نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

معافی بن عمران الموصلیؒ(م۱۸۶؁ھ)، کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ)صدوق ہیں۔

 


معافی بن عمران الموصلیؒ(م۱۸۶؁ھ)، کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ)صدوق ہیں۔

-      مولانا نذیر الدین قاسمی

صدوق خطیب، ابو الموٓید الموفق بن احمد المکیؒ(م۵۶۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

            واخبرنی الامام الاجل رکن الدین ابو الفضل عبد الرحمٰن بن محمد الکرمانی انا فخر القضاۃ ابو بکر محمد بن الحسین الارسابندی انا  ابو الحسن علی بن الحسین السغدی انبا الشیخ ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن خلف الکرابیسی انبا ابوبکر محمد بن عبد اللہ بن یزداد الرازی انبا ابو الفضل البغدادی انبا ابو حفص المحرمی انبا بشر بن الحارث سمعت المعافی بن عمران الموصلی یقول کان فی ابی حنیفۃ رحمہ اللہ عشر خصال ما کانت واحدۃ منھا قط فی احد الا صار رئیسا فی قومہ  و ساد قبیلتہ الورع و الصدق و السخاء و الفقہ و مداراۃ الناس و المروۃ الصادقۃ و الاقبال علی ما ینفع و طول الصمت  و الاصابۃ بالقول و معونۃ اللھفان عدوا کان او ولیا۔

        معافی بن عمران ؒ (م۱۸۶؁ھ)کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ میں’’۱۰‘‘ عادتیں ایسی تھیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی کسی میں ہو تو وہ اپنی قوم کا رئیس ہوجائے اور اپنے قبیلے کی سرداری کرے، انتہائی پرہیزگاری، صدق، سخاوت، فقاہت، لوگوں سے اچھا برتاؤ، سچی مروت ، مفید کاموں میں مشغول رہنا، طویل خاموشی، بات کی صحت، پریشان حال کی مدد کرنا چاہے دشمن ہو کہ دوست۔(مناقب ابی حنیفۃ للمکی : ص ۱۸۵-۱۸۶،طبع بیروت)

سند کی تحقیق :

(۱)       خطیب، ابو الموٓید الموفق بن احمد المکیؒ(م۵۶۸؁ھ) کی توثیق کے لئے دیکھئے مجلہ الاجماع : ش۴: ص۷۰۔

(۲)       عبد الرحمٰن بن محمد،ابو الفضل الکرمانیؒ(م۵۴۳؁ھ) بھی اپنے زمانے مشہور فقیہ اور اصحاب ابو حنیفہ کے امام ہیں۔ (تاریخ الاسلام : ج۱۱: ص ۸۲۹،الجواہر المضیہ : ج۱: ص ۳۰۴)

(۳)      محمد بن الحسین الارسابندی،ابو بکر المروزیؒ(م ۵۱۲؁ھ) بھی مشہور امام،فقیہ،مناظر اور کبار  ائمہ احناف ہیں۔ (الجواہر : ج۲: ص ۵۱،تاریخ الاسلام : ج۱۱: ص ۱۹۷)

(۴)      ابو الحسن،علی بن الحسین السغدیؒ(م۴۶۱؁ھ) بھی مشہور امام،فقیہ اور فاضل ہیں۔(تاج التراجم : ص ۲۰۹، الجواہر: ج۱: ص ۳۶۱)

(۵)      ابو اسحاق،ابراہیم بن محمد بن خلف الکرابیسیؒ  کو  امام ابو الحسن،علی بن الحسین السغدیؒ(م۴۶۱؁ھ) نے ’’الشیخ‘‘ قرار دیا ہے، جیسا کہ اس روایت کی سند میں موجود ہے،لہذا یہ توثیق ان کے صدوق ہو نے  کے لئے کافی ہے۔

(۶)       ابو بکر  محمد بن عبد اللہ بن یزداد الرازیؒ (م۳۵۳؁ھ)سے ایک جماعت ابو اسحاق،ابراہیم بن محمد بن خلف الکرابیسیؒ  ،ابو سہل ،محمد بن محمد بن احمد العاصمیؒ،اسماعیل بن الحسین بن علی ،ابو محمد بخاریؒ(م۴۰۲؁ھ)،محمد بن نصرویہ ،ابو سہل المروزی ؒ، ابوالخیر،محمد بن علی بن  الحسن ؒ ،علی بن احمد بن محمد بن سلیمان ،ابو الحسن بخاری ؒ ، ابو بکر محمد بن ابی اسحاق الکلاباذی بخاریؒ (م۳۸۰؁ھ) وغیرہ نےان سے روایت لی ہے۔(تاریخ ابن عساکر : ج۵۴: ص ۵۶،شعب الایمان : ج۱۲: ص ۴۰۳،جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر: ج۲: ص ۱۱۵۹،السنن الکبری : ج۵: ص ۵۵۴،بحر الفوائد للکلاباذی : ص۴۲۵،التدوین : ج۱: ص ۴۳۵،) اور ان پر کوئی جرح ثابت نہیں ہے۔

            اور  وہ ’’ري‘‘ کے مفسر تھے۔(الانساب  للسمعانی : ج۱۳: ص ۴۹۲)

لہذا وہ صدوق ہیں۔(مجلہ الاجماع : ش ۱۴: ص ۵۷)

(۷)      ابو فضل بغدادی ؒ سے مراد ثقہ،زاہد جعفر بن محمد بن یعقوب،ابو الفضل الصندلی بغدادی ؒ(م۳۱۸؁ھ) ہیں۔ (تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۳۳۷-۳۳۸)

(۸)      عمر بن منصور،ابو حفص الکاتبؒ سے امام عبد اللہ بن احمد بن حنبلؒ(م۲۹۰؁ھ) اور دیگر نے روایت لی ہے۔(تایخ بغداد : ج۱۱: ص ۲۱۰،طبع بیروت)،  اور امام عبد اللہ ؒ(م۲۹۰؁ھ)  اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت لیتے تھے۔ (اتحاف النبیل : ج۲: ص ۱۰۳،دراسات حدیثیۃ متعلقۃ بمن لا یروی الا عن ثقۃ للشیخ ابو عمرو الوصابی : ص۲۷۷)،

 لہذا عمر بن منصور،ابو حفص الکاتبؒ صدوق ہیں۔

(۹)       بشر بن الحارثؒ(م۲۲۷؁ھ) سنن ابو داود اور سنن نسائی کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۶۸۰)

(۱۰)     معافی بن عمران الموصلیؒ(م۱۸۶؁ھ) صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ،عابد ،فقیہ ہیں۔(تقریب : رقم ۶۷۴۵)

            لہذا یہ سند  حسن ہے۔


معلوم ہوا کہ معافی بن عمران الموصلیؒ(م۱۸۶؁ھ) کے نزدیک امام ابو حنیفہؒ(م۱۵۰؁ھ)صدوق ہیں۔ و اللہ اعلم



ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر15

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...