اعتراض نمبر ٤٩
مسئله ٤٩:
سات سالہ بچہ امامت کراسکتا ہے
حدیث نبوی ﷺ
عن عمرو بن سلمة .... فقال قدمونی بين ايديهم وانا ابن سبع سنين
ترجمہ: عمرو بن سلمہ رضی اللہ عالی عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے مجھے نمازپڑھانے کے لئے آگے کیا (امام بنایا جب کہ میری عمر سات سال تھی ۔
(بخاري كتاب المغازي باب54، حدیث ج2 ,4302ص610) (ابودائودکتاب الصلاة باب من احق بالامامة رقم الحديث 585 ج1ص93-49)
فقه حنفى
ولا يجوز للرجال ان يقتدوا بأمراة اوصى
(هداية اولين ج 1کتاب الصلاة باب الامامةص123)
مردامامت کے لئے کسی عورت یا بچے کو آگے کھڑا کریں، یہ جائز نہیں۔
(فقہ وحدیث88)
جواب:
راشدی صاحب بچے کی امامت کے جواز میں نہ تو آنحضرت ﷺ کا حکم پیش کر سکے کہ بالغ مرد نا بالغ بچے کو اپنا امام بنالیا کریں ۔ نہ حضرت ﷺ کافعل ثابت کر سکے کہ خود آنحضرت ﷺ نے کسی نابالغ بچے کو اپنا امام بنایا ہو اور نہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ عمر بن سلمہ سات سالہ بچے کی امامت کا حضور ﷺ کوعلم ہوا اور آپ خاموش رہے۔
عمرو بن سلمہ کے خاندان کے لوگ جب مسلمان ہوۓ تو انہوں نے حضرت کا حکم سنا کہ جوز یادہ قرآن پڑھا ہو اس کو امام بناؤ انہوں نے اپنی راۓ سے عمرو بن سلمہ کو امام بنالیا اس حال میں کہ عمرو بن سلمہ کی چادر پھٹی ہوئی تھی ، جس کی وجہ سے چوت ننگے ہوتے تھے پیچھے نماز پڑھنے والی عورتوں نے کہا امام صاحب کے چوتڑ تو چھپا دو ( ابوداؤد ) راشدی صاحب نے پورا واقعہ اس لئے نقل نہیں کیا کہ اس حدیث سے استدلال کی صحت سے ستر عورت کا وجوب بھی ختم ہو جاتا اور احناف کی ضد میں ان کے ائمہ مساجد کو اس حدیث کے مطابق نماز میں پڑھانی مشکل ہوجاتیں۔
1۔ احناف کے دلائل
آنحضرت ﷺ بچے کو امام بننے کی تو کیا اجازت دیتے وہ بچے کو پہلی صف تک بڑھنے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال قال رسول الله ﷺ لا يقتدم الصف
الاول اعرابی ولا اعجمي ولا غلام لم يحتلم . (دارقطنی ج 1ص 398)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ پہلی صف میں کوئی دیہاتی کوئی عجمی اور کوئی نا بالغ لڑکا کھڑا نہ ہو۔
2۔ اہل طائف نے نماز تراویح میں ایک بچے کو امام بنالیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بطور خوشخبری یہ بات لکھی حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تمہیں ہرگز نہیں چاہئے کہ لوگوں کا امام ایسے بچے کو بناؤ جس پر حدود واجب نہیں۔
(عبدالرزاق ج2ص398)
3۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت امیر المومنین عمر بن الخطاب پان نے ہمیں منع فرمادیا تھا کہ ہم امامت اس حال میں کرائیں کہ قرآن پاک مصحف سے دیکھ کر پڑھ رہے ہوں اور ہمیں منع فرمایا کہ ہم کسی نابالغ کو امام بنا ئیں۔
( کنز العمال ج 4 ص 246)
4۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لڑکا اس وقت تک امام نہ بنے جب تک اس پر حد و واجب نہ ہوں ۔(یعنی جب تک بالغ نہ ہو جاۓ )
( رواه الاثرم فی سننہ کذافی المنتقی اعلاء السن ج 4 ص 282)
5۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں لڑکا جب تک بالغ نہ ہوامام نہ بنے ۔
(عبدالرزاق ج2 ص398)
6۔ مکہ مکرمہ کے مفتی صاحب حضرت عطاء فرماتے ہیں لڑ کا امامت نہ کراۓ ۔ جب تک بالغ نہ ہو۔
(ج2ص398)
7-8-9- حضرت عمر بن عبدالعزیز ،امام شعبی، امام مجاہد فرماتے ہیں لڑکا جب تک بالغ نہ ہوامامت نہ کرے۔
(ابن ابی شیبہ 233)
10۔ ابراہیم نخعی اس سے کراہت کرتے تھے کہ لڑکا بالغ ہونے سے پہلے امام بنے۔
(المدونة الكبرى ج 1 ص 85)
11- آنحضرت ﷺ نے امام کو ضامن فرمایا ہے ۔ (احمدطبرانی مجمع الزوائد ج 1 ص 143)
اب اگر امام کی نماز نفل ہوگی اور مقتدی کی فرض ہوگئی تو وہ ضامن کیسے بنے گا اور ظاہر ہے کہ نابالغ بچے کی نماز نفل ہوتی ہے اور مردوں کی فرض تو وہ کیسے امام بن سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس مسئلے کو خلاف حدیث کہنا راشدی صاحب کی جہالت کا کرشمہ ہے راشدی صاحب اب ذرا ہمت کر کے حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت ابراہیم نخعی اور اس دور کے صحابہ و تابعین کومنکرین حدیث کی لسٹ میں درج فرمالیں یا پھر بیچارے احناف سے بھی درگزرفرمالیا کریں۔ راشدی صاحب نے جس طرح نقل احادیث میں حق کو چھپایا ایسے ہی فقہ کی کتاب ہدایہ کی عبارت بھی نامکمل نقل کی۔
ولا يجوز للرجال ان يقتدوا ابأمراة اوصبى لانه متنفل فلايجوز اقتداء المفترض به (ہدایہ ج 1ص123,124)
راشدی صاحب آنحضرت ﷺ نے بڑی تاکید سے موت کی تمنا سے منع فرمایا ہے اور بے چارگی کی حالت میں صرف ایک خاص دعا کی اجازت دی تھی ذرا الفاظ ملاحظہ ہوں ، قال النبی ﷺ لا يتمينين احد كم الموت من ضر اصابه فان كان لا بدنا علا فليقل اللهم احينى ما كانت الحياة خيرا لي و توفني اذا كانت الوفاة خيرالى.
( بخاری ج 2 ص 847 عن عائشہ ) لیکن اتنی تاکیدی نہی کے بعد بھی امام بخاری آخر عمر میں یہ دعا مانگتے رہے ۔’’اے اللہ زمین باوجود کشادگی کے مجھ پر تنگ ہو گئی ہے تو مجھے اپنی طرف اٹھالے‘‘ ایک ماہ پورا نہیں ہوا تھا کہ آپ کا وصال ہو گیا۔( تاریخ بغدادص34ج2 طبقات الشافعیہ الکبری ج2ص14) کیا آپ اس سے یہ نتیجہ نکالیں گے کہ امام بخاری کا وصال مخالفت حدیث پر ہوا ہے۔ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں ہفتہ میں صرف ایک مرتبہ قرآن ختم کرو : ولا تز دعلی ذلک اور اس پر زیادہ مت کرو۔ (صحیح بخاری ج2ص756) آنحضرت ﷺ نے ایک ہفتہ سے پہلے قرآن پاک ختم کرنے سے صراحہ منع فرمادیا۔ لیکن پھر بھی امام بخاری روزانہ ایک قرآن ختم کیا کرتے تھے۔
( تاریخ بغداد ج 2 ص 12 طبقات الشافعیہ ج 2 ص 9 الحطہ ص 22)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک رات میں پورا قرآن ختم کرتے تھے۔
( طبقات ابن سعد ج 3 ص 53)
حضرت تمیم داری اور حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ بھی ہر رات کو ایک قرآن ختم کرتے تھے۔
(طحاوی ج 1 ص 205 )
امام وکیع بن الجراح ایک رات میں سارا قرآن ختم کر دیتے تھے۔
تاریخ بغداد ج 13 ص 470)
امام شافعی نے تین دنوں میں 9 مرتبہ قرآن ختم کیا۔ ( مفتاح الجنہ للسیوطی ص 29) کیا آپ ان سب پر مخالفت حدیث کا الزام لگائیں گے؟
اند کے باتو گفتم و غم و دل ترسیدم
کہ تو آزرده شوی درنہ سخن بسیار ست
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں