نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام اعظم ابوحنیفہ ؒ امام ذہبی ؒ کی نظر میں : مناقب الامام ابی حنیفہ و صاحبیہ کی عبارت


امام اعظم ابوحنیفہ ؒ امام ذہبی ؒ کی نظر میں

 (مناقب ، میزان الاعتدال اور دیوان الضعفاء کی عبارتوں  کا جواب)

ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF )
 دیکھیں

مناقب الامام ابی حنیفہ و صاحبیہ کی عبارت :

اس بارے میں مخالف نے مناقب الإمام ابی حنیفہ سے یہ نقل کرکے اعتراض کیا کہ مناقب الامام ابی حنیفہ و صاحبیہ میں امام ذہبی نے آپ کے ضبط پر جرح کی ہے ۔ اور مخالف ٹولا اس بات پر اڑا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ  سیئ الحفظ تھے اور ضبط و إتقان نہیں رکھتے تھے۔

آئیے ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں :

یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ امام ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)نے یہ مانا ہے کہ آپ کی حدیث کو مطلقا رد نہیں  کیا گیا بلکہ حجت سمجھ کر قبول بھی کیا گیا ہے۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں:’’ﻓﺼﻞ ﻓﻲ اﻻﺣﺘﺠﺎ ﺑﺤﺪﻳﺜﻪ اﺧﺘﻠﻔﻮا ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻟﻴﻦ، ﻓﻤﻨﻬﻢ ﻣﻦ ﻗﺒﻠﻪ ﻭﺭﺁﻩ ﺣﺠﺔ‘‘ یعنی آپ کی حدیث کے بارے میں اختلاف ہے پس بعض نے اسے قبول کرلیا ہے اور اسے حجت مانا ہے۔  (مناقب الإمام ابی حنیفہ و صاحبیہ: ص  ۴۴)

اسکین :

دوسرا قول آپ کی حدیث کو کثرت غلطی کی بناء پر بعض کی جانب سے رد کیا جانے کا ذکر کیا۔اس قول کی وجہ جو امام ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ)نے لکھی ہے وہ یہ ہے : ’’ ﻗﻠﺖ: ﻟﻢ ﻳﺼﺮ اﻹﻣﺎ ﻫﻤﺘﻪ ﻟﻀﺒﻂ اﻷﻟﻔﺎ   اﻹﺳﻨﺎ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻛﺎﻧﺖ ﻫﻤﺘﻪ اﻟﻘﺮﺁﻥ اﻟﻔﻘﻪ‘‘ میں کہتا ہوں کہ امام صاحب کی توجہ ضبط الفاظ  حدیث و اسناد کی طرف نہیں تھی بلکہ آپ کی زیادہ توجہ قرآن اور فقہ کی جانب تھی۔(مناقب ایضا : ص ۴۵) اسی عبارت کی وجہ سے مخالف ٹولا اس بات پر اڑا ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ  سیئ الحفظ تھے اور ضبط و إتقان نہیں رکھتے تھے۔

لیکن اس قول کے فوراً   بعد  امام ذہبی ؒنے امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) سے آپؒ کا ’’ ثقة و لا بأس بہ ‘‘ہونا ہی نقل کیا ۔(ص ۴۵-۴۶)

اسکین :

لہذا  یہاں صاف واضح ہوتا ہے کہ امام ذہبی ؒ  (م۷۴۸؁ھ)آپ ؒپر سیئ الحفظ کی کوئی جرح نہیں کرتے بلکہ ’’صرف الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط کرنے کی طرف توجہ نہ کرنے پر ‘‘معلل کررہے ہیں۔

یاد رہے یہ امام ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) کا ’منسوخ قول‘ ہے۔ ’’ناسخ اقوال ‘‘ آرہےہیں۔

ظاہر ہے جس کی توجہ ان کی طرف نہ ہو وہ محدثین میں شمار نہیں ہوتا جس طرح جس شخص کی توجہ اور ہمت فقہ کی طرف نہ ہو اسے فقہاء میں شمار نہیں کیا جاسکتا اور جس طرح کسی کی صرف ہمت علم نحو کی طرف نہ ہو اسے نحوی قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ وھلم جرا

دلیل نمبر ۱ :

  لیکن اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ خود امام ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے ’’ سیر اعلام النبلاء‘‘  میں فرمایا :

’’قال الشافعي : العلم يدور على ثلاثة : مالك ، والليث ، وابن عيينة . قلت : بل وعلى سبعة معهم ، وهم : الأوزاعي ، والثوري ، ومعمر ، وأبو حنيفة ، وشعبة ، والحمادان‘‘ 

یعنی  امام شافعی ؒنے فرمایا :علم کا مدار تین لوگوں پر ہے ، امام مالک ؒ،امام لیثؒ اور امام ابن عیینہ ؒ۔امام ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ)فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ بلکہ 7 اور بھی ان کے ساتھ ہیں جن پر علم کا دار و مدار ہے ان میں امام ابوحنیفہ کو بھی ذکر فرمایاہے۔ (سیر اعلام النبلاء : ج ۸ : ص ۹۴)

اسکین :

      

ظاہر ہے جس کی صرف ہمت ہی الفاظ حدیث و اسناد کی طرف نہ ہو اس پر اس علم کا مدار کیسے ہوگا ؟ تو  معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط میں بھی ثقہ اور ثبت ہیں۔ اور یہی حافظ ذہبیؒ کا  ’’ناسخ قول ‘‘ قول ہے۔[1]

دلیل نمبر ۲ : پھر خد امام ذہبی ؒ  نے امام صاحب کو ’’طبقات المحدثین ‘‘ میں  ذکر کیا ۔(المعين في طبقات المحدثين : ص ۵۷،رقم ۵۴۶)

 اسکین :

اسی  کتاب کے اخیر  میں امام ذہبی نے یہ فرمایا ’’ﻭﺇﻟﻰ ﻫﻨﺎ اﻧﺘﻬﻰ اﻟﺘﻌﺮﻳﻒ ﺑﺄﺳﻤﺎء ﻛﺒﺎ اﻟﻤﺤﺪﺛﻴﻦ اﻟﻤﺴﻨﺪﻳﻦ‘‘ یعنی یہیں تک ’’کبار محدثین اور مسندین‘‘کے ناموں کا تعارف ختم ہوجاتا ہے۔(المعين: ص ۲۳۸)

اسکین :

 معلوم ہوا امام صاحب امام ذہبی ؒکے مطابق کبار محدثین و مسندین میں سے ہیں۔ اور ظاہر ہے جس کی صرف ہمت الفاظ و اسناد حدیث کی ضبط کی طرف نہ ہو وہ ’’محدث کبیر و مسند‘‘ کیسے بن سکتا ہے۔معلوم ہوا کہ مناقب والا قول منسوخ ہے۔

اور  یہ حوالہ غیر مقلدین  اہل حدیثوں کے شیخ الاسلام ابو القاسم بنارسی کے دعوی ٰ ’’کہ ان کو (یعنی امام ابو حنیفہ ؒ کو) کسی نے طبقات المحدثین میں شمار نہیں کیا ہے۔(دفاع صحیح بخاری : ص ۱۹۰) ‘‘ کو باطل اور مکذوب قرار دینے کے لئے کافی ہے۔

دلیل نمبر ۳ : نیز امام ذہبی ؒ   نے امام ابوحنیفہ ؒ کو’’ تذکرۃالحفاظ ‘‘ [2]     میں بھی شمار کیاہے۔دیکھئے    (ج۱ : ص ۱۲۶)

اسکین :

 یہاں تو سوال  پیدا ہوتا ہے کہ جب امام ذہبی ؒ   کے امام صاحب ؒ    الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط کرنے کی طرف توجہ نہیں کی، تو ان کو حفاظ ِحدیث میں کیوں شمار کیا  ؟   معلوم ہوا کہ حافظ ذہبیؒ نے اپنے مناقب والے قول سے رجوع کرلیا ہے۔الحمد للہ

نوٹ : اس حوالہ سے ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ ؒ امام ذہبی ؒ کے نزدیک ’’حافظ‘‘ ہے۔ جس کا درجہ  بقول کفایت اللہ سنابلی صا حب کے  حافظ ذہبیؒ کے نزدیک’’ ثقہ سےبھی  بڑا ہوہے‘‘۔(انوار البدر : ص ۶۸)

دلیل نمبر ۴ :

 بلکہ امام  ذہبی ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کو ’’ ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ‘‘ میں شمار کیا ہے۔یعنی امام صاحب ؒ  کو  ’’ ان لوگوں میں شمار کیا جن کا قول ’جرح و تعدیل‘  میں معتبر ہے ‘‘۔(ص ۱۷۵)

اسکین :

سبحان اللہ جس نے ’’ الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط کرنے کی طرف توجہ نہ کی ہو‘‘ اسے   ان لوگوں میں شمار کیا جارہا ہےجن کا قول ’جرح و تعدیل‘  میں معتبر ہوتا ہے‘۔

الغرض امام ذہبیؒ  ہی کے متعدد اقوال اور منھج  کے مد نظر آپؒ کے مناقب والے قول کا جواب ہوجاتا ہے  اور جس سبب سے امام ابو حنیفہؒ کی حدیث پر امام ذہبیؒ نے جرح بیان کی تھی تو خود  امام ذہبیؒ  ہی کے متعدد اقوال اور مناھج  اس سبب کو ختم کر دیتے ہیں۔ والحمد للہ علی ذلك

دلیل نمبر ۵ : امام ذہبیؒ کےنزدیک امام ابو حنیفہ ؒ    کا حدیث میں ثقہ ،ثبت اور الفاظ حدیث و اسناد کے ضبط میں مضبوط ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ذہبیؒ نے’ تذہیب تہذیب الکمال ‘،’ تذکرة الحفاظ ‘،’ سیر اعلام النبلاء ‘،’ تاریخ الإسلام‘،’الکاشف‘   وغیرہ  اپنی کتابوںمیں امام صاحب ؒ کے خلاف میں کوئی حرف تضعیف کا ذکر نہیں کیا۔بلکہ صرف آپ ؒ کی تعریف،ثقاہت،مناقب و فضائل ہی بیان کئے ہیں۔ (تذہیب تہذیب الکمال : ج ۹ : ص ۲۱۹-۲۲۵،تذکرة الحفاظ  : ج۱ : ص ۱۲۶-۱۲۷،سیر اعلام النبلاء : ج۸:ص۳۹۰-۴۰۳،تاریخ الإسلام :ج۳: ص ۹۹۰-۹۹۶، الکاشف : رقم ۵۸۴۵)

تذہیب تہذیب الکمال کے الفاظ :

النعمان بن ثابت بن زوطاالامام،ابوحنیفۃالکوفی فقیہ العراق وامام اہل الرأی ۔قیل انہ من ابناء فارس ،وولاؤہ لبنی تیم اللہ بن ثعلبۃ ،رأی انساً رضی اللہ عنہ ۔  وروی عن :عطاء بن أبی رباح،ونافع ،وعدی بن ثابت ،وعبدالرحمن بن ہرمز الأعوج ،وعکرمۃ ،ومحارب بن دثار ،وعلقمۃ بن مرثد ،وسلمۃ بن کہیل ،وحماد بن أبی سلیمان ،والحکم بن عتیبۃ ،وأبی جعفر الباقر ،وقتادۃ ،وعمروبن دینار ،وخلق سواھم ،وقیل انہ روی عن الشعبی ،وطاؤس ۔

وعنہ :ابنہ حماد ،وحمزۃ الزیات ،وداؤد الطائی ،وزفر بن الہذیل ،ونوح بن أبی مریم ،وأبویوسف القاضی ،ومحمد بن الحسن ،وابن المبارک ،وأ بو یحی الحمانی ،ووکیع ،وحفص بن عبد الرحمن البلخی ،وسعد بن الصلت ،وأبونعیم ،وأبوعبدالرحمن المقری ،والحسن بن زیاد اللؤلؤی ،وابوعاصم النبیل ،وعبدالرزاق ،وعبیداللہ بن موسی ،وخلق کثیر ۔

قال أحمد العجلی :ہو من رہط حمزۃ الزیات ،وکان خزازاًیبیع الخز ،وقال محمد بن اسحاق البکائی ،عن عمر بن حماد بن أبی حنیفۃ قال :زوطی من اہل کابل ،وولد ثابت علی الاسلام ،وکان ابوحنیفۃ خزازاً  ودکانہ معروف فی دار عمر بن حریث ،وقیل :اصلہ من نسا،وقیل من ترمذ ،عن اسمعیل بن حماد بن ابی حنیفۃ قال :أنا اسماعیل بن حماد بن النعمان (بن ثابت بن النعمان بن المرزبان من أبناء فارس الاحرار،واللّہ  ماوقع علینا رق قط ،ولد جدی فی سنۃ ثمانین وذھب ثابت الی علی رضی اللّہ عنہ وھو صغیر فدعا لہ بالبرکۃ فیہ وفی ذریتہ ،وأبوہ النعمان )ھو الذی أھدی لعلی یوم النیروزالفالوذج فقال نوروزنا کل یوم ۔

قال صالح  بن محمد  جزرۃوغیرہ :سمعنا یحی بن معین یقول :أبوحنیفۃ ثقۃ فی الحدیث ۔وروی أحمد بن محمد بن محرز عن ابن معین :لابأس بہ ،لقد ضربہ ابن ھبیرۃ علی ان یکون قاضیاً فأبی ۔

قال ابن کأس النخعی :حد ثنا جعفر بن محمد بن خارم حد ثنا الولید بن حماد ،وعن الحسن بن زیاد ،عن زفر بن الہذیل :سمعت ابا حنیفۃ قال :کنت انظر فی الکلا م حتی بلغت فیہ  ،وکنا نجلس بالقرب من حلقۃ حماد بن ابی سلیمان ،فجائتنی امرأۃ فقالت :رجل لہ امرأۃ اراد ان یطلقہا للسنۃ ،کم یطلقہا ؟فلم ادر مااقول فأمرتہا ان تسأل حماد اً ثم ترجع فتخبرنی ،فسألتہ فقال :یطلقہا  وھی طاھرۃ من الحیض والجماع تطلیقہ ،ثم یترکہا حتی تحیض حیضتین ،فاذا اغتسلت فقد حلت للازواج ،فرجعت فاخبرتنی فقلت :لاحاجۃ لی فی الکلام ،واخذت نعلی فجلست الی حماد فکنت اسمع مسائلہ واحفظ قولہ ،ثم یعیدھا  من الغد  فأحفظہا ویخطئی أصحابہ ،فقال :لایجلس فی صدر الحلقۃ بحذائی الا ابو حنیفۃ ،فصحبتہ عشر سنین ،ثم نازعتنی نفسی الطلب للرئا سۃ ،فأحببت أن أعتزلہ وأجلس فی حلقۃ لنفسی ،فخرجت یوماً بالعشی وعزمی أن أفعل   ،فلما دخلت المسجد فرأیتہ لم تطب نفسی أن أعتزلہ  ،فجئت فجلست معہ ،فجاء ہ فی تلک اللیلۃ  نعی لقرابتہ بالبصرۃ وترک مالا ولیس لہ وارث غیرہ ،فأمرنی أن أجلس مکانہ  ،فما ھو الا أن خرج حتی وردت علی مسائل لم اسمعہا منہ ،فکنت أجیب وأکتب جوابی ،فغاب شہرین ثم قدم فعرضت علیہ المسائل وکانت نحواً من ستین مسئلۃ فخالفنی فی عشرین منہا ،فآلیت أن لا أفارقہ حتی یموت ۔

وقال محمد بن المزاحم : سمعت ابن المبارک یقول :لولا أن اللہ اغاثنی  بأبی حنیفۃ وسفیان کنت کسائر الناس ۔وقال سلیمان بن أبی  شیخ : حدثنی حجر بن عبدالجبار قال :قیل للقاسم بن معن المسعودی :ترضی ان تکون من غلمان ابی حنیفۃ  ؟قال :ما جلس الناس الی احد أنفع من مجالسۃ ابی حنیفۃ۔وقال أحمد بن الصباح ؛سمعت الشافعی یقول : قیل لمالک :ھل رأیت  اباحنیفۃ ؟قال :نعم رأیت رجلا لو کلمک فی ھذہ الساریۃ أن یجعلہا ذھباً لقام بحجتہ ۔

وعن روح قال : کنت عند ابن جریج سنۃ خمسین ومائۃ ،فأتاہ نعی ابی حنیفۃ جاسترجع وتوجع وقال :أی علم ذھب !

وقال ضرار بن صرد : سئل یزید بن ھارون :أیما افقہ أبوحنیفۃ أو سفیان ؟قال :سفیان احفظ للحدیث وابوحنیفۃ افقہ ۔وعن ابن المبارک (قال مارأیت فی الفقہ  مثل أبی حنیفۃ ،وعنہ قال اذا اجتمع سفیان وابو حنیفۃفمن یقوم لہما علی الفتیا؟! ۔وقال ابوعروبۃ ؛سمعت سلمۃ بن شبیب ، سمعت عبدالرزاق ،سمعت ابن المبارک )یقول :ان کان احد ینبغی ان یقول برأیہ فأبوحنیفۃ ۔

روی جندل بن والق ،حد ثنی محمد بن بشر قال : کنت اختلف الی ابی حنیفۃ والی سفیان فآتی ابا حنیفۃ فیقول لی :من أین جئت ؟ فأقول :من عند سفیان ،فیقول : لقد جئت من عند رجل لو أن علقمۃ والأسود حضرا لاحتاجا الی مثلہ ۔فآتی سفیان فیقول :من این جئت ؟فأقول من عند أبی حنیفۃ ۔فیقول لقد جئت من عند  افقہ اھل الارض ۔وروی بکر بن یحی بن زبان عن ابیہ :قال لی ابوحنیفۃ :یا أھل البصرۃ ،انتم اورع منا ونحن افقہ منکم ،وعن شداد بن حکیم  قال :مارأیت اعلم من ابی حنیفۃ ۔

وقال ابو الفضل عباس بن عزیر القطان :ثنا حرملۃ ،سمعت الشافعی یقول : الناس عیال علی ھؤلاء فمن أراد ان یتبحر فی الفقہ فھو عیال علی ابی حنیفۃ ،ومن اراد ان یتبحر فی المغازی فھو عیال علی ابن اسحق ،ومن اراد أن یتبحر فی التفسیر فھو عیال علی مقاتل بن سلیمان ،ومن اراد ان یتبحر فی الشعر فھو عیال علی زھیر بن ابی سلمی ،ومن اراد ان یتبحر فی النحو فھو عیال علی الکسائی ۔

وروی حماد بن قریش عن أسد بن عمرو قال :صلی ابوحنیفۃ   فیما حفظ علیہ صلاۃ الفجر بوضوء العشاء اربعین سنۃ ۔فکان عامۃ اللیل یقرأ جمیع القرآن فی لیلۃ واحدۃ ،وکان یسمع بکائہ باللیل حتی یرحمہ جیرانہ ،وحفظ علیہ أنہ ختم القرآن فی الموضع الذی توفی  فیہ سبعین الف مرۃ ۔

قلت : ھذہ حکایۃ منکرۃ ،وفی رواتہا من لا یعرف رواھا  عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی البخاری الفقیہ ،حد ثنا  أحمد بن الحسین البلخی ،حد ثنا حماد۔۔۔فذکرھا ۔قال الحارثی أیضاً:فحد ثنا قیس بن ابی قیس ،حدثنا محمد بن حرب المروزی ،حد ثنا اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفۃ ،عن ابیہ قال :لما مات ابی سألنا  الحسن بن عمارۃ  أن یتولی غسلہ ففعل ،فلما غسلہ قال :رحمک اللہ وغفر لک ،لم تفطر منذ ثلاثین سنۃ ،ولم تتوسد یمینک باللیل منذ اربعین سنۃ ،وقد أتعبت من بعدک ،وفضحت القراء ۔

روی بشر بن الولید عن أبی یوسف قال : بینا أنا أمشی مع أبی حنیفۃ اذ سمعت رجلا یقول لرجل :ھذا أبو حنیفۃ لا ینام اللیل ۔فقال :واللہ لا یتحدث عنی بما لم أفعل ۔فکان یحی اللیل صلاۃ ودعاء وتضرعاً ،وقال محمد بن علی بن عفان : حد ثنا علی بن حفص البزار،سمعت حفص بن عبدالرحمن ،سمعت مسعراً یقول :دخلت المسجد  لیلۃ فرأیت رجلا یصلی فقرأ سبعاً فقلت :یرکع ۔ثم قرأ الثلث ،ثم النصف ،فلم یزل یقرأ حتی ختم فی الرکعۃ فنظرت فاذا ھو ابو حنیفۃ ۔ وعن خارجۃ بن مصعب قال :ختم القرآن فی رکعۃ اربعۃ :عثمان ،وتمیم الداری ،وسعید بن جبیر ،وأبوحنیفۃ ۔وعن یحی بن نصر قال :ربما ختم ابوحنیفۃ القرآن فی رمضان ستین ختمۃ۔ 

قال سلیمان بن الربیع :حد ثنا حبان بن موسی ،سمعت ابن المبارک یقول : (قدمت الکوفۃ فسألت عن اورع اھلہا فقالو ا: ابوحنیفۃ۔ قال سلیمان   :فسمعت مکی بن ابراہیم یقول : جالست الکوفیین فما رأیت اورع من ابی حنیفۃ ۔وقال حامد بن آدم :سمعت ابن المبارک) [یقول :  مارأیت أحدا اورع من ابی حنیفۃ ]  قد جرب بالسیاط والاموال ۔ وعن عبید اللہ بن عمرو الرقی قال : کلم ابن ھبیرۃ أباحنیفۃ أن یلی قضاء الکوفۃ فأبی ،فضربہ مائۃ سوط  وعشرۃ اسواط فی کل یوم عشرۃ اسواط ثم خلاہ ۔وقال سلیمان بن أبی شیخ : حدثنی الربیع بن عاصم قال : أرسلنی یزید بن عمر بن ھبیرۃ فأتیتہ بأبی حنیفۃ فأرادہ علی بیت المال فأبی ،فضربہ اسواطاً ۔وعن مغیث بن بدیل قال : قال خارجۃ بن مصعب : أجاز المنصور أباحنیفۃ بعشرۃ آلاف درہم فدعی لیقبضھا فشاورنی وقال : ھذا رجل ان رددتھا علیہ غضب ۔فقلت :ان ھذا المال عظیم فی عینہ فاذادعیت لتقبضھا فقل : لم یکن ھذا املی من أمیر المؤمنین ۔فدعی لیقبضھا فقال ذلک فرفع الیہ خبرہ فحبس الجائزۃ ۔

قال محمد الملک الدقیقی :سمعت یزید بن ھارون یقول : أدرکت الناس فما رأیت أحد ا أعقل ولا أفضل ولا أورع من أبی حنیفۃ ۔ وقال محمد بن عبداللہ الانصاری : کان أبوحنیفۃ یتبین عقلہ فی  منطقہ ومشیہ ومدخلہ ومخرجہ ۔وقال سہل بن عثمان : حد ثنا اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفۃ قال : کان لنا جار طحان رافضی  لہ بغلان  یسمی أحدھما أبابکر ،والآخر عمر ،فرمحہ ذات لیلۃ أحدھما فقتلہ ،فقال أبوحنیفۃ : انظروا الذی رمحہ الذی سماہ عمر ،فنظروا فکان کذلک ۔وقال یعقوب بن شیبۃ : أملی علی بعض اصحابنا أبیاتاً لابن المبارک :

 رأیت أبا حنیفۃ کل یوم  یزید نبالۃ ویزید  خیراً

وینطق بالصواب ویصطفیہ      اذا ما قال اھل الجور جوراً

یقاس من تقایسہ بلب     فمن ذا تجعلون لہ نظیراً

کفانا فقد حماد وکانت    مصیبتنا بہ أمراًکبیراً   

فرد شماتۃ الاعداء عنا   وأبدی بعدہ علما کثیراً

رأیت أباحنیفۃ حین یؤتی         ویطلب علمہ بحرا غزیراً

اذا ما المشکلات تدافعتھا         رجال العلم کان بھا بصیراً

روی نصر بن علی عن الخریبی قال : کان الناس فی أبی حنیفۃ ۔رحمہ اللہ ۔حا سد وجاھل  ،وأحسنہم عندی حالا الجاھل ،وقال یحی بن أیوب : سمعت یزید بن ھارون یقول : أبوحنیفۃ   رجل من الناس خطؤہ کخطأ الناس ،وصوابہ کصواب الناس ۔توفی أبوحنیفۃ ببغداد ۔قال سعید بن عفیر وغیرہ : فی رجب سنۃ خمسین ومائۃ ۔ومن قال :سنۃ احدی وخمسین أو سنۃ ثلاث فقد وھم ۔وعن الحسن بن یوسف قال: صلی علی أبی حنیفۃ ست مراۃ من کثرۃ الزحام ،روی لہ الترمذی فی’’ العلل‘‘قولہ : مارأیت أفضل من عطاء ۔ قلت : قد أحسن شیخنا أبوالحجاج حیث لم یورد شیئاًیلزم منہ التضعیف ۔

تذکرة الحفاظ کے الفاظ :

أبو حنيفة الإمام الأعظم فقيه العراق النعمان بن ثابت بن زوطا التيمي مولاهم الكوفي: مولده سنة ثمانين رأى أنس بن مالك غير مرة لما قدم عليهم الكوفة رواه ابن سعد عن سيف بن جابر أنه سمع أبا حنيفة يقوله. وحدث عن عطاء ونافع وعبد الرحمن بن هرمز الأعرج وعدي بن ثابت وسلمة بن كهيل وأبي جعفر محمد بن علي وقتادة وعمرو بن دينار وأبي إسحاق وخلق كثير. تفقه به زفر بن الهذيل وداود الطائي والقاضي أبو يوسف ومحمد بن الحسن وأسد بن عمرو والحسن بن زياد اللؤلؤي ونوح الجامع وأبو مطيع البلخي وعدة. وكان قد تفقه بحماد بن أبي سليمان وغيره وحدث عنه وكيع ويزيد بن هارون وسعد بن الصلت وأبو عاصم وعبد الرزاق وعبيد الله بن موسى وأبو نعيم وأبو عبد الرحمن المقري وبشر كثير وكان إماما ورعا عالما عاملا متعبدا كبير الشأن لا يقبل جوائز السلطان بل يتجر ويتكسب. قال ضرار بن صرد: سئل يزيد بن هارون أيما أفقه: الثوري أم أبو حنيفة؟ فقال: أبو حنيفة أفقه وسفيان أحفظ للحديث. وقال ابن المبارك: أبو حنيفة أفقه الناس. وقال الشاقعي: الناس في الفقه عيال على أبي حنيفة. وقال يزيد: ما رأيت أحدًا أورع ولا أعقل من أبي حنيفة. وروى أحمد بن محمد بن القاسم بن محرز عن يحيى بن معين قال: لا بأس به لم يكن يتهم ولقد ضربه يزيد بن عمر بن هبيرة على القضاء فأبى أن يكون قاضيا. قال أبو داود رحمه الله: أن أبا حنيفة كان إماما. وروى بشر بن الوليد عن أبي يوسف قال: كنت أمشي مع أبي حنيفة فقال رجل لآخر: هذا أبو حنيفة لا ينام الليل, فقال: والله لا يتحدث الناس عني بما لم أفعل, فكان يحيي الليل صلاة ودعاء وتضرعا. قلت: مناقب هذا الإمام قد أفردتها في جزء. كان موته في رجب سنة خمسين ومائة رضي الله عنه. أنبأنا ابن قدامة أخبرنا بن طبرزد أنا أبو غالب بن البناء أنا أبو محمد الجوهري أنا أبو بكر القطيعي نا بشر بن موسى أنا أبو عبد الرحمن المقرئ عن أبي حنيفة عن عطاء عن جابر أنه رآه يصلي في قميص خفيف ليس عليه إزار ولا رداء قال: ولا أظنه صلى فيه إلا ليرينا أنه لا بأس بالصلاة في الثوب الواحد.

سیر اعلام النبلاء کے الفاظ :

الإِمَامُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَالِمُ العِرَاقِ، أَبُو حَنِيْفَةَ النُّعْمَانُ بنُ ثَابِتِ بنِ زُوْطَى التَّيْمِيُّ، الكُوْفِيُّ، مَوْلَى بَنِي تَيْمِ اللهِ بنِ ثَعْلَبَةَ. يُقَالُ: إِنَّهُ مِنْ أَبْنَاءِ الفُرسِ. وُلدَ: سَنَةَ ثَمَانِيْنَ، فِي حَيَاةِ صِغَارِ الصَّحَابَةِ.وَرَأَى: أَنَسَ بنَ مَالِكٍ لَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِمُ الكُوْفَةَ، وَلَمْ يَثبُتْ لَهُ حَرفٌ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُم.

وَرَوَى عَنْ: عَطَاءِ بنِ أَبِي رَبَاحٍ، وَهُوَ أَكْبَرُ شَيْخٍ لَهُ، وَأَفْضَلُهُم - عَلَى مَا قَالَ -.وَعَنِ: الشَّعْبِيِّ، وَعَنْ: طَاوُوْسٍ - وَلَمْ يَصِحَّ -.وَعَنْ: جَبَلَةَ بنِ سُحَيْمٍ، وَعَدِيِّ بنِ ثَابِتٍ، وَعِكْرِمَةَ - وَفِي لُقِيِّهِ لَهُ نَظَرٌ - وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ هُرْمُزَ الأَعْرَجِ، وَعَمْرِو بنِ دِيْنَارٍ، وَأَبِي سُفْيَانَ طَلْحَةَ بنِ نَافِعٍ، وَنَافِعٍ مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، وَقَتَادَةَ، وَقَيْسِ بنِ مُسْلِمٍ، وَعَوْنِ بنِ عَبْدِ اللهِ بنِ عُتْبَةَ، وَالقَاسِمِ بنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بنِ عَبْدِ اللهِ بنِ مَسْعُوْدٍ، وَمُحَارِبِ بنِ دِثَارٍ، وَعَبْدِ اللهِ بنِ دِيْنَارٍ، وَالحَكَمِ بنِ عُتَيْبَةَ، وَعَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ، وَعَلِيِّ بنِ الأَقْمَرِ، وَعَبْدِ العَزِيْزِ بنِ رُفَيْعٍ، وَعَطِيَّةَ العَوْفِيِّ، وَحَمَّادِ بنِ أَبِي سُلَيْمَانَ - وَبِهِ تَفَقَّهَ – وَزِيَادِبنِ عِلاَقَةَ، وَسَلَمَةَ بنِ كُهَيْلٍ، وَعَاصِمِ بنِ كُلَيْبٍ، وَسِمَاكِ بنِ حَرْبٍ، وَعَاصِمِ بنِ بَهْدَلَةَ، وَسَعِيْدِ بنِ مَسْرُوْقٍ، وَعَبْدِ المَلِكِ بنِ عُمَيْرٍ، وَأَبِي جَعْفَرٍ البَاقِرِ، وَابْنِ شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ، وَمُحَمَّدِ بنِ المُنْكَدِرِ، وَأَبِي إِسْحَاقَ السَّبِيْعِيِّ، وَمَنْصُوْرِ بنِ المُعْتَمِرِ، وَمُسْلِمٍ البَطِيْنِ، وَيَزِيْدَ بنِ صُهَيْبٍ الفَقِيْرِ، وَأَبِي الزُّبَيْرِ، وَأَبِي حَصِيْنٍ الأَسَدِيِّ، وَعَطَاءِ بنِ السَّائِبِ، وَنَاصِحٍ المُحَلِّمِيِّ، وَهِشَامِ بنِ عُرْوَةَ، وَخَلْقٍ سِوَاهُم.حَتَّى إِنَّهُ رَوَى عَنْ: شَيْبَانَ النَّحْوِيِّ - وَهُوَ أَصْغَرُ مِنْهُ - وَعَنْ: مَالِكِ بنِ أَنَسٍ - وَهُوَ كَذَلِكَ -. وَعُنِيَ بِطَلَبِ الآثَارِ، وَارْتَحَلَ فِي ذَلِكَ، وَأَمَّا الفِقْهُ وَالتَّدْقِيْقُ فِي الرَّأْيِ وَغوَامِضِهِ، فَإِلَيْهِ المُنْتَهَى، وَالنَّاسُ عَلَيْهِ عِيَالٌ فِي ذَلِكَ.

حَدَّثَ عَنْهُ: خَلْقٌ كَثِيْرٌ، ذَكَرَ مِنْهُم شَيْخُنَا أَبُو الحَجَّاجِ فِي (تَهْذِيْبِهِ) هَؤُلاَءِ عَلَى المُعْجَمِ:إِبْرَاهِيْمُ بنُ طَهْمَانَ - عَالِمُ خُرَاسَانَ - وَأَبْيَضُ بنُ الأَغَرِّ بنِ الصَّبَّاحِ المِنْقَرِيُّ، وَأَسْبَاطُ بنُ مُحَمَّدٍ، وَإِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، وَأَسَدُ بنُ عَمْرٍو البَجَلِيُّ، وَإِسْمَاعِيْلُ بنُ يَحْيَى الصَّيْرَفِيُّ، وَأَيُّوْبُ بنُ هَانِئ.وَالجَارُوْدُ بنُ يَزِيْدَ النَّيْسَابُوْرِيُّ، وَجَعْفَرُ بنُ عَوْنٍ.وَالحَارِثُ بنُ نَبْهَانَ، وَحَيَّانُ بنُ عَلِيٍّ العَنَزِيُّ، وَالحَسَنُ بنُ زِيَادٍ اللُّؤْلُؤِيُّ، وَالحَسَنُ بنُ فُرَاتٍ القَزَّازُ، وَالحُسَيْنُ بنُ الحَسَنِ بنِ عَطِيَّةَ العَوْفِيُّ، وَحَفْصُ بنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ القَاضِي، وَحَكَّامُ بنُ سَلْمٍ، وَأَبُو مُطِيْعٍ الحَكَمُ بنُ عَبْدِ اللهِ، وَابْنُهُ؛ حَمَّادُ بنُ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَحَمْزَةُ الزَّيَّاتُ - وَهُوَ مِنْ أَقْرَانِهِ -.وَخَارِجَةُ بنُ مُصْعَبٍ، وَدَاوُدُ الطَّائِيُّ.وَزُفَرُ بنُ الهُذَيْلِ التَّمِيْمِيُّ الفَقِيْهُ، وَزَيْدُ بنُ الحُبَابِ.وَسَابِقٌ الرَّقِّيُّ، وَسَعْدُ بنُ الصَّلْتِ القَاضِي، وَسَعِيْدُ بنُ أَبِي الجَهْمِ القَابُوْسِيُّ، وَسَعِيْدُ بنُ سَلاَّمٍ العَطَّارُ، وَسَلْمُ بنُ سَالِمٍ البَلْخِيُّ، وَسُلَيْمَانُ بنُ عَمْرٍو النَّخَعِيُّ، وَسَهْلُ بنُ مُزَاحِمٍ.وَشُعَيْبُ بنُ إِسْحَاقَ، وَالصَّبَّاحُ بنُ مُحَارِبٍ، وَالصَّلْتُ بنُ الحَجَّاجِ.وَأَبُو عَاصِمٍ النَّبِيْلُ، وَعَامِرُ بنُ الفُرَاتِ، وَعَائِذُ بنُ حَبِيْبٍ، وَعَبَّادُ بنُ العَوَّامِ، وَعَبْدُ اللهِ بنُ المُبَارَكِ، وَعَبْدُ اللهِ بنُ يَزِيْدَ المُقْرِئُ، وَأَبُو يَحْيَى عَبْدُ الحَمِيْدِ الحِمَّانِيُّ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَعَبْدُ العَزِيْزِ بنُ خَالِدٍ - تِرْمِذِيٌّ - وَعَبْدُ الكَرِيْمِ بنُ مُحَمَّدٍ الجُرْجَانِيُّ، وَعَبْدُ المَجِيْدِ بنُ أَبِي رَوَّادٍ، وَعَبْدُ الوَارِثِ التَّنُّوْرِيُّ، وَعُبَيْدُ اللهِ بنُ الزُّبَيْرِ القُرَشِيُّ، وَعُبَيْدُ اللهِ بنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، وَعُبَيْدُ اللهِ بنُ مُوْسَى، وَعَتَّابُ بنُ مُحَمَّدٍ، وَعَلِيُّ بنُ ظَبْيَانَ القَاضِي، وَعَلِيُّ بنُ عَاصِمٍ، وَعَلِيُّ بنُ مُسْهِرٍ القَاضِي، وَعَمْرُو بنُ مُحَمَّدٍ العَنْقَزِيُّ، وَأَبُو قُطْنٍ عَمْرُو بنُ الهَيْثَمِ، وَعِيْسَى بنُ يُوْنُسَ، وَأَبُو نُعَيْمٍ.وَالفَضْلُ بنُ مُوْسَى، وَالقَاسِمُ بنُ الحَكَمِ العُرَنِيُّ، وَالقَاسِمُ بنُ مَعْنٍ، وَقَيْسُ بنُ الرَّبِيْعِ.وَمُحَمَّدُ بنُ أَبَانٍ العَنْبَرِيُّ - كُوْفِيٌّ - وَمُحَمَّدُ بنُ بِشْرٍ، وَمُحَمَّدُ بنُ الحَسَنِ بنِ أَتَشَ، وَمُحَمَّدُ بنُ الحَسَنِ الشَّيْبَانِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ خَالِدٍ الوَهْبِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ عَبْدِ اللهِ الأَنْصَارِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ الفَضْلِ بنِ عَطِيَّةَ، وَمُحَمَّدُ بنُ القَاسِمِ الأَسَدِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ مَسْرُوْقٍ الكُوْفِيُّ، وَمُحَمَّدُ بنُ يَزِيْدَ الوَاسِطِيُّ، وَمَرْوَانُ بنُ سَالِمٍ، وَمُصْعَبُ بنُ المِقْدَامِ، وَالمُعَافَى بنُ عِمْرَانَ، وَمَكِّيُّ بنُ إِبْرَاهِيْمَ.وَنَصْرُ بنُ عَبْدِ الكَرِيْمِ البَلْخِيُّ الصَّيْقَلُ، وَنَصْرُ بنُ عَبْدِ المَلِكِ العَتَكِيُّ، وَأَبُو غَالِبٍ النَّضْرُ بنُ عَبْدِ اللهِ الأَزْدِيُّ، وَالنَّضْرُ بنُ مُحَمَّدٍ المَرْوَزِيُّ، وَالنُّعْمَانُ بنُ عَبْدِ السَّلاَمِ الأَصْبَهَانِيُّ، وَنُوْحُ بنُ دَرَّاجٍ القَاضِي، وَنُوْحُ بنُ أَبِي مَرْيَمَ الجَامِعُ، وَهُشَيْمٌ، وَهَوْذَةُ، وَهَيَّاجُ بنُ بِسْطَامَ، وَوَكِيْعٌ، وَيَحْيَى بنُ أَيُّوْبَ المِصْرِيُّ، وَيَحْيَى بنُ نَصْرِ بنِ حَاجِبٍ، وَيَحْيَى بنُ يَمَانٍ، وَيَزِيْدُ بنُ زُرَيْعٍ، وَيَزِيْدُ بنُ هَارُوْنَ، وَيُوْنُسُ بنُ بُكَيْرٍ، وَأَبُو إِسْحَاقَ الفَزَارِيُّ، وَأَبُو حَمْزَةَ السُّكَّرِيُّ، وَأَبُو سَعْدٍ الصَّاغَانِيُّ، وَأَبُو شِهَابٍ الحَنَّاطُ، وَأَبُو مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيُّ، وَالقَاضِي أَبُو يُوْسُفَ.

قَالَ أَحْمَدُ العِجْلِيُّ: أَبُو حَنِيْفَةَ: تَيْمِيٌّ، مِنْ رَهطِ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، كَانَ خَزَّازاً يَبِيْعُ الخَزَّ. وَقَالَ عُمَرُ بنُ حَمَّادِ بنِ أَبِي حَنِيْفَةَ: أَمَّا زُوْطَى: فَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ كَابُلَ، وَوُلِدَ ثَابِتٌ عَلَى الإِسْلاَمِ.وَكَانَ زُوْطَى مَمْلُوْكاً لِبَنِي تَيْمِ اللهِ بنِ ثَعْلَبَةَ، فَأُعتِقَ، فَوَلاَؤُهُ لَهُم، ثُمَّ لِبَنِي قَفْلٍ.قَالَ: وَكَانَ أَبُوحَنِيْفَةَ خَزَّازاً، وَدُكَّانُه مَعْرُوْفٌ فِي دَارِ عَمْرِو بنِ حُرَيْثٍ.وَقَالَ النَّضْرُ بنُ مُحَمَّدٍ المَرْوَزِيُّ: عَنْ يَحْيَى بنِ النَّضْرِ، قَالَ: كَانَ وَالِدُ أَبِي حَنِيْفَةَ مِنْ نَسَا.وَرَوَى: سُلَيْمَانُ بنُ الرَّبِيْعِ، عَنِ الحَارِثِ بنِ إِدْرِيْسَ، قَالَ: أَبُو حَنِيْفَةَ أَصلُهُ مِنْ تِرْمِذَ.وَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ المُقْرِي: أَبُو حَنِيْفَةَ مِنْ أَهْلِ بَابِلَ. وَرَوَى: أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بنُ إِسْحَاقَ بنِ البُهْلُوْلِ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: ثَابِتٌ وَالِدُ أَبِي حَنِيْفَةَ مِنْ أَهْلِ الأَنْبَارِ.

مُكْرَمُ بنُ أَحْمَدَ القَاضِي: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بنُ عَبْدِ اللهِ بنِ شَاذَانَ المَرْوَزِيُّ، عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّهِ، سَمِعْتُ إِسْمَاعِيْلَ يَقُوْلُ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيْلُ بنُ حَمَّادِ بنِ أَبِي حَنِيْفَةَ النُّعْمَانِ بنِ ثَابِتِ بنِ المَرْزُبَانِ مِنْ أَبْنَاءِ فَارِسٍ الأَحرَارِ، وَاللهِ مَا وَقَعَ عَلَيْنَا رِقٌّ قَطُّ.وُلدَ جَدِّي فِي سَنَةِ ثَمَانِيْنَ، وَذَهَبَ ثَابِتٌ إِلَى عَلِيٍّ وَهُوَ صَغِيْرٌ، فَدَعَا لَهُ بِالبَرَكَةِ فِيْهِ وَفِي ذُرِّيَتِه، وَنَحْنُ نَرْجُو مِنَ اللهِ أَنْ يَكُوْنَ اسْتَجَابَ ذَلِكَ لِعَلِيٍّ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- فِيْنَا.

قَالَ: وَالنُّعْمَانُ بنُ المَرْزُبَانِ وَالِدُ ثَابِتٍ هُوَ الَّذِي أَهْدَى لِعَلِيٍّ الفَالُوْذَجَ فِي يَوْمِ النَّيْرُوْزِ.فَقَالَ عَلِيٌّ: نَوْرِزُوْنَا كُلَّ يَوْمٍ.وَقِيْلَ: كَانَ ذَلِكَ فِي المَهرجَانِ، فَقَالَ: مَهْرِجُوْنَا كُلَّ يَوْمٍ.

قَالَ مُحَمَّدُ بنُ سَعْدٍ العَوْفِيُّ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ:كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً، لاَ يُحَدِّثُ بِالحَدِيْثِ إِلاَّ بِمَا يَحْفَظُه، وَلاَ يُحَدِّثُ بِمَا لاَ يَحْفَظُ.وَقَالَ صَالِحُ بنُ مُحَمَّدٍ: سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ مَعِيْنٍ يَقُوْلُ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ ثِقَةً فِي الحَدِيْثِ. وَرَوَى: أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ القَاسِمِ بن مُحْرِزٍ، عَنِ ابْنِ مَعِيْنٍ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ لاَ بَأْسَ بِهِ. وَقَالَ مَرَّةً: هُوَ عِنْدَنَا مِنْ أَهْلِ الصِّدْقِ، وَلَمْ يُتَّهَمْ بِالكَذِبِ، وَلَقَدْ ضَرَبَه ابْنُ هُبَيْرَةَ عَلَى القَضَاءِ، فَأَبَى أَنْ يَكُوْنَ قَاضِياً.

أَخْبَرَنَا ابْنُ عَلاَّنَ كِتَابَةً، أَنْبَأَنَا الكِنْدِيُّ، أَنْبَأَنَا القَزَّازُ، أَنْبَأَنَا الخَطِيْبُ، أَنْبَأَنَا الخَلاَّلُ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بنُ عَمْرٍو الحَرِيْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بنُ مُحَمَّدِ بنِ كَاسٍ النَّخَعِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ مَحْمُوْدٍ الصَّيْدَنَانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ شُجَاعِ بنِ الثَّلْجِيِّ، حَدَّثَنَا الحَسَنُ بنُ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي يُوْسُفَ، قَالَ:قَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: لَمَّا أَرَدْتُ طَلَبَ العِلْمِ، جَعَلتُ أَتَخَيَّرُ العُلُوْمَ، وَأَسْأَلُ عَنْ عَوَاقِبِهَا. فَقِيْلَ: تَعَلَّمِ القُرْآنَ.فَقُلْتُ: إِذَا حَفِظتُه فَمَا يَكُوْنَ آخِرُهُ؟ قَالُوا: تَجْلِسُ فِي المَسْجِدِ، فَيَقرَأُ عَلَيْكَ الصِّبْيَانُ وَالأَحدَاثُ، ثُمَّ لاَ يَلْبَثُ أَنْ يَخْرُجَ فِيْهِم مَنْ هُوَ أَحْفَظُ مِنْكَ، أَوْ مُسَاوِيكَ، فَتَذهَبُ رِئَاسَتُكَ. قُلْتُ: مَنْ طَلَبَ العِلْمَ لِلرِّئَاسَةِ قَدْ يُفِكِّرُ فِي هَذَا، وَإِلاَّ فَقَدْ ثَبَتَ قَوْلُ المُصْطَفَى - صَلَوَاتُ اللهُ عَلَيْهِ -: (أَفْضَلُكُم مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ) . يَا سُبْحَانَ اللهِ! وَهَلْ مَحَلٌّ أَفْضَلُ مِنَ المَسْجِدِ؟ وَهَلْ نَشْرٌ لِعِلمٍ يُقَارِبُ تَعْلِيْمَ القُرْآنِ؟ كَلاَّ وَاللهِ، وَهَلْ طَلَبَةٌ خَيْرٌ مِنَ الصِّبْيَانِ الَّذِيْنَ لَمْ يَعْمَلُوا الذُّنُوبَ؟!وَأَحسِبُ هَذِهِ الحِكَايَةَ مَوْضُوْعَةً، فَفِي إِسْنَادِهَا مَنْ لَيْسَ بِثِقَةٍ.

تَتِمَّةُ الحِكَايَةِ: قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ سَمِعْتُ الحَدِيْثَ وَكَتَبتُه حَتَّى لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا أَحْفَظُ مِنِّي؟ قَالُوا: إِذَا كَبِرتَ وَضَعُفْتَ، حَدَّثتَ، وَاجْتَمَعَ عَلَيْكَ هَؤُلاَءِ الأَحْدَاثُ وَالصِّبْيَانُ، ثُمَّ لَمْ تَأمَنْ أَنْ تَغلَطَ، فَيَرمُوكَ بِالكَذِبِ، فَيَصِيْرُ عَاراً عَلَيْكَ فِي عَقِبِكَ.فَقُلْتُ: لاَ حَاجَةَ لِي فِي هَذَا.

قُلْتُ: الآنَ كَمَا جَزَمتُ بِأَنَّهَا حِكَايَةٌ مُختَلَقَةٌ، فَإِنَّ الإِمَامَ أَبَا حَنِيْفَةَ طَلَبَ الحَدِيْثَ، وَأَكْثَرَ مِنْهُ فِي سَنَةِ مائَةٍ وَبَعدَهَا، وَلَمْ يَكُنْ إِذْ ذَاكَ يَسْمَعُ الحَدِيْثَ الصِّبْيَانُ، هَذَا اصْطِلاَحٌ وُجِدَ بَعْدَ ثَلاَثِ مائَةِ سَنَةٍ، بَلْ كَانَ يَطْلُبُه كِبَارُ العُلَمَاءِ، بَلْ لَمْ يَكُنْ لِلْفُقَهَاءِ عِلْمٌ بَعْدَ القُرْآنِ سِوَاهُ، وَلاَ كَانَتْ قَدْ دُوِّنَتْ كُتُبُ الفِقْهِ أَصلاً.ثُمَّ قَالَ: قُلْتُ: أَتَعَلَّمُ النَّحْوَ.فَقُلْتُ: إِذَا حَفِظتُ النَّحْوَ وَالعَرَبِيَّةَ، مَا يَكُوْنَ آخِرُ أَمْرِي؟قَالُوا: تَقعُدُ مُعَلِّماً، فَأَكْثَرُ رِزْقِكَ دِيْنَارَانِ إِلَى ثَلاَثَةٍ.قُلْتُ: وَهَذَا لاَ عَاقِبَةَ لَهُ.قُلْتُ: فَإِنْ نَظَرتُ فِي الشِّعرِ، فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَشعَرُ مِنِّي؟قَالُوا: تَمدَحُ هَذَا فَيَهَبُ لَكَ، أَوْ يَخلَعُ عَلَيْكَ، وَإِنْ حَرَمَكَ هَجَوتَه.قُلْتُ: لاَ حَاجَةَ فِيْهِ.قُلْتُ: فَإِنْ نَظَرتُ فِي الكَلاَمِ، مَا يَكُوْنُ آخِرُ أَمرِهِ؟ قَالُوا: لاَ يَسْلَمُ مَنْ نَظَرَ فِي الكَلاَمِ مِنْ مُشَنَّعَاتِ الكَلاَمِ، فَيُرمَى بِالزَّنْدَقَةِ، فَيُقتَلُ، أَوْ يَسلَمُ مَذْمُوْماً. قُلْتُ: قَاتَلَ اللهُ مَنْ وَضَعَ هَذِهِ الخُرَافَةَ، وَهَلْ كَانَ فِي ذَلِكَ الوَقْتِ وُجِدَ عِلْمُ الكَلاَمِ؟!! قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ تَعَلَّمتُ الفِقْهَ؟قَالُوا: تُسْأَلُ، وَتُفتِي النَّاسَ، وَتُطلَبُ لِلْقَضَاءِ، وَإِنْ كُنْتَ شَابّاً.

قُلْتُ: لَيْسَ فِي العُلُوْمِ شَيْءٌ أَنفَعُ مِنْ هَذَا، فَلَزِمتُ الفِقْهَ، وَتَعَلَّمْتُهُ.

وَبِهِ: إِلَى ابْنِ كَاسٍ، حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ خَازِمٍ، حَدَّثَنَا الوَلِيْدُ بنُ حَمَّادٍ، عَنِ الحَسَنِ بنِ زِيَادٍ، عَنْ زُفَرَ بنِ الهُذَيْلِ، سَمِعْتُ أَبَا حَنِيْفَةَ يَقُوْلُ:كُنْتُ أَنظُرُ فِي الكَلاَمِ حَتَّى بَلَغتُ فِيْهِ مَبْلَغاً يُشَارُ إِلَيَّ فِيْهِ بِالأَصَابِعِ، وَكُنَّا نَجلِسُ بِالقُرْبِ مِنْ حَلْقَةِ حَمَّادِ بنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، فَجَاءتْنِي امْرَأَةٌ يَوْماً، فَقَالَتْ لِي: رَجُلٌ لَهُ امْرَأَةٌ أَمَةٌ، أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا لِلسُّنَّةِ، كَمْ يُطَلَّقُهَا؟ فَلَمْ أَدرِ مَا أَقُوْلُ، فَأَمَرتُهَا أَنْ تَسْأَلَ حَمَّاداً، ثُمَّ تَرْجِعَ تُخْبِرَنِي.

فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: يُطَلِّقُهَا وَهِيَ طَاهِرٌ مِنَ الحَيْضِ وَالجِمَاعِ تَطْلِيقَةً، ثُمَّ يَترُكُهَا حَتَّى تَحِيضَ حَيْضَتَيْنِ، فَإِذَا اغْتَسَلتْ، فَقَدْ حَلَّتْ لِلأَزْوَاجِ.

فَرَجَعَتْ، فَأَخْبَرَتْنِي.فَقُلْتُ: لاَ حَاجَةَ لِي فِي الكَلاَمِ، وَأَخَذتُ نَعْلِي، فَجَلَستُ إِلَى حَمَّادٍ، فَكُنْتُ أَسْمَعُ مَسَائِلَه، فَأَحْفَظُ قَوْلَه، ثُمَّ يُعِيْدُهَا مِنَ الغَدِ، فَأَحْفَظُهَا، وَيُخْطِئُ أَصْحَابُه.فَقَالَ: لاَ يَجْلِسْ فِي صَدْرِ الحَلْقَةِ بِحِذَائِي غَيْرُ أَبِي حَنِيْفَةَ.

 فَصَحِبتُه عَشْرَ سِنِيْنَ، ثُمَّ نَازَعَتنِي نَفْسِي الطَّلَبَ لِلرِّئَاسَةِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَعتَزِلَه وَأَجلِسَ فِي حَلْقَةٍ لِنَفْسِي، فَخَرَجتُ يَوْماً بِالعَشِيِّ وَعَزمِي أَنْ أَفْعَلَ، فَلَمَّا رَأَيْتُه، لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَعتَزِلَه. فَجَاءهُ تِلْكَ اللَّيلَةَ نَعْيُ قَرَابَةٍ لَهُ قَدْ مَاتَ بِالبَصْرَةِ، وَتَرَكَ مَالاً، وَلَيْسَ لَهُ وَارِثٌ غَيْرُهُ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَجلِسَ مَكَانَه.فَمَا هُوَ إِلاَّ أَنْ خَرَجَ حَتَّى وَرَدَتْ عَلَيَّ مَسَائِلُ لَمْ أَسْمَعْهَا مِنْهُ، فَكُنْتُ أُجِيْبُ وَأَكتُبُ جَوَابِي، فَغَابَ شَهْرَيْنِ، ثُمَّ قَدِمَ. فَعَرَضتُ عَلَيْهِ المَسَائِلَ، وَكَانَتْ نَحْواً مِنْ سِتِّيْنَ مَسْأَلَةً، فَوَافَقَنِي فِي أَرْبَعِيْنَ، وَخَالَفَنِي فِي عِشْرِيْنَ، فَآلَيْتُ عَلَى نَفْسِي أَلاَّ أُفَارِقَه حَتَّى يَمُوْتَ.وَهَذِهِ أَيْضاً اللهُ أَعْلَمُ بِصِحَّتِهَا، وَمَا عَلِمْنَا أَنَّ الكَلاَمَ فِي ذَلِكَ الوَقْتِ كَانَ لَهُ وَجُوْدٌ - وَاللهُ أَعْلَمُ -.

قَالَ أَحْمَدُ بنُ عَبْدِ اللهِ العِجْلِيُّ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ:قَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: قَدِمْتُ البَصْرَةَ، فَظَنَنْتُ أَنِّي لاَ أُسْأَلُ عَنْ شَيْءٍ إِلاَّ أَجَبتُ فِيْهِ، فَسَأَلُونِي عَنْ أَشْيَاءَ لَمْ يَكُنْ عِنْدِي فِيْهَا جَوَابٌ، فَجَعَلتُ عَلَى نَفْسِي أَلاَّ أُفَارِقَ حَمَّاداً حَتَّى يَمُوْتَ، فَصَحِبتُه ثَمَانِيَ عَشْرَةَ سَنَةً.

شُعَيْبُ بنُ أَيُّوْبَ الصَّرِيْفِيْنِيُّ: حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى الحِمَّانِيُّ، سَمِعْتُ أَبَا حَنِيْفَةَ يَقُوْلُ: رَأَيْتُ رُؤْيَا أَفزَعَتْنِي، رَأَيْتُ كَأَنِّي أَنبُشُ قَبْرَ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَأَتَيْتُ البَصْرَةَ، فَأَمَرتُ رَجُلاً يَسْأَلُ مُحَمَّدَ بنَ سِيْرِيْنَ. فَسَأَلَه، فَقَالَ: هَذَا رَجُلٌ يَنبُشُ أَخْبَارَ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.المُحَدِّثُ مَحْمُوْدُ بنُ مُحَمَّدٍ المَرْوَزِيُّ: حَدَّثَنَا حَامِدُ بنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو وَهْبٍ مُحَمَّدُ بنُ مُزَاحِمٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بنَ المُبَارَكِ يَقُوْلُ:لَوْلاَ أَنَّ اللهَ أَعَانَنِي بِأَبِي حَنِيْفَةَ وَسُفْيَانَ، كُنْتُ كَسَائِرِ النَّاسِ.أَحْمَدُ بنُ زُهَيْرٍ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بنُ أَبِي شَيْخٍ، حَدَّثَنِي حُجْرُ بنُ عَبْدِ الجَبَّارِ، قَالَ:قِيْلَ لِلْقَاسِمِ بنِ مَعْنٍ: تَرضَى أَنْ تَكُوْنَ مِنْ غِلمَانِ أَبِي حَنِيْفَةَ؟

قَالَ: مَا جَلَسَ النَّاسُ إِلَى أَحَدٍ أَنْفَعَ مِنْ مُجَالَسَةِ أَبِي حَنِيْفَةَ.

وَقَالَ لَهُ القَاسِمُ: تَعَالَ مَعِي إِلَيْهِ.فَلَمَّا جَاءَ إِلَيْهِ، لَزِمَه، وَقَالَ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ هَذَا.

مُحَمَّدُ بنُ أَيُّوْبَ بنِ الضَّرِيْسِ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بنُ الصَّبَّاحِ، سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ قَالَ:قِيْلَ لِمَالِكٍ: هَلْ رَأَيْتَ أَبَا حَنِيْفَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ، رَأَيْتُ رَجُلاً لَوْ كُلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا ذَهَباً، لَقَامَ بِحُجَّتِه.

وَعَنْ أَسَدِ بنِ عَمْرٍو: أَنَّ أَبَا حَنِيْفَةَ -رَحِمَهُ اللهُ- صَلَّى العِشَاءَ وَالصُّبْحَ بِوُضُوْءِ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً.

وَرَوَى: بِشْرُ بنُ الوَلِيْدِ، عَنِ القَاضِي أَبِي يُوْسُفَ، قَالَ:بَيْنَمَا أَنَا أَمشِي مَعَ أَبِي حَنِيْفَةَ، إِذْ سَمِعْتُ رَجُلاً يَقُوْلُ لآخَرَ: هَذَا أَبُو حَنِيْفَةَ لاَ يَنَامُ اللَّيلَ.فَقَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: وَاللهِ لاَ يُتَحَدَّثُ عَنِّي بِمَا لَمْ أَفْعَلْ، فَكَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ صَلاَةً، وَتَضَرُّعاً، وَدُعَاءً.

وَقَدْ رُوِيَ مِنْ وَجْهَيْنِ: أَنَّ أَبَا حَنِيْفَةَ قَرَأَ القُرْآنَ كُلَّهُ فِي رَكْعَةٍ.

قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بنُ مُحَمَّدِ بنِ المُغِيْرَةِ: رَأَيْتُ أَبَا حَنِيْفَةَ شَيْخاً يُفْتِي النَّاسَ بِمَسْجِدِ الكُوْفَةِ، عَلَى رَأْسِهِ قَلَنْسُوَةٌ سَوْدَاءُ طَوِيْلَةٌ.

وَعَنِ النَّضْرِ بنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ:كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ جَمِيْلَ الوَجْهِ، سَرِيَّ الثَّوْبِ، عَطِرَ الرِّيحِ، أَتَيْتُهُ فِي حَاجَةٍ، وَعَلَيَّ كِسَاءٌ قرمسِيٌّ، فَأَمَرَ بِإِسرَاجِ بَغلِه، وَقَالَ: أَعْطِنِي كِسَاءكَ، وَخُذْ كِسَائِي.فَفَعَلتُ، فَلَمَّا رَجَعَ، قَالَ: يَا نَضْرُ! خَجلْتَنِي بِكِسَائِكَ، هُوَ غَلِيْظٌ. قَالَ: وَكُنْتُ أَخَذْتُهُ بِخَمْسَةِ دَنَانِيْرَ، ثُمَّ إِنِّي رَأَيْتُه وَعَلَيْهِ كِسَاءٌ قَوَّمْتُهُ ثَلاَثِيْنَ دِيْنَاراً.

وَعَنْ أَبِي يُوْسُفَ، قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ رَبْعَةً، مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صُوْرَةً، وَأَبلَغِهِم نُطْقاً، وَأَعذَبِهِم نَغمَةً، وَأَبْيَنِهِم عَمَّا فِي نَفْسِهِ.

وَعَنْ حَمَّادِ بنِ أَبِي حَنِيْفَةَ، قَالَ:كَانَ أَبِي جَمِيْلاً، تَعلُوْهُ سُمْرَةٌ، حَسَنَ الهَيْئَةِ، كَثِيْرَ التَّعَطُّرِ، هَيُوْباً، لاَ يَتَكَلَّمُ إِلاَّ جَوَاباً، وَلاَ يَخُوضُ -رَحِمَهُ اللهُ- فِيْمَا لاَ يَعْنِيْهِ.

وَعَنِ ابْنِ المُبَارَكِ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ رَجُلاً أَوقَرَ فِي مَجْلِسِهِ، وَلاَ أَحْسَنَ سَمتاً وَحِلماً مِنْ أَبِي حَنِيْفَةَ.

إِبْرَاهِيْمُ بنُ سَعِيْدٍ الجَوْهَرِيُّ: عَنِ المُثَنَّى بنِ رَجَاءٍ، قَالَ:جَعَلَ أَبُو حَنِيْفَةَ عَلَى نَفْسِهِ إِنْ حَلَفَ بِاللهِ صَادِقاً أَنْ يَتَصَدَّقَ بِدِيْنَارٍ، وَكَانَ إِذَا أَنفَقَ عَلَى عِيَالِهِ نَفَقَةً، تَصَدَّقَ بِمِثْلِهَا.

وَرَوَى: جُبَارَةُ بنُ المُغَلِّسِ، عَنْ قَيْسِ بنِ الرَّبِيْعِ، قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ وَرِعاً، تَقِيّاً، مُفْضِلاً عَلَى إِخْوَانِه.

قَالَ الخُرَيْبِيُّ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي حَنِيْفَةَ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنِّي وَضَعتُ كِتَاباً عَلَى خَطِّكَ إِلَى فُلاَنٍ، فَوَهَبَ لِي أَرْبَعَةَ آلاَفِ دِرْهَمٍ. فَقَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: إِنْ كُنْتُم تَنْتَفِعُوْنَ بِهَذَا، فَافْعَلُوْهُ.

وَعَنْ شَرِيْكٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ طَوِيْلَ الصَّمْتِ، كَثِيْرَ العَقْلِ.

وَقَالَ أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيْلُ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ يُسَمَّى الوَتِدَ؛ لِكَثْرَةِ صَلاَتِه.

وَرَوَى: ابْنُ إِسْحَاقَ السَّمَرْقَنْدِيُّ، عَنِ القَاضِي أَبِي يُوْسُفَ، قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيْفَةَ يَخْتِمُ القُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَكْعَةٍ.

يَحْيَى بنُ عَبْدِ الحَمِيْدِ الحِمَّانِيُّ: عَنْ أَبِيْهِ: أَنَّهُ صَحِبَ أَبَا حَنِيْفَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ. قَالَ: فَمَا رَأَيْتُه صَلَّى الغَدَاةَ إِلاَّ بِوُضُوْءِ عِشَاءِ الآخِرَةِ، وَكَانَ يَخْتِمُ كُلَّ لَيْلَةٍ عِنْدَ السَّحَرِ.

وَعَنْ زَيْدِ بنِ كُمَيْتٍ، سَمِعَ رَجُلاً يَقُوْلُ لأَبِي حَنِيْفَةَ: اتَّقِ اللهَ. فَانْتَفَضَ، وَاصفَرَّ، وَأَطرَقَ، وَقَالَ: جَزَاكَ اللهَ خَيْراً، مَا أَحوَجَ النَّاسَ كُلَّ وَقْتٍ إِلَى مَنْ يَقُوْلُ لَهُم مِثْلَ هَذَا.وَيُرْوَى: أَنَّ أَبَا حَنِيْفَةَ خَتَمَ القُرْآنَ سَبْعَةَ آلاَفِ مَرَّةٍ.

قَالَ مِسْعَرُ بنُ كِدَامٍ: رَأَيْتُ أَبَا حَنِيْفَةَ قَرَأَ القُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ.

ابْنُ سَمَاعَةَ: عَنْ مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ، عَنِ القَاسِمِ بنِ مَعْنٍ: أَنَّ أَبَا حَنِيْفَةَ قَامَ لَيْلَةً يُرَدِّدُ قَوْلَه تَعَالَى: {بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ، وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ}  ، وَيَبْكِي، وَيَتَضَرَّعُ إِلَى الفَجْرِ.

وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ: أَنَّ الإِمَامَ أَبَا حَنِيْفَةَ ضُرِبَ غَيْرَ مَرَّةٍ عَلَى أَنْ يَلِيَ القَضَاءَ، فَلَمْ يُجِبْ.

قَالَ يَزِيْدُ بنُ هَارُوْنَ: مَا رَأَيْتُ أَحَداً أَحلَمَ مِنْ أَبِي حَنِيْفَةَ.

وَعَنِ الحَسَنِ بنِ زِيَادٍ اللُّؤْلُؤِيِّ، قَالَ: قَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: إِذَا ارْتَشَى القَاضِي، فَهُوَ مَعْزُوْلٌ، وَإِنْ لَمْ يُعْزَلْ.

وَرَوَى: نُوْحٌ الجَامِعُ، عَنْ أَبِي حَنِيْفَةَ، أَنَّهُ قَالَ:مَا جَاءَ عَنِ الرَّسُوْلِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَعَلَى الرَّأْسِ وَالعَيْنِ، وَمَا جَاءَ عَنِ الصَّحَابَةِ، اخْتَرْنَا، وَمَا كَانَ مِنْ غَيْرِ ذَلِكَ، فَهُم رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَالٌ.

قَالَ وَكِيْعٌ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيْفَةَ يَقُوْلُ: البَوْلُ فِي المَسْجِدِ أَحْسَنُ مِنْ بَعْضِ القِيَاسِ.

وَقَالَ أَبُو يُوْسُفَ: قَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ:لاَ يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُحَدِّثَ إِلاَّ بِمَا يَحْفَظُه مِنْ وَقْتِ مَا سَمِعَهُ.

وَعَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ الضَّرِيْرِ، قَالَ: حُبُّ أَبِي حَنِيْفَةَ مِنَ السُّنَّةِ.

قَالَ إِسْحَاقُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ الزُّهْرِيُّ: عَنْ بِشْرِ بنِ الوَلِيْدِ، قَالَ:

طَلَبَ المَنْصُوْرُ أَبَا حَنِيْفَةَ، فَأَرَادَه عَلَى القَضَاءِ، وَحَلَفَ لَيَلِيَنَّ، فَأَبَى، وَحَلَفَ: إِنِّي لاَ أَفْعَلُ.

فَقَالَ الرَّبِيْعُ الحَاجِبُ: تَرَى أَمِيْرَ المُؤْمِنِيْنَ يَحلِفُ وَأَنْتَ تَحلِفُ؟

قَالَ: أَمِيْرُ المُؤْمِنِيْنَ عَلَى كَفَّارَةِ يَمِيْنِه أَقْدَرُ مِنِّي.فَأَمَرَ بِهِ إِلَى السِّجْنِ، فَمَاتَ فِيْهِ بِبَغْدَادَ.

وَقِيْلَ: دَفَعَهُ أَبُو جَعْفَرٍ إِلَى صَاحِبِ شُرطَتِه حُمَيْدٍ الطُّوْسِيِّ، فَقَالَ: يَا شَيْخُ! إِنَّ أَمِيْرَ المُؤْمِنِيْنَ يَدفَعُ إِلَيَّ الرَّجُلَ، فَيَقُوْلُ لِي: اقْتُلْه، أَوِ اقْطَعْه، أَوِ اضْرِبْه، وَلاَ أَعْلَمُ بِقِصَّتِه، فَمَاذَا أَفْعَلُ؟ فَقَالَ: هَلْ يَأمُرُكُ أَمِيْرُ المُؤْمِنِيْنَ بِأَمرٍ قَدْ وَجَبَ، أَوْ بِأَمرٍ لَمْ يَجِبْ؟قَالَ: بَلْ بِمَا قَدْ وَجَبَ. قَالَ: فَبَادِرْ إِلَى الوَاجِبِ.وَعَنْ مُغِيْثِ بنِ بُدَيْلٍ، قَالَ: دَعَا المَنْصُوْرُ أَبَا حَنِيْفَةَ إِلَى القَضَاءِ، فَامْتَنَعَ، فَقَالَ: أَتَرغَبُ عَمَّا نَحْنُ فِيْهِ؟ فَقَالَ: لاَ أَصْلُحُ. قَالَ: كَذَبتَ. قَالَ: فَقَدْ حَكَمَ أَمِيْرُ المُؤْمِنِيْنَ عَلَيَّ أَنِّي لاَ أَصْلُحُ، فَإِنْ كُنْتُ كَاذِباً، فَلاَ أَصلُحُ، وَإِنْ كُنْتُ صَادِقاً، فَقَدْ أَخْبَرتُكُم أَنِّي لاَ أَصلُحُ.فَحَبَسَهُ. وَرَوَى نَحْوَهَا: إِسْمَاعِيْلُ بنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنِ الرَّبِيْعِ الحَاجِبِ، وَفِيْهَا: قَالَ أَبُو حَنِيْفَةَ: وَاللهِ مَا أَنَا بِمَأْمُوْنِ الرِّضَى، فَكَيْفَ أَكُوْنُ مَأْمُوْنَ الغَضَبِ، فَلاَ أَصلُحُ لِذَلِكَ.قَالَ المَنْصُوْرُ: كَذَبتَ، بَلْ تَصلُحُ.فَقَالَ: كَيْفَ يَحِلُّ أَنْ تُوَلِّيَ مَنْ يَكْذِبُ؟وَقِيْلَ: إِنَّ أَبَا حَنِيْفَةَ وَلِيَ لَهُ، فَقَضَى قَضِيَّةً وَاحِدَةً، وَبَقِيَ يَوْمَيْنِ، ثُمَّ اشْتَكَى سِتَّةَ أَيَّامٍ، وَتُوُفِّيَ.وَقَالَ الفَقِيْهُ أَبُو عَبْدِ اللهِ الصَّيْمَرِيُّ: لَمْ يَقْبَلِ العَهْدَ بِالقَضَاءِ، فَضُرِبَ، وَحُبِسَ، وَمَاتَ فِي السِّجْنِ.

وَرَوَى: حَيَّانُ بنُ مُوْسَى المَرْوَزِيُّ، قَالَ:سُئِلَ ابْنُ المُبَارَكِ: مَالِكٌ أَفْقَهُ، أَوْ أَبُو حَنِيْفَةَ؟قَالَ: أَبُو حَنِيْفَةَ.

وَقَالَ الخُرَيْبِيُّ: مَا يَقَعُ فِي أَبِي حَنِيْفَةَ إِلاَّ حَاسِدٌ ، أَوْ جَاهِلٌ.

وَقَالَ يَحْيَى بنُ سَعِيْدٍ القَطَّانُ: لاَ نَكذِبُ اللهَ، مَا سَمِعنَا أَحْسَنَ مِنْ رَأْيِ أَبِي حَنِيْفَةَ، وَقَدْ أَخَذنَا بِأَكْثَرِ أَقْوَالِه.

وَقَالَ عَلِيُّ بنُ عَاصِمٍ: لَوْ وُزِنَ عِلْمُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيْفَةَ بِعِلْمِ أَهْلِ زَمَانِهِ، لَرَجَحَ عَلَيْهِم.

وَقَالَ حَفْصُ بنُ غِيَاثٍ: كَلاَمُ أَبِي حَنِيْفَةَ فِي الفِقْهِ، أَدَقُّ مِنَ الشَّعْرِ، لاَ يَعِيبُه إِلاَّ جَاهِلٌ.

وَرُوِيَ عَنِ الأَعْمَشُ: أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَقَالَ:إِنَّمَا يُحسِنُ هَذَا النُّعْمَانُ بنُ ثَابِتٍ الخَزَّازُ، وَأَظُنُّه بُورِكَ لَهُ فِي عِلْمِهِ.

وَقَالَ جَرِيْرٌ: قَالَ لِي مُغِيْرَةُ: جَالِسْ أَبَا حَنِيْفَةَ، تَفْقَهْ، فَإِنَّ إِبْرَاهِيْمَ النَّخَعِيَّ لَوْ كَانَ حَيّاً، لَجَالَسَه.

وَقَالَ ابْنُ المُبَارَكِ: أَبُو حَنِيْفَةَ أَفْقَهُ النَّاسِ.

وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: النَّاسُ فِي الفِقْهِ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيْفَةَ.

قُلْتُ: الإِمَامَةُ فِي الفِقْهِ وَدَقَائِقِه مُسَلَّمَةٌ إِلَى هَذَا الإِمَامِ، وَهَذَا أَمرٌ لاَ شَكَّ فِيْهِ.

وَلَيْسَ يَصِحُّ فِي الأَذْهَانِ شَيْءٌ ... إِذَا احْتَاجَ النَّهَارُ إِلَى دَلِيْلِ

وَسِيْرَتُه تَحْتَمِلُ أَنْ تُفرَدَ فِي مُجَلَّدَيْنِ - رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَرَحِمَهُ -.

تُوُفِّيَ: شَهِيْداً، مَسْقِيّاً، فِي سَنَةِ خَمْسِيْنَ وَمائَةٍ، وَلَهُ سَبْعُوْنَ سَنَةً، وَعَلَيْهِ قُبَّةٌ عَظِيْمَةٌ، وَمَشْهَدٌ فَاخِرٌ بِبَغْدَادَ - وَاللهُ أَعْلَمُ -.وَابْنُهُ الفَقِيْهُ حَمَّادُ بنُ أَبِي حَنِيْفَةَ، كَانَ ذَا عِلْمٍ، وَدِيْنٍ، وَصَلاَحٍ، وَوَرَعٍ تَامٍّ.

لَمَّا تُوُفِّيَ وَالِدُه، كَانَ عِنْدَه وَدَائِعُ كَثِيْرَةٌ، وَأَهْلُهَا غَائِبُوْنَ، فَنَقَلَهَا حَمَّادٌ إِلَى الحَاكِمِ لِيَتَسَلَّمَهَا، فَقَالَ: بَلْ دَعْهَا عِنْدَك، فَإِنَّكَ أَهْلٌ. فَقَالَ: زِنْهَا، وَاقْبِضْهَا حَتَّى تَبرَأَ مِنْهَا ذِمَّةُ الوَالِدِ، ثُمَّ افعَلْ مَا تَرَى. فَفَعَلَ القَاضِي ذَلِكَ، وَبَقِيَ فِي وَزْنِهَا وَحِسَابِهَا أَيَّاماً، وَاسْتَتَرَ حَمَّادٌ، فَمَا ظَهَرَ حَتَّى أَوْدَعَهَا القَاضِي عِنْدَ أَمِيْنٍ.تُوُفِّيَ حَمَّادٌ: سَنَةَ سِتٍّ وَسَبْعِيْنَ وَمائَةٍ، كَهْلاً. لَهُ رِوَايَةٌ عَنْ: أَبِيْهِ، وَغَيْرِه.حَدَّثَ عَنْهُ: وَلَدُهُ؛ الإِمَامُ إِسْمَاعِيْلُ بنُ حَمَّادٍ، قَاضِي البَصْرَةِ.

تاریخ الإسلام کے الفاظ :

مَوْلَى بَنِي تَيْمِ اللَّهِ بْنِ ثَعْلَبَةَ وُلِدَ سَنَةَ ثَمَانِينَ، وَرَأَى أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ غَيْرَ مَرَّةٍ بِالْكُوفَةِ إِذْ قَدِمَهَا أَنَسٌ. قَالَهُ ابْنُ سَعْدٍ فقال: حدثنا سَيْفُ بْنُ جَابِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُهُ.وَرَوَى أَبُو حَنِيفَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَقَالَ: مَا رَأَيْتُ أَفْضَلَ مِنْهُ. وَعَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، وَنَافِعٍ، وَسَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، وَأَبِي جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ، وَعَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، وَقَتَادَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزٍ الأَعْرَجِ، وَعَمْرِو بْنِ دينار، ومنصور، وأبي الزبير، وحماد بن أبي سُلَيْمَانَ، وَعَدَدٍ كَثِيرٍ.

وَتَفَقَّهَ بِحَمَّادٍ، وَغَيْرِهِ، فَبَرَعَ فِي الرَّأْيِ، وَسَادَ أَهْلَ زَمَانِهِ فِي التَّفَقُّهِ وَتَفْرِيعِ الْمَسَائِلِ، وَتَصَدَّرَ لِلإِشْغَالِ وَتَخَرَّجَ بِهِ الأَصْحَابُ. فَمِنْ تَلامِذَتِهِ: زُفَرُ بْنُ الْهُذَيْلِ الْعَنْبَرِيُّ، والقاضي أَبُو يوسف يعقوب بْن إِبْرَاهِيم الأنصاري قاضي القضاة، ونوح بْن أَبِي مريم الْمَرْوَزِيُّ، وأبو مطيع الحكم بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَلْخِيُّ، وَالْحَسَنُ بْنُ زِيَادٍ اللُّؤْلُؤِيُّ، وَأَسَدُ بْنُ عَمْرٍو، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، وَحَمَّادُ بْنُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَخَلْقٌ.

وَرَوَى عَنْهُ مُغِيرَةُ بْنُ مِقْسَمٍ، وَمِسْعَرٌ، وَسُفْيَانُ، وَزَائِدَةُ، وَشَرِيكٌ، وَالْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، وَعَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، وَحَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَوَكِيعٌ، وَإِسْحَاقُ الأَزْرَقُ، وَسَعْدُ بْنُ الصَّلْتِ، وَأَبُو عَاصِمٍ، وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، وَالأَنْصَارِيُّ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، وَهَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ، وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، وَخَلْقٌ كَثِيرٌ.

وَكَانَ خَزَّازًا يُنْفِقُ مِنْ كَسْبِهِ وَلا يَقْبَلُ جَوَائِزَ السُّلْطَانِ تَوَرُّعًا، وَلَهُ دَارٌ وَصُنَّاعٌ وَمَعَاشٌ مُتَّسِعٌ، وَكَانَ معدوداً في الأجواد الأسخياء والألباء الأَذْكِيَاءِ، مَعَ الدِّينِ وَالْعِبَادَةِ وَالتَّهَجُّدِ وَكَثْرَةِ التِّلاوَةِ وَقِيَامِ اللَّيْلِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.

قَالَ ضِرَارُ بن صرد: سئل يزيد بن هارون: أيما أفقه: أبو حنيفة أو الثَّوْرِيُّ؟ فَقَالَ: أَبُو حَنِيفَةَ أَفْقَهُ، وَسُفْيَانُ أَحْفَظُ لِلْحَدِيثِ.

وَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَبُو حَنِيفَةَ أَفْقَهُ النَّاسِ.

وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: النَّاسُ فِي الْفِقْهِ عِيَالٌ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ.

وَقَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَوْرَعَ وَلا أَعْقَلَ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ.

وَقَالَ صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدٍ جَزَرَةُ، وَغَيْرُهُ: سَمِعْنَا ابْنَ مَعِينٍ يَقُولُ: أَبُو حَنِيفَةَ ثِقَةٌ.

وَرَوَى أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحْرِزٍ عَنِ ابْنِ مَعِينٍ قَالَ: لا بَأْسَ بِهِ، لَمْ يُتَّهَمْ بِالْكَذِبِ، لَقَدْ ضَرَبَهُ يَزِيدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ هُبَيْرَةَ عَلَى الْقَضَاءِ فَأَبَى أَنْ يَكُونَ قَاضِيًا.

وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَحِمَ اللَّهُ مَالِكًا، كَانَ إِمَامًا، رَحِمَ اللَّهُ الشَّافِعِيَّ، كَانَ إِمَامًا، رَحِمَ اللَّهُ أَبَا حَنِيفَةَ، كَانَ إِمَامًا، سَمِعَ هَذَا ابْنُ دَاسَةٍ مِنْهُ.

وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ: قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: عِلْمُنَا هَذَا رَأْيٌ، وَهُوَ أَحْسَنُ مَا قَدِرْنَا عَلَيْهِ فَمَنْ جَاءَنَا بِأَحْسَنِ مِنْهُ قَبِلْنَاهُ.

وَعَنْ أَسَدِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ صَلَّى الْعِشَاءَ وَالصُّبْحَ بِوُضُوءِ أَرْبَعِينَ سَنَةً.

وَرَوَى بِشْرُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ أَبِي حَنِيفَةَ إِذْ سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ لِآخَرَ: هَذَا أَبُو حَنِيفَةَ لا يَنَامُ اللَّيْلَ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَاللَّهِ لا يَتَحَدَّثُ عَنِّي بِمَا لَمْ أَفْعَلْ فَكَانَ يُحْيِي اللَّيْلَ صَلاةً وَدُعَاءً وَتَضَرُّعًا.

وَقَدْ رُوِيَ مِنْ وَجْهَيْنِ أَنَّهُ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ.

وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُغِيرَةِ: رَأَيْتُ أَبَا حَنِيفَةَ شَيْخًا يُفْتِي النَّاسَ بِمَسْجِدِ الكوفة عليه قلنسوة سوداء طويلة.

وعن النَّضْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ جَمِيلَ الْوَجْهِ، سَرِيُّ الثَّوْبِ، عَطِرًا، أَتَيْتُهُ فِي حاجة وعلي كساء قرمسي، فأمر بإسراج بغلة وَقَالَ: أَعْطِنِي كِسَاءَكَ وَخُذْ كِسَائِي، فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا رَجَعَ قَالَ لِي: يَا نَضْرُ، أَخْجَلْتَنِي بِكِسَائِكَ، قُلْتُ: وَمَا أَنْكَرْتَ مِنْهُ؟ قَالَ: هُوَ غَلِيظٌ. قَالَ النَّضْرُ: وَكُنْتُ اشْتَرَيْتُهُ بِخَمْسَةِ دَنَانِيرَ وَأَنَا بِهِ مُعْجَبٌ، ثُمَّ رَأَيْتُهُ مَرَّةً وَعَلَيْهِ كِسَاءٌ قومته ثلاثين دِينَارًا.

وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ رَبْعَةً، مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ صُورَةً، وَأَبْلَغَهُمْ نُطْقًا، وَأَعْذَبَهُمْ نَغَمَةً، وَأَبْيَنَهُمْ عَمَّا فِي نَفْسِهِ.

وَعَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي حَنِيفَةَ قَالَ: كَانَ أَبِي جَمِيلا تَعْلُوهُ سُمْرَةً، حَسَنَ الْهَيْئَةِ، كَثِيرَ الْعِطْرِ، هَيُوبًا، لا يَتَكَلَّمُ إِلا جَوَابًا، وَلا يَخُوضُ فِيمَا لا يَعْنِيهِ.

وَعَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ: مَا رَأَيْتُ رَجُلا أَوْقَرَ فِي مَجْلِسِهِ وَلا أَحْسَنَ سَمْتًا وَحِلْمًا مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ.

وَرَوَى إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ رَجَاءٍ قَالَ: جَعَلَ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى نَفْسِهِ إِنْ حَلَفَ بِاللَّهِ صَادِقًا أَنْ يَتَصَدَّقَ بِدِينَارٍ، وَكَانَ إِذَا أَنْفَقَ عَلَى عِيَالِهِ نَفَقَةً تصدق بمثلها.

وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ: لَقِيَ أَبُو حَنِيفَةَ مِنَ النَّاسِ عَنَتًا لِقَلَّةِ مُخَالَطَتِهِ، فَكَانُوا يَرَوْنَهُ مِنْ زَهْوٍ فِيهِ وَإِنَّمَا كَانَ غَرِيزَةً.

وَقَالَ جَبَّارَةُ بْنُ مُغَلِّسٍ: سَمِعْتُ قَيْسَ بْنَ الرَّبِيعِ يَقُولُ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ وَرِعًا تَقِيًّا مُفَضَّلا عَلَى إِخْوَانِهِ.

وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ: حدثنا الْخُرَيْبِيُّ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ فَقَالَ رَجُلٌ لَهُ: إِنِّي وَضَعْتُ كِتَابًا عَلَى خَطِّكَ إِلَى فُلانٍ فَوَهَبَ لِي أَرْبَعَةَ آلافِ دِرْهَمٍ. فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: إِنْ كُنْتُمْ تَنْتَفِعُونَ بِهَذَا فَافْعَلُوهُ.

وَعَنْ شَرِيكٍ قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ طَوِيلَ الصَّمْتِ كَثِيرَ الْعَقْلِ.

قَالَ يَعْقُوبُ بْنُ شيبة: حدثني بكر، قال: أخبرنا أبو عاصم النبيل قال: كان حَنِيفَةَ يُسَمَّى الْوَتَدُ لِكَثْرَةِ صَلاتِهِ. وَرَوَاهَا يُوسُفُ الْقَطَّانُ عَنْ أَبِي عَاصِمٍ.

وَرَوَى عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ السَّمَرْقَنْدِيُّ عَنْ أَبِي يُوسُفَ قَالَ: كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ يَخْتِمُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَكْعَةٍ.

وَرَوَى يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْحِمَّانِيُّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ صَحِبَ أَبَا حَنِيفَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَمَا رَآهُ صَلَّى الْغَدَاةَ إِلا بِوُضُوءِ عِشَاءِ الآخِرَةِ، وَكَانَ يَخْتِمُ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ ليلة عند السَّحَرِ.

وَعَنْ يَزِيدَ بْنِ كُمَيْتٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا يَقُولُ لِأَبِي حَنِيفَةَ: اتَّقِ اللَّهَ، فَانْتَفَضَ وَاصْفَرَّ وَأَطْرَقَ وَقَالَ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مَا أَحْوَجُ النَّاسِ كُلَّ وَقْتٍ إِلَى مَنْ يَقُولُ لَهُمْ مِثْلَ هَذَا.

وَيُرْوَى أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ خَتَمَ الْقُرْآنَ فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ سَبْعَةَ آلافِ مَرَّةٍ.

قَالَ مِسْعَرٌ: رَأَيْتُ أَبَا حَنِيفَةَ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي رَكْعَةٍ.

وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ سَمَّاعَةٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مَعْنٍ، أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَامَ لَيْلَةً يُرَدِّدُ قَوْلَهُ - تَعَالَى - {بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ} وَيَبْكِي وَيَتَضَرَّعُ إِلَى الْفَجْرِ.

وَيُرْوَى أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ ضُرِبَ غَيْرَ مَرَّةٍ عَلَى أَنْ يَلِيَ الْقَضَاءَ فَلَمْ يَفْعَلْ.

وَقِيلَ: إِنَّ إِنْسَانًا اسْتَطَالَ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَقَالَ لَهُ: يَا زِنْدِيقُ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: غَفَرَ اللَّهُ لَكَ هُوَ يَعْلَمُ مِنِّي خِلافَ مَا تَقُولُ.

قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَحْلَمَ مِنْ أَبِي حَنِيفَةَ.

وَعَنِ الْحَسَنِ بْنِ زِيَادٍ قَالَ: قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: إِذَا ارْتَشَى القاضي فَهُوَ مَعْزُولٌ وَإِنْ لَمْ يُعْزَلْ.

وَرَوَى نُوحٌ الْجَامِعُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: مَا جَاءَ عَنِ الرَّسُولِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَعَلَى الرَّأْسِ وَالْعَيْنِ، وَمَا جَاءَ عَنِ الصَّحَابَةِ اخْتَرْنَا، وَمَا كَانَ مِنْ غَيْرِ ذَلِكَ فَهُمْ رِجَالٌ وَنَحْنُ رِجَالٌ.

وَقَال وَكِيعٌ: سَمِعْتُ أَبَا حَنِيفَةَ يَقُولُ: الْبَوْلُ فِي الْمَسْجِدِ أَحْسَنُ مِنْ بَعْضِ الْقِيَاسِ.

قَالَ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَزْمٍ: جَمِيعُ الْحَنَفِيَّةِ مُجْمِعُونَ عَلَى أَنَّ مَذْهَبِ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّ ضَعِيفَ الْحَدِيثِ أَوْلَى عِنْدَهُ مِنَ الْقِيَاسِ وَالرَّأْيِ.

قَالَ أبو نعيم: كان أبو حنيفة يَجْهَرُ فِي أَمْرِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَسَنٍ جَهْرًا شَدِيدًا فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِمُنْتَهٍ حَتَّى تُوضَعَ فِي أَعْنَاقِنَا الْحِبَالُ.

وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: لا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُحَدِّثُ إِلا بِمَا يَحْفَظُهُ مِنْ وَقْتِ مَا سَمِعَهُ. وَرَوَاهَا أَبُو يُوسُفَ عَنْهُ.

وَعَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ قَالَ: حُبُّ أَبِي حَنِيفَةَ مِنَ السُّنَّةِ، وَهُوَ مِنَ الْعُلَمَاءِ الَّذِينَ امتُحِنُوا فِي اللَّهِ.

جَاءَ مَنْ طُرُقٍ مُتَعَدِّدَةٍ أَنَّهُ ضُرِبَ أَيَّامًا لِيَلِيَ الْقَضَاءَ فَأَبَى.

قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الزُّهْرِيُّ عَنْ بِشْرِ بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيِّ قَالَ: طَلَبَ الْمَنْصُورُ أَبَا حَنِيفَةَ فَأَرَادَهُ عَلَى الْقَضَاءِ وحلف ليلين فَأَبَى، وَحَلَفَ أَنْ لا يَفْعَلَ، فَقَالَ الرَّبِيعُ حَاجِبُ الْمَنْصُورِ: تَرَى أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ يَحْلِفُ وَأَنْتَ تَحْلِفُ! قَالَ: أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى كَفَّارَةِ يَمِينِهِ أَقْدَرُ مِنِّي. فَأُمِرَ بِهِ إِلَى السَّجْنِ فَمَاتَ فِيهِ بِبَغْدَادَ.

وَقِيلَ: دَفَعَهُ إِلَى صَاحِبِ الشُّرْطَةِ حُمَيْدٌ الطُّوسِيُّ فَقَالَ لَهُ: يَا شَيْخُ إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ يَدْفَعُ إِلَيَّ الرَّجُلَ فَيَقُولُ لِي: اقْتُلْهُ أَوْ قَطِّعْهُ أَوِ اضْرِبْهُ، وَلا عِلْمَ لِي بِقِصَّتِهِ، فَمَا أَفْعَلُ؟ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: هَلْ يَأْمُرُكَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ بِأَمْرٍ قَدْ وَجَبَ أَوْ بِأَمْرٍ لَمْ يَجِبُ؟ قَالَ: بَلْ بِمَا قَدْ وَجَبَ، قَالَ: فَبَادِرْ إِلَى الْوَاجِبِ.

وَعَنْ مُغِيثِ بْنِ بُدَيْلٍ، قَالَ: دَعَا الْمَنْصُورُ أَبَا حَنِيفَةَ إِلَى الْقَضَاءِ   فَامْتَنَعَ، فَقَالَ: أَتَرْغَبُ عَمَّا نَحْنُ فِيهِ! فَقَالَ: لا أَصْلُحُ، قَالَ: كَذَبْتَ، قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: فَقَدْ حَكَمَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عَلَيَّ أَنِّي لا أَصْلُحُ، فَإِنْ كُنْتُ كَاذِبًا فَلا أَصْلُحُ، وَإِنْ كُنْتُ صَادِقًا فَقَدْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنِّي لا أَصْلُحُ، فَحَبَسَهُ.

قَالَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ: سَمِعْتُ الرَّبِيعَ بْنَ يُونُسَ الْحَاجِبَ يَقُولُ: رَأَيْتُ الْمَنْصُورَ تَنَاوَلَ أَبَا حَنِيفَةَ فِي أَمْرِ الْقَضَاءِ فَقَالَ: والله ما أنا بمأمون الرضى، فَكَيْفَ أَكُونُ مَأْمُونَ الْغَضَبِ، فَلا أَصْلُحُ لِذَلِكَ، فَقَالَ: كَذَبْتَ بَلْ تَصْلُحُ، فَقَالَ: كَيْفَ يَحِلُّ لَكَ أَنْ تُوَلِّي مَنْ يَكْذِبُ؟.

وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَطِيبُ: قِيلَ: إِنَّهُ وَلِيَ الْقَضَاءَ، وَقَضَى قَضِيَّةً وَاحِدَةً وَبَقِيَ يَوْمَيْنِ، ثُمَّ اشْتَكَى سِتَّةَ أَيَّامٍ وَمَاتَ.

وَقَالَ الْفَقِيهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الصُّيَمْرِيُّ: لَمْ يَقْبَلِ الْعَهْدَ بِالْقَضَاءِ فَضُرِبَ وَحُبِسَ وَمَاتَ فِي السَّجْنِ.

قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الصَّبَّاحِ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: قِيلَ لِمَالِكٍ: هَلْ رَأَيْتَ أَبَا حَنِيفَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ رَأَيْتُ رَجُلا لَوْ كَلَّمَكَ فِي هَذِهِ السَّارِيَةِ أَنْ يَجْعَلَهَا ذَهَبًا لقام بحجته.

وَقَالَ حِبَّانُ بْنُ مُوسَى: سُئِلَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَمَالِكٌ أَفْقَهُ أَمْ أَبُو حَنِيفَةَ؟ قَالَ: أَبُو حَنِيفَةَ.

وَقَالَ الْخُرَيْبِيُّ: مَا يَقَعُ فِي أَبِي حَنِيفَةَ إِلا حَاسِدٌ أَوْ جَاهِلٌ.

وَقَالَ يَحْيَى الْقَطَّانُ: لا نَكْذِبُ اللَّهَ، مَا سَمِعْنَا أَحْسَنَ مِنْ رَأْيِ أَبِي حَنِيفَةَ، وَقَدْ أَخَذْنَا بِأَكْثَرِ أَقْوَالِهِ.

وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ: لَوْ وُزِنَ عِلْمُ أَبِي حَنِيفَةَ بِعِلْمِ أَهْلِ زَمَانِهِ لَرَجَحَ عَلَيْهِمْ.

وَقَالَ حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ: كَلامُ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْفِقْهِ أَدَقُّ مِنَ الشِّعْرِ لا يَعِيبُهُ إِلا جَاهِلٌ.

وَقَالَ الْحُمَيْدِيُّ: سَمِعْتُ ابْنَ عُيَيْنَةَ يَقُولُ: شَيْئَانِ مَا ظَنَنْتُهُمَا يُجَاوِزَانِ قَنْطَرَةَ الْكُوفَةِ: قِرَاءَةُ حَمْزَةَ، وَفِقْهُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَقَدْ بَلَغَا الآفَاقَ.

وَعَنِ الأَعْمَشِ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَقَالَ: إِنَّمَا يُحْسِنُ هَذَا النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ الْخَزَّازُ، وَأَظُنُّهُ بُورِكَ لَهُ فِي عِلْمِهِ.

وَقَالَ جَرِيرٌ: قَالَ لِي مِغَيِرَةُ: جَالِسْ أَبَا حَنِيفَةَ تَفْقَهُ، فَإِنَّ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيَّ لَوْ كَانَ حَيًّا لَجَالَسَهُ.

وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شُجَاعٍ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَاصِمٍ يَقُولُ: لَوْ وُزِنَ عَقْلُ أَبِي حَنِيفَةَ بِعَقْلِ نِصْفِ النَّاسِ لَرَجَحَ بِهِمْ.

قُلْتُ: وَأَخْبَارُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - وَمَنَاقِبُهُ لا يَحْتَمِلُهَا هَذَا التَّارِيخُ فَإِنِّي قَدْ أفردت أخباره في جزأين.

وَقِيلَ: إِنَّ الْمَنْصُورَ سَقَاهُ السُّمَّ لقيامه مَعَ إِبْرَاهِيمَ، فَعَلَى هَذَا يَكُونُ قَدْ حَصَّلَ الشَّهَادَةَ وَفَازَ بِالسَّعَادَةِ.

قَالَ أَبُو يُوسُفَ الْقَاضِي: كَانَتْ وفاته في نصف شَوَّالٍ سَنَةَ خَمْسِينَ وَمِائَةٍ.

وَقَالَ الْوَاقِدِيُّ، وَأَبُو حَسَّانٍ الزِّيَادِيُّ، وَيَعْقُوبُ بْنُ شَيْبَةَ: مَاتَ فِي رَجَبٍ سَنَةَ خَمْسِينَ، وَيُقَالُ: مَاتَ فِي شَعْبَانَ.

وَحَدِيثُهُ يَقَعُ عَالِيًا لابْنِ طَبَرْزَدَ.

’ الکاشف کے الفاظ :

النعمان بن ثابت بن زوطا الامام أبو حنيفة فقيه العراق مولى بني تيم الله بن ثعلبة رأى أنسا وسمع عطاء ونافعا وعكرمة وعنه أبو يوسف ومحمد وأبو نعيم والمقرئ أفردت سيرته في مؤلف عاش سبعين عاما مات في رجب 150 ت س۔

یہ ہم نے  ’ تذہیب تہذیب الکمال ‘،’ تذکرة الحفاظ ‘،’ سیر اعلام النبلاء ‘،’ تاریخ الإسلام ‘،’ الکاشف ‘ وغیرہ   کے تمام الفاظ  نقل کردئے  ہیں۔ اہل حدیث  حضرات اس میں سے کوئی حرف  تضعیف بتائے ۔ورنہ تسلیم کریں کہ امام  ذہبی ؒ  امام ابو حنیفہ ؒ کی توثیق اور ثناء کے ہی قائل ہیں۔

نیز ذہبیؒ نے ’ تذہیب تہذیب الکمال ‘ میں امام صاحبؒ کے ترجمہ  کے آخر میں  فرمایا ’’قد احسن شیخنا ابو الحجاج حیث لم یورد شيئا یلزم منہ التضعیف‘‘ یعنی ہمارے شیخ  الحافظ ابوالحجاج  المزی ؒ (م۷۴۲؁ھ) نے بہت اچھا کیا ہے جو ایسی کسی قسم کی بات نہیں لائے جس سے امام صاحب کی کوئی تضعیف لازم آتی ہو۔ (ج۹ : ص ۲۲۵)[3]

اسکین :

کیا اس کا مطلب یہ تھوڑی ہوگا کہ اچھا کیا جو حق کو چھپا لیا اور تضعیف ذکر نہیں کی ؟ اس سے صاف،ستری  عبارت اور کون سی ہوسکتی جس سے ذہبیؒ کے نزدیک امام  صاحب ؒ کی توثیق ثابت ہو تی ہو۔



[1]  امام  ذہبی ؒ  ’’الکاشف‘‘ میں امام صاحب ؒ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں  : ’’ الإمام ، فقيه العراق ، أفردت سيرته فى مؤَلف ‘‘ امام ابو حنیفہؒ امام ہے،عراق کے فقیہ ہے،میں نے ان کی سیرت کو ایک کتاب میں جمع کردیا۔ (یعنی میں نے ان کے حالات کو ایک  کتاب’’ مناقب الإمام ابی حنیفہ و صاحبیہ ‘‘  میں جمع کردیا  ہے)۔(رقم  ۵۸۴۵) معلوم ہوا کہ ’’الکاشف‘‘ کو لکھتے وقت  امام  ذہبیؒ     مناقب الإمام ابی حنیفہ وصاحبیہ‘ تحریر فرماچکے تھے۔ اور ’’الکاشف‘‘ کو امام  ذہبیؒ نے تقریباً  (م۷۲۰؁ھ) میں رمضان کے مہینے میں مکمل کیا۔( الکاشف مع حاشیہ ابن العجمی  ؒ : ج ۱ : ص ۸،طبع دار القبلہ جدہ)   نیز تاریخ الاسلام میں بھی امام  ذہبیؒ  نے لکھا ہے کہ’’ أخبار أبي حنيفة  رضي الله عنه  ومناقبه لا يحتملها هذا التاريخ فإني قد أفردت أخباره في جزأين ‘‘ ۔ (تاریخ الاسلام : ج ۳ : ص ۹۹۷) اور امام  ذہبیؒ نے تاریخ الاسلامکو (م۷۱۴؁ھ) میں مکمل کیا ہے۔ پھر  (م۷۲۶؁ھ) میں آپؒ نے  اس میں  اضافہ فرمایا۔ (تاریخ الاسلام تحقیق بشار عواد معروف : مقدمہ ص ۲۱۵، الحافظ الذہبی مؤرخ الاسلام،ناقد المحدثین ،تالیف عبد الستار شیخ : ص ۴۵۴) لیکن (م۷۲۰؁ھ) میں ’’الکاشف‘‘ کو لکھتے وقت   آپ ؒ نے مناقب کا ذکر کیا ہے ، اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام  ذہبیؒ نے  (م۷۱۴؁ھ) سے پہلے ہی مناقب سے فارغ ہوچکے تھے۔ جبکہ  سیر اعلام النبلاء کو آپ ؒ نے  م۷۳۹؁ھ تا  م۷۴۳؁ھ میں تحریر فرمایا ہے اور بعض نے کہا کہ آپؒ نے م۷۳۲؁ھ میں اس کی  ابتداء فرمائی ہے۔  (الحافظ الذہبی مؤرخ الاسلام،ناقد المحدثین ،تالیف عبد الستار شیخ : ص ۴۶۹،نیز دیکھئے سیر اعلام النبلاء : مقدمہ: ص ۹۲،طبع مؤسسہ الرسالہ) الغرض یہ ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ذہبی ؒ نے ’مناقب الإمام ابی حنیفہ وصاحبیہ‘ کو  پہلے تصنیف فرمایا اور بعد میں ’سیر اعلام النبلاء‘ کو۔لہذا  سیر اعلام النبلاء کا قول ناسخ ہوگا۔

[2]  تذکرۃ الحفاظ کو امام  ذہبی ؒ   نےتقریباً  م۷۴۴؁ھ کے آس پاس مکمل کیا ہے۔ (الحافظ الذہبی مؤرخ الاسلام،ناقد المحدثین ،تالیف عبد الستار شیخ : ص ۴۶۱)

[3]  یاد رہے کہ امام ذہبی ؒ نے مناقب کو (م۷۱۴؁ھ) سے پہلے تحریر فرمادیا تھا۔جیسا کہ تفصیل پہلے گزرچکی۔جبکہ تذہیب تہذیب الکمال کو آپ ؒ نے (م۷۱۶؁ھ) میں مکمل کیا ۔ اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ  امام ذہبی ؒ کا مناقب والا قول منسوخ ہے۔ اور آپ ؒ کے ناسخ قول کے مطابق امام اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) حدیث میں ثقہ ہیں۔



ماخوذ الاجماع - شمارہ نمبر 2 

 پیشکش :   النعمان سوشل میڈیا سروسز

 سکین کیلئے 
الاجماع (PDF )
 دیکھیں


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...