امام کے پیچھے قراءت
کرنے کی ممانعت ۔(قسط ۲)
(رسول ﷺ کے کلام
مبارک سے)
-
مولانا نذیر الدین قاسمی
جس طرح کلام پاک مع
تفسیر ائمہ سے،امام کے پیچھے قراءت کرنے
کی ممانعت ثابت ہوئی ہے،بالکل اسی
طرح رسول ﷺ کی احادیث سے بھی امام کے پیچھے قراءت کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ دلائل درج ذیل ہیں :
دلیل نمبر ۱ :
امام ابو
الحسین، مسلم بن الحجاج ؒ(م۲۶۱ھ)
فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
إسحاق بن إبراهيم أخبرنا جرير، عن سليمان التيمي، كل هؤلاء عن قتادة عن يونس بن
جبير، عن حطان بن عبد الله الرقاشي، قال: صليت مع أبي موسى الأشعري صلاة فلما كان
عند القعدة قال رجل من القوم: أقرت الصلاة بالبر والزكاة؟ قال فلما قضى أبو موسى
الصلاة وسلم انصرف فقال: أيكم القائل كلمة كذا وكذا؟ قال: فأرم القوم، ثم قال:
أيكم القائل كلمة كذا وكذا؟ فأرم القوم، فقال: لعلك يا حطان قلتها؟ قال: ما قلتها،
ولقد رهبت أن تبكعني بها فقال رجل من القوم: أنا قلتها، ولم أرد بها إلا الخير
فقال أبو موسى: أما تعلمون كيف تقولون في صلاتكم؟ إن رسول الله صلى الله عليه وسلم
خطبنا فبين لنا سنتنا وعلمنا صلاتنا. فقال: " إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم
ليؤمكم أحدكم، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا وإذ قال {غير المغضوب عليهم ولا
الضالين}، فقولوا: آمين۔۔۔۔۔
حضرت ابو موسی
اشعری ؓ ایک طویل روایت میں فرماتے ہیں
کہ رسول ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور سنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تعلیم فرمائی
اور نماز کا طریقہ بتلایا اور یہ فرمایا
کہ نماز پڑھنے سے پہلے اپنی صفوں کو درست
کرلو۔ پھر تم میں سے ایک تمہار امام بنے، جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور
جب وہ قراءت کرے، تو تم خاموش رہو، اور جب وہ غير المغضوب
عليهم ولا الضالين کہے تو تم
آمین کہو۔(صحیح مسلم : ج۱: ص ۳۰۴،حدیث
نمبر ۴۰۴، ت شیخ فوائد عبد الباقی )
چونکہ یہ
مسلم کی روایت ہے،لہذا سند پر کلام کرنے کی ضرورت ہی نہیں ،تمام کے تمام روات ثقہ ہیں،اور امام، حافظ سلیمان التیمیؒ(م۱۴۳ھ)
کا مختصر تعارف درج ذیل ہیں :
- امام شعبہ
ؒ(م۱۶۰ھ) نے کہا : ’’ ما رأيت أحدا أصدق من سليمان التيمى ‘‘۔
- امام سفیان ثوری ؒ (م۱۶۱ھ) نے کہا : ’’ حفاظ البصريين ثلاثة :
سليمان التيمى ، و عاصم الأحول ، و داود بن أبى هند . و كان عاصم أحفظهم ‘‘۔
- حافظ ابن
علیہؒ(م۱۹۳ھ) : ’’ سألت ابن علية عن حفاظ البصرة . فذكر منهم سليمان التيمى‘‘۔
- امام یحیی بن سعید القطانؒ(م۱۹۸ھ)
: ’’ كان يحيى بن سعيد يثني على التيمي إذا ذكره، وكان يقدمه على عاصم
الأحول ‘‘۔
- امام یحیی بن معینؒ(م۲۳۳ھ) نے
کہا : ’’أَيوب ويونُس بن عُبَيد،
وابن عَون، هؤلاء خيار النَّاس، أَو كما قال، وسُلَيمان التَّيمي أَيضًا كمثلهم ‘‘۔
- حافظ
عجلیؒ (م۲۶۱ھ) نے کہا : ’’ تابعي، ثقة، وكان من خيار أهل البصرة ‘‘۔
- امام ،حافظ ابو مسلم،ابراہیم بن عبد
اللہ الکجی ؒ(م۲۹۲ھ) نے کہا : ’’ كان من
عباد أهل البصرة، ثقة، حافظا ثابتا على السنة ‘‘۔
- حافظ ابن حبان ؒ (م۳۵۴ھ)
نے کہا : ’’ كان من عباد أهل البصرة و صالحيهم ، ثقة و إتقانا ، و حفظا ، و سنة ‘‘۔
- امام دارقطنیؒ(م۳۸۵ھ)
نے کہا : ’’رجلٌ ثقۃحافظ ‘‘۔
- حافظ
الحسین بن محمد،ابو علی الغسانی الجیانیؒ(م۴۹۸ھ) نے کہا : ’’ أحد
الفضلاء الأثبات ‘‘۔
- امام
الحسین بن ابراہیم،ابو عبد اللہ الجورقانی ؒ(م۵۴۳ھ) نے کہا : ’’ثقۃ،ثبت‘‘۔
- حافظ ابو
سعد سمعانیؒ (م۵۶۲ھ) نے کہا : ’’كان من عباد أهل البصرة وصالحيهم، ثقة وإتقانا وحفظا وسنة ‘‘۔
- حافظ سبط
ابن الجوزی ؒ (م۶۵۴ھ) نے کہا : ’’ اتَّفقوا
على صدقه وثقته وأمانته وزهادته ‘‘۔
- حافظ ابن
عبد الہادیؒ (م۷۴۴ھ) نے کہا : ’’ الإمامُ
الحافظ، شيخ الإسلام‘‘
- حافظ
ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے نزدیک بھی سلیمان التیمیؒ : ’’ الثقة،الثبت،الحافظ الإمام شيخ الإسلام ‘‘ ہیں۔
- حافظ ابن
حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) نے کہا :
’’ ثقة،ثبت، عابد، فاضل، أحد سادة
التابعين علمًا وعملًا ‘‘۔
- امام ابن
العماد الحنبلیؒ (م۱۰۸۹ھ) نے کہا : ’’ الحافظ
الإمام، أحد مشايخ الإسلام ‘‘۔
- شیخ محمد
امین الھرری المکی نے امام مسلم کے قول ’فقال
مسلم : تريد أحفظ من سليمان ‘ کی شرح میں کہا :
(فقال) له (مسلم) في الرد عليه أ (تريد) وتطلب (أحفظ) وأوثق (من
سليمان) فإنه من أوثق الناس فزيادته مقبولة يعني أن سليمان كامل الحفظ والضبط۔
- موجودہ دور کے سلفی عالم و محدث،شیخ ابو
اسحاق الحوینی نے کہا : ’’ وكان ثقة، ثبتًا، حافظاً، حجتاً، متقنًا من أثبت أهل البصرة ‘‘۔
(تہذیب التہذیب : ج۴: ص ۲۰۲،سوالات ابن طھمان لابن
معین : رقم ۲۴۳، معرفۃ الثقات
للعجلی :رقم ۶۱۳، اکمال تہذیب الکمال : ج۶: ص ۷۰-۷۲،الجامع في الجرح والتعديل :
ج۱: ص ۳۳۹،علل الدارقطنی : ج۷: ص ۲۵۴،الاباطیل للجورقانی : ج۱ :ص ۲: ص ۲۸۵،الانساب للسمعانی : ج۳ : ص ۱۲۴،شذرات
الذہب : ج۲: ص ۱۹۹،مرآۃ الزمان : ج۱۲: ص۱۱۶،طبقات علماء حدیث لابن عبد الہادی : ج ۱ : ص ۲۳۵، میزان الاعتدال
: ج۲: ص ۲۱۲، المستدرک للحاکم مع تلخیص للذہبی : ج ۱: ص ۳۴۳،وغیرہ،تذکرۃ الحفاظ
للذہبی : ج۱: ص ۱۱۳، تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غير
«التقريب»:ج۱ : ص ۴۲۶،الکوکب الوھاج للھرری : ج۷: ص ۱۳۰، نثل النبال : ج۲: ص
۱۱۵)
ان تمام ائمہ و علماء کے اقوال سے معلوم ہوا کہ حافظ سلیمان
التیمیؒ(م۱۴۳ھ) ثقہ،ثبت،امام،حافظ،حجت ، متقن، اوثق الناس
، كامل الحفظ اور كامل الضبط تھے۔
اور ثقہ،ثبت،امام،حافظ ، حجت،متقن، اوثق الناس ، كامل الحفظ اور كامل
الضبط کی زیادت مقبول ہے۔ جس کا اقرار خود
غیر مقلد عالم،شیخ زبیر علی زئی کرچکے ہیں
اور اس حدیث کا موصوف نے مکمل دفاع بھی
کیا ہے۔ (الاعتصام :ج۶۰: ش ۴۵: ۱۴تا ۲۰ نومبر ۲۰۰۸،۱۵ ذی قعدہ ۱۴۲۹ھ: ص
۱۸)
نوٹ :
علی زئی صاحب کے
مضمون کی [فوٹو اسٹیٹ،PHOTOSTAT] اس شمارےکے اخیر میں چسپاں ہے۔
خلاصہ یہ کہ حافظ سلیمان التیمیؒ(م۱۴۳ھ)
ثقہ،ثبت،امام،حافظ،حجت ، متقن، اوثق
الناس ، كامل الحفظ اور كامل الضبط تھے
اور ان کی زیادت مقبول ہے۔
نیز غیر مقلد عالم زبیر علی زئی صاحب
کہتے ہیں :
یاد رہے کہ ثقہ راویوں کی متصل روایات میں اصل عدمِ
شذوذ اور عدمِ علت ہے اِلا یہ کہ دلیلِ
قوی سے شذوذ یا معلول ہونا ثابت ہو جائے،ایک استاد کے شاگروں میں سے کوئی شاگر سند یا متن میں کوئی اضافہ بیان کرے جسے دوسرے بیان نہیں
کرتے،تو اسے زیادت کہا جاتا ہے۔
اگر زیادت بیان کرنے والا ثقہ ہو تو
قول ِ راجح میں یہ زیادت مقبول ہوتی ہے بشرطیکہ اس میں ثقہ راویوں یا اوثق کی ایسی
مخالفت نہ ہو، جس میں تطبیق ممکن نہ ہو۔(ہفت روزہ الاعتصام : ۲۱تا ۲۷ نومبر ۲۰۰۸، ۲۲ذی قاعدہ ۱۴۲۹ھ: ص ۲۲-۲۳)
نیز موصوف آگے کہتے ہیں کہ ثقہ کی زیادت کے بارے میں محدثین کرام اور
علمائے حق کے اور بھی بہت سے اقوال و
حوالے ہیں ،جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ثقہ راوی کا اضافہ (زیادت) اگر ثقہ راویوں اور
اوثق کے منافی نہ ہو (جس میں تطبیق نہ ہوسکے) تو یہ اضافہ (زیادت) مقبول ہے اور
خبیب صاحب کا ثقہ و اوثق راویوں کے عدم ذکر کو شذوذ کی دلیل بنا لینا
صحیح نہیں ہے۔(ہفت روزہ الاعتصام :۲۸
نومبر تا ۴ دسمبر ۲۰۰۸، ۲۹ذی قاعدہ ۱۴۲۹ھ: ص۱۲)
لہذا
سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ) کی روایت
’’ إذا قرأ فأنصتوا ‘‘
کے الفاظ کے ساتھ صحیح اور مقبول ہے،کیونکہ وہ
ثقہ کی زیادتی ہے، نہ کہ اوثق کی مخالفت،اور اس کو اوثق کی مخالفت کہنا غیر صحیح اور مردود ہے۔
اس
پرمزید کچھ ائمہ محدثین کے حوالے بھی ملاحظہ فرمائیے :
(۱) محدث
عینیؒ (م۸۵۵ھ)کہتے ہیں کہ ’’ أيضا هذه الزيادة من ثقة، وزيادة الثقة مقبولة
‘‘ یہ زیادتی
ثقہ کی ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔(شرح ابو داود للعینی
: ج۳: ص ۱۱۸)
(۲) حافظ
ماردینیؒ (م۷۵۰ھ) نے بھی کہا کہ ’’ لا نسلم
انه خالفهم بل زاد عليهم وزيادة الثقة مقبولة
‘‘ ہم تسلیم
نہیں کرتے کہ سلیمان التیمیؒ نےان( اصحاب قتادہ )کی مخالفت کی ہے، بلکہ انہوں نے
زیادتی بیان کی ہے اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔(الجوہر النقی : ج۲ : ص
۱۵۵)
(۳) حافظ
المغرب ،امام ابن عبد البر ؒ (م۴۶۳ھ)
نے کہا : ’’لم يخالفهما من هو أحفظ
منهما فوجب قبول زيادتهما‘‘ کہ التیمیؒ اور ابن عجلانؒ کی مخالفت،ان سےزیادہ
حافظہ والے نے نہیں کی،لہذا ان دونوں کی
زیادتی قبول کرنا واجب ہے۔(التمہید
لابن عبد البر : ج۱۱: ص ۳۴)
(۴) ثقہ،
ثبت،حافظ الحدیث،امام طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ) نے کہا : ’’لم يخالفهم فِي ذَلِك أحد هُوَ أتقى مِنْهُم فزيادتهم مَقْبُولَة
‘‘۔(مختصر اختلاف العلماء للطحاوی : ج۱: ص ۲۰۶)
(۵) حافظ
ابن المنذر ؒ (م۳۱۹ھ) نے کہا : ’’ وقد تكلم
متكلم في حديث أبي موسى الأشعري وقال: قوله: «فإذا قرأ فأنصتوا» ، إنما قاله
سليمان التيمي. قال أبو بكر: وإذا زاد الحافظ في الحديث حرفا وجب قبوله، وتكون
زيادة كحديث يتفرد به، وهذا مذهب كثير من أهل العلم في كثير من أبواب الشهادات،
وغير ذلك، ولما اختلف أسامة، وبلال في صلاة النبي صلى الله عليه وسلم في الكعبة،
فحكم الناس لبلال؛ لأنه يثبت أمرا نفاه أسامة، كانت كذلك رواية التيمي؛ لأنه أثبت
شيئا لم يذكره غيره ‘‘۔(الاوسط
الابن المنذر : ج۳: ص ۱۰۵)
(۶) حافظ
ابن تیمیہؒ (م۷۲۸ھ) نے کہا : ’’ منهم من ذكرها، وهي
زيادة في الثقة، لا تخالف المزيد، بل توافق معناه، ولهذا رواه مسلم في صحيحه
‘‘۔(الفتاوی الکبری لابن تیمیہ : ج۲: ص ۲۹۰)
لہذا معلوم ہوا کہ ائمہ کے نزدیک
بھی’’
إذا قرأ فأنصتوا ‘‘ کے الفاظ زیادتی ہے،مخالفت نہیں۔
کچھ
شبہات کا ازالہ :
شبہ
نمبر ۱ :
امام ابو حاتم الرازی ؒ (م۲۷۷ھ)
کہتے ہیں کہ سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ)،
ایوب سختیانیؒ،ابن عونؒ،یونسؒ،کے
مقام کو نہیں پاسکے۔(الجرح و التعدیل
لابن ابی حاتم)
الجواب
:
جب
امام الجرح و التعدیل ،یحیی بن معین ؒ (م۲۳۳ھ)،
سلیمان التیمیؒ(م۱۴۳ھ) کو ایوبؒ،ابن عونؒ، یونس کے ہم پلہ قرار دیا ہے۔اسی طرح حافظ عجلیؒ(م۲۶۱ھ)
نے سلیمانؒ کو اہل بصرہ میں سب
سے بہتر قرار دیا ہے۔جیسا کہ حوالہ گزرچکا۔اور ایوبؒ،ابن عونؒ، یونسؒ وغیرہ بھی
بصری ہیں۔اور غیر مقلدین حضرات کا اصول ہے کہ متقدمین کے مقابلے میں متاخرین کی
بات قابل مسموع بھی نہیں ہوتی ہے۔(نور العینین : ص ۱۳۷)، لہذا امام ابو حاتم ؒ کا قول ’’ لا يبلغ التيمي منزلة
أيوب ويونس وابن عون‘‘ محل نظر ہے۔
شبہ
نمبر ۲ :
مولانا
اثری صاحب کہتے ہیں کہ سلیمان التیمی
ؒ ثقہ تھے، احفظ اور ثبت نہ تھے۔(توضیح الکلام : ص۶۶۷)
الجواب
:
امام ،حافظ ابو مسلم،ابراہیم بن عبد اللہ الکجی ؒ(م۲۹۲ھ) نے کہا : سلیمان ؒ اہل بصرہ کے عبادت گزاروں میں سے تھے،
ثقہ،حافظ الحدیث،سنت پر ثابت تھے- حافظ ابن حبان ؒ (م۳۵۴ھ) نے کہا : ’’ كان من عباد أهل البصرة و صالحيهم ، ثقة و إتقانا ، و حفظا ، و سنة ‘‘
سلیمان ؒ اہل بصرہ کے عبادت گزار اور نیک لوگوں
میں سے تھے،ثقہ،متقن،حافظہ والے اور صاحب سنت تھے۔یہی بات حافظ ابو سعد
السمعانیؒ (م۵۶۲ھ) نے بھی کہی
ہے۔
حافظ الحسین بن محمد،ابو علی الغسانی الجیانیؒ(م۴۹۸ھ)
نے کہا : ’’ أحد الفضلاء الأثبات ‘‘۔ امام الحسین بن ابراہیم،ابو
عبد اللہ الجورقانی ؒ(م۵۴۳ھ) نے کہا :
’’ثقۃ،ثبت‘‘۔
حافظ سبط
ابن الجوزی ؒ (م۶۵۴ھ) نے کہا : ’’ اتَّفقوا
على صدقه وثقته وأمانته وزهادته ‘‘۔ حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)
نے نزدیک بھی سلیمان التیمیؒ : ’’الثقة،الثبت،الحافظ الإمام شيخ الإسلام ‘‘ ہیں۔حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) نے
کہا : ’’ ثقة،ثبت، عابد،
فاضل، أحد سادة
التابعين علمًا وعملًا ‘‘۔
شیخ محمد
امین الھرری المکی نے امام مسلم کے قول ’فقال
مسلم : تريد أحفظ من سليمان ‘ کی شرح میں کہا :
(فقال) له (مسلم) في الرد عليه أ (تريد) وتطلب (أحفظ) وأوثق (من
سليمان) فإنه من أوثق الناس فزيادته مقبولة يعني أن سليمان كامل الحفظ والضبط۔
موجودہ دور کے سلفی عالم و محدث،شیخ ابو اسحاق الحوینی نے کہا :
’’ وكان ثقة، ثبتًا، حافظاً، حجتاً، متقنًا من أثبت أهل البصرة ‘‘۔
نوٹ :
ان سب
اقوال کے حوالے گزرچکے۔
لہذا
اثری صاحب کا یہ کہنا کہ سلیمان ؒ ثبت نہ تھے،ائمہ کے اقوال سے بے خبری
کا نتیجہ ہے۔اور ’احفظ‘ کا جواب آگے آرہا ہے۔
شبہ نمبر ۳ :
اثری
صاحب کہتے ہیں کہ ہم حافظ ابو بکر
الاثرمؒ [1]کے
حوالہ سے ذکر آئے ہیں کہ سلیمان ؒ ثقہ ہیں، مگر قتادۃ ؒ کے حفاظ تلامذہ میں شمار
نہیں ہوتے تھے۔کسی راوی کا ثقہ اور حافظ ہونا اور بات ہے،مگر کسی مخصوص استاد سے روایت میں ثقہ اور حافظ ہونا اور بات ہے۔(توضیح
الکلام : ص ۶۶۷)
الجواب
:
یعنی اثری صاحب کا
یہ کہنا ہے کہ ائمہ نے قتادۃ کے تلامذہ
میں سلیمان التیمی ؒ (م۱۴۳ھ) کو حافظ نہیں مانا،حالانکہ امام مسلم ؒ(م۲۶۱ھ) نے سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ) کو قتادہ ؒ (م۱۱۸ھ)
کے تلامذہ میں حافظ بلکہ ’احفظ‘ مانا ہے۔
چنانچہ’’سلیمان
التیمی عن قتادۃ‘‘ کی اسی روایت
کے بارے میں جب امام مسلم ؒ سے ان کے شاگرد غالباً ثقہ،حافظ الحدیث ابوبکر
الجارودی النیساپوری ؒ (م۲۹۳ھ) نے
اعتراض کیا،تو امام مسلم ؒ(م۲۶۱ھ)
نے جواب دیا : کہ ’’تريد أحفظ من سليمان ‘‘ تو سلیمان التیمیؒ سے زیادہ
حافظہ والے کو چاہتا ہے ؟؟۔
ثابت ہوا کہ امام مسلم ؒ سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ) کو
قتادہ ؒ (م۱۱۸ھ) کے تلامذہ میں ’احفظ‘ مانتے ہیں۔
اور آگے امام مسلم ؒ نے کہا : ’’ إنما وضعت
ها هنا ما أجمعوا عليه ‘‘ یعنی میں جو احادیث بھی صحیح مسلم میں ذکر کی ہے،وہ تمام
کی تمام ان محدثین کی نزدیک صحیح ہے۔(صحیح
مسلم : ج۱: ص ۳۰۴) اور امام مسلم ؒ نے اس حدیث کو بھی اپنی ’’الصحیح ‘‘
میں ذکر کی ہے،جیسا کہ حوالہ گزرچکا۔
اور ائمہ حدیث نے صراحت کی ہے کہ امام مسلم کے قول ’’ ما أجمعوا
عليه ‘‘ سےمراد امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳ھ)،امام احمد بن
حنبلؒ(م۲۴۱ھ)،امام علی بن المدینیؒ(م۲۳۵ھ)،امام سعید بن منصور
الخراسانیؒ(م۲۲۷ھ)،امام عثمان بن ابی شیبہؒ(م۲۳۹ھ) وغیرہ مراد ہیں۔(مقدمہ ابن الصلاح، ہدی
الساری مقدمہ فتح الباری بحوالہ احسن
الکلام : ص ۲۵۹)[2]
معلوم ہوا کہ ان ائمہ کے نزدیک بھی سلیمان التیمیؒ ، قتادۃ ؒ کی روایت میں ثقہ،حافظ
ہیں اور یہ حدیث بھی ان کے نزدیک صحیح ہے۔
نیز یہ بھی ذہن میں رہے کہ ان ائمہ میں سے کسی نے بھی اس حدیث
پر کلام نہیں کیا۔واللہ اعلم
لہذا اثری صاحب کا یہ کہنا کہ’’ سلیمان ؒ ثقہ ہیں، مگر
قتادۃ ؒ کے حفاظ تلامذہ میں شمار نہیں ہوتے تھے‘‘ باطل و مردود ہے۔
نیز اثری صاحب یہ
کہنا ’’کسی راوی کا ثقہ اور حافظ ہونا
اور بات ہے،مگر کسی مخصوص استاد سے روایت
میں ثقہ اور حافظ ہونا اور بات ہے ‘‘ بھی باطل و مردود ہے۔
کیونکہ جب کسی کے بارے یہ ثابت ہوجائےکہ وہ ثقہ ہے،تو وہ اپنے تمام شیوخ میں مطلقاً ثقہ ہوگا، الا یہ کہ کسی
خاص شیخ کی روایت میں کوئی تضعیف ثابت ہوئی ہو۔
پس جب تک کسی خاص شیخ کی روایت میں کوئی تضعیف ثابت
نہیں ہوتی، وہ راوی اپنے تمام شیوخ میں مطلقاً ثقہ ہوگا،اور ایسی صورت
میں اس ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوگی۔
چونکہ متقدمین ائمہ محدثین کے نزدیک سلیمان
التیمیؒ دیگر شیوخ کے ساتھ ساتھ
قتادۃ ؒ کی روایت میں ثقہ اور احفظ ہیں،
جیسا کہ تفصیل گزچکی ، لہذا ان کی زیادتی بھی مقبول ہوگی۔[3]
پھر اثری صاحب کا آگے یہ کہنا کہ ’’انکار ان کےحفظ و ضبط
کا نہیں،قتادہ ؒ کی روایت میں حفاظ کی مخالفت پر ان کے تفرد کا انکار ہے‘‘ بھی بڑا عجیب ہے کیونکہ جب
ان کے نزدیک انکار ان کے (یعنی
سلیمان التیمیؒ کے) حفظ و ضبط کا نہیں ہے
یعنی جب اثری کے نزدیک سلیمان التیمیؒ کامل الحفظ و کامل الضبط ہیں ، تو ان کے نزدیک
- سلیمان ؒ کو ثبت،حجت
نہ ماننے کی وجہ کیا ہے ؟؟ جب کہ ائمہ بلکہ سلفی علماء نے بھی ان کو
ثقہ،ثبت،حجت،متقن قرار دیا ہے،جیسا کہ حوالے گزرچکے،
- ان کے تفرد کو قبول نہ کرنے کی وجہ کیا ہے، جب
کہ ان کے حفظ اور ضبط پر اثری صاحب بھی مطمئن ہیں اور ائمہ نے بھی ان کی زیادتی کو قبول کیا ہے ۔
نیز اثری صاحب کا
’’ إذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ کے الفاظ کو مخالفت کہنا بھی محل نظر بلکہ باطل و مردود ہے، یہ مخالفت نہیں زیادتی
ہے، جس کا اقرار غیر مقلدین بھی کرتے ہیں، جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔
لہذا اثری صاحب کے
تمام اعتراضات باطل و مردود ہیں۔[4]
شبہ نمبر ۴ : (امام اثرم ؒکی عبارت کا جواب )
ثقہ،حافظ
الحدیث، امام ابو بکر الاثرمؒ(م۲۷۳ھ) کا ایک طویل کلام ،اثری صاحب نے شرح
علل الترمذی لابن رجب سے نقل کیا ہے کہ :
سلمان التیمیؒ
ثقات میں سے ہیں،لیکن وہ قتادہ ؒ کی حدیث کو قائم نہیں رکھ سکے اوریہ بھی کہا ہے کہ سلیمان
التیمی قتادہ ؒ کے حفاظ تلامذہ میں سے نہ تھے اور ان کی کچھ ایسی احادیث بھی ذکر
کی ہیں،جن میں قتادہ ؒ کی روایت میں انہیں وہم ہوگیا ہے۔
ان میں سے ایک ،قتادہ عن یونس عن حطان عن ابی موسی کے طریق
سے ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے اور اس میں اس
نے یہ لفظ بھی کہے ہیں ’’ إذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ حالانکہ یہ الفاظ
قتادہ کے حفاظ شاگرد ذکر نہیں کرتے۔
انہی
احادیث میں سے یہ ہے کہ انہوں نے قتادہ ؒ عن انس ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی ﷺ نے وفات کے وقت وصیت فرمائی
کہ نماز اور غلاموں کا خیال رکھنا اور یہ خطاء فاحش ہے۔(کیونکہ قتادہ نے اس
حدیث کو
ابوالخلیل عن سفینۃ عن ام سلمۃ عن النبی ﷺ سے نقل کیا ہے)
اور انہی
میں وہ روایت بھی ہے جسے انہوں نے قتادہ
عن یونس بن جبیر عن رجل من اصحاب النبی کے
طریق سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر
ؓ،عمرؓ،عثمانؓ تھے۔پہاڑ ہلنے لگا۔حالانکہ قتادہ ؒ نے اسے انسؓ سے روایت کیا ہے ۔
اورانہی
میں سے،ان کی ایک وہ روایت ہے جو انہوں نے قتادہ ؒ سے بواسطہ ابو رافع بیان کی
ہے۔حالانکہ قتادہ ؒ نے ابو رافع سے
کچھ نہیں سنا۔
اور امام
اثرمؒ نے العلل میں ذکر کیا ہے کہ انھوں نے یہ تمام کلام امام احمد ؒ پر پیش
کیا،تو انھوں نے فرمایا : یہ اضطراب ہے اور اسی طرح مجھے یا دہے۔
اس کے
بعد اثری صاحب کہتے ہیں کہ لیجئے امام ابو
بکر ؒ،سلیمان ؒ کی صرف اسی روایت ’’
إذا قرأ فأنصتوا ‘‘ پر کلام نہیں کرتے بلکہ اس کے علاوہ بھی قتادہؒ سے ان کی روایات میں کلام کرتے ہیں۔ (توضیح
الکلام : ص ۶۶۷-۶۶۸)
اور
موصوف اثری صاحب نے امام ابو بکر الاثرم ؒ کا
یہ حوالہ جگہ جگہ نقل کرکے یہی بات کہی کہ قتادہ کے حفاظ تلامذہ میں سلیمان التیمیؒ کا شمار
نہیں ہوتا ۔
الجواب
:
امام
اثرم ؒ (م۲۷۳ھ) نے سب سے پہلے
قتادہ کی روایات میں التیمیؒ پر
مطلقاً کلام کیا ہے،جبکہ ان سے پہلےکسی امام نے بھی
مطلقاً یہ نہیں کہا کہ قتادہ کی
احادیث میں سلیمان التیمیؒ کو وہم ہوا ہے،وہ ان کی احادیث قائم نہیں رکھ سکے ، وہ ان کے حفاظ تلامذہ میں کا
شمار نہیں ہوتے۔[5]
بلکہ
ان سے پہلے کے ائمہ نے قتادہ کی روایات میں سلیمان التیمیؒ کو ثقہ مانا ہے،خاص
طور پراس روایت ’’ إذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ کو صحیح قرار دیا ہے،جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔
اور امام
ابو بکر الاثرم ؒ (م۲۷۳ھ) نے جن وجوہات
کی بنا پر قتادہ
کی روایات میں التیمیؒ پر مطلقاً کلام کیا ہے،وہ وجوہات ہی غیر صحیحہ اور مرجوحہ
ہیں، وجوہات مع جوابات ملاحظہ فرمائیے :
وجہ نمبر ۱:
امام
الاثرم ؒ(م۲۷۳ھ) نے کہا :
قتادہ عن یونس عن حطان عن ابی موسی کی طریق سے ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا امام
اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے اور اس میں انہوں نے یہ لفظ بھی کہے ہیں ’’
إذا قرأ فأنصتوا ‘‘ حالانکہ یہ الفاظ قتادہ کے حفاظ شاگرد ذکر نہیں کرتے۔
الجواب :
’’
إذا قرأ فأنصتوا ‘‘
کی زیادت نقل کرنے میں سلیمان التیمیؒ(م۱۴۳ھ)
منفرد نہیں ہیں،ان کی متابعت میں کئی راوی
موجود ہیں،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
وجہ
نمبر ۲ :
امام الاثرم ؒ(م۲۷۳ھ) نے کہا :
انہی احادیث میں سے یہ ہے کہ انہوں نے قتادہ ؒ عن انس ؓ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی ﷺ نے وفات کے وقت وصیت فرمائی
کہ نماز اور غلاموں کا خیال رکھنا اور یہ خطاء فاحش ہے۔(کیونکہ قتادہ نے اس
حدیث کو
ابوالخلیل عن سفینۃ عن ام سلمۃ عن النبی ﷺ سے نقل کیا ہے)
الجواب :
حضرت
انس بن مالکؓ سے یہ روایت نقل کرنے میں سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ)
منفرد نہیں ہیں، بلکہ ان کی طرح شعبہؒ(م۱۶۰ھ)،السری بن یحیی ؒ (م۱۶۷ھ)،
بشر بن منصور السلیمیؒ(م۱۸۰ھ)
وغیرہ نے بھی ثابت البنانیؒ عن انس ؓ کی طریق سے یہی روایت نقل کی ہے۔(اطراف
الغرائب للدارقطنی : ج۲: ص ۳۶،شعب الایمان : ج۱۳: ص ۴۰۴)
معلوم
ہوا کہ حدیث ’’الصلاة
وما ملكت أيمانكم ‘‘انس ؓ سے مروی ہے،اور اس کو انس ؓ سے نقل کرنے میں سلیمان التیمیؒ منفرد نہیں ہیں،لہذا
اس بات کا قوی احتمال ہے کہ ثابت البنانیؒ (م۱۲۹ھ) کے دیگر اصحاب کی طرح
قتادہ ؒ نے بھی ان سے یہ روایت سنی ہو، اور پھر اس کو ثابت ؒ سے تدلیس
کرتے ہوئے، سلیمان التیمیؒ کے سامنے،عن
انس سے ذکر کی ہو ۔
کیونکہ اسی حدیث کی ایک سند سنن الکبری للنسائی میں اس طرح آئی ہے کہ :
قال النسائی أخبرني
هلال بن العلاء،
قال: حدثنا الخطابي،
قال: حدثنا المعتمر، قال:
سمعت أبي،
عن قتادة،
عن صاحب له عن أنس،
نحوه۔(ج۶: ص ۳۸۷)
اس روایت میں قتادہ
ؒ کے استاذ اور انس ؓ کے شاگرد یعنی ’’ صاحب
له ‘‘ ثقہ،امام ثابت البنانی ؒ (م۱۲۹ھ) ہیں، کیونکہ ائمہ نے صراحت کی ہے کہ قتادۃ ؒ، ثابت ؒ کے شاگرد ہیں ۔(تہذیب الکمال : ج۴: ص ۳۴۶)
اور اس روایت کو انس ؓ سے ثابت ؒ نے ہی روایت کیا ہے۔جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔
لہذا یہاں ’’
صاحب له ‘‘ سے مراد ثابت
البنانی ؒ (م۱۲۹ھ) ہیں،اور حضرت انس
بن مالکؓ سے یہ روایت نقل
کرنے میں سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ) منفرد نہیں ہیں۔
نوٹ :
یہی
روایت کی ایک سند طبقات ابن سعد میں
ہے، چنانچہ امام ابن سعد ؒ (م۲۳۰ھ) کہتے ہیں کہ :
’’ أخبرنا وكيع بن الجراح
عن سفيان الثوري عن سليمان التيمي عن من سمع أنس بن مالك يقول: كانت عامة وصية
رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وهو يغرغر بنفسه الصلاة وما ملكت أيمانكم ‘‘۔(ج۲: ص
۱۹۵،طبع دار الکتب العلمیۃ ،بیروت)
اور یہاں
’’ عن من
سمع أنس بن مالك ‘‘ سے مراد
قتادہ ؒ (م۱۱۹ھ) نہیں ہیں،کیونکہ سنن کبری للنسائی کی روایت سے معلوم ہوا کہ قتادہ ؒ (م۱۱۹ھ)
نے یہ حدیث انس ؓ سے نہیں سنی، بلکہ انہوں
نے یہ روایت اپنے ساتھی اور استاذ ثابت
البنانی ؒ (م۱۲۹ھ) سے سنی ہے، جیسا کہ تفصیل گزرچکی ہے۔
نیز قتادہ ؒ
کی طرح، سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ)
بھی ثابت البنانی ؒ (م۱۲۹ھ) کے شاگرد ہیں۔(تہذیب الکمال : ج۱۲: ص ۶)
لہذا یہاں بھی ’’ عن من
سمع أنس بن مالك ‘‘ سے مراد ثابت البنانی ؒ (م۱۲۹ھ) ہی ہیں۔ واللہ
اعلم
یعنی
سلیمان التیمیؒ نے یہ روایت قتادہؒ (م۱۱۹ھ) اور ثابت البنانی ؒ (م۱۲۹ھ)،
دونوں سے نقل کی ہے۔
اس تفصیل سےیہ بھی معلوم ہوا کہ امام نسائی ؒ (م۳۰۳ھ)
کا اس حدیث کے تعلق سے یہ قول ’’سليمان
التيمي: لم يسمع هذا الحديث من أنس‘‘بالکل صحیح ہے۔
ایک اہم تنبیہ :
سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ)
بالجزم یہ ساری تفصیل نقل کررہے ہیں، جو کہ ان کے قوي الضبط اور احفظ ہونے کی دلیل
ہے،کیا یہ بات بھی اس حدیث کا بطریق
سلیمان عن قتادۃ عن ثابت عن انس سے ،صحیح
اور محفوظ ہونے کے لئے کافی
نہیں ہے ؟؟؟
خاص طور سے جب کہ یہ روایت سلیمان التیمی عن ثابت عن انس ؓ سے ثابت ہوچکی ہے۔
خلاصہ یہ کہ قتادہ سے یہ روایت نقل کرنے میں سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ) کو وہم نہیں ہوا۔
وجہ
نمبر ۳ :
امام
الاثرم ؒ(م۲۷۳ھ) نے کہا :
سلیمان نے قتادہ عن یونس بن جبیر
عن رجل من اصحاب النبی کے طریق سے بیان کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ احد پہاڑ پر چڑھے اور
آپ کے ساتھ ابوبکر ؓ،عمرؓ،عثمانؓ تھے،پہاڑ ہلنے لگا،حالانکہ قتادہ ؒ نے اسے انسؓ
سے روایت کیا ہے ۔
الجواب :
سعید بن ابی عروبہ ؒ (م۱۵۷ھ) کی روایت :
قال ابن ابی عاصم فی کتابہ السنۃ : حدثنا
عبد الأعلى بن حماد، ثنا يزيد بن زريع، عن سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن أنس بن
مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم صعد أحدا، واتبعه أبو بكر وعمر وعثمان، فرجف
بهم، فضربه رسول الله صلى الله عليه وسلم برجله، وقال: اثبت أحد إنما عليك نبي،
وصديق، وشهيدان۔
سلیمان التیمیؒ (م۱۴۳ھ) کی روایت :
قال ابن ابی عاصم فی کتابہ السنۃ : حدثنا
عاصم الأحول، ثنا معتمر، عن أبيه، عن قتادة، عن أبي غلاب، عن رجل من أصحاب النبي
صلى الله عليه وسلم، أن النبي صلى الله عليه وسلم، وأبا بكر، وعمر، وعثمان، كانوا
على حراء، فرجف بهم، أو تحرك بهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: اثبت، فإنما
عليك نبي، وصديق، وشهيدان۔(ج۲: ص ۶۲۱)
میں کہتا ہوں کہ دونوں سندوں میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ
سعید کی روایت میں قتادہ ؒ (م۱۱۹ھ)
نے عن کے صیغہ کے ساتھ انس ؓ سے روایت
کیا ہے،لہذا یہاں قتادہ ؒ کی تدلیس کا
احتمال ہے۔
جبکہ سلیمان التیمیؒ(م۱۴۳ھ) کی سند میں
قتادہ ؒ کے ثقہ ،شیخ ابو غلاب یونس بن
جبیر الباہلیؒ(م بعد ۹۰ھ) کا ذکر ہے، تو یہاں اس روایت میں قتادہ ؒ
نے ان سے تدلیس کی ہوگی اور رجل من اصحاب
النبیﷺ سے مراد ابو غلاب یونس بن جبیر الباہلیؒ(م بعد ۹۰ھ) کے شیخ حضرت
انس ؓ ہیں ۔(تاریخ الاسلام : ج۲ : ص ۱۱۹۰،مسند الحارث : ج۱: ص ۱۹۶)
لہذا دونوں سندوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔واللہ اعلم
نوٹ :
اس تفصیل
سے امام حاکمؒ (م۴۰۵ھ)، ثقہ،حافظ
الحدیث،امام ابو عمرو الدانیؒ(م۴۴۴ھ)
کی رائے کی تائید ہوتی ہے کہ قتادہ ؒ (م۱۱۹ھ) اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی
روایت کرتے تھے۔(معرفۃ
علوم الحدیث للحاکم : ص
۱۰۳، رسالۃ فی رسوم الحدیث او جزء فی بیان
علم الحدیث للدانی :۱۱۷،طبع الدار الماکیۃ)
وجہ
نمبر۴:
امام
الاثرم ؒ(م۲۷۳ھ) نے کہا :
اورانہی(اوہام) میں سے ان کی ایک
وہ روایت ہے جو انہوں نے قتادہ ؒ سے روایت
کی کہ ابو رافع نے ان سے بیان کی ہے۔حالانکہ قتادہ ؒ نے ابو رافع سے کچھ نہیں سنا۔
الجواب :
اس کا
جواب تو حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵ھ) نے آگے نقل کردیا کہ یہ روایت بخاری میں
ہے۔(شرح علل الترمذی لابن رجب :ج۲: ص ۷۹۰) اور بخاری میں یہ روایت حدیث نمبر ۷۵۵۶ پر موجود ہے۔
نیز خود اثری صاحب نے بھی اس کا جواب حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ)
سے نقل کیا ہے کہ عدم سماع کا یہ (ابو
داود ؒ کا ) قول کسی خاص روایت کے بارے میں ہے،ورنہ بخاری میں سماع کی تصریح ہے۔(توضیح
الکلام : ص ۶۶۶)
یعنی ائمہ محدثین نے سلیمان عن قتادہ
کی اس روایت کو جس میں ابو رافع سے سماع کی تصریح موجود ہے، دیگر اصحاب کی روایت پر ترجیح دی ہے۔
لہذا یہ روایت
بھی سلیمان التیمیؒ کے وہم پر دلالت نہیں
کرتی ۔
خلاصہ کلام :
اس پوری
تفصیل سے معلوم ہوا کہ ثقہ،حافظ الحدیث،امام ابو بکر الاثرمؒ(م۲۷۳ھ) نے جن وجوہات
کی بنا پر قتادہ
کی روایات میں التیمیؒ پر مطلقاً کلام کیا ہے،وہ وجوہات ہی غیر صحیحہ اور مرجوحہ
ہیں،جیسا کہ تفصیل گزرچکی ۔
لہذا اثرم ؒ (م۲۷۳ھ)
کا قول ’’
كان لا يقوم بحديث قتادة ولم يكن التيمي من الحفاظ، من أصحاب قتادة ‘‘ غیر
صحیح ،مرجوح اور ناقابل قبول ہے۔
صحیح اور ارجح قول
یہی ہے کہ سلیمان التیمیؒ قتادہ ؒ کی
روایت میں بھی احفظ ہیں،جیسا کہ امام مسلم ؒ نے کہا ہے، اور امام بخاری ؒ نے بھی
التیمی عن قتادہ کی منفرد روایت کو اپنے کتاب الجامع الصحیح میں نقل کرکے صحیح قرار دیاہے،حافظ ابن حجر
عسقلانی ؒ نے بھی ان کی منفرد روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے۔جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔
شبہ نمبر ۵ : (کیا
امام احمدؒ نے اس روایت کو مضطرب کہا ؟)
اثری
صاحب کے نقل کردہ عبارت میں ہے کہ امام اثرم نے یہ ساری تفصیل امام احمد ؒ کے
سامنے پیش کیا تو امام احمد ؒ نے کہا کہ
یہ اضطراب ہے اور مجھے اسی طرح یہ یاد ہے۔پھر آگے لکھتے ہیں کہ واضح ہوجاتا ہے امام احمد ؒ بھی ’’ إذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ کی حدیث کو مضطرب قرار دیتے ہیں۔(توضیح :
ص ۶۶۶)
الجواب
:
پہلے حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵ھ) کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائے :
قال
أبو بكر الأثرم في كتاب الناسخ والمنسوخ: كان التيمي من الثقات، ولكن كان لا يقوم
بحديث قتادة.
وقال
أيضاً: لم يكن التيمي من الحفاظ، من أصحاب قتادة.
وذكر
له أحاديث وهم فيها عن قتادة.
منها
حديثه عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن حطان، عن أبي موسى عن النبي ـ صلى الله عليه
وسلم ـ "إنما جعل الإمام ليؤتم به" قال فيه: "وإذا قرأ
فانصتوا"
ولم
يذكر هذه اللفظة أحد من أصحاب قتادة (الحفاظ) .
ومنها:
إنه روى عن قتادة، عن أنس، عن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ أوصى عند موته بالصلاة وما ملكت أيمانكم۔
وإنما
رواه قتادة عن أبي الخليل عن سفينة عن النبي ـ صلى الله عليه وسلم ۔
قال:
وهذا خطأ فاحش.
ومنها
أنه روى عن قتادة عن يونس بن جبير، عن رجل من أصحاب النبي ـ صلى الله عليه وسلم ـ
"أنه ـ صلى الله عليه وسلم ـ صعد أحداً ومعه أبو بكر وعمر وعثمان فاهتز الجبل
... الحديث".
وإنما
رواه عن قتادة عن أنس.
ومنها
أنه روى عن قتادة "أن أبا رافع حدثه". ولم يسمع قتادة من أبي رافع
شيئاً.
وقد
ذكر الأثرم في العلل أنه عرض هذا الكلام كله على أحمد، قال: فقال أحمد: هذا
اضطراب، هكذا حفظت۔(شرح علل الترمذی
لابن رجب : ج۲: ص ۷۸۸-۷۹۰)
اس عبارت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ هذا اضطراب ‘‘ سے ’’ إذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ کی خاص زیادتی مراد نہیں
ہے،بلکہ اس سے اثرم ؒ کی ذکر دہ روایات میں التیمی ؒ کا تفرد مراد ہے کہ ان کا یہ تفرد باعث اضطراب معلوم ہوتا ہے۔
لیکن آگے امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک
ان کی یہ روایت اسی طرح ’’ إذا قرأ فأنصتوا
‘‘ کی زیادتی کے ساتھ) محفوظ ہے،یعنی امام احمد ؒ ان روایات میں سلیمان التیمیؒ کے تفرد کے باوجود اپنے نزدیک اس زیادتی ’’ إذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ کو
محفوظ مانا ہے۔
اور ’’ هكذا حفظت ‘‘ کا
جملہ بھی اختلافِ روایت کے وقت راوی کا
اپنے نزدیک اپنے بیان کردہ الفاظ کے محفوظ ہونے پر دلالت کرتا ہے،جیسا کہ
محدثین کے منہج سے واضح ہوتا ہے۔ دیکھئے التاریخ الکبیر للبخاری : ج۶: ص۱، مسند
الشافعی ترتیب سنجر : ج۲: ص ۲۴۱،مخطوطہ الخطب والمواعظ لابی عبید : ص ۲۰۸، وغیرہ
نوٹ
:
سوالات ابو طالب میں موجود ایک دوسری روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام احمد ؒ کے نزدیک
یہ روایت ’’إذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ کی
زیادتی کے ساتھ محفوظ تھی، جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے۔
لہذا امام احمدؒ نے اس زیادتی ’’ إذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ کو
مضطرب نہیں کہا،بلکہ ان کےنزدیک یہ زیادتی محفوظ ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ :
- امام الاثرم ؒ (م۲۷۳ھ) نے ان سے
پوچھا کہ:
قلت
لأحمد بن حنبل من يقول عن النبي صلى الله عليه وسلم من وجه صحيح إذا قرأ الإمام
فأنصتوا فقال حديث ابن عجلان الذي يرويه أبو خالد والحديث الذي رواه جرير عن
التيمي۔
صحیح سند سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث میں ’’ إذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ کس نے کہا ؟ تو امام احمد ؒ نے کہا :
کہ ابو خالد الاحمر عن ابن عجلان اور جریر
عن التیمی نےکہا ہے۔(مختصر اختلاف العلماء للطحاوی : ج۱: ص ۲۰۶،التمہید لابن عبد
البر : ج۱۱: ص ۳۴ وغیرہ)
- اسی
طرح سوالات ابی طالب میں بھی
امام احمد ؒ (م۲۴۱ھ)سے کہا گیا :
يقولون: أخطأ
التيمي قال: من قال هذا فقد بهته۔
لوگوں کا کہنا ہے
کہ ابو موسی کی روایت میں سلیمان التیمی ؒ
نے غلطی کی ہے،تو امام احمد ؒ نے کہا کہ جو یہ کہتے ہیں کہ سلیمان التیمی نے خطاء کی،تو
انہوں نے سلیمان التیمی پر بہتان باندھا ہے۔(شرح ابن ماجہ
للمغلطائی : ص ۱۴۲۹)
- ماردینیؒ (م۷۵۰ھ) نے بھی امام
احمد ؒ کا تقریباً یہی کلام علل الخلال سے نقل کیا ہے۔(الجوھر النقی : ج۲: ص
۱۵۵)
پھر ان سب کے علاوہ ،ائمہ محدثین نے بھی امام احمد ؒ (م۲۴۱ھ) کو اس کے مصححین میں شمار کیا ہے۔چنانچہ
۱- امام مسلم ؒ(م۲۴۱ھ)۔(دیکھئے ص
: ۸)
۲- ثقہ،ثبت،حافظ
الحدیث،امام ابو جعفر الطحاوی ؒ (م۳۲۱ھ) کہتے ہیں کہ ’’فقد صحّح أَحْمد هذَيْن الْحَدِيثين‘‘۔ (مختصر اختلاف العلماء للطحاوی : ج۱: ص ۲۰۶)
۳- ابن بطال ؒ (م۴۴۹ھ) کہتے ہیں کہ
’’وقد
صححه أحمد بن حنبل ‘‘۔(شرح بخاری لابن بطال : ج۲: ص ۳۷۰)
۴- حافظ
المغرب،امام ابن عبد البر ؒ (م۴۶۳ھ) نے کہا : ’’ وقد صحح هذين الحديثين أحمد بن حنبل‘‘۔(التمہید لابن عبد البر : ج۱۱: ص ۳۴ وغیرہ)
۵- امام
ابو عبد اللہ القرطبیؒ (م۶۷۱ھ) نے کہا : ’’ وَقَدْ
صَحَّحَهَا الْإِمَامُ أَحْمَدُ بْنُ حنبل وابن المنذر‘‘۔(تفسیر القرطبی : ج۱: ص ۱۲۱)
۶- حافظ
ابن تیمیہؒ (م۷۲۸ھ) نے کہا : ’’صححه
أحمد وإسحاق ومسلم بن الحجاج وغيرهم‘‘۔(مجموع
الفتاوی :ج۲۲: ص ۳۴۰ )
۷- حافظ ابن عبد الہادیؒ (م۷۴۴ھ) نے
کہا : ’’صَححهُ
الإِمَام أَحْمد ‘‘۔(المحرر فی الحدیث : ص ۱۸۹)
۸- حافظ ماردینیؒ (م۷۵۰ھ) ۔(الجوھر
النقی : ج۲: ص ۱۵۵)
۹- حافظ
مغلطائی ؒ (م۷۶۲ھ) نے کہا : ’’ وصححه
أيضا أحمد بن حنبل فيما حكاه
الأثرم ‘‘۔(شرح ابن ماجہ
للمغلطائی : ص۱۴۲۹)
۱۰- امام محمد بن عبد اللہ الزرکشی المصریؒ (م۷۷۲ھ)
نے کہا : ’’ صححه أحمد ومسلم ‘‘۔(شرح الزرکشی علی الخرقی : ج۱: ص۶۰۲)
۱۱- حافظ ابن الملقنؒ (م۸۰۴ھ) نے کہا :
’’ صححه أيضا: أحمد وابن حزم ‘‘۔(البدر المنیر:
ج۴: ص ۴۸۲)
۱۲- محدث انور شاہ کشمیری ؒ (م۱۳۵۱ھ) نے
کہا : ’’ قد
صححه أحمد بن حنبل وأبو بكر بن أثرم تلميذ أحمد وابن جرير في تفسيره، وأبو عمر
وابن حزم الأندلسي وزكي الدين المنذري والحافظ ابن حجر العسقلاني‘‘۔(العرف
الشذی : ج۱: ص ۳۱۳)
لہذا
امام احمد ؒ (م۲۴۱ھ) نے اس
حدیث کی زیادت کو صحیح قرار دیا ہے، اور ائمہ محدثین کے نزدیک بھی یہی راجح ہے اور شرح علل الترمذی کی عبارت سے بھی امام صاحب ؒ کا اس زیادت کی تصحیح
کی طرف رجحان ثابت ہوتا ہے۔واللہ اعلم
متابعات
پر بحث :
اہل حدیثوں کے محدث العصر ، زبیر علی زئی صاحب
کہتے ہیں کہ سلیمان بن طرخان التیمیؒ
(تابعی) کی بیان کردہ حدیث ’’
إذا قرأ فأنصتوا ‘‘ متابعات اور شاہد کے بغیر کی بھی جمہور کے نزدیک صحیح
ہے۔( ہفت روزہ الاعتصام : ۲۱تا ۲۷
نومبر ۲۰۰۸، ۲۲ذی قاعدہ ۱۴۲۹ھ: ص ۲۲)
امام
قتادہ ؒ (م۱۱۹ھ) سے ’’ إذا قرأ فأنصتوا ‘‘
کی زیادت نقل کرنے میں سلیمان التیمیؒ(م۱۴۳ھ)
منفرد بھی نہیں ہے۔ان کے متابع بھی موجود ہیں۔
متابع
نمبر ’’۱‘‘ اور ’’۲‘‘ :
چنانچہ امام محمد بن ھارون الرویانیؒ (م۳۰۷ھ)
فرماتے ہیں کہ :
نا
أبو عبد الله القطعي، نا سالم بن نوح العطار، نا عمر بن عامر وسعيد بن أبي عروبة،
عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن حطان بن عبد الله الرقاشي قال: صلى بنا أبو موسى
الأشعري فقال: عن النبي صلى الله عليه وسلم: إذا قرأ الإمام فأنصتوا۔(مسند
الرویانی : ج۱:ص ۳۷۰)
سند
کی تحقیق :
(۱) امام محمد بن ہارون الرویانیؒ(م۳۰۷ھ) مشہور ثقہ،امام
اور حافظ الحدیث ہیں۔(سیر : ج۱۴: ص ۵۰۷)
(۲) ابو عبد اللہ محمد بن یحیی بن ابی حزم القطعیؒ(م۲۵۳ھ)مسلم
کے ثقہ راوی ہیں۔(تحریر تقریب التہذیب : ۶۳۸۲)
(۳) سالم بن نوح عطار ؒ(م بعد ۲۰۰ھ)مسلم
کے راوی صدوق،حسن الحدیث ہیں۔(تحریر تقریب التہذیب : ۲۱۸۵)
غیر
مقلد زبیر علی زئی صاحب نے بھی کہا کہ
سالم کو جمہور نے ثقہ صدوق قرار دیا ہے۔(الاعتصام : ۲۱تا ۲۷ نومبر ۲۰۰۸،۲۲ذی قاعدہ ۱۴۲۹ھ: ص ۲۰)
لہذا سالم بن نوح ؒ صدوق اور حسن الحدیث ہیں۔[6]
(۴) عمر
بن عامر بصریؒ(م۱۳۵ھ)مسلم کے راوی اور صدوق و حسن الحدیث ہیں۔(تحریر
تقریب التہذیب : ۴۹۲۵) اور ان کے
متابع سعید بن ابی عروبہ ؒ (م۱۵۷ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ،حافظ الحدیث
اور قتادہ کی روایت میں
اثبت الناس ہیں۔(تقریب : رقم ۲۳۶۵)
(۵) قتادہؒ(م۱۱۹ھ)
(۶) یونس بن جبیر ؒ (م بعد ۹۰ھ)
(۷) حطان بن عبد اللہ الرقاشی ؒ (م بعد ۷۰ھ)
صحیحین کے ثقہ روات میں سے ہیں۔
(۸) ابو موسی الاشعریؓ (م۵۰ھ) مشہور
صحابی رسول ﷺ ہیں۔
لہذا یہ سند حسن ہے۔
اس
روایت میں سلیمان التیمیؒ(م۱۴۳ھ)
کی طرح ۲،۲ راویوں عمر بن عامر البصریؒ(م۱۳۵ھ) اور سعید بن ابی عروبہ ؒ (م۱۵۷ھ)
نے قتادہ ؒ (م۱۱۹ھ) سے’’
إذا قرأ فأنصتوا ‘‘ کی زیادت نقل کی ہے۔
متابع
نمبر ۳ :
حافظ ابو عوانہ الاسفرایینیؒ(م۳۱۶ھ)
نے کہا :
حدثنا
سهل بن بحر الجنديسابوري قال: ثنا عبد الله بن رشيد قال: ثنا أبو عبيدة، عن قتادة،
عن يونس بن جبير، عن حطان بن عبد الله الرقاشي، عن أبي موسى الأشعري قال: قال رسول
الله صلى الله عليه وسلم: إذا قرأ الإمام
فأنصتوا، وإذا قال: {غير المغضوب عليهم ولا الضالين} فقولوا آمين۔(صحیح
ابی عوانہ : حدیث نمبر ۱۶۹۸،طبع دار
المعرفۃ،بیروت، و نسخۃ الجامعۃ الاسلامیۃ : ج۴: ص ۴۱۵)
سند
کی تحقیق :
(۱) حافظ ابو عوانہ الاسفرایینیؒ(م۳۱۶ھ) ثقہ،حافظ
الحدیث ہیں۔(ارشاد القاصی و الدانی : ص
۶۹۶)
(۲) سہل بن
بحر الجندیسابوریؒ بھی صدوق ہیں۔
حافظ
ابن حبانؒ(م۳۵۴ھ)،حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ(م۸۷۹ھ) نے ان کو ثقات میں
شمار کیا ہے۔(کتاب الثقات لابن حبان : ج۸: ص ۲۹۳،کتاب الثقات للقاسم : ج۵: ص
۱۵۱)،امام ابن عدی ؒ (م۳۶۵ھ) کے نزدیک بھی وہ صدوق ہیں۔(الکامل :
ج۱ :ص ۷۹،ج۶: ص ۱۴۴)،
حافظ
بزارؒ،حافظ الساجیؒ،امام ابو عوانہ
الاسفرایینیؒ وغیرہ کئی ائمہ نے ان سے روایت لی ہے۔(مسند البزار:ج۱۷: ص
۳۳،المعجم الاوسط : ج۷: ص ۱۶۹) اور
حافظ ہیثمیؒ (م۸۰۷ھ) نے بھی ان کو
ثقہ قرار دیا ہے۔(مجمع الزوائد : حدیث نمبر ۷۹۱۶)
لہذا وہ صدوق ہیں۔
نوٹ
:
اس
بات کا احتمال ہے کہ سہل بن بحر الجندیسابوریؒ اور سری بن سہل بن
علقمہ الجندیسابوریؒ(م۲۸۹ھ)
دونوں ایک ہی راوی ہوں۔(ارشاد القاصی
والدانی : ص ۳۱۷)،
لیکن
اس سے الجندیسابوریؒ کی ثقاہت پر کوئی فرق نہیں پڑھتا۔واللہ اعلم
(۳) ابو عبد اللہ ،عبد اللہ بن رشید الجندیسابوریؒ
ثقہ ہیں۔
امام
جعفر بن محمد بن الحسن بن عبد العزیز
المصریؒ(م۳۲۹ھ) نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔(صحیح ابی عوانہ : حدیث نمبر
۷۰۴۴،طبع دار
المعرفۃ،بیروت، و نسخۃ الجامعۃ الاسلامیۃ : ج۱۵: ص ۱۳۳)، حافظ ابن حبان ؒ (۳۵۴ھ) نے ان کو
ثقات میں شمار کرکے مستقیم الحدیث قرار
دیا ہے۔( الثقات لابن حبان : ج۸: ص ۳۴۳)، حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ(م۸۷۹ھ)
نے بھی ان کو ثقات میں شمار کرکے مستقیم
الحدیث قرار دیا ہے۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۶: ص ۱۷)،امام ابو سعد
السمعانیؒ(م۵۶۲ھ) نے بھی ان کو مستقیم الحدیث قرار دیا ہے۔ (الانساب
للسمعانی : ج۳ : ص ۳۴۹)،امام
ابن عدی ؒ (م۳۶۵ھ) کے نزدیک بھی یہ راوی
صدوق ہیں۔ (الکامل : ج۸: ص ۱۷۳، ج۱ :ص ۷۹)
نوٹ
:
حافظ
عراقی ؒ (م۸۰۶ھ) نے امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کی جرح کا رد کیا ہے۔(ذیل
میزان الاعتدال : ص ۱۳۳)
لہذا ابو عبد اللہ ،عبد اللہ بن رشید الجندیسابوریؒ
ثقہ ہیں۔
(۴) مجاعۃ بن الزبیر ،ابو عبیدۃ الازدیؒ بھی
صدوق ہیں۔
امام
شعبہ ؒ نے ان سے روایت لی اور ان کی
تعریف کی ہے،حافظ ذہبیؒ نے ان کو ’’ أَحَدُ العُلَمَاءِ العَامِلِيْنَ‘‘
کہا۔ (سیر: ج۷: ص ۱۹۶)
امام احمد ؒ
نے کہا کہ ان میں فی نفسہ کوئی حرج نہیں ہے، حافظ ابن عدی ؒ نے کہا کہ مجاعۃ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی
احادیث قابل برداشت ہے، ان کی احادیث لکھی جائےگی۔( التذييل علي كتب الجرح والتعديل
: ص ۲۵۹)
امام
ابو عوانہ الاسفرایینیؒ اور امام منذری
نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔(صحیح
ابی عوانہ : حدیث نمبر ۷۰۴۴، طبع دار
المعرفۃ، الترغیب والترھیب
للمنذری : حدیث نمبر ۱۹۸۵،باب : الترغيب في الصبرِ
سيّما لمنِ ابْتُلِيَ في نفسه أو مالِه)
حافظ
ابن حبان ؒ ان کی توثیق مفسر کرتے ہیں کہ
’’مستقيم الحديث عن الثقات
‘‘۔( الثقات
: ج۷: ص ۵۱۷) یہی بات امام ابو
سعد السمعانیؒ (۵۶۲ھ) نے بھی کہی ہے۔ ( الانساب
للسمعانی : ج۳: ص ۳۴۹)،
حافظ ابن شاہین ؒ (۳۸۵ھ) نے بھی ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ (تاریخ
جرجان للسہمی : ص ۵۵۱)
شیخ
الالبانی ؒ نے بھی ایک جگہ ان کو حسن الحدیث قرار دیا ہے۔(سلسلۃ الاحادیث
الصحیحۃ : ج۱: ص ۶۷۹)، شیخ عامر حسن صبری نے ان کو صدوق ،صالح اور محدث
کہا ہے۔(سلسلۃ الاجزاء و الکتب
الاحادیث نمبر ۲۰: ص ۶،طبع دار البشائر الاسلامیہ )
لہذا مجاعۃ بن الزبیر ،ابو عبیدۃ
الازدیؒ صدوق اور حسن الحدیث ہیں، واللہ
اعلم[7]
(۵) قتادہؒ(م۱۱۹ھ)
(۶) یونس بن جبیر ؒ (م بعد ۹۰ھ)
(۷) حطان بن عبد اللہ الرقاشی ؒ (م بعد ۷۰ھ)
صحیحین کے ثقہ روات میں سے ہیں۔
(۸) ابو موسی الاشعریؓ (م۵۰ھ) مشہور
صحابی رسول ﷺ ہیں۔
لہذا
یہ سند حسن ہے۔ اور زبیر علی زئی صاحب نے بھی اس سند کو حسن لذاتہ قرار دیا ہے۔ (الاعتصام : ۲۱تا ۲۷، نومبر ۲۰۰۸،۲۲ذی قاعدہ ۱۴۲۹ھ: ص ۲۱)
متابع
نمبر ۴ :
إمام متفنّن متبحِّر فِي العلم
،مشہور مفسر
ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابوبکر بن فرح الخزرجی القرطبیؒ (م۶۷۱ھ)
فرماتے ہیں کہ :
’’ وقد روي عن
عبد الله بن عامر عن قتادة متابعة التيمي، ولكن ليس هو بالقوي
‘‘
التیمی ؒ کی طرح
’’ إذا قرأ الإمام فأنصتوا
‘‘ کی زیادتی عبد اللہ بن عامر ؒ عن
قتادۃ ؒ بھی مروی ہے،لیکن عبداللہ بن عامر
ؒ قوی نہیں ہیں۔(تفسیر القرطبی : ج۱: ص ۱۲۱)
وضاحت
:
عبداللہ
بن عامر الاسلمی ؒ (م۱۵۱ھ) اگرچہ ضعیف ہیں ، البتہ متابعات میں قابل قبول ہیں،چنانچہ امام ابو حاتم ؒ کہتے ہیں کہ وہ متروک نہیں
ہیں،امام ابن عد ی ؒ کہتے ہیں کہ وہ عزیز الحدیث ہیں اور ان کی بعض روایات کی متابعات نہیں کی گئی
اور وہ ان لوگوں میں سے ہیں ، جس کی احادیث لکھی جائےگی۔(تہذیب
الکمال : ج۱۵: ص ۱۵۱)
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲ھ) کہتے ہیں
کہ :
’’ ضعيف لكنه ليس بمتروك وحديثه حسن في
المتابعات
‘‘
الاسلمی
ؒ ضعیف ہیں ، لیکن وہ متروک نہیں ہیں اور ان کی حدیث متابعات کی صورت میں حسن ہے۔(فتح
الباری : ج۲: ص ۱۴۷)
معلوم ہوا ان کی
روایت بھی متابعات میں ذکر کی جاسکتی ہے۔
خلاصہ :
حاصل کلام یہ ہے کہ ابو موسی
الاشعری ؓ کی روایت میں التیمی ؒ (م۱۴۳ھ) کی زیادتی ’’ إذا قرأ الإمام فأنصتوا
‘‘ متابعات کی وجہ سے مزید قوی اور مضبوط
ہوجاتی ہے،اور اس کا انکار محض باطل و
مردود ہے۔
کیا اس حدیث سے
قراءت خلف الامام کی ممانعت
ثابت نہیں ہوتی ؟؟؟
اس حدیث کی صحت
تسلیم کرنے کے بعد بھی،غیر مقلد عالم زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ حدیث
مذکورہ سے قراءت خلف الامام کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی ۔(الاعتصام : ۵تا
۱۱ دسمبر ۲۰۰۸، ۶ذی الحجہ ۱۴۲۹ھ: ص ۲۸)
الجواب :
درج
ذیل محدثین وعلماء کرام نے اس حدیث سےقراءت
خلف الامام کی ممانعت پر استدلال یا اسےتسلیم کیا ہے
:
۱- امام ابو بکر ابن ابی شیبہؒ(م۲۳۵ھ)
نے اس حدیث کو ’’من كره الْقِرَاءَةَ خَلْفَ الإِمَامِ‘‘ میں
ذکر کیا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : ج۳:
ص ۲۷۳)
۲- امام
نسائیؒ(م۳۰۳ھ) ۔ (سنن نسائی : ج۲: ص۱۴۱، ت شیخ ابو الفتاح ابو غدہ)
۳- امام
ابن بطال ؒ (م۴۴۹ھ) نے کہا :
ولا يختلف أهل
التأويل أن المراد بهذه الآية سماع القرآن فى الصلاة، ومعلوم أن هذا لا يكون إلا
فى صلاة الجهر؛ لأن السر لا يستمع إليه ولقوله عليه السلام: (إنما جعل الإمام
ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا) ، وقد صححه أحمد بن حنبل۔(شرح
بخاری لابن بطال : ج۲: ص ۳۷۰)
۴- حافظ
ابن عبد البر ؒ (م۴۶۳ھ)۔(الاستذکار
: ج۱ : ص ۴۶۵-۴۶۶،الکافی : ج۱: ص ۲۰۱-۲۰۲)
۵- حافظ
ابو الولید الباجیؒ(م۴۷۴ھ) نے کہا :
’’ هذا أمر والأمر يقتضي الوجوب
ودليلنا من جهة القياس أن هذا حال ائتمام فوجب أن تسقط معها القراءة عن المأموم
أصله ما لو أدركه راكعا ‘‘۔(المنتقی : ج۱: ص ۱۶۱)
۶- امام
قاضی عیاض ؒ(م۵۴۳ھ) نے کہا :
’’فى
قوله: " فإذا قرأ فأنصتوا " حجة لمالك ومن قال بقوله لا يُقرأ معه فيما يجهر به‘‘۔(اکمال المعلم : ج۲: ص ۳۰۰)
۷- حافظ
ابو بکر ابن العربیؒ(م۵۴۳ھ) نے کہا :
وأما الجهر فلا سبيل إلى القراءة فيه لثلاثة أوجه: أحدها: أنه عمل
أهل المدينة.
الثاني:
أنه حكم القرآن قال الله سبحانه: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا}.
وقد
عضدته السنة بحديثين: أحدهما: حديث عمران بن حصين: «قد علمت أن بعضكم خالجنيها».
الثاني:
قوله: " وإذا قرأ فأنصتوا ".
الوجه
الثالث: في الترجيح: إن القراءة مع جهر الإمام لا سبيل إليها فمتى يقرأ؟ فإن قيل:
يقرأ في سكتة الإمام.قلنا: السكوت لا يلزم الإمام فكيف يركب فرض على ما ليس بفرض،
لا سيما وقد وجدنا وجها للقراءة مع الجهر، وهي قراءة القلب بالتدبر والتفكر، وهذا
نظام القرآن والحديث، وحفظ العبادة، ومراعاة السنة، وعمل بالترجيح والله أعلم ۔(احکام
القرآن لابن العربی : ج۲: ص ۳۶۷)
۸- حافظ
موفق الدین ابن قدامہ ؒ(م۶۲۰ھ)۔(المغنی : ج۱: ص ۴۰۴)
۹- امام ضیاء الدین مقدسی ؒ (م۶۴۳ھ)
نے اس حدیث کو باب ’’ باب
في ترك القراءة فيما جهر فيه الإِمام ‘‘ میں
سب سے پہلے نقل کیا ہے۔(السُّنَنُ وَالأحْكَامُ عَن
المُصْطَفَى عَلَيهِ أَفْضَل الصَّلاَة والسَّلاَم: ج۲ : ص ۴۹)
۱۰- امام مجد الدین ابن تیمیہؒ(م۶۵۲ھ)
نے بھی اسے ترک قراءت خلف الامام کے
باب میں پہلے نمبر پر ذکر کیا ہے۔ (المنتقی
لمجدالدین : ص۱۸۹)
۱۱- حافظ
ابو العباس القرطبیؒ(م۶۵۶ھ)۔(المفہم للقرطبی : ج۲: ص ۳۹)
۱۲- حافظ
ابن تیمیہ ؒ (م۷۲۸ھ) نے کہا :
فجزم الزهري
بهذا من أحسن الأدلة على أنهم تركوا القراءة خلفه حال الجهر بعدما كانوا يفعلونه
وهذا يؤيد ما تقدم ذكره ويوافق قوله: {وإذا قرأ فأنصتوا} ولم يستثن فاتحة ولا
غيرها۔(مجموع
الفتاوی : ج۲۳: ص ۳۱۹)
انکے
علاوہ کئی ائمہ،علماء بلکہ سعودیہ کے کئی سلفی علماء نے
بھی اس حدیث سے ترک قراءت پر استدلال کیا
ہے، جن شیخ الالبانیؒ بھی ہیں۔تفصیل کے
لئے ان کی کتاب ’’اصل صفۃ صلاۃ النبیﷺ ‘‘ کا مطالعہ
کریں۔
اور
مولانا سرفراز خان صفدر ؒ (م) کہتے ہیں کہ
ان حضرات کی یہ توجیہ اور تاویل
کہ ’’ إذا قرأ الإمام فأنصتوا
‘‘ سے مراد ما زاد علی الفاتحہ کی
قراءت ہے قطعاً باطل ہے۔ اس لئے کہ مسلم
اور ابو عوانہ وغیرہ کے حوالہ سے صحیح روایت ان الفاظ کے ساتھ آنحضرت ﷺسے نقل کی جاچکی ہے۔
’’ وإذا
قرأ فأنصتوا وإذ قال {غير المغضوب عليهم ولا الضالين}، فقولوا: آمين۔۔۔۔ ‘‘
کہ
جب امام قراءت کرے،تو تم خاموش رہو اور جب امام
’’
غير المغضوب عليهم ولا الضالين ‘‘ کہے تو تم آمین کہو۔
یہ
عقدہ تو فریق ثانی ہی حل کرے گا کہ ’’ غير
المغضوب عليهم ولا الضالين ‘‘ سے قبل وہ کون سی قراءت ہے جس میں امام
کا فریضہ قراءت کرنا اور مقتدیوں کا وظیفہ
خاموش رہنا بتلایا گیا ہے ؟؟
شاید
ان کے نزدیک اس اثناء میں سورہ یٰسین کی
قراءت سنت ہو، جس کی امام قراءت کرتا رہے
اور اس وقت مقتدی خاموش رہیں ؟؟ اس صحیح حدیث کو پیش نظر رکھ کر بخوبی یہ اندازہ ہوسکتا ہے کہ یہ تاویل قطعی طور پر
باطل اور مردود ہے۔(احسن الکلام : ج۱:
ص ۲۶۳-۲۶۴)
خلاصہ
یہ کہ ’’وإذا
قرأ فأنصتوا‘‘کی زیادتی صحیح و درست ہے اوروہ امام کے پیچھے
قراءت کی ممانعت پر صریح ہے، جیسا کہ ائمہ محدثین نے صراحت کی ہے۔
دلیل نمبر۲ :
امام
نسائی ؒ(م۳۰۳ھ) نے کہا :
أخبرنا
الجارود بن معاذ الترمذي، قال: حدثنا أبو خالد الأحمر، عن محمد بن عجلان، عن زيد
بن أسلم، عن أبي صالح، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
" إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا قرأ فأنصتوا، وإذا قال
سمع الله لمن حمده فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد۔(سنن نسائی : حدیث
نمبر ۹۲۱)
سند کی تحقیق :
(۱) امام
ابو عبد الرحمٰن،احمد بن شعیب النسائیؒ(م۳۰۳ھ)
مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور صاحب السنن ہیں۔ (تقریب : رقم ۴۵)
(۲) الجارود
بن معاذ الترمذیؒ (م۲۴۴ھ) بھی ثقہ
ہیں۔(تقریب : رقم ۸۸۲)
(۳) ابو خالد ،سلیمان بن حیان الاحمرؒ(م۱۹۰ھ) صحیحین کے راوی
اور مشہور ثقہ ،حافظ الحدیث ہیں۔(ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق :ص ۹۲، الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردهم :
ص۱۰۱،تذکرۃ الحفاظ )
بلکہ حافظ عجلیؒ(م۲۶۱ھ)ان
کو ثقہ،ثبت اور صاحب سنۃ قرار دیتے
ہیں۔ ابو ہشام الرفاعی ؒ (م۲۴۸ھ)
ثقہ،امین کہتے ہیں۔ایک روایت میں ابن معین ؒ (م۲۳۳ھ) بھی کہتے ہیں کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔وہ ثقہ ہیں،وہ ثقہ
ہیں۔ (تہذیب التہذیب : ج۴: ص ۱۸۱-۱۸۲،،موسوعة
أقوال يحيى بن معين : ج۲ : ص ۲۴۳)
لہذا وہ ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(سیر : ج۹: ص ۱۹)، بلکہ بعض کے نزدیک ثبت اور امین ہیں، جیسا کہ گزرچکا۔
(۴) محمد
بن عجلان ؒ (م۱۴۸ھ) صحیح مسلم و سنن اربع
کے راوی اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۶۱۳۶،سیر)
نوٹ نمبر ۱:
تقریب میں موجود
’’إلا
أنه اختلطت عليه أحاديث أبى هريرة‘‘ سے مراد ’’ خصوصًا في روايته عن المقبري‘‘ ہے،
جیسا کہ حافظ ؒ نے دوسری جگہ لکھا ہے۔(نتائج
الافکار : ج۱: ص ۱۱۳) اور تہذیب التہذیب کے اقوال سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔
دیکھئے تہذیب التہذیب : ج۹: ص ۳۴۱۔
نوٹ نمبر ۲:
یہاں ’’اختلطت‘‘ سے
مراد اصطلاحی اختلاط نہیں کہ
راوی کا آخری عمر میں حافظہ متغیر ہوگیا،وغیرہ وغیرہ، بلکہ اس سے مراد المقبری ؒ سے روایات کرنے میں
غلطیوں کا واقع ہونا
ہے۔کیونکہ کتب المختلطین میں
کسی امام نے ان کو شمار نہیں کیا۔واللہ
اعلم
(۵) زید
بن اسلم ؒ (م۱۳۶ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ،عالم ہیں۔(تقریب : رقم
۲۱۱۷)
(۶) ذکوان
ابو صالح السمان ؒ (م۱۰۱ھ) بھی
صحیحین کے راوی اور ثقہ ،ثبت امام ہیں۔(تقریب : رقم ۱۸۴۱)
(۷) ابو
ھریرۃ ،عبد الرحمٰن بن صخر ؓ (م۵۹ھ) مشہور صحابی رسول ﷺ اور حافظ الصحابہ ؓ ہیں۔
لہذا یہ سند کے
تمام روات ثقہ اور روایت صحیح ہے۔
اعتراض نمبر ۱ :
اثری
صاحب کہتے ہیں کہ سعید المقبری ؒ کے طریق کے علاوہ بھی محدثین نے ابن
عجلانؒ کی روایتوں پر کلام کیا ہے،چنانچہ ترمذیؒ باب ماجاء فی الاعتماد فی السجود کے
تحت ایک حدیث بواسطہ ابن عجلان عن سمی عن
ابی صالح عن ابی ہریرۃ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
اس روایت کو ہم
صرف لیث عن ابن عجلان عن سمی عن ابی صالح عن ابی ہریرہ کے طریق سے ہی پہنچانتے ہیں
اور سفیان بن عیینہ وغیرہ نے اسے سمی عن
النعمان بن ابی عیاش کے طریق سے روایت کیا ہے اور ان کی روایت لیث ؒ کی روایت سے
اصح ہے۔
امام ترمذی کے علاوہ امام بخاری ؒ نے بھی نعمان بن
ابی عیاش کے مرسل طریق کو ہی ترجیح دی ‘‘۔(توضیح
الکلام : ص ۷۲۸-۷۲۹)
الجواب :
اگر
چہ امام بخاری ؒ(م۲۵۶ھ) ،امام ترمذی ؒ(م۲۷۹ھ) ،امام ابو حاتم ؒ(م۲۷۷ھ) وغیرہ ائمہ نے اس سمیؒ والی روایت کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے،لیکن یہ روایت امام ابو
داود ؒ (م۲۷۵ھ)، امام ابن خزیمہ ؒ (م۳۱۱ھ)،امام ابن حبان ؒ (۳۵۴ھ)،
امام ابوعبد اللہ الحاکم(م۴۰۵ھ)،حافظ ضیاء الدین المقدسی ؒ(م۶۴۳ھ)،حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸ھ)،حافظ
ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) کے نزدیک مسند
ہے۔(سنن ابو داود : حدیث نمبر ۹۰۲،شرح ابن ماجہ للمغلطائی : ص ۱۵۰۴،صحیح
ابن حبان : حدیث ۱۹۱۸، المستدرک للحاکم مع تلخیص للذہبی:ج۱: ص ۳۵۲ ،السنن والاحکام للمقدسی : ج۲ : ص ۹۴،فتح
الباری : ج۲: ص ۲۹۴)[8]
معلوم
ہوا کہ اس حدیث کے متصل و مرسل ہونے
میں ائمہ کا اختلاف ہے۔
اور
ابن عجلان ؒ (م۱۴۸ھ) نے دونوں طرح سے اس حدیث کو روایت کی ہے، یعنی
ابن عجلانؒ (م۱۴۸ھ) سے یہ
روایت عن سمی عن نعمان عن النبی ﷺ مرسلاً بھی مروی ہے اور عن سمی عن ابی صالح عن ابی ہریرہ عن النبی ﷺ متصلاً بھی ہے۔(دیکھئے العلل
للدارقطنی : ج۱۰ : ص ۸۵)
لہذا
یہاں پر ابن عجلانؒ نے ابن عیینہ ؒ(م۱۹۸ھ)،
سفیان الثوری ؒ (م۱۶۱ھ) وغیرہ کی مخالفت نہیں کی، بلکہ سمی ؒ (م۱۳۰ھ)
سے ایک زیادتی والی روایت بیان کی ہے،
چونکہ ابن عجلانؒ(م۱۴۸ھ)
ثقہ،صدوق،حافظ الحدیث ہیں، لہذا
ان کی یہ زیادتی قابل قبول ہے۔
نوٹ نمبر۱ :
شیخ
الالبانی ؒ نے تو ابن عجلان ؒ
عن سعید المقبری کی ایک روایت کو
حسن قرار دیا ہے اور کہا کہ ’’ فالظاهر أن ابن عجلان كان تارة يرفعه، وأخرى يوقفه،
والحديث مرفوع بلا شك ‘‘۔(الصحیحۃ
:
حدیث نمبر ۸۶۲) لہذا اسی اصول کی روشنی میں ابن عجلان ؒ کی روایت بھی مرفوع ہوگی۔
خلاصہ
یہ کہ ان ائمہ کا کلام مرجوح ہے اور راجح یہی ہے کہ یہ روایت متصل ہے اور اثری
صاحب کا استدلال باطل و مردود ہے۔
نوٹ نمبر۲ :
اس بات کا بھی احتمال ہے کہ نعمان بن ابی عیاشؒ نے یہ روایت
ابو ہریرہؓ سے ہی ارسال کی ہے،کیونکہ ان دونوں
حضرات کا امکان لقاء ممکن ہے۔
واللہ اعلم
اعتراض نمبر ۲ :
خبیب صاحب کہتے ہیں کہ
اس زیادت کو بے اصل قرار دینے
والے ماہرین علماء ہیں۔ (مقالات اثریہ
: ص ۳۹۹، نیز دیکھئے توضیح الکلام : ص ۷۲۳)
الجواب :
ائمہ علل اس حدیث
کے علت پر متفق نہیں ہے۔
خبیب
احمد صاحب نے اس زیادت کے مضعفین میں امام یحیی بن معینؒ،امام
بخاری ؒ،امام محمد بن یحیی الذہلی ؒ، امام ابو داود ؒ و،امام ابن خزیمہ
غیرہ کا نام ذکر کیا ہے،لیکن ان حضرات نے اس روایت میں موجود
الفاظ ’’وإذا قرأ فأنصتوا ‘‘
کو ابو خالد الاحمر ؒ (م۱۹۰ھ) کا
وہم قرار د یا ہے۔(مقالات اثریہ : ص ۳۹۹)،
لیکن خود اثری صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ،ابو داود ؒ اور ابن
خزیمہ ؒ اس میں ابو خالد ؒ کا وہم فرماتے ہیں ، مگر ابو خالد ؒ کا یہ وہم نہیں،ان کا ثقہ
متابع محمد بن سعد انصاری ؒ موجود ہے۔(توضیح
الکلام : ص ۷۲۴)
نوٹ :
محمد بن سعد انصاری ؒ (م۲۰۰ھ) کے علاوہ ثقہ،حافظ،ثبت،حجت امام لیث بن سعد ؒ (م۱۷۵ھ)نے
بھی یہ روایت ابن عجلان ؒ سے نقل کی ہے(تَنْبِيهُ الهَاجِدْ إلَى مَا وَقَعَ مِنَ النَّظَرِ فى كُتُبِ
الأَمَاجِدِ لابی اسحاق الاثری: ج۱: ص ۴۲۳)
لہذا
امام یحیی بن معینؒ،امام بخاری ؒ،امام
محمد بن یحیی الذہلی ؒ، امام ابو داود ؒ و،امام ابن خزیمہ کی جرح غیر صحیح ہے
اور اثری صاحب اور خبیب صاحب کا اس
کو پیش کرنا باطل و مردود ہے۔
دوسری
طرف امام ابو حاتم ؒ(م۲۷۷ھ)، امام دارقطنی ؒ (م۳۸۵ھ)، امام بیہقیؒ(م۴۵۸ھ)،وغیرہ
ائمہ نے اس روایت کو ابن عجلان ؒ کی تفرد کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔(مقالات
اثریہ : ص ۳۹۹)[9]
لیکن ان کے مقابلے میں امام احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ)،امام
مسلمؒ(م۲۶۱ھ) ، امام ابن جریر الطبری ؒ(م۳۱۰ھ)، حافظ ابو جعفر
الطحاویؒ(۳۲۱ھ)،امام ابن حزمؒ(م۴۵۶ھ)،حافظ المغرب،امام ابن عبد البر ؒ (م۴۶۳ھ)،حافظ بغوی ؒ (م۵۱۶ھ)
وغیرہ کئی ائمہ کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔
(دیکھئے ص :۲۱ ، صحیح مسلم :ج۱: ص ۳۰۴، تفسیر
ابن جریر : ج۱۳: ص ۳۵۲، مختصر اختلاف العلماء للطحاوی : ج۱: ص ۲۰۶، التمہید لابن
عبد البر : ج۱۱: ص ۳۴،الاستذکار : ج۱ : ص ۴۶۶،
نیز دیکھئے الاعتصام :ج۶۰: ش ۴۵، ۱۴تا ۲۰ نومبر ۲۰۰۸، ۱۵ذی قعدہ ۱۴۲۹ھ: ص ۲۱)
نیزاس
حدیث کوخطیب بغداد یؒ(م۴۶۳ھ)،قاضی ابو یعلی الخلیلیؒ(م۴۴۶ھ)، ابن
عدی ؒ(م۳۶۵ھ)، ابن مندہؒ(م۳۹۵ھ)،عبد
الغنی بن سعیدؒ (م۴۰۹ھ)نے بھی
صحیح قرار دیا ہے۔کیونکہ ان حضرات نے سنن
نسائی پر صحیح کا اطلاق کیا ہے،جیسا کہ
زبیر علی زئی صاحب نے کہا ہے۔(الاعتصام
:ج۶۰: ش ۴۵، ۱۴تا ۲۰ نومبر ۲۰۰۸، ۱۵ذی قعدہ ۱۴۲۹ھ: ص ۲۱)[10]
اور ہم نے پہلے بھی صراحت کی ہے کہ یہاں مسئلہ مخالفت کا نہیں
،زیادتی کا ہے۔چونکہ حافظ محمد بن عجلان ؒ
(م۱۴۸ھ) ثقہ،صدوق محدث ہیں، لہذا
ان کی زیادتی قابل قبول ہے اور پھر ابن
عجلان ؒ کے متابع و شاہد بھی موجود ہے، لہذا امام احمد ؒ،امام مسلمؒ،ابن جریر
ؒ جیسا ائمہ العلل
کی تصحیح مقدم ہے۔واللہ اعلم
ابن عجلان ؒ (م۱۴۸ھ)کے متابع و شاہد کی بحت:
متابع [شاہد] نمبر ۱ :
ابو موسی
الاشعریؓ کی حدیث ،ابن عجلان ؒ(م۱۴۸ھ)
کی قوی شاہد ہے، جس کی تفصیل گزرچکی۔[11]
متابع نمبر ۲ :
حافظ
ابو حاتم الرازیؒ(م۲۷۷ھ) نے کہا :
’’ وَقَدْ رَوَاهُ خارِجَةُ بنُ مُصْعَب أيضًا، وتابَعَ ابنَ عَجْلان ‘‘
خارجہ بن مصعب ؒ(م۱۶۸ھ) نے بھی (زید بن اسلمؒ(م۱۳۶ھ)
سے) ’’
وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کی زیادتی نقل کی ہے اور وہ ابن عجلان ؒ (م۱۴۸ھ) کی
متابع ہے۔(العلل لابن ابی حاتم : ج۲: ص ۳۹۵)
خارجہ بن
مصعبؒ(م۱۶۸ھ) کی جرح و تعدیل میں حیثیت
:
اثری صاحب نے خارجہ بن مصعب ؒ(م۱۶۸ھ) کے بارے میں
اپنے مطلب کےاقوال نقل کئے ہیں کہ ابن معین ؒ
نے کذاب اور لیس بشئ قرار دیا ہے اورحاکم ابو احمدؒ،ابن خراش ،ابن حجر ؒ نے متروک قرار دیا ہے۔ (توضیح الکلام : ص ۷۳۳)
حالانکہ مشہور امام ابو حاتم الرازی ؒ(م۲۷۷ھ)
نے کہا کہ ’’ لم يكن محله محل الكذب ‘‘ وہ کذاب نہیں ہیں ، اسی طرح حافظ ابن عدی ؒ (م۳۶۵ھ) نے
کہا : ’’و
ليس هو ممن يتعمد الكذب ‘‘ وہ
ان لوگوں میں سے نہیں ہے جو جان بوجھ کرجھوٹ
بولتے ہے۔(تہذیب الکمال : ج۸: ص ۲۱)،حافظ ابو عبد اللہ الحاکمؒ(م۴۰۵ھ)
نے کہا : ’’ هُوَ فِي نَفْسِهِ ثِقَةٌ‘‘ وہ نفسہ ثقہ ہیں ، اس قول کی شرح میں حافظ ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ)
نے کہا : کہ ’’ يَعْنِي
أَنَّهُ لَيْسَ بِمُتَّهَمٍ‘‘ یعنی وہ متہم نہیں ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۴: ص
۳۴۸،سیر وغیرہ)
لہذا وہ کذاب نہیں ہیں۔
خارجہ بن
مصعبؒ(م۱۶۸ھ) کی روایت ،متابعات میں قابل
ذکر ہے :
- حافظ عبد الرحمٰن بن مہدی ؒ (م۱۹۸ھ) نے ان سے روایت
لی ہے۔
- حافظ یحیی بن یحیی ؒ (م۲۲۶ھ) نے کہا : ’’ خارجة عندنا مستقيم الحديث ، و لم نكن
ننكر من حديثه إلا ما يدلس عن غياث ، فإنا كنا قد عرفنا تلك الأحاديث فلا نعرض لها ‘‘ خارجہ ہمارے نزدیک مستقیم الحدیث ہیں، ہم ان کی اسی حدیث کو منکر قرار دیتے جس میں
وہ غیاث سے تدلیس کرتے ، یقیناً ہم نے ان کی ان احادیث کو جان لیا ،
تواس کو بیان نہیں کرتے ۔
- امام ابو حاتم الرازی ؒ(م۲۷۷ھ) نے کہا کہ ’’ مضطرب الحديث ، ليس بقوى ، يكتب حديثه و
لا يحتج به مثل مسلم بن خالد الزنجى ، لم يكن محله محل الكذب ‘‘ خارجہ مضطرب الحدیث ، غیر
قوی ہیں، ان کی حدیث لکھی جائےگی، لیکن ان سے احتجاج نہ کیا جائےگا، وہ مسلم بن
خالد الزنجی ؒ کی طرح ہیں،وہ کذاب نہیں ہیں۔[12]
- اسی طرح حافظ ابن عدی ؒ (م۳۶۵ھ) نے بھی کہا : ’’ له
حديث كثير ، و أصناف فيها مسند و مقاطيع ، و حدث عنه أهل العراق ، و أهل خراسان ،
و هو ممن يكتب حديثه ، و عندى أنه إذا خالف فى الإسناد أو المتن فإنه يغلط و لا
يتعمد ، و إذا روى حديثا منكرا ، فيكون البلاء ممن روى عنه ، فيكون ضعيفا ، و ليس هو ممن يتعمد
الكذب
‘‘ ان کی
احادیث بہت اورکئی طرح کی ہیں ، جن میں مسندبھی ہیں اور
مقاطیع
بھی، ان سے اہل عراق اور اہل خراسان روایت
کرتے ہیں ، ان کی حدیث لکھی جائےگی، میرے نزدیک جب وہ سند یا متن میں کرتے مخالفت کرتے ہے ، تو
وہ غلطی کرتے ہیں مگر جان بوجھ کر نہیں،
اور جب وہ کو ئی منکر حدیث روایت کریں، تو اس میں بلاء انکے شاگرد کی طرف سے ہوگی
کہ ان کا شاگرد ضعیف ہوگا ، وہ جان بوجھ
کر جھوٹ بول نے والوں میں سے نہیں ہیں۔(تہذیب الکمال : ج۸: ص ۱۸)[13]
- امام ابو عبد اللہ الحاکم ؒ(م۴۰۵ھ)
نے ان کی روایت کو بطور شاہد ذکر کیا ہے۔(المستدرک
للحاکم : ج۱ :ص ۲۶۶،وغیرہ)
- حافظ عبد الحق الاشبیلیؒ(م۵۸۱ھ)
نے بھی کہا : ’’خارجة هذا يكتب حديثه ‘‘ خارجہ کی حدیث
لکھی جائےگی۔ (الاحکام الوسطی : ج۴: ص ۲۱۹)
ان اقوال سے معلوم
ہوا کہ ضعیف راوی خارجہ بن مصعب ؒ(م۱۶۸ھ) کی روایت
متابعات میں قابل ذکر ہے۔ واللہ اعلم [14]
متابع نمبر ۳ :
حضرت
ابو ہریرؓ کہتے ہیں کہ حضور ﷺنے ہم کو فجر
کی نماز پڑھائی، تو نماز کے بعد آپ ﷺنے ارشاد
فرمایا : کیا تم میں سےکسی نے قراءت کی، تو ایک صحابی ؓ نے کہا : ہاں، تو
حضور ﷺنے فرمایا :تب ہی میں کہہ رہا تھا
کہ قرآن کی قراءت میں مجھے سے
کشمکش کیوں کی جارہی ہے۔
پھرحضرت ابو
ہریرہؓ کہتے ہیں کہ لوگوں نے
جہری نمازوں میں قراءت ترک کردی جب انہوں نےحضور ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا۔(سنن
ابو داود: حدیث نمبر ۸۲۶) [15]
لہذا اس روایت سے
بھی ’’ وإذا قرأ
فأنصتوا
‘‘ کی تائید ہوتی ہے۔
خلاصہ
یہ کہ حضرت ابو ہریرۃ ؒ کی حدیث میں ’’وإذا قرأ
فأنصتوا‘‘
کی زیادتی بالکل صحیح ہے، اس کا انکاردرست نہیں ۔
[1] امام الاثرم ؒ (م۲۷۳ھ)
کے حوالہ کا جواب آگے آرہا ہے۔
[2] نوٹ :
اس
سے معلوم ہوا کہ امام مسلم ؒ کے نزدیک
امام احمد بن حنبل ؒ(م۲۴۱ھ)
اور دیگر ائمہ محدثین ،اس حدیث کو
صحیح کہنے والوں میں شمار ہوتے ہیں،جس کی
تفصیل آگے آرہی ہے۔
[3] امام ،حافظ اثرمؒ(م۲۷۳ھ) نے سب پہلے
قتادہ کی روایات میں التیمیؒ
پرمطلقاً کلام کیا ہے،حالانکہ ان سے پہلے کہ متقدمین ائمہ امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳ھ)،امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱ھ)،امام
علی بن المدینیؒ(م۲۳۵ھ)،امام سعید بن منصور الخراسانیؒ(م۲۲۷ھ)،امام
عثمان بن ابی شیبہؒ(م۲۳۹ھ)،امام مسلمؒ(م۲۶۱ھ) وغیرہ
نے قتادہ کی روایات میں سلیمان التیمیؒ کو ثقہ مانا ہے۔ لہذا دیگر ائمہ کے
مقابلے میں اثرم ؒ کا قول مرجوح ہے، نیز جن علتوں کی وجہ انہوں نے قتادہ کی روایات میں التیمیؒ مطلقاً پر
کلام کیا ہے،وہ تمام علل کا جواب آگے آرہا ہے۔اور امام احمد ؒ بھی اس
حدیث کے مصححین میں شمار ہوتے ہے۔تفصیل آگے آرہی ہے۔
[4] اثری صاحب نے قتادہ ؒ کے دیگر حفاظ تلامذہ
کی اعلی توثیق تقریب لابن حجر سے حوالہ سے ذکر کی اور کہا کہ ابن
ابی عروبہ،شعبہ،معمر ، ہشام وغیرہ ثقہ، ثبت،فاضل
ہیں،جب کہ سلیمان التیمی کے بارے
میں حافظ نے تقریب میں ثقہ،عابد لکھا ہے۔لہذا سلیمان کے مقابلے یہ حضرات زیادہ ثقہ، ثبت ہیں۔(تلخیصاً توضیح الکلام :
ص ۶۶۷) حالانکہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) سلیمان التیمیؒ کو
ثقہ، عابد کہنے کے ساتھ ساتھ اپنی دیگر کتابوںمیں ثبت، فاضل، أحد سادة
التابعين علمًا وعملًا کہا ہے،
جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ)
کے نزدیک شعبہ،معمر ، ہشام رحمہم اللہ کی
طرح سلیمان التیمیؒ بھی ثقہ،ثبت،فاضل ہیں۔
واللہ اعلم
اور اثری صاحب کا یہ موازنہ مبنی بر انصاف نہیں ۔
[5] اثری صاحب نے امام
عمرو بن علی الفلاس ؒ (م۲۴۹ھ) کا حوالہ ذکر کیا ہے کہ
قتادہ کے اصحاب میں الاثبات ابن
ابی عروبہ،شعبہ،ہشام اور ہمام ہیں۔(ص : ۶۶۷)، حالانکہ خود غیر مقلدین
کا اصول ہے کہ عدم ذکر عدم شئی کو مستلزم
نہیں ہے۔(نور العینین:۵۸) ،لہذا سلیمان التیمیؒ کا ذکر نہ کرنا،قتادہ کے
شاگردوں میں ان کا ثبت نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
نیز اثری صاحب نے اس حدیث
میں موجود ’’ إذا قرأ فأنصتوا ‘‘ کی
زیادتی پر متکلمین کی فہرست میں امام بخاری ؒ (م۲۵۶ھ)
کو بھی ذکر کیا ہے۔(ایضا : ص ۶۶۵)، جبکہ کتاب جز ء القراءۃ
امام بخاری ؒ سے سنداً ثابت ہی
نہیں ہے۔
لہذا جو حضرات ہم سے موطا امام
محمد،کتاب الآثار بروایت امام ابی یوسف و
امام محمد،الفقہ الاکبر للامام ابی حنیفۃ،کتاب الوصایۃ للامام ابی حنیفۃ،تاریخ
یحیی بن معین بروایت ابن محرز،شرح اعتقاد اصول اہل سنۃ ،المدونۃ الکبری، فضائل ابی
حنیفۃ لابن ابی العوام وغیرہ کئی کتابوں
کو نہیں مانتے اور ان کتب کی صحیح اسناد
کا سوال کرتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ پہلے وہ امام بخاری ؒ سے یہ کتاب جز ء القراءۃ ثابت کریں۔
پھر امام بخاری ؒ(م۲۵۶ھ) نے
بھی یہ بات نہیں کہی کہ قتادہ کی احادیث میں سلیمان
التیمیؒ کو وہم ہوا ہے،یا وہ ان کی احادیث قائم
نہیں رکھ سکے ، یا وہ ان کے حفاظ تلامذہ میں کا شمار نہیں ہوتے،وغیرہ وغیرہ
بلکہ ان کے الفاظ یہ ہیں :
وروى
سليمان التيمي، وعمر بن عامر، عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن عطاء، عن موسى في
حديثه الطويل عن النبي صلى الله عليه وسلم: «إذا قرأ فأنصتوا» ولم يذكر سليمان في
هذه الزيادة سماعا من قتادة، ولا قتادة من يونس بن جبير وروى هشام، وسعيد، وهمام،
وأبو عوانة وأبان بن يزيد، وعبيدة، عن قتادة، ولم يذكروا: «إذا قرأ فأنصتوا» ولو صح
لكان يحتمل سوى فاتحة الكتاب۔(جز القراءۃ
المنسوب للبخاری : ص ۶۲)،
نیز
حافظ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸ھ) نے امام بخاری ؒ
سےمنسوب جرح کو رد بھی کردیاہے۔(مجموع الفتاوی : ج۲۲: ص ۳۴۰)
[6] محترم خبیب صاحب
کہتے ہیں کہ ابن ابی عروبہ کے دوسرے تلامذہ جو سالم سے بدرجہا ثقہ اور ثبت ہیں،بلکہ
ان سے روایت کرنے میں ’’اثبت الناس‘‘ ہیں،وہ اس
زیادت کو بیان نہیں کرتے،جو واضح نشانی ہے کہ سالم بن نوح کا اس روایت کو ابن ابی
عروبہ سے روایت کرنا وہم کا شاخسانہ ہے، فی الواقع کچھ نہیں۔(مقالات اثریہ : ص
۳۸۱)
حالانکہ یہاں پر مسئلہ زیادتی کا ہےنہ کہ مخالفت کا،جب سالم بن نوح ؒ ؒ (م بعد
۲۰۰ھ)
کا صدوق اور حسن الحدیث ہونا ثابت ہوگیا، تو ان کی یہ زیادتی
ضرور قبول کی جائےگی، کیونکہ انہوں نے اپنے سے زیادہ ثقہ یا احفظ کی مخالفت
نہیں کی، لہذا ان کے تفرد پر اعتراض باطل و مردود ہے۔
نوٹ :
سالم بن نوح ؒ (م بعد ۲۰۰ھ)
نے ابن ابی عروبہ ؒ (م۱۵۷ھ) سے ان
کے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے۔(مقالات زبیر علی زئی : ج۴: ص ۳۶۴)
[7] مجاعۃؒ
کی توثیق پر خبیب صاحب کے اعتراضات کے جوابات :
اعتراض
نمبر ۱ :
- امام شعبہ ؒ کی
توثیق پر خبیب صاحب کہتے ہیں کہ مجاعۃ، شعبہ ؒ کے ہاں بھی ضعیف ہے اور اس کی
دلیل میں موصوف نے الجرح و التعدیل
سے ایک حکایات نقل کی اور اس
پر ابن ابی حاتم کا تبصرا نقل کیا کہ اس حکایات میں شعبہ ؒ کا یہ انداز
مجاعۃ کی توہین (تضعیف) پر دلالت
کرتا ہے۔(مقالات اثریہ : ص ۳۹۳)
الجواب
:
ہم کہتے ہیں کہ راوی اپنی
روایت کو دوسروں سے زیادہ جانتا
ہے، جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔(فتاوی ناصر الدین الالبانی فی المدینۃ و الامارات : ص ۱۴۶،طبع
دار الضیاء)
اور
اس روایت کے راوی ثقہ،حافظ الحدیث عبد
الصمد بن عبد الوارث ؒ (م۲۰۷ھ) نے خود مجاعۃؒ سے حدیث لیتے وقت ، اس روایت کو ان کی تعریف پر محمول کرتے ہوئے،
امام شعبہ ؒ کا قول ’’ الصَّوَّامُ الْقَوَّامُ‘‘ نقل کیا ہے۔(معجم اسامی شیوخ ابوبکر الاسماعیلی : ج۲: ص ۶۷۳)
معلوم
ہوا کہ ثقہ،حافظ الحدیث عبد الصمد بن عبد الوارث ؒ (م۲۰۷ھ) کے نزدیک یہ
روایت درصل مجاعۃؒ
کی تعریف میں ہے۔ نیز حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) کے نزدیک بھی یہ
روایت مجاعۃؒ کی تعریف میں ہے, چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ : ’’وذكره شعبة مرة، فأثنى عليه، وقال: الصوام، القوام ‘‘۔(سیر:
ج۷: ص ۱۹۶)، نیز حافظ ابو عوانہ الاسفرایینیؒ (م۳۱۶ھ) نے بھی اس روایت
کو مجاعۃؒ کی تعریف میں مانا ہے۔ (صحیح ابی عوانہ : حدیث نمبر ۷۰۴۴،طبع دار المعرفۃ،بیروت،
و نسخۃ الجامعۃ الاسلامیۃ : ج۱۵: ص ۱۳۳)
لہذاابن
ابی حاتم کا تبصرا ’’کہ اس حکایات میں شعبہ ؒ کا یہ انداز
مجاعۃ کی توہین پر دلالت کرتا ہے‘‘ مضر نہیں ہے۔
خاص
طور سے جب کہ امام شعبہؒ (م۱۶۰ھ)
نے ان روایت بھی لی ہے اور ان کا
روایت لینے میں اتقان مشہور و معروف ہے۔(اتحاف
النبیل للسلیمانی :
ج۲)، لہذا یہاں اس حکایات سے مجاعۃ کی حدیث میں تضعیف ثابت نہیں ہوتی۔
اعتراض
نمبر ۲ :
- خبیب صاحب کہتے ہیں کہ امام احمد ؒ کے اس قول کا اصطلاحی جرح و تعدیل
سے کوئی تعلق نہیں، کیونکہ انھوں نے
تو خود ہی صراحت فرمادی ہے کہ فی نفسہ کوئی حرج نہیں ،یہ نہیں
فرمایا : فی حدیثہ ، اس کی حدیث میں کوئی
حرج نہیں۔ بلکہ وہ صرف نیک آدمی ہے۔
الجواب
:
ہم
کہتے ہیں کہ خبیب صاحب کی یہ بات اس وقت
درست ہوتی جب کہ امام احمد ؒ سے ان پر
حدیث میں جرح مروی ہوتی ،چونکہ یہاں
جرح ثابت نہیں ہے،لہذا ان کا اعتراض
ہی باطل و مردود ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ محدثین نے بھی اس کو
امام احمد ؒ کی طرف سے مجاعۃ کی توثیق و ثناء مانا ہے، چنانچہ اور امام احمد ؒ
کے اس قول کو حافظ ابن مبرد ؒ(۹۰۹ھ) نے اپنی کتاب ’’ بحر الدم فيمن تكلم فيه
الإمام أحمد بمدح أو ذم ‘‘ میں نقل کیا ہے۔(ص:
۱۴۶)
اب
قارئین ہی بتائیے کہ ابن مبرد ؒ کے
نزدیک یہ قول امام احمد ؒ کی طرف سے راوی کی مدح ہے یا ذم ؟؟؟
اتنا
ہی نہیں ، بلکہ حافظ ہیثمیؒ (م۸۰۷ھ)
اس قول کو،امام احمد ؒ کی صریح
توثیق ’’ وَثَّقَهُ أَحْمَدُ ‘‘ پر محمول کیا ہے۔(مجمع الزوائد : حدیث نمبر ۹۱۲۱)
عجیب بات ہے
خود خبیب صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ محدثین کا فہم دوسروں کے
مقابلے میں راجح ہے۔(مقالات اثریہ: ۳۹۳) لیکن یہاں لگتا ہے کہ وہ اپنی ہی بات بھول گیا ۔(اللہ ان کی
بھول کو بھی معاف فرمائے۔۔۔آمین)
دیگر
اعتراضات کا جواب :
- آگے خبیب صاحب نے ابوعوانہ ؒ کی
توثیق پر اعتراض کیا کہ انہوں نے تو متروک
اور کذاب راویوں سے بھی روایت لی ہے۔(۳۹۳) حالانکہ حافظ ابوعوانہ ؒ(م۳۱۶ھ)
نے مجاعۃ
کی روایت نقل کرنے کےبعد ،ان کی
توثیق بھی نقل کی ہے۔ (صحیح ابی عوانہ : حدیث نمبر ۷۰۴۴، طبع دار المعرفۃ،بیروت،
و نسخۃ الجامعۃ الاسلامیۃ : ج۱۵: ص ۱۳۳)، جو کہ واضح دلیل ہے کہ حافظ ابوعوانہ ؒ(م۳۱۶ھ)
کے نزدیک مجاعۃ معتبر ہیں۔
نیز خبیب صاحب جواب دیں کہ کسی امام کے نزدیک کوئی راوی
ضعیف اور متروک ہو ، تو کیا اس سے یہ
لازم آتا ہے کہ ہر عالم یا
محدث کے نزدیک وہ راوی ضعیف
اور متروک ہو ؟؟؟
- خبیب صاحب کہتے ہیں کہ
ابن حبان ؒ کی متابعات میں حافظ سمعانیؒ نے بھی ان کی توثیق کردی ہے۔ (ایضاً)
خبیب صاحب سے گزارش ہے کہ وہ لکھ
دیں کہ حافظ سمعانیؒ (م۵۶۲ھ) نے ابن حبان ؒ(م۳۵۴ھ) کی ’’اندھی تقلید‘‘ میں مجاعۃ
کی توثیق کردی،پھر ہم ثابت کریں گے کہ
حافظ سمعانیؒ (م۵۶۲ھ) نے تحقیق و تفتیش کے بعد امام ابن حبان ؒ(م۳۵۴ھ) کا قول لیا ہے۔
نوٹ :
امام ابن حبان ؒ (م۳۵۴ھ) جب کسی راوی کی صراحتاً توثیق کرتے ہیں ،تو اس کی اہمیت کتنی
ہوتی ہے، اس کے لئے دیکھئے : التنکیل للمعلمی : ج۲: ص ۶۶۹۔
- خبیب صاحب کہتے ہیں کہ
حافظ ذہبی ؒ کو مجاعۃ کے معدلین
میں شمار کرنا درست نہیں ہے،کیونکہ انھوں نے موصوف کو دیوان الضعفاء اور المغنی
فی الضعفاء میں ذکر کیا اور اس کے ضعف کی بنیاد امام دارقطنی کا قول ’’ضعیف‘‘ قرار دیا ہے۔(ایضاً
: ۳۹۴)
حالانکہ دیوان الضعفاء دراصل حافظ
ابن الجوزی ؒ کی کتاب ’’الضعفاء‘‘ کا اختصار ہے،اس لئے ان کا نام اس میں آگیا
۔ (مجلہ الاجماع : ش ۲: ص ۸۷)،
رہا حافظ ذہبیؒ کےنزدیک ان کی
حیثیت کیا ہے ؟؟ تو
ان کو ’’ أَحَدُ العُلَمَاءِ
العَامِلِيْنَ ‘‘ کہنے کے ساتھ ساتھ میزان الاعتدال میں
ان کا دفاع بھی کیا ہے۔ (ج۳: ص ۴۳۷) چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں :
مجاعة
بن الزبير.
عن
محمد بن سيرين، وقتادة.
قال
أحمد: لم يكن به بأس في نفسه.
وضعفه
الدارقطني.
وقال
ابن عدي: هو ممن يحتمل ويكتب حديثه.
قلت:
روى عنه شعبة، وعبد الصمد التنوري، وعبد الله بن رشيد.
وقال شعبة: كان صواما قواما۔
لہذا راجح قول میں مجاعۃ ؒ ،حافظ
ذہبی ؒ کے نزدیک بھی مقبول ہیں۔واللہ اعلم
خلاصہ یہ کہ مجاعۃ بن زبیر ؒ پر جرح
مرجوح ہے اور وہ صدوق اور حسن الحدیث ہیں ۔واللہ اعلم
ابن
خراش ؒ کی جرح اور ایک اہم وضاحت :
بعض کتب میں ابن خراش ؒ کی جرح کے
مکمل الفاظ نہیں نقل کئے گئے،لیکن حافظ
ابو عوانہ الاسفرایینیؒ (م۳۱۶ھ) نے ان کے مکمل الفاظ نقل کئے ہے،چنانچہ وہ
کہتے ہیں کہ :
ابن خراش ؒ نے کہا کہ صغار سے مروی مجاعۃ ؒ کی
روایت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔(صحیح
ابی عوانہ : حدیث نمبر ۷۰۴۴،طبع دار
المعرفۃ،بیروت،
و نسخۃ الجامعۃ الاسلامیۃ : ج۱۵: ص ۱۳۳)، معلوم ہوا کہ ابن خراش ؒ کا قول ’’ ليس مما يعتبر به ‘‘
صغار کے ساتھ خاص ہے۔ اور یہ جرح ان کی
مجاعۃ ؒ کی خاص صورت کے بارے میں ہے۔جیسا کہ آگے حافظ ابو عوانہ الاسفرایینیؒ (م۳۱۶ھ) کے
کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔
لہذا اس جرح کو
مجاعۃ ؒ پر علی الاطلاق محمول
کرنا صحیح نہیں ہے۔ نیز اس کے مقابلے میں
حافظ ابن حبان ؒ (۳۵۴ھ) کی توثیق صریح
اور تحقیق پر مبنی ہے کہ مجاعۃ ؒ
جب ثقات سے روایت کریں تو وہ
مستقیم الحدیث ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ان کی توثیق کو توثیق مفسر قرار دیا گیا ہے، اور
یہاں بھی چونکہ مجاعۃ بن زبیر ؒ ثقہ ،حافظ الحدیث ،امام قتادہ ؒ (م۱۱۹ھ)
سے روایت
کررہے ہے۔
لہذا وہ اس روایت میں مستقیم الحدیث
ہیں ۔ واللہ اعلم
[8] امام ابو داود ؒ
نے اس پر سکوت اختیار کیا ہے، جو کہ ان کے نزدیک اس روایت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے،
جیسا کہ خود انہوں نے اپنے رسالہ الی اہل مکہ میں تصریح کی ہے۔
[9] نسائیؒ(م۳۰۳ھ)
کے قول سے ابن عجلان ؒ کا تفرد مراد
ہے، اور کیونکہ انہوں ابن عجلان ؒ کی حدیث
سے استدلال کرتے ہوئے، اس پر باب ’’ تأويل قول الله جل ثناؤه {وإذا قرئ
القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} ‘‘ باندھا ہے۔(سنن الکبری للنسائی : ج۱: ص
۲۷۵) لہذا اس قول سے
ان کا شذوذ کی طرف اشارہ نہیں ہے۔بلکہ الٹا
السنن
المجتبی
میں انہوں نے ابن عجلان ؒ کی حدیث کا دفاع
کرتے ہوئے، ابو خالد کے متابع محمد بن سعد کی توثیق نقل کی ہے۔(سنن نسائی : حدیث نمبر ۹۲۲)،
غالباً یہی وجہ ہے کہ ہمارے علم کے مطابق کسی امام نے امام نسائی ؒ کو اس حدیث کے
مضعفین
میں شمار نہیں کیا۔و اللہ اعلم،
[10] اعتراض :
ان حوالوں کے جواب میں خبیب صاحب نے کہا کہ دوسرے گروہ میں مذکورہ ائمہ کے حوالے سے عرض ہے
کہ متقدمین کی مفصل جرح کے مقابلے میں ان جلیل القدر ائمہ کی مبہم،غیر واضح اور مطلقاً تصحیح کی کوئی حیثیت نہیں،جبکہ سنن
نسائی کو صحیح کہنے والوں کا اس کی مرویات پر نقد کرنا بھی ثابت ہے، یہاں جس کی
تفصیل غیر ضروری ہے۔(مقالات اثریہ : ص ۴۰۲)
حالانکہ
زبیر علی زئی صاحب نے اس کا جواب دیا ہے کہ امام دارقطنیؒ اور امام ابو علی النیسابوری سے
چوں کہ حدیث مسلم پر کلام مذکورہے۔لہذا انھیں اس حدیث کے
مصححین
میں شمار نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس روایت کی تخصیص کردی جائےگی اور باقی
احادیث پر ان کا قول مذکرہ شرط کے ساتھ جاری رہے گا یا ان کی جرح اور
تصحیح کو باہم متعارض قرار دے کر ساقط کردیا جائے گا۔ واللہ اعلم۔( الاعتصام :ج۶۰: ش ۴۵: ۱۴تا ۲۰ نومبر ۲۰۰۸،۱۵ ذی قعدہ ۱۴۲۹ھ:
ص ۲۱)
اور
خبیب صاحب جن ’’
متقدمین کی مفصل جرح ‘‘ کا حوالہ دے رہے ہیں،ان کو جواب تو خود ان کےشیخ نے
دے دیا ہے، لہذا ان کاحوالہ دینا مردود
ہے،ابو حاتم ؒ،دارقطنی ؒ وغیرہ ائمہ سے
پہلے امام احمد ؒ،امام مسلم ؒ نے حدیث ابو
ہریرؓ کو صحیح قرار دیا ہے، اور یہ ثقہ کی
زیادتی کا مسئلہ ہے۔ جیسا کہ گزرچکا،
اور ابن عجلان ؒ کے متابع و شاہد بھی موجود ہے، لہذا ان ائمہ العلل کی تصحیح مقدم ہے۔واللہ اعلم
[11] غیر مقلد عالم
، علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ مدلس راوی
کی اگر معتبر متابعات یا قوی شاہد مل جائے، تو تدلیس کا الزام ختم ہوجاتا
ہے۔ (نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام : ص ۳۷)، چونکہ ابو موسی الاشعریؓ کی حدیث
،ابن عجلان ؒ(م۱۴۸ھ) کی روایت کی قوی شاہد ہے،
اس لئے ابن عجلان ؒ پر تدلیس کا الزام باطل و مردود ہے۔
[12] ایک اشکال اور اس کا جواب :
خارجہ
کو ’’ يكتب حديثه ‘‘ کہنے کے باوجود
بھی، ان کا عتبار نہ کرکے امام ابو
حاتم الرازی ؒ (م۲۷۷ھ) نے ابن
عجلان ؒ (م۱۴۸ھ) کی روایت کو ضعیف
اس لئے کہا کیونکہ امام صاحب ؒ کے نزدیک
ابن عجلان ؒ نے’’ وإذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ کی زیادتی نقل
کرنے میں دیگر ثقہ
اصحاب کی مخالفت کی ہے، جب کہ ہمارے نزدیک
یہ مخالفت ہر گز نہیں ہے، کیونکہ ابن عجلان ؒ (م۱۴۸ھ) نے دیگر
ثقہ اصحاب سے کوئی مخالفت نہیں کی،
بلکہ ان سے ایک زائد جملہ ’’ وإذا
قرأ فأنصتوا ‘‘ نقل کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے ابن عجلان ؒ (م۱۴۸ھ) کی روایت
میں خارجہ ؒ (م۱۶۸ھ) کو بطور متابع ذکر
کیا ہے۔کیونکہ ائمہ ان کو متابعت میں قابل ذکر مانا ہے۔
[13] نوٹ :
خارجہ بن مصعب ؒ(م۱۶۸ھ) نے
اس روایت میں کسی کی مخالفت نہیں کی، بلکہ زیادتی
’’
وإذا قرأ فأنصتوا ‘‘ نقل کی
ہے۔ لہذا ان پر ابن عدی ؒ کے الفاظ ’’ عندى أنه إذا
خالف فى الإسناد أو المتن فإنه يغلط ولا يتعمد ‘‘ فٹ کرنا صحیح
نہیں ہے۔
[14] تنبیہ
نمبر ۱ :
امام
بیہقی ؒ (م ۴۵۸ھ) نے خارجہ کی روایت کو اختصار سند کے ساتھ یوں بیان کیا
ہے کہ ’’ ورواه عمر بن هارون وهو ضعيف، عن خارجة بن مصعب، وهو ليس بالقوي، عن
زيد بن أسلم، ولا يصح ‘‘۔(الخلافیات للبیہقی :ج۲: ص ۴۷۰،نیز دیکھئے کتاب القراءت للبیہقی : ص ۱۳۲ ) ، اس کی
سند میں اگرچہ حافظ عمر بن ہارون البلخی ؒ(م۱۹۴ھ)
موجود ہیں۔
لیکن ان
کے بارے میں امام بخاری ؒ (م۲۵۶ھ) کہتے ہیں کہ وہ مقارب الحدیث ہیں اور سوائے
اس حدیث ’’ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يأخذ من لحيته من
عرضها وطولها‘‘ کہ میں ان کی کوئی روایت ایسی نہیں جانتا، جس میں وہ
منفرد ہوں، یا اس کی اصل نہ ہو۔ (سنن الترمذی : ج۵: ص ۹۴)،لہذا اس بنیاد پر
ہم کہتے ہیں کہ خارجہ سے یہ روایت نقل
کرنے میں بھی عمر بن ہارون البلخی ؒ(م۱۹۴ھ) منفرد نہیں ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ حافظ ابو حاتم
محمد بن ادریس الرازی ؒ (م۲۷۷ھ) نے
صیغہ جزم کے ساتھ کہا کہ ’’ وَقَدْ رَوَاهُ خارِجَةُ بنُ
مُصْعَب أيضًا، وتابَعَ ابنَ عَجْلان ‘‘۔(العلل
لابن ابی حاتم : ج۲: ص ۳۹۵)، لہذا حافظ
عمر بن ہارون البلخی ؒ(م۱۹۴ھ) کا ضعف مضر نہیں ۔ واللہ اعلم
تنبیہ نمبر ۲:
اثری
صاحب کہتے ہیں کہ خارجہ ؒ نے یہ روایت زید
بن اسلم سے معنعناً بیان کی ہے۔(توضیح
الکلام : ص ۷۳۳)، حالانکہ زید بن اسلم ؒ (م۱۳۶ھ) سے نقل کرنے میں ان کے متابع میں ابن عجلان ؒ(م۱۴۸ھ)
موجود ہیں، جن کا مدلس نہ ہونا ثابت ہوچکا
۔(دیکھئے ص : ۴۱) لہذا جب وہ
متابعت میں موجود ہیں، تو خارجہ ؒ (م۱۶۸ھ)
پر تدلیس کا الزام باطل و مردود ہے۔
[15] اس روایت کی تفصیل اگلے شمارے میں آئے گی۔(انشاءاللہ)
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر15
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں