۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد محدث امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ :
یہ بات کوئی انوکھی نہیں کہ فقہی ابواب میں ایک ہی مسئلے پر ایک ہی امام کی ایک سے زائد رائے ہو سکتی ہیں مثلا خفین پر امام مالک رحمہ اللہ سے سات روایات منقول ہیں ، جن کی تفصیل تانیب الخطیب ص 234 کے حاشیہ میں ہے ۔ لہذا اول تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں کہ کسی کی ایک مسئلے پر مختلف رائے ہوں ۔
دوم : بعض لوگ آسانی پسند ہوتے ہیں ، وہ مشکل کاموں پر آسان کاموں کو ترجیح دیتے ہیں ، اکثر آئمہ فقہ کے بجائے حدیث کی تعلیم اور مجلس کو اس لئے چنتے تھے کہ حدیث کی مجلس میں صرف حفظ حدیث کا اہتمام ہوتا تھا ، قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرنا یا فقہ کو مدون کرنا ، ان مجالس میں نہ ہوتا تھا ، چونکہ فقہ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا نام ہے جو کہ مشکل کام ہے بنسبت یہ کہ حدیث کو صرف حفظ کیا جائے ۔ جیسے تفسیر قرآن کا درس دینا زیادہ مشکل ہے بنسبت حفظ قرآن کا کہ 7 سالہ بچہ بھی حافظ قرآن ہو سکتا ہے جبکہ قرآنی تفسیر اور علوم التفسیر پر عبور انتہائی مشکل کام ہے ، اسی طرح حدیث کو صرف یاد کرنا آسان ہے جبکہ قرآن و حدیث دونوں کو یاد بھی کرنا اور اس سے مسائل اخذ کرنا یعنی فقہ حد درجہ مشکل کام ہے ، اسی لئے محدث امام اعمش رحمہ اللہ سے صحیح سند سے منقول ہیکہ انہوں نے فرمایا
يا معشر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة
اے فقہاء کی جماعت ، تمہاری مثال تو طبیبوں کی سی ہے اور ہماری مثال پنساری کی سی ہے
( الكامل في ضعفاء الرجال 8/238 : اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے ، مفصل تحقیق کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود رسالہ
"امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت" ص 14 ، 15 ، ڈاکٹر کا کام ، کیمسٹ یا پنساری سے ہزار درجہ زیادہ مشکل اور اہم ہوتا ہے لہذا یہ قول ہمارے دعوی پر دلیل ہے)
سوم :
٢١١٨ - وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ نا الْحَسَنُ نا يَعْقُوبُ نا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «كُنْتُ أُجَالِسُ أَبَا حَنِيفَةَ فَرُبَّمَا سَمِعْتُهُ يَقُولُ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ خَمْسَةَ أَقْوَالٍ يَنْتَقِلُ مِنْ قَوْلٍ إِلَى قَوْلٍ فَقُمْتُ عَنْهُ وَتَرَكْتُهُ وَطَلَبْتُ الْحَدِيثَ»
امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ سے جو یہ منقول ہیکہ انہوں نے کسی مسئلہ پر بہت زیادہ رائے دیکھتے ہوئے ، فقہ کی مجلس چھوڑ دی اور حدیث کی مجلس میں بیٹھنے لگے تو اس کی وجہ ان کی طبیعت کی آسان پسندی تھی۔ اور انہوں نے مجلس فقہ کی بجائے حدیث کی مجلس کو چن لیا ۔ یہاں یہ بات دھیان رہے کہ انہوں نے کسی بھی وقت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ یا ان کی صحبت کو ترک نہیں کیا ، اس کی دلیل یہ روایت ہے۔
امام ابن کرامہ حنفی ایک دن امام وکیع حنفی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک آدمی نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے خطا کی تو امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ خطا کر کیسے سکتے ہیں ؟ حالانکہ ان کے ساتھ ابو یوسف اور امام زفر اپنے قیاس کی مہارت سمیت موجود ہیں اور یحیی بن ابی زائدہ ، حفص بن غیاث ، حبان اور مندل اپنے حفظ حدیث کے ساتھ موجود ہیں اور قاسم بن معن عربی لغت کی معرفت کے ساتھ موجود ہیں اور داؤد طائی اور فضیل بن عیاض اپنے زہد اور تقوی کے ساتھ موجود ہیں جس کے ہم نشین ایسے ہوں اس سے خطا نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ اگر وہ خطا کرے گا تو یہ ہم نشین اس کو صحیح کی طرف پھیر دیں گے۔
( تاريخ بغداد ت بشار 16/365 ، مفصل تحقیق کیلئے دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود رسالہ
"امام وکیع بن جراح رحمہ اللہ کی حنفیت" ص 62 ، 63 )
فائدہ : امام ابن کرامہ رحمہ اللہ کی وفات کے بارے میں 254 ہجری ، 256 ہجری اور ابن حبان رحمہ اللہ کے مطابق 265 ہجری کے اقوال ہمیں ملتے ہیں ۔ بالفرض اگر ان کی وفات 250 ہجری میں بھی ہو ، تب بھی ان کی ولادت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ متوفی 150 ھ کے بعد ہے اور ابن کرامہ رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات کے بہت عرصہ بعد ، محدث امام وکیع رحمہ اللہ سے حفص بن غیاث رحمہ اللہ کا امام ابو حنیفہ کی مجلس کے شرکاء میں ذکر کرنا ، اس بات کی دلیل ہیکہ حفص بن غیاث رحمہ اللہ نے امام ابو حنیفہ کی فقہ کو ترک نہیں کیا ، ہاں ان کا میلان حدیث کی تعلیم کی طرف تھا جو کہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔
خلاصہ کرام :
چونکہ حفص بن غیاث رحمہ اللہ محدث تھے ، تو ان کا میلان حدیث کی مجالس کی طرف ہوا ، لیکن اس کے باوجود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کسے شاگردی اور عقیدت کی وجہ سے انہوں نے کبھی بھی امام صاحب کی فقہ کو ترک نہیں ، نہ مجلس فقہ سے ہمیشہ کیلئے رخصت چاہی ، حدیث کی مجلس کو فقہ کی مجلس پر فوقیت یا ترجیح دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ انہوں نے فقہ حنفی ترک کر دیا کیونکہ ثقہ محدث امام وکیع رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وفات کے بعد امام ابن کرامہ رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ حفص بن غیاث حفظ حدیث کے ساتھ امام صاحب کی مجلس کے شرکاء میں سے تھے(تاریخ بغداد ت بشار 16/365) ۔ اگر حفص رحمہ اللہ نے فقہ حنفی اور مجلس ابی حنیفہ ترک کر دی تھی تو کوفہ کے محدث وکیع رحمہ اللہ امام صاحب کی وفات کے بعد تک یہ کیوں بیان کر رہے ہیں کہ حفص مجلس کے شرکاء میں سے تھے ۔ معلوم ہوا غیر مقلدین یہاں بھی رسواء ہو گئے ہیں الحمد اللہ
نکتہ : غیر مقلدین کی کتاب "عصر حاضر میں اجتہاد ۔۔۔" میں تاریخ بغداد کے حوالے سے چند اور روایات بھی ذکر کیں ہیں ، جن کا مدلل مفصل جواب قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ پر موجود " تانیب الخطیب : امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراضات " نمبر وار سلسلہ میں پڑھ سکتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں