نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر82: وتر کی تین رکعات کے درمیان سلام پھیرنا


 اعتراض نمبر ٨٢

پیر بدیع الدین شاہ راشدی لکھتے ہیں : مسئله : وتر کی تین رکعات کے درمیان سلام پھیرنا

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم 

عن عبد الله بن عمر قال كان النبی ﷺ يفصل بين الشفع صلی والوتر بتسليم يسمعنا.

(ترجمہ ) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی سلام وتر میں دو رکعتیں اور تیسری رکعت کے درمیان سلام سے فاصلہ کرتے تھے۔

(صحيح ابن حبان ، كتاب الوتر، ذكر الخبر المصرح بالمفصل بين الشفع والوتر رقم الحدیث ۲۴۳۴، طبع مؤسه الرسالة بيروت)(موارد الظمان باب الفصل بين الشفع والوتر رقم الحدیث۲۷۸، طبع دار الکتب العلمیہ بیروت)

فقه حنفی 

الوتر ثلاث ركعات لا يفصل بينهمن بسلام ۔

(هدایه اولین ج١ کتاب الصلوۃ باب صلاة الوتر صفحه ۱۴۴)

(ترجمہ) وتر تین رکعتیں ہیں ۔ درمیان میں سلام بھی نہیں پھیر ا جاۓ گا۔

( فقہ وحدیث ۱۲۱)

جواب:

امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ وتر کی تین رکعات متعین ہیں ، ایک رکعت وتر پڑھنا جائز نہیں ۔اور یہ تین رکعات بھی صرف ایک سلام اور دو تشہدوں کے ساتھ پڑھنا جائز ہے۔ دورکعتوں پر سلام پھیر کر تیسری رکعت الگ پڑھنا بھی درست نہیں۔ امام صاحب کے مسلک کے دلائل درج ذیل ہیں ۔ حدیث نمبر ١ :

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم وتر کی دورکعتوں پر سلام نہیں پھیرتے تھے۔(نسائی ج ١ص ۲٤۸ مستدرک حاکم ج١ ص ٢٠۴ امام حاکم اور امام ذہبی نے اس حدیث کو بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح قراردیاہے ) 

حدیث نمبر ۲:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد گھر تشریف لاتے ۔ پھر ( رات کو ) دو رکعتیں پڑھتے ، پھر دوکعتیں پڑھتے ۔ پھر تین رکعات وتر ادا کرتے اور ان تین رکعتوں میں فصل نہیں کرتے تھے ( یعنی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیر تے تھے ) مسند احمد بحوالہ تلخیص الحبیر ج ۱ ص ۱۱۶ حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ شافعی نے اس پر سکوت کیا ہے ۔

حدیث نمبر ۳:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے تھے اورسب سے آخری رکعت میں سلام پھیرتے تھے۔ 

(مستدرک حاکم ج ۱ص ۲۰۴ اس روایت کو حاکم اور ذہبی نے صحیح قرار دیاہے ۔ )

حدیث نمبر ۴:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی کتنی رکعات پڑھتے تھی تو انہوں نے۔ فرمایا کہ کبھی چار رکعات ( تہجد ) اور تین رکعت (وتر) کبھی چھے اور تین کبھی آٹھ اور تین اور کبھی دس اور تین

( طحاوی ج١ص ۱۶۸ سنن الکبری بیہقی ج ۳ ص ۲۸)

حدیث نمبر ۵:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات وتر پڑھتے تھے اور ان میں سے پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی دوسری میں سورۃ الکافرون اور تیسری میں سورۃ الاخلاص پڑھتے تھے۔ 

(مستدرک حاکم ج ۲ ص ۵۲۔امام حاکم اور ذہبی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ )

حدیث نمبر ٢ :

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک رات وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سوۓ ۔ رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تہجد کی نماز پڑھی اور آخر میں تین رکعات وتر پڑھیں ۔

( مسلم ج۱ص ۲۶۱)

حدیث نمبر ٧:

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر کی تین رکعات ہیں جیسے نماز مغرب کی تین رکعات ہیں

( طحاوی ج ١ ص ۱۷۳ موطا امام محمد ص ۱۴۶)

حدیث نمبر ۸:

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کی پہلی رکعت میں سورہ اعلی ، دوسری میں سورہ کافرون اور تیسری میں سورہ اخلاص پڑھتے اور ان کی صرف آخری رکعت میں سلام پھیرتے تھے۔

( نسائی ج ١ص ۲۴۹ اس کی سندکو امام عراقی نے حسن قرار دیا ہے : نیل الاوطارج ۲ ص ۲۷۹ دارقطنی ج ۱ص ۱۷۵)

حدیث نمبر 9:

مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے تین رکعات وتر پڑھیں اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا۔ 

(طحاوی ج ١ ص ۱۷۳)

حدیث نمبر ۱۰:

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے تین رکعات وتر پڑھیں اور صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا۔ ( طحاوی ج۱ ص۱۷۶ ابن حجر عسقلانی شافعی نے اس کو صحیح قرار دیا ہے: ( درایہ ص ۱۱۵)

حدیث نمبر ١١:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے وتر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ کیا تم دن کی نمازوتر کو جانتے ہو؟ سائل نے کہاہاں نماز مغرب ہے تو فرمایا تم نے سچ کہا۔

حدیث نمبر ۱۲:

ابوالعالیہ رحمة اللہ علیہ( یہ جلیل القدر تابعی ہیں ) سے وتر کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے ہمیں وتر کی نماز مغرب کی نماز کی طرح سکھائی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم وتروں کی تیری رکعت میں بھی قرآت کرتے ہیں ۔ گویا یہ رات کے وتر ہیں اور وہ دن کے۔

(طحاوی ج ١ ص ۱۷۳)

حدیث ١٣

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر کی کم از کم رکعات تین ہیں ۔

(موطا امام محمد ١٤١)

حدیث نمبر ۱۴ :

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ میں تین رکعت وتر چھوڑ دوں اور مجھ سرخ اونٹ مل جائیں۔

(موطا امام محمد ١٤١)

حدیث نمبر ١٥

ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وتر مغرب کی نماز کی طرح ہیں۔

(موطا امام محمد ص ۱۴۱)

حدیث نمبر ۱۶:

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کے وتر تین ہیں جیسے دن کے وتر یعنی نماز مغرب تین ہیں۔ 

( داقطنی ج ۱ص ١٧٣یہی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے ) 

حدیث نمبر۱۷:

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ مجھ سے زیادہ قابل اعتماد آدمی کوئی نہیں بتا سکتا حضوراکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تین رکعات وتر پڑھیں اور سب سے آخری رکعت میں سلام پھیرا۔ 

(کنز اعمال ج ۱۹٦ص۴)

حدیث نمبر ۱۸:

حسن بصری رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ وتر تین رکعات ہیں ان کی صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے۔

(مصنف ابن ابی شیبہ )

حدیث نمبر ۱۹:

تابعین کے دور میں مدینہ منورہ کے فقہاء سبعہ سعید بن المسیب عمروہ بن زبیر قاسم بن عبدالرحمن خارجہ بن زید عبید اللہ بن عبداللہ سلیمان بن یسار کا اتفاق ہے کہ وتر کی تین رکعات ہیں اور ان کی صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا جاۓ گا۔ ( طحاوی ج١ ص ۱۷۵) 

حدیث نمبر ۲٠

ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کٹی نماز سے منع فرمایا کہ آدمی ایک رکعت وتر پڑھے۔ (التمہید الابن عبدالبر معارف السنن ج ۴ ص ۲۳۷ اعلاء السن ج ۶ ص ۵۳ - ۵۴)

ان واضح اور صریح دلائل کے پیش نظر امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور ان کے تلامذہ ومقلدین فرماتے ہیں کہ جن روایات سے ایک وتر پڑھنا یا تین رکعات دو سلاموں کے ساتھ پڑھنا معلوم ہوتا ہے۔ وہ ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔اور منسوخ ہیں ۔

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...