ چڑھ کر اختلاف کرنا" بالکل غلط ہے اور "بڑھ چڑھ " یہ ترجمہ تو روایت کے کسی لفظ کا ہے ہی نہیں ۔
لغت عرب سے ہمارے دعوی کی مثال دیکھیں
■ فكانت أمه تختلف إليه وترضعه حتى فطمته وعَقِل
( موسوعة التفسير المأثور 8/ 435)
ترجمہ : کہ ان (حضرت ابراہیم علیہ السلام)کی والدہ ، غار میں ان کے پاس آتی جاتی تھی ، ان کو دودھ پلاتی تھیں ۔۔ الخ
اب اگر غیر مقلدین کی خیانت کی طرح ، ترجمہ یوں کیا جائے کہ " بڑھ چڑھ کر اختلاف کرنا " ، تو مذکورہ بالا عبارت ایسے بن جائے گی
کہ ان کی والدہ غار میں ان سے بڑھ چڑھ کر اختلاف کرتی تھیں اور دودھ پلاتی تھیں ۔۔الخ
یہاں ترجمہ بالکل غلط ہے ، اور عبارت میں کوئی ربط نہیں ہے ، دودھ پیتے بچے سے کون سی ماں اختلاف کرتی ہے ؟؟؟ وہ بھی بڑھ چڑھ کر اختلاف ۔
لہذا غیر مقلدین نے جان بوجھ کر یا انجانے میں ، روایت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ بالکل غلط کیا ہے ، غلط ترجمہ سے معانی میں ہیر پھیر کی ہے ، تا کہ عوام کو یہ بتایا جا سکے کہ ، امام صاحب کے شاگردوں کا رویہ ، امام ابو حنیفہ سے اچھا نہ تھا (غیر مقلدین ، تعصب کے ماری قوم عجیب فسادی قوم ہے ، جہاں علمی اختلاف ہو ، جیسے امام صاحب اور صاحبین کا جن مسائل میں اختلاف ہے ، اس کو علمی اختلاف کے بجائے میدان کارزار بنا کر پیش کرتے ہیں ، اور جہاں اختلاف کا نام و نشان ہی نہیں ، اس روایت کا معنی بدل کر اختلاف بنا دیتے ہیں ، اللہ ایسی مفسد قوم سے اہل السنت والجماعت کو محفوظ رکھے آمین) ۔
صحیح ترجمہ کے ساتھ عبارت :
《وكان يختلف إلى أبي حنيفة حتى نفذ في ذلك الكلام》
امام داود طائی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے پاس آتے جاتے رہتے تھے ، حتی کہ امام صاحب کے کلام یعنی فقہ و رائے یا مذہب میں راسخ ہو گئے (ظاہر ہے جب آمد و رفت زیادہ ہو گی ، تبھی وہ تلمذ کریں گیں اور فقہ سیکھ کر ماہر بنیں گے ، معلوم ہوا ، جب ترجمہ صحیح کیا گیا تو ، داود طائی رحمہ اللہ فقہ حنفی کے ماہر ثابت ہوئے ) ۔
خیانت نمبر 2 :
《 حتى نفذ في ذلك الكلام 》
غیر مقلدین نے ترجمہ کیا ہے کہ
" یہاں تک کہ جس مسئلے کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے " ۔ یہ بالکل غلط ترجمہ ہے کیونکہ نفذ کی ضمیر امام ابو حنیفہ کی طرف قطعا نہیں لوٹ سکتی ۔
جبکہ صحیح ترجمہ وہی ہے جو ہم بے بیان کیا ہے "حتی کہ وہ اس کلام یعنی فقہ میں ماہر ہو گئے"
خیانت نمبر 3 :
امام داود طائی رحمہ اللہ نے کسی کو کنکری ماری تھی ۔ یہاں یہ صراحت نہیں ہے کہ کنکری کس کو اور کیوں داود طائی رحمہ اللہ نے ماری ، چونکہ امام ابو حنیفہ استاد تھے اور استاد ادب سکھاتا ہے لہذا امام صاحب نے فریضہ معلمی کے تحت شاگرد کو ڈانٹا ۔ لیکن غیر مقلدین کے ترجمہ ہوں کیا ہے کہ
"داود طائی امام أبو حنیفہ رحمہ اللہ سے بڑھ چڑھ کر اختلاف کرتے تھے یہاں تک کہ جس مسئلے کے بارے میں امام صاحب رحمہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرما دیتے تو امام داؤد طائی رحمہ اللہ (غصے سے)کچھ کنکریاں لے کر کسی انسان پر پھینک دیتے"۔
جب کہ ، داود طائی رحمہ اللہ کے کنکری مارنے کی وجہ تو روایت میں ہے ہی نہیں ۔ دوسری بات اگر داود طائی کو غیر مقلدین کے بقول بڑھ چڑھ کر اختلاف کرنے کی عادت تھی تو ، کسی فیصلہ پر وہ علمی گفتگو کرتے ، کنکریاں کیوں مارنے لگ گئے ، وہ بھی کسی تیسرے شخص کو ؟
معلوم ہوا ، غیر مقلدین کا بناوٹی ترجمہ ، عقلی طور پر بھی درست نہیں۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ جب امام داود طائی رحمہ اللہ نے کسی کو کنکری ماری تو ، امام ابو حنیفہ نے بطور استاد ان کو ڈانٹا (جو کہ استاد کا حق ہے ، شاگردوں کو ادب سکھانا)
اور شاگرد جناب داود طائی رحمہ اللہ نے اس ڈانٹ کو دل پر لیا ، اور یہاں سے وہ زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی طرف مائل ہوئے کہ اب اپنے نفس کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔
یہاں امام داود طائی رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس فقہ کو بھی ترک نہیں کیا (کہ کہیں یہ بھی نفس کا ایک حربہ نہ ہو) بلکہ ایک سال تک برابر شریک ہوتے رہے اور اپنے نفس کی تربیت کرتے رہے کہ وہ علم کی مجلس میں آتے لیکن پہلے کی طرح نہ اونچی آواز میں کلام کرتے ، نہ کسی کو کنکری ماری ، نہ سوال کرتے تھے نہ ہی جواب دیتے تھے
خیانت نمبر 4 :
غیر مقلدین نے لکھا ہیکہ وہ ایک سال تک اختلاف تو کرتے رہے لیکن نہ سوال نہ ہی جواب کرتے تھے (غیر مقلدین ہر حال میں یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ کسی طرح ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کو آپس مین دشمن قرار دیا جائے )
ہم یہ کہتے ہیں کہ اے غیر مقلد عقل کے دشمن فرقہ ، جب وہ ایک سال تک سوال و جواب ہی نہ کرتے تھے تو اختلاف کیسے کرتے تھے ؟
نکتہ : امام داود طائی رحمہ اللہ ، جب ایک سال تک نفس کی تربیت کر گئے تو انہوں نے اب باقاعدہ زہد کو اختیار کیا اور خود اپنی کتب ، دریائے فرات میں بہا دیں ۔ ہمارے نزدیک یہ اس وجہ سے تھا کہ داود طائی رحمہ اللہ یکسو ہو کر صرف زہد کو اختیار کرنا چاہتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ مفسر ، محدث یا فقیہ بنیں ، بلکہ وہ صرف صوفی و زاہد بننا چاہتے تھے۔
خیانت نمبر 5 :
غیر مقلدین یہ دعوی کرتے ہیں انہوں نے امام صاحب پر تنقید کی اور فقہ حنفی کو ترک کر دیا ۔
ہمارا جواب یہ ہیکہ اول تو ، غیر مقلدین نے خیانت کرتے ہوئے روایت کا پورا مکمل ترجمہ نہیں کیا ، روایت کے آخری حصہ میں امام زائدہ ، داود طائی رحمہ اللہ پے پاس آئے اور ان سے 《الم غلبت الروم》کی تفسیر کروانی چاہے کیونکہ داود طائی رحمہ اللہ اس کی بہت اچھی تفسیر کیا کرتے تھے ۔ لیکن زہد اختیار کرنے کے بعد داود طائی رحمہ اللہ نے دو مرتبہ اس آیت کی تفسیر کرنے سے بھی منع کیا اور فرمایا کہ ، میں نے اب تفسیر کرنا چھوڑ دی ہے ۔ یعنی عبادت کے اندر اتنی مشغولیت اختیار کر لی تھی کہ تفسیر بھی نہیں کرتے تھے۔
ایک اور روایت ملاحظہ ہو
حَدثنَا القَاضِي أَبُو عبد الله الضَّبِّيّ قَالَ أنبأ أَبُو الْعَبَّاس احْمَد بن مُحَمَّد الْهَمدَانِي قَالَ ثَنَا يحيى بن زَكَرِيَّا بن شَيبَان قَالَ ثَنَا عبد الله بن ماهان قَالَ سَمِعت حَفْص بن غياث يَقُول كَانَ دَاوُد الطَّائِي يجالسنا عِنْد أبي حنيفَة حَتَّى برع فِي الرَّأْي ثمَّ رفض ذَلِك ورفض الحَدِيث وَكَانَ قد أَكثر مِنْهُ وَلزِمَ الْعِبَادَة والتوحش من النَّاس
( أخبار أبي حنيفة وأصحابه ١/١٢١ — الصيمري ، قطع نظر اس روایت کی اسنادی حیثیت کیا ہے ، چونکہ یہ روایت تاریخ بغداد کی صحیح روایت کو ہی تقویت دے رہی ہے جسے خود غیر مقلدین نے پیش کیا ہے ، لہذا ہم اسے پیش کر رہے ہیں )
یہاں اس روایت میں امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ داود طائی رحمہ اللہ نے نہ صرف فقہ چھوڑی بلکہ حدیث بھی چھوڑ دی ۔
اب ہم غیر مقلدین سے سوال کرتے ہیں کہ اگر تمارے مطابق داود طائی نے فقہ حنفی کو نفرت سے ترک کر دیا تھا اور کتب فقہ فرات میں پھینک دی تھیں تو اسی روایت میں تفسیر قرآن کا جواب دینے سے بھی داود طائی کا منع کرنا مذکور ہے (جس کا ترجمہ جان بوجھ کر غیر مقلدین نے نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ داود طائی کو تارک فقہ حنفی باور کروایا جائے) ، تو تفسیر قرآن کے منع کرنے پر غیر مقلدین کیا جواب دیں گے ، اسی طرح حدیث کے حفظ کو ترک کرنے پر غیر مقلدین کیا جواب دے گیں ؟
خلاصہ کلام :
1۔ معلوم ہوا کہ نہ تو امام داود طائی امام ابو حنیفہ سے ناراض تھے ، نہ فقہ حنفی کے تارک بلکہ
انہوں نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی طرح زہد کو اختیاد کیا تھا ، جیسے شیعہ روافض اعتراض کرتے ہیں کہ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے خلفاء راشدین و صحابہ کو ترک کیا تھا اور صحابہ اور بالخصوص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ایک منفی پراپوگینڈا کرتے ہیں ، بالکل اسی طرح روافض کے چھوٹے بھائی فرقہ اہلحدیث کہتے ہیں کہ داود طائی نے امام صاحب اور فقہ حنفی کو ترک کر دیا تھا ، حالانکہ داود طائی رحمہ اللہ بھی حضرت سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی طرح زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے ۔
چونکہ غیر مقلد اہلحدیثوں نے شیعہ روافض کی طرح اعتراض کیا ہے ، ہم کہتے ہیں
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
2۔ داود طائی رحمہ اللہ نے فقہ حنفی کو ترک نہیں کیا ، نہ ہی وہ قرآن پاک کی تفسیر کے تارک ہوئے ، بلکہ اب وہ عبادت میں اس طرح مشغول ہوئے کہ قرآن پڑھا کرتے ، اس پر عمل پیرا ہوتے ، قرآن و حدیث سے جو مسائل امام صاحب نے اخذ کئے ، ان پر عمل کیا ، ہاں جس چیز کو ترک کیا ، وہ یہ تھا کہ نا تو وہ قرآن کی تفسیر کا درس دیتے ، نہ حدیث نہ ہی فقہ ، بلکہ وہ صرف اور صرف ان سب پر عمل پیرا تھے ، وہ نہیں چاہتے تھے کہ میں فقہ یا تفسیر یا حدیث کی مجلس میں درس دوں ، بلکہ عبادت ، نماز ، تلاوت قرآن میں مشغول رہتے ۔
یہی تفصیل قارئیں امام داود طائی رحمہ اللہ کی سیرت پر لکھی کتاب " داود بن نصیر الطائی الفقیہ الزاھد : مولفہ دکتور عصام محمد الحاج علی " میں پڑھ سکتے ہیں
نکتہ : غیر مقلدین کی کتاب "عصر حاضر میں اجتہاد ۔۔۔" میں تاریخ بغداد کے حوالے سے چند اور روایات بھی ذکر کیں ہیں ، جن کا مدلل مفصل جواب قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود " تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات " نمبر وار سلسلہ میں پڑھ سکتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں