*عورتوں کو عید کی نماز کے لئے عید گاہ نہیں جانا چاہئے*
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ «أَنَّهُ كَانَ لَا يُخْرِجُ نِسَاءَهُ فِي الْعِيدَيْنِ» ( مصنف ابن ابی شیبہ رقم ۵٨۴۵ )
حضرت ابن عمرؓ عیدین کے لئے اپنی عورتوں کو نہ بھیجتے تھے۔
یہ روایت سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ۔
راویوں کی مختصر توثیق ملاحظہ کریں :
١) ابو بکر بن ابی شیبہؒ : ثقہ
آپ امام بخاریؒ کے استاد ہیں اور امام بخاری ؒنے بھی ان سے روایتیں نقل کی ہیں ۔
آپ ثقہ ، حافظ ، صاحب تصانیف ہیں ۔ ( تقریب التھذیب ٣۵٧۵ )
٢) وکیع بن جراح ؒ: ثقہ
آپ صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں ۔
آپ ثقہ ، جافظ اور عابد ہیں ( تقریب التھذیب ٧۴١۴ )
٣)سفیان ثوریؒ : ثقہ
آپ صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے ثقہ بالاجماع راوی ہیں ۔
آپ خیر القرون کے ثقہ ، حافظ ، فقیہ ، امام حجت ہیں ( تقریب التھذیب ٢۴۴۵ )
۴) عبد اللہ بن جابرؒ : ثقہ
*یحیی بن معین ؒنے ثقہ کہا ہے ۔( تھذیب التھذیب ٢٨٧ )
*امام البزارؒ نے لا باس بہ کہا ہے ۔ ( تھذیب الکمال ٢٨٣۵ )
*امام ذھبیؒ نے ثقہ کہا ہے ( الکاشف ٢٦۵٩ )
*شیخ شعیب الارنوطؒ فرماتے ہیں : صدوق حسن الحدیث ہیں ( تحریر تقریب التھذیب ٢/١٩٧ ، رقم ٣٢۴۴ )
۵) نافعؒ : ثقہ ( مشہور تابعی )
آپ صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے بالاتفاق ثقہ راوی ہیں ۔
آپ ثقہ ، ثبت ، فقیہ ہیں ( تقریب التھذیب ٧٠٨٦ )
٦) ابن عمر ؓ : صحابی رسول
اعتراض : یہاں ایک اعتراض یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ سند میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ہیں اور محدثین نے ان پر تدلیس کا الزام نقل کیا ہے،اور اس روایت میں وہ صیغہ عن سے روایت کر رہے ہیں لہذا حدیث ضعیف ہوئی۔
جواب :
امام سفیان ثوری عند الجمہور یہ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں جیسا کہ ائمہ حضرات نے ان کو طبقہ ثانیہ میں ذکر کیا ہے۔
(جامع التحصیل فی احکام المراسیل لابی سعيد العلائی ص113،طبقات المدلسین لابن حجر ص64،التعلیق الامین علی کتاب التبیین لاسماء المدلسین لابن العجمی ص92، جزء منظوم فی اسماء المدلسین لبدیع الدین غیرمقلد ص89)
اور طبقہ ثانیہ کی تدلیس عندالمحدثین صحت حدیث کے منافی نہیں ہے۔
جیسا کہ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے پہلے اور دوسرے طبقہ کے مدلس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ قلیل التدلیس ہیں اور انکی روایت صحیح ہوتی ہے ، لہذا فرماتے ہیں :
اﻻﻭﻟﻰ ﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﻮﺻﻒ ﺑﺬﻟﻚ اﻻ ﻧﺎﺩﺭا
اﻟﺜﺎﻧﻴﺔ ﻣﻦ اﺣﺘﻤﻞ اﻻﺋﻤﺔ ﺗﺪﻟﻴﺴﻪ ﻭﺃﺧﺮﺟﻮا ﻟﻪ ﻓﻲ اﻟﺼﺤﻴﺢ ﻻﻣﺎﻣﺘﻪ ﻭﻗﻠﺔ ﺗﺪﻟﻴﺴﻪ
یعنی پہلا طبقہ ان مدلسین کا ہے جن سے بہت کم تدلیس ثابت ہے اور دوسرا وہ ہے جس کی تدلیس کو ائمہ نے محتمل قرار دیا ہے اور الصحیح میں اس کی امامت اور کم تدلیس کرنے کی وجہ سے لی ہے ۔ ( طبقات المدلسین ١/١۵ )
پس یہ روايت صحیح ہے الحمد للہ
نوٹ :مختصر تحقیق پیش کی گئ ہے ، عنقریب مکمل تحقیق پیش کی جائے گی ان شآء اللہ
" جلیل القدر تابعی سیدنا عروہ بن زبیر رحمتہ اللہ علیہ اپنی عورتوں کو عیدین کے لئے جانے نہیں دیتے تھے "
5796 - حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّهُ كَانَ لَا يَدَعُ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِهِ تَخْرُجُ إِلَى فِطْرٍ، وَلَا إِلَى أَضْحَى» ( مصنف ابن ابی شیبہ 5796 )
حضرت عروہ عید الاضحی اور عید الفطر کے لیے اپنی عورتوں کو نہ جانے دیتے تھے.
یہ روایت سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ۔
راویوں کی مختصر توثیق ملاحظہ کریں :
1) ابو بکر بن ابی شیبہؒ : ثقہ
آپ امام بخاری کے استاذ ہیں اور امام بخاری نے بھی ان سے اپنی صحیح میں روایتیں نقل کی ہیں ۔
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ؛
أبو بكر ابن أبي شيبة الكوفي ثقة حافظ صاحب تصانيف ( تقریب التھذیب 3575 )
آپ ثقہ ، حافظ ، صاحب تصانیف ہیں۔
2) ابو اسامة ؒ : ثقہ
امام عجلیؒ فرماتے ہیں ؛
- حَمَّاد بن أُسَامَة أَبُو أُسَامَة كوفى ثِقَة وَكَانَ يعد من حكماء أَصْحَاب الحَدِيث ( الثقات -العجلي 1/318 رقم 352 )
3) ھشام بن عروہؒ : ثقہ
امام ابو حاتمؒ فرماتے ہیں
نا عبد الرحمن قال سئل ابى عن هشام ابن عروة فقال: ثقة امام في الحديث ( الجرح و التعدیل 9/64 )
آپ ثقہ اور امام فی الحدیث ہیں۔
امام عجلیؒ فرماتے ہیں ؛
- هِشَام بن عُرْوَة بن الزبير وَكَانَ ثِقَة ( الثقات 1906 )
آپ ثقہ ہیں ۔
4) عروہ بن زبیرؒ : ثقہ
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں؛
عروة ابن الزبير ابن العوام ابن خويلد الأسدي أبو عبد الله المدني ثقة فقيه
آپ ثقہ فقیہ ہیں ۔ ( تقریب التھذیب 4561 )
یہ روایت سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہے ، الحمد للہ


از : فیصل کریم ( کولکاتا )
خادم مناظر اسلام ، وکیل احناف ، حضرت علامہ و مولانا سید طاہر حسین صاحب گیاوی دامت برکاتہم
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں