نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام اعظم ابوحنیفہ ؒ امام ذہبی ؒ کی نظر میں : میزان الاعتدال کی عبارت اور امام صاحب ؒ کا ترجمہ :

 

 امام اعظم ابوحنیفہ ؒ امام ذہبی ؒ کی نظر میں

 (مناقب ، میزان الاعتدال اور دیوان الضعفاء کی عبارتوں  کا جواب)

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 

الاجماع (PDF ) 

 دیکھیں

میزان الاعتدال  کی عبارت اور امام صاحب ؒ    کا ترجمہ :

میزان میں امام ابو حنیفہ ؒ   کے ترجمے کے اضافہ کے جواب میں محدث  عبد الفتاح ابو غدۃ  ؒ نے بڑی طویل، عمدہ اور علمی بحث فرمائی ہیں ۔ ان کی عبارات کا خلاصہ  ملاحظہ فرمائیں :

(شیخ ) عبد الفتاح (رحمہ اللہ ) کہتے ہیں :

ہذا علی ما فی بعض النسخ ، فإنہ توجد فیہ فی حرف النون ترجمۃ الامام ابی حنیفۃ ، وتوجد فیہ ھذہ اللفظۃ ، وفی بعض النسخ لا أثر لترجمتہ فی المیزان ، ویؤیدہ قول العراقیؒ:  إنہ لم یذکر الذھبیؒ أحداً من الائمۃ المتبوعین ، منہ رحمہ اللہ ۔

یہ عبارت میزان الاعتدال کے اس نسخہ کے مطابق ہے ، جس میں حرف نون کے تحت امام ابو حنیفہ ؒ کے حالات بیان کئے گئے ہیں ، اوراس میں یہ عبارت بھی درج ہے، جبکہ میزان کے دوسرے نسخہ میں سرے سے امام صاحب ؒ کا تذکرہ ہی موجود نہیں ۔

 اورامام عراقی ؒ کے قول :  ’’یقیناً امام ذہبی ؒ نے (میزان الاعتدال میں )ائمہ متبوعین میں سے کسی کا تذکرہ  نہیں کیا‘‘ سے،      (میزان کے )اُس (نسخہ کے درست ہونے ) کی تائید ہوتی ہے(جس میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے )۔

قال عبد الفتاح :

وقد أوسع المؤلف اللکنوی القول جداً فی التدلیل علی دس ترجمۃ أبی حنیفۃ فی بعض نسخ المیزان فی کتابہ ‘غیث الغمام علی حواشی إمام الکلام’ : (ص۱۴۶) ، وذکروجوھا کثیرۃ فی تعزیز نفیھا عن ‘المیزان’ ، أقتصر علی نقل الوجہ الأول منھا، وأحیل القاری ء إلی ما عداہ لطولہ ۔

(شیخ ) عبد الفتاح (رحمہ اللہ ) کہتے ہیں :

میزان کے بعض نسخوں میں کتربیونت کرتے ہوئے، امام ابوحنیفہ ؒ کے حالات بڑھائے جانے پر ،اس کتاب  کے مؤلف ، (علامہ) لکھنویؒ نے، اپنی (دوسری ) کتاب’غیث الغمام علی حواشی إمام الکلام‘  میں بہت تفصیل سے ، مدلل گفتگو کی ہے ۔  اور میزان الاعتدال (کی اصل کتاب )میں آپ ؒ کا ذکر نہ ہونے پر بہت سےدلائل دئیے ہیں ،تفصیل بڑی طویل ہے، اس لئے یہاں صرف ایک دلیل کے ذکرپر اکتفاء کرتا ہوں ، باقی کیلئے اصل کتاب (غیث الغمام ) کی طرف رجوع کیا جائے ۔

قال ؒ :’’ إن ھذہ العبارۃ لیست لھا أثر فی بعض النسخ المعتبرۃ علی مارأیتہ بعینی۔ ویؤیدہ:

قول العراقی فی ’ شرح ألفیتہ‘ : (۳ : ۲۶۰) :’’لکنہ أی ابن عدی ذکر فی کتاب ‘ الکامل ’ کل من تکلم فیہ وإن کان ثقۃ ، وتبعہ علی ذلک الذھبی فی ’المیزان‘ ، إلا أنہ لم یذکر أحداً من الصحابۃ والأیمۃ المتبوعین۔‘‘ انتھی۔

وقول السخاوی فی’شر ح الالفیۃ ‘(ص۴۷۷) مع أنہ أی الذھبی تبع ابن عدی فی إیراد کل من تکلم فیہ ولو کان ثقۃ، لکنہ التزم أن لا یذکر أحدا من الصحابۃ ولا الأیمۃ المتبوعین ۔

وقول السیوطی فی ’ تدریب الراوی شرح تقریب النواوی‘(ص ۵۱۹) : إلا أنہ أی الذھبی لم یذکر أحداً  من الصحابۃ ولا الأیمۃ المتبوعین۔ انتھیٰ

فھذہ العبارات من ھؤلاء الثقات الذین قد مرت أنظارھم علی نسخ ’المیزان‘ الصحیحۃ مرات: تنادی بأعلیٰ النداء علی أنہ لیس فی حرف النون من ‘المیزان’ أثر لترجمۃ أبی حنیفۃ النعمان، فلعلھا من زیادات بعض الناسخین والناقلین فی بعض نسخ’المیزان‘۔

علامہ لکھنویؒ(م۱۳۰۴؁ھ) )فرماتےہیں :

 ’’بعض معتبر نسخوں میں ،جیسا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،اس عبارت کا نام ونشان تک نہیں اور اس (عبارت کے نہ ہونے ) کی تائید درج ذیل (عبارتوں )سے بھی ہوتی ہے :  حافظ عراقیؒ (م۸۰۶؁ھ) ، ’الفیۃ‘ کی شرح میں (جلد۳ : صفحہ ۲۶۰ پر)فرماتے ہیں :

لیکن انہوں نے یعنی ابن عدی ؒ نے (اپنی کتاب)‘الکامل’ میں، ‘ ہر اس (راوی حدیث )کا ذکر کیا ہے ، جس پر جرح کی گئی  ہے ، اگرچہ وہ ثقہ ہو’، اور امام ذہبی ؒ نے بھی ‘میزان ’ میں انہیں کا طرز اپنایا ہے ،البتہ انہوں نے صحابہ کرام اور ائمہ متبوعین کا تذکرہ نہیں کیا۔

حافظ سخاوی ؒ  (م۹۰۲؁ھ)،  بھی الفیۃ (العراقی )کی شرح میں (ص :۴۷۷ پر) فرماتے ہیں :

’’اگرچہ  ذہبیؒ نے (بھی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں)امام ابن عدیؒ کا ہی طرز اختیار کیا ہے کہ ‘ہر متکلم فیہ راوی کو ذکر کریں گے ، چاہے (حقیقت میں ) وہ ثقہ ہو، لیکن انہوں نے اس بات کا التزام کیا ہے کہ وہ کسی صحابی کانہ ہی  ائمہ متبوعین میں سے کسی امام کا ، تذکرہ  کریں گے۔ ‘‘

امام  سیوطی ؒ (م۹۱۱؁ھ) (اپنی کتاب) ’تدریب الراوی شرح تقریب النواوی‘  میں (صفحہ ۵۱۹ پر) فرماتے ہیں :

               ’’ مگر ذہبی ؒ نے ،نہ صحابہ کرام میں سے کسی کا تذکرہ کیا ہے ، نہ ہی ائمہ متبوعین کا‘‘۔  پس،یہ معتبر علماء، جن کی نظروں سےمیزان کی صحیح نسخے متعدد مرتبہ گذرے ہیں، ان کی عبارتیں ببانگِ دہل کہہ رہی ہیں کہ میزان میں حرف النون کے ذیل میں امام ابوحنیفہ ؒ کے تذکرہ کا کوئی وجود ہی نہیں، یہ  یقیناً، میزان کے کسی ناقل  کی کرم فرمائی ہے۔ ‘‘

قال عبد الفتاح : بل قد صرح الذھبی فی مقدمۃ ’ المیزان‘  فقال (۱ : ۳) :

’’ وکذا لا أذکر فی کتابی من الأئمۃ المتبوعین فی الفروع أحداً ، لجلالتہم فی الاسلام ، وعظمتہم فی النفوس ، مثل أبی حنیفۃ والشافعی والبخاری، فإن ذکرت أحداً منہم فأذکرہ علی الانصاف ، ومایضرہ ذلک عند اللہ ولا عند الناس‘‘۔ انتھیٰ

وجاءت فی المطبوعۃ من ’المیزان ‘ ترجمۃ أبی حنیفۃ : (۳ : ۲۳۷) فی سطرین، لیس فیھا دفاع عن أبی حنیفۃ إطلاقاً، وإنما تحط علی جرحہ وتضعیفہ، وکلام الذھبی فی المقدمۃ ینفی وجودھا علی تلک الصفۃ ، لأنھا تحمل القدح لا الانصاف۔

(شیخ ) عبد الفتاح ؒ کہتے ہیں :

بلکہ خود امام ذہبیؒ نے میزان الاعتدال کے مقدمہ میں صراحتاً کہا ہے :  ’’ اسی طرح ،میں اپنی (اس) کتاب میں، ان ائمہ میں سے ،جن کی فروعات میں اتباع کی جاتی ہے، کسی کا تذکرہ نہیں کروں گا،چونکہ اسلام میں ان کا بڑا مقام ہے، اورلوگوں کے دلوں میں انکی عظمت راسخ ہوچکی ہے، جیسے کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام بخاری، اور اگر کسی کا ذکر کیا بھی تو انصاف کے ساتھ کروں گا، اور یہ (جرح) عند اللہ وعند الناس ،انکے (مرتبہ )لئے مضر نہیں ہے‘‘۔اھ

جبکہ میزان کے مطبوعہ نسخہ میں امام ابوحنیفہ ؒ کا ترجمہ،صرف دو سطروں میں ہے، جس میں امام صاحب کےدفاع کی بجائےصرف  جرح اور تضعیف ہی ہے، حالانکہ مقدمہ میں امام ذہبی ؒ کا کلام ،اس اندازمیں امام ابوحنیفہ ؒ کے تذکرہ کے منافی ہے ، کیونکہ وہ صرف جرح پر مشتمل ہے، انصاف پرنہیں۔

قال عبد الفتاح : والطبعۃ الہندیۃ من ‘ المیزان’ المطبوعۃ فی مدینۃ لکنو سنۃ ۱۳۰۱ بالمطبع المعروف بأنوار محمدی ، لم تذکر فیہا ترجمۃ للامام ابی حنیفۃ فی أصل الکتاب وإنما ذکر علی الحاشیۃ کلمات فی سطرین ، قال مثبتھا، :’’ لما لم تکن ھذہ فی نسخۃ ، وکانت فی أخریٰ أوردتھا علی الحاشیۃ‘‘  انتھیٰ ۔ فلما طبع الکتاب بمصر سنۃ ۱۳۲۵، طبعت تلک الکلمات التی علی الحاشیۃ فی صلب الکتاب ، دون تنبیہ !

(شیخ ) عبد الفتاح ؒ کہتے ہیں :

ہندوستان میں، شہر لکھنؤ کے، مطبع  انوار محمد ی سے، ۱۳۰۱ھ میں چھپی میزان کے،متن میں تو امام صاحب ؒ کا ترجمہ موجود نہیں ،  البتہ حاشیہ میں دوسطروں میں کچھ کلمات ہیں ، جن کے لکھنے والے نے یہ نوٹ بھی تحریر کیا ہے کہ :  ’’ چونکہ یہ عبارت کسی نسخہ میں ہے ، اورکسی میں نہیں، اس لئے میں نے اسے حاشیہ میں بڑھادیا‘‘۔ اھ

مگر جب  کتاب  مصر سے ۱۳۲۵ھ میں چھپی ، تو وہ کلمات ،جو حاشیہ میں تھے،  کتاب کے متن میں، بغیر کسی نوٹ کے،بڑھا دئیے گئے ۔

قال عبد الفتاح : وقد رجعت إلی المجلد الثالث من ‘میزان الاعتدال ’ المحفوظ فی ظاھریۃ دمشق تحت الرقم (۸۶۳حدیث) ، وھو جزء نفیس جداً ، یبتدیء بحرف المیم ، وینتھی بآخر الکتاب ، کلہ بخط العلامۃ الحافظ شرف الدین عبد اللہ بن محمد الوانی الدمشقی ، المتوفیٰ سنۃ ۷۴۹ ، تلمیذ الذھبی رحمہما للہ تعالیٰ ، وقد قرأہ علیہ ثلاث مرات مع المقابلۃ بأصل الذھبی، کما صرح بذلک فی ظھر الورقۃ۱۰۹، وظھر الورقۃ ۱۵۹، وفی غیر موطن منہ تصریحات کثیرۃ لہ بالقرأۃ والمقابلۃ أیضاً ، فلم أجد فیہ ترجمۃ للامام أبی حنیفۃ النعمان فی حرف النون ولا فی الکنیٰ۔

(پہلا نسخہ ) دمشق کے مکتبہ ظاہریہ میں ،میں نےمیزان الاعتدال کا  ایک  بہت ہی نفیس نسخہ دیکھا۔جو حرف میم سے کتاب کے اخیر تک تھا۔

 (یہ نسخہ ) مؤلف کتاب امام ذہبی ؒ کے تلمیذ حافظ عبد اللہ الوانی الدمشقی کے ہاتھوں لکھا ہوا،اورامام ذہبیؒ کے( ہاتھوں لکھے ہوئے) اصل نسخہ سے ملانے کے ساتھ ساتھ ،خودمؤلف کے سامنے تین مرتبہ پڑھابھی گیا تھا، متعدد جگہ اس کی تصریح موجود ہے۔مگر اس میں بھی مجھے امام ابوحنیفہ کا ترجمہ نظر نہیں آیا ، نہ اسماء میں نہ کنٰی میں ۔

قال عبد الفتاح : وکذلک لم أجد لہ ترجمۃ فی النسخۃ المحفوظۃ فی المکتبۃ الاحمدیۃ بحلب تحت الرقم ۳۳۷، وھی نسخۃ جیدۃ کتبت سنۃ ۱۱۶۰ بخط علی بن محمد الشھیر بابن مشمشان ، فی مجلد واحد کبیر۔ وقد کتبھا عن نسخۃ کتبت سنۃ ۷۷۷، یوجد بخط الشیخ ابن مشمشان ھذا فی المکتبۃ الاحمدیۃ بحلب ، الجزء الاول والثالث والرابع والخامس من کتاب ‘نصب الرایہ’ للحافظ الزیلعی، وذلک مما یدل علی أنہ من أھل العلم المشتغلین بالحدیث، وھو علی بن محمد بن الشیخ کامل ، الشھیر بابن مشمشان۔

(دوسرا  نسخہ ) اسی طرح آپ کے حالات کا تذکرہ مجھے اس نسخہ میں بھی  نہیں ملا ،جو حلب کے مکتبہ الاحمدیہ میں محفوظ ہے ۔ جس کےلکھنے والے علی بن محمد بن شیخ کامل المعروف بابن مشمشان ہیں ۔یہ نسخہ( ۱۱۶۰ ؁ھ) میں لکھا گیا،ایک ایسے نسخہ کے مطابق، جو( ۷۷۷؁ھ) میں لکھا گیا تھا۔  ابن مشمشان ؒ کے ہاتھوں لکھی ہوئی ، نصب الرایہ للزیلعی کی بھی چند جلدیں ، مکتبہ احمدیہ میں موجود ہیں ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علم حدیث سے اشتغال رکھنے والے علماء میں سے تھے۔

قال عبد الفتاح : وقد سنحت لی فی أوائل رمضان المبارک من سنۃ ۱۳۸۲ زیارۃ ‘المغرب’ فزرت مدینۃ الرباط ، ورأیت فی ( الخزانۃ العامۃ ) فیھا نسخۃ من ‘میزان الاعتدال ’ فی مجلد واحد ، رقمھا (۱۲۹ق) ناقصۃ یبتدئ القسم الموجود منھا من أوائل ترجمۃ (عثمان بن مقسم البری ) وھو یوافق أواخر الصفحۃ ۱۹۰ من الجزء الثانی المطبوع بمصر سنہ ۱۳۲۵وینتھی بآخر الکتاب ، وفی حواشی ھذہ النسخۃ کتبت إلحاقات کثیرۃ جدا فی کل صفحۃ ، حتی فی بعض الصفحات أخذت الالحاقات الحواشی الثلاث وتارۃ الحواشی الاربع الصفحۃ، وھی بخط واحد دون الحواشی الملحقۃ علی جوانب الصفحات والاوراق المدرجۃ فیھا، وقد کتب علی الورقۃ الأخیرۃ من أصل النسخۃ قرا ءات کثیرۃ وتواریخ لھا ولنسخھا ، فکان من ذلک أن النسخۃ قرئت علی مؤلفھا اکثر من ست مرات ، وھذا نص ما کتب فی حواشی الورقۃ الاخیرۃ بحسب تواریخہ لا بحسب ترتیب کتابتھا:

۱ ۔      أنھاہ کتابۃ ومعارضۃ داعیا لمؤلفہ عبد اللہ  المقریزی فی سنۃ تسع وعشرین وسبعمائۃ۔

۲۔      أنھاہ کتابۃ ومعارضۃ ابو بکر بن السرّاج داعیا لمؤلفہ فی سنۃ ثلاث وثلاثین وسبعمائۃ ۔

۳۔       فرغہ نسخاً مرۃ ثانیۃ داعیا لمؤلفہ ابو بکر بن السرّاج عفا اللہ عنہ فی سنۃ تسع وثلاثین وسبعمائۃ ۔

۴۔       قرأت جمیع ھذا ‘ المیزان ’ وھوسفران علی جامعہ سیدنا شیخ الاسلام ۔۔۔۔۔ الذھبی أبقاہ اللہ تعالی فی مجالس آخر ھا یوم السبت ثانی عشر شھر رمضان سنۃ ثلاث وأربعین وسبعمائۃ بالمدرسۃ الصدریۃ بدمشق وکتب سعید بن عبد الدھلی عفا اللہ عنہ ۔

۵۔       قرأت جمیع ھذا الکتاب علی جامعہ شیخنا شیخ الاسلام ۔۔۔ الذھبی فسح اللہ فی مدتہ فی مجالس آخرھا یوم الجمعۃ ثانی عشر رجب الفرد سنۃ خمس وأربعین وسبعمائۃ بمنزلہ فی الصدریۃ ، رحم اللہ واقفھا بدمشق المحروسۃ، وکتبہ علی بن عبد المؤمن بن علی الشافعی البعلبکی حامداً للہ ومصلیا ً علی النبی وآلہ ومسلماً۔

۶۔      فرغہ نسخاً لنفسہ داعیا لمؤلفہ احمد بن عمر بن علی القوصی(؟) فی العشر الآخر من ربیع الآخر سنۃ ست وأربعین وسبعمائۃ ۔

۷ ۔      فرغہ ابو القاسم بن الفارقی عفا اللہ عنہ داعیاً لمؤلفہ۔

۸ ۔      قرأت جمیع کتاب’میزان الاعتدال فی نقد الرجال‘ وما علی الھوامش من التخاریج والحواشی والملحقات بحسب التحریر والطاقۃ والتؤدۃ علی مصنفہ شیخنا الامام العلامۃ الذھبی فسح اللہ فی مدتہ فی مواعید طویلۃ کثیرۃ ، وافق آخرھا یوم الاربعاء العشرین من شھر رمضان المعظم فی سنۃ سبع وأربعین وسبعمائۃ فی الصدریۃ بدمشق ،وأجاز جمیع مایرویہ ، وکتب محمد (بن علی الحنفی؟) بن عبد اللہ ۔۔۔،

وقد کانت وفاۃ الذھبی رحمہ اللہ تعالیٰ فی لیلۃ الثالث من ذی القعدۃ سنۃ ۷۴۸کما فی الدرر الکامنۃ لابن حجر(۳ : ۳۳۸)

قلت قد رجعت أیضاً إلی ھذہ النسخۃ العظیمۃ النادرۃ المثال فی عالم المخطوطات فلم أجد فیھا ترجمۃ للإمام أبی حنیفۃ رضی اللہ عنہ ، وھذا مما یقطع معہ المرء بأن الترجمۃ المذکورۃ فی بعض نسخ ‘المیزان’ لیست من قلم الذھبی ، وإنما ھی دخیلۃ علی الکتاب بید بعض الحانقین علی الامام أبی حنیفۃ ، وذلک أنھا جاء ت فی سطرین لا تلیق بمقام الامام الاعظم ، ولا تحاکی تراجم الائمۃ الذین ذکرھم الذھبی لدفع الطعن عنھم ، وھم دون أبی حنیفۃ إمامۃ ومنزلۃ ، فقد أطال النفس فی تراجمھم طویلاً وجلی مکانتھم وإمامتھم أفضل تجلیۃ ۔

(تیسرا نسخہ ) (م۱۳۸۲ ؁ھ) میں ،مجھے (افریقی  ملک ) ‘مغرب ’ جانے کا موقعہ ملا، جہاں میں نے رباط شہر کے ، الخزانۃ العامۃ (نامی ) مکتبہ کی زیارت کی ، اور میزان کا ایک نسخہ دیکھا، جو ‘عثمان البری کے ترجمہ سے کتاب کے اخیر تک تھا۔جس کے حاشیوں میں بہت کچھ اضافہ کیا گیا تھا، بلکہ بعض جگہ مزید صفحات لگا کر ان پر لکھا گیا تھا، اور اخیر صفحہ پر ، اس کے لکھنے،   اور مؤلف کے سامنے متعدد مرتبہ پڑھے جانے کی تاریخیں درج تھیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے یہ نسخہ مؤلف کے سامنے چھ سے زیادہ مرتبہ پڑھاگیا ہے ۔

۱)           (م۷۲۹؁ھ) کو عبداللہ بن المقريزي ؒ  نے اس کی کتابت اور  معارضہ(پیش کرنا ،چیک کرنا) سے فارغ ہوئے ۔ اس کے مصنف کے لیے دعا گو ہوکر۔

۲)          (م۷۳۳؁ھ) کو ابوبکر بن السراج  ؒ  فارغ ہوئے کتابت و معارضہ سے یعنی اپنے لیے اس سے نسخہ لکھنے اور پھر دوبارہ اس پر پیش کرکے چیک کرنے یا بالفاظ دیگر نظر ثانی کرنے سے فارغ ہوئے۔

۳)          (م۷۳۹؁ھ) کو ابوبکر بن السراج ؒ دوبارہ اس سے ایک نسخہ لکھنے اور چیک کرنے سے فارغ ہوئے۔

۴)          (م۷۴۳؁ھ) کومیں نے یہ میزان  پوری کی پوری ہمارے شیخ ۔ شیخ الاسلام امام ذہبی پر  کئی مجالس میں پڑھی جس کی آخری مجلس  ۱۲ رمضان بروز ہفتہم۷۴۳ ؁ھکو ان کے مکان پر اختتام پذیر ہوا اس کو سعید بن عبداللہ الذھلیؒ نے لکھا

۵)          (م۷۴۵؁ھ) کو علی بن عبد المؤمن بن علی الشافعي ؒنے اس پوری کتاب کو مصنف امام ذہبی پر پڑھا جس کی آخری مجلس بروز جمعہ 12 رجب م۷۴۵؁ھہے

۶)          (م۷۴۶؁ھ) احمد بن عمر بن علی القوصی ؒ نے اس سے اپنے لیے نسخہ لکھا اور اس سے فراغت م۷۴۶؁ھ کو ہوئی ربیع الثانی کے آخری عشرے میں ہوئی۔

۷)          (م۷۴۷؁ھ) کو محمد بن علی بن عبداللہ الحنفیؒ نے اس کا پورا نسخہ مع الحواشي و ملحقات کے مصنف پر پڑھا ۔ آخری مجلس بروز بدھ 20 رمضان م۷۴۷؁ھ ہے۔ جبکہ امام ذہبی کی وفات (م۷۴۸؁ھ) کی ہے۔

جن میں سے اخیری مرتبہ مؤلف کی وفات (۳؍ذی القعدۃ ۷۴۸؁ھ) سے ایک سال پہلے (بدھ، ۲۰؍رمضان المعظم ۷۴۷؁ھ)کو  پڑھا گیا ہے۔  میں نے اس عظیم اور نادر المثال نسخہ کی بھی مراجعت کی ، لیکن اس عظیم نسخے میں بھی امام ابوحنیفہ ؒ کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

اس سے اتنی  بات تو یقینی ہوجاتی ہے کہ میزان کے بعض نسخوں میں جو امام ابو حنیفہ ؒ کا تذکرہ ہے،    وہ امام ذہبیؒ کے قلم سے نہیں ،    بلکہ امام صاحب ؒ کے کسی مخالف کا بڑھایا ہوا ہے۔  نیز، آپ ؒ  کا تذکرہ بھی صرف دو سطروں میں کیا گیا ہے ، جو نہ آپکے مقام کے لائق ہے ، اور نہ ان ائمہ کے تذکرہ سے میل کھاتا ہے ، جن کا دفاع کرنے کیلئے امام ذہبی ؒ نے میزان الاعتدال میں ان کا تذکرہ کیا ہے ، اور طویل بحثوں کے ذریعہ ان کا بھر پور دفاع کیا ہے ، جبکہ وہ ائمہ مرتبہ  میں امام ابوحنیفہ ؒ سے کم ہیں۔

وکتاب ’میزان ‘ ھذا مرتع واسع لالحاق تراجم فیہ للنیل من أصحابھا ، وقد امتد الیہ قلم غیر الذھبی فی مواطن ، فیجب طبعہ عن أصلی مقروء علی المؤلف کالجزء المحفوظ بظاھریۃ دمشق ، وھو یبتدئ بحرف المیم، وینتہی بآخر الکتاب ، وکالقسم الموجود فی خزانۃ الرباط ۔

کسی عالم کو مجروح کرنے کے لئے ،میزان الاعتدال کتاب ،بڑی  بہترین جگہ ہے، بس ان کا تذکرہ ، اس کتاب میں  بڑھا دیا جائے، (یہی وجہ ہےکہ ) امام ذہبی ؒ کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں کا قلم اس کتاب میں چلا ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ یہ کتاب، مؤلف کے سامنے پڑھے گئے اصل نسخوں کے مطابق طبع کی جائے، جیسے کہ مکتبہ ظاہریہ کا نسخہ ، الخزانۃ العامۃ کا نسخہ ،وغیرہ۔

وإنما أطلت فی ھذہ التعلیقۃ کثیراً : تنزیھا لمقام الامام أبی حنیفۃ ، وتبرئۃ لساحۃ الحافظ الذھبیؒ ، وتعریفاً بالمخطوطات الموثوقۃ من ‘میزا ن الاعتدال ’ لیصار إلی طبعہ عنھا ممن یوفقہ اللہ تعالیٰ ۔

میں نے یہ طویل حاشیہ  امام ابوحنیفہ ؒ اور امام ذہبیؒ کی جانب منسوب کی جانے والی غلط باتوں سے ان کے دامن کو بچانے کے لئے ،  اور  میزان کے معتبر نسخوں کی نشاندہی کے لئے لگایا ہے ، تاکہ ان کے مطابق اسے طبع کیا جائے۔

وبعد مدۃ من کتابتی ھذہ رأیت لصدیقنا العلامۃ الشیخ محمد عبد الرشید النعمانی الھندی حفظہ اللہ تعالیٰ کلمۃ حسنۃ فی کتابہ النافع ‘ما تمس إلیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجۃ’ (ص ۴۷)، حقق فیھا علی نحو آخر دس ترجمۃ أبی حنیفۃ علی المیزان ’۔ فانظر۔

ان سطروں کے لکھنے کے ایک زمانہ بعد ، میرے دوست شیخ محمد عبد الرشید النعمانی کی ایک اچھی تحریر ، ان کی کتاب ’ما تمس الیہ الحاجۃ لمن یطالع سنن ابن ماجہ ‘میں دیکھی ، جس میں انہوں نے ، میزان میں امام ابوحنیفہ ؒ کے ترجمہ کی دسیسہ کاری کو الگ انداز سے  ثابت کیا ہے ، جو لائق دید ہے۔

وقد سبقہ إلی ذلک العلامۃ المحقق البارع ظھیر احسن النیموی تلمیذ المؤلف اللکنوی، فی کتابہ ‘التعلیق الحسن علی آثار السنن ۱ :۸۸۔

ان سے پہلے ، علامہ لکھنویؒ کے شاگرد رشید محقق جلیل  علامہ ظہیر احسن نیموی ؒ نے (بھی اسے) التعلیق الحسن میں ذکر کیا ہے ۔

ثم رأیت شیخنا العلامۃ الکبیر مولانا ظفر احمد العثمانی التھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ نقل فی کتابہ قواعد فی علوم الحدیث ص۲۱۱کلمۃ الحافظ الذھبی فی مقدمۃ ‘المیزان’ (وقد نقلتھا فی سابق کلامی ) ثم علق علیھا بقولہ:

‘وبھذا یعلم أن ما وجد فی بعض نسخ ‘المیزان’ من ذکر ابی حنیفۃ فیہ وتضعیفہ من جھۃ الحفظ فھو إلحاق، لأن المؤلف نص بلفظہ علی عدم ذکرہ فیہ أحداً من الائمۃ المتبوعین فی الفروع، کیف وقد ذکر الذھبیؒ أباحنیفۃ فی الحفاظ فی ‘تذکرتہ’ ونص فی أول کتابہ ھذا بقولہ : ھذہ تذکرۃ بأسماء معدلی حملۃ العلم النبوی ومن یرجع إلیٰ اجتھادھم فی التوثیق والتصحیح والتزییف ۔۔۔ اھ ۔ فھذا یدل علی أن أباحنیفۃ عندہ حافظ إمام مجتھد فی الحدیث ، معدل حامل للعلم النبوی ’۔ انتھیٰ

پھرعلامہ ظفر احمد تھانویؒ کی عبارت نظر پڑی ، انہوں امام ذھبی ؒ کا کلام (جو پہلے ذکر کیا جاچکا ہے ) میزان کے مقدمہ سے نقل کرنے کے بعد اس پر یہ تعلیق لگائی ہے کہ :

اس سے معلوم ہوا کہ میزان کے بعض نسخوں میں جو امام صاحب ؒ کا تذکرہ ہے اور آپ کے حافظہ پر کلام کیا گیا ہے ، یہ کسی کا بڑھایا ہوا ہے، کیونکہ خود مصنف نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ وہ ائمہ متبوعین کا تذکرہ نہیں کریں گے،  ( نیز امام صاحب کا ترجمہ میزان میں ہو بھی کیسے سکتا ہے ) جبکہ خود امام ذہبی ؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں آپ کا تذکرہ کیا ہے ، اور ( تذکرۃ الحفاظ کے ) شروع میں لکھا ہے کہ یہ ان علماء کے اسماء گرامی ہیں جو علم نبوی کے حاملین پر کلام کرنے والے ہیں ، اور جرح وتعدیل کے باب میں جن طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔ اھ

اس سے معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک امام ابو حنیفۃ ؒ علم حدیث میں بھی امامت اور اجتھاد کے درجہ پر فائز تھے، نیزعلم نبوی کے حاملین پر بھی جرح وتعدیل کے اعتبار سے کلام فرماتے تھے۔

ثم رأیت الامیر الصنعانی فی ‘توضیح الافکار’ ۲ : ۲۷۷  یقول: لم یترجم لأبی حنیفۃ فی المیزان ’ انتھیٰ ۔۔ وقد سبقہ إلیٰ ھذا الحافظ السیوطی فی تدریب الراوی  ص۵۱۹ ، فی (النوع الحادی والستین ) ، فقال : ‘ الذھبی فی المیزان لم یذکر احداً من الصحابۃ والائمۃ المتبوعین۔ انتھیٰ

پھر میں نے دیکھا امیر صنعانی ؒ نے بھی توضیح الافکار میں لکھا ہے کہ میزان میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ یہی بات آپ سے پہلے امام سیوطی ؒ نے بھی کہی تھی۔

وکذلک لا وجود لترجمۃ أبی حنیفۃ فی المیزان فی نسخۃ الحافظ الضابط المتقن محدث حلب فی عصرہ سبط ابن العجمی (إبراھیم بن محمد ) وھو قد فرغ من نسخھا سنۃ ۷۸۹، عن نسخۃ قوبلت وعلیھا خط المؤلف ۔

