المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 12 : امام ابوحنیفہ کے سامنے حدیث بیان کی گئی کہ نبی کریم ﷺ نے بھول کر پانچ رکعتیں پڑھا دیں پھر پانچویں رکعت کے بعد بیٹھ کر سلام پھیرا اور دو سجدے کیئے ۔ اس پر ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر وہ یعنی نبی ﷺ چوتھی رکعت کے بعد نہیں بیٹھے تھے تو یہ نماز اس چیز کے برابر بھی نہیں اور زمین سے کوئی چیز اٹھا کر پھینکی۔
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ :
المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 12 :
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى السَّاجِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْقَطَّانُ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ عَاصِمٍ يَقُولُ قُلْتُ لأَبِي حَنِيفَةَ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صلى بهما خَمْسًا ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ السَّلامِ فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ إِنْ لَمْ يَكُنْ جَلَسَ فِي الرَّابِعَةِ فَمَا تَسْوَى هَذِهِ الصَّلاةُ هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى شَيْءٍ مِنَ الأَرْضِ فَأَخَذَهُ وَرَمَى بِهِ
محدث ابن حبان ، علی بن عاصم سے نقل کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے سامنے حدیث بیان کی گئی کہ نبی کریم ﷺ نے بھول کر پانچ رکعتیں پڑھا دیں پھر پانچویں رکعت کے بعد بیٹھ کر سلام پھیرا اور دو سجدے کیئے ۔ اس پر ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر وہ یعنی نبی ﷺ چوتھی رکعت کے بعد نہیں بیٹھے تھے تو یہ نماز اس چیز کے برابر بھی نہیں اور زمین سے کوئی چیز اٹھا کر پھینکی۔
(المجروحین لابن حبان ت زاید 3/66 )
جواب :
محدث ابن حبان کی نقل کردہ روایت سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض باطل ہے کیونکہ
1.سند میں موجود راوی علی بن عاصم متروک ہیں ۔ محدثین کی ان پر جروحات ملاحظہ ہوں۔
أبو حفص عمر بن شاهين : يجب التوقف فيه
أبو زرعة الرازي : ضعفه، ومرة: إنه تكلم بكلام سوء
أحمد بن شعيب النسائي : ضعيف، ومرة: متروك الحديث
الدارقطني : في سؤالات أبي عبد الرحمن السلمي، قال: كان يغلط ويثبت على غلطه
الذهبي : ضعفوه، ومرة: متكلم فيه
خالد الحذاء : كذاب فاحذروه
خلف بن سالم المخرمي : غلط في أحاديث
شعبة بن الحجاج : لا تكتبوا عنه
علي بن المديني : معروف في الحديث، وكان يغلط في الحديث، وروى أحاديث منكرة
عمرو بن علي الفلاس : فيه ضعف، وكان من أهل الصدق
محمد بن إسماعيل البخاري : ليس بالقوي عندهم، وقال مرة: يتكلمون فيه
يعقوب بن شيبة السدوسي : ضعيف متروك الحديث
راوی علی بن عاصم کے بارے میں محدث ابن حبان کی ذاتی رائے :
علي بن عاصم مولى قُرَيبة بنت محمد بن أبي بكر
وكان ممن يخطىء ويقيم على خطئه، فإذا تبين له لم يرجع، وكان شعبة يقول: أفادني علي بن عاصم عن خالد الحذاء أشياء، سألت خالدًا عنها فأنكرها، وكان أحمد بن حنبل رحمه الله سيء الرأي فيه.
محدث ابن حبان خود اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ غلطیاں کرتا تھا اور اس پر ڈٹا رہتا حتی کہ اس کو اس کی غلطیوں پر تنبیہ کی جاتی تو پھر بھی وہ غلطی تسلیم نہ کرتا ، بلکہ اسی غلطی پر قائم رہتا ۔
( كتاب المجروحين لابن حبان ت حمدي 2/89 )
اسی مقام پر محدث ابن حبان نے لکھا کہ محدث امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی رائے علی بن عاصم کے بارے میں بری تھی۔
جس راوی پر خود محدث ابن حبان نے جرح کی ہے (اور دیگر محدثین جنہوں نے علی بن عاصم کو متروک ، کذاب اور ضعیف کہا ہے )اسی راوی سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف جرح پیش کرنا محدث ابن حبان کے تعصب کا واضح ثبوت ہے ، کہ وہ تعصب میں کس قدر ڈوب چکے تھے۔
اللہ محدث ابن حبان کی اس عظیم غلطی سے در گزر فرمائے ۔
علی بن عاصم کے بارے میں غیر مقلدین کی رائے ملاحظہ ہو۔
1.غیر مقلد زبیر علی زئی :
علي بن عاصم ضعيف
انظر ضعيف سنن الترمذي : 1073 انوار الصحيفه، صفحه نمبر 115
2.غیر مقلد ناصر الدین البانی
علی بن عاصم : ضعیف
(ضعيف، ابن ماجة 1602 ، الإرواء: 765)
3۔ غیر مقلد عبد الرحمٰن فریوائی
سند میں علی بن عاصم بہت غلطی کرتے تھے اور اپنی غلطی پر اصرار بھی کرتے تھے۔
( سنن ترمذي ، مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1073 )
4 ، 5 ۔ غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی و غیر مقلد معلمی یمانی :
اس کی سند میں ”علی بن عاصم بن صھیب“ ہے ۔
یہ سخت ضعیف راوی ہیں ، بلکہ کئی محدثین نے ان پر کذاب ہونے کی جرح کی ہے۔
✿ امام يزيد بن هارون رحمه الله (المتوفى206)نے کہا:
”ما زلنا نعرفه بالكذب“
”ہم اسے جھوٹ کے ساتھ ہی جانتے رہے“ [سؤالات البرذعي لأبي زرعة، ت الأزهري: ص: 133 واسنادہ صحیح واخرجہ ایضا العقیلی فی الضعفاء :4/ 266 والخطیب فی تاریخ بغداد:11/ 456 من طریق عثمان بہ]
✿ خالد بن مهران الحذاء رحمه الله (المتوفى141)نے کہا:
”كذاب فاحذروه“
”یہ بہت بڑاجھوٹاشخص ہے اس سے بچ کررہو“ [الضعفاء للعقيلي، ت د مازن: 4/ 266 واسنادہ صحیح]
✿ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”وقال وهب بن بقية: سمعت يزيد بن زريع، قال: حدثنا علي، عن خالد ببضعة عشر حديثا، فسألنا خالدا عن حديث، فأنكره، ثم آخر فأنكره، ثم ثالث فأنكره، فأخبرناه، فقال: كذاب فاحذروه“
”بخاری ومسلم کے راوی یزیدبن زریع کہتے کہ علی بن عاصم نے ہم سے درجنوں احادیث خالد الحذاء سے بیان کی ، پھر ہم نے خالدالحذاء سے ان میں سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے اس سے انکار کیا ، پھر ہم نے ایک دوسری حدیث کے بارے میں پوچھا، اس سے بھی خالد الحذاء نے انکار کیا ، پھر ہم نے ایک تیسری حدیث کے بارے میں پوچھا اس سے بھی خالد الحذاء نے انکار کیا ۔اس کے بعد ہم نے خالد الحذاء کو یہ بات بتلادی تو خالد الحذاء نے کہا: یہ بہت بڑاجھوٹاشخص ہے اس سے بچ کررہو“ [التاريخ الكبير للبخاري: 6/ 290 واسنادہ صحیح واخرجہ ایضا العقیلی فی الضعفاء 4/ 267 من طریق محمد بن المنهال الضريربہ، واسنادہ صحیح]
یہ واقعہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ علی بن عاصم نے جھوٹی احادیث بیان کی ہیں اسی سبب کئی ایک محدثین نے انہیں کذاب کہا ہے۔
بعض محدثین نے ان کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ان کی کتاب میں دوسرے لوگ ان کے نام سے جھوٹی احادیث لکھ دیتے تھے جسے یہ بیان کردیتے ۔
اگراسے تسلیم کرلین تو بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ان کی طرف سے جھوٹی احادیث بیان ہوئی ہیں لہٰذا ان کی احادیث کی شمار میں نہیں ہیں ۔
✿ علامہ معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”علي بن عاصم لا يُعتدُّ بحديثه“
”علی بن عاصم کی حدیث کسی شمار میں نہیں ہے“ [آثار الشيخ العلامة عبد الرحمن بن يحيي المعلمي اليماني 16/ 44]
✿ امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
”أجمعوا على ضعفه يعني علي بن عاصم“
”محدثین کا ان کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے“ [المستدرك للحاكم مع تعليق الذهبي: 4/ 376]
( کفایت اللہ سنابلی یزیدی کا مضمون : حدیث خلافت تیس (30)سال ،تحقیقی جائزہ )
2۔ ابن حبان کے استاد امام زکریا ساجی ، احناف سے بغض رکھتے تھے ، احناف سے چڑتے تھے جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے لکھا ہے (الانتقاء ت ابو غدہ ص 287 )
لہذا جس سند میں احناف سے بغض رکھنے والے امام ساجی ہوں اور علی بن عاصم واسطی جیسے متروک راوی ، اس سند سے امام ابو حنیفہ پر محدث ابن حبان کا جرح کرنا باطل ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں