روایت یا سارية الجبل کا غیر مقلدین کے مستند علماء سے تصدیق
ماخوذ از مجلہ راہِ ہدایت
محترم محسن اقبال صاحب
موجودہ دور کے اہلحدیث کہلانے والے اکثر نام نہاد محققین کشف و کرامات کے منکر ہیں اور کشف کو علم غیب کا نام دے کر اس پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے ہیں۔
کشف و کرامت کا ایک مشہور واقعہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہے جس کو موجودہ نام نہاد محققین نہیں مانتے اور اس اس واقعے کے انکار کے لئے کچھ جروحات پیش کرتے ہیں۔
ہم یہاں اس واقعے کی تصدیق اہلحدیث کہلانے والے نام نہاد محققین کے معتبر علماء سے پیش کر رہے ہیں جنہوں نے اس واقعے کی سند کو حسن کہا اور اس واقعے کو بطور کرامت تسلیم کیا۔
کشف کا ایک واقعہ حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا جو درج ذیل ہے!
"ایک بار وہ جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھےکہ لوگوں نے سنا : آپ کہہ رہے ہیں ، "یا ساریۃ الجبل" اے ساریہ پہاڑ میں پناہ لو ، لوگوں کو اس پر تعجب ہوا، اور جب آپ سے اسکی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا : میرے سامنے ایسا ظاہر ہوا کہ ساریہ بن زنیم جو آپ کے ایک کما نڈر تھے ۔ دشمنوں کے نرغہ میں ہیں اور انکا رخ پہاڑ کی طرف ہے تو میں نے کہا اے ساریہ پہاڑ پہاڑ ، ساریہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آواز سنی ، پہاڑ کی طرف متوجہ ہوئے اور اسکی پناہ میں پہنچ گئے"
یہ ایک کشف تھا کیونکہ یہ واقعہ بہت دور پیش آیا تھا، جسکا انکشاف حضرت عمر پر ہوگیا امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں ، امام سیوطی نے جامع الاحادیث میں ، امام علی المتقی الہندی نے کنزل العمال میں ، اور امام ابن حجر عسقلانی نے الاصابۃ فی معرفۃ الصحابہ میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابۃ فی معرفۃ الصحابۃ میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
کنز العمال کا متن ملاحظہ کریں۔
"عن ابن عمر قال: وجه عمر جيشا وأمر عليهم رجلا يدعى سارية فبينما عمر يخطب يوما جعل ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، ثم قدم رسول الجيش فسأله عمر، فقال: يا أمير المؤمنين! لقينا عدونا فهزمنا، فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله، فقيل لعمر: إنك كنت تصيح بذلك. "ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم عق معا في الدلائل واللالكائي في السنة، كر، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن".
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو روانہ فرمایا: اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو اُس لشکر کا سپہ سالار بنایا ، ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے درمیان یہ نداء دی کہ یا ساریۃ الجبل ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا ۔ جب لشکر کی جانب سے قاصد آیاتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہاں کا حال دریافت کیا ؟ اُس نے کہا : ائے امیر المؤمنین ہم نے دشمن سے مقابلہ کیا تو وہ ہمیں شکست دے ہی چکے تھے کہ اچانک ہم نے ایک آواز سنی ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ پس ہم نے اپنی پیٹھ پہاڑ کی جانب کرلی تو اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دے دی ۔ عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی عرض کیا گیا کہ بیشک وہ آواز دینے والے آپ ہی تھے ۔ (دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر:2655، جامع الأحاديث للسيوطي،حرف الياء ،فسم الافعال،مسند عمر بن الخطاب، حديث نمبر:28657، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلي المتقي الهندي،حرف الفاء ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حديث نمبر:35788، الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف)
اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابة في معرفة الصحابة میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
فتاوی اللجنہ الدائمہ جلد 26 صفحہ 41 فتویٰ 17021 میں اس واقعہ کو صحیح تسلیم کیا گیا اور بطور کرامت اس کو قبول کیا گیا۔
س: ایک صاحب لکچر دینے کے لئے ہمارے اسکول تشريف لائے، لکچر کا عنوان "اولیاء و بزرگوں کی کرامات" تھا، انہوں نے اپنے لکچر میں یہ کہا کہ ايک بار حضرت عمر بن خطاب منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک آپ نے جو فوجی دستہ جنگ کے لئے بھیجا تھا، اس کو آواز دیتے ہوئے کہا : اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف بڑھو، چنانچہ دستے نے آپ کی بات سنی، اور پہاڑ کی طرف چل پڑا، واضح رہے کہ اس فوجی دستے اور حضرت عمر کے درمیان لمبی مسافت تھی ۔ تو کیا یہ روایت صحیح ہے یا غلط؟ اور کیا اس کا شمار کرامات میں ہوگا؟
ج: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول درست ہے، اور ان کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنه نے ایک فوجی دستہ بھیجا، اور اس کا امیر اس شخص کو بنایا جس کا نام " ساریہ " تھا، راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمر ایک دن ہمارے درمیان خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک منبر پر کھڑے چیخنے لگے : اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف بڑھو، اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف بڑھو۔ راوی کہتے ہیں کہ جب اس فوج کا قاصد پہنچا، تو حضرت عمر نے اس سے ماجرا دریافت کیا، تو اس نےجواب دیتے ہوئے کہا کہ اے امیر المومنین! ہماری دشمنوں سے مڈ بھیڑ ہوئی، اور ہم شکست کے قريب تھے کہ اچانک ایک چیخنے والے نے چیخ کر ہم سے کہا کہ اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف بڑھو ، تو ہم نے فوراً اپنی پیٹھیں پہاڑ کی آڑ میں کرلیں، اور اللہ تعالی نے انہیں شکست دیدی، اس حدیث کو امام احمد نے "فضائل الصحابة" میں، ابو نعیم نے " دلائل النبوة" میں، ضیاء مقدسی نے اپنے المنتقی نامی موسوعہ میں، ، ابن عساکر نے اپنی تاريخ کی کتاب میں، امام بیھقی نے " دلائل النبوة " میں، علامہ ابن حجر نے "الإصابۃ" میں اس کو ذکر کرتے ہوئے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے، اور ان سب سے پہلے حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ کی کتاب میں اس کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس روایت کی سند عمدہ اور حسن ہے، اور ہیثمی نے اپنی کتاب " الصواعق المحرقۃ " میں بھی اس روایت کی سند کو حسن قرار ديا ہے۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے الہام ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کرامت ہے، اور حضرت عمر محدّث ملہم تھے، جیساکہ حضوراکرم صلى اللہ عليه وسلم سے [ ان کے بارے میں ] یہ ثابت ہے۔ اور اس روایت میں یہ نہیں ہے کہ حضرت عمر کے لئے اس فوجی دستے سے سارے پردے ہٹا دئے گئے، اور انہوں نے اپنی جاگتی آنکھوں سے اس دستے کو دیکھا، اور اس کے علاوہ اور بہت سی چیزیں جو ضعیف روایتوں میں مذکور ہے، اور جس کو غلو پسند صوفیوں نے اس بات کی دلیل بنالی ہے کہ مخلوق غیب پر مطلع ہوسکتی ہے اور ان سے سارے پردے ہٹائے جاسکتے ہیں، یہ عقیدہ بالکل غلط ہے، اس لئے کہ غیب پر مطلع ہونا صرف اللہ تعالی کی صفت ہے، اور مذکورہ بالا سوال میں یہ جو کہا گیا ہے کہ حضرت عمر ( جلد کا نمبر 26; صفحہ 42) رضی اللہ عنہ نے جس فوجی دستے کو جنگ کے لئے بھیجا تھا، اس کو آواز دی، اوراس فوجی دستہ نے آپ کی آواز سنی، اور پھر پہاڑ کی آڑ لے لیا۔ یہ حدیث کے مفہوم سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ وباللہ التوفيق۔ وصلى اللہ على نبينا محمد، وآلہ وصحبہ وسلم۔
(علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی ممبر ممبر ممبر ممبر صدر بکر ابو زید عبد العزیزآل شي،خ صالح فوزان، عبد اللہ بن غدیان ،عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز)
شیخ صالح العثمین ؒصاحب سے پوچھا گیا کہ یا ساریة الجبل کے واقعہ سے کیا اسباق ثابت ہوتے ہیں؟ تو انہوں نےجو جواب دیا اس کا مفہوم ہے کہ ''اس سے امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کرامت ثابت ہوتی ہےاور پھر اخیر میں فرمایا کہ کرامات اولیاء کا ثبوت بھی اس سے معلوم ہوتا ہے (آگے کرامت کی تعریف کی ہے) کہ کرامت ہر اس امر کو کہا جاتا ہے جو خارق للعادة ہو اللہ ج اسے اپنے اولیاء میں سے کسی ولی کے ہاتھ پر جاری فرماتے ہیں اس ولی کی تکریم کی خاطر اور اس راستے کی تصحیح کی خاطر جس پر وہ ولی چلتا ہے اسی وجہ سے ہر ولی کی کرامت ایک نشانی ہے اور معجزہ ہے اس رسول ص کا جسکی اتباع وہ ولی کرتا ہے (اور پھر تھوڑا سا آگے فرمارہے ہیں) کہ کرامت کبھی تو ولی پر آئی ہوئی شدت و بلا سے اس ولی کو چھٹکارا دینے کے لئے ہوتی ہے اور کبھی اللہ ج کے دین کے اس امر کے اعزاز کے لئے ہوتی ہے جسکی طرف وہ ولی دعوت دیتا ہے۔(فتاوی نور علی الدرب،جلد 12،صفحہ 268،267)
دوسرا سوال کہ یہ جو روایت بیان کی جاتی ہے کہ عمر بن خطاب رض نے جبکہ وہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے ساریہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور وہ دشمن کے مقابلے میں جنگ کے میدان میں تھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا ساریة الجبل کیا یہ قصہ واقعی میں رونما ہوا ہے یا ایسے ہی ایک خیال ہے بس شریعت اس متعلق کیا کہتی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ قصہ مشھور ہے عمر بن خطاب رض سے متعلق (اور پھر تھوڑا سا آگے فرمارہے ہیں) کہ اس جیسے واقعات کا شمار کرامات اولیاء میں ہوتا ہے اور اللہ ج اسے اپنے اولیاء کے ہاتھوں پر جاری فرماتے ہیں انکے دل کی مظبوطی کے لئے اور حق کی مدد کے لئے اور ایسی کرامت گذشتہ امتوں میں بھی موجود ہے اور اس امت میں بھی اور قیامت کے دن تک ہمیشہ رہیگی اور کرامت ایک ایسی شئ ہے جو خارق للعادة ہو اللہ ج اسے ظاھر فرماتے ہیں ولی کے ہاتھ پر اس کے دل کی مظبوطی کے لئے اور حق کی تائیید کے لئے۔(فتاوی نور علی الدرب،جلد 12،صفحہ 268،267)
کچھ حضرات نے اس روایت کو محمد بن عجلان راوی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ محمد بن عجلان صدوق راوی ہے ، نافع سے اس کی روایت میں تدلیس کا خدشہ بھی ہو تو انہوں نے صراحت کردی ہے کہ یہ روایت انہوں نے ایاس بن معاویہ بن قرۃ ( جو کہ ثقہ راوی ہیں ) سے بھی سماعت کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیں لالکائی کی شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة (7/ 1409) 2537 -
أنا الْحَسَنُ بْنُ عُثْمَانَ قَالَ: أنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ حَمْدَانَ، قَالَ: نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: نا أَبُو عَمْرٍو الْحَارِثُ بْنُ [ص:1410] مِسْكِينٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ: أنا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ "، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَعَثَ جَيْشًا أَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ. قَالَ: فَبَيْنَا عُمَرُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمًا، قَالَ: فَجَعَلَ يَصِيحُ، وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» . قَالَ: فَقَدِمَ رَسُولُ الْجَيْشِ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: " يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، لَقِينَا عَدُوَّنَا فَهَزَمْنَاهُمْ، فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: «يَا سَارِيَ الْجَبَلَ، يَا سَارِيَ الْجَبَلَ» ، فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا بِالْجَبَلِ، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ ". فَقِيلَ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: «إِنَّكَ كُنْتَ تَصِيحُ بِذَلِكَ» قَالَ ابْنُ عَجْلَانَ: وَحَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ بِذَلِكَ
لہذا جن اہل علم نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے ، ان کی بات درست معلوم ہوتی ہے ، علامہ زرکشی فرماتے ہیں :
" وَقد افرد الْحَافِظ قطب الدّين عبد الْكَرِيم الْحلَبِي لهَذَا الحَدِيث جُزْءا ووثق رجال هَذِه الطَّرِيق۔"
ترجمہ: حافظ قطب الدین حلبی نے مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے ، جس میں اس واقعہ کے سارے طرق جمع کیے ہیں ، اور اس طریق کے تمام رجال کو ثقہ قرار دیا ہے ۔(التذكرة في الأحاديث المشتهرة، اللآلئ المنثورة في الأحاديث المشهورة (ص:166)۔علامہ سیوطی فرماتے ہیں
''وألف القطب الحلبي في صحته جزءاً۔قطب الحلبی نے مستقل رسالے میں اس کی صحت کو ثابت کیا ہے ۔(الدرر المنتثرة في الأحاديث المشتهرة (ص: 211)
البانی رحمہ اللہ نے (تحقيق الآيات البينات في عدم سماع الأموات صفحہ 112) میں اس کی سند کو ’’ جید حسن ‘‘ کہا ہے، جبکہ سلسلہ صحیحہ میں اس پر طویل گفتگو کی ہے ، اور اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ واقعہ صرف ابن عجلان کی سند سے صحیح ہے ، لہذا دیگر اسانید میں جو اضافے ہیں ، اور جن سے اہل بدعت لوگ اپنے بدعی نظریات کے ثبوت کی دلیل لیتے ہیں ، بالکل درست نہیں۔
غیر مقلدین کے امین اللہ پشاوری کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے یا حسن ہےامام بیہقیؒ نے دلائل النبوۃ(2/181) میں نقل کیا ہے۔جیسے کہ مشکٰوۃ (2/546) رقم:59054 باب الکرامات میں ہے،امام ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ:7/131 میں،ابن عساکرؒ نے (7/6۔1)،(13/23۔2)میں،الضیاءؒ نےالمنتقی من مسموعاۃ بمرو(ص:28۔29)میں ابن الاثیرنے اسد الغایہ (5/68) میں ذکر کیا ہے۔ اورالسلسلۃالصحیحہ(3/101)(رقم1110) میں نافع سے مروی ہے کہ یقیناً عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ نے کہا"یا ساریۃ الجبل،یا ساریۃ الجبل"اے ساریہ رضی اللہ عنہ پہاڑ کو لازم پکڑ!اے ساریہ پہاڑ کو لازم پکڑ! تو اس وقت جمعہ کے دن ساریہ رضی اللہ عنہ پہاڑ کی طرف حملہ کر رہے تھے۔اور اس کے اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان ایک مہینے کی مسافت تھی۔ جو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں وہ غلطی پر ہیں،اس حدیث کی متعدد سندیں ہیں اور یہ خطبۂ جمعہ کے دوران تھی نیند نہیں تھی۔رہا وہ کشف جو صوفیاء خیال کرتے ہیں تو وہ باطل ہے اور یہ کرامت تھی اور یہ اللہ تعالٰی کی طرف سے انہیں الہام ہوا تھا، آپ کے منہ سے سمجھ کے بغیر صادر ہو گیا تھا۔تفصیل کے لیے مراجعہ کریں،السلسلہ۔فتاویٰ الدین الخالص، امین پشاوری (جلد 1 صفحہ 212)۔
علامہ ابن کثیرؒ نے اس کی سند کو جید کہا اور مختلف طرق بیان کرنے کے بعد کہا کہ یہ سب طریق ایک دوسرے کو قوت دیتے ہیں۔
عن ابنِ عمرَ قال وجَّهَ عمرُ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يُدعى ساريةَ فبينا عمرُ يخطبُ جعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ فقال يا أميرَ المؤمنين هُزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتًا يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندنا ظهْرَنا إلى الجبلِ فهزمَهُمُ اللهُ تعالَى قال قيل لعمرَ إنك كنتَ تصيحُ بذلك ـ(الإصابة في تمييز الصحابة (ابن حجر العسقلاني) - الصفحة أو الرقم: 2/3 (الجزء 3 - الصفحة 5،)كشف الخفاء (العجلوني) - الصفحة أو الرقم: 2/515) المصدر: البداية والنهاية (ابن كثير) - الصفحة أو الرقم: 7/135)السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: (3/101) 1110،)خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن۔كرامات أولياء الله عز وجل للالكائي (سنة الوفاة:418) » ذكر فضائل الصحابة وغيرهم » سياق مَا روي من كرامات أمير المؤمنين أَبِي حفص عُمَر ... رقم الحديث: 49)
علامہ ابن قیم رح اس کو "کشف" میں شمار کرتے لکھتے ہیں: والكشف الرحماني من هذا النوع: هو مثل كشف أبي بكر لما قال لعائشة رضي الله عنهما: إن امرأته حامل بأنثى. وكشف عمر- رضي الله عنه- لما قال: يا سارية الجبل، وأضعاف هذا من كشف أولياء الرحمن .[مدارج السالکین ( 3 / 228)]
ترجمہ:اور کشف رحمانی یہ ہے ، جس طرح کہ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ کہا کہ ان کی بیوی بچی کا حاملہ ہے ، اور اسی طرح عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا کشف جب کہ انہوں نے یا ساریـۃ الجبل کہا تھا یعنی اے ساریہ پہاڑ کی طرف دھیان دو ، تو یہ اللہ رحمن کے اولیاء کے کشف میں سے ہے۔ علامہ ابن قیمؒ اس واقعے کو بطور کشف رحمانی پیش کر رہے ہیں۔
عن ابنِ عمرَ قال وجَّهَ عمرُ جيشًا ورأَّسَ عليهم رجلًا يُدعى ساريةَ فبينا عمرُ يخطبُ جعل يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا ثم قدم رسولُ الجيشِ فسألَه عمرُ فقال يا أميرَ المؤمنين هُزمنا فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتًا يُنادي يا ساريةُ الجبلَ ثلاثًا فأسندنا ظهْرَنا إلى الجبلِ فهزمَهُمُ اللهُ تعالَى قال قيل لعمرَ إنك كنتَ تصيحُ بذلك ـ(الإصابة في تمييز الصحابة (ابن حجر العسقلاني) - الصفحة أو الرقم: 2/3 (الجزء 3 - الصفحة 5،)كشف الخفاء (العجلوني) - الصفحة أو الرقم: 2/515) المصدر: البداية والنهاية (ابن كثير) - الصفحة أو الرقم: 7/135)السلسلة الصحيحة (الألباني) - الصفحة أو الرقم: (3/101) 1110،)خلاصة حكم المحدث: إسناده حسن۔كرامات أولياء الله عز وجل للالكائي (سنة الوفاة:418) » ذكر فضائل الصحابة وغيرهم » سياق مَا روي من كرامات أمير المؤمنين أَبِي حفص عُمَر ... رقم الحديث: 49)
امام احمد بن حنبلؒ نے اس کو فضائل صحابہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے واقعات میں ذکر کیا ہے۔ محقق نے اس کی سند کو حسن کہا اور کہا کہ علامہ ھیثمی نے اس کی سند کو صواعق المحرقہ میں حسن کہا اور علامہ ابن تیمیہؒ نے الفرقان میں اس روایت سے استدلال کیا ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ نے اپنے فتاویٰ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساریہ والے واقعے کو اور دوسرے کئی واقعات کو بطور کشف تسلیم کیا اور لکھا
"وأما المعجزات التي لغير الأنبياء من باب الكشف والعلم فمثل قول عمر في قصة سارية، وأخبار أبي بكر بأن ببطن زوجته أنثى، وأخبار عمر بمن يخرج من ولده فيكون عادلاً. وقصة صاحب موسى في علمه بحال الغلام، والقدرة مثل قصة الذي عنده علم من الكتاب. وقصة أهل الكهف، وقصة مريم، وقصة خالد بن الوليد وسفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي مسلم الخولاني، وأشياء يطول شرحها. فإن تعداد هذا مثل المطر. وإنما الغرض التمثيل بالشيء الذي سمعه أكثر الناس. وأما القدرة التي لم تتعلق بفعله فمثل نصر الله لمن ينصره وإهلاكه لمن يشتمه." (فتاویٰ ابنِ تیمیہ جلد 11 صفحہ 318)
اور جہاں تک معجزات غیر انبیاء کے علم و کشف کے باب میں ہے تو اس کی مثال ۔۔۔۔ ساریہ کا عمر والا قصہ ہے ۔۔۔۔ ان قصوں کی تعداد اس قدر ہے جیسے بارش۔
اپنی دوسری کتابوں النبوات، قاعدة عظيمة في الفرق بين عبادات أهل الإسلام والإيمان وعبادات أهل الشرك والنفاق، الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان، منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کئی بار اس قصہ کا ذکر کشف کی دلیل کے طور پر کیا۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی کرامت کے مشہور واقعے ''یا ساریہ الجبل'' کو مشہور اہلحدیث عالم مولانا اسماعیل سلفیؒ نے مشکوٰۃ المصابیح کے ترجمہ میں تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''اس میں کئی کرامتیں ہوئی، امیر المومنین حضرت عمر ﷽ رضی اللہ عنہ کی نظر آنا ایک گھمسان کا مدینہ میں، دوسرے پہنچنا ان کی آواز کا وہاں اور ان میں سے ہر ایک کو سننا اس آواز کو، تیسرے ان کا فتحیاب ہونا امیر المومنین کی برکت سے''( ترجمہ مشکوٰۃ المصابیح، 395/396)
کچھ نام نہاد محققین اس روایت کے راوی پر امام سیوطیؒ کی جرح نقل کرکے اس روایت کا انکار کرتے ہیں جبکہ امام سیوطیؒ نے اپنی تین کتب میں امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ''یا ساریہ الجبل'' والی کرامت کو نقل کر کے اس کو بطور کرامت تسلیم کیا ہے۔ (شرح قطف الثمر فی مؤافقات عمر، 77/78، جامع الاحادیث،1/289، تاریخ الخلفاء، باب کرامت عمر رضی اللہ عنہ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کرامت کے مشہور واقعے '' یا ساریہ الجبل'' کو اہلحدیثوں کے مشہور عالم امام شوکانیؒ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے اور کتاب کے محقق سید یوسف احمد نے اسکو بطور کرامت زکر کیا ہے(قطر الولی، 59)۔
کچھ نام نہاد محققین یا ساریہ الجبل کے راوی پر ابن جوزیؒ کی جرح نقل کر کے اسکا انکار کرتے ہیں جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کرامت کے مشہور واقعے '' یا ساریہ الجبل'' کو علامہ ابن جوزیؒ نے مناقب امیر المومنین میں بطور کرامت زکر کیا ہےاور اس پر کوئی جرح نقل نہیں کی( مناقب امیر المومنین عمر بن الخطاب، 133) الأحاديث المختارة، للضياء المقدسي کی تلخیص میں ''یا ساریہ الجبل'' والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے(صحاح الاحادیث فیما متفق علیہ اھل الحدیث،553/472)۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کرامت کے واقعے کی سند کو مشہور اہلحدیث عالم غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری نے اپنی ایک ویڈیو میں حسن قرار دیا اور اس کے راوی پر جرح کا تفصیلی جواب دیا۔
تو اتنے علماء نے اس واقعہ کو صحیح تسلیم کیا اور بطور کشف و کرامات اس سے دلیل پکڑی۔ بالفرض اگر یہ روایت ضعیف بھی ہے تب بھی بطور کشف و کرامات اس واقعہ سے دلیل لی جا سکتی ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں