نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بیسں 20 تراویح عہد خلفاء راشدین میں : روایت نمبر 2


 🌹 بیسں تراویح عہد خلفاء راشدین میں

روایت نمبر ۲:

امام مالک بن انس رحمہ اللہ یزید بن رومان تابعی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ :

انَّهُ قَالَ : كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَابِ في رَمَضَانَ بِثلث و عِشْرِينَ رَكْعَةٌ 

[موطا الامام مالک ص۴۰]

[حضرت یزید بن رومان (م ۱۳۰ھ )، امام مالک وغیرہ محدثین کے استاذ اور حضرت انس حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما وغیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے شاگرد ہیں ۔ یہ بالا تفاق ثقہ تابعی ہیں، امام یحیی بن معین امام نسائی اور امام حبان رحمھم اللہ وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے، تھذیب التھذیب (۲۰۵:۶) ۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی ان کو ثقہ قرار دیا ہے، تقریب التھذیب (۳۲۳:۲) علامہ ابن عبدالبر ان کو قراءاہل مدینہ میں سے قرار دیتے ہیں، اور ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺکے مغازی جنگی حالات کے عالم اورمدینہ منورہ کے ثقہ شخص ہیں التمھید (۳۴۳:۸)


انہوں نے فرمایا : لوگ ( صحابہ کرام و تابعین عظام) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ماہ رمضان میں تئیس رکعات ۲۰ تراویح اور ۳وتر پڑھا کرتے تھے۔


⚔️ اس روایت پر بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ منقطع (مرسل) ہے، کیونکہ یزید من رومان کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔


🔹 جواب اول:

یزید بن رومان (م ۱۳۰ھ) نے اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جولوگ اُن کے حکم سے مدینہ منورہ میں تراویح پڑھتے تھے، اُن کا زمانہ تو یقیناً پایا ہے، کیونکہ یہ مدنی ہیں، اور مدینہ منورہ کے متعدد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین و بے شمار تابعین رحمھم اللہ سے اُن کو نہ صرف لقاء بلکہ شرف روایت بھی حاصل ہے۔ اور غیر مقلدین کے محقق اعظم مولانا عبدالرحمن مبارکپوری (م ۱۳۵۳ھ ) جو اس روایت پر انقطاع کا حکم لگانے میں پیش پیش ہیں، نے امام لیث بن سعد (م ۱۷۵ھ) کی ایک روایت کہ : اہل اسکندریہ و اہل مصر حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے عہد میں اُن کے حکم سے جمعہ ادا کرتے تھے، اور ان میں کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی تھے، پر انقطاع کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اگر لیث بن سعد رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عمر، وعثمان رضی اللہ عنہما کا زمانہ نہیں پایا تو اہلِ اسکندریہ واہلِ مصر و غیرہم کا زمانہ تو ضرور پایا ہے، جن کا جمعہ پڑھنا بعہد حضرت عمر، وعثمان رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں، پھر سند کیسے منقطع ہوگئی، سند تو جب منقطع ہوتی کہ اہلِ مصر وغیرہم کا جمعہ پڑھنا (وہ) حضرت عمر، وعثمان رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ۔ امام لیث بن سعد ، کا اتباع تابعین سے ہونا تو آپ (علامہ نیموی صاحب آثار السنن ) ہی نے لکھا ہے ۔ اتنا اور سنیے کہ آپ کو پچاس تابعین سے ملاقات ہے، اور آپ کا وطن مصر ہے ... جب آپ اتباع تابعین سے ہیں. اور مصر ہی کے رہنے والے ہیں، اور آپ کو پچاسوں تابعین سے ملاقات بھی ہے تو اس روایت کے موصول ہونے میں کیا شبہ ہے ؟

[ مقالات مبارکپوری (ص ۱۲۹،۱۲۸) مطبوعہ ادارة العلوم الاثرية فيصل آباد]


مولانا شمس الحق عظیم آبادی (م ۱۳۲۹ھ) نے بھی لیث کے اس اثر سے حجت پکڑی ہے ۔

[مجموعه مقالات وفتاوی (ص ۴۴۸) مطبوعہ دارابی الطیب گوجرانوالہ]


بنا بریں جب حضرت لیث بن سعد رحمتہ اللہ علیہ تبع تابعی کی حضرت عمر، وعثمان رضی اللہ عنہما کے عہد سے متعلق بیان کردہ روایت موصول ہو سکتی ہے، اور اس پر منقطع ہونے کا اعتراض غلط ہے، تو پھر حضرت یزید بن رومان مدنی و تابعی ہیں، کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد سے متعلق روایت منقطع کیوں ہے، موصول کیوں نہیں ؟ انہوں نے بھی تو یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت نہیں کی، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد کے لوگوں ( جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے بیسں تراویح پڑھتے تھے ) سے متعلق روایت کی ہے، جن کا زمانہ انہوں نے یقیناً پایا ہے۔ 


 🔹 جواب ثانی: 

اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ روایت منقطع ( مرسل ) ہے تو پھر بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ یہ روایت بھی مرسل معتضد ہے، جیسا کہ امام تقی الدین سبکی شافعی رحمۃاللہ علیہ(م ۷۵۶ ھ ) کے حوالہ سے گزرا ہے، نیز پہلے یہ بھی بحوالہ محدثین و علمائے غیر مقلدین گزرا ہے کہ مرسل معتضد بالاتفاق حجت ہے۔


🔹 جواب ثالث :

یہ موطا امام مالک کی مرسل روایت ہے، اور موطا میں جتنی بھی مرسل روایات ہیں ان کے صحیح اور قابل حجت ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ چنانچہ شارح موطا امام ابن عبد البر مالکی رحمتہ اللہ علیہ(م ۳۶۳ ھ ) لکھتے ہیں:

لان مراسيل مَالِك أصولها صحاح کلها

[ التمهيد شرح الموطا (۲۶۵:۹)]

امام مالک رحمۃاللہ علیہ کی (موطا میں) جتنی مرسل روایات میں وہ سب کی سب اصولی طور پر صحیح ہیں۔ شارح موطا امام سیوطی رحمۃاللہ علیہ (م ۹۱۱ ھ ) ارقام فرماتے ہیں:

" وَمَا مِنْ مُرْسَلِ فِي الْمُوَطأَ إِلَّا وَلَهُ عَاضِدٌ أَوَعَوَاضِد ق الصواب أن الموطاً صريح لا يثتثنى منه شیء 

[تنویر الحوالک شرح مؤطا مالک (ص ۱۳)]

موطا میں کوئی ایسی مرسل روایت نہیں ہے جس کے لیے کوئی ایک یا ایک سے زائد مؤید موجود نہ ہوں۔ پس صحیح یہ ہے کہ موطا کی تمام مرسل روایات بلا استثناء صحیح ہیں۔ نیز امام سیوطی رحمۃاللہ علیہ اور اسی طرح حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ (م ۱۱۷۶ھ) نےبھی لکھا ہے کہ:

وَقَدْ أَلفَ ابْن عَبْدِ الْبَرَ كِتَابًا فِي وَصْلِ الْمُوَطا مِنَ الْمَرَاسِيْلِ وَقَالَ : جَمِيعُ مَا فِي الْمُوَطاً مِنْ قَوْلِهِ: بَلَغَهُ، وَعَنِ الثَّقَةِ عِنْدَهُ وَامْثَالَ ذلِكَ إِحْدَى وَسِتُونَ حَدِيئًا، وَكُلُهَا مُسْنَدَةٌ مِنْ غَيْرِ

طَرِيقِ مَالِكٍ، إِلَّا أَرْبَعَةَ أَحَادِيثِ لَمْ نَعْرِفُ مَأْخَذَهَا “ 

[تنویر الحوالک شرح موطا مالک (ص ۱۳) طبع دار الفکر بیروت، المسوی شرح الموطا (۲۴:۱) طبع دار الكتب العلمیة بیروت]


شیخ ابن عبدالبر مالکی نے ایک کتاب تصنیف کی ہے، جس میں موطا کی تمام مراسیل کا وصل ثابت کر دکھایا ہے، اور لکھا ہے کہ موطا میں کل اکسٹھ مراسیل، بلاغات وغیرہ ہیں، جن کا اتصال دیگر طرق سے ثابت ہو چکا ہے۔ البتہ ان میں سے چار روایتیں ایسی ہیں جن کا اتصال ثابت کرنے سے ہم قاصر رہے ہیں ۔

اس کے بعد ان دونوں حضرات نے وہ چاروں روایتیں ذکر کی ہیں لیکن ان میں یہ مذکورہ روایت شامل نہیں۔

مولانا عبد الرحمن مبارکپوری (م۱۳۵۳ھ ) اور مولانا میاں غلام رسول (م۱۲۹۱ھ ) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: " وَ اتَّفَقَ أَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى أَنَّ جَمِيعَ مَافِيْهِ صَحِيحٌ عَلَى رَأْي مَالِكٍ وَمَنْ وَافَقَهُ، وَأَمَّا عَلَى رَأْي غَيْرِهِ فَلَيْسَ فِيْهِ مُرْسَلٌ وَلَا مُنْقَطِع إِلَّا قَدِ اتَّصَلَ السَّنَدُ بِهِ مِنْ طُرُقٍ أُخْرَى فَلَا جَرَمَ أَنَّهَا صَحِيحَةٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ ]

[مقدمة تحفة الاحوذی (۵۷:۱)، رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع (ص ۴۱)۔]


تمام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ موطا “ میں جتنی بھی روایات ہیں، وہ سب امام مالک اور ان کے موافقین کی رائے پر صحیح ہے، رہے دوسرے حضرات جو مرسل کو حجت نہیں مانتے ) تو ان کے نزدیک بھی موطا میں کوئی ایسی مرسل یا منقطع روایت نہیں جس کا دوسرے طریقوں سے اتصال ثابت نہ ہوتا ہو، پس اس لحاظ سے بلا شبہ وہ ( مرسل ومقطع) روایات بھی صحیح ہیں ۔"


نیز مولانا میاں غلام رسول صاحب ارقام فرماتے ہیں:

صاحب کبیری نے جو یہ کہا ہے کہ یزید بن رومان کی حدیث منقطع ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی نے ” حجۃ اللہ البالغہ میں فرمایا ہے کہ تمام اہل حدیث کے اتفاق سے موطا کی سب حدیثیں صحیح ہیں ۔

[رسالہ تراویح مع ترجمه ینابیع ( ص ۴۲)]


مشہور غیر مقلدعالم حافظ محمد گوندلوی صاحب (م۱۴۰۵ھ) لکھتے ہیں:

ائمہ حدیث کا اتفاق ہے کہ موطاکی جملہ احادیث امام مالک کے ہاں ضرور صحیح ہیں، اور ان کے ہم خیال بھی آپ سے ان کی صحت میں متفق ہیں ، اور جو ان کے ہم نوانہیں اس قدر انہیں بھی تعلیم ہے کہ اس میں کوئی ایسی مرسل منقطع نہیں جو بسند مروی نہ ہو ( مگر چند امور كما ثبت بالتتبع) بلا شبہ اس حیثیت سے یہ بھی صحیح ہیں۔

[التحقيق الراسخ (ص ۱۷،۱۶) مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لا ہور .]


مولانا بدیع الدین راشدی (م ۱۴۱۶ھ ) لکھتے ہیں :

ثابت ہوا کہ موطا کو اول درجہ میں اس وجہ سے شمار کیا گیا ہے کہ اس کی جو مرسل اور منقطع روایات ہیں وہ دوسری سندوں سے موصول ہوئی ہیں لہذا یہ درجہ دوسری کتاب کو نہیں مل سکتا۔ 

[مقالات راشدیہ ۶: ۴۷۱]

نیز لکھتے ہیں:

خود امام ابن عبدالبر تجرید التمھید صفحہ ۱۰ پر فرماتے ہیں:انا قَدُوَصَلْنَا... ہم نے مراسیل موطا کو کتاب التمھید میں ثقات کے طرق سے موصول بیان کر دیا ہے، جو آپ کے لیے مراسل کی حجیت کو واضح کر دے گا، اور جو اس کو دیکھنا چاہے وہاں تمہید میں دیکھ لے۔ 

ثابت ہوا کہ موطا کی مرسل روایات کو اس لیے قبول کیا جاتا ہے کہ وہ دوسری اسناد سے متصل ثابت ہوئی ہیں، جن کے راوی ثقہ ہیں ۔

[ايضا ۴۷۲:۶]


مولوی محمد قاسم خواجہ لکھتے ہیں: موطا امام مالک جس کے متعلق شاہ ولی اللہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: امام شافعی رحمۃاللہ علیہ" کا قول ہے کہ یہ موطا کتاب اللہ کے بعد صحیح ترین کتاب ہے، اور تمام اہل حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کی تمام حدیثیں صحیح ہیں ۔ 

[حی علی الصلوة ص ۱۸]


حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں :

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ نے اہل الحدیث سے نقل کیا ہے کہ موطا کی تمام احادیث صحیح ہیں ۔ 

[تعداد رکعات قیام رمضان ص۲۰]


مولانا محمد جانباز خان محمدی حیدر آبادی نے موطا کو ان کتب حدیث میں سے قرار دیا ہے کہ جن کی تمام احادیث صحیح ہیں اور ان میں ایسی کوئی حدیث نہیں ہے جس کو ضعیف کہ سکیں۔ 

[فتاوی علمائے حدیث ۹۴:۳]


لہذا جب محدثین اور خود کبار علمائے غیر مقلدین کے نزدیک بھی موطا کی تمام مرسل اور منقطع روایات صحیح ہیں تو پھر موطاکی مذکورہ مرسل روایت پر ان کا اعتراض فضول ہے۔ بلکہ غیر مقلدین کے امام مولانا عبد الرحمن مبارکپوری (م ۱۳۵۳ھ ) تو بلاغات موطا ( وه روایات جو بلا سند ذکر کی جاتی ہیں جن کا درجہ یقینا مرسل سے کم ہے ) کو بھی صحیح قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ موصوف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک اثر سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: امام مالک نے علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو بلاغا روایت کیا ہے۔ علامہ زرقانی شرح موطا (۲۶:۱) میں لکھتے ہیں : بَلَاغُهُ لَيْسَ مِنَ الضعِيفِ یعنی امام مالک رحمۃاللہ علیہ کا بلاغ ضعیف نہیں۔ 

 [مجموعه فتاوی مبارکپوری (ص ۵۰۴) مطبوعہ دارابی الطیب گوجرانوالہ]


پس جب موطا کا بلاغ صحیح ہے تو پھر اس کی مرسل صحیح کیونکر نہیں ہوئی ؟


 🔹 جواب رابع:

یزید بن رومان رحمۃاللہ علیہ کی مذکورہ حدیث کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃاللہ علیہ(م ۸۵۲ھ) نے فتح الباری" میں ذکر کر کے اس پر سکوت فرمایا ہے، اور اس پر کسی قسم کی جرح نہیں کی 

 [ فتح الباری شرح صحیح البخاری ۳۱۸:۴]

اور متعدد علمائے غیر مقلدین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ کا کسی حدیث کو ” فتح الباری“ میں ذکر کر کے اس پر جرح نہ کرنا اس حدیث کے صحیح یا کم از کم حسن ہونے کی دلیل ہے۔ 

چنانچہ غیر مقلدین کے شیخ الکل مولانا نذیرحسین دہلوی (م ۱۳۲۰ھ ) ارقام فرماتے ہیں:

میں کہتا ہوں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت حافظ ابن حجر رحمۃاللہ کے اس قاعدے کے مطابق جس کو انہوں نے اوائل مقدمہ فتح الباری میں بیان کیا ہے حسن ہونا چاہیے۔

[فتاوی نذیریه ۳۵۶:۳]


قاضی شوکانی (م ۱۲۵۰ھ) اور شیخ البانی (م ۱۴۲۰ھ ) بھی فتح الباری میں کسی حدیث پر سکوت ابن حجر کو اس حدیث کے حسن یا صحیح ہونے کی دلیل گردانتے ہیں۔

[نیل الاوطار ۱۶۶:۱ سلسلة الاحادیث الصحیحة ۷،۱۱۴۵:۶: ۱۳۰۱،۱۲۶۴]


مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحب (م۱۳۵۳ھ ) ایک حدیث ( جس پر حافظ ابن حجر نے سکوت کیا ہے، اور جرح نہیں کی) لکھتے ہیں:

ذَكَرَهُ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ فِي فَتْحِ الْبَارِيِّ وَهُوَ حَسَنٌ عِنْدَهُ عَلَى

ما اشترط في اوائلِ مُقَدمِةِ فَتح البارى الخ 

[ابکار المنن ص٤۵ نیز دیکھئے مجموعہ فتاوی ص ۲۶۸]


’اس حدیث کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ذکر کر کے اس پر سکوت) کیا ہے، جو کہ ان کے نزدیک اس حدیث کے حسن ہونے کی دلیل ہے۔ جیسا کہ خود انہوں نے مقدمہ فتح الباری" کے شروع میں اس کی تصریح کی ہے۔ اسی طرح مبارکپوری صاحب ایک اور حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں

: وَسَكَتَ ابنُ حَجَرٍ عَنْ حَدِيثِ وَائلٍ وَحَدِيْث هَلْبٍ فَلَوْ كَانَا أَيْضًا ضَعِيفَيْنِ عِنْدَهُ لَبَيَّنَ ضَعْفَهُمَا، وَلِأَنَّهُ قَالَ فِي أَوَائِلِ مُقَدمَةِ فَتح الباري: .... )

[ ایضاً ص ۱۰۶]

حافظ ابن حجر نے (فتح الباری میں ) حضرت وائل اور حضرت ہلب رضی اللہ عنہماکی احادیث کو ذکر کر کے ان پر سکوت کیا ہے ، اور اگر یہ دونوں حدیثیں بھی ان کے نزدیک ضعیف ہوتیں تو وہ ضرور ان کا ضعف بیان کرتے۔ نیز ان کا یہ سکوت ان دونوں حدیثوں کے حسن ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ انہوں نے مقدمہ فتح الباری“میں اس کی تصریح کی ہے۔

مبارکپوری صاحب کے استاذ اور بزرگ غیر مقلد عالم حافظ عبد اللہ غازی پوری (م ۱۳۳۷ھ ) ایک حدیث جس کو حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ نے فتح الباری میں ذکر کیا ہے، سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

یہ روایت صحیح ہے یا حسن ہے ضعیف نہیں ہے اس لیے کہ حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ نے مقدمہ فتح المباری (ص: ۴۰ چھاپہ دہلی) میں اس امر کی تصریح کی ہے کہ ہم جو حدیث فتح الباری میں ذکر

کریں گے، اس شرط سے ذکر کریں گے کہ وہ حدیث یا تو صحیح ہوگی یا حسن ہوگی۔

[مقالات غازی پوری ص ۳۳۹،۳۳۸]

 نیز غازی پوری صاحب اپنی ایک اور مستدل حدیث کے دفاع میں لکھتے ہیں: نیل (نیل الاوطار ) میں قتادہ سے مروی حدیث ہے، جسے صاحب الفتح (فتح الباری) نے ذکر کیا ہے، انہوں نے اس پر تعاقب نہیں کیا، باوجود اس کے کہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ اس حدیث پر تعاقب کرتے ہیں، جس میں ضعف ہوتا ہے۔

[مجموعه فتاوی غازی پوری ص ۳۰۴]

 

مولانا ثناء اللہ امرتسری (م ۱۳۶۷ھ ) ارقام فرماتے ہیں:

( حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ) مقدمہ میں لکھ چکے ہیں کہ شرح بخاری میں جن احادیث کو بغیر جرح کے نقل کروں گا وہ صحیح ہوگی یا حسن ۔

[فتاوی علمائے حدیث ۱۳: ۱۹۴]


مولانا بدیع الدین راشدی (م ۱۴۱۶ھ ) ایک حدیث کے متعلق لکھتے ہیں: حافظ ابن حجرنے فتح الباری ۲۶۸ میں اس کو ذکر کیا ہے، اور مقدمہ فتح الباری ص ٤ میں یہ شرط رکھی ہے کہ جو حدیث ذکر کریں گے وہ صحیح یا حسن ہوگی۔

[مقالات راشدیہ ۲: ۱۶۴ نیز دیکھئے ۹۹:۲]


مولانا عبدالرؤف سندھو لکھتے ہیں:

فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ کا اس حدیث پر سکوت اس کے حسن ہونے کی علامت ہے۔

[القول المقبول ص ۴۳۴]


حافظ زبیر علی زئی اپنے استاذ مولانا عبد المنان نورپوری صاحب (م ۱۴۳۳ھ ) کےحوالہ سے لکھتے ہیں: حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ نے عقبہ بن عامر کے اثر کو فتح الباری میں نقل فرما کرسکوت فرمایا ہے۔ لہذا ان کی شرط کے اعتبار سے یہ اثر ان کے نزدیک کم از کم حسن تو ضرور ہے۔  

[ نور العینین ص ۱۴۵ حاشیہ نمبر ١]


مولانا ارشاد الحق اثری ایک حدیث سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اور غالبا یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ نے فتح (یعنی فتح الباری ۔ ناقل ) ص ۲۳۳، ج ۲، میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث پر سکوت کیا ہے۔

[ توضیح الکلام ۲۱۷:۱ نیز دیکھے تنقیح الکلام ص ۱۴۳٬۹۳]


مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی (م ۱۳۷۵ھ ) رقمطراز ہیں:

حافظ ابن حجر رحمۃاللہ علیہ نے مقدمہ فتح الباری میں تصریح کی ہے کہ میں اس شرح (فتح الباری) میں جو حدیث لاؤں گا وہ صحیح ہوگی یا حسن ( مقدمہ ص۴)

[ شہادت القرآن ص ۲۳۶]


کفایت اللہ سنابلی صاحب بھی حافظ صاحب کے کسی حدیث پر سکوت کو اس حدیث کےحسن یا صحیح ہونے کی دلیل قرار دیتے ہیں ۔

[انوارالبدر ص ۳۵،۲۸ انوار التوضیح ص۱۳۹]


الغرض یہ روایت غیر مقلدین کے مسلمات کی روشنی میں بھی ہر لحاظ سے صحیح ہے۔


 ⚔️ عتراض ثانی:

غیر مقلدین حضرات اس روایت پر یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے خالی ہے، اس میں صرف یہی ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس تراویح پڑھتے تھے۔ اس میں اس امر کی تصریح نہیں کہ جو لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے وہ بحکم حضرت عمر رضی اللہ عنہ پڑھتے تھے۔

[رکعات تراویح ص ۱۹ از حافظ عبد الله غازی پوری، تعداد رکعات قیام رمضان کا تحقیقی جائزہ ص۷۰ از حافظ زبیر علی زئی، تعداد تراویح ص ۶۲ از حافظ عبدالمنان نورپوری وغیرہ۔]


🔹 جواب:

یہ اعتراض بھی کئی وجوہ سے باطل ہے۔

(1) اگرچہ اس روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح نہیں لیکن دیگر روایات میں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح موجود ہے۔ مثلاً حضرت یحیی بن سعید انصاری رحمۃاللہ علیہ کی روایت جو ابھی گزری ہے، اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح موجود ہے۔ اسی طرح آگے ہم متعدد روایات ذکر کر رہے ہیں جن میں صراحتاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو بیس تراویح پڑھانے کا حکم موجود ہے۔ لہذا جن روایات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح نہیں ان کو بھی ان کے حکم والی روایات پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ با قرار علمائے غیر مقلدین ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر بیان کرتی ہے۔ مولانا عبد الرحمن مبارکپوری (م۱۳۵۳ھ ) رقمطراز ہیں:

اور یہ تو مسلم ہی ہے کہ بعض روایات بعض کی مفسر ہوا کرتی ہیں ۔ 

[مقالات مبارکپوری ص۴۴۹]

مولانامحمد گوندلوی (م ۱۴۰۵ھ ) لکھتے ہیں :

حافظ صاحب ( ابن حجر رحمۃاللہ علیہ) اور عینی نے شرح بخاری میں فرمایا: الْأَحَادِيثُ يُفَسرُ بَعْضُهَا بَعْضًا ( حدیثیں ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہیں )

[مقالات گوندلوی ۴۴۵:۱]

مولانا ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں:

اور اصول کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے : الحَدِيثُ يُفَسرُ بَعْضُهُ بَعْضًا “ کہ ایک حدیث دوسری کی وضاحت کرتی ہے۔

[توضیح الکلام ۵۴۴٫۴۸۹:۱]

مولانا محب اللہ راشدی (م ۱۴۱۵ھ ) ارقام فرماتے ہیں:

محد ثین کا اصول ہے کہ: الْأَحَادِيثُ يُفَسرُ بَعْضُهَا بَعْضًا یعنی بعض احادیث بعض کی تفسیر ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے ایک حدیث کو دوسری سے ملا کر پھر مطلب نکالتے ہیں۔ 

[مقالات راشدیہ ۹: ۱۰۷]


اب اگر ہماری سب مستدل احادیث کو ملا کر دیکھا جائے تو ان میں سے ہر ایک حدیث دوسری کی تفسیر کر رہی ہے۔ مثلاً حدیث نمبر١ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک شخص کو بیس تراویح پڑھانے کا حکم مذکور ہے، جب کہ حدیث نمبر ۳ وغیرہ میں اس کی تصریح موجود ہے کہ وہ شخص حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تھے۔ اس مذکورہ حدیث میں ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس تراویح پڑھا کرتے ہیں، جب کے آگے حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما کی روایات آرہی ہیں جن میں اس کی وضاحت ہے کہ : كُنَّا نَقُومُ ... یعنی ہم صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں تراویح پڑھتے تھے۔ ان سب احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو بیس تراویح پڑھانے کا حکم دیا، اور سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے اس حکم سے حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں بیس تراویح پڑھا کرتے تھے۔ وھو المطلوب


(٢) خود غیر مقلدین کے اکابر کو بھی یہ بات تسلیم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جولوگ بیس تراویح پڑھتے تھے، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم اور فرمان سے ہی پڑھتے تھے، اس کی تفصیل مقدمہ میں گزر چکی ہے، فَلْیرَاجِعْ إِلَيْهَا ۔ 


(٣) یہ اعتراض ہی فضول ہے، کیونکہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت اور مدینہ منورہ جیسے شہر کا واقعہ ہے (اس لیے کہ اس روایت کے راوی حضرت یزید بن رومان مدنی ہیں ۔ نیز مابعد روایت میں مدینہ منورہ کی تصریح ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہی لوگوں کو تراویح کی جماعت پر اکٹھا فرمایا، اور اس کی ترغیب دی۔ بلکہ آپ کا لوگوں کے ساتھ تراویح پڑھنا بھی ثابت ہے ۔ جیسا کہ مقدمہ میں بحوالہ گزرا ہے۔

نیز بخاری و موطا کے حوالہ سے یہ روایت گزر چکی ہے کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی مقرر کردہ جماعت تراویح کا معائنہ بھی فرمایا، اور اس کو نِعْمَ الْبِدُعَة “ سے تعبیر فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کا یہ بیس تراویح پڑھنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زیر علم تھا۔

غیر مقلدین کے مشہور عالم اور اس مسئلہ تراویح میں ان کے سب سے بڑے وکیل مولانا نذیر احمد رحمانی (م ۱۳۸۵ ھ ) بھی تسلیم کرتے ہیں کہ لوگوں کا بیس تراویح پڑھنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زیر علم تھا، چنانچہ موصوف لکھتے ہیں:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس (تراویح) پر نکیر نہیں فرمائی، یہی اہل حدیث کا مذہب بھی ہے۔

[انوار المصابیح (۲۳۳)


نیز جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت قائم فرمائی، اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس کا امام مقرر فرمایا، تو اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اس کی تعداد مقرر نہیں فرمائی، اور اسے لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا ؟ لہذا یہ لامحالہ ماننا پڑے گا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جیسے تراویح کی جماعت قائم کی، اسی طرح انہوں نے اس کی رکعات کی تعداد بھی خود ہی متعین فرمائی۔ اس حقیقت کا اقرار نامور غیر مقلد عالم مولانا وحید الزمان (م ۱۳۳۸ھ) نے بھی کیا ہے، جیسا کہ ان کا بیان حدیث نمبر ١( روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ) کے ذیل میں گزرا ہے کہ جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے تراویح کی جماعت قائم ہوئی، اسی طرح انہوں نے اپنے حکم سے اس کی تعداد ( بیس تراویح) بھی مقرر فرمائی۔ اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کے بغیر خود ہی اپنی مرضی سے بیس تراویح پڑھتے تھے، تو کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو اس فعل سے منع فرمایا تھا؟ ہرگز نہیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا باوجودعلم ہونے کے لوگوں کو اس عمل سے منع نہ فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کے اس عمل میں ان کی رضا مندی بھی شامل تھی، اور ان کے نزدیک یہی سنت تھی۔ ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے متبع سنت اور عاشق رسول صحابی کیسے یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کے ماتحت رعایا کوئی غلط یا خلاف سنت کام سرانجام دیں۔ بزرگ غیر مقلد عالم مولانا محمد عبد اللہ غازی پوری رحمۃاللہ علیہ(م ۱۳۳۷ھ ) بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جولوگ بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے، اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رضا شامل تھی، چنانچہ اپنے ایک فتوی میں فرماتے ہیں: ہاں بعض روایت سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ بیس رکعت پڑھتے تھے، جیسا کہ روایت سائب بن یزید سے جو امام بیہقی نے کتاب المعرفة میں روایت کیا ہے معلوم ہوتا ہے لیکن یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس سے پڑھنا بیس رکعت کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نہیں ثابت ہوتا ہاں رضائے حضرت عمر رضی ﷲعنہ ثابت ہوتی ہے۔

[مجموعه فتاوی مولانا غازی پوری ص ۲۴۲ مطبوعہ دارابی الطیب، گوجرانوالہ]


لہذا اگر بالفرض یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قولی یا فعلی سنت نہیں تو ان کی تقریری سنت ضرور ہے، اور وہ بھی حجت ہے۔


(٤) خود غیر مقلدین کے اپنے دلائل ( روایات عمر رضی اللہ عنہ) میں سوائے موطا امام مالک کی روایت کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح نہیں ہے۔ چنانچہ مولانانذیر احمد رحمانی (م ۱۳۸۵ھ) لکھتے ہیں:

امام مالک کی روایت میں (حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ) حکم دینے کا ذکر ہے، اور دوسروں کی روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ 

[انوار المصابیح ص ۲۳۷]

لیکن غیر مقلدین ان روایات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی تصریح نہ ہونے کے باوجود بڑے طمطراق سے ان روایات سے استدلال کرتے ہیں، اور وہاں اس کا وہ جو عذر بیان کرتے ہیں وہ بھی ذرا ملاحظہ کریں۔

چنانچہ یحیی بن سعید رحمۃاللہ علیہ کی روایت کے ذیل میں مولانا عبد المنان نور پوری صاحب (م ۱۴۳۳ھ ) لکھتے ہیں:

یہ درست ہے کہ یحیی بن سعید کے بیان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کا ذکر نہیں مگر اس کے بیان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کی نفی بھی تو نہیں ۔

[تعداد تراویح ص ۱۴۴]

کیا ہم یہاں بھی غیر مقلدین سے ایسے ہی فیصلے کی توقع رکھ سکتے ہیں۔ دیدہ باید ؟


ماخوذ:

[رکعات تراویح ایک تحقیقی جائزہ]

از حافظ ظہور احمد الحسینی حفظہ اللہ

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...