نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 3: امام ابو حنیفہؒ کا پہلے نام عتیک تھا انہوں نے خود بدل کر نعمان رکھا۔


 اعتراض نمبر 3: 
 امام ابو حنیفہؒ کا پہلے نام عتیک تھا انہوں نے خود بدل کر نعمان رکھا۔

أخبرنا أبو نعيم الحافظ، حدثنا أبو أحمد الغطريفي قال: سمعت الساجي يقول: سمعت محمد بن معاوية الزيادي يقول: سمعت أبا جعفر يقول: كان أبو حنيفة اسمه عتيك بن زوطرة، فسمى نفسه النعمان وأباه ثابتا.

الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ تعجب کی بات ہے کہ خطیب کے پاس جتنی طاقت اور حیلے بہانے ہیں ان تمام کے ذریعہ سے وہ ہر اس چیز میں عیب نکالنا چاہتا ہے جس کا تعلق نعمان کے ساتھ ہے یہاں تک کہ اس کے نام اور اس کے باپ کے نام کو بھی عیب لگانا شروع کر دیا۔ اللہ تعالٰی تعصب کو تباہ و برباد کرے کہ اس نے اس کو کس قدر بے شرم بنا دیا ہے۔ بہر حال اس سند کے راویوں میں سے ابو نعیم الاصفہانی وہ شخص ہے جس نے امام شافعیؒ کی طرف جو سفرنامہ منسوب کیا جاتا ہے، اس کو حلیہ الاولیاء میں ایسی سند کے ساتھ درج کیا ہے جس میں احمد بن موسی النجار اور عبد اللہ بن محمد البلوی ہیں اور یہ دونوں راوی مشہور جھوٹے ہیں اور جس سفرنامہ کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے جھوٹا ہونے پر پرکھ رکھنے والوں نے اتفاق کیا ہے اور اس میں امام ابو یوسفؒ اور امام محمد بن الحسنؒ کا سازش کرنا اور ان دونوں کا رشید کو امام شافعیؒ کے قتل پر برانگیختہ کرنے کا ذکر ہے حالانکہ بیشک امام شافعی کا عراق کی طرف منتقل ہونا امام ابو یوسف کی وفات کے دو سال بعد میں ہوا اور امام شافعی کے ساتھ محمد بن الحسن کی شفقت اور ان کو فقیہ بنانے میں ان کا کوشش کرنا اور ان سے حد درجہ کی غم خواری کرنا ان چیزوں میں سے ہے جو حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں جیسا کہ آپ اس کی تفصیل بلوغ الامانی [سیرت امام محمد مصنف امام زاہد الکوثری رحمہ اللہ] میں دیکھ سکتے ہیں۔ بلکہ امام محمد بن حسن شیبانی ہی کی شخصیت ہے جس نے امام شافعی کو آزمائش سے چھڑایا تھا یہاں تک کہ ابن العماد الحنبلی نے ابن عبد البر سے نقل کرنے کے بعد اپنی کتاب شذرات الذہب میں لیا ہے کہ امام محمد بن الحسن نے امام شافعی کو قتل سے کیسے چھڑا لیا۔ پس ہر شافعی ، قیامت کے دن تک واجب ہے کہ وہ امام محمد بن الحسن کا یہ احسان مانے اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کرے لیکن ابو نعیم اس احسان کے بدلے برائی کو مباح سمجھتا ہے یا جھوٹے آدمی کی خبر کو ذکر کرتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ یہ سفرنامہ یقینی طور پر جھوٹا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا مرتب ہو سکتا ہے یعنی اس کا اس خبر کو ذکر کر کے اپنے ہم مذہب لوگوں کو دھوکا دیتا ہے جس کا ابھی ذکر کیا گیا ہے اور ان کو فتنہ میں ڈالنے کی ایسی کوشش کرنا ہے جیسے مقتول کے ورثاء کی قاتل سے خون کا بدلہ لینے کی کوشش ہوتی ہے۔ ہم اللہ تعالٰی سے حفاظت مانگتے ہیں۔

اور ابو نعیم کی مشہور عادت ہے کہ وہ جھوٹی خبروں کو ان کے جھوٹ پر تنبیہہ کیے بغیر سندوں سے نقل کر دیتا ہے اور اس کی یہ بھی عادت ہے کہ وہ ایسی روایت کو نقل کر دیتا ہے جس میں ایک طریق سے اس کو صرف اجازت ہوتی ہے اور دوسرے طریق سے سنا ہوتا ہے اور وہ دونوں میں حدثنا کہہ دیتا ہے حالانکہ یہ کھلے طور پر جھوٹ کو سچ سے ملانے والی بات ہے اور اس کے بارہ میں ابن مندہ کی جرح ایسی نہیں ہے کہ صرف امام ذہبی کی خواہش کی وجہ سے اس سے چشم پوشی کی جائے۔ اور اس کا راوی ابو احمد محمد بن احمد الغطریفی تو یہ صاحب مناکیر ہے اور حضرات محدثین کرام نے اس کی اس حدیث کو منکر کہا ہے جو اس

نے بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہل کا اونٹ ہدیہ دیا تھا اور ابو نعیم گمان کیا کرتا تھا کہ بیشک فلان اور فلاں سے اس نے اس خبر کو حاصل کیا ہے مگر اس کے اصل کی تخریج نہیں کرتا تھا اور اسی طرح حضرات محدثین نے اس روایت کو بھی منکر کہا ہے جو اس نے مسند ابن راہویہ سے اس کے اصل کے بغیر نقل کی ہے اور یہ ابو العباس بن سریج سے ایسی احادیث نقل کرنے میں متفرد ہے جن کو اس کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں کرتا اور ابن الصلاح نے اس کو اختلاط کا شکار ہو جانے والوں میں شمار کیا ہے مگر اس ساری صورت حال کے باوجود وہ (الغطریفی) اور ابو نعیم اور خطیب ان کے مذہب والوں کے ہاں پسندیدہ بھی ہیں اور مقبول بھی۔

اور بہر حال اس کا راوی الساجی تو وہ ابو یحیی زکریا بن یحیی الساجی البصری ہے جو کتاب العلل کا مولف ہے اور متعصبوں کا استاد ہے اور مجہول راویوں سے منکر روایات کرنے میں بہت منفرد واقع ہوا ہے اور آپ تاریخ بغداد میں مجہول راویوں سے منکر روایات کرنے میں اس کے انفراد کے کئی نمونے پائیں گے اور امام ذہبی کا اس کی طرف سے دفاع کرنا تجاہل عارفانہ ہے اور ابو الحسن بن القطان نے کہا کہ حدیث میں اگر یہ آجائے تو اس کے بارہ میں اختلاف کیا گیا ہے۔ ایک جماعت نے اس کی توثیق کی ہے اور دوسروں نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ ابو بکر الرازی نے اس کی سند سے روایت نقل کرنے کے بعد کہا کہ اس میں الساجی منفرد ہے اور وہ مامون نہیں ہے اور اس آدمی کا تعصب میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہونا معلوم کرنے کے لیے اس کی کتاب العلل کا ابتدائی حصہ مطالعہ کر لینا ہی کافی ہے اور الزیادی ان لوگوں میں سے ہے جن سے صحاح ستہ والوں نے اپنی کتابوں میں روایت سے اعراض کیا ہے اور ابن حبان کی عادت کسی کی توثیق کے بارے میں یہ ہے کہ اگر کسی کے بارے میں اس کو جرح نہ ملے تو اس کی بھی توثیق کر دیتا ہے پس اس (ابن حبان) کا اس کو کتاب االثقات میں ذکر کرنا ذرا بھی فائدہ نہیں دے گا اور اس روایت کا ایک راوی ابو جعفر مجہول ہے۔ ان تمام تر کمزوریوں کے باوجود خطیب نے اس افسانے کو اپنی کتاب میں لکھنا جائز سمجھا اور امام ابو حنیفہ اور ان کے والد کے نام کے بارے میں جو ثابت شدہ روایات ہیں ان کی

خالفت کی بھی پرواہ نہ کی۔

 اعتراض امام ابو حنیفہؒ کا پہلے نام عتیک تھا انہوں نے خود بدل کر نعمان رکھا۔


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...