اعتراض نمبر 43:
کہ ابن ادریس نے کہا کہ جو ایمان میں کمی زیادتی کا نظریہ نہیں رکھتا وہ کذاب ہے۔
أخبرنا ابن رزق والبرقاني قالا: أخبرنا محمد بن جعفر بن الهيثم الأنباري، حدثنا جعفر بن محمد بن شاكر. وأخبرنا الحسين بن الصوفي، أخبرنا محمد بن عبد الله الشافعي، حدثنا جعفر بن شاكر، حدثنا رجاء - وهو ابن السندي - قال: سمعت عبد الله بن إدريس يقول: استتيب أبو حنيفة مرتين. قال: وسمعت ابن إدريس يقول: كذاب من زعم أن الإيمان لا يزيد ولا ينقص.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ عبد اللہ بن ادریس الأودی کوفہ کے نیک علماء میں سے ہونے کے باوجود کمزور فہم کے تھے ۔ اور اہل فہم کے خلاف زبان درازی پسند کرتے تھے۔ اور اہل علم حضرات ان چیزوں میں اس سے درگزر کرتے تھے ، جو وہ زبان درازی کرتا تھا۔ پس ہم اس خبر کی سند کے رجال پر لمبی بحث نہیں کرتے[1] بلکہ ایمان میں زیادتی کے مسئلے پر ہی بحث کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
اور عقیدہ کے اعتبار سے ایمان میں زیادتی کا معاملہ صرف ان چیزوں کی زیادتی کا تصور کرنے کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے جن پر ایمان لایا جائے اور یہ وحی کا زمانہ گزر جانے کے ساتھ ختم ہو چکا ہے[2]۔ ہاں ایسا آدمی جو پہلے اجمالی ایمان لائے پھر تفصیل معلوم کرے تو جب تک اجمالی ایمان ہے، اس وقت تک اس میں زیادتی کا تصور کیا جا سکتا ہے یا اس وقت متصور ہو سکتا ہے کہ یقین اور شک کے لحاظ سے ایمان لانے والوں کے ایمان میں تفاوت ہو لیکن ایمان شرعی تو ایسے پختہ یقین کی صورت میں ثابت ہوتا ہے جس میں ذرا بھی نقص نہ ہو۔ پس جو شخص کہتا ہے کہ میں مومن ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ اللہ کے ہاں میرا کیا حال ہے یا کہتا ہے 《انا مؤمن ان شاء اللہ》 تو اگر اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ خاتمہ کا علم نہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرا خاتمہ بالخیر کرے گا تو یہ ذرا بھی یقین کے منافی نہیں ہے۔
اور اگر اس کی مراد یہ ہے کہ میں یہاں مومن ہوں اور میں نہیں جانتا کہ جس چیز پر یہاں ایمان کا اعتقاد رکھتا ہوں، وہ اللہ تعالٰی کے ہاں بھی ایمان ہے تو ایسا آدمی شک میں مبتلا ہے، یقین کرنے والا نہیں ہے ، بلکہ وہ تو ایسی صورت میں یہ سمجھتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایمان اس کے خلاف ہو جس کا وہ اعتقاد رکھتا ہے۔ تو ایسے آدمی کو ایمان کا زرا بھی حصہ حاصل نہیں ہے اس لیے کہ اس کو کسی چیز پر یقین نہیں ہے۔
تو اس وضاحت سے یہ واضح ہو گیا کہ مومنوں کے ایمان کے درمیان یقین کے لحاظ سے بالکل تفاوت تصور نہیں کیا جا سکتا اور اگر یقین کے مرتبہ میں نقص ہو تو یہ کفر ہے۔
ہاں انبیاء کے ایمان اور علماء کے ایمان اور عوام کے ایمان میں اس لحاظ سے تفاوت ہے کہ عوام کا ایمان زوال کا احتمال رکھتا ہے اور انبیاء کرام کا ایمان زوال کا احتمال نہیں رکھتا اور زوال کا احتمال ہونا یا نہ ہونا خارجی امر سے پیدا ہوتا ہے۔ اور وہ ان کے ہاں یقین حاصل کرنے کے طرق میں تفاوت کی وجہ سے ہے، نفس ایمان کے لحاظ سے تفاوت نہیں ہے۔ پس انبیاء کا ایمان اس درجہ کا ہے کہ ان سے اس کے زوال کا احتمال نہیں اس لیے کہ بیشک اس کا حصول ان کو مشاہدہ اور غالب وحی سے ہوتا ہے اور علماء کا ایمان ان کے نزدیک ایمان کے دلائل پر بعض شبہات طاری ہونے کی وجہ سے زوال کا احتمال رکھتا ہے اگرچہ یہ احتمال ضعیف ہوتا ہے۔ اور بہرحال عوام کا ایمان تو وہ بعض دفعہ معمولی شک ڈالنے سے ہی زائل ہو جاتا ہے اور ایسا
تفاوت ، یقین میں تفاوت میں سے نہیں ہے بلکہ یہ تفاوت ان کے نزدیک یقین کے طرق کے تفاوت میں سے ہے۔
پس انبیاء کا یقین وحی اور مشاہدہ سے ہے کہ ایمان ان دونوں کے ساتھ ایسی بدیہیات کے قائم مقام ہو جاتا ہے جو شک اور تشکیک کو قبول نہیں کرتیں.
اور علماء کا یقین نظر و فکر کی وجہ سے ہوتا ہے جس پر کبھی اس کے کسی مقدمہ پر شبہ طاری ہو جاتا ہے.
اور عوام کا یقین نقل در نقل اس چیز کے ثابت ہونے اور اقرار سے ہے تو ان کا ایمان چلتی ہوئی آندھی میں ہے۔ جب کوئی شک ڈالنے والا شک ڈالتا ہے تو اس کا ایمان بہت جلد زائل ہو جاتا ہے۔ تو اس بیان کے ساتھ ان شاء اللہ تعالٰی مسئلے کی مکمل وضاحت ہو گئی اس شخص
کے لیے جو کان لگا کر اور دل کو حاضر کر کے بات کو سنتا ہے۔
پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ وحی کا زمانہ گزر جانے کے بعد ایمان اپنی ذات کے لحاظ نہیں بڑھتا اور نہ کم ہوتا ہے اس معنی میں کہ وہ نقیض کا احتمال نہیں رکھتا تو ایسا آدمی اگر ان کے نزدیک کذاب ہے تو ان کے کذاب قرار دینے کی وجہ سے اس آدمی پر کوئی ملامت نہیں ہے اور بیشک ہمیں ڈرایا اس ذات نے جو الصادق المصدوق ہے ﷺ ایسے زمانے سے جس میں خائن کو امین اور سچے کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔ اللہ تعالی ہمیں ہلاکت کی جگہوں میں گرنے اور خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنے سے بچائے[3]۔
امام کوثری رحمہ اللہ کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ عبداللہ بن ادریس رحمہ اللہ نے جس توبہ کا ذکر کیا ہے اس کی تفصیل کیلئے دیکھیں اعتراض نمبر 42: کہ سفیان ثوری نے کہا کہ ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی۔
[2]۔ایمان میں مومن بہ (جن چیزوں پر ایمان لانا ہے) اس میں اب کمی زیادتی نہیں ہوتی، اجزائے ایمان کی زیادتی زمانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوتی تھی بایں معنی کہ ایک آیت یا حکم نازل ہوا اور مسلمانوں نے اس کو قبول کیا پھر دوسرا حکم آیا اس کو مان کر ایمان زیادہ ہوا اور پھر اور حکم آیا اس کو قبول کرکے اور زیادہ ہوگیا وعلی ہذا القیاس احکام بڑھتے جاتے تھے، ایمان بھی زیادہ ہوتا جاتا تھا۔ جب خاتم الانبیاء علیہ السلام اس دار فانی سے کوچ فرماگئے تو احکام ختم ہوچکے ایمان بھی ایک معین حد پر ٹھہر گیا اب کمی زیادتی ایمان میں بایں معنی نہیں ہوسکتی اگر کوئی ان احکام پر کوئی زائد حکم کردے وہ بھی کافر اورجو ایک حکم ضروری کو نہ مانے وہ بھی کافر اس معنی کے اعتبار سے مومنین انبیاء اور ملائکہ سب کا ایمان برابر ہے، قال تعالیٰ:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ،
البتہ ایمان کی کیفیت میں کمی زیادتی ہوتی ہے، یقین اور اعمالِ صالحہ پر مداومت کرنے والوں کا ایمان کیفاً بڑھتا رہتا ہے بنسبت دوسرے لوگوں کے، یہی وجہ ہے کہ خواصِ بشر خواص ملائکہ سے اور اوساطِ بشر خواص ملائکہ کے علاوہ سے بڑھے ہوئے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
[3]۔ ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے یا نہیں ؟ اس میں محدثین اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ میں اختلاف ہے۔ چونکہ محدثین اعمال کو ایمان کا حصہ مانتے ہیں اور انسان کے ایمان میں کمی زیادتی کے قائل ہیں جبکہ امام صاحب ایمان اور اعمال میں فرق کرتے ہیں اور انکے مطابق ایمان کے معاملے میں سب مومن برابر میں اور اعمال کے لحاظ سے ایک دوسرے سے کمتریا بہتر ہیں۔ تو خلاصہ یہ کہ ایمان میں جو کمی پیشی ہوتی ہے وہ اعمال ہی کی وجہ سے ہوتی ہے اور امام صاحب اعمال میں کمی زیادتی کے قائل ہیں تو یہ اختلاف محض لفظی ہے۔ در حقیقت دونوں باتوں کا خلاصہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسان ایک دوسرے سے کمتر یا افضل ہے ، محدثین ایمان کی کمی پیشی کی وجہ سے اس کے قائل ہیں جب کہ امام صاحب اعمال میں کمی زیادتی کی وجہ سے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں