قاضی اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہؒ(م۲۱۲ھ) ائمہ کی نظر میں۔
-مولانا نذیر الدین قاسمی
اسماعیل بن حماد بن ابی
حنیفہ ؒ (م ۲۱۲ھ) جمہور ائمہ اور
محدثین کے نزدیک صدوق اور حسن الحدیث ہیں۔
پہلے ان پر موجود جروحات مع جوابات ملاحظہ فرمائیے :
- حافظ صالح بن محمد
جزرۃ (۲۹۳ھ) کہتے ہیں کہ
اسماعیل بن حماد جہمی ہیں ، ثقہ نہیں ہیں ۔ (تاریخ بغداد)
الجواب :
حافظ ابو علی ، صالح بن
محمدؒ (م۲۹۳ھ) نے ان پر جہمی ہونے
کی وجہ سے کلام کیا ہے ، جس کے جواب میں حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ ( م ۸۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’قلت
: التجھم : الکلام فی الصفات ، وھي مسألۃ معروفۃ لا تقتضی عدم الثقۃ ‘‘
میں کہتا ہوں : اس جرح سے
ان کا عدم ثقہ ہونا لازم نہیں آتا ۔ (کتاب الثقات للقاسم : جلد۲ : صفحہ ۳۷۰،
۳۷۱)
- حافظ
ابن عدی ؒ نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے ۔ (میزان ، الکامل)
الجواب :
یہ
جرح غیر مفسر ہے، جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک مقبول نہیں ۔ (مجلہ الاجماع : شمار
نمبر ۲ : صفحہ ۱۷۹)
نیز
، ابن عدی ؒ اصحاب الرائے کے سلسلہ میں متشدد ہیں ۔ (الکامل : جلد۷: صفحہ ۳۷۸،
مناقب للذہبی : صفحہ ۸۰)، شیخ شعیب
الارناؤط ؒ اور شیخ بشار عواد معروف ؒ نے بھی احناف کے سلسلہ میں ان کے متشدد ہونے
کی طرف اشارہ کیا ہے، جس کا حوالہ آگے آرہا ہے۔
لہذا
ان کی جرح غیرمقبول ہے۔
- حافظ
ابن حجر عسقلانیؒ (م ۸۵۲ھ) فرماتے
ہیں کہ ان پر کلام کیا گیا ہے۔ (تقریب)
الجواب :
حافظ ؒ کے کلام کے جواب میں ، شیخ شعیب الارناؤط
ؒ اور شیخ بشار عواد معروفؒ کہتے ہیں کہ :
’’قولہ
: ’’ تکلموا فیہ‘‘ یشیر إلی کلام ابن عدی وصالح جزرۃ فیہ ، وماأنصفہ بعض المحدثین
، ولا أنصفوا جدہ‘‘
حافظ
ؒ کا قول : ’’ اسماعیل ؒ پر کلام کیا گیا ہے‘‘ ابن عدی ؒ اور صالح جزرہ ؒ کے قول
کی طرف اشارہ ہے، اور بعض محدثین نے نہ اسماعیل کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا اور
نہ ان کے دادا کے ساتھ ۔
آگے
موصوف دونوں حضرات ؒ نے کہا کہ : اسماعیل ؒ بغداد کے مغربی جانب میں علماء کے قاضی
تھے ، اور ان کے بارے میں امام محمد بن عبد اللہ بن المثنی ابو عبد اللہ القاضی
الانصاری ؒ (م ۲۱۵ھ) کی
توثیق وتعریف نقل کی ہے(جس کی تفصیل
اسماعیل بن حماد کی توثیق کے تحت آرہی ہے)
ان
حضرات کے الفاظ یہ ہیں :
فقد كان إسماعيل هذا من القضاة العلماء، ولي قضاء الجانب الشرقي من
بغداد وقضاء البصرة والرقة، وصنَّف كتاب "الجامع" في الفقه، قال محمد بن
عبد الله الأنصاري قاضي البصرة - وهو ثقة روى له أصحاب الكتب الستة: ما وَلِيَ
القضاءَ من لَدُن عمر (بن الخطاب) إلى اليوم أعلمُ من إسماعيل بن حماد. قيل: ولا
الحسن البصري؟ قال: ولا الحسن۔(تحریر تقریب التہذیب : ج۱: ص ۱۳۲)
لہذا حافظ ؒ کے قول سے بھی اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ ؒ
کی تضعیف لازم نہیں آتی ۔ اس کے برخلاف ائمہ نے آپ کی توثیق وثنا فرمائی
ہے ، جو کہ درجِ ذیل ہے :
۱) امام
ذہبیؒ ( م ۷۴۸ھ) فرماتے ہیں :
’’وكان صالحا دينا عابدا، محمود القضاء‘‘-
اسماعیل ؒ نیک ، دیندار، عبادت گزار تھے، وہ قابلِ تعریف
فیصلے کرنے والے تھے۔ ( تاریخ الاسلام : جلد۵: صفحہ ۲۷۷)
- اسی
طرح العبر میں تحریر فرماتے ہیں کہ :
’’كان موصوفاً بالزهد والعبادة والعدل في الأحكام‘‘۔
آپ ؒ زہد، عبادت اور فیصلوں میں انصاف کے ساتھ متصف تھے۔ (العبر للذہبی ؒ : جلد۱ : صفحہ ۲۸۴)
- نیز،
ان کی روایت کو حافظ ذہبیؒ (م ۷۴۸ھ) حسن بھی کہا ہے۔ (مناقب للذہبی : صفحہ ۸۰، تاریخ الاسلام :
جلد۴: صفحہ ۹۵۵)
۲) امام محمد
بن علی ابن العمرانی ؒ ( م۵۸۰ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’قضاة الأمين: إسماعيل بن حمّاد بن أبى حنيفة‘‘
فقیہ
اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ ؒ (م ۲۱۲
) امانت دار قاضی ہیں ۔ (الانباء
لابن العمرانی : صفحہ ۹۶)
۳) ثقہ، امام
ابو محمد عبد اللہ بن اسد الیافعیؒ (م ۷۶۸ھ)
اور
۴) امام ابن العمادحنبلی ؒ ( م ۱۰۸۸ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’كان موصوفاً بالزهد والعبادة والعدل
في الأحكام‘‘
آپ ؒ زہد، عبادت اور فیصلوں میں انصاف کے ساتھ متصف تھے۔
( مرآۃ الجنان للیافعی : جلد۲: صفحہ ۴۰، شذرات الذھب : جلد۳ : صفحہ ۵۷)
۵) امام ،حافظ
سبط ابن الجوزی ؒ (م ۶۵۴ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’كان عالمًا زاهدًا عابدًا وَرِعًا، وكان المأمونُ يثني عليه‘‘
اسماعیل
ؒ ، عالم ، زاہد ، عبادت گزار اور اللہ سے ڈرنے والے تھے(خلیفہ)مامون آپ کی تعریف
کرتے تھے۔
- نیز فرماتے ہیں کہ :
’’وكان ثقةً صدوقًا أمينًا فاضلً‘‘
اسماعیل ؒ ثقہ ، صدوق، امانت دار (اور) فاضل تھے۔ (مرآۃ الزمان لسبط
ابن الجوزی : جلد۱۴: صفحہ ۱۲۴، ۱۲۵)
۶) امام ابو
بکر محمد بن خلف الوکیعیؒ (م ۳۰۶ھ)فرماتے
ہیں کہ محدثین نے کہا کہ : اسماعیل بن حماد ابن ابی حنیفہؒ پکے سلفی تھے۔ (اخبار
القضاۃ : جلد۲: صفحہ ۱۶۷)
۷) امام محمد بن عبد اللہ بن المثنیٰ ابو عبد
اللہ القاضی الانصاری ؒ (م ۲۱۵ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’ما ولي القضاء من لدن عُمَر بْن الخطاب إِلَى يوم الناس أعلم من
إسماعيل بْن حماد بْن أبي حنيفة، ولو وليكم وهو صحيح لفرغ من أحكامه في سنة،
فَقَالَ: أَبُو بكر الجني: يا أبا عَبْد اللهِ ولا الْحَسَن بْن أبي الْحَسَن قال:
ولا الْحَسَن‘‘
حضرت
عمر ؓ کے دور سےآج تک ، قاضی اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہ ؒ سے زیادہ جاننے والا
کوئی شخص قاضی نہیں بنا۔۔۔۔ ان سے کہاکہ : کیا حسن بصریؒ بھی اسماعیل بن حمادؒ سے
زیادہ جاننےوالے نہیں تھے؟ انہوں نے کہا کہ : نہیں ۔ (اخبار القضاۃ : جلد۲:
صفحہ ۱۷۰)[1]
۸) امام ابو العباس
ابن خلکان ؒ (م ۶۸۱ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’الإمام بلا مدافعة، ذو الفضائل
الشريفة والخصال المنيفة ‘‘۔
بغیر
کسی اختلاف کے وہ امام ہیں ، اچھے فضائل اور اونچی صفات والےہیں ،
- نیز آخیر
میں فرماتے ہیں کہ وہ جوانی میں انتقال کرگئے، اگر لمبی عمر پاتے تو وہ لوگوں نے
ضرور بضرور عظیم مقام پاتے ، اللہ ان پر
رحم فرمائے۔ (وفیات الاعیان : جلد۷: صفحہ ۳۴۹-۳۵۰)
۹) امام عبد
القادر القرشی ؒ (م ۷۷۶ھ) فرماتے
ہیں کہ :
’’الإمام بلا مدافعة، ذو الفضائل
الشريفة والخصال المنيفة ‘‘۔
بغیر
کسی اختلاف کے وہ امام ہیں ، اچھے فضائل اور اونچی صفات والےہیں ۔
-
آگے کہتے ہیں کہ :
’’وَكَانَ بَصيرًا بِالْقضَاءِ مَحْمُودًا فِيهِ عَارِفًا
بِالْأَحْكَامِ والوقائع والنوازل والحوادث صَالحا دينا عابدا زاهدا ‘‘
آپ
قضاکی بصیرت رکھنے والا ،اس باب میں قابل تعریف تھے، احکام، واقعات، پریشان کن
حالات اورحادثات کےجاننے والے ،صالح، دین دار، عابد اور زاہد تھے۔(الجواہر المضیئۃ : جلد۱: صفحہ ۱۴۸)،
۱۰) امام ،
حافظ صلاح الدین ؒ (م ۷۶۴ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’كان عالمًا زاهدًا عابدًا وَرِعًا، وكان المأمونُ يثني عليه‘‘
اسماعیل
ؒ عالم ، زاہد، عبادت گزاراور اللہ سے ڈرنے والےتھے، (خلیفہ) مامون آپ کی تعریف
کرتے تھے ۔
نیز فرماتے ہیں کہ :
’’وكان ثقةً صدوقًا‘‘
اسماعیلؒ
، ثقہ ، صدوق تھے۔(الوافی بالوفیات للصدفی : جلد۹ : صفحہ ۶۸)،
۱۱) فقیہ تقی
الدین الغزی ؒ (م ۱۰۱۰ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’وكان بصيراً بالقضاء، محموداً فيه، عارفاً بالأحكام، والوقائع،
والنوازل، والحوادث، صالحاً ديناً‘‘
آپ
قضاکی بصیرت رکھنے والا ،اس باب میں قابل تعریف تھے، احکام، واقعات، پریشان کن
حالات اورحادثات کےجاننے والے ،صالح، دین دارتھے۔(الطبقات السنیۃ : صفحہ ۱۷۵)
حافظ
الحدیث امام قاسم بن قطلوبغا ؒ ( م ۸۷۶ھ) نے آپ کو ثقات میں شمار کیا ہے۔ (کتاب
الثقات للقاسم : جلد۲: صفحہ ۳۶۹)
- ایک اور
جگہ کہا کہ
’’كان إمامًا عالمًا عارفا بصيرا
بالقضاء، محمود السيرة فيه، فقيهًا عارفا بالأحكام والوقائع ديِّنًا، صالحا،
عابدًا ‘‘
آپ
ؒ امام ، عالم ، معرفت رکھنے والے، قضاء کی بصیرت رکھنے والے، اس(یعنی قضا کے باب
) میں قابل تعریف طریقہ پر چلنے والے ،
فقیہ، احکام وواقعات کی معرفت رکھنے والے،دین دار، صالح اور عابد تھے۔ (تاج التراجم : صفحہ ۱۳۴)
معلوم
ہوا کہ اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہؒ ائمہ کے نزدیک ثقہ، صدوق ہیں اور ان پر کلام
باطل ومردود ہے۔
[1] اس کی سند یوں ہے : محدث محمد بن خلف بن حیان ،
ابوبکر وکیع القاضی ؒ (م۳۰۶ھ) کہتے ہیں کہ :
أَخْبَرَنِي إبراهيم بْن أبي عُثْمَان
قال: حَدَّثَنِي العباس بْن ميمون؛ قال: سمعت مُحَمَّد بْن عَبْد اللهِ الأنصاري
يقول: ما ولي القضاء من لدن عُمَر بْن الخطاب إِلَى يوم الناس أعلم من إسماعيل بْن
حماد بْن أبي حنيفة، ولو وليكم وهو صحيح لفرغ من أحكامه في سنة، فَقَالَ: أَبُو
بكر الجني: يا أبا عَبْد اللهِ ولا الْحَسَن بْن أبي الْحَسَن قال: ولا الْحَسَن۔(اخبار
القضاۃ : ج۲: ص ۱۷۰)
سند کے روات کی تحقیق :
(۱) محدث محمد بن خلف بن حیان،ابوبکر وکیع القاضیؒ(م۳۰۶ھ) مشہور ثقہ،
فاضل امام ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم :
ج۸: ص ۲۷۱)
(۲) ابراہیم
بن ابی عثمان ؒ سے مراد ابراہیم بن سعید ؒ ہے۔(اخبار القضاۃ : ج۱: ص ۳۵۳)
اور ابراہیم بن ابی عثمان سعید الجوھریؒ(م۲۵۰ھ) ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم
۱۷۹)
(۳) ابو
الفضل ،عباس بن میمونؒ بن طائع البصری بھی صدوق ہیں۔(تاریخ ابن عساکر
:ج۱: ص ۲۲۱، ج۲۴: ص ۳۶۱،لسان المیزان : ج۷: ص ۵۲۱)
ان
سے ائمہ کی ایک جماعت مثلاً ابراہیم بن
ابی عثمان سعید الجوھریؒ(م۲۵۰ھ)،عبد اللہ بن ابی سعد الوراق ؒ(م۲۷۴ھ)،احمد
بن ابی طاہر ،ابو الفضل ؒ(م۲۸۰ھ)،قاسم بن محمد بن بشار ؒ(م۳۰۵ھ)،ہشام
بن محمد الخزاعیؒ(م۳۱۲ھ)،مشہور نحوی،امام مبردؒ(م۲۸۵ھ)، عسل
بن ذکوانؒ اللغوی النحوی وغیرہ نے روایت
کیا ہے۔(کشف المشکل من الصحیحین لابن الجوزی : ج۲ : ص ۱۶۹، کتاب بغداد :ص۱۱۷،المنتظم لابن الجوزی : ج۶: ص
۳۴۱،تاریخ بغداد : ج۱۴: ص ۶۹، تصحیفات المحدثین للعسکری :
ج۱: ص ۱۵۲-۱۵۳)
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر12
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
اور
حافظ ابن الجوزیؒ(م۵۹۷ھ) نے ان کی حدیث بوجہ استدلال صحیح قرار دیا ہے۔(
کشف المشکل من الصحیحین لابن الجوزی
: ج۲ : ص ۱۶۹،فتاوی نذیریہ : ج۳: ص ۳۱۶)، لہذا ابو الفضل ،عباس بن میمونؒ بن
طائع البصریؒ ابن الجوزی ؒ کے نزدیک صدوق ہیں۔
نیز شیخ الالبانی ؒ کے اصول کی روشنی میں بھی
وہ صدوق ہیں۔(تمام المنہ :
صفحہ ۲۰۴ تا ۲۰۷)
(۴) امام ابو عبد اللہ ،محمد بن عبد اللہ ابن المثنی
الانصاری القاضیؒ(م۲۱۵ ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم
۶۰۴۶)
لہذا یہ
سند حسن ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں