اعتراض نمبر 29: کہ امام ابو یوسف نے کہا کہ ابو حنیفہ خلق قرآن کا نظریہ رکھتے تھے ، ہم نہیں رکھتے۔
أخبرنا العتيقي، أخبرنا جعفر بن محمد بن علي الطاهري، حدثنا أبو القاسم البغوي، حدثنا زياد بن أيوب، حدثني حسن بن أبي مالك - وكان من خيار عباد الله - قال: قلت لأبي يوسف القاضي: ما كان أبو حنيفة يقول في القرآن؟ قال: فقال: كان يقول القرآن مخلوق. قال: قلت. فأنت يا أبا يوسف؟ فقال لا. قال أبو القاسم: فحدثت بهذا الحديث القاضي البرتي فقال لي: وأي حسن كان وأي حسن كان؟! يعني الحسن بن أبي مالك. قال أبو القاسم: فقلت للبرتي هذا قول أبي حنيفة؟ قال: نعم المشئوم. قال: جعل يقول أحدث بخلقي.
الجواب:
میں کہتا ہوں کہ یہ جھوٹ یکے بعد دیگرے ابو یوسف اور ابن ابی مالک اور احمد بن القاسم البرتی تین آدمیوں کی زبان پر منسوب کیا گیا ہے۔ اور یہ تینوں ابو حنیفہ کے مذہب پر عمل کرنے والے بہت جوشیلے اہل علم تھے اور ابو حنیفہ کی تعریف میں ان کی زبانیں ہمیشہ جاری رہتی تھیں۔
اور اگر خطیب نے یہ واقعہ واقعی العتیقی سے سنا ہے تو میں اس کمزور روایت کا الزام ابو القاسم البغوی کے علاوہ کسی اور پر نہیں لگاتا اور ابن عدی نے اہل بغداد کے ہاں اس کی پوزیشن یہ بیان کی کہ میں نے اہل علم اور مشائخ کو اس کے ضعف پر متفق پالیا ہےالخ [1]۔
۔ اور اس اجماع کے بعد آپ ہی فیصلہ کریں کہ اس سے کون روایت کر سکتا ہے؟ اور راویوں میں کتنے ہی ایسے پائے جاتے ہیں کہ وہ کمزور لالچی قسم کے راویوں سے روایت لے کر (اس کی نسبت بڑے لوگوں کی طرف کر کے) اونچا مقام حاصل کرنے کے خواہشمند رہے ہیں۔ اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ البغوی الحنبلی مقدم زمانہ میں گزرا ہے تو جس کے سامنے اس کی حالت ظاہر ہو چکی ہو وہ کبھی اس سے روایت نہ کرتا جیسا کہ اس کی حالت کا پہلے بیان ہو چکا ہے۔
اور اللالکائی نے شرح السنہ میں ابو الحسن علی بن محمد الرازی ، ابوبکر محمد بن مہرویہ الرازی، محمد بن سعيد بن سابق کی سند سے روایت کی ہے کہ محمد بن سعید نے کہا کہ میں نے قاضی ابو یوسف سے سنا جبکہ میں نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا آپ قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا نہیں۔ اور نہ ہی وہ یعنی ابو حنیفہ رکھتے تھے اور نہ ہی میں رکھتا ہوں۔ [2]
اور ابو یوسف اور ابن ابی مالک اور البرتی سے تو صحیح سندوں کے ساتھ ایسی روایات ہیں جن سے ابو حنیفہ کی قرآن کو مخلوق کہنے کے نظریہ سے براءت اور بیزاری ثابت ہوتی ہے جو ابن ابی العوام اور الصیمری وغیرہ نے نقل کی ہیں[3]۔ اور جو آدمی خطیب کی پیش کردہ سندوں جیسی سندوں کے ساتھ اس کے خلاف روایت کرتا ہے تو وہ روایت اس کی کھوپڑی پر ہی پڑے گی ۔
- أخبرني الحسن بن محمد الخلال قال: حدثنا أحمد بن إبراهيم بن الحسن، حدثنا عمر بن الحسن القاضي قال: حدثنا إسماعيل بن إسحاق، حدثنا نصر بن علي، حدثنا الأصمعي، حدثنا سعيد بن سلم الباهلي قال: قلنا لأبي يوسف: لم لم تحدثنا عن أبي حنيفة؟ قال: ما تصنعون به؟ مات يوم مات يقول القرآن مخلوق.
اور خطیب نے الحسن بن محمد الخلال، احمد بن ابراہیم بن الحسن، عمر بن الحسن القاضی، اسماعیل بن اسحاق، نصر بن علی الاصمعی ، سعید بن الباہلی کی سند نقل کر کے کہا کہ سعید کہتے ہیں کہ ہم نے ابو یوسف سے پوچھا کہ آپ ابو حنیفہ سے حدیث کیوں نہیں بیان کرتے ؟ تو اس نے کہا کہ تم اس کو کیا کرو گے جب وہ فوت ہوئے تھے تو یہ نظریہ رکھتے تھے کہ قرآن مخلوق ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں "عمر بن الحسن الاشنانی القاضی" متکلم فیہ ہے اور دار قطنی نے اس کو ضعیف کہا ہے اور حاکم نے اس کو جھوٹا کہا ہے اور یہ سماع اور اجازت کو برابر خیال کرتا تھا [4]۔
اور اس میں راوی "عبد الملک بن قریب الاصمعی" ہے جس کو ابو زید الانصاری نے جھوٹا کہا ہے اور علی بن حمزه البصری نے اپنی کتاب "التنبيهات على الاغلاط في الروایات" میں اس کی کئی غلطیوں کو نقل کیا ہے اور بعض ایسے امور کی نشاندہی کی ہے جن سے ابو زید الانصاری کی اس کے بارے میں تائید ہوتی ہے اور میں یہاں ان کو نقل کرنا پسند نہیں کرتا۔ اور خطیب نے خود اس کے جو عجائبات ذکر کیے ہیں، وہ بھی کوئی کم نہیں ہیں اور اس کے ذکر کردہ کلام میں سے یہ بات بھی ہے کہ بیشک الاصمعی نے جب 215ھ میں وفات پائی تو ابو قلابہ الجرمی نے اس کے جنازہ میں کہا حملوها لعن الله اعظما نحو دار البلى على خشبات أعظما تبغض النبي واهل البیت والطيبين والطيبات۔
اللہ تعالٰی کی بڑی لعنت اس پر جس کو لوگ لکڑیوں پر اٹھا کر دار البلی (مصیبت کا گھر) کی طرف لے جا رہے ہیں۔ بہت بڑی لعنت ہو اس پر جو نبی اور اہل بیت سے اور پاک مردوں اور عورتوں سے بغض رکھتا تھا۔
اور اس کے ایک راوی "سعید بن سلم الباہلی" کا ذکر پہلے ہو چکا ہے[5] ۔ اور بیشک میں ان کو دیکھتا ہوں کہ وہ ابو یوسف کی زبانی جھوٹ بیان کرنے سے باز نہیں رہتے اس چیز کے خلاف جو اس سے صحیح سندوں کے ساتھ ثابت ہے جیسا کہ پہلے اللالکائی کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔
اور ابن ابی العوام نے محمد بن احمد بن حماد ، محمد بن شجاع کی سند سے نقل کیا کہ ابن شجاع کہتے ہیں کہ میں نے الحسن بن ابی مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے ابو یوسف سے سنا وہ کہتے تھے کہ جمعہ کے دن کوفہ کی مسجد میں ایک آدمی آیا تو اس نے تمام حلقوں کا چکر لگالیا۔ وہ ان سے قرآن کے بارے میں پوچھتا تھا۔ اور ابو حنیفہ وہاں موجود نہ تھے بلکہ مکہ گئے ہوئے تھے تو لوگوں نے اس بارہ میں بحث و گفتگو شروع کی تو بے سوچے سمجھے باتیں کہنے لگے۔ اللہ کی قسم میں تو اس آنے والے کو خیال کرتا ہوں کہ وہ شیطان تھا جو انسانی شکل میں آیا تھا تو جب وہ ہمارے حلقہ میں پہنچا تو ہم سے بھی پوچھا تو ہم میں سے کسی نے اس بارے میں جواب سے ہر ایک کو روک دیا اور ہم نے اس سے کہا کہ ہمارے شیخ موجود نہیں ہیں اور ہم پسند نہیں کرتے کہ ان کی رائے اس بارہ میں معلوم کرنے سے پہلے کچھ کہیں۔ تو وہ آدمی ہمارے پاس سے چلا گیا۔ ابو یوسف کہتے ہیں کہ جب ابو حنیفہ تشریف لائے تو ہم نے قدریہ کے مقام میں ان سے ملاقات کی تو ہم نے ان کو سلام کیا اور انہوں نے ہم سے گھریلو اور شہر کے حالات دریافت کیے تو ہم نے ان کو وہ حالات بتائے۔ پھر کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد ہم نے ان سے پوچھا اے ابو حنیفہ ایک مسئلہ درپیش ہے تو آپ اس میں کیا فرماتے ہیں؟ پس گویا کہ وہ ہمارے دلوں میں تھا اور اس کو ظاہر کرنا ہم پسند نہ کرتے تھے اور انہوں نے بھی محسوس کر لیا کہ بیشک کوئی فتنہ میں ڈالنے والا ہی مسئلہ ہے اور یہ بھی محسوس کر لیا کہ ہم اس کے بارے میں کلام کرنا پسند نہیں کرتے تو پوچھا کہ وہ کون سا مسئلہ ہے ؟ تو ہم نے کہا کہ یہ مسئلہ ہے۔ اور ہم نے ان کو بتلا دیا کہ ایک آدمی نے اس بارے میں ہم سے پوچھا تھا ، تو وہ تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر ہم سے پوچھا کہ تمہارا جواب اس بارے میں کیا تھا؟ تو ہم نے کہا کہ ہم نے تو اس بارے میں کوئی کلام نہیں کیا اور ہم ڈرتے تھے کہ اگر ہم نے کوئی بات کی تو ہو سکتا ہے آپ کو پسند نہ ہو تو ان کا فکر دور ہوا اور ان کا چہرہ چمک اٹھا اور فرمایا
کہ اللہ تعالی تمہیں جزائے خیر دے میری وصیت یاد رکھنا کہ اس بارے میں کبھی کوئی کلمہ زبان سے نہ نکالنا اور نہ ہی اس کے بارے میں کسی سے پوچھنا اس بارے میں انتہائی یہ نظریہ رکھو کہ بیشک وہ ایک حرف کی زیادتی کیے بغیر اللہ تعالی کا کلام ہے۔ میں نہیں خیال کرتا کہ اس مسئلہ میں لوگ باز آئیں گے یہاں تک کہ اہل اسلام کی اس بارے میں حالت ایسی ہو جائے گی کہ نہ اٹھ سکیں گے اور نہ بیٹھ سکیں گے۔ اللہ تعالی ہمیں بھی اور تمہیں بھی شیطان مردود سے بچائے۔[6]
اور بیشک ہم نے اس بارے
میں ابن قتیبہ کی کتاب الاختلاف في اللفظ کے حاشیہ میں بہت سی روایات ذکر کی ہیں۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ ابو القاسم بغوی اگرچہ ثقہ ہیں لیکن یہ خراب زبان والے تھے ، ثقہ راویوں پر بے وجہ کلام کرتے تھے۔
1102 عَبد الله بْنُ مُحَمد بْنِ عَبد الْعَزِيزِ أبو القاسم البغوي۔۔۔۔
والناس أهل العلم والمشايخ معهم مجتمعين على ضعفه۔۔۔۔۔۔
حدث هو وسمعه قاسم المطرز يومًا يقول، حَدَّثَنا عُبَيد الله العيشي فقال قاسم في حرم من يكذب وتكلم قومه فيه عند عَبد الحميد الوراق ونسبوه إلى الكذب وقال عَبد الحميد هو أنغش من أن يكذب أي يحسن الكذب وكان بذيء اللسان يتكلم في الثقات وسمعته
( الكامل في ضعفاء الرجال ، ابن عدي ، جلد 5 صفحہ 437،438)
[2]۔قال أبو القاسم هبة الله بن الحسن بن منصور الطبري اللالكائي (ت: 418هـ) :
قول أبي حنيفة، وأبي يوسف، ومحمّد بن الحسن، وموسى بن سليمان الجوزجانيّ
- سمعت أبا الحسن عليّ بن محمّد بن عمر الفقيه الرّازيّ يقول: سمعت أبا بكرٍ محمّد بن مهرويه الرّازيّ يقول وهو معي في الطّريق يسعى إلى تعزية إنسانٍ: سمعت محمّد بن أيّوب يقول: سمعت محمّد بن سعيد بن سابقٍ يقول: سمعت أبا يوسف القاضي وقلت له: تقول بخلق القرآن؟
قال: لا. كالمنكر على هؤلاء يعني أبا حنيفة ولا أنا
(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:2/ 297)
[3]۔ چند روایتیں ملاحظہ ہوں۔
امام بیھقی الاسماء والصفات میں اپنی سندصحیح سے بیان کرتے ہیں :
أنبأني أبو عبد الله الحافظ , إجازة , أنا أبو سعيد أحمد بن يعقوب الثقفي , ثنا عبد الله بن أحمد بن عبد الرحمن بن عبد الله الدشتكي , قال: سمعت أبي يقول: سمعت أبا يوسف القاضي , يقول: كلمت أبا حنيفة رحمه الله تعالى سنة جرداء في أن القرآن مخلوق أم لا؟ فاتفق رأيه ورأيي على أن من قال: القرآن مخلوق , فهو كافر قال أبو عبد الله رواة هذا كلهم ثقات
محمد بن سابق کہتے ہیں میں نے ابو یوسف سے پوچھا کہ کیا ابو حنیفہ قرآن کو مخلوق کہتے ہیں ؟ تو انہوں (ابو یوسف) نے کہا استغفراللہ نہ ہی انہوں نے ایسا کہا نہ ہی میں کہتا ہوں راوی کہتا ہے میں نے پھر پوچھا کیا ابو حنیفہ کا عقیدہ جہم والا تھا ؟ تو ان (ابویوسف) نے فرمایا نہ ہی انکا عقیدہ ایسا تھا اور نہ ہی میرا
امام بیھقی کہتے ہیں اس روایت کے سارے رجال ثقہ درجے کے ہیں
[الأسماء والصفات للبيهقي، برقم:۵۵۱]
خبرنا الخلال، أخبرنا الحريري أن النخعي حدثهم وقال النخعي: حدثنا محمد بن شاذان الجوهري قال: سمعت أبا سليمان الجوزجاني، ومعلى بن منصور الرازي يقولان: ما تكلم أبو حنيفة ولا أبو يوسف، ولا زفر، ولا محمد، ولا أحد من أصحابهم في القرآن، وإنما تكلم في القرآن بشر المريسي، وابن أبي دؤاد، فهؤلاء شانوا أصحاب أبي حنيفة.
محمد بن شازان جوہری کہتے ہیں میں نے سلیمان جوزجانی ، معلی بن منصور سے سنا وہ کہتے ہیں : کہ ابو حنیفہ نے، ابو یوسف نے کلام نہیں کیا اور نہ ہی زفر نے ، نہ ہی محمد شیبانی نے اور اصحاب ابو حنیفہ میں سے کسی نے بھی قرآن کے (مخلوق ہونے )کے مسلے پر کلام نہیں اور جس نے قرآن کے مسلے پر کلام کیا وہ بشر المریسی ، ابن ابو داود ہیں اور یہ (دو) ابو حنیفہ کے اصحاب تھے
[تاریخ بغداد ، جلد ۱۵ ، ص ۵۱۶وسند جید ]
اسی طرح اسی باب میں ایک اور روایت بھی خطیب بیان کرتے ہیں :
أخبرنا الخلال، قال: أخبرنا الحريري وقال النخعي: حدثنا نجيح بن إبراهيم، قال: حدثني ابن أبي كرامة وراق أبي بكر بن أبي شيبة، قال: قدم ابن مبارك على أبي حنيفة، فقال له أبو حنيفة: ما هذا الذي دب فيكم؟ قال له: رجل يقال له: جهم، قال: وما يقول؟ قال: يقول: القرآن مخلوق، فقال أبو حنيفة: {كبرت كلمة تخرج من أفواههم إن يقولون إلا كذبا}
جهم کا ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مجلس میں ذکر کیا گیا امام ابو حنیفہ نے فرمایا : کیا کہتا ہے وہ ؟ تو حاضرین نے جواب دیا کہ وہ کہتا ھے قرآن مخلوق ھے ۔ تو امام صاحب نے یہ آیت شریفہ پڑھی: 《کبرت کلمۃ تخرج من افواھھم ان یقولون الا کذبا》
ترجمہ: بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ))[ سورہ کھف ۵ از آسان ترجمہ مفتی تقی عثمانی مدظلہ ]
[تاریخ بغداد جلد ۱۵ ، ص ۵۱۷، وسند حسن]
فأخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، حدثنا علي بن أحمد بن محمد القزويني، حدثنا أبو عبد الله محمد بن شيبان الرازي العطار- بالري- قال: سمعت أحمد بن الحسن البزمقي قال: سمعت الحكم بن بشير يقول: سمعت سفيان بن سعيد الثوري والنعمان بن ثابت يقولان: القرآن كلام الله غير مخلوق.
امام حکم بن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے سفیان ثوری اور ابو حنیفہ سے سنا وہ دونوں کہتے ہیں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور غیر مخلوق ہے
(تاریخ بغداد ، جلد ۱۵ ، ص ۵۱۷) بحکم محقق سند حسن!
[4]۔ الأسم : عمر بن الحسن بن علي بن مالك بن أشرس بن عبد الله بن منجاب
الشهرة : عمر بن الحسن الشيباني , الكنيه: أبو الحسين
الرتبة : ضعيف الحديث
أبو عبد الله الحاكم النيسابوري : يكذب، مرة: أصحابنا ببغداد يتكلمون فيه
أبو علي الهروي : صدوق و ما سمعنا أحدا يقول فيه أكثر من أنه يرى الإجازة سماعا وكان لا يحدث إلا من أصوله
أحمد بن محمد الخلال : ضعيف تكلموا فيه بلغني
ابن حجر العسقلاني : صاحب بلايا
الدارقطني : في سؤالات أبي عبد الرحمن السلمي، قال: ضعيف، ومرة: كذاب
الذهبي : يكذب
[6]۔سمعت أبا يوسف يقول جاء رجل إلى مسجد الكوفة يوم الجمعة فدار على الحلق يسلهم عن القرآن وأبو حنيفة غائب بمكة فاختلف الناس في ذلك والله ما أحسبه الا شيطانا تصور في صورة الانس حتى انتهى إلى حلقتنا فسألنا عنها وسأل بعضنا بعضا وأمسكنا عن الجواب وقلنا ليس شيخنا حاضرا ونكره أن نتقدم بكلام حتى يكون هو المبتدئ بالكلام فلما قدم أبو حنيفة تلقيناه بالقادسية فسألنا عن الأهل والبلد فأجبناه ثم قلنا له بعد أن تمكنا منه رضى الله عنك وقعت مسئلة فما قولك فيها فكأنه كان في قلوبنا وأنكرنا وجهه وظن أنه وقعت مسئلة معنتة وانا قد تكلمنا فيها بشئ فقال ما هي قلنا كذا وكذا فأمسك ساكتا ساعة ثم قال فما كان جوابكم فيها قلنا لم نتكلم فيها بشئ وخشينا ان نتكلم بشئ فتنكره فسرى عنه وقال جزاكم الله خيرا احفظوا عنى وصيتي لا تكلموا فيها ولا تسلوا عنها أبدا انتهوا إلى أنه كلام الله عز وجل بلا زيادة حرف واحد مااحسب هذه المسئلة تنتهى حتى توقع أهل الاسلام في امر لايقومون له ولايقعدون أعاذنا الله وإياكم من الشيطان الرجيم ۔
(▪︎ فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه لابن ابی العوام ت بہرائچی صفحہ 116 ، روایت نمبر 185 ۔
▪︎ الإنتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء ، ابن عبد البر ، صفحہ 166۔
▪︎ الانتقاء مترجم صفحہ 420 )
کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ معاذ اللہ جہمی تھے؟
بِسمِ اللہِ الرحمٰنِ الرحیم
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ وہ معاذ اللہ جہمی تھے یعنی جہم بن صفوان کے عقائد پر تھے… جبکہ حقیقت میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہ جہمی تھے اور نہ ہی جہم بن صفوان جیسے باطل عقائد رکھتے تھے… آج کی پوسٹ میں ہم اسی تعلق سے مختلف اقوال و حوالوں کا جائزہ لیں گے… ان شاء اللہ
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے اقوال اور انکا جائزہ –
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے جتنے بھی اقوال ہیں وہ سنداً اور متناً کے لحاظ سے صحیح نہیں… سند اور متن دونوں میں علتیں ہیں…
1:- امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہمی تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ‘ہاں’
… اسکی سند کی پہلی علت یہ ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے یہ قول نقل کرنے والا سعید بن سالم ہے، لیکن روایت بیان کرنے والے راوی کبھی سعید بن سالم کا نام لیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سوال امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اور کبھی سعید کے والد سالم
کا نام لیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سوال کیا…
یعنی سند میں اضطراب ہے جو سند کو ضعیف بناتا ہے… اسکے علاوہ ان سندوں کے راوی بھی ثقہ ثبت نہیں جو بات کو صحیح سے محفوظ کر سکیں کہ اصل بات پوچھی کس نے ہے سعید نے یا انکے والد نے…
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْر مُحَمَّد بن عُمَر بن بُكَيْر المُقْرِئ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُثْمَان بن أَحْمَد بن سمعان الرَّزَّاز، قَالَ: حَدَّثَنَا هيثم بن خلف الدُّورِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا محمود بن غيلان، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن سَعِيد، عن أَبِيهِ، قَالَ: كُنْت مَعَ أمير المؤمنين موسى بجرجان ومعنا أَبُو يُوسُف، فسألته عن أَبِي حنيفة، فَقَالَ: وما تصنع بِهِ وقد مات جهميا
حوالہ نمبر 1 – تاریخ بغداد 513/15 , تاریخ جرجان اور کتاب الثقات 646/7 پر روایت کرنے والا راوی محمد بن سعید ” مجہول ” ہے… لہذا یہ سند ضعیف ہے…
حوالہ نمبر 2 – معرفۃ التاریخ 783/2 اور تاریخ بغداد 513/15 پر ہی یہ قول عمرو بن سعید بن سالم کے واسطے سے ہے اور وہ اپنے دادا سالم کے حوالے سے یہ قول نقل کرتا ہے… سند کا راوی عمرو بن سعید ” مجہول ” ہے… لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے…
وَقَالَ يَعْقُوب: حَدَّثَنَا أَبُو جزي بن عَمْرو بن سَعِيد بن سالم، قَالَ: سَمِعْتُ جدي، قَالَ: قُلْتُ لأبي يُوسُف: أكان أَبُو حنيفة مرجئًا؟ قَالَ: نعم، قُلْتُ: أكان جهميا؟ قَالَ: نعم، قلت: فأين أَنْتَ منه؟ قَالَ: إنما كَانَ أَبُو حنيفة مدرسا، فما كَانَ من قوله حسنا قبلناه، وما كَانَ قبيحا تركناه عَلَيْهِ
حوالہ نمبر 3 – اخبار القضاۃ 258/3 پر یہ قول فضل بن سعید بن سالم کے واسطے سے منقول ہے اور یہ راوی بھی ” مجہول ” ہے… لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے…
أَخْبَرَنِي إبراهيم بْن أبي عُثْمَان قال: حَدَّثَنِي الفضل بْن سعيد بْن سلم عَن أبيه قال: قلت لأبي يوسف: أكان أَبُوْحَنِيْفَةَ يرى رأي جهم؟ قال: نعم، قلت فأين أنت منه؟ قال: لا أين، قلت: وكيف وأنت من أصحابه؟ قال: كان أَبُوْحَنِيْفَةَ رجلًا قد أوتي فهمًا، فكنا نأتيه وكان لنا مدرسًا.
أَخْبَرَنَا ابن الفضل، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن الحسن بن زياد النقاش، أن مُحَمَّد بن علي أخبره، عن سعيد بن سالم، قال: قلت لقاضي القضاة أبي يوسف سمعت أهل خراسان يقولون: إن أبا حنيفة جهمي مرجئ؟ قال لي: صدقوا، ويرى السيف أيضا، قلت له: فأين أنت منه؟ فقال: إنما كنا نأتيه يدرسنا الفقه، ولم نكن نقلده ديننا
حوالہ نمبر 4 – تاریخ بغداد 530/15 پر یہ قول محمد بن حسن بن زیاد کے واسطے سے منقول ہے … یہ راوی مناکر روایات کرنے والا ہے… لہذا یہ سند بھی صحیح نہیں…
مفصل جواب
حوالہ نمبر 5 – معرفۃ التاریخ 782/3 پر یہ قول محمد بن معاذ بصری کے واسطے سے منقول ہے…
اگرچہ یہ راوی ثقہ ہے لیکن اسے وہم بھی ہوتا ہے جیسا کہ امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے…
یہ تو ہوئی اسکی سندوں کی بات اب اسکے متن کی بات کرتے ہیں اسکا متن بھی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے صحیح سند سے منقول قول کے خلاف ہے
جسے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اسماء الصفات صفحہ 656 میں نقل کرنے کے بعد راویوں کو ثقہ کہا… جس میں ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم جیسی رائے ( سوچ / عقیدہ) رکھتے تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کہا معاذ اللہ ( یعنی وہ ایسی سوچ یا عقیدہ نہیں رکھتے تھے ) میں بھی ایسی سوچ نہیں رکھتا…
اسکے علاوہ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم جیسا عقیدہ رکھتے تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ترک کیوں نہیں کر دیا تھا، کیونکہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کے مطابق کتابیں لکھتے تھے جسکی وجہ سے دنیا میں فقہ حنفی کو پھیلنے کا موقع ملا… کیا وجہ تھی کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت کی دعا کرتے تھے… جیسا کہ اخبار القضاۃ 258/3 پر حسن سند سے موجود ہے…
اسکے علاوہ ایک قول امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کا تاریخ بغداد 580/15 پر موجود ہے جس میں انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو جہمی کہا ہے، لیکن اسکی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ سند کا راوی نصر بن محمد بغدادی مجہول ہے…
اسکے علاوہ امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو جہمی کہا ہے لیکن یہ قول بھی حجت نہیں کیونکہ یہ قول بلا دلیل ہے، امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے جہمی ہونے کی دلیل نہیں دی…
اسکے علاوہ ہم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور جہم بن صفوان کے عقائد میں کچھ واضح فرق بتا دیتے ہیں جس سے واضح ہو جائے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے جہم بن صفوان جیسے عقائد نہیں…
1:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایمان نام ہے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا جبکہ جہم کے نزدیک ایمان صرف معرفت قلب ( دل ) ہے بندہ زبان سے انکار کرنے کے باوجود کامل ایمان والا رہتا ہے…
2: – امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قرآن کلام اللہ اور غیر مخلوق ہے جبکہ جہم کے نزدیک قرآن مخلوق ہے…
مفصل جواب
اعتراض نمبر 4: امام اعظم ابو حنیفہ اور عقیدہ خلق قرآن
3:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لوگ اعمال میں ایک دوسرے سے افضل اور کمتر ہیں جبکہ جہم کے نزدیک ایمان کے بعد کسی نیک اعمال کی ضرورت نہیں…
4:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اللہ کی صفات کا انکار نہیں کرتے جبکہ جہم اللہ کی صفات کا انکار کرتا ہے…
5:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک انسان کے گناہ نقصان دہ ہیں جسکی سزا بھی اسے ملے گی اور جب کہ جہم کے نزدیک انسان کا ایمان نبیوں کی طرح ہے چاہے وہ کچھ بھی ( گناہ یا کفر ) کرے…
مفصل جواب
اعتراض نمبر 17: امام ابو حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے
6:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ مانتے ہیں جب کہ جہم اسکا منکر ہے…
7:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جنت اور جہنم فنا ( ختم ) ہونے والی نہیں جب کہ جہم کے نزدیک جنت اور جہنم فنا ہو جائیں گی …
مفصل جواب
اسکے علاوہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم بن صفوان کے ان باطل عقائد کی وجہ سے اسے کافر کہتے ہیں جیسا کہ تاریخ بغداد 515/15 پر موجود ہے…
مفصل جواب
اعتراض نمبر5 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید اور فرقہ جھمیہ کی تردید کا ثبوت
تو جو شخص امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کافر ہو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس جیسے عقائد کیسے رکھ سکتے ہیں… رہی بات کے انکی طرف جہمی ہونے کی نسبت کی گئی ہے تو ایسے تو بشر بن السری رحمۃ اللہ علیہ کو بھی جہمی کہا گیا ہے جب کہ یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے انہیں کعبہ کے سامنے دیکھا کہ وہ اللہ کی پناہ مانگ رہے تھے جہم جیسے عقائد سے جب کہ لوگ انکی طرف جہمی ہونے کی نسبت کرتے تھے…"
مزید تفصیل کیلئے قارئین دیکھیں "النعمان سوشل میڈیا سروسز" کی ویب سائٹ پر موجود
اعتراض نمبر 4: امام اعظم ابو حنیفہ اور عقیدہ خلق قرآن
اعتراض نمبر5 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید اور فرقہ جھمیہ کی تردید کا ثبوت
اعتراض نمبر 38 : کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ معاذ اللہ جہمی تھے؟
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں