کیا ’’بغیر ترجیع کی اذان کے ساتھ، دوہری اقامت‘‘ کا مذہب بلادلیل اور مردودہے؟ علماء احناف کے نزدیک اقامت کا طریقہ :
کیا ’’بغیر ترجیع کی اذان کے ساتھ، دوہری اقامت‘‘ کا مذہب بلادلیل اور مردودہے؟
-مفتی ابن اسماعیل المدنی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 7
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
علماء احناف کے نزدیک اقامت کا طریقہ :
امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ثقہ، حافظ
الحدیث، امام، ابو عبد اللہ محمد بن الحسن
شیبانیؒ (م۱۸۹ھ) نے سے پوچھا
گیا ’’قلت والأذان والإقامة
مثنى مثنى ۔۔۔۔۔۔۔ قال نعم‘‘ اقامت بھی اذان کی طرح دوہری کہی جائے گی ؟ امام صاحب ؒ نے جواب دیا : ہاں۔ (الأصل المعروف بالمبسوط للشیبانی : جلد۱ : صفحہ ۱۰۸)
یہی قول امام ابو حنیفہؒ (م۱۵۰ھ) اور امام ابو
یوسف ؒ (م۱۸۲ھ) کا بھی ہے۔(الأصل المعروف بالمبسوط للشیبانی : جلد۱ : صفحہ ۱)
دوسری جگہ امام محمدؒ فرماتے ہیں :
’’والإقامة مثنى مثنى
كالأذان عندنا‘‘ ہمارے
نزدیک اقامت بھی اذان کی طرح دوہری کہی جائے گی ۔ (المبسوط للسرخسی : جلد ۱ : صفحہ ۱۲۹)
احناف کی اصل دلیل :
امام طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ) نے
کہا کہ
حدثنا
علي بن شيبة قال: ثنا يحيى بن يحيى النيسابوري قال: ثنا وكيع , عن الأعمش , عن
عمرو بن مرۃ عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: أخبرني أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم
, أن عبد الله بن زيد الأنصاري رأى في المنام الأذان فأتى النبي صلى الله عليه
وسلم , فأخبره فقال: «علمه بلالا» فأذن مثنى مثنى , وأقام مثنى مثنى , وقعد قعدة
"
حضرت عمرو بن مرۃ ؒ سےمنقول ہے کہ
حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ نے فرمایا کہ : حضرت رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام (رضي اللہ عنہم) نے مجھ سے بیان کیا کہ: حضرت عبد
اللہ بن زید انصاری ؓ نے خواب میں اذان دیکھی،
تو نبی کریم ﷺ کے پاس آکر اس کا
تذکرہ کیا ، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’یہ بلال کو سکھادو‘‘،سو حضرت بلال ؓ نے
دو دو مرتبہ کلماتِ اذان اور دو دو مرتبہ کلماتِ اقامت کہے ، اورکچھ دیر بیٹھے۔ (شرح
معانی الآثار : جلد۱ : صفحہ ۱۳۴ ، حدیث ۸۲۴-۸۲۵واللفظ لہ، مصنف ابن ابی شیبہ :جلد۱:صفحہ
۱۸۵، حدیث ۲۱۱۸ا، السنن الکبریٰ للبیہقی : جلد۱ : صفحہ ۶۸۱، حدیث ۱۹۷۵)
اس حدیث کی سند کا حال :
اس حدیث شریف کو امام ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۴ھ)نے براہ راست ،اورامام طحاویؒ (م۳۲۱ھ) و امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) نے اپنی اپنی
سندوں سے ’’وکیع عن الاعمش عن عمرو بن مرۃ
‘‘ کی سند
سے نقل کیا ہےاور یہ تینوں (وکیع ، اعمش ،
عمرو ) مشہور ثقات ہیں۔
محدثین اور غیر مقلدین کے محدث العصر کی نظر میں اس سند
کا درجہ :
اس سند کو امام ابن دقیق العیدؒ (م۷۰۲ھ)،
امام ابن الترکمانیؒ (م۷۵۰ھ)نے
صحیح کی شرط پر کہا ہے، اور امام ابن حزم ؒ (م۴۵۶ھ) نے اتنہائی صحیح کہا
ہے، یہ بات مشہور غیرمقلد عالم و محدث شیخ
البانیؒ نے اپنی معروف تحقیق صحیح أبی داؤد – الأم میں ، جو کہ غیرمقلدین کے نزدیک
بہت ہی مایہ ناز اور اتنہائی معتبر سمجھی جاتی ہے، ذکر کی ہے اور اس پر سکوت کیا
ہے۔
وقول ابن أبي
ليلى: (حدثنا أصحابنا) إنما أراد به الصحابة رضي الله عنهم، كما صرح به الأعمش عن
عمروبن مرة، كما يأتي. وقد تردد في ذلك المنذري، فقال في مختصره ( ۴۷۷) : "
وقول ابن أبي ليلى: (حدثنا أصحابنا) ؛ إن أراد الصحابة؛ فهو قد سمع من جماعة من
الصحابة، فيكون الحديث مسنداً؛ وإلا فهو مرسل"!
والرواية
المشار إليها تعين الاحتمال الأول، كما قال الحافظ في "التلخيص "
(۳/۱۷۴) . قال: "ولهذا صححها ابن حزم وابن دقيق العيد ". وقال الزيلعي
في "نصب الراية" (۱/۲۶۷) : "أراد
به الصحابة؛ صرَّح بذلك ابن أبی شيبة في " مصنفه"، فقال: حدثنا وكيع:
ثنا الأعمش عن عمرو بن مرة عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: حدثنا أصحاب محمد
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أن عبد الله بن زيد الأنصاري جاء بلى النبي
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقال: يا رسول الله! رأيت في المنام كأن رجلاً
قام وعليه بردان أخضران، فقام على حائط،
فأذن مثنی مثنى، وأقام مثنى مثنى. انتهى. وأخرجه للبيهقي في "سننه " عن
وكيع ... به. قال في "الإمام ": وهذا رجال "الصحيح "، وهو
متصل على مذهب الجماعة في عدالة الصحابة، وأن جهالة اسمهم لا تضر "۔
قلت : وكذا قال
ابن التركماني في "الجوهر النقي " نحو ما قال ابن دقيق العيد في
"الإمام " أنه على شرط "الصحيح ". إلخ.
وكذلك أخرجه
الطحاوي (۱/۷۹ و ۸۰) - عن يحيى بن يحيى النيسابوري- ، والبيهقي (۱/۴۲۰) - عن عبد
الله بن هاشم-، وابن حزم في "المحلى" (۳/۱۵۷) - عن موسى بن معاوية- كلهم
عن وكيع ... به. وقال ابن حزم: " وهذا إسناد في غاية الصحة
"۔ (صحیح
ابی داؤد – الأم : جلد۲ : صفحہ ۴۲۷،الثمر المستطاب : جلد
۱ : صفحہ ۱۵۶)
معلوم ہوا یہ حدیث بالکل صحیح ہے ۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب :
غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری صاحب اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں امام اعمشؒ مدلس ہیں اور
عمرو بن مرۃؒ سےعنعنہ کیا ہے۔ (ضرب حق : ش ۱۱ : ص۲۲)
اس کا جواب یہ ہے کہ
-
امام اعمشؒ کے کئی متابع موجود ہیں ، خودامام بیہقیؒ مذکورہ بالا روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے
ہیں کہ ’’هكذا رواه جماعة عن عمرو بن مرة‘‘ اس طرح ایک جماعت نے حضرت عمرو بن
مرۃ ؒ سے روایت کیا ہے۔(السنن الکبری للبیہقی : ج ۱ : ص ۶۱۸)
پہلا متابع : [زید بن ابی أنیسہؒ (م۱۲۴ھ) ]
- امام
طحاویؒ (م۳۲۱ھ) نے اگلی ہی سند
میں اعمشؒ کا متابع، زید بن ابی أنیسہؒ کو ذکر کردیا ہے ، وہ سند اس طرح ہے :
امام طحاویؒ (م۳۲۱ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثنا
فهد،(ابن سلیمان النخاس : ثقۃ ثبت : تاریخ الاسلام : ۳۲۳)
قال:
ثنا علي بن معبد،(العبدی ۔ ثقہ : تقریب : ۴۸۰۱)
قال:
ثنا عبيد الله بن عمرو، ( الرقي – راویۃ زید بن ابی أنیسۃ - ثقہ فقیہ ربما وھم : تقریب : ۴۳۲۷)
عن زيد بن أبي أنيسة، (ثقہ لہ
أفراد : تقریب : ۲۱۱۸)
عن
عمرو بن مرة، (ثقہ عابد : تقریب ۵۱۱۲)
عن
عبد الرحمن بن أبي ليلى، (ثقہ : تقریب ۳۹۹۳) قال: حدثنا أصحابنا،
فذكر نحوه۔(شرح معانی الآثار : جلد۱ : صفحہ ۱۳۴ ، حدیث
نمبر ۸۲۵)
یہ سند بالکل صحیح
ومتصل ہے، تمام روات ثقہ اور غیر مدلس ہیں۔
دوسرا متابع : [عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن زیدؒ (ثقہ)]
- امام
بیہقی ؒ (م۴۵۸ھ) کہتےہیں کہ
اخبرنا ابو عبد اللہ الحافظ (ثقہ،حافظ الحدیث،کتاب
الثقات للقاسم : ج ۲: ص ۳۹۲)
ثنا ابو علی الحسین بن علی الحافظ (ثقہ،ثبت، سیر : ج
۱۶ : ص ۵۶)
انا ابو علی مھران بن ھارون (ثقۃ،مستدرک الحاکم : ج۱:
ص ۸۸،المستخرج لابی نعیم : ج۱: ص ۳۴۸، رجال الحاكم في المستدرك:ج۲:ص۳۳۸) و ابو محمد عبد الرحمن بن محمد بن ادریس الرازیان بالری
(ثقۃ،حافظ الحدیث، کتاب الثقات للقاسم : ج ۶: ص ۲۹۴)
قالا : ثنا سلیمان بن داود القزاز الرازی (ثقۃ،تاریخ
الاسلام : ج۶: ص ۹۴)
ثنا ابو اسامۃ (ھو حماد بن اسامۃ،ثقۃ،ثبت، تقریب :
۱۴۸۷)
ثنا ابو العمیس ( ھو عتبة بن عبد الله بن عتبة بن عبد
الله بن مسعود أبو العميس المسعودى،ثقۃ ، تقریب : ۴۴۳۲)
قال سمعت (عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن زید ؒ ،ثقۃ)[1]
یحدث عن ابیہ (یعنی محمد بن عبد اللہ بن زید ؒ ،ثقۃ،
تقریب : رقم ۶۰۲۰)
عن جدہ (عبد اللہ بن زید ؒ ،صحابی مشہور، تقریب : رقم
۳۳۳۲) انہ رای الاذان مثنی مثنی، و الاقامۃ مثنی مثنی قال فاتیت النبی ﷺ
فاخبرتہ فقال :’’علمہن بلالا‘‘ فعلمتہن بلالا۔(الخلافیات للبیہقی : ج۲ : ص
۱۲۸-۱۲۹،الدرایۃ : ج۱ : ص ۱۱۵)
یہ
سند کے بھی تمام راوی ثقہ اور صدوق ہیں۔حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲ھ)نے اس کی
سند کو صحیح کہا ہے۔(الدرایۃ
: ج۱ : ص ۱۱۵)
تیسرا متابع : [شعبہ بن الحجاجؒ (م۱۶۰ھ)]
- امام
بیہقی ؒ (م۴۵۸ھ) نے
اخبرنا ابو عبد اللہ
الحافظ،انا ابو بکر بن اسحاق ،انا ابو المثنی ،ثنا مسدد ثنا عیسی بن یونس ثنا
الاعمش عن عمرو بن مرۃ عن عبد الرحمن بن
ابی لیلیؒ ثنا اصحاب محمد ﷺ کی سند عبد اللہ بن زیدؓ کی روایت نقل کی ہے جس میں دوہری اقامت
کا ذکر ہے۔
اس کے فورن بعد امام صاحب ؒ کہتےہیں کہ ’’وقد روی عن ابی معاویۃ عن الاعمش نحو ھذا مختصر ‘‘ او رامام
مسددؒ (م۲۲۳ھ) (جو کہ
عیسی بن یونس ؒ (م۱۹۱ھ)کے ساتھ ساتھ،محمد بن خازم ابو معاویہ ؒ (م۱۹۵ھ)کے
بھی شاگرد ہے،(تہذیب الکمال)انہوں) نےاس حدیث کو ’’ عن
ابی معاویۃ عن الاعمش ‘‘
کی سند سے مختصر بیان کیا ہے۔
یعنی اس کی سند
مکمل سند یوہوگی۔
اخبرنا ابو عبد اللہ
الحافظ،انا ابو بکر بن اسحاق ،انا ابو المثنی ،ثنا مسدد ثنا عن ابی معاویۃ عن الاعمش عن
عمرو بن مرۃ عن عبد الرحمن بن ابی
لیلیؒ ثنا اصحاب محمد ﷺ ۔۔۔۔۔۔
آگے امام بیہقی ؒ
(م۴۵۸ھ) کہتے ہیں کہ ’’ وکذالک
قالہ شبعۃ بن الحجاج عن عمرو بن مرۃ الحدیث بطولہ‘‘ اور اسی طرح
محمد بن خازم ابو معاویہ ؒ (م۱۹۵ھ) [جو کہ امام اعمش ؒ (م۱۴۸ھ)
کے ساتھ ساتھ امام شعبہ بن الحجاج ؒ (م۱۶۰ھ) کے بھی شاگرد ہے،(تہذیب
الکمال)انہوں] نے بھی اس عبدللہ بن زید ؒ کی حدیث جس میں کو
’’‘شعبۃ بن الحجاج عن عمرو بن
مرۃ ‘ کی سند مکمل بیان کیا ہے۔(الخلافیات للبیہقی : ج۲ :
ص ۱۲۳،چار دن قربانی کی مشروعیت از کفایت اللہ سنابلی : ص ۴۸)
یعنی اس کی سند
مکمل سند یوہوگی۔
اخبرنا ابو عبد اللہ الحافظ،انا ابو بکر بن اسحاق ،انا
ابو المثنی ،ثنا مسدد ثنا عن ابی معاویۃ عن شعبۃ بن
الحجاج عن عمرو بن مرۃ عن عبد
الرحمن بن ابی لیلیؒ ثنا
اصحاب محمد ﷺَ۔۔۔۔۔
الغرض ثابت ہوا
کہ’ ثنا اصحاب محمد ﷺَ ‘ کی الفاظ
میں امام اعمش ؒ کےمتابع میں ثقہ،
حافظ الحدیث امام شعبہ ؒ (م۱۶۰ھ) بھی موجود ہے۔
نوٹ :
سنن ابو داود : حدیث نمبر ۵۰۶، میں
بھی ’’ شُعْبَةَ،
عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى حَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا ‘‘ کی سند سے عبد اللہ بن زید ؓ کی روایت موجود ہے۔جس
کو شیخ البانی ؒ نے صحیح کہا ہے۔(سنن ابو داود : حدیث نمبر ۵۰۶،تحقیق البانی)، امام ترمذی ؒ (م۲۷۹ھ) نے
بھی واضح کیا کہ ’’ شُعْبَةَ،
عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ
‘‘ کی سند میں ابن ابی لیلی ؒ نے ثنا اصحاب محمد ﷺَ کا ذکر کیا
ہے،جس کا حوالہ آگے آرہا ہے۔لہذا امام اعمش ؒ پر اس روایت میں تدلیس کا الزام
باطل اور مردود ہے۔
چوتھا متابع : [محمد بن عبد الرحمن
بن ابی لیلیؒ (م۱۴۸ھ)]
- نیز
اعمشؒ کی متابعت محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ
کی روایت سے بھی ہوتی ہے، جو سنن ترمذی میں ہے : کہ
امام ترمذی ؒ (م۲۷۹ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا
أبو سعيد الأشج، (ثقہ ۔ تقریب : ۳۳۵۴)
قال:
حدثنا عقبة بن خالد، (صدوق۔ تقریب : ۴۶۳۶)
عن
ابن أبي ليلى، (ھو محمد بن عبد
الرحمن بن أبی لیلیٰ ۔ صدوق سیئ الحفظ جدا : تقریب : ۶۰۸۱)
عن
عمرو بن مرة،
عن
عبد الرحمن بن أبي ليلى،
عن
عبد الله بن زيدؓ۔
قال: كان أذان رسول الله صلى الله عليه وسلم شفعا
شفعا في الأذان والإقامة۔
حضرت
عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کی اذان دو دو مرتبہ (کہی
جاتی) تھی ، اذان بھی اور اقامت بھی۔ (سنن ترمذی : باب
ما جاء أن الإقامۃ مثنیٰ مثنیٰ : حدیث ۱۹۴)[2]
ایک اہم وضاحت : حدیث
’’ملَک
نازل من السماء‘‘
خوب یاد رہے کہ اذان واقامت کے مسئلہ میں ،احناف کی مذکورہ بالا دلیل حضرت عبد
اللہ بن زیدؓ کی حدیث کو ، فقہاء احناف کی کتابوں میں ’’ملَک نازل من السماء‘‘ کی حدیث سے تعبیر کیاگیا ہے ۔
غیرمقلدین کے نزدیک اذان چار طرح ثابت
ہے:
سلفی عالم شیخ محمد بن ابراہیم التویجری کہتے ہیں :
احادیث شریفہ میں چار طرح سے اذان ثابت ہے:
(اول ) پندرہ (۱۵) کلمات :
۱ - الله أكبر ۲ - الله أكبر ۳ - الله أكبر ۴ - الله أكبر
۵ - أشهد أن لا إله إلا
الله ۶
- أشهد أن لا إله إلا الله
۷ - أشهد أن محمداً رسول
الله ۸ - أشهد
أن محمداً رسول الله
۹ - حي على الصلاة ۱۰
- حي على الصلاة
۱۱ - حي على الفلاح ۱۲
- حي على الفلاح
۱۳ - الله أكبر ۱۴
- الله أكبر
۱۵ - لا إله إلا الله (ابو داؤد : ۴۹۹، ابن ماجہ : ۷۰۶)
شیخ کہتے ہیں کہ یہ سب سے افضل اذان ہے جو حضرت نبی کریم ﷺ، بلال ؓ سے سفر
وحضر میں سنا کرتے تھے ۔
(ثانی)انیس(۱۹) کلمات :
۱ - الله أكبر ۲ - الله أكبر ۳ - الله أكبر ۴ - الله أكبر
۵ - أشهد أن لا إله إلا
الله ۶
- أشهد أن لا إله إلا الله
۷ - أشهد أن محمداً رسول
الله ۸ -
أشهد أن محمداً رسول الله
(پھر
ترجیع کے ساتھ)
۹ - أشهد أن لا إله إلا
الله ۱۰
- أشهد أن لا إله إلا الله
۱۱ - أشهد أن محمداً رسول
الله ۱۲ -
أشهد أن محمداً رسول الله
۱۳ - حي على الصلاة ۱۴
- حي على الصلاة
۱۵ - حي على الفلاح ۱۶
- حي على الفلاح
۱۷ - الله أكبر ۱۸
- الله أكبر
۱۹ - لا إله إلا الله
یہ حضرت ابو محذورہ ؓ کی
اذان ہے۔ (سنن ابی داؤد :۵۰۳،
نسائی : ۶۳۰، ترمذی :۱۹۲، ابن ماجہ
: ۷۰۹)
(ثالث) سترہ (۱۷)کلمات :
۱ - الله أكبر ۲
- الله أكبر
۳ - أشهد أن لا إله إلا
الله ۴
- أشهد أن لا إله إلا الله
۵ - أشهد أن محمداً رسول
الله ۶ -
أشهد أن محمداً رسول الله
(پھر
ترجیع کے ساتھ)
۷ - أشهد أن لا إله إلا
الله ۸
- أشهد أن لا إله إلا الله
۹ - أشهد أن محمداً رسول
الله ۱۰ -
أشهد أن محمداً رسول الله
۱۱ - حي على الصلاة ۱۲
- حي على الصلاة
۱۳ - حي على الفلاح ۱۴
- حي على الفلاح
۱۵ - الله أكبر ۱۶
- الله أكبر
۱۷ - لا إله إلا الله
یہ اذان بھی قسم ثانی
کی طرح ہی ہے، مگراس میں، شروع میں کلمات تکبیر، چار کی بجائےصرف دوہی مرتبہ ہیں ۔
(صحیح مسلم : ۳۷۹، سنن ابی داؤد : ۵۰۵، سنن نسائی:۶۲۹)
(رابع)تیرہ (۱۳) کلمات :
۱ - الله أكبر ۲
- الله أكبر
۳ - أشهد أن لا إله إلا
الله ۴
- أشهد أن لا إله إلا الله
۵ - أشهد أن محمداً رسول
الله ۶ -
أشهد أن محمداً رسول الله
۷ - حي على الصلاة ۸
- حي على الصلاة
۹ - حي على الفلاح ۱۰
- حي على الفلاح
۱۱ - الله أكبر ۱۲
- الله أكبر
۱۳ - لا إله إلا الله
یہ اذان ، قسم اول کی طرح ہی ہے ، مگراس میں، شروع میں کلمات
تکبیر، چار کی بجائےصرف دومرتبہ ہیں ۔ (سنن ابی داؤد : ۵۱۰، سنن نسائی : ۶۲۸)[3]
غیرمقلد عالم
ومحدث شیخ البانیؒ نے بھی مذکورہ بالا اقسام میں
سےپہلی تین قسموں کو بیان کیا ہے ۔ ( الثمر المستطاب : جلد۱ : صفحہ ۱۱۹تا ۱۲۹)[4]
غور فرمائیں :
جس اذان کو سلفی عالم شیخ تویجری نے سب سے بہترین اذان کہا ، جسے رسول اللہ ﷺ ، بلال ؓ سے
سفر وحضر میں سنا کرتے تھے، غیرمقلد عالم ومحدث شیخ البانیؒ نے اسےاہل کوفہ، امام
ابو حنیفہؒ اورسفیان ثوریؒ کی اذان کہا
ہے، نیز شیخ البانیؒ نےیہ بھی ذکر کیا کہ ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن زید بن عبد
ربہؓ کی حدیث ہے۔
غیرمقلدین کے نزدیک اقامت تین طرح ثابت ہے ، جیسا کہ شیخ تویجری بیان کرتے ہیں
:
(اول) گیارہ کلمات :
۱ - الله أكبر ۲
- الله أكبر
۳ - أشهد أن لا إله إلا
الله ۴
- أشهد أن محمدا رسول الله
۵ - حي على الصلاة ۶
- حي على الفلاح
۷ - قد قامت الصلاة ۸
- قد قامت الصلاة
۹ - الله أكبر ۱۰
- الله أكبر
۱۱ - لا إله إلا الله۔ (سنن ابی داؤد : ۴۹۹، سنن ابن ماجہ ۷۰۶)
(ثانی) سترہ کلمات :
۱ - الله أكبر ۲
- الله أكبر
۳ - الله أكبر 4
- الله أكبر
۵ - أشهد أن لا إله إلا
الله ۶
- أشهد أن لا إله إلا الله
۷ - أشهد أن محمدا رسول
الله ۸ -
أشهد أن محمدا رسول الله
۹ - حي على الصلاة ۱۰
- حي على الصلاة
۱۱ - حي على الفلاح ۱۲
- حي على الفلاح
۱۳ - قد قامت الصلاة ۱۴
- قد قامت الصلاة
۱۵ - الله أكبر ۱۶
- الله أكبر
۱۷
- لا إله إلا الله ۔(سنن ابی داؤد : ۵۰۲، جامع ترمذی :
۱۹۲)
(ثالث) دس کلمات :
۱- الله أكبر ۲
- الله أكبر
۳ - أشهد أن لا إله إلا
الله ۴
- أشهد أن محمدا رسول الله
۵ - حي على الصلاة ۶
- حي على الفلاح
۷ - قد قامت الصلاة ۸
- قد قامت الصلاة
۹ - الله أكبر ۱۰
- لا إله إلا الله۔ (ابو
داؤد : ۵۱۰، سنن نسائی : ۶۲۸)[5]
جبکہ شیخ البانی ؒ نے ان تینوں میں سے بھی صرف پہلی اور دوسری قسم کو مانا
ہے :
وقد جاء في صفتها نوعان:
الأول:
سبع عشرة كلمة: ۔۔۔۔۔۔۔
النوع
الثاني: إحدى عشرة كلمة: ۔۔۔۔۔۔۔۔(الثمر المستطاب: جلد۱ : صفحہ ۲۰۶ تا۲۱۴)
اہم نکتہ ، سترہ کلمات کی اقامت کی وجہ ترجیح ، خود
غیرمقلدین کی تحقیق کی روشنی میں :
شیخ البانیؒ نے اقامت کے دونوں
طریقوں میں سے پہلے طریقہ (سترہ کلمات) ذکر کرنے کے بعد اس کی دلیل میں حضرت عبد
الرحمن بن ابی لیلیؒ کی حدیث ذکر کی اور کہا ’’وإسنادہ فی غایۃ الصحۃ‘‘اسکی سند انتہائی صحیح ہے، اور آگےامام ترمذیؒ سے
نقل کیا ہے کہ ابن المبارکؒ ،سفیان ثوریؒ اور اہل کوفہ اسی کےقائل ہیں ۔
شیخ البانیؒ سترہ کلمات کے موقف کے دلائل ذکرکرتے
ہوئے کہتےہیں :
الحديث الثاني:
عن عبد الرحمن بن أبي ليلى قال: ثنا أصحاب
محمد صلى الله عليه وسلم أن عبد الله بن زيد الأنصاري جاء إلى النبي صلى الله عليه
وسلم فقال:يا رسول الله رأيت في المنام كأن رجلا قام وعليه بردان أخضران فقام على
حائط فأذن مثنى مثنى وأقام مثنى مثنى، وإسناده
في غاية الصحة كما سبق في المسالة( ۱۳) (مسئلہ ۱۳ کیلئے دیکھئے : جلد ۱ :
صفحہ۱۵۶) ،
وهو من طريق الأعمش عن عمرو بن مرة عنه ، ورواه أبو داود من طريق شعبة عن عمرو به
نحوه. وقد سبق هناك، وأخرجه الترمذي والدارقطني عن ابن أبي ليلى عن عمرو بن مرة عن
عبد الرحمن بن أبي ليلى عن عبد الله بن زيد قال: (كان أذان رسول الله صلى الله
عليه وسلم شفعا شفعا في الأذان والإقامة). وأعله الترمذي بقوله: (وعبد الرحمن بن
أبي ليلى لم يسمع من عبد الله بن زيد) قلت: لكن الرواية الأولى تبين أنه سمعها من
بعض الصحابة فلايضر إرساله للحديث أحياناوقد سبق زيادةتحقيق في الحديث في المسألةالمشار
إليها آنفا۔
ثم قال
الترمذي: (وقال بعض أهل العلم: الأذان مثنى مثنى والإقامة مثنى مثنى وبه يقول
سفيان الثوري وابن المبارك وأهل الكوفة۔(الثمر : جلد۱:صفحہ ۲۰۶و۲۰۷)
آگیے شیخ ؒ پھر دوسرا قول گیارہ
کلمات کاذکر کرنے کے بعداس کی تین دلیلیں ذکر کیں ،محمد بن اسحاق کی حدیث ، ابن
عمرؓ کی حدیث اور حضرت انسؓ کی حدیث،اس کے
بعد یہ تو کہا کہ یہ اکثر علماء کا قول ہے ، مگر پھر اس قول کی تینوں دلیلوں پر کلام
کیا ہے ، ان میں سے محمد بن اسحاق ؒ کی حدیث کو پہلے رد کرچکے ہیں ،اس کی طرف یہاں
پر صرف اشارہ کیا ، (ان شاء اللہ ،اس کی تفصیل امام ابن خزیمہؒ کےقول کے جواب میں
ذکر کریں گے)ا ور ابن عمرؓ اور انسؓ کی حدیثوں کے متن پر کلام کیا ہے کہ اس کے ظاہرسے گیارہ نہیں
بلکہ نو کلمات نکلتے ہیں،اس کے جواب میں
امام نوویؒ کے تاویل ذکر کی ، پھرامام نووی ؒ کی تاویل پر امام ابن حجرؒ کا اعتراض
نقل کیا ، جس کا کوئی جواب نہیں دیا ، پھر
اخیر میں کہتے ہیں کہ چونکہ سلف میں سے
کوئی بھی نو کلمات کا قائل نہیں ہے، ورنہ
ہم اسی کو اختیار کرتے ، اسلئےمجبوراً ہمیں اس کی تاویل کا قول اختیار کرنا
پڑتا ہے، اگرچہ اس (تاویل ) میں تکلف ہے۔
نیز یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس
(گیارہ کلمات کے) قول پر خود امام مالکؒ
اور اہل مدینہ کا بھی عمل نہیں ۔ (الثمر المستطاب
: جلد۱ : صفحہ ۲۱۰ تا ۲۱۴)[6]
غور فرمائیں :
احناف نے،جس طرح اذان کی قسموں میں سےاس قسم کو اختیار کیا جو خود غیر مقلدین
کے نزدیک افضل ہے ، اسی طرح اقامت کی
اقسام میں سےبھی اس قسم کو اختیار کیا ،جس کی دلیل، خود غیر مقلدین علماء کے نزدیک سنداًاتنہائی صحیح ،متناًصاف و واضح اور دلیلاً
بالکل صریح ہے۔ [7]
اس
کے مقابل گیارہ کلمات کا قول اختیار کرنے والوں کی تین حدیثوں میں سے ایک منکر، اور ابن عمرؓ اور انس ؓ کی روایات غیر
صریح ہیں،جن کی تاویل ،تکلف سے خالی نہیں،خود شیخ البانیؒ نےاس قول کو مجبوراً
اختیار کیا ہے۔
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے روبرو ،حضرت بلالؓ،مدینہ منورہ میں ،یہی
اقامت کہاکرتے تھے، مگرغیر مقلدین کے محدث
العصر البانیؒ کہتے ہیں کہ خود اہل مدینہ اور
امام مالک ؒ (م۱۷۹ھ) کا اس طریقہ
اقامت پر عمل نہیں۔
جمع بین الحدیثین اور شیخ البانیؒ
کیلئے خوشخبری :
علماءاحناف کا طریقہ رہا ہےکہ وہ عامۃً ایسا طریقہ اختیار
کرتے ہیں ، جس میں تمام حدیثوں پر عمل ہوجائے، چنانچہ اقامت کے معاملہ میں بھی
اپنے اسی فارمولہ پر عمل پیرا ہیں ۔
اور وہ اس طرح کہ جن حدیثوں
میں اقامت ،مثنی ، شفعا ًاور
’انیس کلمات‘ کہنے کا ذکر ہے ،ان کو’کلمات اقامت ‘پر محمول کرلیا ، اور جن حدیثوں
میں اقامت مرۃ ً یا وتراً کہنے کا ذکر ہے، انہیں ’ایتارِ صوتی ‘ پر محمول کرلیا ۔
پس کلمات اقامت کہے تو انیس جائیں گے ،مگر وتر صوت کے ساتھ ، یعنی :
(۱) چاروں کلمات تکبیر،’اللہ
اکبر‘ ایک سانس میں۔
(۲) أشھد أن لاإلہ إلا اللہ کے دونوں کلمات
ایک سانس میں ۔
(۳) أشھد أن محمداً رسول اللہ کے دونوں کلمات ایک سانس میں ۔
(۴) حي علی الصلاۃ کے ددنوں کلمات ایک سانس میں ۔
(۵) حي علی الفلاح کے دونوں کلمات ایک سانس میں ۔
(۶) (۷) قد قامت الصلاۃ کے دونوں کلمات ’’دوسانسوں‘‘ میں۔
(۸) دونوں کلمہ تکبیر ایک سانس
میں ۔
(۹) کلمہ شہادتِ ایک سانس میں
۔
یہی وجہ ہے کہ
- حضرت مفتی سعید صاحب پالنپوری بارک اللہ فی علمہ وعمرہ فرماتے ہیں :
احناف کے نزدیک اس حدیث کا مطلب یہ
ہے کہ حضرت بلال ؓ کو حکم دیا گیا کہ وہ اذان میں مماثل کلمات کو دو سانس میں کہیں
اور تکبیر (اقامت )میں ایک ہی سانس میں
کہیں ، البتہ قدقامت الصلاۃ دو الگ الگ سانسوں میں کہیں ، کیونکہ یہی کلمات
اقامت میں مقصود ہیں ۔ (تحفۃ الالمی شرح سنن ترمذی : جلد۱ : صفحہ ۵۰۷)
- مفتی رشید احمد صاحب لدھیانویؒ فرماتے ہیں :
اقامت میں بتصریح فقہاء
ؒ وصل اربع تکبیرات مستحب ہے۔ (احسن الفتاویٰ : جلد۱۰ : صفحہ ۲۰۴)
- امام جمال الدین ابو محمد علی بن یحییٰ الخزرجی المنبجی ؒ (م ۶۸۶ھ) فرماتے ہیں ’’فيحتمل قوله أن يشفع
الأذان بالصوت، فيأتي بصوتين صوتين، ويفرد الإقامة فيأتي بصوت صوت ‘‘۔ (اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب : جلد۱ : صفحہ ۲۰۷)
شیخ البانیؒ نے بڑی حسر ت سے
فرمایا تھا کہ’’ولم أجد أيضا من ذهب إلى الأخذ بظاهر حديث ان عمر
وأنس المقتضي لكون الإقامة تسع كلمات بإيتارها كلها إلا لفظ الإقامةفإن وجد من أخذ
به من السلف قلنا به،وإلا اضطررنا إلى القول بتأويلهما - كما سبق - على ما فيه من
التكلف ‘‘۔ ہمیں حضرت ابن عمرؓ و انسؓ کی حدیث کے
ظاہرپر،جس کا تقاضہ یہ ہے کہ اقامت کے کلمات نو (۹) ہوں ،اور وہ تمام وتر کہے
جائیں سوائے کلمہ قدقامت الصلوۃ کے ، عمل کرنے والا کوئی نہ ملا ، اگر سلف میں سے
کوئی ہمیں ملتا تو ہم اسکو لے لیتے، اسلئےمجبوراً ہمیں پرتکلف تاویل کے قول کو
لینا پڑا۔ (الثمر المستطاب : جلد۱ : صفحہ ۲۱۰ تا ۲۱۴)
شیخ تو اب اللہ
تعالیٰ کی رحمت میں پہنچ گئے ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ، آمین
اگر شیخ زندہ ہوتے تو ہم دست بستہ ان سے عرض کرتے کہ حضرت
!پرتکلف تاویل والے قول کولینے کی بنسبت ،
حنفیہ کی اقامت ،جو نوکلمات پر مشتمل نیز
وتراً کہی جاتا ہے ، اختیار کئے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ فللہ الحمد[8]
کیا
حضرت بلال ؓ سے دوہری اقامت ثابت نہیں ؟
ہمارا کہنا ہے کہ حضرت بلال ؓ سے دوہری
اقامت کہنا ثابت ہے۔
پہلی
دلیل :
اس کی پہلی دلیل تو یہی’ملک
نازم من السماء‘کی حدیث ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زید ؓ
نے جب فرشتہ کو اذان واقامت کہتے دیکھا اور نبی اکرم ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا ’’علمه
بلالا‘‘،
یہ بلال کو سکھا دو ، اس کے بعد ہے کہ پس
حضرت حضرت بلالؓ نے دوہری اذان اور دوہری اقامت کہی ۔
فأذن مثنى مثنى , وأقام مثنى مثنى۔
لہذا
اس صحیح ترین حدیث یہ بات صراحۃً ثابت ہوتی
ہے کہ حضرت بلالؓ نے دوہری اقامت کہی ۔
آگے
ہم مزید چند حدیثیں ذکر کرتے ہیں جن سے حضرت بلال ؓ کا دوہری اقامت کہنا ثابت ہوتا
ہے :
دوسری دلیل :
امام
عبد الرزاق ؒ (م۲۱۱ھ) نے کہا :
أخبرنا معمر، عن حماد، عن إبراهيم،
عن الأسود بن يزيد: أن بلالا كان يثني الأذان،
ويثني الإقامة۔
حضرت اسود بن یزید ؒ کہتے ہیں کہ حضرت بلال
ؓ دوہری اذان اور دوہری اقامت کہا کرتے تھے ۔ (مصنف عبد الرزاق : جلد۱ : صفحہ
۴۶۲، رقم ۱۷۹۰)
اس
کی سند کا حال :
۱- امام عبد الرزاقؒ : ثقہ
حافظ ۔ (تقریب : ۴۰۶۴)
۲- معمر بن راشدؒ : ثقۃ
ثبت ۔ (تقریب : ۶۸۰۹)
۳- حماد بن ابی سلیمانؒ : صدوق
لہ أوھام ، تقریب ۱۵۰۰ ،
وقال الذھبیؒ : ثقة إمام مجتهد كريم جواد:
الکاشف : رقم ۱۲۲۱)
۴- امام ابراہیم بن یزید النخعی : ثقۃ إلا أنہ یرسل کثیرا
،ثقہ ہیں مگر ارسال بہت کرتے ہیں ۔ ( تقریب
: ۲۷۰) لیکن امام علائیؒ (م۷۶۱ھ) :فرماتے
ہیں کہ’’ وجماعة من الأئمة صححوا مراسيله
‘‘ ائمہ کی ایک جماعت نے آپ (ابراہیم نخعی
)کی مراسیل کی تصحیح کی ہے۔ (جامع
التحصیل: صفحہ ۱۴۱ ، رقم الترجمہ ۱۳) اس کا مزیدایک حوالہ ،ابن معین ؒ سے اگلی
حدیث کے تحت منقول ہے۔
۵- اسود بن یزید النخعی : ثقہ مکثر فقیہ
۔ ( تقریب : ۵۰۹)
۶- بلال بن رباح ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔
معلوم
ہوا اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں ۔ اور اسکی سند صحیح ہے۔[9]
دوسری
دلیل :
امام ابوبکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵ھ) فرماتے
ہیں کہ
حدثنا أبو بكر
قال: نا أسامة، عن سعيد، عن أبي معشر، عن إبراهيم، قال: «إن بلالا، كان يثني
الأذان والإقامة۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۲ : ص ۳۲۱)
اس
کی سند کا حال :
۱- ابو بکر ابن ابی شیبہؒ : ثقہ حافظ ۔ (تقریب
: ۳۵۷۵)
۲- ابو اسامہؒ (حماد بن اسامۃ) : ثقہ ثبت ربما دلس ۔ (تقریب : ۱۴۸۷)
۳- سعید بن ابی عروبۃ ؒ : ثقہ حافظ ۔ (تقریب
: ۲۳۶۵) اور ان سے قبل الاختلاط ابو اسامہؒ
نے سماع کیا ہے۔(مقالات زبیر علی زئی : ج۴ :ص ۳۶۴)
۴- ابومعشر زیاد بن کلیب : ثقہ ۔ (تقریب
۲۰۹۶) ابو حاتم ؒ کہتے ہیں کہ ’’من قدماء أصحاب إبراهيم‘‘
ابومعشرؒ ، ابراھیم نخعیؒ کے قدیم شاگردوں میں سے ہیں۔ (تہذیب
الکمال : جلد۳۴ : صفحہ ۳۰۷)
۵- امام ابراہیم بن یزید النخعی : ثقۃ إلا أنہ یرسل کثیرا
،ثقہ ہیں مگر ارسال بہت کرتے ہیں ۔ ( تقریب
: ۲۷۰)
ان کی جمہور محدثین کے نزدیک مراسیل حجت
ہیں۔(مجلہ الاجماع : ش ۳ : ص ۲۵۱)
اس سے معلوم ہوا کہ اس سند کے بھی تمام
روات ثقہ ہیں ۔نیز اگر چہ یہ سند مرسل ہے۔لیکن حدیث
صحیح ،متصل اور حجت ہے۔کیونکہ عبد الرزاق میں یہ روایت ’’ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ بِلَالٍ ‘‘
کی سند سے آئی ہے جس کی تفصیل دلیل نمبر
۴ میں آرہی ہے۔ دلیل نمبر ۲ کے تحت حمادؒ
کی متصل روایت بھی اس
کے متابع میں موجود ہے۔
دلیل
نمبر ۴ :
امام
عبد الرزاق الصنعانی ؒ (م۲۱۱ھ) نے کہا :
عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ
إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ بِلَالٍ قَالَ: كَانَ أَذَانُهُ، وَإِقَامَتُهُ
مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ۔ (مصنف عبد الرزاق :
حدیث نمبر ۱۷۹۱)
روات
کی تفصیل :
۱- امام عبد الرزاقؒ : ثقہ
حافظ ۔ (تقریب : ۴۰۶۴)
۲- سفیان بن سعید الثوری ؒ : ثقة
حافظ فقيه عابد إمام حجة ، و كان ربما دلس۔
(تقریب : ۲۴۴۵)
۳- ابومعشر زیاد بن کلیبؒ
۴- امام ابراہیم بن یزید النخعیؒ
۵- اسود بن یزید النخعیؒ کی توثیق گزرچکی۔
۶- بلال بن رباح ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔
معلوم
ہوا اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں ۔ اور(متابعات کی وجہ سے) یہ حدیث صحیح ہے۔[10]
دلیل
نمبر ۵ :
امام طحاویؒ (م۳۲۱ھ) فرماتے ہیں :
محمد بن خزيمة، قال: ثنا محمد بن سنان، قال:
ثنا شريك، ح وحدثنا روح بن الفرج، قال: ثنا محمد بن سليمان لوين , قال: ثنا شريك،
عن عمران بن مسلم، عن سويد بن غفلة، قال: «سمعت
بلالا، يؤذن مثنى , ويقيم مثنى»
حضرت سوید بن غفلہ ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے
حضرت بلالؓ کو دوہری اذان اور دوہری اقامت
کہتے ہوئے سنا۔ (شرح معانی الآثار : جلد۱ : صفحہ ۱۳۴ ، حدیث ۸۲۸)
اس
کی سند کا حال :
۱- امام طحاویؒ (م۳۲۱ھ) مشہور
ثقہ،ثبت حافظ الحدیث ہیں ۔ (کتاب الثقات للقاسم : ج۲ : ص ۳۶)
۲- محمد بن خزیمہ بن راشد ابو عمرو البصری
: ثقہ ۔ (الثقات للقاسم : جلد۸ : صفحہ ۲۶۷،
رقم ۹۷۰۰، التذییل
کتب الجرح والتعدیل : جلد۱ : صفحہ ۲۷۰ ، رقم ۷۲۶)
اور ان کے متابع میں روح بن الفرج (ابو الزنباع المصری) : ثقہ ۔ (تقریب : ۱۹۶۷)
موجودہے۔
۳- محمد بن سنان (وھو العوقی ) : ثقہ ثبت ۔
(تقریب : ۵۹۳۵) اور ان کے متابع میں محمد بن سلیمان لوین : ثقہ ۔ (تقریب
: ۵۹۲۵) موجود ہے۔
۴- شریک النخعی : صدوق
يخطىء كثيرا ، تغير حفظه منذ ولى القضاء بالكوفۃ۔ (تقریب
: ۲۷۸۷) اور وہ خود غیرمقلدین کے نزدیک حسن الحدیث ہے۔[11]
۵- عمران بن مسلم (الجعفی الکوفی النخعی )
: ثقہ ۔ (تقریب : ۵۱۶۹)
۶- سوید
بن غفلہ : ثقہ ، امام ۔ (الکاشف)
اس روایت کے تمام راوی ثقات ہیں ، شریکؒ بھی اہل حدیثوں کے
نزدیک حسن الحدیث ہے۔الغرض یہ سند حسن ہے۔ نیز حضرت سوید بن غفلہ ؓ نے حضرت بلال ؓ
سے سماع کی تصریح بھی کی ہے۔[12]
ان تمام روایتوں سے معلوم ہوا کہ حضرت
بلالؓ سے اکہری اقامت کی طرح دوہر اقامت کہنا ثابت ہے ۔
بغیر ترجیع کی اذان کے ساتھ دوہری اقامت کے
قائلین :
-
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں
’’وبه يقول سفيان الثوري، وابن المبارك، وأهل
الكوفة‘‘ یہ سفیان ثوریؒ ، ابن المبارک ؒ اور اہل
کوفہ کا قول ہے۔ (سنن
ترمذی : جلد۱ : صفحہ ۲۶۷ ، حدیث ۱۹۴)
- امام ابن عبد البر مالکیؒ فرماتے ہیں
’’وقال أبو
حنيفة وأصحابه والثوري والحسن بن حي وعبيد الله بن الحسن الأذان والإقامة جميعا
مثنى مثنى والتكبير عندهم في أول الأذان وأول الإقامة الله أكبر أربع مرات قالوا
كلهم ولا ترجيع في الأذان وإنما يقول أشهد أن لا إله إلا الله مرتين أشهد أن محمدا
رسول الله مرتين ثم لا يرجع إلى الشهادة بعد ذلك ولا يمد صوته۔
وحجتهم في ذلك
حديث عبد الرحمن بن أبي ليلى قال حدثنا أصحاب محمد عليه السلام أن عبد الله بن زيد
جاء إلى النبي عليه السلام فقال يا رسول
الله! رأيت في المنام كأن رجلا قام وعليه بردان أخضران على جذم حائط فأذن مثنى
مثنى وأقام مثنى مثنى وقعد قعدة بينهما قال فسمع بذلك بلال فقام فأذن مثنى وقعد قعدة
وأقام مثنى۔يشفعون الأذان والإقامة وهو قول جماعة التابعين والفقهاء بالعراق ۔قال
أبو إسحاق السبيعي كان أصحاب علي وعبد الله يشفعون الأذان والإقامة۔فهذا أذان
الكوفيين متوارث عندهم به العمل قرنا بعد قرن أيضا كما توارث الحجازيون في الأذان زمنا بعد زمن على ما وصفنا ‘‘
امام ابو حنیفہ ؒ ، آپ کے شاگرد ، امام
سفیان ثوریؒ ، امام حسن بن حي ، اور عبید اللہ بن حسن ، کہتے ہیں کہ اذان اور
اقامت دونوں دوہری کہی جائیں گی ، اور ان کے نزدیک اذان واقامت کے شروع میں تکبیر
کے کلمات بھی چار مرتبہ کہیں جائیں گے ، نیز یہ تمام حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ
اذان میں ترجیع نہیں ہوگی۔
ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی حدیث
ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ لوگ اذان واقامت دونوں دوہری کہتے ہیں ۔یہی
تابعین کی ایک جماعت اور فقہاء عراق کا بھی قول ہے۔ ابو اسحاق السبیعیؒ کہتے ہیں
کہ حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے کے شاگرد ، اذان و اقامت دوہری کہا کرتے تھے۔پس یہی کوفہ
والوں کی اذان ہے،ہر زمانہ میں ان کے یہاں اسی پر عمل ہوتا چلا آیا ہے۔
جیسا کہ اہل حجاز
توارث کے ساتھ اس اذان پر عمل کرتے چلے آرہے ہیں جو ہم نے بیان کی ۔ (الاستذکار : جلد۱ : صفحہ ۳۶۹)
- یہی
بات امام ابو عبد اللہ قرطبیؒ (م۶۷۱ھ) بھی کہتے ہیں ۔ ( الجامع لأحکام
القرآن : جلد۶ : صفحہ ۲۲۷)
اس سے معلوم صحابہ کرام ؓ اور تابعینؒ کے
زمانہ سے اس پر عمل ہورہا ہے۔
- شیخ الاسلام ، امام ابوبکر بن عیاشؒ
کا قول :
سنن دار قطنیؒ میں حضرت عبد اللہ بن زیدؓ
کی روایت نقل کرتے ہوئے ایک راوی شیخ الاسلام مقرئ فقیہ محدث ، امام ابوبکر بن عیاش اسدیؒ، جو کوفہ کے رہنے
والے ہیں ، اور قرآت کے سات اما موں میں سےامام حمزہ الزیّاتؒ کے دوشاگردوں میں
سے ایک ہیں ،اوران کی ولادت ۹۶ ھ سے
۱۰۰ھ کے درمیان ہے، حضرت فرماتے ہیں: ’علی نحو
من اذاننا الیوم‘ جیسے آج ہماری اذان ہے۔ (سنن دار قطنی: جلد۱
: صفحہ ۴۵۲، حدیث ۹۳۷)
اس
سے معلوم ہوا کہ تبع تابعین کے زمانہ میں بھی کوفہ میں اسی طرح اذان واقامت ہوتی
تھی ۔
- سفیان ثوری ؒ کا خود دوہری اقامت کہتے
ہیں جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔(مصنف عبد الرزاق : جلد۱ : صفحہ ۴۶۱، رقم ۱۷۸۸)
-
امام قاضی عیاض مالکیؒ فرماتے
ہیں : اہل کوفہ دوہری اذان و اقامت کہتے
ہیں اور یہ بعض سلف کا قول ہے ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم : ج۲ : ص۲۴۱) اس سے معلوم ہوا دوہری اذان و اقامت بھی سلف کا
ہی قول ہے۔
ان تمام علماء کے اقوال سے صرفِ نظر کرتے
ہوئے ، ظہیرامن پوری نے احناف دشمنی
میں صرف اپنے مطلب کا قول نقل امام
نوویؒ سے نقل کردیا کہ امام نوویؒ فرماتے
ہیں :امام ابو حنیفہؒ کہتے ہیں کہ اقامت کے سترہ کلمات ہیں ، پس وہ سب کو دو دو
بار کہتے ہیں ، اور یہ مذھب شاذ ہے۔ (ضرب حق : ش۱۱ : ص ۳۱)
اس کا جواب ہم
خود دینے کے بجائے سلفی علماء سے نقل
کردیتے ہیں :
سلفی
عالم شیخ ابراہیم بن ابراہیم قریبی ، امام نوویؒ کا قول نقل کرکے کہتے ہیں :
’’شوکانی ؒ (جو کہ غیرمقلدین کے بڑے علماء
میں ہیں ) کہتے ہیں کہ حنفیہ، ہادویہ ، ثوریؒ ، ابن مبارکؒ اور اہل کوفہ کے نزدیک
اقامت کے الفاظ اذان کی طرح ہیں ،مع اضافہ قدقامت الصلاۃ ، ان کا استدلال حضرت عبد
اللہ بن زید ؓ کی حدیث سے ہے، جسے امام ترمذیؒ اور امام ابوداؤدؒ نے روایت کیا ہے،
جس کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اذان واقامت دوہری تھی ، اور یہی معنی حضرت
بلالؓ سے بھی مروی ہے۔ ‘‘
شیخ
قریبی کہتے ہیں :
علماء نے اس میں علت بیان کی ہے ۔
آگے
شیخ قریبی کہتے ہیں :
مگر شوکانیؒ نےان علتوں کو دفع کیا (ان کا جواب
دیا) ہے، اور اس کی تائید حضرت ابومحدوذہ ؓ کی حدیث سے بھی کی ہے ، جس میں یہ آیا ہے کہ نبی کریم ﷺنے انہیں اذان ۱۹انیس کلمات اور اقامت ۱۷کلمات سکھائے،نیز
کہتےہیں : امام ترمذیؒ اور دوسرے محدثین نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، پس
(ابومحذورہؓ کی ) یہ حدیث ، اس حدیث کیلئے ناسخ ہے جس میں یہ ہے کہ حضرت بلال ؓ کو
حکم دیا گیا کہ اذان دوہری اور اقامت اکہری کہیں ، اس وجہ سے(ناسخ ہے) کیونکہ یہ
(حدیث ابو محذورہ) ، حضرت بلالؓ کی حدیث کے بعد ہے، اس لئے کہ حضرت ابو محذورہؓ
فتح مکہ کے وقت اسلام لائے اور بلال ؓ کو
اقامت اکہری کہنے کا حکم ، اذان کی مشروعیت
کے شروع میں دیا گیا تھا۔
شوکانیؒ
آگے کہتے ہیں :
یہ جان لینے کے بعد تم پر واضح ہوگیا کہ
دوہری اقامت کی حدیثیں اس لائق ہیں کہ ان سے حجت پکڑی جائے ، جیسا کہ ہم نے پہلے
بیان کیا۔
اور اکہری اقامت کی احادیث اگر چہ زیادہ
صحیح ہیں ، اسلئے کہ ان کی سندیں زیادہ ہیں ، اور چونکہ وہ صحیحین میں ہیں ، لیکن
دوہری اقامت کی حدیثیں اضافہ پر مشتمل ہیں ، پس اسے اختیار کرنا لازم ہے ، خاص طور
پر اس وجہ سے بھی کہ ان میں سے بعض مؤخر ہیں ، جیسا کہ ہم نے تمہیں بتایا۔(امام
شوکانیؒ کی بات مکمل ہوئی)
شیخ
قریبی کہتے ہیں :
اس سے معلوم ہوا کہ اکہری اقامت کی حدیثیں
زیادہ صحیح اور تعداد میں بھی زیادہ ہیں ، اور اس کے قائلین بھی جمہور علماء ہیں ،
امام احمد بن حنبلؒ سے کہا گیا :
کیا ابو محذورہؓ کی حدیث حضرت عبداللہ بن
زیدؓ کی حدیث کے بعد نہیں ہے ، اس لئےکہ ابو محذورہؓ کی حدیث فتح مکہ کے بعد کی ہے ؟
اور امام احمدؒ نے فرمایا : کیا رسول اللہ ﷺ نے
(اس سفر سے ، جس میں ابو محذورہ ؓ کو اذان سکھلائی تھی ) مدینہ واپس آنے کے بعد
حضرت بلالؓ کو حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی اذان پر باقی نہیں رکھا تھا؟
امام
شوکافی ؒ (امام احمدؒ کے اس استدلال کا جواب دیتے ہوئے ) کہتے ہیں :
(امام احمد ؒ کا )یہ (اس استدلال ) اس بات
پر موقوف ہے کہ صحیح طور پر منقول ہو کہ نبی اکرمﷺکے مدینہ منورہ واپس آنے کے بعد
حضرت بلالؓ نے اکہری اقامت کہی ، صرف امام احمد بن حنبل ؒ کا کہہ دینا کافی نہیں ،
اور اگر یہ ثابت (بھی ) ہو کہ (نبی اکرم ﷺ کے مدینہ منورہ واپس آنے کے بعد حضرت
بلال ؓ نےاکہری اقامت کہی) تب بھی یہ ان علماء کے مذہب کی دلیل ہوگی جن کا کہنا ہے
کہ (اکہری اقامت ودوہری اقامت) سب جائز ہے ، اور اس کو (یعنی اکہری ودوہری اقامت ، دونوں کے جواز کے قول کو) اختیار کرنا
لازم ہوتا، اس لئے کہ ان دونوں میں سے ہر ایک
چیز ایک دوسرے کے بعد کی گئی جو تمام کے جواز کا پتہ دیتی ہے نہ کہ نسخ کا
۔
آگے
شیخ ابراہیم قریبی کہتے ہیں :
اور میں کہتا ہوں کہ اس معاملہ میں زیادہ
سلامتی تمام (طریقہ اقامت ) کے جواز کے قول میں ہے، جبکہ یہ تمام رسول اللہ ﷺ سے
وارد ہے، اور ابن خزیمہؒ اور ابن حبانؒ نے اس کو اختلاف مباح میں سے شمار کیا ہے۔
شیخ
قریبی کہتے ہیں :
ابن عبد البرؒ کہتے ہیں : امام احمد بن
حنبل ، اسحاق بن راہویہ ، داؤد بن علی ، محمد بن جریر طبری ان تمام چیزوں کے جواز
کے قائل ہیں جو اس بارے میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے، اور اس (اختلاف) کو اباحت
وتخییر پر محمول کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سب جائز ہے، اس لئے کہ یہ تمام (طریقے)
نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہیں ، اور ان پر آپﷺ کے صحابہ ؓ نے عمل کیا ، پس جو چاہے اذان
کے شروع میں چار مرتبہ اللہ اکبر کہے اور جو چاہے دو مرتبہ ، اور جو چاہے دوہری اقامت کہے اور جو چاہے کہ
اکہری ، البتہ قد قامت الصلاۃ بہر حال دو مرتبہ کہا جائے گا۔ (امام عبد البرؒ کی
بات پوری ہوئی)
شیخ
قریبی آگے کہتے ہیں :
ابن
القیمؒ نے بھی اس مسئلہ اور اس جیسے (
دوسرے مسائل ) کی طرف اشارہ کیا ہے جو
مباح خلافات میں سے ہے، جس میں نہ کرنے
والے پر سختی کی جاتی ہے ، نہ چھوڑنے والے
پر۔ شیخ ابرہیم قریبی کی بات ختم ہوئی۔ (مرویات غزوہ حنین وحصار طائف : جلد۲ : صفحہ ۵۸۹،نیل
الاوطار :ج ۲:ص۵۱) اس کتاب کو مدینہ منورہ کی اسلامی
یونیورسٹی نے خود شائع کیا ہے ۔ [13]
اسی
طرح سابق مفتی مملکہ شیخ المشایخ
علامہ عبد العزیز ابن بازؒ سے پوچھا گیا کہ:
ہم
ایک ایسی کمپنی میں رہتے ہیں جہاں بہت سے کام کرنے والے ترک حضرات ہیں ، جو مسلمان
ہیں ، ہمیں نماز کیلئے بلاتے ہیں ، اور اذان واقامت کہتے ہیں ، البتہ ان کا مؤذن ،
اقامت بالکل اذان کی طرح کہتا ہے۔ (خلاصہ)
شیخ
ؒ جواب میں کہتے ہیں :
اس میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اقامت،
اذان کی طرح کہے اس میں کوئی حرج نہیں (خلاصہ)۔ (فتاویٰ نور علی الدرب : جلد۶ :
صفحہ ۳۴۳)[14] اس سے معلوم ہوا کہ خود سلفی علماء کے نزدیک امام نووی ؒ کے اس قول (یہ مذھب شاذہے ) سے صحیح
نہیں ہیں ۔
حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے استدلال پر ایک اعتراض اور اس
کا جواب : (آذان میں ترجیع کا مسئلہ )
شیخ
البانی ؒنےمذہبی تعصب کا طعنہ دے کر(الثمر
المستطاب : جلد۱ : صفحہ ۲۰۷- ۲۰۸) اور امن پوری صاحب نے تعجب خیز دلیل کہہ کر،(ضرب حق : ش
۱۱: ص ۲۹-۳۰) یہ اعتراض کیا ہے کہ
احناف ، حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے
آدھا حصہ لیتے ہیں ، اور آدھاحصہ چھوڑ دیتے ہیں ، کیونکہ ان کی حدیث میں مذکور
اذان ،۱۹ کلمات پرمشتمل یعنی مع ترجیع ہے ، اسکو تو نہیں لیتے ، البتہ انکی اقامت جو ۱۷ کلمات پر مشتمل ہے، اس کو لے لیتے
ہیں ، یعنی ایک ہی حدیث کے آدھے حصہ کو لیتے ہیں اور آدھے کو چھوڑ دیتے ہیں ۔
جواب :
(اول) اس
میں اصل غلطی یاتجاہل عارفانہ مسلکِ احناف کوسمجھنے میں ہے:
اذان واقامت کے باب میں احناف کی اصل دلیل’ملَک نازل من السماء ‘کی اذان واقامت کی حدیث(یعنی
عبداللہ بن زید ؓ کی روایت) ہے۔حضرت مولانا انورشاہ کشمیریؒ (م۱۳۵۳) فرماتے ہیں
’’قلت:
والأجود عندي ما عبر به صاحب الهداية : أن حجتنا أذان الملك النازل من السماء
وإقامته۔‘‘میں کہتا ہوں کہ میرے نزدیک صاحب ہدایہؒ کی تعبیر بہترین ہے کہ ہماری دلیل ،آسمان سے اترنے والے فرشتہ کی اذان
واقامت ہے۔ (فیض الباری: جلد۲ : صفحہ ۲۰۴)
(دوم) علماء احناف ترجیع کو ناجائز ، کلماتِ اذان
میں اضافہ اور بدعت نہیں سمجھتے ، بلکہ مع ترجیع اذان بھی جائز ہے ، دلیل جوازِ
ترجیع ابو محذورہؓ کی حدیث ہے ،البتہ افضل
بلاترجیع اذان ہے ،جوکہ ملَک نازل من السماء
کی اذان ہے۔
- حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ؒ نے
بھی تحریر فرمائی ہے : ’’وحاصل الكلام: أن بلالا رضي
الله عنه لم يثبت عنه الترجيع في الأذان، وكذلك الملك النازل من السماء، نعم ثبت
في أذان أبي محذورة، فلا بد أن يقر بالأمرين، أي الترجيع وعدمه، ويجري الكلام في
الاختيار فقط ‘‘۔ (فیض الباری : جلد۲ : صفحہ ۲۰۷، حدیث ۶۰۸)
- شیخ
الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
صاحب بارک اللہ فی علمہ وعمرہ فرماتے ہیں :
’’حنابلہ اور حنفیہ کے ہاں اذان کے کلمات پندرہ ہیں ، جس میں ترجیع نہیں ہے،
اور اذان کے شروع میں تکبیر چار مرتبہ ہے، لیکن یہ اختلاف محض افضلیت
میں ہے، چنانچہ حنفیہ کے نزدیک بھی ترجیع جائز ہے، اور امام سرخسیؒ اور بعض دوسرے فقہاء حنفیہ نے ترجیع کو جو
مکروہ لکھا ہے اس سے مراد خلافِ اولیٰ ہےاور لفظِ مکروہ بعض
اوقات خلافِ اولیٰ کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوجاتا ہے، جیسا کہ علامہ
شامیؒ نے لکھا ہے کہ صومِ عاشوراء کو تنہا رکھنا بعض فقہاء نے مکروہ کہا ہے، لیکن
اس سے مراد خلافِ اولیٰ ہے۔‘‘ (درسِ ترمذی : جلد۱ : صفحہ ۴۵۳)
شامی میں ہے :
قال فی الدر: (ولا
ترجيع) فإنه مكروه ملتقى ۔
قال ابن
عابدینؒ :
(قوله: فإنه مكروه ملتقى) ومثله في
القهستاني، خلافا لما في البحر من أن ظاهر كلامهم أنه مباح لا سنة ولا مكروه. قال
في النهر: ويظهر أنه خلاف الأولى. وأما الترجيع بمعنى التغني فلا يحل فيه اهـ
وحينئذ فالكراهة المذكورة تنزيهية۔ (الدر
المختارمع رد المحتار : جلد۱: صفحہ ۳۸۶)
-
حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ
اللہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
اور عبد اللہ بن زید ؓ کی روایت جو بابِ اذان میں اصل کی حیثیت رکھتی ہے وہ
بغیر ترجیع کے ہے، لہذا عدم ترجیع راجح ہے، البتہ ترجیع کے جواز میں کوئی کلام
نہیں ہے۔ (انعام الباری : جلد۳ : صفحہ ۳۹۹)
-
مفتی احمد ابراہیم بیمات صاحب رحمہ
اللہ فتاویٰ فلاحیہ میں فرماتے ہیں:
احناف کے نزدیک ترجیع نہ کرے ، لیکن یہ صرف اولیٰ وغیر اولیٰ کا اختلاف ہے ۔ (فتاویٰ
فلاحیہ : ج۲ : ص ۲۳۶)
-
سلفی عالم ڈاکٹر عبد اللہ بن محمد الطیارصاحب نے بھی یہی
بات احناف کی طرف منسوب کی ہے:
حكمه: اختلف
الفقهاء في حكم الترجيع على ثلاثة أقوال:
القول الأول:
يكره تنزيهًا. وهو رأي عند الحنفية ، وقيل بأنه الراجح عندهم. واحتجوا لذلك بأن
بلالًا لم يكن يرجع في أذانه. ولأنه ليس في أذان الملك النازل من السماء.
القول الثاني:
أن الترجيع سنة وهو قول عند المالكية ، وهو الصحيح عند الشافعية ورواية عند
الحنابلة.
القول الثالث:
أنه مباح فليس بسنة وليس بمكروه. وهو قول الحنفية والصحيح عند الحنابلة۔ (الفقہ المیسر : جلد۱ : صفحہ ۱۷۰)
موسوعہ فقہیہ کویتیہ میں بھی احناف کا یہی موقف نقل کیاگیا ہے ۔[15]
غور
فرمائیں :
ان عبارتوں سے واضح ہورہا ہے کہ احناف نے حضرت ابو محذورہؓ
کی حدیث کی ترجیع والی بات کو بالکل ترک
کردیا ہو، ایسا نہیں ہے ، بلکہ حدیث ابی محذورہ ؓ کی وجہ سے علماء احناف بھی ترجیع
کے جواز کے قائل ہیں ، البتہ اسے خلافِ اولیٰ سمجھتے ہیں ۔
لہذا شیخ البانیؒ اور دیگرکا علماء احناف کو مذہبی تعصب کا طعنہ
دینا درست نہیں ہے۔
(سوم) ترجیع سے متعلق احناف کا جو موقف (جائز ،مگر خلاف اولیٰ) ہے، یہی
موقف،سلفی علماء کرام کا بھی ہے:
(۱) سعودیہ کے بڑے
علماء میں سے ایک بڑے عالم، شیخ عبد اللہ البسامؒ تحریر فرماتے ہیں :
’’الأفضل ترك
الترجيع‘‘
افضل
ترک ترجیع ہے۔ (تو ضیح الاحکام من بلوغ المرام :
جلد۱ : صفحہ ۵۱۲، ما یؤخذ من الحدیث ، رقم ۶) اور حضرت ابو محذورہ ؓ کی حدیث سے مستفاد
باتوں کے ضمن میں فرماتے ہیں : ’’۵ - مشروعية الترجيع‘‘ (ترجیع کی مشروعیت[جواز])۔ (تو
ضیح الاحکام من بلوغ المرام : جلد۱ : صفحہ ۵۱۵، ما یؤخذ من الحدیث ، رقم ۵)
غور فرمائیے!
شیخ بسام ؒ حضرت ابو محذورۃؓکی حدیث سے ترجیع کی ’’مشروعیت‘‘ اخذ کر رہے ہیں
،’’ سنّیت‘‘ نہیں، نیزیہ بھی کہہ رہے ہیں کہ افضل ترک ترجیع ہے۔
(۲) اسی
طرح سعودیہ
کے بڑے علماء میں سے ایک اور بڑے عالم، شیخ عبد العزیز راجحی لکھتے ہیں :
’’ وأما أذان
بلال فليس فيه ترجيع، وأذان بلال أفضل؛ لأنه كان هو الذي يؤذن به بين يدي النبي
صلى الله عليه وسلم، وإذا عمل بأذان أبي محذورة فلا حرج ‘‘
بلالؓ کی اذان میں ترجیع نہیں ،
بلال ؓ کی اذان افضل ہے ، چونکہ نبی کریم ﷺ کے سامنے وہی اذان دیا کرتے تھے، البتہ
اگر ابو محذورہؓ کی اذان پر عمل کرے تو کوئی حرج نہیں ۔ (فتاویٰ
متنوعہ : ۱۳/۸)
(۳) اسی
طرح سعودیہ کبارِ علماء میں سے ایک اور بڑے عالم، شیخ عبد اللہ بن جبرین تحریر
فرماتے ہیں :
’’ونحن نقول: لا بأس بذلك، ولكن أذان بلال
الذي ليس فيه ترجيع أصح، فإنه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم ولم يأمره بالترجيع‘‘
ہم کہتے ہیں اس (یعنی ترجیع) میں کوئی حرج نہیں ، لیکن
بلال رضی اللہ عنہ کی اذان جس میں ترجیع نہیں ہے، زیادہ صحیح ہے، اس لئے کہ وہ نبی
کریم ﷺ کے ساتھ تھے ، لیکن آپ ﷺ نے ان کو ترجیع کا حکم نہیں فرمایا ۔ (شرح عمدۃ الاحکام لابن جبرین : ۱۰/۴)
(۴) سابق
مفتی مملکہ، شیخ عبد العزیزابن باز ؒ اپنے فتوی میں تحریر فرماتے
ہیں :
’’هذا يقال له: الترجيع وهذا علمه النبي صلى
الله عليه وسلم أبا محذورة رضي الله عنه وكان يؤذن به في مكة رضي الله عنه، فمن
فعله فلا بأس، فهو نوع من أنواع الأذان الشرعي، ولكن الأفضل هو أذان بلال رضي الله
عنه الذي كان يؤذن به بين يدي النبي عليه الصلاة والسلام، كان بلال رضي الله عنه
يؤذن بدون ترجيع بين يدي النبي عليه الصلاة والسلام في المدينة حتى توفاه الله،
وكلا النوعين بحمد الله مشروع إلا أن الأفضل هو ما كان يفعل بين يديه عليه الصلاة
والسلام وهو عدم الترجيع، ومن رجع فلا بأس‘‘
۔۔۔۔۔۔ اس کو ترجیع کہتے ہیں ، یہ نبی کریم ﷺ نے ابو
محذورہ ؓ کو سکھلائی تھی، آپؓ اس طرح مکہ میں اذان دیا کرتے تھے، پس جو ایسے
(ترجیع کے ساتھ) اذان دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ بھی شرعی اذان کی قسموں
میں کی ایک قسم ہے، لیکن افضل بلال ؓ کی اذان ہے، جو اذان وہ نبی کریم ﷺ کے سامنے
دیا کرتے تھے، بلال ؓ مدینہ منورہ میں نبی کریم ﷺکے روبرو بدون ترجیع اذان دیا
کرتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی ، الحمد للہ (اذان کی ) دونوں قسمیں (مع
ترجیع و بدون ترجیع) مشروع ہیں ، لیکن افضل وہ ہےجو نبی کریم ﷺکے روبرو کیا جاتا
تھا اور وہ عدم ترجیع ہے، اور اگر کوئی ترجیع کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ (فتاویٰ نور علی
الدرب : ۶/۳۱۷)
ان تمام سلفی
کبارِ علماء کے فتاویٰ سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ ابو محذورہ ؓ کی ترجیع والی
اذان کے مقابلہ میں ، حضرت بلال ؓ کی اذان ، جو بغیر ترجیع کے تھی ، افضل ہے ، یہی
بات علماء احناف بھی کہتے ہیں ۔
(چہارم) علماء
احناف حضرت ابو محذورہؓ کی حدیث سے ترجیع کی سنّیت اخذ کرنے کے بجائے ،جواز اخذ
کرنے کی، جووجہ ذکر کرتے ہیں ، وہی وجہ سلفی علماء بھی ذکر کرتے ہیں :
فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے : ’’یہ ترجیع ہے، جو حنفیہ کے نزدیک اذان میں سنت نہیں ہے، یہ ابو محذورہ ؓ کی حدیث
میں وارد ہے، ان کو آنحضرت ﷺنےبغرضِ تعلیم شہادتین کے اعادہ کا حکم فرمایا
تھا، اور حضرت بلالؓ کی اذان اور ملکِ نازل من السماء کی اذان میں ترجیع نہ تھی ، اس پر
حنفیہ کا عمل ہے‘‘۔ (فتاویٰ دار العلوم : جلداول : صفحہ ۷۴)
یہی بات سلفی عالم شیخ محمدعریفی
حفظہ اللہ تحریر کرتے ہیں :
سوال - أيهما أفضل في
الأذان الترجيع أم عدمه؟
ج: الأفضل عدم
الترجيع،وذلك لأنه لم يذكر إلاّ في حديث محتمل وهو حديث أبي محذورة
وفيه «أنّ النبي صلى الله عليه وسلم علّمه الأذان وذكر له الترجيع فيه» ولكن
الذي نرى أنّ النبي صلى الله عليه وسلم ذكر له الترجيع تلقينا له بالشهادة لأنه
كان حديث عهد بإسلام فأراد أن تستقرّ الشهادتان في قلبه۔(المفید فی تقریب أحکام الاذان : ۱/۳۴)
(سوال) اذان میں کیا افضل ہے ترجیع
یا عدم ترجیع ؟
جواب : افضل عدم ترجیع ہے ، اسلئے کہ ترجیع کا تذکرہ صرف ایک محتمل
حدیث میں ہے، وہ حدیث ابی محذورہؓ
ہے،
اس میں یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان
کو اذان کی تعلیم دی اور اس میں ترجیع کا ذکر کیا، لیکن ہمارا خیال ہے کہ
نبی کریم ﷺ نے ان کے سامنے ترجیع کا تذکرہ
شہادت کی تلقین کی غرض سے کیا ، اسلئے کہ وہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے
ارادہ فرمایا کہ شہادتین ان کے دل میں راسخ ہوجائیں ۔
معلوم ہوا:
بالترجیع
اذان کے، خلاف اولیٰ ہونے کے قائل، صرف علماء احناف نہیں بلکہ بڑے بڑے سلفی علماء کرام بھی ہیں ، اور
حدیث ابی محذورہ ؓ کا جو محمل احناف بیان کرتے ہیں ، وہی محمل سلفی علماء نے بھی
بیان کیا ، لیکن شیخ البانیؒ نے ہدفِ ملامت صرف احناف اور شوافع کو بنایا۔
حضرت
شیخ البانیؒ اور امن پوری صاحب کو – جو
ترجیع کی سنیت کے قائل ہیں – چاہیے تھا کہ وہ پہلے سلفی کبارِ علماء پر رد فرماتے
،پھر احناف و شوافع کو مذہبی تعصب کا طعنہ دیتے،بلکہ ہمارا کہنا ہے کہ شیخ البانیؒ
، حکومتِ سعودیہ سے درخواست فرماتے کہ جس
طرح نبی کریمﷺکے زمانہ میں مکہ مکرمہ میں ترجیع کے ساتھ، اورمدینہ منورہ میں بغیر ترجیع کے اذان ہوتی تھی اب بھی اسی پر عمل کرکے ایک مہجور سنت
کو زندہ کیا جائے۔
امام الائمہ ابوبکرمحمد بن اسحاق بن خزیمہؒ کی عبارت اور
اس کا جواب :
ظہیر صاحب ایک قول امام الائمہ ابوبکرمحمد بن اسحاق بن
خزیمہؒ کا ذکر کیا کہ :
’’نبی کریمﷺسے
اذان واقامت دو ہی طرح ثابت ہے، بغیر
ترجیع اذان کے ساتھ اکہری اقامت اور مع
ترجیع اذان کے ساتھ دوہری اقامت ، لیکن
بغیر ترجیع کی اذان کے ساتھ دوہری اقامت کا حکم کرنا ، نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ‘‘۔(خلاصہ) (ضرب
حق : ش۱۱ : ص ۳۰)
اس کے جوابات درجِ ذیل ہیں :
(الف ) اس قول
کا سلف صالحین اور فقہاء امصار میں سے کوئی
قائل نہیں :
شافعیہ اور مالکیہ اذان میں ترجیع
کی سنیت اور اکہری اقامت کے قائل ہیں، جبکہ
حنفیہ ، حنابلہ اور خود سلفی علماء ، اذان میں ترجیع وعدم ترجیع ، اور اکہر
ی ودوہری اقامت تمام کے جواز کے قائل ہیں ، البتہ علماء حنفیہ اور سلفی علماء میں
صرف اتنا فرق ہے کہ حنفیہ دوہری اقامت افضل سمجھتے ہیں جبکہ سلفی علماء اکہر ی
اقامت ۔
یہی وجہ ہے کہ
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں ’’وقيل لم يقل بهذا التفصيل أحد
قبله‘‘ کہا گیا ہے کہ امام ابن خزیمہ ؒ سے پہلے یہ بات کسی نے
نہیں کہی(یعنی سلف میں سے کوئی اس کا قائل نہیں )۔(فتح
الباری :۲/۸۴)
البتہ
غیرمقلدین کی شذوذپسندی ، اوربغضِ احناف
نے انہیں اس قول کو اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ اس سے
غیرمقلدین کے دعوائے سلفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
(ب) حدیثی
ناحیہ سے اسکا جواب ،ہم خود دینے کی بجائے غیرمقلدین کے محدث العصر سے ہی نقل کر دیتے ہیں :
قلت: وفيما قاله ابن خزيمة نظر لأن الحديث الثاني -
وهو حديث عبد الله ابن زيد الأنصاري في الرؤيا - فيه تثنية الإقامة وليس فيه
الترجيع اتفاقا ۔۔۔۔۔۔۔ فكيف يقال: إن تثنية الأذان بلا ترجيع مع تثنية الإقامة لم
تثبت عنه صلى الله عليه وسلم؟ مع أن ابن خزيمة ممن روى ذلك كما سبق في الأذان۔
’’امام ابن خزیمہ
ؒ کا یہ قول محل ِ نظر ہے ، اس لئے کہ یہ خود ان کی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہے،
(ان کے اس قول کےمحل نظر ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ) حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کی روایت
میں اذان بالاتفاق بلا ترجیع ہے اوراسکے
ساتھ اقامت دوہری منقول ہے، لہذا یہ کہنا کہ’’ بلا ترجیع اذان کے ساتھ دوہری اقامت
،نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ‘‘ محلِ نظر ہے۔ (الثمر المستطاب : ج۱: ص ۲۰۹)
اخیراً :
یہ مسئلہ حلال
وحرام یا جائز وناجائز کا نہیں تھا بلکہ
زیادہ سے زیادہ اولیٰ و خلاف اولیٰ کا تھا
، مگر غیرمقلدین کے مشہور محدث ، شیخ زبیر
علی زئی صاحب کے شاگرد غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب نے حق وخلاف حق، اور اہل حق و بعض الناس کا مسئلہ بناکر اسے پیش
کیا ،علامہ ابن تیمیہ ؒ کے چند جملہ لکھ
کر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں :
۔۔۔۔۔۔۔ فالصواب مذهب أهل الحديث، ومن وافقهم، وهو
تسويغ كل ما ثبت في ذلك عن النبي - صلى الله عليه وسلم -. لا يكرهون شيئا من ذلك،
إذ تنوع صفة الأذان والإقامة، كتنوع صفة القراءات والتشهدات، ونحو ذلك، وليس لأحد
أن يكره ما سنه رسول الله - صلى الله عليه وسلم – لأمته۔ وأما من بلغ به الحال إلى
الاختلاف والتفرق حتى يوالي ويعادي ويقاتل على مثل هذا ونحوه مما سوغه الله تعالى،
كما يفعله بعض أهل المشرق، فهؤلاء من الذين فرقوا دينهم، وكانوا شيعا۔
۔۔۔۔ پس صحیح
مذہب اہل حدیث اور ان کے موافقین کا ہے ، اور وہ یہ کہ نبی اکرم ﷺ سے جو کچھ ثابت
ہے، تمام کی گنجائش ہے ، اس میں سے وہ کسی چیز کو مکروہ نہیں سمجھتے ، اس لئے کہ
اذان واقامت کے الگ الگ طریقے قرآت اور تشہد کے مختلف طریقوں کی طرح ہیں
، اور کسی کو یہ حق نہیں کہ اس چیز کو
ناپسند کرے جو نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کیلئے سنت قرار دیا ہے۔
اور جو اختلافات
وتفرقہ بازی میں یہاں تک پہنچ جائے کہ اس جیسےمسائل جس میں اللہ تعالی نے گنجائش
دی ہے، دوستی ، دشمنی اور لڑائی جھگڑے کرے
، جیسے کہ بعض اہل مشرق کرتے ہیں ، تو یہ لوگ ان لوگوں میں سے ہیں ، جنہوں نے اپنے
دین میں تفرقہ ڈالا اور گروہوں میں بٹ گئے ۔ (الفتاویٰ الکبریٰ : جلد۲ : صفحہ ۴۲)
اس سے غلام مصطفی
ظہیر امن پوری اور ان جیسے نام نہاد محققین کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ
ہمیں ہر طرح فتنہ فساد سے محفوظ رکھے ، ایمان و اعمال صالحہ کی زندگی اور شہادت کی
موت عطاء فرمائیں۔
[1] اعتراض :
غلام
مصطفی ظہیر امن پوری صاحب لکھتے ہیں کہ اس کا راوی عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ
بن زید مستور ہے۔سوائے ابن حبان کے،کسی نے ان کی توثیق نہیں کی۔اس لئے حافظ ابن
حجر ؒ ان کو مقبول (مستور الحال) قرار دیا ہے۔(ضرب حق : ش۱۱ : ص ۲۲)
الجواب :
عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن زیدؒ کی جمہور محدثین نے
توثیق کی ہیں۔امام ابن حبان ؒ (م۳۵۴ھ) نے ثقات میں شمار کیا ہے۔امام عینی
ؒ (م۸۵۵ھ)اور حافظ ہیثمی ؒ (م۸۰۷ھ)
نے ان کو ثقہ کہاہیں۔امام ضیاء الدین المقدسیؒ(م۶۴۸ھ) ، حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲ھ)
اور امام عینی ؒ (م۸۵۵ھ) نے ان کی روایت کو صحیح قرار دیا ہیں۔(کتاب
الثقات لابن حبان: ج۷ : ص ۵۳،الاحادیث المختارہ
: ج۹ : ص ۳۷۷،الدرایہ : ج۱ : ص ۱۱۵،النخب الافکار : ج۳ : ص ۹۶،مجمع الزوائد
: ج۵ : ص ۲۶،حدیث نمبر ۷۹۲۸) امام ابو داود ؒ (م۲۷۵ھ) نے ان کی روایت
کو بذریعہ سکوت صالح کہا ہے۔(سنن ابو داود : حدیث نمبر ۵۱۳،رسالہ ابوداود الی
اہل مکہ : ص ۲۷) اور کسی روایت کی تصحیح و تحسین ،غیر مقلدین کے نزدیک اس
روایت کےہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔(نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں،از،زبیر علی زئی : ص۱۷، انوار البدر :
ص ۲۷) لہذا جمہور محدثین کے
نزدیک عبد اللہ بن محمد بن عبد اللہ بن
زیدؒ ثقہ ہیں۔اور جمہور کےمقابلے میں ان پر مجہول
وغیرہ کا اعتراض، خود ظہیر صاحب کے مسلک کے اصول سے باطل و مردود ہے۔(مقالات
زبیر علی زئی : ج۶: ص ۱۴۳)
[2] اس سند میں دو علتیں بیان کی جاتی ہیں :
(۱) پہلی
علت : عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ؒ اور حضرت عبد اللہ بن زیدؓ کے درمیان انقطاع۔ اس
لئےکہ عبد الرحمن بن ابی لیلی ؒ کا حضرت
عبد اللہ بن زیدؓ سے لقاء ثابت نہیں۔مذکورہ بالا حدیث کے ذیل میں امام ترمذی ؒ
فرماتے ہیں : ’’وعبد الرحمن بن
أبي ليلى، لم يسمع من عبد الله بن زيد‘‘۔
(۲) دوسری علت : محمد بن عبد الرحمن بن
ابی لیلیؒ سیئ الحفظ ہیں ۔
پہلی علت کا جواب: یہ
ہےکہ :
امام ترمذیؒ (۲۷۹ھ) نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد
خود ذکر فرمایا ہے کہ شعبہؒ نے عمرو بن
مرۃ کے واسطہ سے روایت کیا ہے کہ عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ فرماتے ہیں کہ مجھ سے
محمد ﷺ کے صحابہ ؓ نے بیان کیا ۔ معلوم
ہوا اس انقطاع کا جواب خود امام ترمذی ؒ نے دے دیا تھا ۔
اسی طرح طحاوی کی
مذکورہ بالا روایت میں زید بن ابی انیسہؒ کی صحیح ومتصل سند میں بھی اس کی تصریح
موجود ہے کہ عبد الرحمن ؒ فرماتے ہیں کہ مجھ سے صحابہ کرام ؓ نے بیان کیا ۔
مشہور سلفی عالم
ومحدث شیخ محمد بن علی الاثیوبی ؒ ، جن کی کتاب شرح سنن نسائی کی شیخ البانیؒ اور
شیخ مقبل وادعی ؒ نے بہت تعریف کی ہے ، اپنی اسی کتاب اس (پہلی) علت کا جواب دیتے
ہوئے کہتے ہیں :
’’ وقد رَوَى ابنُ أبي ليلى عن جماعة من
الصحابة: منهم عمر، وعثمان، وعلي، وسعد بن أبي وقاص، وأبَيّ بن كعب، والمقداد،
وكعب بن عجرة، وزيد بن
أرقم، وحذيفة بن اليمان، وصهيب، وخلق يطول ذكرهم. وقال: أدركت عشرين ومائة من
أصحاب النبي - صلى الله عليه وسلم -، كلهم من الأنصار، فلا علة للحديث، لأنه على
الرواية عن عبد الله بدون توسيط الصحابة مرسل عن الصحابة، وهو في حكم المسند، وعلى
روايته عن الصحابة عنه مسند۔‘‘
عبد الرحمن بن ابی
لیلیؒ نے صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت سے روایت لی ہے ، جن میں حضرت عمرؓ ، حضرت
عثمان ؓ ، حضرت علیؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سے صحابہ کرام ؓ ہیں ، خود کہتے ہیں کہ میں نے ۱۲۰ ایسے صحابہ کرام ؓ کو دیکھا، جو تمام انصار
تھے، پس اس حدیث میں کوئی علت نہیں
، ا س لئے کہ اگر عبد الرحمن بن ابی لیلی ؒ براہ راست حضرت عبد اللہ بن زید ؓ سے
صحابہ کرام ؓ کے واسطہ کے بغیر روایت کرتےہیں
تو وہ صحابہ کی مرسل ہے ، اور وہ
مسند کے حکم میں ہے ، اور اگر صحابہ کے واسطہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں تو بھی مسند
ہے۔ (ذخیرۃ العقبی
شرح المجتبی: جلد ۷ : صفحہ
۷۰۸)
جہاں تک دوسری علت (محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلی ؒ کا سیئ الحفظ ہونا)ہے ،
تو اس کے دو جواب ہیں :
(الف) خود امام ترمذی نے ان کے متابع،امام شعبہؒ (م۱۶۰ھ) کو ذکر کیا ہے، نیز طحاوی اور مصنف ابن ابی شیبہ
میں ان کے متابع ،امام اعمشؒ اور زید بن
ابی انیسہ ؒ موجود ہیں ۔
یہی مشہور سلفی
عالم ومحدث شیخ محمد بن علی الاثیوبی ؒ ، جن کی کتاب شرح نسائی کی شیخ البانیؒ اور
شیخ مقبل وادعی ؒ نے بہت تعریف کی ہے ، اپنی اسی کتاب میں ،اس (دوسری) علت کا بھی
جواب دیتے ہوئے کہاہے :
’’ومحمد بن عبد الرحمن، وإن كان بعض أهل
الحديث يضعفه فمتابعة الأعمش إياه عن عمرو بن مرة، ومتابعة شعبة كما ذكر ذلك
الترمذي مما يصحح خبره، وإن خالفاه في الإسناد وأرسلا، فهي مخالفة غير قادحة۔‘‘
(ذخیرۃ العقبی شرح المجتبی:
جلد ۷ : صفحہ ۷۰۸)
محمد بن عبد
الرحمن بن ابی لیلیؒ (م۱۴۸ھ) کی اگرچہ بعض محدثین نے تضعیف کی ہے ، مگر
امام شعبہؒ اور امام اعمش ؒ کی متابعت سے ان کی حدیث صحیح ہوجاتی ہے، اگر چہ سند
میں یہ اختلاف ہے کہ انہوں نے صحابہ کا واسطہ ذکر نہیں کیا ،مگر یہ (یعنی اس روایت
میں صحابہ کا واسطہ ذکر نہ کرنا ) ایسی علت ہے ، جو قادح نہیں ہے۔
معلوم ہوا خود سلفی علماء کے نزدیک ،شعبہ ؒ و اعمشؒ ثقات کی متابعت کی وجہ سے محمد بن عبد الرحمن
بن ابی لیلیؒ کی روایت بھی صحیح ہے۔
امام محمد بن عبد الرحمٰن بن ابی لیلیؒ کے تفصیلی حالات : (الزامی جواب)
(ب) امام محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ؒ ، جلیل
القدرفقیہ و مجتہد ہیں ، امام ابو حنیفہ ؒ کے درجہ کے سمجھے جاتے ہیں ۔’’وكان نظيرا
للإمام أبي حنيفة في الفقه۔‘‘ (سیر) بلکہ بعض علماء نے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا
فقیہ بھی کہا ہے۔ ’’ذكر زائدة ابن أبي ليلى ، فقال : كان أفقه أهل الدنيا۔‘‘ (سیر)
آپ قرآن کریم کے بھی
بڑے امام ہیں ، ائمہ سبعہ میں سے امام حمزہ الزیّات الکوفی ؒ کے استاد ہیں۔ ’’قد قال حفص
بن غياث : من جلالة ابن أبي ليلى أنه قرأ القرآن على عشرة شيوخ۔‘‘ (سیر) ’’قرأ عليه :
حمزة الزيات ، فكان يقول : إنا تعلمنا جودة القراءة عند ابن أبي ليلى۔‘‘ (سیر)
آپ بڑے درجہ کے قضاۃ اسلام میں
سےہیں۔ ’’بشر
بن الوليد : سمعت القاضي أبا يوسف يقول : ما ولي القضاء أحد أفقه في دين الله، ولا
أقرأ لكتاب الله، ولا أقول حقا بالله، ولا أعف عن الأموال من ابن أبي ليلى۔‘‘ (سیر)
اسی طرح آپکے پا س حدیث شریف کا بھی
ذخیرہ تھا، البتہ جرح وتعدیل کے مطابق آپ برے حافظہ والےہیں:
۱- امام
احمدؒ آپ کو برےحافظے والا اور مضطرب
الحدیث کہتے ہیں ۔
قال
عبد الله بن أحمد بن حنبل، عن أبيه: كان سئ الحفظ، مضطرب الحديث۔
۲ - امام شعبہ ؒ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے زیادہ برے حافظے
والا کسی کو نہیں دیکھا۔
عن
أبي داود: سمعت شعبة يقول: ما رأيت أحدا أسوأ حفظا من ابن أبي ليلى۔
۳ - ابن حبان ؒ نے برے حافظے والے اور کثیر الخطاء کہا ہے۔
فاحش
الخطأ رديء الحفظ فكثرت المناكير في روايته۔(اس
کا بقیہ جملہ آگے آئے گا)
۴ - امام دارقطنی نے برے حافظہ والے کثیر الوھم کہا ہے۔
قال
الدارقطني كان رديء الحفظ كثير الوهم۔
۵ - ابن المدینیؒ نے برے حافظہ والے اور کمزور حدیث والے کہا
ہے۔
عن
ابن المديني كان سيء الحفظ واهي الحديث۔
۶- امام ساجی ؒ کہتے ہیں کہ برے حافظے والے تھے مگر کذاب نہیں
قضاء میں ممدوح ہیں مگر حدیث میں حجت نہیں
۔ كان سيء الحفظ لا يتعمد
الكذب فكان يمدح في قضائه فأما في الحديث فلم يكن حجة۔
۷ - امام ابن معین ؒ کہتے ہیں : زیادہ مضبوط نہیں ہیں ۔
عَن
يحيى بْن مَعِين: ليس بذاك۔
۸ - امام نسائیؒ کہتے ہیں کچھ ضعیف ہیں ۔ وقال
النسائي : ليس بالقوي۔
۹ - امام ابو زرعہؒ فرماتے ہیں : ٹھیک ہیں ، زیادہ قوی نہیں
ہیں ۔
قال
أبو زرعة : صالح ، ليس بأقوى ما يكون۔
۱۰ - ا بو حاتمؒ فرماتے ہیں ، وہ سچائی کے مقام پر ہیں ، قضاء کی
وجہ سے حافظہ خراب ہوگیا تھا، متہم بالکذب نہیں ہیں ، کثیر الخطا ہیں ، ان کی حدیث لکھی جائے گی مگر احتجاج نہیں
کیا جائیگا، حجاج بن ارطاۃ (صدوق کثیر
الخطاءوالتدلیس ، احد الفقہاء: تقریب : ۱۱۱۹) سے قریب ہیں۔
وقال أبو حاتم : محله الصدق، كان سئ الحفظ، شغل
بالقضاء فساء حفظه، لايتهم بشيء من الكذب إنما ينكر عليه كثرة الخطأ، يكتب حديثه
ولا يحتج به، وهو والحجاج بن أرطاة ما أقربهما۔
۱۱ - یعقوب بن سفیان ؒ کہتے ہیں کہ ثقہ وعادل ہیں ، مگر آپ کی
حدیث میں کچھ کلام وکمزوری ہے۔
قال
يعقوب بن سفيان ثقة عدل في حديثه بعض المقال لين الحديث عندهم۔
۱۲ - دوسری جگہ امام دارقطنیؒ کہتے ہیں آپ ثقہ ہیں ، مگر آپ کے
حافظہ میں کچھ خرابی ہے۔
وقال
ثقة في حفظه شيء۔(موسوعہ اقوال الدارقطنیؒ: ۲/۵۹۶)
۱۳ - ابن خزیمہؒ کہتے ہیں کہ وہ حافظ نہیں ہیں ۔ قال ابن
خزيمة ليس بالحافظ ۔
۱۴ - امام
یحییٰ القطان ؒ اور منقول ہےکہ وہ آپ کی تضعیف کرتے تھے ۔
كان يحيى بن
سعيد يضعف ابن أبي ليلى۔
ذكر أحمد بن حنبل حديث ابن
أبي ليلى عن عطاء "في الضرورة يحج عن الميت "فقال: ابن أبي ليلى ضعيف۔
نوٹ :
مگریہاں ضعیف سے مرادمتروک یا سخت
ضعیف نہیں بلکہ لین الحدیث ہے، اسی وجہ سے جب ابن حبانؒ نے احمدؒ اور یحییٰ
القطانؒ سے محمد بن ابی لیلیٰ کا متروک ہونا نقل کیا، تو ذہبیؒ نے ان پر رد کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں
نے ان (محمد بن ابی لیلی ؒ) کو ترک نہیں کیا ، بلکہ ان کی حدیث کو کچھ کمزور کہاہے۔
وقال ابن حبان:
كان ابن أبي ليلى رديء الحفظ، فاحش الخطأ، فكثر في حديثه المناكير، فاستحق الترك،
تركه: أحمد، ويحيى. قلت: لم نرهما تركاه، بل لينا حديثه۔(سیر)
اور ایک روایت یہ ہے کہ یحییٰ القطان
اس وقت تضعیف کرتے ہیں جب وہ حضرت عطاء ؒ
سے روایت کریں ۔
قال: كان يحيى
يضعف ابن أبي ليلى ومطرا عن عطاء.(میزان)
۱۵ - امام ابن عدیؒ کہتے
ہیں کہ سوء حفظ کے باوجود آپ کی حدیث لکھی جائے گی ۔
وهو مع سوء حفظه يكتب
حديثه۔(الکامل)
۱۶ - امام ترمذی ؒ نے آپ کی ایک حدیث کی تحسین کی ہے، اور
دوسرے محدثین نے محمد بن ابی لیلیٰ کی وجہ سے اس روایت کی تضعیف کی ہے، مگر امام
ذہبیؒ نےامام ترمذیؒ کے قول کو زیادہ بہتر کہا ہے۔
الثوري وغيره،
عن ابن أبي ليلى، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس - إن المشركين أرادوا أن يشتروا
جسد رجل أصيب يوم الخندق ... الحديث. حسنه الترمذي. وقال عبد الحق في أحكامه وابن
القطان: إسناده ضعيف ومنقطع، لا سماع للحكم من مقسم إلا لخمسة أحاديث، ما هذا
منها. وضعفاه من جهة ابن أبي ليلى۔ وقول
الترمذي أولى. (میزان)
نوٹ : ابن قطان ؒ کو حافظ ذہبی ؒ نے خود جرح
و تعدیل میں متشدد کہا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ : ج۴ : ص ۱۳۴)
۱۷ - امام عجلیؒ آپ کوصراحۃً
صدوق اور جائز الحدیث کہتے ہیں ۔
وقال
العجلي كان فقيها صاحب سنة، صدوقا، جائز الحديث۔ (یہ تمام حالات تہذیبین سے لئے گئے
ہیں ، جو بات کہیں اور سے لی گئی اس کا حوالہ وہیں دے دیا گیا)
۱۸ - اسی طرح امام ذہبیؒ نے بھی آپ کو صدوق سیئ الحفظ کہا ہے ،
نیز یہ بھی کہا کہ آپ کی توثیق کی گئی ہے۔
صدوق إمام، سيئ الحفظ ، وقد وثق۔ (میزان)
۱۹ - امام ابن حجرؒ تقریب میں آپ کو ’’صدوق سیئ الحفظ جدا‘‘ کہتے ہیں ۔
۲۰ - غیرمقلد عالم ومحدث العصرشیخ البانی ؒکہتے ہیں کہ امام ابن
حجرؒ نے انکو ’’صدوق سیئ الحفظ جدا ‘‘ کہا ، جبکہ ذہبیؒ
نے صرف’’صدوق
سیئ الحفظ‘‘ کہا،(دیوان الضعفاء :۳۸۲۱)اس کے ساتھ ’’جدا‘‘ نہیں بڑھایا ،لہذا ان کی
حدیث ’’ضعیف ‘‘تو ہوگی لیکن’’ضعیف جدا ‘‘ نہیں ہوگی، جیسا کہ واضح ہے۔
وقال الحافظ في
ترجمته من " التقريب ": صدوق سيىء الحفظ جدا. وكذا قال الذهبي في "
الضعفاء "، إلا أنه لم يقل: " جدا "، وذلك لا يخرج حديثه من رتبة الضعف
المطلق، وإنما من رتبة الضعف الشديد كما هو ظاهر۔(ضعیفہ :۳ /۱۶۶،
رقم ۱۰۵۴)
نیز یہ بھی بیان کیا ہے کہ وہ اگر چہ معروف سیئ الحفظ ہیں ، مگر شواہد ومتابعت کے لائق ہیں۔
محمد بن عبدالرحمن بن أبي ليلى سيىء الحفظ
معروف بذلك، فهو صالح للاستشهاد به۔ (صحیحہ
: جلد۷ : صفحہ ۷۳۵ ، رقم ۳۲۴۴)
امام محمد بن عبد الرحمن بن ابی
لیلیٰ ؒ کے تفصیلی حالات بیان کرنےکے بعد ہم غیر مقلدین سے کہنا چاہتے ہیں کہ :
ائمہ جرح وتعدیل نےمحمد بن ابی لیلیؒ پرجو احکام لگائے ہیں ،تقریباً وہی
احکام، مؤمل بن اسماعیلؒ پر بھی لگائے ہیں ۔ (صدوق سیئ الحفظ :تقریب ۷۰۲۹ ، صدوق ، شدید فی السنۃ کثیر الخطاء: کاشف)
مگر غیر مقلدین انہیں حسن الحدیث کہتے ہیں ، اور ان کی روایت سے استدالال کرتے
ہیں ۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ سینہ پر
ہاتھ باندھنے کی روایت کے راوی ہیں ، جو
کہ نماز کے بارے میں غیرمقلدین کا قومی شعار ہے۔
لہذا اصولی طور
غیرمقلدین کا امام محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیؒ پر کلام کرنا صحیح نہیں ہے۔
[3] الفاظ
یہ ہیں :
صفات الأذان الثابتة في
السنة:
الصفة الأولى: أذان بلال
رضي الله عنه، الذي كان يؤذن به في عهد النبي - صلى الله عليه وسلم - وهو خمس عشرة
جملة: ۔۔۔۔۔۔ أخرجه أبو داود وابن ماجه.
وهذا أفضل صفات الأذان؛
لأنه هو الذي كان يسمعه النبي - صلى الله عليه وسلم - من بلال حضرا وسفرا.
الصفة الثانية: أذان أبي
محذورة رضي الله عنه، وهو تسع عشرة جملة، التكبير أربعا في أوله مع الترجيع۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ أخرجه أبو داود والترمذي۔
صفة الترجيع:
أن يقول المؤذن أولا بصوت
خافت (أشهد أن لا إله إلا الله) مرتين، ثم يرجع ثانية ويرفع بها صوته مرتين، ويفعل
كذلك في (أشهد أن محمدا رسول الله).
الصفة الثالثة: مثل أذان
أبي محذورة رضي الله عنه السابق إلا أن التكبير في أوله مرتان فقط، فيكون سبع عشرة
جملة. ۔۔۔۔۔ أخرجه مسلم.
الصفة الرابعة: أن يكون
الأذان كله مثنى مثنى، وكلمة التوحيد في آخره مفردة، فيكون ثلاث عشرة جملة. ۔۔۔۔۔۔
متفق علیہ۔(موسوعہ الفقہ الاسلامی : جلد۲ : صفحہ ۳۹۵)
[4] الفاظ
یہ ہیں :
وقد
جاء في صفته ثلاثة أنواع:
الأول:
ألفاظه تسع عشرة كلمة۔(الثمر المستطاب : صفحہ
۱۱۹)
والنوع الثاني ألفاظه سبع عشرة وهو مثل الأول إلا
أن التكبير في أوله مرتين لا أربعا وهو رواية لمسلم وغيره كمالك في (المدونة) (۱/
۵۷ - ۵۸) من حديث أبي محذورة ولكنها رواية مرجوحة كما سبق إلا أن لها شواهد تدل
على أن لها أصلا في السنة۔(الثمر : صفحہ ۱۲۷)
والنوع الثالث
ألفاظه خمس عشرةوهو مثل الأول إلاأنه لا ترجيع فيه على حديث عبد الله بن زيد
بن عبد ربه. وقد تقدم. وهذا أذان الكوفيين۔ وبه قال أبو حنيفة
وسفيان الثوري كما في (المجموع)
(۳/ ۹۳)۔
[5] الفاظ
یہ ہیں :
صفات الإقامة الثابتة في
السنة:
السنة أن تكون الإقامة
مرتبة ومتوالية بإحدى الصفات الآتية:
الصفة الأولى: إحدى عشرة
جملة، وهي إقامة بلال رضي الله عنه التي كان يقيم بها بين يدي النبي - صلى الله
عليه وسلم - حضرا وسفرا -وهي أفضلها- ۔۔۔۔۔
أخرجه أبو داود وابن ماجه۔
الصفة الثانية: سبع عشرة
جملة، وهي إقامة أبي محذورة رضي الله عنه۔ ۔۔۔۔۔۔
أخرجه أبو داود والترمذي۔
الصفة الثالثة: عشر جمل :
۔۔۔۔۔۔۔۔ أخرجه أبو داود والنسائي۔(موسوعہ الفقہ الاسلامی : جلد۲ : صفحہ ۴۰۲)
[6] الفاظ
یہ ہیں :
النوع الثاني:
إحدى عشرة كلمة: ۔۔۔۔۔ (بعد صفحتین ونصف تقریباً) ۔۔۔۔۔ قال البغوي: (وهو قول أكثر العلماء) كما في
(المجموع)۔
واحتج لهم بهذه
الأحاديث الثلاثة أماحديث عبد الله بن زيد فقد علمت ما فيه وأما حديث ابن عمر وأنس
فظاهرهما يدل على أن الإقامة تسع كلمات لا إحدى عشرة كلمة۔
وقد أجابوا
عنهما محمولان على التغليب۔ وقال النووي في شرح مسلم: (فإن قيل: قد قلتم إن
المختار الذي عليه الجمهورأن الإقامة أحدى عشرة كلمةمنها الله أكبر الله أكبر أولا
وآخرا وهذا تثنية فالجواب أن هذا وإن كان صورة تثنية فهو بالنسبة إلى الأذان إفراد
ولــــــــــــــــــهذا قال أصحابنا: يستحب للمؤذن أن يقول كل تكبيرتين بنفس واحد
، فيقول في أول الأذان : الله أكبر الله أكبر بنفس واحد ثم يقول:الله أكبر الله
أكبر بنفس واحد) قال الحافظ :
(وهذا إنما
يتأتى في أول الأذان لا في التكبير الذي في آخره وعلى ماقال النووي ينبغي للمؤذن
أن يفرد كل تكبيرة من اللتين في آخره بنفس)
هذا وذهب مالك
كما في (المدونة) إلى أن الإقامة عشرة كلمات فلم يثن لفظ: (قد قامت الصلاة) وهو
قول قديم للشافعي كما قال النووي۔
ولم أجد لهذا
القول سندا من الروايات بل كلها على خلافه لأنها تقول بتثنية الإقامة ولعل من أخذ
به عمل أهل المدينة وعلى هذا يدل كلام ابن حزم ثم رأيت مالكا صرح بذلك في (الموطأ)
ولم أجد أيضا من ذهب إلى الأخذ بظاهر حديث ابن عمر وأنس المقتضي لكون الإقامة تسع
كلمات بإيتارها كلها إلا لفظ الإقامة فإن وجد من أخذ به من السلف قلنا به وإلا
اضطررنا إلى القول بتأويلهما - كما سبق - على ما فيه من التكلف. والله أعلم (الثمر المستطاب : جلد۱ : صفحہ ۲۱۰ تا ۲۱۴)
[7] لہذا غلام مصطفٰی ظہیر صاحب کا یہ کہنا کہ
’’ دوہری اقامت کے مذہب پر کوئی شرعی دلیل
نہیں‘‘(ضرب حق: ش۱۱: ص ۱۹) باطل
اور مردود ہے۔
[8] یہی
بات ہم موجودہ غیر مقلدین کے خدمت میں بھی عرض کرتے ہیں کہ پرتکلف تاویل والے قول کولینے کی
بنسبت ، حنفیہ کی اقامت ،جو نوکلمات پر مشتمل
نیز وتراً کہی جاتا ہے ، اختیار کئے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ نیز حضرت بلال
ؓ بھی دوہری اقامت کہتے تھے،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
[9] اعتراض
نمبر ۱ :
ظہیر صاحب کہتےہیں کہ یہ روایت
’’منقطع‘‘ ہونے کی وجہ سے بھی ’’ضعیف‘‘ ہے۔اور نقل کرتے ہیں کہ اسود بن
یزید نے بلال ؓ کا زمانہ نہیں پایا۔(ضرب حق : ش ۱۱ : ص ۲۶)
جواب
نمبر ۱ :
امام ذہبیؒ (م۷۴۸) کہتے ہیں ’’واسود بن یزید ، مخضرم ادرک
الجاھلیۃ والإسلام ‘‘ یعنی حضرت اسود بن یزیدؒ مخضرم ہیں ، یعنی زمانہ جاہلیت اور
نبی کریم ﷺ کا زمانہ ، دونوں پایا ہے۔
(سیراعلام النبلاء : جلد ۴: صفحہ ۵۰ )
مگر
نبی کریمﷺ سے ملاقات نہیں ہوئی، البتہ
حضرت ابوبکرؓ سےملاقات ثابت ہے۔اور کہتے ہیں کہ
’’وروى عن: الصديق أنه جرد معه الحج‘‘ (سیر)
لہذا حضرت بلال ؓ سے ،حضرت اسود بن یزید ؓ کے لقاء کا امکان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ غیرمقلد عالم شیخ البانیؒ نے
اسود بن یزید عن بلالؓ کی سند سے آئی ہوئی حدیث کو صحیح الاسناد کہا ہے ۔ (سنن
نسائی : حدیث نمبر ۶۴۹ - ۶۵۰)
جواب نمبر ۲ :
اسود بن یزید نے خود بلال ؓ سے سماع کی تصریح کر دی ہے۔چنانچہ
امام ابو الحسن الزعفرانی ؒ (م۲۶۰ھ) فرماتے ہیں کہ
حَدَّثَنَا عَفَّانُ،
ثنا شُعْبَةُ، قَالَ مَنْصُورٌ وَسُلَيْمَانُ أَخْبَرَانِي عَنْ إِبْرَاهِيمَ،
عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ بِلَالٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ "يُؤَذِّنُ:
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "۔ (مسند
بلال بن رباح للزعفرانی :ج۲: ص ۱۹۸،طبع مع الفوائد لابن مندہ
الاصبہانی،دار الکتب علمیہ،بیروت)
اعتراض
نمبر ۲ :
ظہیر صاحب کہتے ہیں کہ حماد بن ابی سلیمان
راوی ’’مختلط‘‘ہے۔اور ہیثمی ؒ کا نقل
کرتے ہیں کہ حماد بن ابی سلیمان کی وہی حدیث قبول کی جائے گی، جو اس سے پرانے
شاگرد، یعنی شعبہؒ، سفیان الثوری ؒ ،ہشام دستوائی ؒ بیان کریں اور جو ان کے علاوہ
شاگرد ہیں،انہوں نے حماد سے اختلاط کے بعد روایات بیان کی ہیں۔(ضرب حق : ش۱۱ : ص ۲۶)
الجواب
:
امام
حماد بن ابی سلیمان ؒ کا حال :
شیخ البانیؒ کہتے ہیں :
قلت: وهذا
إسناد حسن، رجاله كلهم ثقات رجال مسلم غير أن حماداً وهو ابن أبي سليمان الأشعري
مولاهم أبو إسماعيل الكوفي الفقيه- قد تكلم فيه بعضهم من قبل حفظه. وقال الحافظ في
"التقريب ": " صدوق له أوهام ". فهو حسن الحديث على أقل
الدرجات. وقد أورده الذهبي في "الميزان " ، وقال: " تكُلمَ فيه
للإرجاء، ولولا ذكر ابن عدي له في "كامله " لما أوردته ".
وهذا إشارة منه إلى توثيقه۔
میں
کہتا ہوں یہ سند حسن ہے ، اس کے تمام رواۃ ثقہ اورمسلم کے رجال ہیں ، سوائے حماد ؒ
کے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ، بعض لوگوں نےانکے حافظہ پر کلام کیا ہے، حافظ ؒ کہتے ہیں ’صدوق
لہ اوھام‘پس وہ کم سے کم درجہ میں حسن الحدیث ہیں ، ذہبیؒ نے انکو میزان میں ذکر
کیا اور کہا ان پر ارجاء کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے، اور اگر ابن
عدیؒ نے ’الکامل‘ میں ان کو ذکر نہ کیا ہوتا تو میں ان کو میزان میں ذکر نہ کرتا
،(شیخ البانیؒ کہتے ہیں ) یہ ان کی توثیق کی طرف اشارہ ہے۔ (صحیح ابی داؤد الام
: ۲/ ۲۱۷ ، حدیث ۳۹۸)
غیر مقلد عالم شیخ زکریا غلام قادر
پاکستانی کہتے ہیں : ’’
وحماد هو ابن أبي سليمان وهو حسن الحديث ‘‘ حماد بن ابی
سلیمان حسن الحدیث ہیں ۔ (ماصح من آثار الصحابہ
: جلد۱ : صفحہ ۴۸۵)
اس سے معلوم ہوا امام حماد بن ابی سلیمانؒ
خود غیر مقلدین کے نزدیک حسن الحدیث ہیں ۔
’’معمر
عن حماد بن ابی سلیمان ‘‘ کی سند کا حال :
’’معمر عن حماد‘‘ سے
مروی حدیث کو حافظ عبد الغنی بن سعید ؒ (م۴۰۹ھ)،حافظ
ابو احمد بن عدی ؒ (م۳۶۵ھ) ،امام ابو الحسن الدارقطنی ؒ (۳۸۵ھ)،حافظ
ابو علی ابن السکن ؒ (م۳۵۳ھ) ،
حافظ ابو علی النیساپوریؒ(م۳۴۹ھ)، امام ابن مندہ ؒ (م۳۹۵ھ)،امام
ابو یعلی خلیلیؒ (م۴۴۵ھ) اور امام
حاکم ؒ (م۴۰۵ھ) ، حافظ المشرق خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳ھ) اور امام،حافظ ابو طاہر السلفی
ؒ (م۵۷۱ھ) وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہیں۔
اسی طرح غیر مقلدین کےشیخ الابانی ؒ، شیخ زبیر علی زئی صاحب اور سلفی محقق شیخ حسین سلیم اسد نے بھی ’’معمر عن
حماد ‘‘کی سند کو صحیح کہا ہیں ۔ (سنن
نسائی : حدیث نمبر ۳۸۶۰،تحقیق
الابانی،سنن نسائی ،تحقیق زبیر علی زئی : حدیث نمبر ۳۸۹۱،ذخیرۃ
العقبی از شیخ
محمد بن علی الاثیوبی ،ج: ۳۱ : ص
۱۰۱، اختصار فی علوم الحدیث مترجم زبیر علی زئی : ص۲۲،مسئلہ فاتحہ خلف الاماماز
زبیر علی زئی : ص ۵۲،
النکت لا بن حجر : ج۱ : ص ۴۸۱، سنن دارمی : جلد۴
: صفحہ ۱۹۵۷، حدیث ۳۰۴۷)
اسی طرح حافظ ابن حزم ؒ (م۴۵۶ھ) نے
بھی ’’معمر عن حماد‘‘ سے مروی حدیثوں کو صحیح قرار دیا ہے۔(المحلی
: ج۱ : ص ۲۱۱،ج۳ : ص ۲۸۵،۳۴۹، ماہنامہ اہل السنہ ممبئی، ستمبر ۲۰۱۷: ش ۷۰ : ص ۱۶)
اور پھر خود غیر مقلدین کا اصول ہے کہ محدثین کی تصحیح و تحسین سے، راوی کا اپنے مختلط شیخ سے قبل الاختلاط سماع ثابت ہوتا ہے۔(مقالات
زبیر علی زئی : ج۶ : ص ۱۳۳،دین میں تقلید کا مسئلہ : ص ۳۶) اتنا ہی نہیں، بلکہ
حافظ ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ) اور حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲ھ) وغیرہ نے
’’معمر عن حماد‘‘ کی
سند سے مروی اقوال کو امام حمادبن ابی سلیمان ؒ (م۱۲۰ھ) سے ثابت مانا ہے۔ (سیراعلام
النبلاء : ج۵:ص ۲۳۳،فتح الباری : ج۱ : ص ۳۴۳)
الغرض خود غیر مقلدین کے اصول سے ثابت ہوا کہ
معمر ؒ (م۱۵۳ھ) نے اپنے شیخ حماد بن ابی سلیمان ؒ(م۱۲۰) سے ان
کے الاختلاط سے پہلے کا سماع کیا تھا ۔ لہذاظہیر صاحب کا اعتراض باطل اور مردود
ہے۔پھر اس سند کی متابعات بھی موجود ہیں۔
نیز ظہیر صاحب نے امام ابراہیم نخعی ؒ کی عنعنہ
پر بھی
اعتراض کیا ہے۔لیکن محدثین نے واضح کیا کہ وہ ثقہ سے روایت کرتے تھے اور ان
کی تدلیس مقبول ہے۔(الاجماع : ش ۳ : ص
۲۵۴، طبقات المدلسین : ص ۲۸) نیز خود
اہل حدیث مسلک کے ارشاد الحق اثری صاحب اور خبیب احمد صاحب نے بھی امام
ابراہیم نخعی ؒ کی عنعنہ کو قبول کیا ۔(مقالات اثریہ : ص ۲۵۹)
لہذاظہیر
صاحب کا یہ اعتراض بھی باطل اور مردود ہے۔
[10] اعتراض نمبر ۱ :
اس
کے بارے میں امام ابوبکر احمد بن منصور الرمادیؒ (م ۲۶۵ھ) کہتے ہیں
کہ سفیان نے ابو معشر سے نہیں سنا ہے ۔
الجواب
نمبر ۱ :
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ امام سفیان
ثوریؒ اور ابو معشر زیاد بن کلیبؒ دونوں کوفی ہیں ، ابومعشر کے انتقال ( ۱۱۹ ھ) کے وقت سفیان ثوریؒ تقریبا ۲۲
سال کے تھے ، نیز امام ثوریؒ نے کم عمری سےحصولِ علم شروع کردیا تھا ، اس لئے امکانِ لقاء موجود ہے۔
الجواب
نمبر ۲ :
نیز سعید بن ابی عروبہؒ عن ابی معشر اور اس
سے پہلے معمرعن حماد کی روایت سے اس کی متابعت ہوتی ہے ۔ لہذا متابعات کی وجہ سے اسود ؒ کی یہ حدیث متصل
ہوگی اور سلفی محقق شیخ نبیل سعد الدین
سلیم جرار نے اس حدیث کی تصحیح نقل کی ہے ۔ (الایماء
إلی زوائد الأمالی والأجزاء : جلد۲: صفحہ ۶۵ ، رقم الحدیث ۱۰۰۷، حاشیہ ۳) نیز
دیکھئے (الایماء
: جلد ۱ ، مقدمہ : صفحہ ۱۰)
سفیان ثوری ؒ کا خود دوہری اقامت کہنا :
مذکورہ بالا روایت کی متابعت اس سے بھی ہوتی ہےکہ خود امام سفیان
ثوریؒ (م۱۶۱ھ) سید العلماء العاملین فی زمانہ(سیر)
نے ’’ قال عبد
الرزاق: سمعت الثوري، وأذن لنا بمنى فقال: " الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا
إله إلا الله مرتين، أشهد أن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم مرتين، فصنع كما
ذكر في حديث عبد الرحمن بن أبي ليلى في الأذان، والإقامة تمام مثل الحديث‘‘
مقام منیٰ میں ،جہاں حاجیوں کا جم غفیر ہوتا ہے ، بلا
خوف تردید ،دوہری اقامت کہی ۔ (مصنف عبد الرزاق : جلد۱ : صفحہ ۴۶۱، رقم ۱۷۸۸، و اسنادہ صحیح)
اعتراض
نمبر ۲ :
ظہیر صاحب
کہتے ہیں کہ یہ سند سفیان ثوری ؒ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔(ضرب حق :
ش۱۱ : ص ۲۶)
الجواب
:
تدلیس
کے مسئلہ پر ظہیر صاحب جیسے حضرات کا رد
،سفیان ثوری ؒ کی تدلیس کا دفاع اور ان کی
عنعنہ کو قبول خود اہل حدیث علماء نے کیا ہیں۔(انوار البدر : ص ۱۴۷، مقالات اثریہ : ص ۲۵۳) لہذا یہ اعتراض بھی مردود ہے۔
[11] مشہورسلفی محقق شیخ احمد شاکرؒان کی
توثیق کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ’’ تكلم فيه بعضهم بغير حجة، إلا أنه كان يخطئ في بعض حديثه ‘‘ بعض
لوگوں نے بلا دلیل ان پر کلام کیا ہے، ہاں اتنا ہے کہ ان سے بعض حدیثوں میں غلطی
ہوئی ہے۔ (مسند أحمد :ت شاکر : ج۵ :
ص۳۱۷، حدیث ۵۹۶۶)، اسی طرح دوسری سلفی محقق شیخ حسین سلیم اسد دارانی، نے کئی
صفحات میں شریکؒ پر بحث کی ہے، اور ان پر کی گئی تمام جروحات ، تدلیس ، اختلاط ،
سوء حفظ اور کثرت خطاء ، تولیتِ قضاء پر مفصل بحث کی اور ان کا جواب دیا ہے، پھر اخیر میں ان کی حدیث کو حسن کہا ہے ۔ (موارد
الظمآن إلی زوائد صحیح ابن حبان ، ت حسین أسد : جلد۵ : صفحہ ۳۳۸تا ۳۴۲)
[12] اعتراض
:
ظہیر
صاحب کہتے ہیں کہ اس کی سند میں شریک ؒ
مدلس ہیں لہذا سند ضعیف ہے۔(ضرب حق)
الجواب
:
حافظ سیوطی ؒ (م۹۱۱ھ) نے
کہا : ’’كان قليل التدليس ‘‘ شریک ؒ
کم تدلیس کرتے تھے۔(اسماء
المدلسین : ص۵۸)، حافظ ابن العراقی ؒ (م۸۲۶ھ) اور حافظ ابن العجمی ؒ (م۸۴۱ھ) نے
کیا : ’’ ليس تدليسه بالكثير ‘‘ ان کی
تدلیس زیادہ نہیں ہے۔(المدلسین : ص ۵۸، التبيين لأسماء المدلسين ص ۳۳) اور
حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲ھ) نے کہا : ’’ كان
يتبرأ من التدليس
‘‘۔(طبقات
المدلسین : ص ۳۳) اور قلیل التدلیس خود غیر مقلدین کے نزیک قابل قبول ہے۔(انوار البدر : ص ۱۴۵، مقالات اثریہ : ص ۲۵۰) لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔
حضرت
بلالؓ اورحضرت سوید بن غفلہؒ کے لقاء کا
ثبوت :
حضرت سوید بن غفلہؒ ، نبی اکرم ﷺکے تقریباً
ہم عمر ہیں ، البتہ نبی اکرم ﷺسے ملاقات میں اختلاف ہے، ۱۰۰سال
سے زیادہ عمر ہوئی، ۸۲ ھ میں وفات پائی
،انتہائی زاہدانہ زندگی گزارنے کے باوجود قوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی ٹیک لگاکر یا
کپڑا باندھ کر (حبوہ قبوہ لگاکر) بیٹھے،نہیں دیکھے گئے ،وفات کے سال کنواری عورت سے نکاح کیا ، حضرت ابوبکر سے
ملاقات ثابت ہے، نیز کئی روایتوں میں حضرت بلالؓ سے لقاء کا صریح ثبوت موجود ہے،
مثلاً:
مصنف
ابن ابی شیبہ میں روایت ہے : حدثنا ابن نمير
عن الأعمش عن عمران عن سويد عن بلال قال: كان يسوي مناكبنا وأقدامنا في الصلاة۔ (مصنف
ابن ابی شیبہ :۳۵۳۴) اس اثر کو غیر مقلد عالم شیخ زکریا
غلام قادر پاکستانی نے صحیح کہا ہے۔ (ماصح من آثار الصحابہ فی الفقہ : ۱/۳۶۱)
اعتصام
للشاطبی کی تحقیق میں سلفی محقق شیخ سعد
بن عبد اللہ آل حمید نے’سوید بن غفلہ قال سمعت بلالا‘ کی
سند کو صحیح کہا ہے۔
وقال بلال: لا
أبالي أن أضحي بكبش أو بديك (5)۔ (وفی الحاشیۃ) (۵) : أخرجه عبد الرزاق (۸۱۵۶)،
وابن حزم في "المحلى" (۷/ ۳۵۸) من طريق سويد بن غفلة؛ سمعت بلالا ۔ ۔ ۔
، فذكره ولم يذكر قوله: "بكبش". وإسناده صحيح
اور اس
طحاوی والی روایت میں سوید ؒ نے سماع کی تصریح فرمائے ہے۔لہذا یہ روایت متصل اور
حسن ہے۔واللہ اعلم
[13] الفاظ
یہ ہیں :
قال النووي: وهذا المذهب
شاذ۔
وقال الشوكاني: وذهبت
الحنفية والهادوية والثوري وابن المبارك وأهل الكوفة إلى أن ألفاظ الإقامة ، مثل
الأذان عندهم مع زيادة قد قامت الصلاة مرتين، واستدلوا بما في رواية عبد الله بن
زيد عند الترمذي، وأبي داود، بلفظ: "كان أذان رسول الله صلى الله عليه وسلم
شفعاً شفعاً في الأذان والإقامة ، وروي معنى ذلك عن بلال.
وقد
أعلها العلماء۔
غير أن الشوكاني: دافع عنها
وأيدها بحديث أبي محذورة الوارد فيه "أن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمه
الأذان تسع عشرة كلمة والإقامة سبع عشرة كلمة" قال: وهو حديث صححه الترمذي
وغيره". فيكون ناسخا لحديث "أمر بلال أن يشفع الأذان ويوتر
الإقامة" لتأخره عن حديث بلال، لأن أبا محذورة من مسلمة الفتح، وبلالاً أمر
بإفراد الإقامة أول ما شرع الأذان۔
ثم قال: وإذا عرفت هذا
تبين لك أن أحاديث تثنية الإقامة صالحة للاحتجاج كما أسلفناه۔
وأحاديث إفراد الإقامة وإن
كانت أصح منها لكثرة طرقها وكونها في الصحيحين، ولكن أحاديث التثنية مشتملة على
الزيادة، فالمصير إليها لازم لا سيما مع تأخر تاريخ بعضها كما عرفناك۔ إهـ.
فقد تبين من هذا أن أحاديث
إفراد الإقامةأصح وأكثر وأن القائلين بها هم جماهير العلماء، وقد قيل للإمام أحمد
بن حنبل:
أليس حديث أبي محذورة بعد
حديث عبد الله بن زيد، لأن حديث أبي محذورة بعد فتح مكة، قال: أليس قد رجع رسول
الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة فأقر بلالاً على أذان عبد الله بن زيد.
قال الشوكاني: ولكن هذا
متوقف على نقل صحيح أن بلالاً أذن بعد رجوع النبي صلى الله عليه وسلم المدينة
وأفرد الإقامة، ومجرد قول أحمد بن حنبل لا يكفي، فإن ثبت ذلك، كان دليلاً لمذهب من
قال بجواز الكلّ ويتعين المصير إليهما؛ لأن فعل كل واحد من الأمرين عقب الآخر مشعر
بجواز الجميع لا بالنسخ۔
وأقول
لعل الأسلم في ذلك هو القول بجواز الكل ما دام أن الجميع قد ورد عن رسول الله صلى
الله عليه وسلم، وقد جعله ابن خزيمة وابن حبان من الاختلاف المباح.
وقال ابن عبد البر: ذهب
أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه وداود بن علي، ومحمد بن جرير الطبري إلى إجازة
القول بكل ما روى عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك وحملوه على الإباحة
والتخيير، قالوا: "كل ذلك جائز لأنه قد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم جميع
ذلك وعمل به أصحابه، فمن شاء قال: الله أكبر أربعا في أول الأذان، ومن شاء ثنى
الإقامة, ومن شاء أفرد، إلا قوله:"قد قامت الصلاة"فإن ذلك مرتان على كل
حال.إهـ.
وأشار ابن قيم الجوزي أيضا إلى أن هذا ونحوه من
الخلاف المباح الذي لا يعنف فيه من فعله , ولا من تركه۔
[14] الفاظ
یہ ہیں :
بيان جواز أن يأتي بلفظ
الإقامة كالأذان
س:
إننا نعيش في مؤسسة وكثير من العاملين فيها من الأتراك المسلمين جزاهم الله عنا
خيرا، هؤلاء الأتراك مسلمون بمعنى الكلمة يحضوننا على الصلاة، ويؤذنون ويقيمون
ويؤموننا في الصلاة، لكن المؤذن عندهم يقيم الصلاة كالأذان - أي إنه يأتي
بالإقامة كالأذان بالضبط - فهل هذا جائز أم لا؟ وفقكم الله
ج: لا حرج في ذلك؛
لأن الأذان جاء على نوعين: نوع بالتكبير في أوله أربع والشهادتين، الشهادة مرتين
مرتين، والتكبير في آخره مرتين، والحيعلة كل واحدة مرتين، وجاءت الإقامة على نحوه
في حديث أبي محذورة وجاء في حديث أنس في أذان بلال الإيتار في الإقامة، فمن أوتر
الإقامة فهو أفضل على حديث بلال، وإقامة بلال: الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله
إلا الله أشهد أن محمدا رسول الله حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة
قد قامت الصلاة الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله.
هذا هو الأفضل كما جاء في
أذان بلال وفيما رواه عبد الله بن زيد لما أري الأذان فمن أتى بالإقامة على
شبه الأذان فلا بأس؛ لأن هذا جاء في حديث أبي محذورة: علمه الإقامة كما
علمه الأذان عليه الصلاة والسلام فالأمر في هذا واسع من باب اختلاف التنوع،
والأذان كذلك تنوع لأنه جاء فيه كما تقدم، وجاء فيه إعادة الشهادتين مرة أخرى يأتي
بها بصوت خفي ليس بجهوري وليس برفيع جدا ثم يأتي برفع الصوت بذلك مرة أخرى
بالشهادتين أرفع من اللفظ الأول، وهذا يسمى ترجيعا۔
[15] الفاظ
یہ ہیں :
الترجيع في الأذان:
۱۱ - الترجيع هو أن يخفض
المؤذن صوته بالشهادتين مع إسماعه الحاضرين، ثم يعود فيرفع صوته بهما۔
وهو مكروه
تنزيها في الراجح عند الحنفية؛ لأن بلالا لم يكن يرجع في أذانه، ولأنه ليس في أذان
الملك النازل من السماء۔
وهو سنة عند المالكية وفي
الصحيح عند الشافعية؛ لوروده في حديث أبي محذورة، وهي الصفة التي علمها له النبي
صلى الله عليه وسلم، وعليها السلف والخلف۔
وقال
الحنابلة: إنه مباح ولا يكره الإتيان به لوروده في حديث أبي محذورة. وبهذا أيضا
قال بعض الحنفية والثوري وإسحاق ، وقال القاضي حسين من الشافعية: إنه ركن في الأذان۔
(الموسوعہ الفقہیہ
الکویتیہ : ۲/۳۶۰)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں