نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ تابعی ہیں ۔(معلمیؒ ،ریئس احمد سلفی اور زبیر علی زئی کو جواب)

 

امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ تابعی ہیں ۔(معلمیؒ ،ریئس احمد سلفی اور زبیر علی زئی کو جواب)

تحقیق : 

حافظ ظہور احمد الحسینی مد ظلہ

ترتیب و حاشیہ : 

مفتی ابن اسماعیل المدنی

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

امام اعظمؒ کی تابعیت پر خود آ پ کی اپنی تصریح

      امام اعظم ؒ کے تابعی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ نے اپنے تابعی ہونے کی تصریح خود فرمائی ہے۔چنانچہ امام حسین بن علی صیمری ؒ(م ۴۳۶ھ)،امام خطیب بغدادی ؒ(م۴۶۳ھ)اور امام ابن عبد البر مالکی ؒ(م۴۶۳ھ)وغیرہ محدثین نے بسند متصل خود آپ کا اپنا بیان نقل کیا ہے ،جس میں آپ نے استخراج مسائل سے متعلق اپنا نقطہء  نظر  بیان کرتے ہوئے فرمایا :

’’ آخذ بکتاب اللہ فما لم اجد فبسنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فان لم اجد فی کتاب اللہ ولا سنۃ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اخذت بقول اصحابہ آخذ بقول من شئت منہم وادع من شئت منہم ولا اخرج من قولہم الی قول غیرہم  فاذا انتہی الامر ،اوجاء الی ابراہیم والشعبی وابن سیرین  والحسن وعطاء وسعید بن المسیب وعدد رجالا فقوم اجتہدوا فاجتہد کما اجتہدوا۔‘‘

              میں (کسی بھی شرعی مسئلے کا حل )کتاب اللہ (قرآن مجید )سے لیتا ہوں اگر اس کا حل قرآن مجید میں نہیں پاتا تو پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیتا ہوں اور اگر مجھے اس مسئلے کا حل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم دونوں میں سے نہیں ملتا تو پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار کو لیتا ہوں اور ان میں سے )جس کا قول مجھے راجح معلوم ہوتا ہے اس کو لے لیتا ہوں اور ان میں سے جس کا قول مرجوح معلوم ہوتا ہے اس کو چھوڑ دیتا ہوں (لیکن صحابہ کے آثار کی موجودگی میں کسی غیر صحا بی کاقول نہیں لیتا ہوں اور جب معاملہ ابراہیم نخعی ؒ،شعبی ؒ ،ابن سیرسن ؒ ،حسن بصری ؒ ،عطابن ابی رباح ؒ ،سعید بن المسیب ؒاور ان جیسے دیگر تابعین تک پہنچ جائے (تو چونکہ وہ بھی میری طرح مجتہدین تھے ، لہذا )جیسے انھوں نے اجتہاد کیا ،میں بھی اجتہاد کرتا ہوں ۔ (أخبار أبي حنيفة وأصحابه : ص ۲۴،تاريخ بغداد : ج ۱۳ : ص ۳۶۵،الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء  : ص ۱۴۳-۱۴۴)[1]

              ایک اور روایت میں آپ نے فرمایا :’’فاذا جاء عن التابعین زاحمتہم‘‘ جب کوئی مسئلہ تابعین سے آتا ہے تو میں ان کا مقابلہ کرتا ہوں ۔(أخبار أبي حنيفة وأصحابه : ص ۲۴،فضائل ابی حنیفہ واخبارہ  و مناقبہ: ۲۱۴)[2]

              اس بیان میں امام عالی شان صاف تصریح فرمادی ہے کہ آ پ علم واجتہاد میں ان نامور تابعین مجتہدین کے ہم پایہ ہیں ، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ مجتہد بھی ہیں اور تابعی بھی ہیں ، کیونکہ تابعین مجتہدین کی مزاحمت وہی کرسکتا ہے جو ان ہی کی طرح اجتہاد اور مقام تابعیت پر فائز ہو ۔

              جلیل المرتبت محدث وفقیہ امام حافظ الدین  محمد کردری ؒ(م ۸۲۷ھ)[3] نے بھی امام اعظم ؒ کے مذکورہ بالا بیان سے یہی استدلال کیا ہے ۔(منا قب ابی حنیفہ للکردری ص ۲۵،۲۶،۳۵)

امام اعظم ؒ کی تابعیت پر دیگر محدثین کی تصریحات :

              امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کی اپنی تصریح کے علاوہ  محدثین کی ایک بڑی تعداد نے بھی کھلے لفظوں میں آپ کے تابعی ہونے کی تصریح کی ہے ،اور یہ وہ محدثین ہیں کہ جو اپنی علمیت ثقاہت اور ورع وتقوی میں شہرہء آفاق ہیں،ان اجلہ ء محدثین میں سے بعض کی تصریحات درج ذیل  ہیں :

(۱)         امام مجد الدین ابوالسعادات مبارک ابن الاثیر الجزریؒ ۶۰۶ھ) جو کہ جامع الاصول اور غریب الحدیث وغیرہ جیسی کتب نافعہ کے مصنف اور بتصریح ذہبی ،ؒ الرئیس العلامہ،البارع الاوحد اور بلیغ تھے، (سیر اعلام النبلاء  : ج۲۱ :ص ۴۸۸)  نے امام ابو حنیفہ ؒ کے ترجمہ میں تصریح کی ہے کہ ’’وابوحنیفۃ تابعی بلا خلاف‘‘ امام ابو حنیفہ ؒ کے تابعی ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (المختار من مناقب الاخیار :ج۳ : ص۲۹۹)

(۲)         امام ابو احمد محمد بن احمد الحاکم الکبیر ؒ ۳۷۸ھ) جو کہ محدث خراسان الامام الحافظ المجتہد تھے (تذکرۃ الحفاظ للذہبیؒ  :ج۳ :ص ۱۲۳)نے امام صاحب کے ترجمے میں لکھا ہے ’’ نشأ بالکوفۃ ومات ببغداد ویعد فی التابعین ‘‘ آپ نے کوفہ میں پرورش پائی اور بغداد میں فوت ہوئے اور آپ کا شما ر تابعین میں ہوتاہے۔(کتاب الاسامی والکنیٰ  :ج۴ :ص ۱۷۵)

(۳)        امام محمد بن اسحق المعروف بابن الندیمؒ ۳۸۵ھ) جو کہ قدیم مؤرخ  ہیں ،امام ابن الساعی ؒ(م۶۷۴ھ)اور امام یاقوت الحمویؒ(م۶۲۶ھ) نے ان کی وسعت علمی کی بہت تعریف کی ہے ۔( الدر الثمین فی اسماء المصنفین :ص۱۹۳، معجم الادباء :ج۵ :ص ۲۲۷)

              نامور غیر مقلد لکھاری مولانامحمد اسحق بھٹیؒ نے بھی ان کو وسیع النظر اور بے انتہا معلومات کا حامل قرار دیا ہے۔ (الفہرست مترجم :ص۵) موصوف امام اعظم کے ترجمے میں ارقام فرماتے ہیں ’’وکان من التابعین ولقی عدۃ من الصحابۃ‘‘ امام ابوحنیفہ ؒ تابعین میں سے ہیں اور آپ نے کئی صحابہ سے ملاقات کی ہے ۔(کتاب الفہرست:ص۲۵۵)

(۴)        امام یوسف بن عبداللہ المعروف بابن عبدالبر ؒ(م ۴۶۳ھ)جن کو حافظ ذہبی  ؒ شیخ الاسلام  اور حافظ المغرب وغیرہ عظیم القاب سے یاد کرتے ہیں ،(تذکرۃ الحفاظ : ج۳ :ص ۲۱۷)  انھوں نے بھی  امام اعظم ؒ کو تابعین کے زمرے میں شمار کیا ہے ۔(کتاب الاستغناء فی معرفۃ المشہورین من حملۃ العلم بالکنیٰ : ج۱ : ۵۷۳)

(۵)        امام یحیی بن ابراہیم سلماسیؒ ۵۵۰ھ)  جو امام ابن عساکر ؒ اورامام ابن الجوزی ؒوغیرہ جیسے نامور محدثین کے استاذ ہیں ،امام ابن الجوزی ؒ نے ان کے ترجمے میں تصریح کی ہے کہ ان کو عوام وخواص میں قبول  تام حاصل تھا،(المنتظم : ج۱۸ :ص ۱۰۵) موصوف نے امام صاحب کے مناقب میں لکھا ہے ’’ فأبو حنیفۃ ادرک الصحابۃ رضی اللہ عنہم فہو من التابعین‘‘ امام ابوحنیفہؒ نے صحابہ کو پایا ہے ،لہذا آپ تابعین میں سے ہیں۔(منازل الائمۃ الاربعۃ :ص۱۲۹)

(۶)             امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی ؒ(م ۷۴۸ھ) جو علوم حدیث کی ایک عبقری شخصیت ہیں حافظ سیوطی ؒ نے ان کے ترجمے کا آغاز ان دلنشین القاب سے کیا  ہے’’الامام الحافظ محدث العصر خاتمۃ الحفا ظ مؤرخ الاسلام فرد الدہر الفاہم باعباء ہذہ الصناعۃ ‘‘۔(طبقات الحفاظ :ص۵۱۲)

              موصوف نے امام اعظم ؒ اور آپ کے تلامذہ امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کے مناقب میں ایک شاندار کتاب تالیف کی ہے ، اس میں وہ امام صاحب کا سن ولادت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ’’وذلک فی حیاۃ جماعۃ من الصحابۃ رضی اللہ عنہم وکا ن من التابعین لہم ان شاء اللہ باحسان‘‘[4]   امام ابو حنیفہ ؒ کی ولادت کے وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت موجود تھی ،اور آپ ان شاء اللہ  نیکی میں ان کے تابعین میں سے ہیں ۔ (مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ :ص۱۰)

              نیز ذہبی ؒ نے ان کے ترجمے میں تصریح کی ہے کہ’’الامام یعد من التابعین ‘‘ اورآپ ایسے امام ہیں جن کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ۔(المقتنیٰ فی سرد الکنیٰ :ج۱ : ۲۲۶)

(۷)        امام زین الدین عبدالرحیم عراقی ؒ۸۰۶ھ)جو  حافظ ابن حجر ؒ وغیرہ محدثین کے استاد ہیں اور بہ قول امام سیوطیؒ :الامام الحافظ اور حاٖفظ العصر تھے،(طبقات الحفاظ :ص۵۴۳) انہوں نے مشہور راوی  حدیث عمرو بن شعیبؒ ۱۱۸ھ) کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’انہ قد روی عنہ جماعۃ کثیرون من التابعین‘‘  (ان سے تابعین کی ایک  بڑی جماعت نے حدیث روایت کی ہے )

              اور پھر حافظ موصوف نے ان تابعین کے جو اسماء گنوائے ہیں ان میں انھوں نے اما م اعظمؒ کا اسم شریف بھی گنوایا ہے ۔ (التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح :ص۱۳۲ ، نیز دیکھئے   فتح المغیث للسخاویؒ :ص۳۷۳)

(۸)        امام برھا ن الدین  ابراہیم ابن موسی ابناسی ؒ ۸۰۲ھ)بھی حافظ ابن حجرؒ  وغیرہ نامور محدثین کے استاذ اور جلیل المرتبت محدث ہیں،(ذیل الدرر الکامنۃ فی اعیان المائہ الثمانیۃ لابن حجرؒ  :ص۴۳، ۴۴ ، الضوء اللامع فی اعیان القرن التاسع للسخاویؒ :ج۱ :ص ۱۷۳) انہوں نے بھی امام ابو حنیفہ ؒ کو عمرو بن شعیبؒ سے روایت کرنے والے تابعین کی فہرست میں ذکر کیا ہے ۔ (الشذ الفیاح من علوم ابن الصلاح :ج۲ : ۵۴۰)

(۹)         امام شمس الدین محمد بن ابوبکر دمشقی المعروف بہ ابن ناصرالدین ؒ(م۸۴۲ھ  )جو کہ نامور حافظ حدیث اور متبحر محدث ہیں، ( طبقات الحفاظ :ص۵۵۰، القبس الحاوی لغرر ضوء السخاوی :ج۲ : ص۲۴۹۔۲۵۲، الدارس فی تاریخ المدارس :ج۱ :ص۳۲، ۳۳) وہ بھی امام اعظم ؒ کو تابعی قرار دیتے ہیں ۔چنانچہ موصوف امام اعظم کے تلمیذ رشید امام قاضی یوسف ؒ (م ۱۸۲ھ)کے ترجمے میں لکھتے ہیں ’’وکتب العلم عن طائفۃ من التابعین‘(امام ابو یوسف ؒ نے تابعین کی ایک جماعت سے علم لکھا ہے ۔

              اور پھر موصوف نے امام ابو یوسف ؒ کے ان تابعین اساتذہ  میں سب سے پہلے امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا تذکرہ کیا ہے۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امام ابن ناصرالدین ؒ  کے نزدیک امام ابو یوسف ؒ کے تابعی اساتذہ میں امام اعظم ؒ سرفہرست ہیں ۔ (التبیان لبدیعۃ البیان : ج۱ :ص ۴۴۹)

(۱۰)       امام احمد بن علی عسقلانی المعروف بہ ابن حجرؒ ۸۵۲ھ)کے محدثانہ مقام سے کون ناواقف ہوگا ؟ حافظ سیوطیؒ نے ان کو شیخ الاسلام ،امام الحفاظ فی زمانہ ،حافظ الدیار المصریہ اور حافظ الدنیا کے القاب سے خراج تحسین پیش کیا ہے، (طبقات الحفاظ:ص۵۵۴) موصوف اپنے ایک فتوے میں امام اعظمؒ کے بارے میں رقمطراز ہیں ’’انہ ادرک جماعۃ من الصحا بۃ کانو ا  بالکوفۃ  بعد مولدہ بھا سنۃ ثمانین فہو من طبقۃ التابعین‘‘ امام ابو حنیفہ ؒ نے صحابہ کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے جوکہ آپ کی سن ولادت۸۰ھ کے بعد کوفہ میں سکونت پذیر تھے ،اس  لئے آپ تابعین کے طبقے میں سے ہیں ۔ (الخیرات الحسان:ص۴۸)

(۱۱)        امام ابن حجرؒ  کے شاگرد رشید امام شمس الدین محمد بن عبدالرحمن السخاوی ؒ(م ۹۰۲ھ)جن کی بابت امام نجم الدین غزیؒ ۱۰۶۱ھ)نے الشیخ ، الامام ،العلامہ ، المسند ، الحافظ اور المتقن وغیرہ القاب استعمال کیے ہیں۔( الکواکب السائرۃ باعیان المائۃ العاشرۃ :ج۱ :ص ۵۳)  انہوں  نے امام صاحبؒ کے بارے میں لکھا ہے ’’احد من  عد فی التابعین‘‘  آپ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو تابعین میں شمار ہوتے ہیں ۔(فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث للسخاویؒ :ج۳ :ص ۲۵۷)

(۱۲)       شارح بخاری امام احمد بن محمد قسطلانیؒ۹۲۳ھ)جو امام سخاویؒ کے شاگرد اور امام غزیؒ کی تصریح کے مطابق  الامام ، العلامہ ،الحجۃ الرحلہ ،الفہامہ ، الفقیہ النبیہ ، المقی المجید ،المسند المحدث تھے،( الکواکب السائرۃ :ج۱ :ص ۱۲۸)  یہ عظیم  الالقاب محدث بھی امام اعظم ؒ تابعین کے زمرے میں شمار کرتے ہیں ،چنانچہ وہ اپنی شرح بخاری میں ایک مسئلے کے ذیل میں رقمطراز ہیں :

              ’’ہذا مذہب من الصحابۃ کابن عباس وعلی ومعاویۃ وانس بن  مالک وخالد وابی ہریرۃ وعائشۃ وام ھانئی ومن التابعین الحسن البصری وابن سیرین  والشعبی ابن المسیب وعطاء وابوحنیفۃ۔۔۔۔۔۔‘‘

              یہ جمہور کا مذہب ہے  چنانچہ صحابہ میں سے حضرت ابن عباس ،حضرت علی ، حضرت معاویہ ، حضرت انس بن مالک ، حضرت خالد بن الولید ،حضرت ابو  ہریرہ ،حضرت عائشہ اور حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہم اور تابعین میں سے امام حسن بصری ،امام  محمد بن سیرین ،امام شعبی ،امام سعید بن المسیب ،امام عطاء بن ابی رباح اور امام ابو حنیفہ رحمھم اللہ اسی کے قائل ہیں ۔ (ارشاد الساری شرح صحیح البخاری :ج۱ :ص ۳۹۰)

              اس بیان میں امام  قسطلانی ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کے تابعین میں سے ہونے کی کھلم کھلا تصریح کردی ہے ۔

(۱۳)       امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابوبکر سیوطی ؒ ۹۱۱ھ)مشہور صاحب التصانیف محدث ہیں ،امام غزی ؒ(م۱۰۶۱ھ)نے ان کے ترجمے کاآغاز الشیخ، الامام ،المحقق ، المسند، الحافظ اور شیخ الاسلام کے القاب سے کیا ہے ۔( الکواکب السائرۃ :ج۱ :ص ۲۲۷ ، القبس الحاوی لغرر ضوء السخاوی :ج۱ : ص۳۳۰۔ ۳۳۳) امام موصوف بھی امام ابو حنیفہ ؒ  کو  تابعین میں سے قرار دیتے ہیں ،چنانچہ انہوں نے اپنی تاریخ مصر میں جب  وہاں کے تابعین کا ذکر کیا تو ان کو تین طبقات میں ذکر کیا ،اور ان میں سے تیسرے طبقے کا تعارف کراتے ہوے انہوں نے اس کا عنوان یوں قائم کیا :طبقۃالاعمش وابی حنیفۃ (امام اعمش اور امام ابوحنیفہ ؒ کا طبقہ)۔(حسن المحاضرۃ فی اخبار مصر والقاہرۃ : ج۱ :ص ۲۳۰)

              گویا امام سیوطیؒ کے نزدیک امام ابوحنیفہ ؒ اور آپ استاذحدیث امام اعمش ؒ کا تابعین  میں سے ہونا اس قدر یقینی اور واضح ہے کہ ان کے معاصرین تابعین کا تعارف کراتے ہوئے ان کے طبقے کو ان دو عظیم ہستیوں کے نام سے معنون کرنا ہی منا سب ہے ۔

              نیز سیوطیؒ نے بحوالہ حافظ عراقی ؒ،امام اعظم ؒ کو عمرو بن شعیبؒ سے روایت کرنے والے تابعین کی فہرست میں ذکر کیا ہے ۔ (تدریب الراوی : ج۲ :ص ۱۱۶)

(۱۴)       امام محمد بن یوسف صالحی شافعی ؒ۹۴۲ھ)وسیع العلم محدث ،مؤرخ الشام اور سیرۃ الشامیہ وغیرہ جیسی عظیم کتب کے مصنف ہیں ،امام عبد الوہاب شعرانی ؒ(م ۹۷۳ھ)نے ان کی بڑی تعریف کی ہے ۔( شذرات الذھب :ج۸ :ص۲۵۰) موصوف ارقام فرماتے ہیں ’’ اعلم رحمک اللہ ان الامام ابا حنیفۃ رضی اللہ عنہ من اعیان التابعین ‘‘ جان لے ۔۔ ۔ اللہ تجھ پر رحم کرے ۔۔۔ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ  جلیل القدر تابعین میں سے ہیں۔ (عقود الجمان :ص۴۹)

(۱۵)       شارح مشکوۃ امام احمد بن محمد المعروف بہ ابن حجر المکی ؒ(م ۹۷۳ھ) جو بتصریح امام غزی ؒ ،، العلامہ اور شیخ الاسلام تھے ، ( الکواکب السائرۃ :ج۳ :ص ۱۰۱، ۱۰۲ ، تاریخ اہل حدیث :ص۴۳۵) نے اپنی شرح مشکوۃ میں امام صاحب کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ وھو الامام الاعظم ،فقیہ اہل ا لعراق ومن اکابرالتابعین‘‘ آپ امام اعظم ،اہل عراق کے فقیہ اور اکابر تابعین میں سے ہیں ۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح للقاری ؒ  :ج۱ :ص ۷۷)

              نیز امام صالحی ؒ اور امام مکی ؒ امام صاحب کے منا قب میں لکھتے ہیں :

              فابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ من اعیان التابعین وداخل فی قولہ تعالی : والذین اتبعوھم باحسان  رضی اللہ عنھم ورضوعنہ واعد لہم  جنت تجری  تحتہا الانہر خلدین  فیہا ابدا  ذلک الفوزالعظیم ۔(سورۃ التوبۃ :۱۰۰)

              امام ابو حنیفۃ فضلاء تابعین میں سے ہیں ،اور اللہ تعالی کے اس ارشاد میں داخل ہیں :اور جن لوگوں نے ان (صحابہ)کی تابعداری کی نیکی میں ، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے ، اللہ نے ان کیلئے ایسے باغات تیار کر رکھے ہیں کہ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔ (عقود الجمان:ص۵۰، ۵۱، الخیرات الحسان :ص۴۸)

(۱۶)       امام مرعی بن یوسف حنبلی مقدسی ؒ ۱۰۳۳ھ) بتصریح امام محمد امین المحبیؒ ۱۱۱۱ھ)، امام محدث فقیہ اور ذو اطلاع واسع تھے،(خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر :ج۴ :ص ۴۳۸) انھوں نے امام اعظم ؒ کے ترجمے میں لکھا ہے ’’وکانت ولادتہ فی عصر الصحابۃ ، وہو من التابعین علی الصحیح ‘‘ آپ  کی ولادت صحابہ کے زمانے میں ہوئی اور صحیح قول کے مطابق آپ تابعین میں سے ہیں ۔( تنویر بصائر المقلدین فی مناقب الائمۃ المجتہدین :ص۵۲)

(۱۷)       صاحب التصانیف محدث امام محمد علی بن محمد علان مکی شافعی ؒ ۱۰۵۷ھ) بتصریح امام محمد امین المحبی  واحد الدہر فی الفضائل (فضائل میں یکتائے زمانہ )،مفسر ، محی السنہ اور  علمائے مفسرین اور ائمہ محدثین میں سے تھے،(خلاصۃ الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر :ج۴ :ص۱۸۳ ، عقد الجواھر والدرر فی اخبار القرن الحادی عشر :ص۲۷۱۔۲۷۴) انہوں نے امام اعظم ؒکو کبار تابعین میں سے شمار کیا ہے۔(الفتوحات الربانیۃ علی الاذکار النوویۃ :ج۱ : ص۴۲۲)

(۱۸)       امام برہان الدین ابرہیم بن حسن کورانی شافعیؒ ۱۱۰۱ھ) جو کہ بتصریح علامہ شوکانی :الامام الکبیر اور المجتہد تھے،      (البدر الطالع بمحاسن من بعد القرن السابع :ج۱ : ص۱۴) علامہ مرادیؒ نے بھی ان کی بہت تعریف کی ہے، (سلک الدرر فی القرن الثانی عشر :ج۱ : ص۵)   امام موصوف نے اپنی کتاب المسا لک الابرار من حدیث نبی المختار  میں امام اعظم ؒ کی بابت لکھتے ہیں  ’’ فہو من التابعین رضی اللہ عنہ‘‘  امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ تابعین میں سے ہیں۔(’’ثبت ابن عابدین ‘‘المسمیٰ عقود اللآلی فی الاسانید العوالی:ص۲۵۵)

(۱۹)       امام اسمعیل بن محمد عجلونی  الشافعی ؒ ۱۱۶۲ھ) جن کو امام محمد بن خلیل مرادی ؒ (۱۲۰۶ھ)نے الشیخ ، الامام ،العالم ،الہمام ، الحجۃ الرحلۃ ، العمدۃ بالورع، وغیرہ جیسے  عظیم القاب سے ملقب کیا ہے، (سلک الدرر فی القرن الثانی عشر :ج۱ :ص ۲۵۹)  آں موصوف امام صاحب کے بارے میں تصریح  کرتے ہیں’’احد من عد فی التابعین ‘‘ آپ ان ائمہ میں سے ایک ہیں جن کا شمار تابعین میں ہوتا ہے ۔(مقدمہ اربعون العجلونیہ :ص۲۰)

(۲۰)      امام محمد بن عبدالرحمن بن الغزیؒ ۱۱۶۷ھ) بتصریح امام مرادی : عالم ، فاضل ، محدث ، نحریر تھے،( سلک الدرر :ج۴ :ص ۵۴) موصوف امام اعظم ؒ کے ترجمے میں ارقام فرماتے ہیں ’’التابعی الجلیل لقی جماعۃ من الصحابۃ ‘‘ آپ جلیل القدر تابعی ہیں اور آپ نے متعدد صحابہ سے ملاقات کی ہے ۔ (دیوان الاسلام :ج۲ :ص ۱۵۲)

(۲۱)       امام احمد بن عبدالمنعم الدمنہوریؒ الشافعی ۱۱۹۲ھ) جو کہ امام اہل العصر ،علامۃ الوقت اور عالی السند محدث تھے ۔(فہرس الفہارس والاثبات للکتانی ؒ:ج۱ :ص ۴۰۴، ۴۰۵ ، الاعلام للزرکلی :ج۱ : ۱۵۸ )  انہوں نے امام اعظم ؒ کے مناقب میں لکھا ہے ’’ فہو من التابعین علی الصحیح ‘‘ آپ صحیح قول کے مطابق تابعی ہیں ۔ (اتحاف المھتدین بمناقب ائمہ الدین :ص۵۳)

(۲۲)      عصر حاضر  کے نامور محقق وادیب شیخ ابو زہرہ مصری ؒ (م ۱۳۹۴ھ) نے امام اعظم ؒ کے مناقب میں لکھاہے ’’ان کتاب المناقب جمیعا  یذکرون انہ التقی ببعض الصحابۃ و بعضہم یذکر انہ روی عنہم احادیث ،وانہ ارتفع بذلک الی رتبۃ التابعین ، ویسبق بہذا الفضل الفقہاء الذین عاصروہ کسفیان الثوری والاوزاعی ومالک وغیرہ من اقرانہ ‘‘

              امام ابوحنیفہ ؒ کے مناقب نویس سب یہی ذکر کرتے ہیں کہ آپ نے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملاقات کی ہے ، اور ان میں سے بعض تو یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ  آپ نے ان صحابہ سے احادیث بھی روایت کی ہیں۔چنانچہ اسی وجہ سے آپ کو تابعین کے رتبے پر فائز مانا گیا ہے ۔اور اس شرف تابعیت کی وجہ سے آپ کو اپنے معاصر فقہاء جیسے امام سفیان ثوری ؒ ،امام اوزاعی ؒ ،امام مالک ؒ اور آپ کے دیگر معاصر ائمہ پر برتری حاصل ہے ۔(ابوحنیفۃ حیاتہ عصرہ، آراءہوفقہہ :ص۵۹)

              قارئین !امام اعظم ؒ کی تابعیت سے متعلق محدثین کی یہ تصریحات آپ نے ملاحظہ کی ہیں کہ یہ محدثین کس قدر واشگاف الفاظ میں امام صاحب ؒ کی تابعیت کو بیا ن کررہے ہیں اور ان تصریحات کے ضمن  میں  خود ان محدثین کا تعارف بھی آپ کے سامنے آچکا ہے کہ یہ محدثین  خود کتنے علمی پایہ کے لوگ ہیں ؟ اب ان محدثین کی تصریحات کے بعد بھی کیا اما م صاحبؒ کی تابعیت میں کوئی شک وشبہہ رہ جاتا ہے ؟ اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ یہاں جن محدثین کی تصریحات نقل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی بھی محدث حنفی نہیں ہے  ، بلکہ یہ سب محدثین دیگر مذاہب مالکی شافعی اور حنبلی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ہم نے یہاں عمدا کسی حنفی محدث کا حوالہ نقل نہیں کیا ، تاکہ کسی قسم کی جانبداری کا کوئی شبہہ پیدا نہ  ہو سکے اور ایک غیر جانبدارانہ موقف آپ کے سامنے آجائے ۔ لہذا اما م ابوحنیفۃ ؒ کی تابعیت سے متعلق ان غیر جانبدار محدثین کی گواہی ہر قسم کے شک و شبہے سے بالا تر ہے۔

امام اعظم ؒ کی تابعیت پر علمائے غیر مقلدین کی تصریحات

    ان  محدثین کے علاوہ عصر حاضر کے کئی نامور علمائے غیر مقلدین نے بھی امام اعظم ؒ کے تابعی ہونے کی تصریح کی ہے  ۔ مثلا نامور غیر مقلد عالم مولانا عبد المجید سوہدروی ؒ ۱۳۷۹ھ)لکھتے ہیں : تابعین حضرات میں امام ابو حنیفہ ؒ کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔(سیرت ثنائی ص : ۵۶)

              مشہور غیر مقلد لکھاری مرزا حیرت دہلوی ؒ نے حضرت شاہ اسمعیل شہید ؒ (م ۱۲۴۶ھ) کا امام اعظم ؒ کے بارے میں یہ بیان بلا جرح وقدح کے نقل کیا ہے کہ : آپ کا نام نعمان ہے اور کنیت ابو حنیفہ ہے ، آپ ۸۰ ھجری میں پیدا ہوئے ۔۔۔اور آپ کو تابعی ہونے کا افتخار بھی حاصل تھا ، چونکہ مجھے اس میں کوئی ردوقدح نہیں کرنی ہے ، میں تو تواریخ پر بھروسہ کر کے کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے اپنے بچپن کے زمانے میں انس صحابی کو دیکھا تھا جو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت گذار تھے ۔(سیرت طیبہ شاہ اسمعیل شہید ؒ ص ۸۴)

              بزرگ غیرمقلد عالم مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانیؒ ۱۴۰۸ھ)نے بھی تسلیم کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ صحابہ کو دیکھنے کے لحاظ سے تابعی ہیں ۔(حاشیہ حیات حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ص ۱۲۱،۱۲۲)

              مولانا امیر علی  ملیح آبادی ؒ (م۱۳۳۷ھ)جو کہ مولانا نذیر حسین دہلوی ؒ (م ۱۳۲۰ھ)کے شاگرد اور نامور غیر مقلد عالم ہیں ،(تراجم علمائے حدیث ہند ص :۵۴۶برصغیر پاک و ہند میں علم فقہ ص ۳۵۰) انہوں نے حافظ ابن حجر عسقلانیؒ کے قول کہ  ’’پانچواں طبقہ وہ ہے جنہوں نے ایک یاایک سے زائد صحابہ کو دیکھا ہے ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے’’ ومن ہھنا قیل لابی حنیفۃ ؒ انہ تابعی فقد صح انہ رأی انسا ‘‘ اسی بنا ء پر کہا گیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ تابعی ہیں کیونکہ یہ بات صحیح ہے کہ آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے ۔( تعقیب التقریب حاشیۃ تقریب التہذیب :ص۴)

              نیز موصوف نے عنوان ’’فروع اعمال وظہور اجتہاد ‘‘کے ذیل میں لکھا ہے :امام اعظم ابوحنیفہ ؒ اپنے زمانے کے علمائے مجتہدین کے اعتبا ر سے ہمارے نزدیک علمائے مجتہدین اعظم میں سے ہیں ، اس طرح پر کہ یہ دوسرے تمام مجتہدوں سے اجتہاد میں اگر بڑھ کر نہ ہوں پھر بھی ان سے کمتر نہیں ہیں برابر ضرور ہیں ۔ پھر امام ابوحنیفہؒ کو دوسروں پر دو باتوں کی وجہ سے افضلیت حاصل ہے ، ایک یہ کہ تابعی ہیں ، کیونکہ انھوں نے بالاتفاق حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے جیسا کہ میں نے فتاوی ہندیہ کے مقدمے میں باالتفصیل بیان کیا ہے ۔ اس  طرح فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ’’طوبی لمن رأنی ‘‘الحدیث ۔۔سے حاصل شدہ فضیلت پانے کے مستحق ہیں۔اور یہ فضیلت بہت بڑی ہے جس میں آپ اپنے ہم زمانہ اور ساتھیوں سے بڑھے ہوئے ہیں۔دوسری خصوصیت یہ ہے کہ آپ ہی نے فقہ کے اجتہاد وقواعد استنباط کے اصو ل مروجہ طریقوں پر سب سے پہلے لوگوں کو بتائے ، اس بنا ء پر امام مالک ؒ نے فرمایا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ اہل فقہ کیلئے سب سے بہترین ہیں ۔یہ دونوں خصوصیتیں آپ کے اندر آپ کی  فضیلت کے لئے بلاشبہہ قوی دلیل ہیں اور اس میں کسی قسم کا شک وشبہہ یا اعتراض انصاف خارج ہے۔(عین الہدایہ ج ۱ص ۱۴۴)

              نیز موصوف نے ’’فتاوی ہندیہ ‘‘ المعروف بہ ’’فتاوی عالمگیری ‘‘مترجم کے مقدمے میں لکھا ہے:واضح ہو کہ امام (ابوحنیفہ ؒ )  کے تابعی ہونے میںاختلاف ہے، بعض نے نفی کی ہے اور بعض نے اثبا ت کیا اور یہی راجح ہے۔(فتاوی عالمگیری  مترجم ج ۱ ص ۳۹)

              نیز موصوف حضرت انس رضی اللہ عنہ کو امام اعظم ؒ کے دیکھنے پر کئی محدثین کی شہادتیں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنے پر ائمہ علمائے مذکورین متفق  ہیں ، پس ابوحنیفہ ؒ کے تابعی ہونے کیلئے اس قدر کا فی ہے۔(ایضًا)

              نیز موصوف نے یہ بھی لکھاہے کہ :ابو حنیفہ۔۔ ؒ حدیث سے جو معنی ثابت ہوئے ہیں اس کے موافق۔۔ تابعی ہیں۔(ایضًا )

              عصر حاضر کے نامور غیر مقلد عالم شیخ ناصرالدین البانی ؒ(م ۱۴۲۰ھ)نے بھی امام اعظم ؒکو صغار تابعین میں قرار دیا ہے ۔(سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ ۴ ؍۲۱۹)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ (م ۹۳ھ)سے ملاقات :

              امام ابوحنیفہ ؒ نے جن صحابہ کرام کے جمال مبارک کا دیدار کیاہے، ان میں سر فہرست نبی انور صلی اللہ علیہ  وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں ۔ امام صاحب ؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنے کی  خود تصریح فرمائی ہے ۔ چنانچہ امام محمد بن سعد ؒ ۲۳۰ھ)نے اپنی کتاب ’’الطبقات ‘‘میں لکھا ہے :

حدثنا ابوالموفق سیف بن جابر قاضی واسط ،قال سمعت ابا حنیفۃ یقول :قدم انس بن مالک الکوفۃ ونزل النخع ،وکان یخضب بالحمرۃ قد رأیتہ مرارا ۔

              ہم  سے ابوالموفق سیف بن جابر قاضی واسط نے بیان کیا ہے کہ میں نے امام ابوحنیفہ ؒکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لائے اور مقام نخع میں ٹھہرے ، آپ نے سرخ رنگ کا خضاب لگایا ہوا تھا اور میں نے آپ کو کئی بار دیکھا ۔(تاریخ الاسلام  للذہبی ۳؍۹۱۰،عقود الجمان للصالحی  ص۴۹)[5]

              محدث کبیر امام ابواحمد الحاکم الکبیر ؒ (۳۷۸ھ)نے امام صاحب کا یہ مذکورہ قول اپنی اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے :

حدثنی ابوبکر بن ابی عمر و المعدل ببخاری ،حدثنی ابوبکر عبداللہ بن محمد بن خالد القاضی الرازی الحبال،قال حدثنی عبداللہ بن محمد بن عبیداللہ  القرشی المعروف بابن ابی الدنیا ،نا محمدبن سعدالہاشمی صاحب الواقدی ، نا ابوالموفق  سیف بن جابر قاضی واسط ،قال سمعت اباحنیفۃ یقول ۔۔۔۔( کتاب الاسماء والکنی ۴؍۱۷۶)[6]

            اسی طرح امام ابو علی عبدالرحمن بن محمد بن احمد بن فضالہ نیشاپوری صیرفی ۴۲۵ھ تقریبا) حافظ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳ھ) و غیرہ محدثین کے استاذ اور بلند پایہ حافظ الحدیث اور کثیر الحدیث محدث ہیں،[7] موصوف بھی اپنی کتاب ’’فضل ابی حنیفۃ رضی اللہ عنہ‘‘  میں امام صاحب کے اس قول کو درج ذیل سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں :

 انبأنا ابو سلیما ن ابن یزید  الدلال بقزوین ، ثنا ابوبکر عبداللہ بن محمد بن خالد الرازی ، حدثنی عبداللہ بن محمد بن عبدالقرشی ، ثنا محمدبن سعد الہاشمی صاحب الواقدی ، حدثنی ابوالموفق سیف بن جابر قاضی واسط ، سمعت ابا حنیفۃ یقول ۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔ ( التدوین فی اخبار قزوین ۳؍۱۵۲،۱۵۳)[8]

              اس سند اور سابق سند دونوں کے راوی ایک ہی ہیں ،سوائے پہلے راوی کے کہ وہاں پہلے راوی ابوبکر المعدل تھے جبکہ یہاں ابوسلیمان الدلال ہیں ،اور یہ سب ثقہ و قابل اعتماد ہیں ۔

              محدثین کرام نے امام صاحب کے اس قول کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ،چنانچہ

(۱)         مؤرخ الشام امام محمد بن یوسف الصالحی ؒ (۹۴۲ھ)لکھتے ہیں ’’وصححوا رؤیاہ لانس بن مالک‘‘ ائمہ حدیث امام ابوحنیفہ ؒ کی حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنے والی روایت کو صحیح قرار دیتے ہیں ۔(عقود الجمان ص۶۴)اس روایت کو صحیح قرار دینے والے محدثین میں

(۲)         محدث ناقد حافظ شمس الدین ذہبی ؒ (م ۷۴۸ھ)بھی ہیں ، چنانچہ موصوف امام صاحب کے مناقب میں لکھتے ہیں ’’ فانہ صح انہ رأی انس بن مالک رضی اللہ عنہ اذقدمہا انس رضی اللہ عنہ ،قال محمد بن سعد :حدثنا سیف بن جابر انہ سمع اباحنیفۃ یقول :رأیت انسا رضی اللہ عنہ‘‘ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لائے تھے ، جیسا کہ امام محمد بن سعد ؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے سیف بن جابر نے بیان کیا کہ میں نے خود امام ابوحنیفۃ ؒ بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا ۔( مناقب الامام ابی حنیفۃ وصاحبیہ ص۷،۸)

نیز ذہبیؒ لکھتے ہیں: ’’والمحفوظ انہ رأی انس بن مالک لما قدم علیہم بالکوفۃ‘‘  یہ روایت محفوظ (صحیح )ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا جب وہ کوفہ تشریف لائے تھے ۔(سیر اعلام النبلاء ۳؍۳۸۷)

(۳)        شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ۸۵۲ھ) اپنے فتاوی میں ارقام فرماتے ہیں ’’ قد روی  ابن سعد بسند لا بأس بہ أن الامام أبا حنیفۃ رضی اللہ عنہ رأی انس بن مالک رضی اللہ عنہ ‘‘ امام محمد بن سعد ؒ نے قابل اعتماد سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا  ہے ۔ (تبییض الصحیفۃ ص۲۵،عقود الجمان ص۵۰)

              امام محمد بن یوسف صالحی ؒ ۹۴۲ھ) اور

(۴)  امام ابن حجر مکی ؒ ۹۷۳ھ) ارقام فرماتے ہیں ’’ وصح کما قال الحافظ الناقد أبو عبداللہ الذہبی أنہ رأی أنس بن مالک رضی اللہ عنہ ‘‘ امام ابوحنیفہ ؒ  کی حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھنے والی روایت صحیح ہے جیسا کہ حافظ ناقد ابو عبداللہ الذہبی فرمایا ہے ۔(عقود الجمان ص۴۹،الخیرات الحسان ص۴۷)

(۵)        امام مرعی بن یوسف حنبلی ؒ (م ۱۰۳۳ھ)نے بھی تصریح کی ہے کہ ’’ صح رؤیاہ لانس بن مالک‘‘ امام ابو حنیفہ ؒ کا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھنا صحیح روایت سے ثابت ہے ۔(تنویر بصائر المقلدین فی مناقب الائمۃ المجتہدین ص۵۲)

              محدثین کی ان تصریحات سے یہ بالکل واضح ہو گیا کہ  امام محمد بن سعد کی نقل کردہ روایت ، جس میں امام ابوحنیفہ ؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو متعدد مرتبہ دیکھنے کی تصریح فرمائی ہے ، وہ سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ۔

              نیز ایک روایت میں ہے کہ امام اعظم ؒ نے فرمایا ’’ رأیت أنس بن مالک فی المسجد یصلی ‘‘  میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے بحالت قیام دیکھا ہے۔(مسند الاما م ابی حنیفۃ لابی نعیم ص۲۴،مناقب ابی حنیفۃ للمکی ص۲۷) اس روایت کی سند بھی  قابل حجت ہے ۔

امام ابونعیم اصفہانیؒ ۴۳۰ھ)وغیرہ محدثین نے اس روایت کو درج ذیل سند کے ساتھ روایت کیا ہے :

حدثنا محمد بن عمر البراء ، ثنا احمد بن موسی بن عمران من کتابہ ،ثنا محمد بن سعد ،ثناابی ،ثنا ابو یوسف عن ابی حنیفۃ یقول۔۔۔

              اس سند کے پہلے راوی امام ابونعیم اصفہانیؒ ۴۳۰ھ) ثقہ،حافظ ہیں۔( کتاب الثقات للقاسم: ج۸ : ص ۳۲۴)

دوسرے راوی امام محمد بن عمر الجعابیؒ۳۵۵ھ) ہیں جو کہ امام حاکم نیشاپوری ۴۰۵ھ)وغیرہ محدثین کے استاذ ہیں ۔امام حاکم  ؒ نے ان سے متعدد احادیث روایت کی ہیں ۔مثلا وہ ان سے ایک حدیث روایت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’حدثنی القاضی ابوبکر محمد بن عمر بن سالم ابن الجعابی الحافظ الاوحد ‘‘یہ  حدیث  مجھ سے قاضی ابوبکر محمد بن عمر بن سالم ابن الجعابی جو کہ یکتائے روزگار حافظ الحدیث ہیں ،نے بیان کی ہے۔(المستدرک علی الصحیحین۳؍۱۷۲) نامور محدث امام دارقطنی ؒ ۳۸۵ھ)بھی امام الجعابی ؒ کے شاگرد ہیں ، وہ بھی ان کے بارے میں گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ماسمعت فیہ الا خیرا ‘‘ میں نے ان کے بارے میں سوائے خیر کے کچھ نہیں سنا ۔ (تاریخ بغداد ۳؍۲۴۱) حافظ ذہبی  ۷۴۸؁ھ) نے ان کے ترجمے کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے :الحافظ البارع العلامۃ (سیر اعلام النبلاء ۱۶؍۸۸) نیز ان کے متعلق لکھتے ہیں : ’’الحافظ الباع فرید زمانہ‘‘۔ (تذکرۃ الحفاظ ۳؍۹۲)[9]

              اس سند کے تیسرے راوی ابوبکر احمد بن موسی بن عمران ؒ ہیں ، جو کہ ثقہ ،قاری،  حافظ ا لحدیث امام ابوبکر احمد بن موسی بن عباس ؒ(م۳۲۴ھ) ہیں[10] ، اور یہ بتصریح علامہ خطیب بغدادی ؒ(م ۴۶۳ھ)امام ابوبکر جعابی ؒکے استاذ  اور محمد بن سعد العوفی ؒ کے شاگرد ہیں ۔ (تاریخ بغداد ۵؍۳۵۲)اور  یہا ں بھی یہ راوی محمد بن سعد العوفی ؒ سے روایت کر رہے ہے ، اور اس سے امام جعابی ؒ روایت کر رہے ہیں ۔

              چوتھے راوی محمد بن سعد العوفی ؒ ۲۷۶ھ) ہیں ، جن کے بارے میں امام دارقطنی ؒ(م۳۸۵ھ)فرماتے ہیں ’’انہ لابأس بہ‘‘ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ (سوالات الحاکم للدارقطنی : ص ۱۳۹تا۱۷۸)

              امام حاکم نیشاپوری ؒ ۴۰۵ھ)نے ان سے متعدد روایات لی ہیں ، اور ان کی اسناد کو صراحۃ صحیح قرار دیا ہے ،اور امام ذہبی ؒ(م۷۴۸ھ) نے اس پر امام حاکم  ؒ کی موافقت کی ہے ۔(المستدرک مع الحاشیہ ح ۲۳۶۴،۳۴۳۵، ۴۶۱۵،۷۰۴۶، ۷۲۲۶)[11]

                  پانچویں  راوی محمد بن سعد کے والد سعد بن محمد بن الحسن العوفی ہیں ، امام حاکم ؒ اور امام ذہبی ؒ نے ان کی بھی روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔(المستدرک مع الحاشیہ ح۷۲۲۶)[12]

اور ان کے شیخ امام ابو یوسف ؒ ۱۸۲ھ) ہیں  جو کہ صرف ثقہ ہی نہیں بلکہ اوثق (انتہائی اعلی درجے کے ثقہ ) ہیں ۔(تلامذہ امام اعظم ابوحنیفہ کا محدثانہ مقام ص۱۳۸،۱۹۱) الغرض یہ روایت بھی قابل حجت اور قابل استدلال ہے ۔

              پس جب خود امام اعظم ؒ کی زبانی یہ ثابت ہوگیا کہ آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی کئی بار زیارت کی تھی تو اس کے بعد امام صاحب کی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت کرنے کیلئے ہمیں کوئی اور دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ، کیونکہ خود امام صاحب کابیان اس سلسلے میں حرف آخر اور سب سے بڑی دلیل ہے ۔تاہم امام صاحب ؒ کے بیان کی  تائید اور استشہاد میں ہم یہاں بعض نامور محدثین کے اقوال بھی پیش کردیتے ہیں تاکہ یہ مسئلہ مزید نکھر کر قارئین کے سامنے آجائے ۔

امام اعظم ؒ کی حضرت انس ؓ سے ملاقات پر محدثین کی تصریحات

              محدثین کی ایک بہت بڑی  تعداد نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے امام صاحبؒ کی رؤیت وملاقات کا اقرار کیا ہے، چنانچہ ان محدثین میں سے

(۱)         ایک امام محمد بن سعد ؒ(م۲۳۰ھ)بھی ہیں ،جو کہ قدیم مؤرخ،محدث اور امام  ہیں ،جیسا کہ امام ابن عبد البرؒ (م ۹۶۳ھ)وغیرہ محدثین نے ان سے نقل کیاہے ۔(جامع بیان العلم وفضلہ ۱؍۴۵)

(۲)         امام دارقطنی ؒ(م ۳۸۵ھ)بھی حضرت انس ؓسے آپؒ کی رؤیت کااقرار کرتے ہیں  ،چنانچہ امام ابن الجوزی ۵۹۷ھ) امام سیوطیؒ ۹۱۱ھ)اور امام علی بن محمد بن علی بن عراق الکنانی  ؒ(م۹۶۳ھ)وغیرہ محدثین نے امام موصوف کے شاگرد رشید امام حمزہ سہمی ۴۲۷ھ)سے نقل کیا ہے کہ:

’’سمعت الدارقطنی یقول :لم یلق أبوحنیفۃ احدا من الصحابۃ الا انہ رأی أنسا بعینہ ‘‘ میں نے امام دار قطنی ؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات نہیں کی ، البتہ آپ نے حضرت انس ؓ کو اپنی آنکھوں سے ضرور دیکھا ہے ۔(العلل المتناہیہ لابن الجوزی ج۱؍۱۲۸،،تبییض الصحیفۃللسیوطی ص۲۴،،ذیل اللالی المصنوعۃ للسیوطی ص۱۱۰،تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ لابن عراق ج۱؍۲۷۱)

(۳)        امام دارقطنی ؒ کے استاذ امام محمد بن عمر الجعابی ؒ ۳۵۵)بھی تصریح کرتے ہیں کہ امام اعظم ؒ نے حضرت انس ؓ کو دیکھا ہے ۔(مسند الامام اعظم ؒللبلخی ۲؍۴۹۷)

(۴)        امام ابو احمد الحاکم الکبیر ؒ(م۳۷۸ھ)نے بھی امام صاحب ؒ کے ترجمے میں لکھا  ہے ’’یقال رأی ابا حمزۃ انس بن مالک النجاری بالکوفۃ حین نزولہ ایاھا‘‘  کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفۃ ؒنے حضرت ابوحمزہ انس بن مالک نجاری رضی اللہ عنہ  کو کوفہ میں دیکھا تھا ،جب حضرت انسؓ کوفہ تشریف لائے تھے۔(کتاب الاسامی والکنی ۴؍۱۷۵)

(۵)        مشہور صاحب التصانیف محدث امام ابوبکر البیہقی ؒ ۴۵۸ھ)نے بھی امام صاحب کی حضرت انسؓ سے ملاقات کی تصریح کی ہے۔(المدخل الی السنن الکبری۱؍۱۶۰)

(۶)         امام ابونعیم اصفہانیؒ ۴۳۰ھ) صاحب ’’حلیۃ الاولیاء ‘‘کی بھی یہی رائے ہے کہ امام صاحب ؒ کی حضرت انس ؓ سے ملاقات ثابت ہے۔(مسند الامام ابی حنیفۃ لابی نعیم ص۲۴)

(۷)        امام خطیب بغدادی ؒ(م۴۶۳ھ) بھی امام صاحبؒ کے ترجمہ میں یہ اقرار کرتے ہیں کہ’’رأی انس بن مالک ؓ ‘‘ آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا  ہے۔(تاریخ بغداد ۱۳؍۳۲۵)

(۸)        شیخ الاسلام امام ابن عبدالبر مالکی ؒ(م۴۶۳ھ)ارقام فرماتے ہیں ’’قیل انہ رأی انس بن مالک‘‘ کہا جاتا ہے کہ امام  ابو حنیفہ ؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھاہے ۔(کتاب الاستغناء فی معرفۃ المشہورین من حملۃ العلم بالکنی ۱؍۵۷۲)

(۹)         امام یحی بن ابراہیم سلماسیؒ ۵۵۰ھ) رقمطراز ہیں ’’ورأی انس بن مالک ؓ ‘‘کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے ۔(منازل الائمۃ الاربعہ ص۸۰)

(۱۰)       امام ابوسعد سمعانیؒ ۵۶۲ھ)نے بھی امام صاحب ؒ کے تر جمہ میں تصریح کی ہے ’’ رأی انس بن مالکؓ‘‘ امام ابوحنیفہ ؒ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا دیدار کیا ہے ۔(کتاب الانساب ۲؍۲۹۰)

(۱۱)        نامور صاحب التصانیف محدث اما م ابوزکریا بن شرف نوویؒ۶۷۶ھ)امام اعظم ؒکے ترجمے میں ارقام فرماتے ہیں’’رأی انس بن مالک ؓ‘‘ آپ نے حضرت انس بن مالک ؓکو دیکھا تھا ۔(الاسماء واللغات ۲؍۴۶۰)

(۱۲)       مؤرخ کبیر امام سبط ابن الجوزیؒ۶۵۴ھ)بھی امام عظم ؒکی حضرت انس ؓ سے ملاقات کا اقرار کرنے والوں میں ہیں ۔(الانتصار والترجیح للمذہب الصحیح ص۱۹،۲۰)

(۱۳)       نیز امام عبد الغنی المقدسی ؒ(م۶۰۰ھ)اور امام شہاب الدین قسطلانیؒ ۹۴۳ھ)بھی حضرت انس ؓ سے امام صاحب ؒ ملاقات کی تصدیق کرتے ہیں ۔(تانیب الخطیب للامام الکوثری ؒ ص۱۵)

(۱۴)       استاذالمحدثین امام ابوالحجاج مزیؒ ۷۴۲ھ)نے بھی امام اعظم ؒ کے ترجمہ میں لکھا ہے’’رأی انس بن مالک ؓ ‘‘  آپ نے حضرت انس بن مالکؓ کو دیکھا ہے ۔(تہذیب الکمال ۱۹؍۱۰۲)

(۱۵)       جلیل المرتبت محدث امام ابو المحاسن محمد بن علی علوی الحسینی ؒ ۷۶۵ھ)بھی امام اعظمؒ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں ’’رأی انس بن مالک ؓ ‘‘آپ نے حضرت انس بن مالک ؓ کو دیکھا ہے ۔(التذکرۃ بمعرفۃ رجال الکتب العشرۃ۳؍۱۷۷۲)

(۱۶)       مؤرخ اسلام امام ابن کثیرؒ ۷۷۴ھ)آپ کے ترجمہ میں ارقام فرماتے  ہیں  ’’ورأی انس بن مالکؓ قیل وغیرہ ‘امام ابو حنیفہ ؒ نے انس بن مالک ؓ کو دیکھا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے حضرت انسؓ کے علاوہ دیگر صحابہ ؓ کو بھی دیکھا ہے ۔(البدایہ والنہایہ ۷؍۸۶)

              نیز موصوف نے امام اعظم ؒ کے تعارف میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’فقیہ اہل العراق ،واحد ارکان العلماء ،رأی انس بن مالک ،قیل وجماعۃ آخرین من الصحابۃ ‘‘ امام ابوحنیفہؒ جو کہ اہل عراق کے فقیہ اور علما ء کے ارکان (ستونوں )میں سے ہیں ،آپ نے حضرت انس بن مالک ؓ کو دیکھا ہے ۔اور یہ بھی کہا گیا  ہے کہ آپ نے حضرت انس ؓ کے علاوہ دیگر صحابہ کی ایک جماعت کو بھی دیکھا ہے ۔(التکمیل  فی الجرح والتعدیل ۱؍۳۷۵)

(۱۷)          محدث ناقد امام شمس الدین ذہبی ؒ(م۷۴۷ھ)ارقم فرماتے ہیں ’’رأی انساً‘‘امام ابو حنیفہ ؒ نے حضرت انس ؓ کا دیدار کیا ہے ۔(تذہیب تہذیب الکمال ۹؍۲۲۵دول الاسلام ۱؍۱۴۰ )

(۱۸)       امام ولی الدین عراقی ۸۲۶ھ)اپنے ایک فتوی میں امام صاحب ؒ کے بارے میں یہ تصریح کرتے ہیں کہ ’’وقد رأی انس بن مالک ؓ ‘‘امام ابو حنیفہ ؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یقینا دیکھا ہے ۔(تبییض الصحیفہ ص۲۴)

(۱۹)       امام برہان الدین ابراہیم بن احمد بن خلیل حلبی المعروف بہ’’ سبط ابن العجمیؒ‘‘ ۸۴۱ھ ) امام اعظم ؒ کے ترجمے میں ارقام فرماتے ہیں’’رأی ابوحنیفۃ انساً‘‘ امام ابوحنیفہؒ نے حضرت انس ؓ کودیکھا ہے ۔(نہایۃ السول فی رجال الستۃ الاصول بحوالہ مکانۃ الامام ابی حنیفہ فی الحدیث للعلامہ عبد الرشید النعمانی ص۱۰۱)  

(۲۰)      شیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲ھ)بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ ’’رأی انساً‘‘ امام ابو حنیفہؒ نے حضرت انس ؓ کو دیکھا تھا ۔(تہذیب التہذیب ۵؍۶۲۹)

(۲۱)       امام محمد بن ابراہیم الوزیر ؒ ۸۴۴ھ)نے لکھا ہے  ’’ورأی  انس بن مالک خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرتین ‘‘ امام ابو حنیفہ ؒ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دو مرتبہ دیکھا ہے ۔(الروض الباسم ۱؍۳۱۲)

(۲۲)      شارح بخاری امام بدرالدین عینیؒ ۸۵۵ھ) رقمطراز ہیں ’’ کان ابو احنیفۃ من سادات التابعین ، رأی انس بن مالک لا یشک فیہ الاحاسد او جاہل‘‘ امام ابوحنیفہ ؒ تابعین کے سرداروں میں سے تھے ، آپ نے حضرت انس بن مالک ؓ کو دیکھا تھا ،اس میں شک کرنے والا حاسد یا جاہل ہی ہوسکتاہے ۔(مقدمہ مغانی الاخیار فی شرح رجال شرح معانی الآثارقلمی ورقہ ۴۲۹)

(۲۳)      امام جلال الدین سیوطی ؒ(م۹۱۱ھ)رقمطراز ہیں ’’رأی انسا‘‘ امام ابوحنیفہؒ نے حضرت انس ؓ کو دیکھا تھا۔(طبقات الحفاظ ص۸۰)

(۲۴)      مؤرخ امام ابن العماد الحنبلیؒ ۱۰۸۹ھ)امام صاحب کے ترجمے میں ارقام فرماتے ہیں ’’رأی انساً وغیرہ ‘‘ آپ نے حضرت انس ؓ اور دیگر کئی صحابہ کو دیکھا  ہے ۔(شذرات الذہب ۱؍۲۲۶)

(۲۵)      محدث جلیل عبدالقاہر القرشی ؒ(م۷۷۵ھ)،محدث الشام امام محمدبن یوسف صالحی ؒ ۹۵۲ھ)،شارح مشکوۃ امام ابن حجر مکی ؒ(م۹۷۳ھ)،علامۃ الدہر امام مرعی بن یوسف حنبلیؒ۱۰۳۳ھ)اور عالی السند محدث امام احمد بن عبد المنعم الدمنہوریؒ(م۱۱۹۲ھ)بھی یہ اقرار کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒنے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا ہے۔(الجواہر المضیئہ ۱؍۲۸،عقود الجمان ص۴۹،الخیرات الحسان ص۴۷،تنویر بصائر المقلدین ص۵۲،اتحاف المبتدین ص۵۳ )

(۲۶)      مجدد قرن دہم امام ملا علی قاریؒ۱۰۱۴ھ)تابعی کی تعریف کے ذیل میں فرماتے ہیں:

              وبہ یندرج  الامام  الاعظم فی سلک التابعین ،فانہ رأی انس بن مالک وغیرہ من الصحا  بۃعلی ماذکرہ الشیخ الجزری فی ’’أسماء رجال القراء ‘‘  والامام التور بشتی فی ’’تحفۃ المسترشدین ‘‘وصاحب ’’کشف الکشاف‘‘ فی سورۃ المؤمنین ، وصاحب ’’مرآۃ الجنان ‘‘وغیرم من العلماء المتبحرین،فمن نفی انہ تابعی  ،فاما  من التتبع القاصر او التعصب الفاتر ۔

              اس تعریف کی رو سے امام ابوحنیفہ ؒ کو تابعین کے زمرے میں شمار کیا جاتا  ہے  ،کیونکہ آپ نے حضرت انس ؓاور دیگر کئی صحابہ رضی اللہ عنہم  کی زیارت کی ہے ،جیسا کہ

(۲۷)      شیخ محمد جزریؒ۸۱۴ھ)نے اپنی کتاب ’’اسماء رجال القراء ‘‘ (۲؍۳۴۲)میں،

(۲۸)      امام فضل اللہ تور پشتی ؒ ۶۶۱ھ)نے اپنی کتاب’’ تحفۃ  المسترشدین ‘‘ میں،

(۲۹)       اور صاحب ’’کشف الکشاف ‘‘امام عمر بن عبدالرحمن فارسی الزوینی ؒ  ۷۴۵ھ) نے ’’سورۃالمؤمنون ‘‘کی تفسیر میں،

(۳۰)      صاحب ’’مرآۃ الجنان ‘‘ (امام عبد اللہ یافعی ؒ(م۷۶۸ھ))نے مرآۃ الجنان  (۱؍۳۰۹،۳۱۰) میں اور دیگر کئی علماء متبحرین نے اس کی تصریح کی ہے۔پس جس  شخص نے بھی آپ کے تابعی ہونے کا انکار کیا ہے اس نے یا تو اپنی ناقص معلومات سے دھو کہ کھایا ہے ،یا پھر اپنے فتنہ پرداز تعصب کا شکا ر ہوا ہے۔(شرح شرح نخبۃ الفکرص۵۹۶)

(۱)امام اعظم ؒ کی حضرت انس ؓ سے متعدد بار ملاقات

              امام اعظم ؒ کی یہ بھی بہت بڑی  خوش نصیبی ہے کہ آپ نے صرف ایک بار ہی نہیں  بلکہ کئی بار حضرت انس ؓ کے جمال مبارک زیارت کرکے اپنی آنکھیں روشن کی ہیں ۔جیسا کہ خود آپ کا اپنا بیا ن صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا جا چکا ہے ۔اور دیگر کئی محدثین بھی اس کا اقرار کیا ہے ۔مثلاً

(۳۱)       حافظ العصر اما م محمد بن احمد بن عبدالہادی  مقدسی حنبلی ؒ (م۷۴۴ھ)نے امام صاحب ؒ کے حالات میں لکھاہے :                ’’ورأی انس بن مالک خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وصاحبہ غیر مرۃ لما قدم علیہم بالکوفۃ ‘‘ آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور صحابی حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کئی بار دیکھا ہے جب وہ کوفہ تشریف لایا کرتے تھے ۔ (مناقب الائمۃ الاربعہ ص ۵۸،طبقات علماء الحدیث ۱؍۲۶۱)

              محدث ناقد امام شمس الدین ذہبی ؒ ۷۴۸ھ) بھی آپ کے ترجمہ میں یہ تصریح کرتے ہیں ’’ رأی انس بن مالک  غیر مرۃ لما قدم علیہم بالکوفۃ‘‘ امام ابوحنیفہؒ نے حضرت انس ؓ کی متعدد بار زیارت کی ہے ،جب وہ کوفہ میں فروکش ہوئے (تذکرۃ الحفاظ ۱؍۱۲۶،تاریخ الاسلام ۲؍۹۹۰)

(۳۲)      محدث و مؤرخ امام صلا ح الدین صفدیؒ ۷۶۴ھ)نے تصریح کی ہے کہ ’’ رأی انس بن مالک غیر مرۃ بالکوفۃ قالہ ابن سعد ‘‘ امام ابو حنیفہؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو کوفہ میں بار بار دیکھا ہے ،جیسا کہ امام محمد بن سعد بیان فرمایا ہے۔ (الوافی بالوفیات ۱۶؍۷۴،،اخبار العلیات من الوفی بالوفیات ۲؍۱۹۲)

(۳۳)      محدث الشام امام شمس الدین محمد بن ابوبکر دمشقی المعروف بابن ناصرالدین ۸۴۲ھ) امام اعظمؒ کے ترجمے میں رقم طراز ہیں ’’رأی الامام انس بن مالک غیر مرۃ  لما قدم علیھم بالکوفۃ‘‘ امام ابوحنیفہؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو متعدد بار دیکھا ہے، جب وہ کوفہ تشریف لائے۔ (التبیان لبدیعۃ البیان ۱؍۳۶۹)

(۳۴)      مؤرخ شہیر امام ابن تغری بردی ؒ ۸۷۴ھ)بھی یہ تصریح کرتے ہیں کہ ’’ورأی انس بن مالک الصحابی غیر مرۃ بالکوفۃ لماقدمہا انس ‘‘ امام ابوحنیفہ ؒ نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ان کے زمانہ قدوم کوفہ میں کئی بار دیکھا ہے ۔(النجوم الزاہرہ فی  ملوک مصر والقاہرہ۲؍۱۷)   اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہؒ نے حضرت انس ؓ کو متعدد بار دیکھا ہے۔[13]

حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ (م۸۸ھ)سے ملاقات :

                             حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے ہیں جن کو خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تعلیم دین کے لئے کوفہ روانہ کیا تھا ۔ آپ کوفہ آکر یہیں سکونت پذیر ہو گئے اور اپنی زندگی کے بقیہ ایام یہیں دین کی نشرواشاعت میں صرف کر دیے۔آپ کا انتقال ۸۷یا ۸۸ہجری میں یا اس کے بعد ہوا ،اور آپ وہ صحابی ہیں جو کوفہ میں مقیم صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے۔(معرفۃ الصحابہ ۳؍۱۰۵،الاستیعاب ۱۳۰۹، اسد الغابہ ۳؍۱۸۱،تجرید اسماء الصحابہ ۱؍۲۹۹،الاصابہ ۴۵۷۳،تاریخ الصحابہ لابن حبان   ۱۵۵)

              شیخ احمد محمد شاکر ؒ(م۱۳۷۷ھ)ارقام فرماتے ہیں ’’ھو عبداللہ بن ابی اوفی ، مات بالکوفۃسنۃ ۸۶،وقیل سنۃ ۸۷،وقیل سنۃ ۸۸‘‘  حضرت عبداللہ بن ابی اوفی بمقام کوفہ ۸۶یا ۸۷یا۸۸ہجری میں فوت ہوئے ۔(شرح الفیۃالسیوطی ص۱۱۳)

              امام اعظم ابوحنیفہؒ بھی چونکہ کوفی ہیں ،اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیؓ  کی وفات کے وقت امام صاحب کی عمر کم از کم سات یا آٹھ سال تھی ،اس لئے آپ کو ان سے بھی ملاقات کرنے کا موقع مل گیا ۔جیساکہ آپ نے فرمایا’’ لقیت عبداللہ بن ابی اوفی ‘‘ میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ہے۔(مناقب ابی حنیفۃللمکی ص۳۶)

              الشیخ الامام ناصر السنۃ ابوالمکارم عبد اللہ بن حسین نیشاپوری ۵۵۲ھ)نے اس قول کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ۔(الرسائل الثلاث الحدیثیہ ص۱۶۹)

              محدثین ومؤرخین کی ایک  بڑی تعداد نے بھی امام اعظم ابوحنیفہ ؒ اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے درمیان ملاقات کی تصریح کی ہے ۔مثلاً

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲ھ) اپنے ایک فتوی میں تصریح کرتے ہیں  ’’ادرک الامام ابوحنیفۃ جماعۃ من الصحابۃ لانہ  ولد فی الکوفۃ سنۃ ثمانین من الہجرۃ ،وبہایو مئذ من الصحابۃ عبد اللہ بن ابی اوفی فانہ مات سنۃ ثمان وثمانین او بعدہا ‘‘ امام ابو حنیفہ ؒ  نے صحابہ کرام کی ایک جماعت سے ملاقات کی ہے،کیونکہ آپ ۸۰ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے ،اور وہاں صحابہ میں سے اس وقت حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ موجود تھے ، اس لئے کہ ان کی وفات ۸۸ہجری یا اس کے بعد ہوئی ہے۔(تبییض الصحیفۃ ص۲۵،،عقود الجمان ص۵۰ ،الخیرات الحسان ص۴۸)

              امام شہاب الدین قسطلانیؒ۹۳۲ھ)اپنی شرح بخاری میں ارقام فرماتے ہیں ’’ابن ابی اوفی عبداللہ ،الصحابی ابن الصحابی،وہو آخر من مات من الصحابۃبالکوفۃ سنۃ سبع وثمانین ،وقد کف بصرہ قبل ،وقد رآہ ابو حنیفۃ رضی اللہ عنہ وعمرہ سبع سنین ‘‘ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ صحابی  ہیں ،اور ۸۷ہجری میں کوفہ میں مقیم صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے ،آپ اپنی وفات  سے پہلے بصارت سے محروم ہوگئے تھے ،امام  ابوحنیفہ ؒ نے ان کی زیارت کی تھی ،جب امام صاحب ؒ کی عمر سات سال تھی ۔(ارشاد الباری شرح صحیح بخاری ۱؍۲۵۹)

              محدث جلیل ،مؤرخ کبیر امام بدرالدین عینیؒ ۸۵۵ھ) اپنی’’ شرح بخاری‘‘ میں رقمطراز ہیں ’’عبداللہ بن ابی اوفی واسم ابی اوفی علقمۃ الاسلمی لہ ولابیہ صحبۃ ،وہو آخر من مات بالکوفۃ من الصحابۃ ،اہو من جملۃ من رآہ ابو حنیفۃمن الصحابۃ ‘‘ حضرت  عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ خود بھی صحابی ہیں اور ان کے والد ابو اوفی رضی اللہ عنہ کہ جن کا نام علقمہ اسلمی ہے ،کو بھی شرف صحابیت حاصل ہے۔ اور آپ منجملہ ان صحابہ میں سے ہیں جن کو امام ابو حنیفہ ؒ نے دیکھا تھا ۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری ۱۱؍۲۹۳ح۲۰۸۰)

              امام احمد بن عبدالمنہم الدمنہوری ؒ(م۱۱۹۲ھ) امام صاحب ؒ کے مناقب میں لکھتے ہیں : ’’فہو من التابعین علی الصحیح ،لانہ حین ولد بالکوفۃ کا ن من الصحابۃ عبداللہ بن ابی اوفی ‘‘ آپ صحیح قول کے مطابق تابعی ہیں ،کیونکہ جب آپ کوفہ میں پیدا ہوئے ،اس وقت وہاں صحابہ میں سے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ باحیات تھے۔ (جن سے آپ ملاقات کرنے کی وجہ سے شرف تابعیت پر فائز ہوئے)۔(اتحاف المبتدین ص۵۳)

              امام ابو نعیم اصفہانیؒ ۴۳۰ھ)مؤلف ’’حلیۃ الاولیاء‘‘اور شارح مشکوۃ امام ابن حجر مکیؒ ۹۷۳ھ)وغیرہ محدثین نے بھی تصریح کی ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی زیارت کی تھی۔(مسند الامام ابی حنیفۃ لابی نعیم ص۲۴،الانتصار والترجیح لسبط ابن الجوزی  ص۱۹،مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح للقاری ۱؍۷۸،تنسیق النظام للسنبھلی ص۱۰)

معلوم ہوا کہ امام صاحب نے صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی زیارت فرمائی ہے۔

حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء ؓ (م۹۷ھ)سے ملاقات  :

              آپ کا شمار فتح مصر میں شریک صحابہ میں ہوتاہے،آپ مصر فتح ہونے کے بعد یہیں مقیم ہو گئے ،اور ایک لمبی عمر پانے بعد کے آپ کا انتقال یہیں مصرمیں ہوا۔(حسن المحاضرۃ فی ملوک مصر والقاہرۃ ۱؍۱۷۰)

              حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲ھ) نے آپ کے ترجمہ میں بحوالہ امام ابوزکریا  یحی بن مندہ(۵۱۱ھ)لکھا ہے: ’’وہو آخر من مات بمصر من الصحابۃ رضی اللہ عنہم ‘‘ حضرت عبداللہ بن حارث بن  جز ء رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جو مصر میں رہنے والے صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے ۔(تہذیب التہذیب ۳؍۱۱۹،،اسد الغابہ ۳؍۲۰۵)

              آپ کے سن وفات سے متعلق مؤرخین کا اختلاف ہے ،لیکن یہ بات یقینی ہے کہ آپ کی وفات ۸۰ہجری (امام اعظم ؒ کی ولادت )کے بعد ہوئی،جیسا کہ امام ابن عبد البر(م۴۶۳ھ)نے تصریح کی ہے ۔ (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب ۱۳۳۸)

              امام ابوبکر جعابی ؒ (م۳۵۵ھ)جو کہ علم حدیث وتاریخ کے عظیم سپوت ہیں ،فرماتے ہیں ’’مات عبداللہ  بن الحارث بن الجزء الزبیدی  سنۃ سبع وتسعین ‘‘  حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی رضی اللہ عنہ ۹۷ہجری میں فوت ہوئے ۔ (مناقب ابی حنیفۃ للمکی ص۲۸)

              اس اعتبار سے آپ کی وفات کے وقت امام صاحب ؒ کی عمر ۱۷ سال تھی امام صاحب ؒ نے مکہ مکرمہ میں آپ کے دیدار کاشرف حاصل کیا تھا ،جیسا کہ امام اعظم ؒ کی حضرت عبداللہ بن جز ء رضی اللہ سے سماعت وروایت حدیث بیان میں خود امام صاحب ؒ کے حوالے سے آرہاہے ۔  نیز متعدد محدثین نے بھی اس کی گواہی دی ہے۔مثلاً

عظیم ونامور محدث  امام ابو بکر البیہقی ؒ ۴۵۸ھ) نے امام صاحب ؒ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے ’’ویقال انہ لقی من الصحابۃ عبداللہ بن الحارث بن جزء الزبیدی وانس بن مالک ‘‘ کہا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عبداللہ بن حارث بن  جزء الزبیدی رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی تھی ۔ (المدخل الی السنن الکبری ۱؍۱۶۰)

              شیخ الاسلام  امام ابن عبد البر مالکیؒ ۴۶۳ھ) ارقام فرماتے ہیں’’ذکر محمد بن سعد کاتب الواقدی ان ابا حنیفۃ رأی انس بن مالک وعبداللہ بن الحارث بن جزء ‘‘ امام  محمد بن سعد ۲۳۰ھ) کاتب الواقدیؒ نے ذکر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن حارث بن جزء کی زیارت کی تھی۔(جامع بیان العلم وفضلہ ۱؍۳۵)

              امام ابونعیم اصفہانی ؒ(م۴۳۰ھ) نے حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کے متعلق تصریح کی ہے کہ ’’لقی بمکۃ‘‘امام ابوحنیفہ ؒ نے مکہ مکرمہ میں ان سے ملاقات کی تھی۔ (مسند الامام ابی حنیفۃ لابی نعیم ص۲۵)[14]

              امام ابن حجر مکیؒ۹۷۰ھ) نے بھی حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے امام صاحب ؒ کی ملاقات ہونے کی تصریح کی ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح  ۱؍۷۸،تنسیق النظام ص۱۰)

              نیز امام ابو حنیفہ ؒ نے سولہ سال کی عمر میں ان سے حدیث بھی سنی تھی ،کما سیأتی تفصیلہ ان شاء اللہ تعالی ۔

حضرت ابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ (م۱۱۰ھ) سے ملاقات :

              حضرت عامربن واثلہ رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جو کہ تمام صحابہ میں سب سے آخر میں فوت ہوئے ،جیسا کہ پہلے بحوالہ محدثین ومؤرخین گذراہے ۔

              یہ بھی من جملہ ان صحابہ میں سے ہیں ،جن کی زیارت سے امام ابوحنیفہ ؒ مشرف ہوئے ہیں۔چنانچہ امام حسین بن علی صیمریؒ ۴۳۶ھ)اور امام یحی بن ابراہیم سلماسی ؒ(م۵۵۰ھ) نے امام ابو بکر ہلال بن محمد الرأي ؒ(م۳۷۹ھ) ،جو ایک جلیل القدر فقیہ ومحدث ہیں[15] سے نقل کیا ہے کہ’’وقد ادرک ابوحنیفۃ من  الصحابۃ ایضا عبداللہ بن ابی اوفی وابا الطفیل عامر بن واثلۃ وہما صحابیان ‘‘ امام ابوحنیفہ ؒ نے جن صحابہ کو پایا ہے ،ان میں سے یہ دو صحابی حضرت عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں ۔(اخبار ابی حنیفۃ ۱؍۷۸،،منازل الائمۃ الاربعہ ص۸۰)

              امام ابن حجر مکی ؒ ۹۷۳ھ) کی تصریح کے مطابق بھی امام صاحب ؒ نے حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ہے ۔(مرقاۃ المفاتیح ۱؍۷۸،تنسیق النظام شرح  مسند الامام ص۱۰)

 



[1]تاریخ بغداد : ج ۱۳ : ص ۳۶۵ میں امام خطیب  البغدادی ؒ ۴۶۳؁ھ) نے اس کی سنداس طرح  بیان کی ہیں  :

أخبرنا أبو سعيد محمد بن موسى بن الفضل الصيرفي، حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم، حدثنا محمد بن إسحاق الصاغاني، حدثنا يحيى بن معين قال: سمعت عبيد بن أبي قرة يقول: سمعت يحيى بن ضريس يقول..

أبو سعيد محمد بن موسى بن الفضل الصيرفي ؒ  (م۴۲۱؁ھ) ثقہ ہیں۔( تاريخ الإسلام : ج ۹: ص ۳۶۹)،أبو العباس محمد بن يعقوب الأصم (م۳۴۶؁ھ) بھیثقہ ہیں ۔ (الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم : ج ۲ : ص ۱۲۸۱)، محمد بن إسحاق الصاغانيؒ (م۲۷۰؁ھ)  ثقہ ثبت راوی  ہیں۔(تقریب : رقم ۵۷۲۱)، امام يحيى بن معين ؒ(م۲۳۳؁ھ) تو  ثقة حافظ مشهور إمام الجرح و التعديل ہیں۔(تقریب : رقم ۷۶۵۱)،عبيد بن أبي قرة البغداديؒ بھی ثقہ اور صدوق  ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم :  ج ۷ : ص ۵۴)، يحيى بن ضريسؒ کو  امام يحيى بن معينؒ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ (تاريخ ابن معين رواية عثمان الدارمي : رقم ۸۶۷)  لہذا یہ  سند صحیح  ہے۔

امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ ۴۳۶؁ھ) کے الفاظ یہ ہیں :

 حدثنا أبو الحسن علي بن الحسن الرازي قال ثنا أبو عبد الله الزعفراني قال ثنا أحمد بن أبي خيثمة قال سمعت يحيى بن معين يقول حدثني عبيد بن أبي قرة قال سمعت يحيى بن الضريس قال شهدت سفيان الثوري وأتاه رجل له مقدار في العلم والعبادة فقال له يا ابا عبد الله ما تنقم على أبي حنيفة قال وما له قال سمعته يقول قولا فيه إنصاف وحجة أنى آخذ بكتاب الله إذا وجدته فلما لم اجده فيه اخذت بسنة رسول الله والآثار الصحاح عنه التي فشت في أيدي الثقات عن الثقات فإذا لم اجد في كتاب الله ولا سنة رسول الله أخذت بقول أصحابه من شئت وأدع قول من شئت ثم لا أخرج عن قولهم إلى قول غيرهم فإذا انتهى الأمر إلى ابراهيم والشعبي والحسن وابن سيرين وسعيد بن المسيب وعدد رجالا قد اجتهدوا فلي أن أجتهد كما اجتهدوا  ۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه : ص ۲۴)     ابو الحسن علی بن الحسن الرازی ؒ راجح قول میں ثقہ ہیں۔ (لسان المیزان : ج ۴ : ص۲۱۶)، ابو عبد اللہ الزعفرانی ؒ ۳۳۷؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم :  ج ۸ : ص ۲۵۱)، حافظ احمد بن ابی خیثمہ ؒ ۲۷۹؁ھ)  بھی مشہور امام،حافظ اور ثقہ مامون ہیں۔   ( تاريخ الإسلام : ج ۶: ص ۴۸۱)،باقی رواۃ کی تفصیل گزرچکی۔یہ سند بھی صحیح ہے۔ اور  الانتقاء والی سند بھی صحیح ہے۔

[2] اخبار أبي حنيفة وأصحابه کی سند میں دو راوی کمزور ہیں لیکن  فضائل ابی حنیفہ واخبارہ  و مناقبہ کی سند ثابت ہے۔  ابو العباس احمد بن محمد بن عبد اللہ بن محمد بن ابی العوام ؒ ۴۵۴؁ھ) فرماتے ہیں :

حدثنی ابی(یعنی محمد بن عبد اللہ بن محمد بن ابی العوام ؒ  )  قال : حدثنی ابی(عبد اللہ بن محمد بن ابی العوام ؒ  صاحب کتاب)  : حدثنی محمد بن احمد بن حماد قال : حدثنی یعقوب بن اسحاق قال : سمعت محمود بن غیلان قال : ثنا  علی بن الحسن بن شقیق قال : سمعت ابا حمزۃ السکری یقول : سمعت ابا حنیفۃ  یقول : اذا جاء الحدیث الصحیح الاسناد عن النبی  ﷺ اخذنا بہ ، و اذا جاء عن اصحابہ تخیرنا، ولم نخرج من قولھم، و اذا جاء عن التابعین زاحمناھم۔

 ترجمہ :  اگر نبی کریم ﷺ سےصحیح سند کے ساتھ کوئی حدیث ہم تک پہنچتی ہے تو ہم اسے لے لیتے ہیں ، اگر آپ کے صحابہ کرام سے منقول ہو تو ان میں سے کسی ایک کے قول کا انتخاب کرتے ہیں ، مگر ان کے قول سے باہر نہیں نکلتے، اور جب تابعین کا قول آجاتا ہے تو (اجتہاد کرنے میں )ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں۔

 

 رواۃ کی تفصیل یہ ہیں :   الامام الحافظ عبد اللہ بن محمد بن ابی العوام ؒ  (م۳۳۵؁ھ) صاحب کتاب فضائل ابی حنیفہ واخبارہ  و مناقبہ ثقہ اور ثبت ہیں۔

اعتراض :  رئیس احمد سلفی صاحب  الامام الحافظ عبد اللہ بن محمد بن ابی العوامؒ (م۳۳۵؁ھ)کو،ان  بیٹے اور پوتے کو مجہول قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’ مگر یہ تینوں  دادا،پوتا اور بیٹا مجہول  ہیں۔ (اللمحات : ج ۱ : ص ۱۵۰) ،زبیر علی زئی صاحب اور معلمی  صاحب  نے بھی قریب قریب یہی دعوی کیا   ہیں ۔(مقالات : ج ۴ : ص ۳۲۰-۳۲۲، تنکیل : ج ۱ : ص ۲۰)

الجواب :  امام عبد اللہ بن محمد بن ابی العوامؒ (م۳۳۵؁ھ)کے  بیٹے اور پوتے کا ذکر آگے آرہا ہیں۔ لیکن جہاں تک امام صاحب ؒ کی بات ہے تو  امام محمد بن یوسف الصالحی الدمشقی ؒ (م۹۴۲؁ھ) نے آپ ؒ کو ثقہ اور ثبت قرار دیا ہے۔(عقد الجمان : ص ۴۹) حافظ عبد القادر القرشی ؒ (م۷۷۵؁ھ)  الامام،القاضی الکبیر،العالم اور الفاضل کہتے ہیں۔ (الجواهر المضية : ج۱ : ص ۱۰۸،۲۸۲،۱۰۶)

 معلوم ہوا کہ  امام عبد اللہ بن محمد بن ابی العوامؒ (م۳۳۵؁ھ) ثقہ اور ثبت ہیں اور  معلمی،رئیس سلفی اور علی زئی کا اعتراض مردود ہے۔

نوٹ:ممکن ہے کہ یہاں پر کوئی کہے  امام عبداللہ بن ابی العوام ؒ (م۳۳۵؁ھ) کی توثیق معتبر نہیں ہے کیونکہ ان کی توثیق صدیوں بعد پیدا ہونے والے امام محمد بن یوسف صالحی الدمشقی ؒ ۹۴۲؁ھ) نے کی ہے،یعنی یہ راوی امام عبداللہ بن ابی العوام  کئی صدیوں  تک مجہول تھے ۔

تو عرض ہے کہ :

اول           تو حافظ محمد بن یوسف الصالحی ؒ ۹۴۲؁ھ) بذات خود بہت بڑے شیخ ،عالم ،امام ،محدث ،مؤرخ ،متبع سنت ،خاتم المحدثین اور ثقہ حافظ ہیں ۔(شذرات الذہب :ج ۰ :۱ص ۳۵۳-۳۵۴،فہرس الفہارس لعبد الحی الکتانی :ج    ۲: ص۱۰۶۳،الرسالۃ المستطرفۃ: ص ۱۹۹)  لہذا ان کی بات کا  انکار باطل و مردود ہے ۔

دوم            جہاں تک صدیوں کے بعد پیدا ہونے والے عالم کی توثیق کرنے کی بات ہے ،تو خود زبیر علی زئی صاحب جزء رفع الیدین کے راوی محمود بن اسحق الخزاعی ؒ کی توثیق ثابت کرنے کے لئے ،پہلا نام حافظ ابن حجر ؒ ۸۵۲؁ھ) کا دیا ہے، (نورالعینین :ص۵۲۶) حالانکہ بالاتفاق محمود الخزاعیؒ کی وفات کے کئی صدی بعد حافظ ؒ پیداہوئے ہیں ۔

                  تو کیا یہاں بھی محمود الخزاعی ؒ کے سلسلے میں (بقول غیر مقلدین )حافظ ابن حجر ؒ کی توثیق معتبر نہیں ہوگی ؟کیا یہاں بھی غیر مقلدین کہہ سکتے ہیں کہ محمود بن اسحق الخزاعی ؒ صدیوں تک مجہول تھے؟آخر یہ دوغلی  پالیسی کب تک چلے گی ؟

                  مزید ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ امام عبداللہ بن ابی العوام ؒ ۳۳۵؁ھ)کی توثیق علماء نے کی ہے ،ان کو ثقہ اور مضبوط بتایا ہے ۔ مگر جزرفع الیدین کے راوی محمود بن اسحق الخزاعی ؒ کی توثیق کسی بھی عالم نے نہیں کی ہے۔بلکہ ابن حجر ؒ کا حوالہ بھی غیر مقلدین کے اصول کی روشنی میں بیکار ہے ۔(تفصیل کیلئے دیکھئے الاجماع : شمارہ نمبر  ۱ صفحہ ۴۱)

                  لہذا یہ راوی تو اہل حدیث کے اپنے اصول کی روشنی میں مجہول ہی ہے جس کی وجہ خود ان کے اصول کی روشنی میں جزء رفع الیدین اور جزء قراء ت امام بخاری ؒ سے ثابت نہیں ہے ۔(اس پر مزید تفصیل آگے آرہی ہے)  لہذا یہ وسوسہ ہی باطل ہے اور بلا شک و شبہہ امام عبداللہ بن ابی العوام ؒ(م۳۳۵؁ھ) ثقہ اور ثبت ہیں ۔

دوسرے راوی محمد بن احمد بن حماد ہیں ،جو کہ امام الحافظ ابوالبشر الدولابیؒ (م۳۱۰؁ھ)  کے نام سے مشہور ہیں۔

 

اعتراض : رئیس احمد ندوی  حافظ ابو البشر ؒ الدولابی کو غیر ثقہ اور کذاب کہتے ہیں ۔(اللمحات : ج ۵: ص ۵۰۸) زبیر علی زئی صاحب نے بھی امام دولابی ؒ (م۳۱۰ھ) کو ضعیف کہتے ہیں ۔(مقالات : ج ۱ : ص ۴۵۳)

الجواب :  امام ابوالبشر محمد بن احمد بن حماد الدولابی ؒ ۳۱۰ھ) جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ۔

                  امام دارقطنی ؒ ۳۸۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ’’ تکلمو افیہ وماتبین من أمرہ الا خیراً‘‘ ان کے بارے میں کلام کیا گیا ہے، ان کے معاملے سے صرف خیر ہی واضح ہوا ہے ۔یعنی وہ روایت میں معتبر ہیں ۔(سوالات سہمی رقم ۸۲) امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ)نے الامام الحافظ البارع ،(سیر اعلام النبلاء ج۱۴ ص ۳۰۹)اور غیر مقلدین کے نزدیک کیسی راوی  کو ’حافظ‘ کہنا اور ثقہ   کہنے کے برابر بلکہ اس سے اعلیٰ ہے۔(علوم الحدیث مطالعہ و تعارف : ص ۲۸۷ ،انوار البدر:ص ۶۸) امام ابن خلکان ؒ ۶۸۱؁ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ کان عالما بالحدیث والاخبار والتواریخ اعتمد علیہ ارباب ہذا الفن فی النقل فی ہذا الشان وکان حسن التصنیف وممن یرجع الیہ‘‘ ۔(وفات الاعیان ج ۴ص ۶۸۱) امام الحا فظ قاسم بن قطلوبغا ؒ ۸۷۹؁ھ) نے آپ کو کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ امام مسلمہ بن قاسم ؒ ۳۵۳؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’کان ابوہ من اہل العلم بالحدیث  والروایۃ مقدما فیہ وکان مسکنہ بدولاب من ا رض بغداد ،ثم خرج ابنہ محمد بن احمد عنہا طالبا للحدیث والاثر فأکثرالروایۃ وجالس العلماء وتفقہ لابی حنیفۃ ،وجرد لہ فأکثر ،وکان مقدما فی الروایۃ والعلم بالاثار ومعرفۃ الاخبار ولہ کتب مؤلفۃ ‘‘۔ (کتاب الثقات للقاسم ج ۸ص۱۲۳) 

                  امام ابو نعیم ؒ (م۴۳۰؁ھ) امام ابن قطان ؒ ۶۲۸؁ھ)اور امام ضیا ء الدین مقدسی ؒ ۶۴۳؁ھ)نے آپ کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔(مستخرج ابو نعیم علی صحیح مسلم :رقم الحدیث ۸۳۵،بیان الوہم ج ۵ ص ۵۹۳،احادیث المختارہ ج ۷ ص ۱۲۰ ،ج ۱۳ص ۵۴)اور محدثین کا کسی حدیث کو صحیح کہنا غیر مقلدین کے نزدیک اس روایت روایت کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے ۔(انوار البدر : ص ۲۴۶-۲۴۷،وغیرہ) امام سیوطی ؒ ۹۱۱؁ھ)’الحافظ العالم ‘کہتے ہیں ۔اور امام ابن ابی حاتم الرازی ؒ ۳۲۷؁ھ) نے ان سے روایت کی ہے ۔اور غیر مقلدین کے نزدیک امام ابن ابی حاتم ؒ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ۔(طبقات الحفاظ للسیوطی ص ۳۲۱،انوار البدر ص۱۲۴) اور غیر مقلد عالم أبو الطیب نائف بن صلاح بھی ان کو ثقہ، حسن التصنیف کہتے ہیں ۔(ارشاد القاضی والدانی الی تراجم شیوخ الطبرانی صفحہ:ص۴۸۸)

                  معلوم ہوا کہ امام ابو البشر الدولابی ؒ ۳۱۰؁ھ) جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان پر جرح مردود ہے۔

تیسرے راوی یعقوب بن اسحق ہیں ،جن کا پورا نام یعقوب بن اسحق بن ابی اسرائیل ہے ،جن کے بارے میں امام دارقطنی ؒ ۳۸۵؁ھ)نے کہا ہے لابأس بہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ (سوالات حاکم للدارقطنی ؛رقم ۲۴۴)

چوتھے راوی محمود بن غیلان ؒ ۲۳۹؁ھ) ہیں جو کہ صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب رقم :۶۵۱۶)

پانچوے راوی علی بن حسن بن شقیق ؒ ۲۱۵؁ھ)بھی بخاری اور مسلم کے راوی اور ثقہ ،حافظ ہیں۔(تقریب رقم :۴۷۰۱) ان کے شیخ ابو حمزہ سکری ؒ بھی ثقہ راوی ہیں۔(تقریب رقم ؛۶۳۴۸)، امام اعظم ابو حنیفہ ؒ ۱۵۰؁ھ)کی توثیق کے لئے دیکھئے  : (امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا محدثانہ مقام : ص ۳۲۳)

                  معلوم ہواکہ اس سند کے سارے روی ثقہ ہیں اوریہ روایت حسن درجہ کی ہے ۔

نوٹ:

                  کتاب ’’مناقب أبی حنیفہ مناقبہ واخبارہ ‘‘ میں تقریباً ہر حدیث سے پہلے ’’حدثنی ابی قال حدثنی ابی‘‘ موجود ہے یہ در اصل کتاب کے ایک راوی ابو العباس احمدبن محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام ۴۵۴؁ھ) کا قول ہے  کہ

                  ’’حدثنی ابی ‘‘ یعنی محمدبن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام ’’قال حدثنی ابی ‘‘ یعنی عبداللہ بن محمد بن ابی العوام (م۳۳۵؁ھ)  صاحب کتاب فضائل ابی حنیفۃ مناقبہ واخبارہ ۔

ابوالعباس احمد بن محمدبن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام اور محمدبن عبداللہ بن ابی العوام کی توثیق :

                  بعض لوگ انتہائی تعصب میں آکر کہتے ہیں کہ یہ کتاب امام عبداللہ بن محمد بن ابی العوام ؒ(م۳۳۵؁ھ) سے ثابت نہیں ہے۔کیونکہ اسکی سند میں یہ دونوں راوی مجہول ہیں ۔حالانکہ ان حضرات کے بارے میں حافظ عبدالقادر القرشی ؒ (م۷۷۵؁ھ) فرماتے ہیں ’’من بیت العلماء الفضلاء‘‘  یہ لوگ علماء وفضلاء کے گھرانے سے ہیں ۔

اس سے معلوم ہوا کہ ابوالعباس احمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام اور محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام روایت میں صدوق ہیں ۔کیونکہ

                  (۱)ان پر کسی امام یا محدث نے جرح نہیں کی ہے۔

                  (۲)حافظ عبداللہ بن محمد بن ابی العوام ؒ۳۳۵؁ھ)کی کتاب’’ فضائل ابی حنیفۃمناقبہ واخبارہ‘‘کو امت نے قبول کیا ہے۔ (مناقب الامام ابی حنیفۃ للذہبی ؒ:ص۲۲،الاصابہ لابن حجرؒ:ج ۴۱۱۱،’’رفع الاصر عن قضاۃ مصر ‘‘لابن حجرؒ :ص۷۴،کشف الظنون للامام حاجی خلیفہ :ج :۲ص ۱۸۳۸-۱۸۳۹)

اہل حدیث حضرات کے لئے لمحہ فکریہ :

                  ایک دوسری کتاب علل ترمذی کے بارے میں زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ کتاب العلل الکبیر امام ترمذی ؒ سے ثابت ہی نہیں ہے ،اس کا راوی ابو حامد مجہول الحال ہے (ماہنامہ الحدیث شمارہ ؛۱۰۲ص ۲۷) لیکن  چونکہ اس کتاب’’علل ترمذی ‘‘ میں اہل حدیث محقق کفایت اللہ صاحب کے مسلک کی تائید میں کچھ باتیں تھیں ،اس لئے اس کتاب کا نقل کرنے والا راوی اگرچہ (بقول زئی صاحب)مجہول الحال تھا لیکن پھر بھی کفایت صاحب کہنے لگے :

                  یہ کتاب ہماری نظر میں امام ترمذی ؒ کی یہ ثابت ہے ہمارے  ناقص علم کے مطابق اہل علم میں سے کسی نے بھی اس کتاب کا انکار نہیں کیا ہے ،نیز ابو حامد التاجر کو مجہول کہنا بھی غلط ہے ،اور کتاب کے ثبوت اور عدم ثبوت کے متعلق علامہ البانی ؒ نے جو اصول پیش کیا ہے وہی راجح ہے ۔(یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ :ص ۱۱۴)

                  البانی صاحب کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی کتاب مشہور ہو اور اہل علم کے ہاتھوں میں عام ہو اور اہل علم نے اس پر اعتماد کیا ہو ،اس طرح کی کتابوں کے سلسلے میں (کتاب کی سند مجہول ہونے کو یا سند کے راوی کے معتبر ہونے کی ) کوئی شرط نہیں لگائی جائے گی ۔(یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ : ص ۳۶۳)

                   خود کفایت صاحب نے بھی امام بلاذری ؒ ۲۷۹؁ھ)کی کتاب ’’انساب الاشراف ‘‘ جس کی سند بھی مجہول ہے اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ مستند محدثین نے س پر اعتماد کیا ہے اور اس سے بطور حجت روایت نقل کی ہے۔(یزید بن معاویہ ؓ پر الزامات کا جائزہ :ص ۳۶۲)

                  لہذجب کتاب علل ترمذ ی اہل حدیث حضرات کے نزدیک اس لئے معتبر ہو سکتی ہے ،کیونکہ اہل علم نے اس پر اعتماد کیا ہے اور وہ کتاب ان کے یہاں مشہور ہے ،اگرچہ اس میں ایک راوی (بقول علی زئی )مجہول الحال ہے ،لیکن پھر بھی وہ کتاب اہل حدیثوں کے نزدک قابل قبول ہے۔

                  تو پھر یہ کتاب ’’فضائل ابی حنیفہ  مناقبہ واخبارہ ‘‘ کیوں نہیں معتبر ہو سکتی ؟جبکہ یہ کتاب بھی اہل علم کے درمیان مشہور ہے اور اہل علم  نے اس پر اعتماد بھی کیا ہے ۔

                  چنانچہ امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ)باحتجاج فضائل ابو حنیفہ مناقبہ واخبارہ ‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :وقال ابن ابی العوام القاضی فی فضائل ابی حنیفہ :ثنا الطحاوی ،ثنا أحمد بن ابی عمران ،ثنا محمد بن شجاع ،عن الحسن بن زیاد ،عن أبی حنیفۃ قال ربما قرأت فی رکعتی الفجر حزبین من القرآن ۔(مناقب امام اعظم:  ص۲۲)

                  اسی طرح ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲؁ھ) ’’الاصابہ :ج۴:ص ۱۱۱‘‘ پر عبداللہ بن شعیب ؓ کا ترجمہ بطور دلیل نقل کرتے ہیں کہ ’’عبداللہ بن شعیب ،قرأت بخط مغلطائی ،قال أخرج ابن ابی العوام فی مناقب ابی حنیفۃ من طریق أبی اسامۃ عنہ ،عن رشدین ،عن طارق بن شہاب ،عن عبداللہ بن شعیب ،عن النبی ﷺ قال : افضل الاعمال العج والثج۔‘‘

                  نیز دیکھئے ’رفع الاصر عن قضاۃ مصر ‘ لابن حجر عسقلانی ؒص۷۴،کشف الظنون للامام حاجی خلیفہ ج ۲ص ۱۸۳۹،۱۸۳۸۔

                  معلوم ہوا کہ یہ کتاب ’فضائل ابی حنیفہ مناقبہ واخبارہ ‘ خود اہل حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں ثابت ہے ۔والحمد للہ علی  ذلک ۔

لیکن اگر کوئی غیر مقلد یا ایل حدیث اس کتاب کاانکار کرتاہے تو اسے چاہئیے کہ :

                  (۱)علل ترمذی کا بھی انکا ر کرے ۔

                  (۲) سوالات ابو عبید الآجری

                  (۳) الانساب الاشراف للامام بلاذری

                  (۴) غنیۃ الطالبین کا بھی انکار کرے ،کیونکہ ان ۳  کتابوں کی سند ہی موجود نہیں ہے ۔

                  (۵) جزء رفع الیدین للبخاری اس کتاب کی سند میں ایک راوی محمود بن اسحق الخزاعیؒ مجہول ہے ۔

                  (۶) جزء قراء ت خلف الامام کی سند میں بھی محمود بن اسحقؒ مجہول ہے۔

                  (۷) کتاب ’الضعفاء الصغیر للامام بخاری ‘کی سند میں ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عبداللہ بن الحسین الفارانی،مجہول راوی ہے ۔

                  (۸) امام لالکائی ؒ(م۴۱۸؁ھ)کی کتاب ’’شرح اعتقاد اصول اہل السنۃ ‘‘کی سند میں ایک راوی بقول زئی صاحب کے کذاب ہے ۔(مشہور واقعات کی حقیقت :ص۴۵)

                  اگر غیر مقلدین ان کتابوں کا انکار نہیں کرتے ،تو آخر کیوں ؟جو جواب وہ ان کتابوں کا دیں گے وہی جواب ہمارا کتاب ’’فضائل ابی حنیفہ مناقبہ واخبارہ ‘‘ کے بارے میں بھی ہوگا ۔

                  نیز تعجب ہے کہ زبیر علی زئی کتاب الضعفاء الصغیر کی سند کی تحقیق  میں تسلیم کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عبداللہ بن الحسین الفارانی کا انہیں ترجمہ نہیں ملا ۔پھر بھی موصوف نے  ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عبداللہ بن الحسین الفارانی کو صدوق قرار دیا ہے۔(تحفۃ الاقویاء  ص ۹)

                  آخر ایسا کیوں ؟؟؟؟؟

                  اسی طرح معلمیؒ ۱۳۸۶؁ھ)ایک مجہول الحال راوی محمود بن اسحق الخزاعی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اذاکا ن اہل العلم قد وثقوہماوثبتوہما ولم یتکلم  احد منہم فیہما فماذا ینفعک ان تقول لا تثق بہما؟‘‘ جب اہل علم نے ان دونوں (احمد بن محمد بن الحسین الرازی اور محمود بن اسحق بن محمود القواس البخاری ) کو ثقہ اور ثبت قرار دیا ہے کسی ایک نے بھی ان پر کوئی کلام نہیں کیا ہے ،تو تمہارا یہ کہنا کہ ہم ان پر اعتماد نہیں کرتے ،کیا فائدہ دیگا ؟(التنکیل۲:ص ۷۱۱)  

                  حالانکہ محمودبن اسحق بن محمودا لقواس بخاری ؒ کو کسی ایک محدث نے بھی ثقہ یا ثبت نہیں کہا ہے ،یہاں پر معلمی صاحب نے  ان کو ثقہ وثبت اسلئے قرار دیا ہے کیونکہ ان سے مروی کتاب جزء رفع الیدین اور جزء القراء ت پر اہل علم نے اعتماد کیا ہے ۔

                  عجیب دوغلی پالیسی ہے ؟؟کیونکہ اہل علم نے ابو العباس احمد بن محمدبن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام اور محمدبن عبداللہ بن  محمد بن ابی العوام ؒ سے مروی کتاب فضائل ابی حنیفہ مناقبہ واخبارہ پر بھی اعتماد کیا ہے ، جیسا کہ حوالے گذرچکے ۔ لیکن ان دونوں کو معلمی صاحب نے مجہول قرار دیا ہے ۔(جلد ۱ ص ۲۰)

                  الغرض جب جزء رفع الیدین اور جزء القرا ء ت کا راوی صرف اس وجہ سے مقبول ہو سکتا ہے کہ اس کی مروی کتاب پر اہل علم نے اعتماد کیا ہے اور وہ ان کے یہاں مشہور ہے ۔

                  تو پھر ابو العباس احمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوامؒ (م۴۵۴؁ھ)  اور محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام بھی مقبول ہیں،کیونکہ ان سے مروی کتاب پر بھی اہل علم نے اعتماد کیا ہے،اور ان سے مروی کتاب اہل علم کے یہاں مشہور ومعروف ہے ۔

                  لہذا معلمی ؒ ،رئیس سلفی اور زبیر علی زئی کا ابوالعباس احمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام اور محمد بن عبداللہ بن محمد بن ابی العوام پر مجہول ہونے کا اعتراض مردود ہے ،اور یہ دونوں حضرات صدوق ہیں اور یہ کتاب بلا شک وشبہہ امام عبداللہ بن محمد بن ابی العوام ۳۳۵؁ھ) کی ہے اور ابن ابی العوام بھی ثقہ ہیں ۔

پھر اس پوری روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے مسلک کی بنیاد صرف صحیح حدیثوں پر ہے ۔ الحمد للہ

[3] امام حافظ الدین محمد کردری ؒ(م ۸۲۷؁ھ)  کا پورا نام حافظ الدين محمد بن محمد بن شهاب بن يوسف الكردري الخوارزمي ہیں۔ اور بعض نے  نام ’’ محمد بن محمد حافظ الدين بن ناصر الدين العمادي الكردري الحنفي ‘‘بتایا  ہیں  ۔مشہور البزازی کے نام سے ہے۔ آپ ؒ صدوق امام ہیں۔ امام ابن تغری بردی ؒ (م۸۷۴؁ھ) آپ ؒ کو    ’’ العلامة البحر الزاخر ‘‘ کہتے ہیں۔(المنہل الصافی : ج ۲ : ص ۱۴۱)، امام سخاوی ؒ (م۹۰۲؁ھ) نے انہی العلماء والكبراء میں شمار کیا  اورکہا کہ’’ بهاء الزاخر مولانا ‘‘ ۔ (الضوء اللامع: ج ۲ : ص ۱۹۵، ص ۱۲۷)،  قاضی سعد الدین ابن الدَّيْريؒ (م۸۶۷؁ھ) آپ کے بارے میں کہا کہ ’’أنه كان من أذكياء العالم وجامع الفتاوى‘‘۔(الضوء اللامع: ج ۱۰ : ص ۳۷)، فقیہ شمس الدین ابن الغزی ؒ (م۱۱۶۷؁ھ) ’ الفقيه الجليل ‘ کہتے ہے۔ (دیوان الاسلام : ج ۱ : ص ۲۷۰)علامہ حاجی خلیفہ ؒ (م۱۰۶۷؁ھ)  نے آپ ؒ کو ’ الشيخ الإمام الفقيه ‘ قرار دیا ہے۔ (سلم الوصول : ج ۳ : ص ۲۳۶) لہذا ٓپ ؒ صدوق ہیں۔

[4]  حافظ ذہبی ؒ نے یہاں إن شاء اللہ کا لفظ بطور تاکید استعمال کیا ہے ، جیسا کہ خود موصوف حافظ عبد الغنی بن سعید الازدیؒ (م ۴۰۹ھ) کے ترجمہ میں لکھا ہے ’’ إن شاء اللہ علی معنیٰ التاکید ‘‘  یعنی إن شاء اللہ تاکید کے معنی پر محمول ہے ۔(سیر اعلام النبلاء:ج ۱۷ :ص ۲۶۹)  بنابریں حافظ ذہبی ؒ نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں بھی امام صاحب ؒ کی تابیعت کو بیان کرتے ہوئے جو إن شاء اللہ کا لفظ استعمال کیا ہے ، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ آپ ضرور تابعین میں سے ہیں ، لہذا ایک جاہل متعصب غیرمقلد محمد رئیس احمد ندوی سلفی کا اس لفظ ان شاء اللہ کی وجہ سے حافظ ذہبیؒ کے اس قول کو شک پر محمول کرنا (اللمحات:ج ۲ :ص ۲۴۰- ۲۴۱) جہاں عقل وفہم سے کوسوں دور ہے ،وہاں یہ خود ذہبیؒ کی اس تصریح کے بھی خلاف ہے، اللہ تعالیٰ ان غیر مقلدین کو صحیح سمجھ نصیب فرمائے ۔ آمین ۔

[5] اعتراض:  حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد اس روایت پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :  ’’اس روایت کا بنیادی راوی سیف بن جابر مجہول الحال ہے، اس کی توثیق کسی مستند کتاب میں نہیں ملی، دوسرے یہ روایت ابن سعد کی کتاب ‘‘ الطبقات’’ میں موجود نہیں۔‘‘ (ماہنامہ الحدیث ، ش ۱۷، ص۲۰) معلمی  اور رئیس احمد سلفی نے بھی یہی  سیف بن جابرکو مجہول الحال قرار دیا ہے۔(التنکیل : ج۱ : ص ۳۸۴،اللمحات : ج۲ : ص ۲۰۰)

جواب :     اس اعتراض کی دونوں شقیں باطل ہیں ۔

اول:        اس لئے کہ سیف بن جابر مجہول الحال نہیں ہیں ، امام محمد بن خلف وکیع ؒ (م۳۰۶؁ھ) نے ان کو اہل اسلام کے مشہور قاضیوں میں شمار کیا ہے ، اور ان کے بارے میں ان کے ہم عصر اہل علم کی جو آراء نقل کی ہیں ، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ موصوف ایک دیانتدار، بااصول اور مسلمانوں کے خیر خواہ قاضی تھے۔ (اخبار القضاۃ ، ص۶۹۰) نیز امام ذہبی ؒ وغیرہ محدثین نے ان کی مذکورہ روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ، جیسا کہ عنقریب ان محدثین کی تصریحات ہم نقل کریں گے(دیکھئے ص ۱۹) ، اور خود زبیر علی زئی نے متعدد مقامات پر یہ تصریح کی ہے کہ اگر کوئی محدث کسی روایت یا اس کی سند کو صحیح یا حسن قرار دے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی سند کا ہر ہر راوی اس محدث کے نزدیک ثقہ یا صدوق ہے ، اور اس کے بعد اس سند کے کسی راوی کو مجہول کہنا غلط ہوتا ہے ۔ (الحدیث ۳۲ : ۱۴، نور العینین ، ص۵۳، نصر الباری ، ص۱۷۲، القول المتین ، ص۲۰ وغیرہ )یہی بات کفایت اللہ سنابلی نے بھی کہی ہیں۔(انوار البدر : ص۲۴۶)  لہذا علی زئی ،معلمی اور رئیس سلفی کا اعتراض کا باطل ہونا خود اہل حدیثوں کےاصول سے ثابت ہوگیا۔

اسی طرح ان کے اعتراض کی شق ثانی بھی باطل ہے، اس لئے کہ امام محمد بن سعد ؒ کی ‘‘ الطبقات الکبریٰ ’’ کو اُن سے ان کے متعدد تلامذہ نے روایت کیا ہے ، اور اس کتاب کے کم از کم آٹھ نسخے ہیں ۔ (مقدمہ الطبقات الکبریٰ ۱ : ۱۱۔ ۱۲) اس لئے اگر ’’ الطبقات الکبریٰ  ‘‘ کے مطبوعہ نسخے میں یہ روایت نہیں ہے تو ممکن ہے یہ روایت کسی دوسرے غیر مطبوعہ نسخے میں ہو، کیونکہ متقدمین کی کتب کے نسخوں میں عموماً اس طرح کی کمی بیشی پائی جاتی ہے ، خود زبیر علی زئی نے متعدد کتب کی کئی ایسی روایات وعبارات سے استدلال کیاہے جو کہ ان کتب کے مطبوعہ نسخوں میں نہیں ملتیں ، لیکن اس کے باوجود زبیر علی زئی نے ان کو محض یہ کہہ کر قبول کرلیا کہ دیگر محدثین (حافظ ابن حجر ؒ وغیرہ) نے ان کتب سے یہ روایات وعبارات نقل کی ہیں ، اس لئے ان محدثین کی نقل کو رد کر دینا محل نظر ہے ۔ (دیکھئے  : ’’ماہنامہ الحدیث‘‘ ش ۱۱ :ص ۱۹،ش ۲۱ :ص۲۰،ش ۴۳ :ص ۷)

یہاں بھی جب حافظ ذہبیؒ ، حافظ ابن حجرؒ ، اور حافظ صالحیؒ وغیرہ مستند محدثین امام محمد بن سعد ؒ کی ‘‘ الطبقات’’ سے یہ روایت نقل کر رہے ہیں ، تو پھر علی زئی کس لئے ان کی اس نقل کردہ روایت کو قبول کرنے سے پس وپیش کر رہے ہیں ؟

اور اگر یہ تسلیم بھی کرلیں کہ مذکورہ روایت امام محمد بن سعد کی کسی نسخے ’’ الطبقات‘‘ میں موجود نہیں ہے تو بھی اس روایت پر کوئی زد نہیں پڑتی ، کیونکہ امام حاکم الکبیر ؒ کی’’الاسماءوالکنیٰ‘‘ اور امام عبد الرحمٰن بن محمد بن فضالۃ نیشاپوریؒ کی کتاب ’’ فضل أبی حنیفۃ‘‘ میں یہ روایت امام محمد بن سعد تک اور ان سے امام ابو حنیفہ تک بسند صحیح متصل مذکور ہے ، ان دونوں محدثین کی اسناد اوپر متن میں ذکر ہو رہی ہے ۔

[6] رواۃ کی تحقیق : پہلے راوی  امام ابو احمد الحاکم الکبیر ؒ (م۳۷۸؁ھ)  مشہور ثقہ،ثبت محدث ہیں۔(سیر : ج ۱۶: ص ۳۷۰)

دوسرے راوی ابوبکر بن ابی عمر و ؒہے۔

اعتراض :   حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد نے مذکورہ سند کے پہلے راوی (ابوبکر بن ابی عمرو المعدلؒ ) پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : اس کی توثیق نامعلوم ہے، لہذا یہ سند ابن سعد ؒ سے ثابت نہیں ہے۔ (ماہنامہ الحدیث :ش ۱۷، ص۳۰)

جواب :     یہ امام الحاکم الکبیر ؒ کے استاد ہیں ، اور امام موصوف نے ان کو یہاں صراحتاً  ’’المعدّل‘‘ قرار دیا ہے ، جو کہ باقرار علمائے غیر مقلدین ان کی توثیق کو مستلزم ہے،  چنانچہ نامور غیر مقلد عالم مولانا ارشاد الحق اثری نے بحوالہ امام سمعانیؒ (م۵۶۲؁ھ) لکھا ہے : المعدل اس راوی کا نام ہے جس کی تعدیل اور تزکیہ بیان ہوا ہو اور اس کی شہادت مقبول ہو۔ (مقالات ۲ : ۲۶۸،۲۶۹) نیز مولانا اثری نے زبیر علی زئی (جنہوں نے اسی طرح کے ایک اور راوی پر بھی یہی اعتراض کیا تھا،ان) کے رد میں لکھا ہے : المعدل کسی ضعیف کا لقب نہیں بلکہ اس کا لقب ہے جو عادل اور قابل قبول ہو ، تو اس کی عدالت اور توثیق کا انکار محض مجادلہ ہے ۔ (ایضاً)  معلوم ہوا کہ خود غیر مقلدین اصول کی روشنی میں زئی صاحب کا اعتراض باطل ہے۔

نیز اس سند کے بعد اس روایت کی جو دوسری سند (’’ فضل أبی حنیفۃ‘‘ کی)مذکور ہے ، اس میں ابو سلیمان محمد بن سلیمان بن یزید الدلّال (م۳۸۶؁ھ)[ثقہ]، ابو بکر المعدل کے متابع موجود ہیں ، جو کہ امام ابویعلیٰ خلیلی ؒ (م۴۴۶؁ھ)وغیرہ محدثین کے معتمد علیہ استاذ ہیں  اور حافظ قاسم بن قُطْلُوْبَغَاؒ نے آپ ؒ کو ثقات میں شمار کیا ہیں ۔ (دیکھئے : فضل أبی حنیفۃ  بحوالہ التدوین فی أخبار قزوین ۱ : ۲۹۸، الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث : ج۲ : ص ۷۳۶، کتاب الثقات للقاسم: ج۸ : ص ۳۲۴) لہذا اس وجہ سے بھی زبیر علی زئی کا اعتراض مردود ہے۔

تیسرے راوی ابوبکر عبداللہ بن محمد بن خالد القاضی الرازی الجبال ہے۔ اور امام ابو سعد عبد الکریم بن محمد سمعانی ؒ (۵۶۲ھ) ان کے تذکرۃ میں لکھتے ہیں ’’واحادیث ابی بکر مستقیمۃ‘‘امام ابوبکر رازی الحبال ؒ کی روایت کردہ احادیث درست ہیں ۔(کتاب الانساب : ۲ : ۱۷ ، مادہ الحبال ) لہذا آپ ؒ بھی معتبر ہیں۔

نیز دیکھئے ( التدوین فی اخبار قزوین :ج۳ :ص ۲۴۴)

چوتھے راوی  امام ابن ابی الدنیاؒ (م۲۸۱؁ھ) نامور صاحب التصانیف محدث ہیں ۔ امام ابو حاتم ؒ نے ان کو صدوق قرار دیا ہے ۔ (الجرح والتعدیل :ج۵ :ص ۱۹۳)

پانچوے راوی  امام محمد بن سعد ؒ (م۲۳۰؁ھ)  جن کو حافظ ذہبی ؒ نے الحافظ ، العلامۃ ، الحجۃکہا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء :ج۱۰ : ص۶۶۴) اور سیف بن جابر کی توثیق گزرچکی۔لہذا یہ ’ الاسماء والکنی ‘ والی سند بالکل صحیح ہے۔ الحمدللہ

 

[7] ( التدوین فی اخبار قزوین :ج۳ : ص۱۵۲، ۱۵۳ ، تاریخ الاسلام للذہبیؒ:ج۹:ص ۴۸۶، ۴۸۷ ، تاریخ بغداد:ج۵، ج۳۵۳، ترجمۃ احمد بن موسیٰ بن العباس)

[8] یہ سند کے تمام راویوں کا تذکرہ ’ الاسماء والکنی ‘ والی سند کی راویوں کی توثیق کے تحت  گزرچکا۔

[9] اعتراض :  ریئس احمد سلفی صاحب لکھتے ہیں کہ (یہ راوی) آخری عمر میں حفظ سے محروم  ہوگیا اور( نیزریئس صاحب نےنقل کیا کہ) علماء حدیث نے اسے ساقط قرار دیا۔(اللمحات : ج۱ : ص ۱۴۹)

الجواب :      حافظ ابوبکر ابن الجعابی ؒ (م۳۵۵؁ھ) مشہور امام،حافظ،محدث اور امام الجرح والتعدیل اور  علل حدیث کے معرفت کے امام ہیں۔آپ ؒ ۴ لاکھ (۴۰۰۰۰۰)حدیثوں کے حافظ ہیں۔ (تاریخ بغداد : ج۳: ص ۲۳۸،و اسنادہ صحیح)،  اور جمہور علماء کے نزدیک ثقہ،حافظ،متقن  ہیں۔اقوال ملاحظہ فرمائے : 

امام ابو الحسن الدارقطنی ؒ (م۳۸۵؁ھ) فرماتے ہیں : کہ ’’ ما سَمِعْتُ فيه إلا خيرًا ‘‘ میں ان کے بارے میں صرٖف خیر ہی جانتا ہو ۔(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله : ج ۲ : ص ۶۰۹،تاریخ بغداد وغیرہ) امام ابو الحسین یحیی بن علی بن عبد اللہ،المعردف  الرشید العطار ؒ (م۶۶۲؁ھ)  نے امام ابو بکر ابن الجعابی ؒ کو ’’حفاظ اور اکابر‘‘ میں شمار کیا ہیں اور فرمایا کہ ’’ حافظٌ جليلٌ ومصنف نبيلٌ ‘‘ آپؒ  جلیل  قدر حافظ الحدیث اور عمدہ مصنف ہیں۔(نزهة الناظر في ذكر من حدث عن أبي القاسم البغوي من الحفاظ والأكابر: ص ۱۱۷)

القاضي أَبُو عَلِيّ التَّنُوخي (م۳۸۴؁ھ)  کہتے ہیں ’’ما شاهدنا أحفظ من أبي بكر بن الجعابيّ. وسمعت من يقول إنه يحفظ مائتي ألف حديث، ويجيب في مثلها، إلا أنه كان يفضل الحفاظ، فإنه كان يسوق المتون بألفاظها، وأكثر الحفاظ يتسامحون في ذلك وإن اثبتوا المتن، وإلا ذكروا لفظة منه أو طرفا، وقالوا: وذكر الحديث. وكان يزيد عليهم بحفظه المقطوع والمرسل والحكايات والأخبار، ولعله كان يحفظ من هذا قريبًا مما يحفظ من الحديث المسند الذي يتفاخر الحفاظ بحفظه. وكان إماما في المعرفة بعلل الحديث، وثقات الرجال من معتليهم وضعفائهم وأسمائهم وأنسابهم؛ وكناهم ومواليدهم، وأوقات وفاتهم، ومذاهبهم، وما يطعن به على كل واحد، وما يوصف به من السداد، وكان في آخر عمره قد انتهى هذا العلم إليه. حتى لم يبق في زمانه من يتقدمه فيه في الدنيا ‘‘ ہم نے ابو بکر الجعابی سے زیادہ حافظہ والا شخص نہیں دیکھا، میں نے کسی کو کہتے ہوئے سنا کہ انہیں  دو لاکھ حدیثیں یاد ہیں ، اور اتنی ہی حدیثوں میں وہ جواب دیتے ہیں، مزید یہ کہ انہیں دوسرے حافظین حدیث پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ متن حدیث کے بعینہٖ اور مکمل الفاظ نقل کرتے ہیں، جبکہ اکثر حفاظ حدیث اس بارے میں چشم پوشی سے کام لیتے ہیں ،اگر چہ وہ بھی متن کو بیان کرتے ہیں مگر اس میں سے ایک آدھ لفظ نقل کرکے کہہ دیتے ہیں کہ بقیہ حدیث ذکر کی، نیز ان کو دوسرے حفاظ حدیث پر یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ وہ ، حدیث مقطوع، مرسل ، حکایات و واقعات کے بھی حافظ ہیں ، اور شاید یہ سب چیزیں بھی ان کو اتنی ہی یاد ہوں جتنی کہ مسند حدیثیں یاد ہیں ، جن کے حفظ پر حفاظ حدیث آپس میں فخر کرتے ہیں ، اور وہ حدیث کی علتوں ، ثقہ ومتکلم فیہ اور ضعیف راویان حدیث ، اور ان کے نام ونسب ، کنیت ، تاریخ پیدائش ووفات ، ان کے مذاہب ، ان پر کی گئی جروحات اور ان کے مناسب حکم کے جاننے میں بھی امام تھے ، اپنی آخری عمر میں وہ اس علم کی انتہاء کو پہنچ گئے تھے ، یہاں تک کہ ان کے زمانہ میں ،علم حدیث میں دنیا بھر میں ان سے آگے کوئی نہیں تھا۔   (تاریخ بغداد : ج۳: ص ۲۳۸)،  

حافظ ابو الربیع الکلاعی ؒ(م۶۳۴؁ھ) نے آپ کی حدیث کے بارے میں کہا کہ’’هذا حديث حسن عال معروف الرجال ‘‘۔(المسلسلات من الأحاديث والآثار: ص ۴۶) اور اہل حدیثوں کے محدث زبیر علی زئی نے متعدد مقامات پر یہ تصریح کی ہے کہ اگر کوئی محدث کسی روایت یا اس کی سند کو صحیح یا حسن قرار دے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کی سند کا ہر ہر راوی اس محدث کے نزدیک ثقہ یا صدوق ہے ، اور اس کے بعد اس سند کے کسی راوی کو مجہول کہنا غلط ہوتا  ہے ۔ (الحدیث ۳۲ : ۱۴، نور العینین ، ص۵۳، نصر الباری ، ص۱۷۲، القول المتین ، ص۲۰ وغیرہ ) یہی بات کفایت اللہ سنابلی نے بھی کہی ہیں۔(انوار البدر : ص۲۴۶)  معلوم ہوا کہ حافظ ابو الربیع الکلاعی ؒ نے حافظ جعابی ؒ کی توثیق کی ہیں۔

 الامام الحافظ ابن الجوزی ؒ (م۵۹۷؁ھ) آپ ؒ کو أَحَدَ الْحُفَّاظِ الْمُجَوِّدِينَبہترین حافظین حدیث میں سے ایک قرار دیتے ہیں نیز آپ کو ’’ الحث على حفظ العلم وذكر كبار الحفاظ ‘‘  اور ’’اکابر‘‘  میں بھی شمار کیا ہیں۔(ص ۹۸،۱۰۵)،اور اپنی ایک اور کتاب ’المنتظم‘ میں محمد بن ابراہیم البرتی کے ترجمے میں آپ کو ’احادیث مستقیمۃ‘ نقل کرنے والا کہا ہے۔(ج۱۳: ص ۲۵۴) حافظ ابو علی النیساپوری ؒ (م۳۶۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ’’۔۔۔ولا رأيت في أصحابنا أحفظ من أبي بكر الجعابي ‘‘  میں نے ہمارے اصحاب میں ابوبکر ابن الجعابیؒ سےزیادہ حافظہ والا کسی کو نہیں دیکھا۔ امام رافعی ؒ (م۶۲۳؁ھ) کہتے ہیں کہ’’ كان إماما في المعرفة بعلل الحديث وثقات الرجال وضعفائهم وأسمائهم وكناهم وأوقات وفاتهم وقد انتهى إليه هذا العلم في آخر عمره حتى لم يبقى في زمانه من لم يتقدمه فيه الدنيا ‘‘حدیث کی علتوں ، ثقہ و ضعیف راویان حدیث ، اور ان کے نام وکنیت ، تاریخ پیدائش ووفات کے جاننے میں امام تھے ، اپنی آخری عمر میں وہ اس علم کی انتہاء کو پہنچ گئے تھے ، یہاں تک کہ ان کے زمانہ میں ،علم حدیث میں دنیا بھر میں ان سے آگے کوئی نہیں تھا۔ (التدوين في أخبار قزوين : ج ۱ : ص ۴۸۱-۴۸۲)،امام ابو عبداللہ الحاکم ؒ(م۴۰۵؁ھ) آپ ؒکو ’’ الْحَافِظُ الْأَوْحَدُ ‘‘ کہتے ہیں اور آپ کی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں۔حافظ الذہبیؒ نے بھی آپ کی حدیث کو صحیح کہا ہے۔(المستدرک للحاکم  مع تلخیص للذہبی : ج۳: ص ۲۷۲، حدیث نمبر ۵۰۶۴)، حافظ ابن کثیر ؒ (م۷۷۴؁ھ) فرماتے ہیں : کہ ’’ وكان حافظا مكثرا، يقال إنه كان يحفظ أربعمائة ألف حديث بأسانيدها ومتونها، ويذاكر بستمائة ألف حديث ويحفظ من المراسيل والمقاطيع والحكايات قريبا من ذلك، ويحفظ أسماء الرجال وجرحهم وتعديلهم، وأوقات وفياتهم ومذاهبهم، حتى تقدم على أهل زمانه، وفاق سائر أقرانه.وكان يجلس للإملاء فيزدحم الناس عند منزله، وإنما كان يملي من حفظه إسناد الحديث ومتنه جيدا محررا صحيحا ‘‘وہ بہت زیادہ حدیثوں کے حافظ تھے، کہا جاتا ہے ان کو چار لاکھ حدیثیں مع سند ومتن یاد تھیں، اور چھ لاکھ حدیثوں سے مذاکرہ کرتے تھے ، اور مقطوع ومراسیل اور حکایات بھی تقریباً اتنی ہی حفظ تھیں، نیز راویوں کے نام ، ان پر کی گئی جرح وتعدیل ،ان کی تاریخ وفات اور ان کے مذاہب بھی ازبر تھے، یہاں تک وہ اپنے ہمعصروں اور ساتھیوں پر فوقیت لے گئے ، جب وہ حدیثیں لکھ وانے بیٹھتے تو ان کے گھر کے پاس لوگوں کی بھیڑ لگ جاتی ، وہ اپنے حافظہ سے حدیث کی سند ومتن بہت ہی اچھی طرح لکھواتے تھے۔ (البدایۃ و النہایۃ : ج ۱۵ : ص ۲۸۶-۲۸۷)،

حافظ الذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ) آپ ؒ  کو ’’حافظ ،بارع،علامہ،متقن، مَشْهُور مُحَقّق ، اور أحد الحفاظ المجودين،حافظ الزمانہ، فريد زمانه ‘‘  قرار دیتے ہیں۔ (سیر : ج ۱۶ : ص ۸۸، دیوان الضعفاء : رقم ۳۹۰۸،تاریخ الاسلام : ج ۸ : ص ۸۴،المغنی : رقم ۵۸۷۱،تذکرۃ الحفاظ : ج ۳ : ص ۹۲،میزان الاعتدال:ج۳: ص ۶۳۰)،امام ابن تغری بردی ؒ (م۸۷۴؁ھ) لکھتے ہیں کہ ’’ الجعابىّ التميمىّ البغدادىّ الحافظ قاضى الموصل، سمع الكثير ورحل وكان حافظ زمانه ‘‘ ۔ (النجوم الزاهرة: ج ۴ : ص ۱۲) امام برقانی ؒ(م۴۲۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ ’’ ما علمتُ فيه إلا خيرًا ‘‘ میں ان کے بارے میں صرٖف خیر ہی جانتا ہوں۔امام سبط ابن جوزی ؒ (م۶۵۴؁ھ) کہتے ہیں کہ’’ وكان أحدَ الحُفَّاظ المجَوِّدين ، وكان أحفظَ أهل بغداد، وأعرفَهم بعلل الحديث، وأسماء الرجال وأنسابهم وكُناهم وضعفائهم، وانتهى إليه العلم حتى لم يبق في زمانه مَن يتقدَّمه فيه في الدنيا ‘‘وہ بہترین حافظین حدیث میں سے ایک تھے،  وہ اہل بغداد کے سب سے بڑے حافظ حدیث، اورحدیث کی علتوں، راویوں کے نام ،نسب وکنیت، اور ضعفاء کے بارے میں ، اہل بغداد میں سب سے زیادہ معرفت رکھنے والے تھے، وہ اس علم میں منتہی تھے یہاں تک کہ پوری دنیا میں ان کے زمانہ میں کوئی ان سے آگے نہیں رہ گیا تھا۔  (مرآة الزمان في تواريخ الأعيان: ج ۱۷ : ص ۳۷۷-۳۷۸) تقریباً یہی بات  امام الصفدی ؒ (م۷۶۴؁ھ) اور امام ابو سعد السمعانی ؒ (م۵۶۲؁ھ) نے بھی کہی ہیں۔اور حافظ السمعانیؒ نے كان أحد الحفاظ المجودين، والمشهورين بالحفظ والذكاءوہ بہترین حافظین حدیث ،اور حفظ وذکاء میں مشہور لوگوں میں سے ایک  تھے۔ ( الوافي بالوفيات: ج ۴ : ص ۱۷۰،الانساب : ج ۳ : ص ۲۸۷)، حافظ ابن عبد الہادی ؒ (م۷۴۴؁ھ) آپ ؒ کو الحافظ البارع، فريد عصرهکہتے ہیں۔(طبقات علماء حدیث : ج۳: ص ۱۱۷) حافظ خلیلی ؒ (م۴۴۶؁ھ)  آپ ؒ کو ثقہ،عالم اور ’الحفاظ الكبار‘ میں سے مانتے ہیں۔ ( الإرشاد في معرفة علماء الحديث: ج ۲ : ص ۵۷۹، ۶۱۲-۶۱۳) معلوم ہو ا کہ آپ ؒ  ثقہ ،حافظ اور متقن ہیں۔

اختلاط کی بحث :

امام جعابی ؒ پر  جرح ان کے اختلاط کی وجہ سے ہوئی ہیں۔چناچہ امام ابو عبد الرحمٰن السلمی ؒ (م۴۱۲؁ھ) فرماتے ہیں کہ’’ سألت الدَّارَقُطْنِيّ عن أبي بكر الجعابي هل تكلم فيه إلا بسبب المذهب؟ فقال: خلط ‘‘امام دارقطنی ؒ سے پوچھا کہ کیا  ابو بکر الجعابیؒ پر (ان کے)مذہب کی وجہ سے کلام کیا گیا ہیں ؟ تو امام دارقطنی ؒ نے جواب دیا   کہ وہ مختلط ہو گئے (تھے)۔ یعنی ان پر اختلاط کی وجہ سے کلام کیا گیا ہیں۔(سؤالات السلمی : رقم ۳۹۹) اور اختلاط سے پہلے وہ بالکل ثقہ  تھے۔جیسا کہ خود امام دارقطنی ؒ نے فرمایا کہ  ’’ ما سَمِعْتُ فيه إلا خيرًا ‘‘ میں ان کے بارے میں صرٖف خیر ہی جانتا ہو۔جس کا حوالہ حافظ جعابی ؒ کی توثیق کے تحت گزرچکا۔معلوم ہوا کہ اختلاط سے  پہلے بالکل معتبر تھے۔ امام حاکم کے قول سے بھی یہی معلوم ہوتا ہیں۔امام ابو عبد اللہ الحاکم ؒ   (م۴۰۵؁ھ)  کہتے ہیں کہ ’’ قلتُ لأبي الحسن من ذا يبلغني عن أبي بكر ابن الجعابي أنه تغير عما عهدنا؟ فقال: وأي تغير ‘‘ میں نے امام ابو الحسن الدارقطنی ؒ (م۳۸۵؁ھ)سے  کہا کہ’یہ جعابی ؒ (کےتعلق )سے مجھے کیا بات پہنچی ہے کہ جس حالت پر ہم نے ان کوپایا تھا،وہ اس سے بدل گئے ہیں ؟ امام  الدارقطنی ؒ کہتے کہ (ان کی حالت) بہت بدل گئی ۔پھر آگے امام دارقطنی ؒ نےان پر(اختلاط کی وجہ سے)جھوٹ  کی تہمت بھی لگائی  ہے۔ معلوم ہوا کہ  جھوٹ کی تہمت اختلاط کی وجہ سےتھی ۔لیکن موصوف ریئس صاحب نے اسے ذکر نہیں کیا۔

آگے امام الحاکم نے ان ایک سوال یہ بھی کیا کہ ’’ قلت لأبي الحسن وضح  لك أن  أبا  بكر خلط في الحديث قال أي والله ‘‘ آپ پر واضح ہوگیا کہ ابو بکر ؒ حدیث میں مختلط ہوگئے   ہیں؟   تو انہونے جواب دیا کہ اللہ کی قسم : ہاں۔ (سوالات حاکم للدارقطنی  : رقم ۲۲۵،تاریخ دمشق لا بن عساکر : ج۵۴: ص ۴۲۵،و اسنادہ صحیح)  اس سے پتا چل رہا ہے کہ پہلے یہ بالکل صحیح سالم تھے اور آخری عمر میں وہ  مختلط ہوگئے تھے جس کی وجہ سے تمام حفاظ نے ان  کو ترک کردیا تھا۔(اس پر اور تفصیل آگے آرہی ہے)

کیا حافظ ابوبکر الجعابی ؒ نے نماز  ترک کرد تھی ؟

ریئس صاحب نے یہ بھی نقل کیا کہ یہ نماز  اور دین چھوڑ چکے تھے۔(للمحات : ج۱ : ص ۱۴۹)

الجواب :

اول            تو   جس وجہ سے ان پر یہ الزام لگایا گیا  ہیں وہ عبارت ملاحظہ فرمائں : امام ابو عبد اللہ الحاکم ؒ   (م۴۰۵؁ھ) نےپچھلے سوالات کے ساتھ یہ سوال بھی کیا کہ   ’’قلت: فقد خفت أنّه ترك المذهب؟ قال: ترك الدِّين والصلاة قال لي الثقة من أصحابنا ممّن كان يعاشره: إنّه كان نائمًا، فكتب على رجله كتابة، فكنت أراه إلى ثلاثة أيّام لم يمسه الماء‘‘ مجھے ڈر ہے کہ انہوں نے مذہب چھوڑ دیا ہو ؟ امام دارقطنی ؒ کہتے ہیں  کہ انہوں نے دین اور نماز چھوڑ دیا (تھا)۔(پھر دلیل بیان کرتے ہوئے) امام  الدارقطنی ؒ کہتے ہیں کہ مجھے ہمارے اصحاب میں  سے ایک معتبر آدمی نے خبر دی ہے جو جعابیؒ کے ساتھ رہتے تھے۔کہ جعابی ؒ سوئے ہوئے تھے تو وہ صاحب نے جعابی کے پیر پر (کچھ) لکھ دیا۔تو وہ صاحب کہتے ہیں کہ میں ۳ دن تک ان کے پیر کو دیکھتا رہا ،ان کے پیر کو پانی نہیں لگا۔ (سوالات حاکم للدارقطنی  : رقم ۲۲۵،تاریخ دمشق لا بن عساکر : ج۵۴: ص ۴۲۵،و اسنادہ صحیح) اس عبارت سے امام دارقطنی ؒ نے یہ اخذ کیا کہ حافظ ابوبکر الجعابی ؒ نے نماز ترک کردی تھی۔ حالانکہ یہ بات خود غیر مقلدین کے اصول کےمطابق مقبول نہیں ہے کیونکہ امام دارقطنی ؒ کے شیخ مجہول ہیں۔بغیر  راوی کا نام ذکر  کئے محض اس کو ثقہ کہنے سے غیر مقلدین کے نزدیک  روایت معتبر نہیں ہوتی۔(إرواء الغليل : ج ۵ : ص ۲۴۳،احکام الجنائز : ص۱۵۱)

دوم              اس عبارت میں اس کی بھی وضاحت نہیں  ہے کہ امام ابوبکر الجعابی ؒنے یہ جان بوچھ کر  کیا ہو۔بہت ممکن ہے کہ وہ کسی شرعی ضرورت   یاعذر سے اپنے پیروں کو  نہیں دھوئے ہوں گے۔اس بات کا قوی احتمال اس لئے بھی ہے کیونکہ راوی نے نماز نہ پڑنے کی بات نہیں کی بلکہ  صرف پیروں کو  نہ دھونے کی بات کی ہے۔

سوم           (بقول ریئس صاحب کہ ) اگر مان بھی  لیا جائے کہ انہوں نے نماز ترک کردی تھی،تو یہ اختلاط کی وجہ سے تھا۔جیسا کہ امام ابو عبد اللہ الحاکم ؒ   (م۴۰۵؁ھ)  کے قول’’ من ذا يبلغني عن أبي بكر ابن الجعابي أنه تغير عما عهدنا ‘‘  سے معلوم ہوتا ہے۔اور حالت اختلاط  میں ان کے ضعف کا کون قائل نہیں ہے ؟ نیز امام سبط ابن جوزی ؒ (م۶۵۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ أنه تغير في آخر عمره، [وأمر بإحراق كتبه لأنه] عاشر المتكلّمين، وترك الصلاة والصوم فسقط من عيون البغداديين، فخرج من بغداد إلى دمشق، فأخرجه أهلُها، فرجع إلى بغداد فمات بها في هذه السنة ‘‘  حافظ جعابی ؒ اپنے آخری عمر میں مختلط ہوگئے تھے۔ اور(پھر) انہونے اپنے کتابوں کو جلانے کا حکم دیا کیونکہ وہ متکلمین کی صحبت میں  رہنے لگے تھے اور انہونے نماز اور روزہ ترک کردیا  تھا۔پھر وہ بغدادیوں کی نظروں سے گرگئے۔(یعنی اختلاط کی وجہ سے بغداد کے محدثین نے ان کو ترک کردیا تھا)  پھر وہ بغداد سے دمشق گئے تو دمشق والوں نے بھی ان کو نکال دیا۔(یعنی  دمشق والوں نے بھی ان کو قبول نہیں کیا) پھر وہ بغداد واپس آئے اور بغداد میں (ہی)اسی سال   (م۳۵۵؁ھ) میں فوت ہوئے۔(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان: ج ۱۷ : ص ۳۷۷-۳۷۸)

اس سے چند باتیں معلوم ہوتی ہیں  :

۱)               حافظ جعابیؒ عمر کے باکل آخری حصے میں مختلط ہوئے تھے۔اور امام ابو نعیم ؒ جن ہوں نے ان سے یہ روایت  بیان کی ہیں۔انہوں نے جعابی ؒ سے (م۳۴۹؁ھ) میں سماع کیا تھا جو کہ اختلاط سے  پہلے ہیں۔(تاریخ دمشق لا بن  عساکر : ج۵۴ : ص ۴۲۹)

۲)              جعابیؒ میں خرابیاں اختلاط کے بعد پیدا ہوئی ہیں  اور ہماری  روایت اختلاط سے پہلے کی ہے۔لہذا  یہ اعتراض ہی فضول ہے۔

۳)             اس عبارت سے یہ بھی  معلوم ہوتا ہے کہ  اختلاط کے بعد تمام حفاظ نےان کو ترک کردیا تھا۔اس لحاظ سے بھی امام ابو نعیم ؒ (م۴۳۰؁ھ)  کا سماع اختلاط سے پہلے ہی ثابت ہوتا ہے۔والحمد للہ

توٹ :          حافظ الذہبی ؒ  کا بھی ان کو فاسق وغیرہ کہنا    اختلاط کے بعد والی حالت کی وجہ سے  تھا۔

                  الغرض حافظ جعابی ؒ  [قبل اختلاط]  ثقہ، حافظ اور متقن ہیں اور ان پر جرح اختلاط کی وجہ سے ہوئی ہے، اسی  کی وجہ سے ان کو ترک کردیا  گیا تھااور  حافظ ابو نعیم ؒ (م۴۳۰؁ھ)  نے یہ روایت اختلاط سے پہلے سنی ہے ۔لہذا یہ روایت میں حافظ جعابیؒ   ثقہ ہیں۔ واللہ اعلم

[10] مزید توثیق کے لئے دیکھئے : کتا ب الثقات للقاسم بنقُطْلُوْبَغَا  : ج ۲ : ص ۱۱۰۔

[11] نیز حافظ قاسم بنقُطْلُوْبَغَا   ؒ نے آپؒ کو ثقات میں شمار کیا ہیں۔( کتا ب الثقات للقاسم بنقُطْلُوْبَغَا  : ج ۸ : ص۳۰۴)، حافظ ابن عساکر ؒ (م۵۷۱؁ھ) نے آپ کی روایت کو محفوظ اور امام  ابو عوانہ ؒ (م۳۱۶؁ھ) اور حافظ ضیاء الدین المقدسی ؒ (م۶۴۳؁ھ) نے صحیح کہا ہے۔(معجم ابن عساکر : حدیث نمبر ۹۹۸، صحیح ابو عوانہ : حدیث نمبر ۸۷۴۲، الاحادیث المختارہ : ج۲ : ص ۱۴۵) لہذا محمد بن سعد العوفی ؒ ۲۷۶؁ھ) ثقہ ہیں۔ لہذا  الالبانی،ریئس احمد،علی زئی اور کفایت اللہ سنابلی کا اسے ضعیف کہنا باطل اور مردود  ہے۔

[12] حافظ ابن عساکر ؒ (م۵۷۱؁ھ) نے آپ کی روایت کو محفوظ کہا ہے۔(معجم ابن عساکر : حدیث نمبر ۹۹۸) لہذا آپ ؒ بھی ثقہ ہیں۔

[13]  امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا حضرت انس ؓ کو دیکھنے پر زبیر علی زئی اور رئیس احمد ندوی کے اعتراضات کے جوابات:

پہلا اعتراض:

علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ حنفیہ کے مزعوم امام  تابعی نہیں تھے۔ (مقالات : جلد ۶ : صفحہ ۱۶۵)  نیز امام دارقطنیؒ کا قول کہ ’’ امام ابو حنیفہ ؒ نے نا حضرت انس ؒ سے کوئی روایت سنی ہے ، نہ ان کو دیکھا ہے ، بلکہ کسی صحابی سے انہوں نے ملاقات نہیں کی۔ ‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں ’اوثق ہونے کی وجہ سے دارقطنی کے قول کو ہی ترجیح حاصل ہے ’ ۔ (فتاویٰ علمیہ : جلد ۲ : ۴۰۴) اسی قول کو رئیس احمد ندوی نے بھی اللمحات : جلد ۲ : صفحہ ۲۰۸-۲۰۹ میں ذکر کیا ہے ، اور بکواس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’کسی بھی ماہر فن محدث نے حافظ دارقطنی کے اس فیصلہ کے خلاف بادلیل معتبر یہ دعویٰ کرنے کی آج تک جرأت نہیں کی، کہ امام صاحب کا کسی صحابی کو دیکھنا ثابت ہے‘۔

الجواب:

اول         تو رئیس صاحب کی بکواس ہی مردود ہے، کیوں کہ اوپر ۳۴ فقہاء ، محدثین کے حوالے نقل کردئیے گئے ہیں ، جنہوں نے صراحت کی ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے حضرت انس ؓ کو دیکھا ہے اور ۲ صحیح سندوں کے ساتھ خود امام ابو حنیفہ ؒ کا قول نقل کیا گیا ، کہ آپ نے حضرت انس ؓ کو دیکھا ہے ۔

دوم         علی زئی صاحب کا یہ کہنا کہ ‘اوثق ہونے کی وجہ سے دارقطنی کے قول کو ہی ترجیح حاصل ہے’ خود انہیں کے اصول میں باطل ہے۔  کیوں کہ وہ خود اپنا اصول لکھتے ہیں کہ ’ہمارے نزدیک یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ فلاں امام نے فلاں راوی کو کذاب یا ضعیف وغیرہ کہا ہے ، بلکہ اصل مسئلہ صرف یہ ہے کہ جمہور محدثین کس طرف ہیں ؟جب جمہور محدثین سے ایک قول (مثلاً توثیق یا تضعیف ) ثابت ہوجائے ، تو اس کے مقابلہ میں ہر شخص یا بعض اشخاص کی بات مردود ہے اور جرح وتعدیل کے تعارض میں ہمیشہ جمہور محدثین کو ہی ترجیح حاصل ہے ۔‘ (مقالات : جلد ۶ : صفحہ ۱۴۳)

نیز زبیر علی زئی ہدیۃ المسلمین : صفحہ ۱۲ پر ایک مسئلہ میں امام شافعی ؒ کا رد اور جمہور کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ نیت ائمہ ثلاثہ سے ثابت نہیں ہے، لہذا اس سے اجتناب ہی ضروری ہے ۔

موصوف کو اپنے من پسند مسائل میں جمہور کی بات یاد رہی ، لیکن امام صاحب کے تابعی ہونے کے مسئلہ پر صرف دارقطنی اور خطیب بغدادی کے قول نقل کردئیے ، حالانکہ امام دارقطنی ؒ (م ۳۸۵؁ھ) سے پہلے امام ابن سعد ؒ (م ۲۳۰؁ھ)اور امام ابو احمد الحاکم ؒ (م ۳۷۲؁ھ)نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ امام صاحب نے حضرت انس ؒ کو دیکھا ہے اور پھر خطیب کے معاصر حافظ المغرب ابن عبد البرؒ (م ۴۶۳؁ھ)نے واضح کیا کہ امام صاحب نے حضرت انس ؓ کی زیارت کی ہے ، جیسا کہ تفصیل اوپر گذر چکی ہے، لیکن علی زئی صاحب نے یہ ساری تفصیل کو حلوا سمجھ کر کھالیا۔

پھر اگر امام دارقطنیؒ نے رؤیت انس ؓ کا انکار کیا بھی تھا ، تو علی زئی صاحب کو اپنے اصول کے مطابق یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ دارقطنی کے قول کو ان کے بعد والے کتنے محدثین نے قبول کیا ہے ، کیونکہ وہ تو ہر مسئلہ میں جمہور کے قائل ہیں ؟ جبکہ حقیقت کے آئینہ میں خطیب البغدادی ؒ کے قول (کہ امام صاحب نے حضرت انس ؓ کو دیکھا ہے ) کی تائید ۳۴ محدثین نے کی ہے، جن کا ذکر اوپر گزر چکا ۔

مگر افسوس چونکہ زبیر علی زئی کو امام صاحب کا تابعی نہ ہونا ثابت کرنا تھا، تو انہوں نے اپنا اصول خوشی خوشی بھلا دیا اور بیچاری عوام کو دھوکہ دینے کے ساتھ ساتھ احناف سے تعصب اور دوغلی پالیسی  کا بھی ثبوت دیا ہے۔ (اللہ ان کی غلطی کو معاف فرمائے ۔ آمین )

الغرض علی زئی صاحب کا اعتراض خود ان کے اصول کی روشنی میں مردود ہے ۔

دوسرا اعتراض :

علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ ’حنفیہ کے امام ابو حنیفہ نے خود اپنے بارے میں فرمایا کہ میں نے عطاء سے افضل کوئی نہیں دیکھا، ظاہر ہے کہ اس گواہی سے ثابت ہوا کہ امام صاحب نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا تھا ، ورنہ وہ یہ کبھی نہ کہتے : میں نے عطاء سے زیادہ افضل کوئی نہیں دیکھا ۔‘ (مقالات : جلد ۶ : ۱۶۵)  رئیس احمد سلفی لکھتے ہیں کہ’ہم عرض کرچکے ہیں کہ یہ بات امام صاحب سے خود یا ان کے معاصرین سے معتبر سند کے ساتھ منقول نہیں (کہ امام صاحب نے کسی صحابی کو دیکھا ہے ) البتہ امام صاحب کا اپنا یہ ارشاد باسند صحیح ضرور منقول ہے کہ میں عطاء تابعی سے افضل کسی کو نہیں دیکھا ، یعنی میں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ۔‘  (اللمحات : جلد ۲ :صفحہ ۲۰۹)

الجواب :

اول         تو یہ کہ خود امام صاحب ؒ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت انس ؓ کو دیکھا ہے ، لہذا یہ کہنا کہ امام صاحب سے صحیح سند سے مروی نہیں ہے کہ انہوں نے کسی صحابی کو دیکھا ہے ، یہ رئیس صاحب کا جھوٹ ہے ۔

دوم         یہ کہ غیر مقلد علماء کا امام صاحب ؒ کے ارشاد ’ کہ میں نے عطاء سے افضل کسی کو نہیں دیکھا ‘ سے امام صاحب کے تابعی نہ ہونے پر استدلال کرنا مردود ہے ، کیونکہ ان کے ارشاد کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا ، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ میں صحابہ کے علاوہ جتنے لوگوں سے ملا ہوں ، ان میں عطاء سب سے افضل ہیں ، اس کے تفصیلی اور عمدہ جواب کیلئے دیکھئے : حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ کی کتاب ‘امام اعظم ابو حنیفہ کا شرف تابعیت ’ صفحہ : ۱۶۲۔ نیز، غیر مقلدین کا کہنا یہ ہے کہ اگر امام صاحب ؒ نے حضرت انس ؓ کو دیکھا ہوتا ، تو وہ یہ کہتے کہ میں نے حضرت انس ؓ سے افضل کسی کو نہیں دیکھا۔

تو ہم کہتے ہیں کہ امام صاحب نے یہاں پر امام عطاء بن ابی رباح ؒ کی عدالت اور ان کی توثیق کو ذکر کی ہے ، کیوں کہ اس سے پہلے اسی قول میں امام صاحب نےجابر الجعفی کو جھوٹا قرار دیا ہے ، لیکن غیر مقلدین کہتے ہیں کہ یہاں پر امام صاحب کو حضرت انس ؓ کا ذکر کرنا چاہئے تھا، تو سوال یہ ہے کہ اگر امام صاحب ؒ یہاں پر حضرت انس ؓ کا ذکر کرتے تو اس سے کیا فائدہ ہوتا؟

کیوں کہ حضرت انس ؓ  کی عدالت تو پہلے سے ہی ثابت ہے، جبکہ آگے اسی قول میں پہلے امام ابو حنیفہ ؒ نے جابر الجعفی کی عدالت پر جرح کی ہے ۔  ’’ مارأیت أحداً أکذب من جابر الجعفی ولا أفضل من عطاء بن أبی رباح‘‘۔ (علل الصغیر للترمذی : ص۷۳۹)

لہذا جب امام صاحب اپنے قول کے پہلے حصہ میں ایک راوی کی عدالت پر جرح کی ہے ، تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ دوسرے حصہ میں بھی کسی کی عدالت ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ۔اور صحابی کی عدالت کو وہ کیوں ثابت کریں گے ؟ حالانکہ وہ پہلے سے ہی ثابت ہے ، ’’ الصحابہ کلھم عدول‘‘ ۔

ثابت ہوا کہ یہاں پر حضرت انسؓ کا ذکر آنا بھی درست نہیں ہے، لہذا علی زئی اور رئیس ندوی کا وسوسہ مردود ہے ۔

رئیس صاحب کے پیش کردہ دیگر اقوال کا جائزہ :

امام ابو عبد اللہ الحاکم کا حوالہ :

رئیس صاحب لکھتے ہیں کہ امام حاکم (م ۴۰۵؁ھ) نے واضح طور پر امام صاحب کو تابعین کے بعد طبقہ تبع تابعین میں شمار کیا ہے ۔ (اللمحات : جلد ۲ صفحہ ۲۱۵)

الجواب :

رئیس صاحب نے یہاں پر امام حاکم ؒ پر جھوٹ بولا ہے کہ انہوں نے واضح طور پر امام صاحب کو طبقہ تبع تابعین میں شمار کیا ہے ، امام حاکم ؒ (م ۴۰۵؁ھ)کی پوری عبارت ملاحظہ فرمائیے :

امام حاکم ؒ نے عنوان قائم کیا :

ذکر النوع التاسع والأربعین من معرفۃ علوم الحدیث ھذا النوع من ھذہ العلوم معرفۃ الأئمۃ الثقات المشہورین من التابعین وأتباعہم ۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : صفحہ ۲۴۰)

پھر امام حاکم ؒ نے اسی کے تحت امام صاحب ؒ کا ذکر اس طرح کیا ہے :

القاسم بن الولید الھمدانی ، أبان بن تغلب الربعی ، مسعر بن کدام الھلالی، أبو حنیفۃ النعمان بن ثابت التیمی ، مالک بن مغول البجلی ، أبو العمیس عتبہ بن عبد اللہ المسعودی ۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ۲۴۵) غور فرمائیے ! امام حاکم ؒ نے تابعین اور تبع تابعین دونوں کو ایک ہی باب میں بغیر کسی وضاحت کے جمع کردیا ہے ، کیونکہ ان کا اصل مقصد تابعین اور تبع تابعین میں سے ثقات کو ذکر کرنا ہے ۔

لیکن اس کے بارے میں یہ کہنا کہ امام حاکم ؒ نے واضح طور پر امام صاحب کو تبع تابعین کے طبقہ میں شمار کیا ہے ، کتنا صحیح ہے قارئین یہ آپ دیکھ رہے ہیں ۔

ایک سوال اور اس کا جواب :

                   ممکن ہے کہ یہاں پر کوئی غیر مقلد کہے کہ امام صاحب ؒ کا ذکر امام حاکم ؒ جن رواۃ کے ساتھ کیا ہے ، مثلاً :  القاسم بن الولید الھمدانی، أبان بن تغلب الربعی، مسعر بن کدام الھلالی، أبوحنیفۃ النعمان بن ثابت التیمی ، مالک بن مغول البجلی ، أبو العمیس عتبہ بن عبد اللہ المسعود ی۔ یہ تمام کے تمام تبع تابعین ہیں ، لہذا ثابت ہوا کہ امام حاکم ؒ کے نزدیک امام صاحب ؒ تبع تابعین ہیں۔

الجواب :

اگر بات یہی ہے ، تو اسی کتاب کے صفحہ : ۲۵۴پر امام حاکم ؒ نے عنوان باندھا ہے کہ :  ذکر النوع الحادی والخمسین من علوم الحدیث ھذا النوع من ھذہ العلوم معرفۃ جماعۃ من الرواۃ التابعین، فمن بعدھم لم یحتج بحدیثھم فی الصحیح ولم یسقطوا۔

پھرصفحہ : ۲۵۵پر امام صاحب ؒ کا ذکر اس طرح کیا ہے :  أشعث بن سوار الثقفی، محمد بن سالم أبو سھل ، عبد اللہ بن شبرمۃ الضبی ، أبو حنیفۃ النعمان بن ثابت ،بشیر بن سلمان النہدی ۔ غور فرمائیے ! اس باب میں امام صاحب کا ذکر امام حاکم ؒ نے جن رواۃ کے ساتھ کیا ہے وہ تمام کے تمام تابعین ہیں، تو کیا غیر مقلدین اب امام صاحب ؒ کو تابعین شمار کریں گے ۔

نوٹ:

امام حاکم ؒ کے حوالہ سے ، رئیس صاحب امام صاحب کو تابعین ثابت کرنا چاہ رہے تھے، لیکن وہ تو نہ کر سکے، البتہ یہ ضرور ثابت کربیٹھے کہ امام حاکم ؒ کے نزدیک امام ابوحنیفہ ؒ ثقہ ، ائمہ میں سے ہیں ، اور ان کی حدیث ساقط بھی نہیں ہے ۔ الحمدللہ۔

حافظ ابو جعفر محمد بن عبد اللہ قائنی کا قول :

رئیس  ندوی سلفی صاحب لکھتے ہیں کہ حافظ ابو جعفر محمد بن عبد اللہ قائنی نے بیان کیا ہے کہ میں نے خواب میں رسول اللہ ﷺ سے چند اماموں بشمول امام ابو حنیفہ کا نام لے کر کہا تھا کہ یہ تابعین میں سے ہیں ؟ یعنی امام صاحب تابعی نہیں ہیں ۔ (اللمحات : جلد ۲ : ۲۱۶)

الجواب :

اول         تو اہل حدیثوں سے گزارش ہے کہ حافظ ابو جعفر قائنی ؒ کا صحیح سند کے ساتھ حوالہ پیش کریں ۔

دوم          یہ کے خود غیر مقلدین کے نزدیک خواب سے کوئی شرعی مسئلہ حل نہیں ہوتا، چنانچہ آپ کے مسلک کے سابق امیر ، اسماعیل سلفی صاحب لکھتے ہیں کہ خواب اور کشف کا ظہور جب غیر نبی سے ہو، تو صاحب کشف ممکن ہے اس پر یقین کرلے، عامۃ المسلمین اس کے پابند نہیں ۔ (مسئلہ حیات النبی ﷺ : صفحہ ۴۲) اسی طرح ایک خواب کے بارے میں اہل حدیث محدث عبید اللہ مبارکپوری صاحب لکھتے ہیں کہ ’چونکہ یہ ایک محض خواب ہے، اس لئے اس سے کوئی حکم ثابت نہیں ہوسکتا ، اور نہ کسی مسئلہ پر استدلال کیا جاسکتا ہے ۔ (فتاویٰ عبید اللہ مبارکپوری : جلد ۲ : صفحہ ۵۲۶-۵۲۷) لہذا رئیس صاحب کا اعتراض خود ان کے مسلک کے اصول کی روشنی میں مردود ہے ۔ 

رئیس صاحب کا ابن عبد البر ، ابن حزم ، خطیب البغدادی ، ابن الاثیر جزری ، نووی ، ابن الجوزی اور دیلمی رحمہم اللہ کو زبردستی امام صاحب کو غیر تابعی کہنے والوں میں شمار کرنا :

-                 حافظ ابن عبد البر ؒ کا حوالہ دیتے ہوئے ، رئیس صاحب لکھتے ہیں کہ انہوں بصراحت امام صاحب کو  غیر تابعی کہنے کے ساتھ حافظ قائنی کے وہ اشعار بھی بطورحجت نقل کئے ہیں ، جن کا حاصل یہ ہے کہ امام صاحب تابعی نہیں ہیں ۔ (اللمحات : جلد ۲ : صفحہ ۲۱۷)

الجواب :

اول         تو امام اہل حدیث ابو القاسم بنارسی کہتے ہیں کہ ‘نقل امر اس بات کو مستلزم نہیں، کہ ناقل کا بھی وہی مذہب ہو۔ (دفاع بخاری : صفحہ ۱۴۴)  یعنی اہل حدیثوں کے امام کے نزدیک اگر کوئی محدث کسی بات کو نقل کرے ، تو اس نقل کرنے والے محدث کا اس بات سے متفق ہونا ضروری نہیں ، جس کو اس نے نقل کیا ہے، بلکہ خود رئیس صاحب کہتے ہیں کہ ’’ مگر یہ بارہا عرض کیا گیا کہ ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ ذکر کنندہ اپنی ذکر کردہ بات کو صحیح بھی مانتا ہے ۔ ‘‘ (اللمحات : ج۲: صفحہ ۲۱۸)  لہذا خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں رئیس صاحب کا اعتراض باطل ہے ۔

دوم         یہ کہ خود امام ابن عبد البر ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کے مناقب کو تفصیل سے اپنی کتاب ’الانتقاء‘ میں ذکر فرمایا ہے ، دیکھئے  الانتقاء  :صفحہ ۱۲۲۔یہ خود دلیل ہے کہ وہ قائنی کے قول سے متفق نہیں تھے ، اور خاقانی کا قول بھی جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے ، کیوں کہ جمہور امام صاحب کو ثقہ ، حافظ اور ائمہ میں سے تسلیم کرتے ہیں ۔ (امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا محدثانہ مقام : ص ۳۲۳)

سوم         یہ کہ امام ابن عبد البر ؒ خود امام صاحب ؒ کے تابعی ہونے کے قائل ہیں ، جس کا حوالہ صفحہ :۲۷ پر موجود ہے ، لہذا رئیس صاحب کا اعتراض مردود ہے ۔

­-                ابن حزم ؒ کے حوالہ کے بارے میں عرض ہے کہ ان کی کتاب کے نام کے ساتھ ان کے اصل الفاظ کو بھی نقل کریں ۔

-            خطیب البغدادی کے بارے میں موصوف نے انتہاء کردی ، کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں بعض علماء اہل حدیث نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ زیادہ سے زیادہ یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ خطیب امام صاحب کیلئے رؤیت ِ انس کے معترف تھے ،مگر وہ ثبوت ِ تابعیت کے لئے صرف رؤیت کو جب کافی نہیں سمجھتے ، تو احناف یہ دعویٰ کرنے میں کتنے سچے ہیں کہ خطیب تابعیتِ امام صاحب کے معترف ہیں ؟

پھر خود رئیس صاحب ان بعض اہل حدیث کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ہماری تحقیق یہ ہے کہ امام خطیب ثبوت تابعیت کے لئے رؤیت ِصحابی کو کافی سمجھتے   ہیں ‘۔ (اللمحات : جلد ۲: صفحہ ۲۱۸)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یا تو ان بعض علماء اہل حدیث نے غلط بیانی سے کام لیا ہے کہ ’خطیب ثبوت ِ تابعیت کے لئے صرف رؤیت کو جب کافی نہیں سمجھتے ‘ یا رئیس صاحب غلط بیانی کر رہے ہیں کہ ہماری تحقیق یہ ہے کہ امام خطیب ثبوت تابعیت کیلئے رؤیت ِ صحابی کو کافی سمجھتے ہیں ۔  جواب اہل حدیث حضرات کی مجتہد عوام دے گی۔ رئیس صاحب خود ان بعض اہل حدیث علماء کا جواب دینے کے بعد بھی، بے شرم ہوکر لکھا کہ خطیب امام صاحب کے لئے رؤیت ِ صحابی کے اسی طرح منکر ہیں جس طرح امام صاحب اور دوسرے اہل علم ۔ (جلد ۲ : صفحہ ۲۱۸)

سوال یہ ہے کہ ان کو آپ نے کس دلیل کی وجہ سے اس زمرہ میں کھڑا کیا ہے ، جب کے آپ نے ہی لکھا ہے کہ امام خطیب ثبوت ِ تابعیت کے لئے رؤیتِ صحابی کو کافی سمجھتے ہیں ۔ اور پھر آپ کے مسلک کے محدث زبیر علی زئی لکھتے ہیں خطیب نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے انس بن مالک ؓ کو دیکھا ہے ۔ (فتاویٰ علمیہ : جلد ۲ : صفحہ ۴۰۳)اس سے اگر خطیب کے نزدیک امام صاحب کا تابعی ہونا ثابت نہیں ہوتا تو پھر کیا ہوتا ہے ؟

حد ہوتی ہے ، احناف اور علماء احناف سے بغض اور تعصب کی ،اس کے بعد بھی رئیس صاحب لکھتے ہیں ‘لیکن اہل حدیث کے مذکورہ سوال (جس کا وہ خود جواب دے چکے ہیں ) کا احناف نے اب تک کوئی جواب نہیں دیا۔ (ایضاً)  اِس کے سوا اب ہم اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ایسے متعصب شخص کے شر اور تعصب سے امت کی حفاظت فرمائے۔ آمین

قارئین سے گزارش ہے کہ اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ اس شخص نے اس کتاب میں کتنی نا انصافیوں اور بد دیانتیوں سے کام لیا ہوگا۔ (اللہ اس کی خطاؤں کو معاف فرمائے ، آمین )

-          موصوف نے ابن الاثیر جزری ؒ کا قول نقل کیا کہ امام صاحب کی کسی صحابی سے نا ملاقات ثابت ہے ، اور نا ان سے روایت کرنا، امام صاحب کے اصحاب کہتے ہیں کہ انہوں صحابہ کی ایک جماعت سے ملاقات کی اور ان سے روایت بھی کی ہے ، مگر یہ بات یہ اہل نقل کے نزدیک ثابت نہیں ہے ۔ (جلد ۲ : صفحہ ۲۱۹)

جہا ں تک صحابہ سے روایت کرنے کی بات ہے ، تو اس کی بحث آئندہ شماروں  میں آئے گی ، لیکن صحابہ سے ملاقات کرنے کی بات کے سلسلہ میں جمہور نے تسلیم کیا ہے کہ امام صاحب ؒ نے صحابہ کو دیکھا ہے ، امام عینی ؒ م ۸۵۵؁ھ اس عبارت کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ : ’’قولہم :لا یثبت ذلک عند أھل النقل ، غیر صحیح ، لأن الخطیب من أھل النقل ، وھو قد نقل أنہ رأی أنس بن مالک ؓ ، مع شدۃ تعصبہ علی الحنفیۃ۔ ‘‘ (بعض علماء) کا قول کہ امام صاحب کا صحابہ سے ملاقات کرنا اہل نقل کے نزدیک ثابت نہیں ہے ، یہ بات صحیح نہیں ہے ، کیونکہ خطیب ؓ اہل نقل میں سے ہیں اور انہوں نے حنفیہ کے ساتھ سخت تعصب کے باوجودنقل کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے حضرت انس ؓ کو دیکھا ہے ۔ (مغانی الاخیار : جلد ۳ : صفحہ ۱۲۵)

پھر اوپر  ۳۴ فقہاء اور محدثین سے ثابت کیا گیا ہے کہ انہوں نے امام صاحب کو تابعی تسلیم کیا ہے اور اہل حدیث محدث زبیر علی زئی صاحب کا حوالہ پہلے گزر چکا کہ جمہور مقابلہ میں ہر شخص کی بات مردود ہے ۔

نیز وہ اہل نقل جن کے نزدیک امام صاحب کا کسی بھی صحابی سے لقاء ثابت نہیں ہے، زبیر علی زئی صاحب کے اصول کے مطابق مجہول ہیں ۔ (مقالات : جلد ۱ صفحہ ۴۵۳، وغیرہ ) لہذا خود اہل حدیث حضرات کے اصول کے مطابق ، رئیس صاحب کا اس سے احتجاج درست نہیں ہے۔

پھر ان سب کے خلاف خود امام ابن الاثیر جزری ؒ(م۶۰۶؁ھ) نے لکھا ہے کہ آپ بغیر کسی اختلاف کے تابعی ہے، جس کا حوالہ صفحہ :۸ پر موجود ہے ، اور اہل حدیث مسلک کے محقق ابو خرّم شہزاد صاحب یہ اصول لکھتے ہیں کہ ‘اگر کسی محدث کے ایک ہی راوی کے بارے میں ۲ مختلف قول ہیں ، تو اس محدث کے دونوں قول آپس میں ٹکرا کر ساقط ہو جائیں گے یا پھر جمہور محدثین کے موافق جو قول ہوگا، وہ لے لیا جائے گا اور دوسرا قول چھوڑ دیا جائے گا۔ (کتاب الضعفاء والمتروکین : جلد ۱ : صفحہ ۹۰)اہل حدیث حضرات کے اس اصول کی روشنی میں ابن الاثیر جزری ؒ کا وہ قول جس میں انہوں نے امام صاحب کو تابعی تسلیم کیا ہے ، جمہور کے موافق ہونے کی وجہ قبول کیا جائے گا اور رئیس صاحب کا نقل کرنا قول کو ساقط کردیا جائے گا۔

اس لحاظ سے بھی رئیس صاحب کا ابن الاثیر جزری کے قول سے استدلال باطل و مردود ہے ۔

-          ابن الجوزی ؒ کا حوالہ میں رئیس کی بدنیتوں کی انتہاء :

رئیس صاحب اپنی بد نیتی کا ثبوت دیتے ہوئے الزام لگاتے ہیں کہ ‘انہوں نے (یعنی ابن الجوزی نے ) اپنی کتاب ’المنتظم ‘  میں امام صاحب کے مفصل  حالات لکھے ہیں ، مگر المنتظم کی جس جلد میں امام صاحب کا ترجمہ ہے ، اسے دائرۃ المعارف حیدر آباد کے ذمہ داروں نے شائع نہیں کیا ، ظن غالب ہے کہ المنتظم میں ابن الجوزی نے امام صاحب کے متعلق امام دارقطنی ، حاکم ، ابن حبان اور خاقانی وغیرہ کے (امام صاحب کے تابعی نہ ہونے کے متعلق )اقوال درج کئے ہوں گے ۔ (جلد ۲ : ۲۲۴)

الجواب :

ابن الجوزی ؒ نے اسی کتاب ’المنتظم ‘ میں لکھا ہے کہ ’رأی أنس بن مالک ‘ امام صاحب نے حضرت أنس ؓ کو دیکھا ہے ۔ (المنتظم : جلد ۸ : صفحہ ۱۲۹) قارئین !اس سے بھی آپ اندازہ لگالیں کہ یہ شخص کتنا متعصب ہے اور بغض وکینہ کا شکار ہے ۔

امام دار قطنی ؒ کا ایک دوسرا قول جس میں انہوں نے اس بات کی وضاحت بھی کی ہے ، کہ امام صاحب نے حضرت أنس ؓ کو دیکھا ہے ، جس کو حافظ سیوطی ؒ نے ’تبییض الصحیفۃ ‘ میں نقل کیا ہے اور اس قول کو موصوف رئیس نے جھوٹا قول قرار دیا۔ (جلد ۲ : صفحہ ۲۱۶) پھر حافظ سیوطی ؒ کا کذاب وغیرہ ہونا بھی نقل کیا ہے ۔

یہاں پر موصوف نے سیوطی کو کذاب تو بتا یا ہے ، لیکن سیوطی سے پہلے دارقطنی کا یہی قول ابن الجوزی ؒ نے نقل کیا ہے،ابن الجوزی ؒ کے الفاظ یہ ہیں :  ’’الحمانی کان یضع الحدیث کذلک، قال الدارقطنی وابو حنیفۃ لم یسمع من أحد من الصحابۃ إنما رأی أنس بن مالک بعینہ ٖ۔‘‘  (العلل المتناھیۃ : جلد ۱ : صفحہ ۱۲۸) اگر چہ سیوطی ؒ کی طرح محدث محمد طاہر پٹنی ،ابن العراق کنانی ؒ وغیرہ نے بھی دارقطنی کے ہی حوالہ سے یہی قول نقل کیا ہے ۔(تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ : ج۱ :ص ۲۷۱، تذکرۃ الموضوعات للفتنی : ص۱۱۱) مگر ابن الجوزیؒ کے اس قول کی تاویل کرتے ہوئے رئیس صاحب کہتے ہیں کہ :

                  ’اس جگہ ابن الجوزی ؒ نے امام دارقطنیؒ کا صرف اتنا قول نقل کیا ہے کہ’ ابن المغلس وضع حدیث کرتا تھا‘  ا سلئے امام صاحب کی طرف اس کی منسوب روایت صحیح نہیں ، اس کے بعد اپنا خیال ذکر کیا کہ امام صاحب کا کسی صحابی سے سماع نہیں ، البتہ صرف ایک صحابی حضرت انس ؓ کو موصوف امام صاحب نے دیکھا  ہے ‘۔ (اللمحات : جلد ۲ : صفحہ ۲۲۴)

بقول رئیس صاحب کے اگر ہم یہ تاویل تسلیم کرلیں، تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ابن الجوزی ؒ امام صاحب کو تابعی تسلیم کرتے ہیں ، لیکن چونکہ رئیس صاحب کو زبردستی کرنی تھی اور امام ابن الجوزی کے قول کو غلط ثابت کرنا تھا، اس لئے موصوف رئیس نے کہا حضرت انسؓ کو دیکھنے کا دارومدار امام صاحب کی ذات پر ہے ، اور امام صاحب سے اس روایت کے ناقل سیف کا حال کتب رجال میں موجود نہیں اور سیف سے روایت ِ مذکورہ کا ناقل ابن سعد کو کہا جاتا ہے جو کہ ایک مشکوک چیز ہے ، حافظ ابن الجوزی امام صاحب ہی کو ساقط الاعتبار قرار دئیے ہوئے ہیں ۔

                  پھر انہوں نے جو یہ لکھا کہ ’’امام صاحب نے اگر چہ کسی سے کچھ نہیں سنا ، مگر ایک صحابی حضرت أنس کو دیکھا ہے ‘‘ وہم کے علاوہ اور کیا ہے ؟ (اللمحات : جلد ۲ : صفحہ ۲۲۵)

                 حالانکہ قارئین آپ غور فرمالیں ، المنتظم کی عبارت کو اور اسی طرح اس العلل المتناہیہ کی عبارت کو، جو کہ رئیس صاحب کے مطابق ابن الجوزی کی عبارت ہے ، ان دونوں کتابوں میں نہ امام صاحب سے مروی روایت موجود ہے اور نہ ابن سعد اور سیف بن جابر کا ذکر ہے ، لیکن زبردستی انہوں نے ابن سعد کی روایت کو ذکر کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے ، جب ابن الجوزیؒ کے نزدیک امام صاحب ؒ ضعیف ہیں، تو امام صاحب کی روایت کا کیا اعتبار ہے۔

                 جبکہ ابن الجوزیؒ نے’المنتظم‘  میں صرف اپنی تحقیق پیش کی ہے، کہ امام صاحب نے حضرت أنس ؓ کو دیکھا ہے وہاں پر ابن سعد وغیرہ کی کوئی ایسی روایت موجود نہیں ہے، لیکن چونکہ موصوف رئیس کو ابن سعد کی روایت کو ذکر کرکے ابن الجوزی ؒ کے قول کو کمزور اور وہم ثابت کرنا تھا، اس لئے رئیس نے یہ باتیں نقل کرکے ابن الجوزی کی بات وہم کرنے کی ناکام کوشش کی۔

                 اور جب اتنے سے رئیس صاحب کا کام نہیں چلا ، تو انہوں نے ابن الجوزی ؒ کو کثیر الوھم بھی قرار دیا ۔ (أیضاً) اور آگے بد دیانتیوں کی انتہاء نہیں ہے ، اپنی طرف سے اصول لکھا ہے کہ ’حضرت انس ؓ کو دیکھنے کا دار ومدار امام صاحب کی ذات پر ہے ‘۔

                 یہ کون سے محدث اور ائمہ جرح وتعدیل کا اصول ہے کہ جب تک کسی راوی کا کسی صحابی کو دیکھنا صحیح سند سے ثابت نہیں ہوتا، تب تک ان کو تابعی تسلیم نہیں کیا جائے گا، چاہے کتنے ہی ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین صراحت کردیں کہ اس نے صحابی کو دیکھا ہے ؟

                 کیا غیر مقلدین ہر تابعی کو اسی اصول کے ذریعہ سے ہی تابعی مانتے ہیں ؟ کیا اہل حدیث فرقہ کے لوگ ہر تابعی کے بارے میں یہ بات صحیح سند سے ثابت کرسکتے ہیں کہ انہوں نے صحابی کو دیکھا ہے ؟ یا پھر یہ اصول صرف امام صاحب ہی کیلئے انہوں نے گھڑ لیا ہے ؟ اللہ ان کو ہدایت عطاء فرمائے ۔ آمین ۔

-                 امام نوویؒ کو بھی متعصب رئیس سلفی نے زبردستی امام صاحب کو تابعین نہ کہنے والوں میں شمار کیا ہے ، حالانکہ امام نووی ؒ (م ۶۷۶؁ھ)نے بھی صراحت کی ہے کہ امام صاحب نے حضرت انس ؓ کو دیکھا ہے ، جس کا حوالہ صفحہ:۲۷ پر موجود ہے ۔

-                 دیلمی ؒ کا بھی حوالہ بے کار ہے ، کیونکہ خود رئیس صاحب اور دیگر علماء اہل حدیث کا اصول گزر چکا کہ ناقل کا کسی چیز کو نقل کرنا، اس بات کو لازم نہیں کرتا کہ وہ ناقل کے نزدیک صحیح ہے۔ لہذا رئیس صاحب کا اعتراض خود اپنے اصول کی روشنی میں مردود ہے ۔

 

[14] ان حوالوں  سے معلوم ہوتا  ہے کہ  امام ابن سعد ؒ (م۲۳۰؁ھ) ،امام الحافظ ابو نعیم ؒ (م۴۳۰؁ھ)اور امام  البیہقی ؒ (م۴۵۸) وغیرہ حافظ  ابوبکر الجعابی ؒ کے قول  ’’مات عبداللہ  بن الحارث بن الجزء الزبیدی  سنۃ سبع وتسعین ‘‘  کو صحیح مانتے ہیں۔والحمد للہ

[15] ریئس احمد سلفی صاحب بحوالہ میزان الاعتدال   لکھتے ہیں کہ ابوبکر  ہلال  ۳۷۹؁ھ)   کذاب ہے۔ (اللمحات : ج ۲ : ص ۲۵۹)

الجواب :

اول             تو میزان کی عبارت اس طرح ہیں کہ ’’ قال ابن غلام الزهري: ادعى لقى شيخ لم يره ‘‘ یعنی ابن غلام الزھری ؒ کہتے ہیں کہ وہ ایسے شیخ سے ملنے  کا دعوی کرتا ہیں جس کو اس نے نہیں دیکھا  ۔ ۲: ص ۳۱۶) اور غیر مقلدین سے ابن غلام الزھری ؒ کی توثیق مطلوب ہیں۔

دوم         یہ کہ  ابن غلام الزھری ؒ کی اصل عبارت اس طرح ہیں کہ ابن غلام الزھری ؒ  فرماتے ہیں کہ ’’ جاءني يومًا بجزء عن محمد بن الحسين بن حميد بن الربيع بن الخراز، فقال: هذا سماعي، قلتُ في أي سنة كتبت عنه؟ قال كتبت عنه بالبصرة قبل الثلاثمئة ‘‘ ابوبکر ہلال ایک دن میرے پاس   محمد بن الحسین بن حمید بن الربیع سے مروی (احادیث کا)  جزء   لےکر آئے پھر کہا کہ یہ(احادیث) میں نے ان سے سنی ہیں۔ ابن غلام الزھری ؒ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپ نے کون سے سال میں ان سے احادیث لکھی ہیں۔تو ابوبکر ہلال ؒ نے کہا کہ  میں نے ان سے بصرہ میں ۳۰۰؁ھ) پہلے احادیث  لکھی ۔(یہ سب سناکر) اب ابن غلام الزھریؒ حمزہ سہمی ؒ  سے کہتے ہیں کہ ’’ قال أبو محمد قلتُ له إياك أن تنطق عنه بشيء لأنه لم يدخل البصرة أصلاً ‘‘  یعنی   ابوبکر ہلال  بصرہ میں سرے سے داخل ہی نہیں ہوئے۔ معلوم ہوا کہ ابن غلام الزھریؒ نے  ابوبکر ہلال   پر  جرح اس لئے کی  کیونکہ ان کے نزدیک ابوبکر ہلال ؒ کبھی بصرہ میں داخل ہی نہیں ہوئے۔

لیکن تحقیق کی روح صحیح بات یہ ہے کہ ابو بکر ہلال بن محمد الرأي بصریؒ ۳۷۹؁ھ)  بصرہ گئے تھے۔ دلائل درج ذیل ہیں ۔

۱)               حافظ ابو سعد احمد بن محمد مالینی ؒ ۴۱۲؁ھ) [ثقہ ،متقن] کہتے کہ ’’ أنا أَبُو بَكْرٍ هِلَالُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الرَّازِيُّ بِالْبَصْرَةَ ‘‘   ابو بکر ہلال بن محمد بن محمد الرازی ؒ نے بصرہ  میں  ہم سے بیان کہا۔(مسند الشہاب القضاعی : حدیث نمبر ۷۵۶،وا سنادہ صحیح)

۲)              امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ)  حافظ ابن السماک ؒ ۴۳۴؁ھ) کے ترجمے میں لکھتے ہیں کہ ابن السماک نے ابو بکرہلال بن محمد سے بصرہ میں حدیثیں سنی۔(تاریخ الاسلام : ج۹ : ص ۵۴۰)

۳)          محمد بن علی بن الطیب ۴۳۶؁ھ)  نے بھی بصرہ میں  ابوبکر ہلال کے موجود ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔(تاریخ بغداد : ج۳ : ص ۳۱۲) ان دلائل سے ابن غلام الزھریؒ کی بات کا غلط  اور ابو بکر ہلال بن محمد کا صدوق ہونا ثابت ہوتا ہے۔

سوم           اس جرح کے ناقل  امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ)  خودابوبکر ہلال بن محمد کو ’’بصری‘‘  لکھا ہے۔ پھر مزید کہتے بھی ہیں کہ ’’ لم أسمع فيه قدحا ‘‘ میں نے ان کے بارے میں کوئی جرح نہیں سنی۔(سیر : ج۱۶: ص ۳۳۹- ۳۴۰، تاریخ الاسلام : ج۲۶: ص ۴۹۲،طبع التوفیقیۃ، و طبع  دار کتاب العربی )  معلوم ہوا کہ  امام ذہبی ؒ  کے نزدیک بھی  ابن غلام الزھریؒ کا قول صحیح نہیں ہے۔

نوٹ :           امام ذہبی ؒ نے ابن صلاحؒ  کا قول نقل کیا ہیں کہ ’’ ضعفوه ‘‘  تو یہ جرح بھی غیر مقلدین کے اصول کے مطابق مردود ہے۔ کیونکہ اس کا جارح (جرح کرنے والا ) مجہول و نا معلوم ہیں۔(مقالات : ج۱ : ص ۴۵۳) پھر یہ جرح بے سند ہے۔اور غیر مقلدین  کے نزدیک بے سند بات جھوٹی ہوتی ہے۔ (نور العینین  : ص ۳۰۸،مقالات ارشاد الحق اثری  : ص ۴۸،سلفی تحقیقی جائزہ : ص ۷۷)   پھر اس جرح کے بھی ناقل امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ)  نے کہا کہ ’’ لم أسمع فيه قدحا ‘‘  جیسا کہ گزرچکا ۔ اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ خود  غیر مقلدین کے اصولوں  کی روشنی میں  ابو بکر ہلال بن محمد ؒ ۳۷۹؁ھ) پر کوئی جرح ثابت نہیں ہیں۔

امام ابو بکر ہلال بن محمد الرأي البصریؒ ۳۷۹؁ھ)  کی توثیق :

امام ذہبی ؒ۷۴۸؁ھ)  آپ ؒ کو ’شیخ ، معمر‘ کہتے ہیں۔(سیر : ج۱۶: ص ۳۳۹- ۳۴۰، تاریخ الاسلام : ج۲۶: ص ۴۹۲،طبع التوفیقیۃ، و طبع  دار کتاب العربی )   شیخ کہنا  غیر مقلدین کے نزدیک راوی کی توثیق ہے ۔  چنانچہ، غیر مقلدین کے شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود صاحب ‘شیخ’ تعدیل کے الفاظ میں شمار کرتے ہیں ۔ (اصطلاحات المحدثین : صفحہ ۱۷) امام ذہبیؒ۷۴۸؁ھ)نے بھی ‘شیخ’ کو تعدیل کے الفاظ قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال : ج ۱ : ص ۳،۴)

بلکہ اہل حدیث عالم ڈاکٹر سہل حسن صاحب لفظِ تعدیل ’شیخ‘ کو ’صدوق‘ اور ’لابأس بہ‘کے درجہ کی تعدیل قرار دیتے ہیں، نیز کہتے ہیں کہ ان کی (یعنی جس راوی کو شیخ کہا جائے، اس کی ) احادیث قابل قبول ہے ۔ (معجم الاصطلاحات: ص ۳۲۴)  اور غیر مقلد عالم ، اقبال احمد ‘بسکوہری’ صاحب بھی جس راوی کو شیخ کہا جائے، اس کی روایت کو قابل اعتبار کہتے ہیں ۔ (علوم الحدیث : ص ۲۸۷، ۲۸۸) معلوم ہوا کہ امام ابوبکر محمد بن ابی اسحاق البخاریؒ کے نزدیک امام امام ابو بکر ہلال بن محمد الرأي البصریؒ کی روایت قابل اعتبار اور قابل قبول ہے ۔

پھر حافظ عبد القادر القرشی ؒ ۷۷۵؁ھ) ،امام الحافظ ابن السماک ۴۳۴؁ھ) وغیرہ   علماء نے کو آپ ؒ کو ’ الإِمَام ابْن أخي الإِمَام ‘،’فقیہ‘ اور کبار علماء  اسلام میں شمار کیا ہیں۔(جواھر المضیہ :  ج ۲ : ص ۲۰۶، الوجیزللسِلفی : ص ۱۲۷، الاشارہ للباجی : ص ۶۶،تحقیق  محمد علي فركوس)

لہذا آپ ؒ صدوق امام  ہیں اور آپ پر جرح مردود ہے۔

 

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 1 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...