نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کیا امام شعبہ نے امام ابو حنیفہ پر لعنت کی ؟


  کیا امام شعبہ نے امام ابو حنیفہ پر لعنت کی ؟


 حَدثنا محمد بن إبراهيم بن جَنَّاد, قال: حَدثنا أَبو بَكر الأَعيَنُ، قال: حَدثنا مَنصُور بن سَلَمة أَبو سَلَمة الخُزاعي، قال: سمعتُ حَماد بن سَلَمة يلعن أبا حنيفة، وسمعت شُعبة يَلعن أَبا حَنيفَةَ.

(الضعفاء للعقیلی رقم 6114 ) 


جب ہم امام شعبہؒ کی طرف منسوب اقوال کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات دن کی روشنی کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اکثر محدثین نے امام شعبہؒ سے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں حسنِ ظن، مدح و توصیف کے اقوال روایت کیے ہیں۔

یہ دعویٰ کسی تعصب پر نہیں بلکہ معتبر و مستند روایات اور ثقہ رواۃ کی شہادت پر مبنی ہے۔ چند اہم رواۃ جو امام شعبہؒ سے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں مثبت اقوال نقل کرتے ہیں، درج ذیل ہیں:

1 حافظ شبابہ بن سوارؒ:

انہوں نے امام شعبہؒ سے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں مثبت روایت نقل کی۔

📚 الکامل لابن عدی، ج: ۸، ص: ۲۴۱ (اسنادہ صحیح)

📚 الانتقاء لابن عبدالبر، ص: ۱۲۶ (اسنادہ حسن)

2 یحییٰ بن آدمؒ:

امام شعبہؒ کے قول کو بیان کرتے ہیں جو امام ابو حنیفہؒ کی مدح پر مشتمل ہے۔

📚 مناقب الإمام الأعظم للموفق، ص: ۳۱۹ (اسنادہ حسن)

3 عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورقی → امام یحییٰ بن معینؒ :

📚 الانتقاء لابن عبدالبر، ص: ۱۲۷ (اسنادہ حسن)

📚 الجوہر المضیۃ، ج: ۱، ص: ۱۹

4 عبدالصمد بن عبدالوارثؒ:

📚 الانتقاء لابن عبدالبر، ص: 126 (اسنادہ حسن)

5 ابو قطنؒ (عمرو بن الہیثم)

انہوں نے امام شعبہؒ سے امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں مدح آمیز کلمات نقل کیے۔

📚 فضائل أبی حنیفۃ وأخبارہ لابن أبی العوام، ص: ۷۴–۷۵، رقم: ۸۴ (اسنادہ صحیح)

خود امام شعبہؒ

امام ابو حنیفہؒ کی شاگردی کے متعلق امام شعبہؒ کا قول:

"امام ابو حنیفہ، امام حماد کے سب سے رازدار شاگرد تھے، میں نے امام حماد سے جو کچھ لکھا، اس میں زیادہ تر وہی ہے جو امام ابو حنیفہؒ کی فرمائش پر لکھوایا گیا۔"

📚 کشف الآثار الشریفة في مناقب الإمام أبی حنیفۃ – امام حارثی – ج: ۱، ص: ۵۷۱ ، اسنادہ حسن

یہ الفاظ نہ صرف محبت و اعتماد کی علامت ہیں بلکہ امام ابو حنیفہؒ کی علمی مہارت اور مرتبے کا بھی ثبوت ہیں۔

7۔ مزید ثبوت:

امام شعبہؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے درمیان نہ صرف علمی ربط تھا بلکہ دونوں کے درمیان باہمی مراسلت، تحائف کا تبادلہ اور علمی مشورے بھی ہوتے تھے۔

وفات کے وقت بھی امام شعبہ نے امام ابو حنیفہؒ کے لیے دعائے مغفرت کی۔ اور بعد وفات بھی امام شعبہؒ کے متعلق اہل علم یہ نقل کرتے رہے کہ:

"شعبہ کوفیوں کی رائے پر چلتے تھے۔"

(كشف الآثار الشريفة في مناقب الإمام أبي حنيفة - امام حارثي - ص 1/572)

8۔ علمی اصول اور انصاف کی روشنی میں:

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ امام شعبہؒ صرف ثقہ اور معتبر راوی سے روایت کرتے تھے۔

جیسا کہ فرقہ اہلحدیث غیر مقلدین نے تسلیم کیا ہے۔

زبیر علی زئی

کفایت اللہ سنابلی

شیخ البانی

شیخ ابوالحسن سلیمانی

اور امام شعبہ نے امام ابو حنیفہ سے روایت لی ہے۔

📚 ناسخ الحدیث و منسوخہ لابن شاہین، ص: ۴۷۴

📚 مسند الامام أبی حنیفۃ بروايۃ ابن خسرو، ج: ۱، ص: ۳۰۶ ؛ ج: ۲، ص: ۸۹۳

تو اگر امام شعبہؒ امام ابو حنیفہؒ سے روایت کرتے ہیں، تو یہ ان کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔

شاذ روایت کا علمی مقام:

اب جو ایک شاذ (تنہا اور مخالفِ کثرت) روایت نقل کی جاتی ہے کہ امام شعبہؒ امام ابو حنیفہؒ پر لعنت کرتے تھے — اس روایت کو علمی اصول کی روشنی میں قابل حجت نہیں سمجھا جا سکتا۔

کیوں؟

یہ روایت اکثر اور صحیح الاسناد اقوال کے صریح خلاف ہے۔

امام شعبہؒ کے قریبی شاگرد اس کی تردید کرتے ہیں۔

امام شعبہؒ نے امام ابو حنیفہؒ کی وفات پر افسوس اور دعائے مغفرت کی۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ: اگر امام شعبہؒ واقعی لعنت کرتے تھے تو: کب؟ کیوں؟ کس موقع پر؟ جبکہ تعلقات میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔ لہٰذا وہ روایت جس میں لعنت کی بات کی گئی ہے:

اکثریت روایات کے خلاف ہے

امام شعبہؒ کے طرزِ عمل کے خلاف ہے

ثابت شدہ مدح و توصیف سے متضاد ہے

تو اس بنیاد پر وہ روایت شاذ اور رد شدہ قرار پاتی ہے۔

عقلی دلیل: کردار اور تعامل کی روشنی میں

یہ بات ایک عام شخص کی عقل بھی تسلیم نہیں کرتی کہ:

امام شعبہؒ کسی ایسے شخص پر لعنت کریں،

جسے وہ اپنے استاذ امام حمادؒ کا سب سے لائق شاگرد قرار دیتے ہوں،

جس سے وہ خط و کتابت کرتے ہوں،

جس کے لیے وہ دعائے مغفرت کرتے ہوں،

جسے وہ تحائف بھیجتے ہوں۔

نتیجہ:

امام ابو حنیفہؒ کے متعلق امام شعبہؒ کے حسنِ ظن، اعتماد، اور تعظیم پر مبنی اقوال:

تعداد میں زیادہ ہیں

سند کے لحاظ سے قوی ہیں

علمی اصولوں سے ہم آہنگ ہیں

جبکہ ایک مخالف قول نہ صرف شاذ ہے بلکہ اصولی و منطقی طور پر بھی رد کے قابل ہے۔

پس علمی دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم کثرتِ شواہد اور اصولِ جرح و تعدیل کو مدنظر رکھتے ہوئے امام ابو حنیفہؒ کے مقام کا دفاع کریں، اور امام شعبہؒ کے ذریعے اُن کی عظمت کے دلائل کو قبول کریں۔


نوٹ : امام حماد بن سلمہ سے منقول جرح کیلئے دیکھیں النعمان سوشل میڈیا سروسز کی ویب سائٹ پر موجود ، سلسلہ امام ابو حنیفہ پر متفرق اعتراضات ، اعتراض نمبر 19

----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------

 امام شعبہ سے امام ابو حنیفہ کی تعریف و توصیف 

امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) امام شعبہ ابن الحجاج ؒ (م ۱۶۰؁ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

مولانا نذیر الدین قاسمی

امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) امام شعبہ ابن الحجاج ؒ (م ۱۶۰؁ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں، تفصیل درج ذیل ہیں :

(۱) ثقہ ،حافظ  شبابہ بن سوار ؒ (م ۲۰۶؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’کان شعبۃ حسن الرأی فی أبی حنیفۃ ‘‘ امام شعبہ ؒ امام ابو حنیفہ ؒ کے بارے میں اچھی رکھتے تھے۔ 

نوٹ:    حافظ شبابہ بن سوار ؒ امام شعبہؒ کے شاگرد ہیں ،جیسا کہ تہذیب الکمال سے ظاہر ہے ۔

ایک اور قول میں یحیی بن آدم ؒ (م ۲۰۳؁ھ) کہتے ہیں کہ’’ قال کان شعبۃ اذا سئل عن ابی حنیفۃ اطنب فی مدحہ وکان یہدی الیہ فی کل عام طرقہ‘‘ امام شعبہ ؒ سے جب امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں پوچھاجاتا ،تو وہ آپ کی بہت زیادہ تعریف کرتے اور ہر سال وہ آپ کی طرف کوئی تحفہ بھیجتے ۔ (مناقب امام اعظم للموفق ص:۳۱۹) 

(۲) امام شعبہ بن الحجاج ؒ (م ۱۶۰؁ھ) نے امام ابوحنیفہ ؒ سے روایت کی ہے ۔(ناسخ الحدیث ومنسوخہ لا ابن شاہین : ص:۴۷۴،مسند امام ابوحنیفہؒ بروایت ابن خسرو ج:۱ص:۳۰۶،جلد :۲ص:۸۹۳)

اور غیر مقلدین کے نزدیک امام شعبہؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں چنانچہ :غیر مقلد ین کے محدث ،زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ امام شعبہ ؒ عام طور پر اپنے نزدیک ثقہ ہی سے روایت کرتے تھے ۔(مقالات ج:۶ص:۱۵۷) اہل حدیث عالم کفایت اللہ سنابلی صاحب لکھتے ہیں کہ امام شعبہ ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے تھے۔(انوار البدر ص:۱۳۴) ،شیخ ابو الحسن سلیمانی ؒ جو کہ شیخ البانی اور شیخ  مقبل کے شاگرد ہیں ،ان کے نزدیک امام شعبہ ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے تھے ۔(اتحاف النبیل ج:۲ص:۹۹)شیخ البانی ؒ ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’روایۃ شعبۃ عنہ توثیق لہ ‘‘امام شعبہؒ کا اس سے روایت لینا شعبہؒ کی طرف سے اس کی توثیق ہے ۔(ارواء الغلیل ج:۱ص:۲۸۰)

ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہ ؒ امام شعبہؒ کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

نوٹ : 

امام ابن معین ؒ کے قول سے بھی امام شعبہؒ کا امام ابوحنیفہؒ سے روایت کرنے کا ذکر ملتا ہے ،چنانچہ حافظ المغرب امام ابن عبدالبر ؒ (م ۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں : 

قال ابو یعقوب یوسف بن احمد بن یوسف المکی الصیدلانی (ابن الدخیل )نا احمد بن الحسن الحافظ قال نا عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورقی قال سئل یحی بن معین وانا اسمع عن ابی حنیفۃ فقال ثقۃ ما سمعت احدا ضعفہ،ہذا شعبۃ بن الحجاج یکتب الیہ ان یحدث ویامرہ وشعبۃ شعبۃ ۔

عبداللہ بن احمد بن ابراہیم الدورقی سے روایت ہے کہ یحی بن معین نے ابوحنیفہ ؒ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ثقہ تھے ،میں نے سنا کہ کسی ایک نے بھی انہیں ضعیف کہا ہو ،یہ شعبہ بن الحجاج ،انہیں (خط ) لکھتے ہیں کہ وہ حدیث بیان کریں اور انہیں حکم دیتے ہیں ،اور شعبہ تو آخر شعبہ تھے ۔(الانتقاء لابن عبدالبر ص:۱۲۷،وسندہ حسن ،الجوہر المضیۃ ج:۱ص:۱۹۔مقام ابی حنیفہ ص:۱۳۰)

یہ قول امام ابن معین ؒ سے ثابت ہے جس کی تفصیل ’’الاجماع شمارہ نمبر: ۳ص:۲۸۴‘‘پر موجود ہے ۔ 

 اس پوری تحقیق سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ امام شعبہؒ کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

آخری قول : 

حافظ المغرب ؒ (م ۴۶۳؁ھ) ہی فرماتے ہیں کہ :

قال ابو یعقوب وحدثنا اسحاق بن احمد الحلبی قال ،نا سلیمان بن سیف قال نا عبدالصمد بن عبدالوارث قال کنا عند شعبۃ بن الحجاج فقیل لہ مات ابو حنیفۃ فقال شعبۃ لقد ذہب معہ فقہ الکوفۃ تفضل اللہ علینا وعلیہ برحمتہ ۔

حافظ عبدالصمد بن عبدالوارث ؒ (م ۲۰۷؁ھ) کہتے ہیں کہ ہم امام شعبہؒ کی خدمت میں تھے،کسی نے ان سے کہا کہ امام ابوحنیفہؒ فوت ہوچکے ہیں تو امام شعبہؒ نے کہا کہ یقیناامام ابوحنیفہؒ کے ساتھ کوفہ کی فقہ بھی چلی گئی اللہ اپنی رحمت سے ان پر اور ہم پر فضل فرمائے ۔(الانتقاء لابن عبدالبر ص:۱۲۶،واسنادہ حسن ) 

رئیس سلفی اور مقبل بن ہادی کی پیش کردہ اعتراض کی حقیقت :

رئیس صاحب کہتے ہیں کہ امام شعبہؒ اور حماد بن سلمہ امام ابوحنیفہؒ کو ملعون کہا کرتے تھے۔(ضعفاء للعقیلی )(سلفی تحقیقی جائزہ ص:۱۱۹) اسی طرح مقبل بن ہادی صاحب بھی امام ابوحنیفہؒ کی تضعیف کا یہ قول بحوالہ کتاب السنہ پیش کیا ہے۔(نشر الصحیفہ ص:۳۵۳)

الجواب : 

یہ حضرات ایک طرف کہتے ہیں کہ صحیح سند سے اقوال پیش کئے جائیں لیکن اپنے لیے ۱۰۰ خون بھی معاف ہے ۔

بہر حال عرض یہ ہے کہ اس کی سند میں ’’منصور بن سلمہ الخزاعی قال سمعت حماد بن سلمۃ‘‘حافظ منصور بن سلمہ الخزاعی ؒ (م ۲۱۰؁ھ) امام حماد بن سلمہ ؒ (م ۱۶۷؁ھ) سے روایت کررہے ہیں ۔(کتاب الضعفاء للعقیلی ج:۴ص:۲۸۱،نشر الصحیفہ ص:۳۵۳)

اور امام حماد بن سلمہ ؒ(م ۱۶۷؁ھ) اگرچہ ثقہ ہیں لیکن خود غیرمقلدین کے نزدیک ان کا اخیر میں اختلاط ہوگیا تھا۔(احادیث ہدایہ، فنی و تحقیقی حیثیت  : ص ۹۹،ایام قربانی اور آثار صحابہ : ص ۳۷،تقریب رقم :۱۴۹۹، الکاشف رقم:۱۲۲۰، الکواکب النیرات ص:۴۶۰، الاغتباط بمن رمی من الرواۃ بالاختلاط :۹۶)

اور کسی امام نے صراحت نہیں کی کہ حافظ منصور بن سلمہ الخزاعی ؒ (م ۲۱۰؁ھ) امام حماد بن سلمہ ؒ (م ۱۶۷؁ھ) سے اختلاط سے پہلے سنا ہے ۔

لہذا رئیس صاحب اور مقبل صاحب کا استدلال باطل ومردود ہے ۔

نیز یہ روایت الانتقاء کی روایت کے بھی خلاف ہے ،جس میں امام شعبہ ؒ نے امام ابوحنیفہ ؒ  کی وفات ان کے لئے پر رحمت کی دعا کی ،اسی طرح یہ مردود روایت ان روایات کے بھی خلاف ہے جس میں امام شعبہؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی توثیق کی ہے ۔

پھر امام شعبہؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے روایت بھی کی ہے جو کہ باصول غیرمقلدین یہ ثابت کرتا ہے کہ امام شعبہؒ کے نزدیک امام ابوحنیفہؒ ثقہ ہیں ۔

ایک اور بات  :

 اخیر میں یہ بھی عرض ہے کہ ہمارا سلف اور متاخرین ائمہ جرح وتعدیل مثلاً امام نووی ؒ(م ۶۷۱؁ھ) ، امام مزی ؒ (م۷۴۲؁ھ) اور ان کے اصحاب امام ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ) ، حافظ ابن کثیر ؒ (م ۷۷۶؁ھ)،حافظ مغلطائی ؒ (م ۷۶۲؁ھ) ،حافظ ابوالمحاسن ابن الحسینی ؒ (م ۷۶۵؁ھ) ،امام ابن الملقن ؒ(م ۸۰۴؁ھ)اور حافظ ابن حجرعسقلانیؒ (م ۸۵۲؁ھ) وغیرہ نے امام صاحب کے باریمیں وارد جروحات کو نظر انداز کرکے ان اقوال کوترجیح دی ہے جن میں آپ کی توثیق وثنا ء مروی ہے ،اور اسی کو ان ائمہ نے اپنی اپنی اسماء الرجال کی کتابوں میں نقل کیا ہے ، جس کی تفصیل اگلی قسطوں میں آئے گی ۔(ان شاء اللہ )

لہذا ہمارے اسلاف اور ائمہ جرح وتعدیل کے منہج کی وجہ سے امام ابوحنیفہؒ کے توثیقی اقوال کو ترجیح حاصل ہوگی ،اور ان پروارد جروحات کو نظر انداز کردیا جائیگا ۔

----


شبابہ بن سوا ر ؒ (م ۲۰۶؁ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ،حافظ ہیں ۔(تقریب رقم : ۲۷۳۳)اور جمہور نے انہیں ثقہ کہا ہے اور ان پر کلا م صرف مرجی ہونے کی وجہ سے ہوا ہے ،لیکن رئیس صاحب نے صرف مسلکی تعصب کے چکر میں صحیحین کے راوی پر جرح کردی ،جوکہ باطل ومردود ہے ۔

نیز تعجب ہے کہ موصوف نے امام صاحب اور ان کے اصحاب پر الکامل لابن عدی ؒ سے کئی جروحات نقل کیں۔ (اللمعات ،سلفی تحقیقی جائزہ ص:۸۹،وغیرہ ) لیکن اسی کتاب میں موصوف کو یہ قول سند کے ساتھ نظر نہیں آیا ۔

اعتراض نمبر۲:

رئیس صاحب ایک اور جاہلانہ اعتراض یہ کرتے ہیں کہ ’’کان شعبۃ حسن الرأی فی ابی حنیفۃ ‘‘یہ قول توثیق نہیں۔ (سلفی تحقیقی جائزہ ص:۱۱۹)

الجواب :

جب لوگ مسلکی تعصب میں اندھی اور ہٹ دھرمی پر اتر آتے ہیں ،تو ایسے ہی اعتراض کرتے ہیں ، کتب ِ اسماء الرجال میں کئی مثالیں موجود ہیں ،جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’حسن الرأی ‘‘الفاظ توثیق میں سے ہے۔فی الحال ایک مثال ملاحظہ فرمائے :

محمد بن حمید الرازی ؒ کے بارے میں امام ابن معین ؒ نے کہا کہ وہ ثقہ ہیں ،ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔ (تہذیب التہذیب ج:۹ص:۱۳۱)اسی بات کو محمد بن حمید الرازی ؒکے ترجمے میں حافظ ابن حجر ؒ نے یوں کہا ہے ’’کان ابن معین حسن الرأی فیہ ‘‘۔(تقریب رقم : ۵۸۳۴)

لہذا رئیس صاحب کا جاہلانہ اعتراض باطل ومردود ہے۔

۱۱-  حافظ المغرب ؒ نے اس کی دوسری سند ذکر فرمائی ہے کہ: 

قال أبویعقوب حدثنا أبومروان عبدالملک بن الحر الجلاب وابوالعباس محمد بن الحسن الفارض قال نا محمد بن اسماعیل الصائغ قال سمعت شبابۃ بن سوار یقول کان شعبۃ حسن الرأی فی ابی حنیفۃ۔(الانتقاء ص:۱۲۶)

سند کے روات کی تحقیق درج ذیل ہے : 

۱) حافظ المغرب امام ابوعمر بن عبدالبر ؒ (م ۴۶۳؁ھ) اور 

۲) ان کے شیخ محدث مکہ ابو یعقوب یوسف بن احمد المکی الصیدلانی ؒ (م ۳۸۵؁ھ)بھی صدوق اور ثقہ ہیں ۔ 

نیز یہ کتاب الانتقاء لابن عبدالبر بھی حافظ المغرب سے ثابت ہے ،جس کی تفصیل ’’الاجماع شمارہ نمبر:۳ص:۲۸۴‘‘ پر موجود ہے۔

۳) ابو مروان عبدالملک بن بحر ؒ (م ۳۳۴؁ھ) ثقہ ،مکثر ہیں ۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۶ص :۴۳۶ ) اسی طرح ان کے متابع میں ابوالعباس محمد بن الحسن الفارسی ؒ بھی موجود ہے ،جن کے حالات نہیں مل سکے ۔ 

۴)  محمد بن اسماعیل الصائغ ؒ (م ۲۷۶؁ھ) سنن ابوداؤد کے راوی ہیں اور صدوق ہیں ۔(تقریب رقم :۵۷۳۱)

۵) حافظ شبابہ بن سوار ؒ (م ۲۰۶؁ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور ثقہ ،حافظ ہیں ۔(تقریب رقم : ۲۷۳۳)

۶) امام شعبہؒ (م ۱۶۰؁ھ) ثقہ ،مضبوط اور امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ۔(تقریب رقم : ۲۷۹۰،الکاشف للذہبی )معلوم ہواکہ اس یہ سند حسن ہے ۔

۱۱۱-  اس قول کی تیسری سند حافظ ابن عدی ؒ (م ۳۶۵؁ھ) نے یوں ذکر کی ہے کہ :

حدثنا ابن حماد قال وحدثنی ابوبکر الاعین ،حدثنی یعقوب بن شیبۃ عن الحسن الحلوانی سمعت شبابۃ یقول کان شعبۃ حسن الرأی فی ابی حنیفۃ۔(الکامل لابن عدی ج:۸ص:۲۴۱)

اس سند کے راویوں کی تفصیل یہ ہے ۔

۱) حافظ ابن عدی ؒ(م ۳۶۵؁ھ) کی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ مشہور ثقہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہیں ۔

۲) ان کے استاذ حافظ ابن حماد ابوالبشر الدولابی ؒ (م ۳۱۰؁ھ) بھی جمہور کے نزدیک ثقہ ،حافظ ہیں ۔ (الاجماع شمارہ نمبر:۲ ص:۴) پھر ان کے متابع میں ابوبکر محمد بن جعفر بن اعین ؒ (م ۲۹۳؁ھ) بھی ثقہ ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم ج:۸ص:۲۲۰،تاریخ الاسلام ج:۶ص:۱۰۱۸)

۳) حافظ امام یعقوب بن شیبہؒ (م ۲۶۸؁ھ) ثقہ ،امام ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء ج:۱۲ ص:۴۷۶، تاریخ الاسلام ج:۶ ص:۴۵۱)

۴) امام حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲؁ھ) 

۵)   حافظ شبابہ بن سوار ؒ (م ۲۰۶؁ھ) اور 

۶) امام شعبہ ؒ کی توثیق پہلے گزر چکی ۔

لہذا یہ سند بھی صحیح ہے۔


  اس قول کی ایک اور سند امام موفق بن احمد مکی ؒ (م ۵۶۸؁ھ) نے یوں بیان کی ہے :

اخبرنی تاج الاسلام ابوسعد السمعانی فی کتابہ الی ،انا ابوالفرج الاصبہانی بہا اجازۃ انا ابوالحسین قراء ۃ انا الحافظ ابوعبداللہ بن مندۃ نا الاستاذ ابومحمد الحارثی قال حدثنا العباس بن حمزۃ انبانا محمد بن المہاجر انبا یحی بن آدم قال کان شعبۃ اذا سئل عن ابی حنیفۃ اطنب فی مدحہ وکان یہدی الیہ فی کل عام طرقۃ ۔(مناقب امام اعظم للموفق :ص:۳۱۹)

اس سند کے راویوں کی تفصیل یہ ہے :

۱) امام موفق بن احمد المکی ؒ (م ۵۶۸؁ھ) صدوق ہیں ۔(الاجماع شمارہ :۴ص:۷۰)

۲)  امام ابوسعد السمعانی ؒ (م۵۶۲؁ھ)مشہور ثقہ ،امام اور محدث مشرق ہیں ۔(تاریخ الاسلام ج: ۱۲ ص : ۲۷۴)

۳) ابوجعفر سعید بن ابی رجاء الاصبہانی ؒ (م ۵۳۲؁ھ) 

۴) ابوالحسین احمد بن محمد الاسکافی ؒ ،

۵) امام ابوعبداللہ بن مندہ ؒ (م ۳۹۵؁ھ) وغیرہ کی توثیق گزر چکی ۔(دیکھئے الاجماع شمارہ:۴ص:۶۲ ، ۶۳ )  

۶) امام ابومحمد الحارثی ؒ (م ۳۴۰؁ھ) کی توثیق ’’الاجماع شمارہ :۲ص:۸۹‘‘پر موجود ہے نیز امام حارثی ؒ کی تائید میں کئی ثقہ راوی موجود ہیں،جس کاذکر امام شعبہؒ کے پہلے قول کے تحت گزرچکا۔

۷) عباس بن حمزہ نیساپوری ؒ (م ۲۸۸؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔ (التذییل علی کتب الجرح والتعدیل ص: ۱۵۳ ، مسند امام بوحنیفہؒ بروایت الحارثی ج:۱ص:۱۷۴)

۸) محمد بن المہاجر البغدادیؒ (م ۲۶۴؁ھ) ضعیف ہے ۔(تاریخ بغداد ج:۴ص؛۷۱) لیکن امام شعبہؒ کے پچھلے قول سے اس قول کی تائید ہوتی ہے،اور محمد بن المہاجر ؒ کے متابع میں امام حسن بن علی الحلوانی ؒ اور محمد بن اسماعیل الصائغ ؒ جیسے ثقات موجود ہیں ،لہذا اس روایت میں آپ پر کلام مردود ہے ۔

۹) یحیی بن آدم ؒ (م ۲۰۳؁ھ) ثقہ ،حافظ اور فاضل ہیں ۔(تقریب رقم : ۷۴۹۶)

۱۰) امام شعبہ ؒ کی توثیق گزر چکی ۔

لہذا متابعت کی وجہ سے اس قول کی سند حسن ہے ۔


   اس سند کے راویوں کا حال ملاحظہ فرمائیں :

۱)  حافظ المغرب امام ابوعمر بن العبدالبر ؒ (م ۴۶۳؁ھ) اور 

۲) ان کے شیخ محدث ِمکہ ابویعقو ب یوسف بن احمد المکی الصیدلانی ؒ (م ۳۸۸؁ھ) کی توثیق گزر چکی ۔

۳)  اسحٰق بن محمد بن احمد الحلبی ؒ (م ۳۲۱؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم ج:۲ص:۳۳۶،الدلیل المغنی ص:۱۴۸)

۴)  حافظ سلیمان بن سیف ؒ (م ۲۷۲؁ھ) سنن نسائی کے راوی ہے اور ثقہ ،حافظ ہیں ۔(تقریب رقم: ۲۵۷۱)

 ۵) حافظ عبدالصمد بن عبدالوارث ؒ (م ۲۰۷؁ھ) صحیحین کے راوی ہیں اور صدوق ،حجت اور شعبہؒ کی روایت میں مضبوط ہیں۔(تقریب رقم :۴۰۸۰)

۶) امام شعبہؒ کی توثیق گزر چکی ۔ لہذا یہ سند حسن ہے ۔


تعریف و توثیق ابو حنیفہ سلسلہ نمبر 23 : امام اعظم ابوحنیفہ ؒ (م ۱۵۰؁ھ) امام شعبہ ابن الحجاج ؒ (م ۱۶۰؁ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...