(چوتھا  نسخہ ) اسی طرح بہت بڑے محدث ،سبط ابن العجمیؒ کے نسخہ میں بھی امام ابو حنیفہ ؒ کا تذکرہ موجود نہیں ہے ۔ آپ نے یہ نسخہ ۷۸۹ ھ میں لکھا تھا ،ایسے نسخہ کو سامنے رکھ کر جو مؤلف کے نسخہ سے ملایا ہوا تھا،  اور اس پر مؤلف کی تحریر بھی تھی۔

فصح الجزم بأنھا مقحمۃ فی بعض النسخ من المیزان بغیر قلم مؤلفہ الحافظ الذھبی ؒ وتتابعت الادلۃ السابقۃ الناطقۃ علی أنھا مدسوسۃ فی المیزان ۔

اس سے یہ یقین اور پختہ ہوگیا کہ امام صاحب کا ترجمہ ،مؤلف کے قلم سے نہیں ہے ، اور دلائل کے انبار صاف  بتارہے ہیں کہ میزان  میں دسیسہ کاری کی گئی ہے۔

استطرادۃ حول تحدید سنۃ تألیف الذھبی لکتابہ ‘ المیزان ’۔

ھذا، وتقدم فیما سبق من الحدیث عن نصف نسخۃ المؤلف من المیزان التی بخطہ، المحفوظۃ فی (الخزانۃ العامۃ ) بالرباط ، أنھا نسخ عنھا نسخ کثیرۃ ، منھا بتاریخ سنۃ ۷۲۹، وآخرھا بتاریخ سنۃ ۷۴۶، وأنھا قرئت علی المؤلف مرات کثیرۃ ، وفرغ من قراء تھا آخر مرۃ فی ۲۰من رمضان سنۃ ۷۴۷۔

تالیف میزان کی تاریخ: رباط شہر کے مخطوطہ پر گفتگو سے پتہ چلا کہ اس نسخہ کو سامنے رکھ کر  کئی اور نسخے لکھے گئے ہیں ، جن میں سے ایک(م ۷۲۹؁ھ)  میں اور اخیری(م۷۴۶ ؁ھ) میں لکھا گیا۔ اور یہ نسخہ مؤلف کے سامنے ، ۲۰؍ رمضان ،(م۷۴۷؁ھ) کو آخری مرتبہ پڑھا گیا۔

وقد خلت تلک النسخۃ العظیمۃ النادرۃ النفیسۃ من تأریخ الحافظ الذھبی فیھا لفراغہ من تألیف المیزان ۔ وجاء فی آخر نسخۃ الحافظ سبط ابن العجمی محدث حلب فی عصرہ، التی طبعت عنھا طبعۃ عیسیٰ البابی الحلبی بالقاھرۃ سنۃ ۱۳۸۲، ما یلی : بخط الحافظ علم الدین البرزالی ، فی آخر نسخۃ قابلھا ھو، علیھا خط المؤلف ، ما لفظہ : قال مؤلفہ : ألفتہ فی أربعۃ أشھر إلا یومین ، من سنۃ أربع وعشرین وسبع مئۃ ، ثم مررت علیہ غیر مرۃ ، وزدت حواشی ، فی أربع سنین ۔ انتھیٰ

یہ عظیم ، نادر اور نفیسہ نسخہ مؤلف کے زمانہ سے آج تک رکھا ہوا ہے ، اور محدث حلب سبط ابن العجمی (کا نسخہ جو قاہرہ سے ۱۳۸۲ھ میں چھپا ہے، اس ) کے اخیر میں مؤلف کی یہ عبارت درج ہے کہ : میں نے اسے چار ماہ میں دو دن کم میں لکھا ہے ، ۷۲۴ ھ میں ، پھر چار سال تک اس پر نظر ثانی ، اور حاشیوں کا اضافہ کرتا رہا۔

وجاء فی المیزان فی ترجمۃ ( عبد اللہ بن محمد بن ابی القاسم البغوی)  ۲ : ۴۹۳، ما یلی مات البغوی لیلۃ الفطر سنۃ ۳۱۷، فلہ منذ مات : أربع مئۃ وثمانی سنین ’ انتھیٰ ۔ وھذا التاریخ موافق للتاریخ المذکور فی الفراغ من تألیف الکتاب بزیادۃ یسیرۃ ۔

اسی طرح میزان میں عبد اللہ بن محمد بن ابی القاسم البغویؒ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی وفات(م ۳۱۷؁ھ) میں عید کی رات کو ہوئی، جس کو ۴۰۸ سال گزر گئے ۔  اس کے حساب سے (بھی ) میزان کی تالیف کی تاریخ قریب قریب وہی  بنتی ہے جو مؤلف نے ذکر کی ہے۔

وفات العلامۃ المحقق الدکتور بشار عواد معروف: الانتباہ والتنبیہ إلی ھذا الجانب، فی کتابہ الجلیل : ‘الذھبی ومنھجہ فی کتابہ تاریخ الاسلام ’ ص ۱۹۳ ، حین تحدث عن کتاب ‘میزان الاعتدال ’ ووقع منہ أن اعتبر الموجود من نسخۃ المؤلف فی خزانۃ الرباط : (نسخۃ) ،

فقال : نسخۃ من المیزان بخط المؤلف، فی الخزانۃ العامۃ بالرباط، برقم۱۲۹ق،تقع فی ۲۵۰ ورقۃ ، وفی آخر النسخۃ قراء تان ۔ کذا۔ علی المؤلف، الاولیٰ سنۃ ۷۴۳، والثانیۃ سنۃ ۷۵۴، فی حین أن الموجود فی الخزانۃ المذکورۃ نصف نسخۃ المؤلف ، وفی آخرھا قرا ءات علی المؤلف لا قراء تان ۔

علامہ بشار عواد صاحب سے سہو ہو گیا کہ انہوں نے کہا کہ رباط کے مکتبہ میں مؤلف کا نسخہ (مکمل ) موجود ہے، اور اسے دو مرتبہ مصنف کے سامنے پڑھا گیا ہے ۔ اس لئے کہ وہ مکمل نہیں بلکہ آدھا نسخہ ہے، اور دو مرتبہ نہیں کئی مرتبہ مؤلف کے سامنے پڑھا گیا ہے ۔( عبد الفتاح ؒ کی عبارت ختم ہوئی)۔ (الرفع التکمیل :  ص  ۱۲۱-۱۲۷)

معلوم ہوا کہ میزان کے اصل نسخوں میں  نہ امام صاحب ؒ کاترجمہ ہے اور نہ یہ ترجمہ حافظ ذہبیؒ کے شرائط  کے مطابق ہے۔

نیز ہم دیکھتے ہیں کہ عملا بھی امام ذہبیؒ اسی پر گامزن رہے کہ  آپؒ امام صاحب ؒ کو ثقہ و ثبت سمجھتے ہے۔اس لئےآپؒ نے ’ تذہیب تہذیب الکمال ‘،’ تذکرة الحفاظ ‘،’ سیر اعلام النبلاء ‘،’ تاریخ الإسلام ‘،’ الکاشف ‘ وغیرہ  اپنی مشاہیر کتابوںمیں امام صاحب ؒ کے خلاف میں کوئی حرف تضعیف کا ذکر نہیں کیا۔بلکہ صرف آپ ؒ کی تعریف،ثقاہت،مناقب و فضائل ہی بیان کئے ہیں۔

 اور پھرامام صاحب  ؒکا تذکرہ  میزان الاعتدال کے صحیح   نسخوںمیں بھی نہیں کیا۔ اور جس نسخے میں تذکرہ ملتا ہے ان میں سے کوئی بھی معتبر نسخہ نہیں چنانچہ مخالف ٹولے نے جو نسخہ دیا اس میں  کہیں بھی اس نسخے کا ’’ڈائرکٹ‘‘ (Direct) مصنف کے نسخے سے لیا جانا مذکور نہیں۔

بعض لوگ   علامہ ابن الوزير ؒ  (م۸۴۰؁ھ) کی یہ عبارت پیش کرتے ہیں :

 ’’ أنّ الذّهبي صنّف كتاب ((ميزان الاعتدال)) وشرط فيه أن يذكر كلّ من تكلّم عليه من أهل الرّواية للحديث بحقّ أو باطل, قال: ((لئلا يستدرك على كتابه)) , فلم يذكر فيه زيد بن علي -رضي الله عنهما- مع أنّه من رجال الكتب السّتّة, على أنّه قلّ ما سلم أحد من ذكره في هذا الكتاب, حتّى إنّه ذكر سفيان الثّوري, وأويساً القرني, وجعفر الصّادق, ويحيى بن معين, وأبا حنيفة  , وعليّ بن المديني۔۔۔ ‘‘

حالانکہ علامہ ابن الوزير ؒ  بہت بعد کے ہیں اور بعید نہیں کہ ان کو ایسا الحاقی ترجمے والا نسخہ ملا ہو جس میں امام صاحب کا تذکرہ ہو ۔

پھر الروض الباسم کےمحقق  نے بھی اعتراف کرگیا ہے کہ میزان کے صحیح نسخوں میں امام صاحب ؒ کا ذکر نہیں ہے۔ چنانچہ محقق  نے  علامہ ابن الوزير ؒکا رد کرتے ہوئے لکھا :

 ’’ ﺗﺮﺟﻤﺘﻪ ﺗﻮﺟﺪ ﻓﻲ ﺑﻌﺾ ﻧﺴﺦ ((اﻟﻤﻴﺰا)) اﻟﻤﺘﺄﺧﺮ, ﻟﻴﺲ ﻫﻮ ﻓﻲ ﻧﺴﺨﺔ ﺻﺤﻴﺤﺔ ﻣﻦ ((اﻟﻤﻴﺰا)) ﺑﺨﻂ اﻟﺬﻫﺒﻲ, ﻣﻘﺮء ﻋﻠﻴﻪ ﺳﻨﺔ (م۷۴۵؁ﻫـ) , ﻣﺤﻔﻮﻇﺔ ﻓﻲ اﻟﺨﺰاﻧﺔ اﻟﻌﺎﻣﺔ ﻓﻲ اﻟﺮﺑﺎ, اﺟﻌﺘﻬﺎ ﺑﻨﻔﺴﻲ۔‘‘

 یعنی امام ابوحنیفہ ؒکا ترجمہ میزان الاعتدال کے بعض متاخر نسخوں میں  تو ملتا ہے لیکن میزان کے صحیح نسخے میں جو خود مصنف امام ذہبی کے خط سے ہے اور وہ ان پر (م۷۴۵؁ھ) میں پڑھی گئی اس میں موجود نہیں اور اس نسخے کو میں نے خود دیکھا ہے جو رباط میں ’’ اﻟﺨﺰاﻧﺔ اﻟﻌﺎﻣﺔ ‘‘ میں محفوظ ہیں۔ (الروض الباسم : ج ۲ : ص ۳۸۱)

اسکین :

نوٹ :  الحمد للہ یہ رباط کےاﻟﺨﺰاﻧﺔ اﻟﻌﺎﻣﺔ کا  (م۷۴۵؁ھ)  والا  مخطوطہ آپ حضرات  ملاحظہ فرمائیں  جس میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے :

نوٹ :

یہ رباط کےالخزانۃ العامۃ والا نسخہ خود امام ذہبی ؒ کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ مکتبہ  فیض اللہ اِفندی ،مخطوطہ نمبر ۵۱۱ پرامام ذہبی ؒ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ’التلخیص ‘ موجود ہے۔جس کا اسکین آپ  حضرات ملاحظہ فرمائے :

غور فرمائیں ! دونوں کی لکھائی ایک ہی ہے۔معلوم ہوا کہ یہ نسخہ امام ذہبیؒ کا لکھا ہوا ہے،جس میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے۔

اہل حدیث حضرات کا ایک اصول :

              حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد لکھتے ہیں کہ ابن الصلاح نے کہا :ہر دو حدیثوں کے درمیان گول دائرہ بنا دینا چاہیئے ۔ یہ بات ہمیں ابو الزناد ،،احمد بن حنبل ،ابراہیم الحربی اور ابن جریر رحمہم اللہ سے پہونچی ہے ۔

              میں (ابن کثیر ) نے کہا : میں نے یہ بات (گول دائرہ کی)امام احمد بن حنبل ؒ کے خط میں دیکھی ہے ،خطیب بغدادی ؒ نے کہا :دائرے کو خالی چھوڑ دینا چاہیئے پھر جب اس کی مراجعت کریں تو اس پر نقطہ لگا دیں۔

              اس اصول سے زبیر علی زئی صاحب استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : میرے پاس مسند حمیدی کے جس قلمی نسخے کی فوٹو اسٹیٹ ہے ،اس میں ہر حدیث کے آخر میں گول دائرہ موجود ہے اور ان دائروں میں نقطے لگے ہوئے ہیں یعنی یہ صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ہے ۔الحمد للہ(اختصا ر فی علوم الحدیث مراجعت زبیر علی زئی ص ۸۶)

اسکین :

              معلوم ہوا کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک جس نسخے  میں گول دائرہ ہو اور اس میں نقطہ بھی ہو ،وہ صحیح ترین نسخہ ہوتا ہے ۔اور الحمد للہ میزان الاعتدال کا یہ رباط والا نسخہ بھی ایساہے جس میں گول دائرہ ہے اور نقطہ موجود ہے ،تو خود اہل حدیث حضرات کے اصول سے ثابت ہوا کہ یہ میزان الاعتدال کا صحیح ترین نسخہ ہے جس میں امام صاحب ؒ  کا ترجمہ نہیں ہے۔

میزان الاعتدال میں امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہ ہونے کی ایک اور عظیم الشان دلیل :

نیز حافظ ابن  حجر ؒ  (م۸۵۲؁ھ) جن کو غیر مقلدین حضرات ’’امیر المو منین فی الحدیث‘‘ قرار  دیتے ہیں۔ انہوں نے بھی میزان الاعتدال پر تعلیقات  تحریر فرمائی جو کہ’’ لسان المیزان‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں بھی امام صاحب ؒ کے ترجمہ کا نام نشان تک نہیں ہے۔

میزان الاعتدال  کے دیگر نسخے :

دار الکتب المصریہ کا مخطوطہ :

دار الکتب المصریہ میں موجود میزان الاعتدال کے مخطوطے میں بھی  امام صاحب ؒ کے ترجمے کا نام و نشان نہیں ہے۔

اسکین :

یہ دار الکتب المصریہ نسخہ (م۷۴۲؁ھ) کا ہے۔

ولی الدین  اِفندی  کا نسخہ :  

ترکی کا دار  الخلافہ استانبول کے مکتبہ سلیمانی میں ولی الدین  اِفندی کا میزان الاعتدال کا نسخہ ۳ جلدوں  میں موجود   ہیں۔اس میں بھی امام ابو حنیفہ ؒ کا ترجمہ میں موجود نہیں ہے۔یہ نسخہ (م۷۷۷؁ھ)  کا ہے۔

اسکین :

              قارئین !  نعمان کے ترجمے پر  غور فرمائے،

                                                                        اس میں آپ کو نعمان بن ثابت ابو حنیفہ ؒ کا نام نہیں ملے گا۔

فیض اللہ   اِفندی  کا نسخہ :

ترکی  کے ہی ایک اور نسخے میں بھی امام صاحب کا ترجمہ نہیں ہے۔ 

مکتبہ فیض اللہ   اِفندی جو ترکی کا سب سے مشہور کتب خانہ ہیں اس میں میزان الاعتدال کا مخطوطہ موجود ہیں۔ اس میں بھی امام اعظم ؒ کا ترجمہ نہیں ہے۔(رقم نمبر ۵۵۸،جلد ۳)

اسکین :

 

مکتبہ ظاہریہ کا نسخہ :  میزان کا ایک اور نسخہ دمشق کے مکتبہ ظاہریہ میں بھی موجود ہیں لیکن اس میں بھی امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے۔

اسکین :

 

نوٹ :      گول دائرہ اس نسخہ میں بھی موجود ہے۔ تو خود اہل حدیث حضرات کے اصول سے ثابت ہوا کہ میزان الاعتدال کا یہ نسخہ بھی صحیح ترین نسخہ ہے جس میں امام صاحب ؒ  کا ترجمہ نہیں ہے۔

پھرمیزان الاعتدال  کا ایک مطبوعہ نسخہ جس کی تحقیق  شیخ محمد رضوان عرقسوسی، شیخ عمار یحاوی، شیخ غیاث الحاج احمد اور شیخ فادی المغربی وغیرہ  علماءنے کی ہیں۔ جو کہ الرسالہ العالمیہ سے چھپا ہے۔اس میں بھی امام صاحب ؒ کا ترجمہ نہیں ہے۔ اِن محققیں حضرات   نے حاشیے میں واہی  بات کہی ہیں جو  ہم محدث عبد الفتاح ؒکے حوالے سے نقل کر  آئے ہیں۔

اسکین :

              تو ان سب سے ثابت ہوتا ہے کہ امام ذہبی کی یہ کتاب جو(م۷۲۹؁ھ) سے لیکر (م۷۴۷؁ھ) تک ان  پر پڑھی کی گئی ہے اس کی روشنی میں  آپؒ اپنی زندگی کی آخری مدت  میں  امام صاحبؒ کو ضعفاء کی فہرست میں ماننے کے بجائے آپ کی شان یہی سمجھتے تھےکہ

 ان کی جلالت و عظمت فی النفوس اتنی طے شدہ ہے کہ ان کو ضعفاء کی کتاب میں ذکر نہیں کرنا چاہئے۔یہی تحقیق کی روشنی درست ہے ۔ واللہ اعلم

نوٹ :

              میزان الاعتدال کے جس  تحریف شدہ مخطوطہ میں امام صاحب کا ترجمہ ملتا ہے۔ ہمارے علم کے مطابق وہ محمد بن سعود  یونیورسٹی کی  لائبریری  (رقم ۲۴۸۰)، کا نسخہ ہے۔اور یہ نسخہ میں کئی جگہ تحریف کی کئی ہے۔ مثلاً امام ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ)  میزان  الاعتدال کے مقدمہ میں فرماتے ہیں : کہ’’ وکذا لا أذکر فی کتابی من الأئمۃ المتبوعین فی الفروع أحداً ، لجلالتہم فی الاسلام ، وعظمتہم فی النفوس ، مثل أبی حنیفۃ والشافعی والبخاری، فإن ذکرت أحداً منہم فأذکرہ علی الانصاف ‘‘ اسی طرح ،میں اپنی (اس) کتاب میں، ان ائمہ میں سے ،جن کی فروعات میں اتباع کی جاتی ہے، کسی کا تذکرہ نہیں کروں گا،چونکہ اسلام میں ان کا بڑا مقام ہے، اورلوگوں کے دلوں میں انکی عظمت راسخ ہوچکی ہے، جیسے کہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام بخاری، اور اگر کسی کا ذکر کیا بھی تو انصاف کے ساتھ کروں گا۔(میزان کے عام مطبوعہ نسخے)

لیکن اس محمد بن سود  یونیورسٹی والا نسخہ میں یہ اس طرح ہیں :’’ وکذا لا أذکر فی کتابی من الأئمۃ المتبوعین فی الفروع أحداً ، لجلالتہم فی الاسلام ، وعظمتہم فی النفوس ، فإن ذکرت أحداً منہم فأذکرہ علی الانصاف ‘‘

اسکین :

غور فرمائے ! ’’ مثل أبی حنیفۃ والشافعی والبخاری ‘‘ والے عبارت ہی حذف کردی گئی ہیں ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نسخے میں کئی جگہ تحریف کی کئی ہیں۔لہذا  یہ نسخہ معتبر نہیں ہے۔

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF ) دیکھیں 


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...