اعتراض نمبر 23:
کہ امام ابو یوسف نے کہا کہ ابو حنیفہ مرجئہ اور جہمیہ میں سے تھے۔
أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا عبد الله بن جعفر، حدثنا يعقوب بن سفيان، حدثنا أحمد بن الخليل، حدثنا عبدة قال: سمعت ابن المبارك - وذكر أبا حنيفة - فقال رجل: هل كان فيه من الهوى شئ؟ قال: نعم! الإرجاء.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ عبد اللہ بن جعفر جو اس سند میں ہے وہ ابن درستویہ ہے۔ وہ ایسا آدمی تھا کہ چند دراہم اس کو دیے جائیں تو وہ جھوٹ کہنے پر کمربستہ رہتا تھا۔ اور اس کا ذکر پہلے کئی بار گزر چکا ہے۔
اور اس کا راوی احمد بن الخلیل بغدادی ہے جو کہ "جور" کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی وفات260ھ میں ہوئی۔ دار قطنی نے کہا کہ وہ ضعیف ہے۔ اس سے احتجاج درست نہیں (روایت کا حال تو یہ ہے) مگر خطیب کے ہاں محفوظ روایت ایسی ہی ہوتی ہے۔
اور خطیب نے دوسری خبر [1] میں کہا "وقال یعقوب" تو اس سے پہلے اگر وہی سند ہے جو پہلے بیان ہوئی تو اسمیں عبد اللہ بن جعفر الدراہمی ہے اور اگر پہلے کوئی سند نہیں تو خطیب اور یعقوب کے درمیان بیابان ہیں۔
پھر یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اصل مطبوعہ نسخہ میں یعقوب کا استاد "ابو جزی عمرو بن سعید بن سالم" ہے۔ پس یہ یقینا غلط ہے اس لیے کہ جس نے ابو یوسف سے سوال کیا تھا وہ سعید تھا جیسا کہ اس سند میں ہے جو اس کے ساتھ ہی ذکر کی گئی ہے اور جیسا کہ ص 385 اور 399 میں آئے گا ۔ [2] تو اس صورت میں ابو جزی کا دادا سعید تب ہو سکتا ہے جبکہ ابو جزی اور عمرو کے درمیان لفظ " ابن " ہو جو کہ مطبوعہ نسخہ میں گرا ہوا ہے اور عبارت اس طرح ہونی چاہیے 《ابو جری بن عمرو بن سعید بن سالم 》(تاکہ سعید ابو جری کا دادا بن سکے) اور جو نسخہ ہندوستان میں طبع ہوا اور جو قلمی نسخہ دار الکتب المصریہ میں ہے ان میں ابن کا لفظ مذکور ہے جو کہ اس لفظ کے ثبوت پر دلالت کرتا ہے۔
اور ہم اس بارہ میں پورا پورا علم رکھنے کے بعد غور کرتے ہیں کہ یہ سعید بن سالم کونسا ہے؟
پس اگر یہ "سعید بن سالم القداح" ہے جو کہ ابو یوسف کے ساتھیوں میں سے ہے اور مکہ میں اہل عراق کی فقہ کو پھیلانے والا ہے اور امام شافعی کے اساتذہ میں سے ہے تو اس کا کوئی بیٹا محمود نام کا نہیں ہے کیونکہ اس کے دو ہی بیٹے تھے۔ ایک کا نام علی اور دوسرے کا نام عثمان تھا اور اس دوسرے کے نام کی وجہ سے ہی اس نے ابو عثمان کنیت رکھی۔
اور اگر یہ سعیدالباہلی ہے تو وہ سعید بن سالم نہیں بلکہ سعید بن سلم ہے جو کہ رشید کے زمانہ میں آرمینیہ کا عامل تھا۔ اور مسلمانوں کو اس عامل کی بد انتظامی کی وجہ سے اور اس کے مختلف احکامات اور حکمت اور عدل سے خالی فیصلہ جات کی وجہ سے وہاں جو مصائب برداشت کرنا پڑے وہ تاریخ کا حصہ ہیں جیسا کہ تاریخ ابن جریر وغیرہ میں مذکور ہے۔ اور وہ اس لائق نہیں کہ اس جیسے مسائل میں اس کی بات قبول کی جائے۔ علاوہ اس کے یہ بات بھی ہے کہ اس کا بھی کوئی بیٹا عمرو نام کا معروف نہیں ہے اور نہ ہی اس کا پوتا ہے جس کی کنیت ابوجزی ہو کیونکہ اس کے بیٹے کا نام محمد ہے۔ اور ابو حاتم نے اس کو ترک کر دیا اس لیے کہ یہ اپنی روایات میں اضطراب کرتا تھا۔ جیسا کہ تعجیل المنفعة میں ہے۔
اور ہو سکتا ہے کہ سند میں جو عمرو مذکور ہے وہ محمد سے بدلا ہوا ہو (کہ اصل میں محمد ہو مگر کسی نے خط میں مماثلت کی وجہ سے اس کو عمرو کر دیا ہو) جیسا کہ پرانے خطوط کے ماہر پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے بلکہ ایسا اکثر کتابوں میں ہو جاتا ہے۔ تو اس سے یہ ظاہر ہو گیا کہ یعقوب کی جانب منسوب روایت کی اس سند میں مجہول راوی ہیں۔ اور انتہائی بے شرمی کی بات ہے کہ اس من گھڑت قصہ کو ابو یوسف کی زبان سے بیان کیا گیا ہے حلانکہ وہ تو ابو حنیفہ کے بہت خاص شاگردوں میں سے ہیں اور ابو حنیفہ کی زندگی اور وفات کے بعد ان کی بہت رعایت رکھنے والے طرفدار تھے۔ پس اللہ کی پناہ کہ اس جیسا بہتان اس پر باندھا جائے۔ اور وہ اللہ تعالٰی کی مخلوق میں جھم بن صفوان کے باطل مذہب سے سب سے زیادہ دور ہیں جو کہ جبر کا قائل اللہ تعالی اور کی صفات کی نفی کرنے والا ہے۔ اور ابو یوسف ان رسوا کن چیزوں سے بھی دور ہیں جو اس جھم کی طرف مشہور ہیں۔
![]() |
اعتراض نمبر 23: کہ امام ابو یوسف نے کہا کہ ابو حنیفہ مرجئہ اور جہمیہ میں سے تھے۔ |
[1]۔وقال يعقوب: حدثنا أبو جزي عمرو بن سعيد بن سالم قال: سمعت جدي قال: قلت لأبي يوسف؟ أكان أبو حنيفة مرجئا؟ قال: نعم! قلت: أكان جهميا؟ قال: نعم. قلت: فأين أنت منه؟ قال: إنما كان أبو حنيفة مدرسا. فما كان من قوله حسنا قبلناه، وما كان قبيحا تركناه عليه.
[2]۔ أخبرنا ابن الفضل، أخبرنا محمد بن الحسن بن زياد النقاش أن محمد بن علي أخبره عن سعيد بن سالم قال: قلت لقاضي القضاة أبي يوسف: سمعت أهل خراسان يقولون: إن أبا حنيفة جهمي مرجىء؟ قال لي: صدقوا، ويرى السيف أيضا.
کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ معاذ اللہ جہمی تھے؟
بِسمِ اللہِ الرحمٰنِ الرحیم
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر یہ تہمت لگائی جاتی ہے کہ وہ معاذ اللہ جہمی تھے یعنی جہم بن صفوان کے عقائد پر تھے… جبکہ حقیقت میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نہ جہمی تھے اور نہ ہی جہم بن صفوان جیسے باطل عقائد رکھتے تھے… آج کی پوسٹ میں ہم اسی تعلق سے مختلف اقوال و حوالوں کا جائزہ لیں گے… ان شاء اللہ
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے اقوال اور انکا جائزہ –
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے جتنے بھی اقوال ہیں وہ سنداً اور متناً کے لحاظ سے صحیح نہیں… سند اور متن دونوں میں علتیں ہیں…
1:- امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہمی تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ‘ہاں’
… اسکی سند کی پہلی علت یہ ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے یہ قول نقل کرنے والا سعید بن سالم ہے، لیکن روایت بیان کرنے والے راوی کبھی سعید بن سالم کا نام لیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سوال امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اور کبھی سعید کے والد سالم
کا نام لیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سوال کیا…
یعنی سند میں اضطراب ہے جو سند کو ضعیف بناتا ہے… اسکے علاوہ ان سندوں کے راوی بھی ثقہ ثبت نہیں جو بات کو صحیح سے محفوظ کر سکیں کہ اصل بات پوچھی کس نے ہے سعید نے یا انکے والد نے…
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْر مُحَمَّد بن عُمَر بن بُكَيْر المُقْرِئ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُثْمَان بن أَحْمَد بن سمعان الرَّزَّاز، قَالَ: حَدَّثَنَا هيثم بن خلف الدُّورِيّ، قَالَ: حَدَّثَنَا محمود بن غيلان، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن سَعِيد، عن أَبِيهِ، قَالَ: كُنْت مَعَ أمير المؤمنين موسى بجرجان ومعنا أَبُو يُوسُف، فسألته عن أَبِي حنيفة، فَقَالَ: وما تصنع بِهِ وقد مات جهميا
حوالہ نمبر 1 – تاریخ بغداد 513/15 , تاریخ جرجان اور کتاب الثقات 646/7 پر روایت کرنے والا راوی محمد بن سعید ” مجہول ” ہے… لہذا یہ سند ضعیف ہے…
حوالہ نمبر 2 – معرفۃ التاریخ 783/2 اور تاریخ بغداد 513/15 پر ہی یہ قول عمرو بن سعید بن سالم کے واسطے سے ہے اور وہ اپنے دادا سالم کے حوالے سے یہ قول نقل کرتا ہے… سند کا راوی عمرو بن سعید ” مجہول ” ہے… لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے…
وَقَالَ يَعْقُوب: حَدَّثَنَا أَبُو جزي بن عَمْرو بن سَعِيد بن سالم، قَالَ: سَمِعْتُ جدي، قَالَ: قُلْتُ لأبي يُوسُف: أكان أَبُو حنيفة مرجئًا؟ قَالَ: نعم، قُلْتُ: أكان جهميا؟ قَالَ: نعم، قلت: فأين أَنْتَ منه؟ قَالَ: إنما كَانَ أَبُو حنيفة مدرسا، فما كَانَ من قوله حسنا قبلناه، وما كَانَ قبيحا تركناه عَلَيْهِ
حوالہ نمبر 3 – اخبار القضاۃ 258/3 پر یہ قول فضل بن سعید بن سالم کے واسطے سے منقول ہے اور یہ راوی بھی ” مجہول ” ہے… لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے…
أَخْبَرَنِي إبراهيم بْن أبي عُثْمَان قال: حَدَّثَنِي الفضل بْن سعيد بْن سلم عَن أبيه قال: قلت لأبي يوسف: أكان أَبُوْحَنِيْفَةَ يرى رأي جهم؟ قال: نعم، قلت فأين أنت منه؟ قال: لا أين، قلت: وكيف وأنت من أصحابه؟ قال: كان أَبُوْحَنِيْفَةَ رجلًا قد أوتي فهمًا، فكنا نأتيه وكان لنا مدرسًا.
أَخْبَرَنَا ابن الفضل، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّد بن الحسن بن زياد النقاش، أن مُحَمَّد بن علي أخبره، عن سعيد بن سالم، قال: قلت لقاضي القضاة أبي يوسف سمعت أهل خراسان يقولون: إن أبا حنيفة جهمي مرجئ؟ قال لي: صدقوا، ويرى السيف أيضا، قلت له: فأين أنت منه؟ فقال: إنما كنا نأتيه يدرسنا الفقه، ولم نكن نقلده ديننا
حوالہ نمبر 4 – تاریخ بغداد 530/15 پر یہ قول محمد بن حسن بن زیاد کے واسطے سے منقول ہے … یہ راوی مناکر روایات کرنے والا ہے… لہذا یہ سند بھی صحیح نہیں…
مفصل جواب
حوالہ نمبر 5 – معرفۃ التاریخ 782/3 پر یہ قول محمد بن معاذ بصری کے واسطے سے منقول ہے…
اگرچہ یہ راوی ثقہ ہے لیکن اسے وہم بھی ہوتا ہے جیسا کہ امام عقیلی رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے…
یہ تو ہوئی اسکی سندوں کی بات اب اسکے متن کی بات کرتے ہیں اسکا متن بھی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے صحیح سند سے منقول قول کے خلاف ہے
جسے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اسماء الصفات صفحہ 656 میں نقل کرنے کے بعد راویوں کو ثقہ کہا… جس میں ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم جیسی رائے ( سوچ / عقیدہ) رکھتے تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کہا معاذ اللہ ( یعنی وہ ایسی سوچ یا عقیدہ نہیں رکھتے تھے ) میں بھی ایسی سوچ نہیں رکھتا…
اسکے علاوہ یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم جیسا عقیدہ رکھتے تھے تو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ترک کیوں نہیں کر دیا تھا، کیونکہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ کے مطابق کتابیں لکھتے تھے جسکی وجہ سے دنیا میں فقہ حنفی کو پھیلنے کا موقع ملا… کیا وجہ تھی کہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد کے ساتھ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مغفرت کی دعا کرتے تھے… جیسا کہ اخبار القضاۃ 258/3 پر حسن سند سے موجود ہے…
اسکے علاوہ ایک قول امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کا تاریخ بغداد 580/15 پر موجود ہے جس میں انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو جہمی کہا ہے، لیکن اسکی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ سند کا راوی نصر بن محمد بغدادی مجہول ہے…
اسکے علاوہ امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو جہمی کہا ہے لیکن یہ قول بھی حجت نہیں کیونکہ یہ قول بلا دلیل ہے، امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے جہمی ہونے کی دلیل نہیں دی…
اسکے علاوہ ہم امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور جہم بن صفوان کے عقائد میں کچھ واضح فرق بتا دیتے ہیں جس سے واضح ہو جائے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے جہم بن صفوان جیسے عقائد نہیں…
1:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایمان نام ہے زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا جبکہ جہم کے نزدیک ایمان صرف معرفت قلب ( دل ) ہے بندہ زبان سے انکار کرنے کے باوجود کامل ایمان والا رہتا ہے…
2: – امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک قرآن کلام اللہ اور غیر مخلوق ہے جبکہ جہم کے نزدیک قرآن مخلوق ہے…
مفصل جواب
اعتراض نمبر 4: امام اعظم ابو حنیفہ اور عقیدہ خلق قرآن
3:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک لوگ اعمال میں ایک دوسرے سے افضل اور کمتر ہیں جبکہ جہم کے نزدیک ایمان کے بعد کسی نیک اعمال کی ضرورت نہیں…
4:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اللہ کی صفات کا انکار نہیں کرتے جبکہ جہم اللہ کی صفات کا انکار کرتا ہے…
5:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک انسان کے گناہ نقصان دہ ہیں جسکی سزا بھی اسے ملے گی اور جب کہ جہم کے نزدیک انسان کا ایمان نبیوں کی طرح ہے چاہے وہ کچھ بھی ( گناہ یا کفر ) کرے…
مفصل جواب
اعتراض نمبر 17: امام ابو حنیفہ نے کہا کہ حضرت ابو بکرؓ کا ایمان اور ابلیس کا ایمان برابر ہے
6:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ مانتے ہیں جب کہ جہم اسکا منکر ہے…
7:- امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جنت اور جہنم فنا ( ختم ) ہونے والی نہیں جب کہ جہم کے نزدیک جنت اور جہنم فنا ہو جائیں گی …
مفصل جواب
اسکے علاوہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جہم بن صفوان کے ان باطل عقائد کی وجہ سے اسے کافر کہتے ہیں جیسا کہ تاریخ بغداد 515/15 پر موجود ہے…
مفصل جواب
اعتراض نمبر5 :امام اعظم ابو حنیفہ سے عقیدہ خلق قرآن کی تردید اور فرقہ جھمیہ کی تردید کا ثبوت
تو جو شخص امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کافر ہو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس جیسے عقائد کیسے رکھ سکتے ہیں… رہی بات کے انکی طرف جہمی ہونے کی نسبت کی گئی ہے تو ایسے تو بشر بن السری رحمۃ اللہ علیہ کو بھی جہمی کہا گیا ہے جب کہ یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں میں نے انہیں کعبہ کے سامنے دیکھا کہ وہ اللہ کی پناہ مانگ رہے تھے جہم جیسے عقائد سے جب کہ لوگ انکی طرف جہمی ہونے کی نسبت کرتے تھے…"
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں