نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث , سلف صالحین کا مسلک , محدثین کرام کا مسلک

 


مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث

باب نمبر:۵

سلف صالحین کا مسلک

فہم ِ اسلاف کی اہمیت غیرمقلدین کی نظر میں

            اسلاف کا موقف پیش کرنے سے پہلے مناسب ہوگا کہ غیرمقلدین کی زبانی اسلاف کے اقوال اور ان کے فہم کی اہمیت کو نقل کر دیا جائے ۔

مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ سلف کی روش جس کو پسند نہیں وہ خدا کا پیاراکبھی نہیں بن سکتا ۔ ‘‘

( فتاویٰ اہلِ حدیث :۱؍۳۴۷)

 حافظ معاذنے اپنے والد شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کے متعلق لکھا:

            ’’ وہ کہا کرتے تھے : حدیث کو سمجھنے کے لیے اسلاف کی طرف رجوع کرو۔ مزید فرمایا:جو لوگ اسلاف کی طرف رجوع نہیں کرتے وہ قرآن و حدیث میں خود ساختہ تاویل و تحریف کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ انہوں نے طلباء کو سمجھاتے ہوئے کہا:’’ کوئی ایسا مسئلہ نہ نکالنا جس میں آپ کے پیچھے اسلاف میں سے کوئی کھڑا نہ ہو ۔ ‘‘

( اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۲۱)

شاہد نذیرغیرمقلد (کراچی) لکھتے ہیں:

            ’’ اس سلسلے میں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ جب اہلِ بدعت اپنے مشرکانہ عقائد اور بدعی افعال کے لیے قرآن و حدیث کی نصوص سے نت نئے نئے اور انوکھے استدلال کرتے ہیں تو انہیں لگام دینے کے لیے ہمارے پاس فہم سلف صالحین ہی ایک ذریعہ ہے۔ اسی حقیقت کا اعتراف فرماتے ہوئے حافظ [ زبیر علی زئی ( ناقل ) ] رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ منافقین اور اہلِ بدعت بھی کتاب اللہ سے استدلال کرتے ہیں ، لہذا کتاب و سنت کا صرف وہی فہم معتبر ہے جو سلف صالحین سے ثابت ہے ۔ ‘‘

 ( اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۲)

شاہد نذیر ہی لکھتے ہیں:

            ’’ ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں فہم سلف کی روشنی میں اپنے عمل اور عقیدے کی بنیاد استوار کرنی چاہیے ، اسی میں نجات ہے وگرنہ گمراہی ہے ۔ ‘‘

 ( اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۳)

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’سلف صالحین کا فہم وہ مشعل ہے جس کی وجہ سے آدمی گمراہی سے محفوظ رہتا ہے ۔ ‘‘

(ماہ نامہ الحدیث حضروشمارہ: ۴۰ صفحہ ۸ بحوالہ اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۲)

 شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’خوش قسمت ہے وہ شخص جو کتاب و سنت یعنی قرآن و حدیث پر سلف صالحین کے فہم

کی روشنی میں عمل کرے۔ ‘‘

 (اختصار علوم الحدیث صفحہ ۸ بحوالہ اشاعۃ الحدیث ، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۲)

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ قرآن و حدیث کا کون سا مفہوم معتبر ہے۔ وہ فہم جو صحابہ ،تابعین وتبع تابعین اورمحدثین کرام سے ثابت ہے ؟!ہم تو وہی فہم مانتے ہیں جو صحابہ ، تابعین ، تبع تابعین و محدثین اور قابلِ اعتماد علمائے امت سے ثابت ہے ... حافظ عبد اللہ روپڑی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: خلاصہ یہ ہے کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں ۔ ‘‘

( اشاعۃ الحدیث حضرو، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۳۷۵، طبع مکتبہ اسلامیہ )

شیخ عبد اللہ ناصررحمانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’جو متاخرین ( بعد میں آنے والے لوگ ) ہیں وہ سلف کے علم و فہم کاکیا مقابلہ کر سکتے ہیں جتنا دَور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوگا اتنی علمی برکت بھی ہوتی اور فہم کی وسعت بھی ہوگی ۔ ‘‘

( اشاعۃ الحدیث حضرو، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۳۰۰، طبع مکتبہ اسلامیہ )

 رحمانی صاحب مزید لکھتے ہیں:

            ’’ ہم سلفی اس لئے ہیں کہ ہم کتاب و سنت کو اساس بناتے ہیں علم فہم السلف، شتر بے مہار نہیں، فہم السلف کا تقید بحمد للہ ہمارے اصول میں موجود ہے اور یہ بڑا زریں قاعدہ ہے ۔ ‘‘

 ( اشاعۃ الحدیث حضرو، اشاعت خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۳۰۰ طبع مکتبہ اسلامیہ )

             اقوال سلف کی اہمیت جان لینے کے بعد مرحلہ آتا ہے یہ جاننے کا کہ اسلاف میں کون کون حضرات ہیں یہاں بھی بہتر ہوگا کہ خود غیرمقلدین کے گھر سے اس کا حوالہ پیش کردیا جائے ۔

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد سے سوال ہوا:

’’ ہمارے اسلاف اور علمائے اہلِ سنت سے مراد کون لوگ ہیں ؟‘‘

علی زئی صاحب نے اس کا یوں جواب دیا:

            ’’ اسلاف سے مراد اہلِ سنت کے متفقہ سلف صالحین ہیں مثلاً : ۱:تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ۲: تمام ثقہ و صدوق تابعین عظام مثلاً سعید بن المسیب ، عامر الشعبی ، علی بن الحسین عرف زین العابدین ، سعید بن جبیر ، سالم بن عبد اللہ بن عمر ، عطاء بنی ابی رباح ، حسن بصری ، محمد بن سیرین ، نافع مولیٰ ابن عمراور ابن شہاب الزہری وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین ۳: تمام ثقہ و صدوق تبع تابعین ،مثلامالک بن انس المدنی ، عبد الرحمن بن عمر و الاوزاعی ، شعبہ بن الحجاج ، سفیان الثوری ، جعفر بن محمد الصادق، زائدہ بن قدامہ، حماد بن زید، حماد بن سلمہ، معمر بن راشد اور عبد اللہ بن المبارک وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین ۴: دوسری اور تیسری صدی ہجری کے تمام ثقہ و صدوق عند الجمہور علمائے اہلِ سنت ، مثلاً محمد بن ادریس الشافعی ، یحی بن سعید القطان، عبد الرحمن بن مہدی ، احمد بن حنبل ، محمد بن اسماعیل بخاری ، علی بن المدینی ، یحیٰ بن معین، وکیع بن الجراح، عبد اللہ بن وہب المصری، ابوبکر بن ابی شیبہ ، مسلم بن الحجاج النیسابوری، ابودود السجستانی،ابو عیسیٰ الترمذی ، بقی بن مخلد ، اسحاق بن راہویہ ، ابو زرعہ الرازی، ابو حاتم الرازی، ابوبکر الحمیدی، عبد اللہ بن عبد الرحمن الدارمی، ابن ماجہ اور قاسم بن محمد القرطبی وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین ۔یہ سب اکابر علمائے اہلِ سنت اور اہلِ حق تھے ۔ ‘‘

( توضیح الاحکام :۳؍۷۸)

علی زئی صاحب آگے لکھتے ہیں:

            ’’ ۵: چوتھی صدی ہجری کے تمام ثقہ و صدوق علماء، مثلاً محمد بن اسحاق بن خزیمہ النیسابوری ، محمد بن ابراہیم بن المنذر النیسابوری ، احمد بن شعیب النسائی ، علی بن عمر الدارقطنی، ابو عوانہ الاسفرائنی ، محمد بن جریر بن یزید الطبری ، عمر بن احمد بن عثمان عرف ابن شاہین البغدادی ، ابو سلیمان حمد الخطابی ،محمد بن الحسین الآجری اور محمد بن حبان احمد البستی وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین ۶: پانچویں صدی کے تمام ثقہ و صدوق علماء مثلاً ابن عبد البر اندلسی ، احمد بن الحسین البیہقی ، ابو نصر عبید اللہ بن سعید الجزی الوائلی ، خطیب بغدادی، ابن حزم، ابو بکر برقانی، ابو عمر احمد بن محمد بن عبد اللہ الطلمنکی الاثری، ابو نعیم الاصبہانی، ابو یعلی الخلیلی اور ابو عثمان الصابونی وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین ۷: چھٹی صدی ہجری کے تمام ثقہ و صدوق علماء مثلاً حسین بن مسعود البغوی ، قوام السنۃ اسماعیل بن محمد الانصاری ، عبد الغنی بن عبد الواحد المقدسی، ابوبکر بن العربی ، ابو طاہر السلفی ، ابو سعد السمانی ، عبد الاشبیلی، ابو القاسم السہیلی، ابن عساکر الدمشقی اور ابوالفرج ابن الجوزی وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین ۸:ساتویں صدی ہجری کے تمام ثقہ وصدوق علماء ،مثلاً ضیاء مقدسی ، ابن القطان الفاسی، ابن الاثیرالجزری ، عبد العظیم المنذری ، ابن سید الناس، ابو عبد اللہ محمد بن القرطبی، ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی، ابو شامہ المقدسی، ابن نقطہ البغدادی اورنووی وغیرہم رحمہم اللہ اجمعین ۔یہ سب سلف صالحین تھے اور مروجہ تقلید کے قائل و فاعل نہیں تھے بلکہ کتاب و سنت اور اجماع کے قائل و فاعل تھے ۔‘‘

 ( توضیح الاحکام : ۳؍۷۹)

            پہلی بات یہ ہے کہ ان مذکورہ’’ سلف صالحین اور علمائے اہلِ سنت ‘‘میں کچھ مجتہد ہیں مثلا امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل وغیرہم رحمہم اللہ ... اور کچھ مقلدین ہیں جیسے :ابن عبد البر اندلسی، بیہقی اور نووی وغیرہم ۔ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہیں جس میں اجتہاد کی صلاحیت بھی نہ ہو اور تقلید بھی نہ کرتا ہو،بلکہ غیرمقلد ہو کر تقلید کو شرک وبدعت کہتا ہو۔البتہ علی زئی صاحب کے نزدیک یہ سب تارک ِتقلید تھے۔

            علی زئی صاحب نے یہاں’’ سلف صالحین اور علمائے اہلِ سنت ‘‘عنوان کے تحت قریبا ًاَسی (۸۰) اسلاف اور علمائے کرام کے نام درج کئے ہیں ۔بتایا جائے کہ ان میں سے تین طلاق کو ایک کہنے والے کتنے ہیں پانچ ، چار ، تین ،دو ؟ان میں سے جو تین کو ایک کہتے ہیں ان کا مسلک صحیح سند سے ثابت کیا جائے،تاکہ پتہ چلے کہ غیرمقلدین کس حد تک ’’ سلفی ‘‘ ہیں؟

            علی زئی صاحب نے مذکورہ تحریر میں جنہیں اپنے’’ سلف صالحین ‘‘ کہا ۔ہم ان میں سے کچھ کاموقف مسئلہ تین طلاق کے بارے میں نقل کر دیتے ہیں۔

            صحابہ کرام کے بارے میں تو خود علی زئی صاحب لکھ چکے کہ تین طلاقوں کے تین ہونے پر ان کا اجماع ہے ،حوالہ باب دوم میں گذر چکا ہے۔اور تابعین کی بابت باب سوم میں خود غیرمقلدین کے اعترافی حوالے منقول ہیں کہ وہ تین طلاقوں کو تین مانتے تھے۔ بعد والوں کا موقف ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں۔علی زئی صاحب نے اسلاف کی مذکورہ فہرست میں درج ذیل حضرات علماء اور محدثین کا تذکرہ کیا ہے ۔

             امام زہری رحمہ اللہ،سیدنا سفیان ثوری رحمہ اللہ،امام بخاری رحمہ اللہ، امام ابن ماجہ رحمہ اللہ،امام ابو داود رحمہ اللہ ، امام نسائی رحمہ اللہ ،امام ترمذی رحمہ اللہ ،امام ابو عوانہ رحمہ اللہ، امام بغوی رحمہ اللہ،علامہ ابن المنذر رحمہ اللہ ،امام ابن حبان رحمہ اللہ ،امام ابن عبد البر رحمہ اللہ، علامہ ابن حزم ظاہری ،امام بیہقی رحمہ اللہ ، امام قرطبی رحمہ اللہ ،امام نووی رحمہ اللہ ،حافظ ابن ِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ اورامام ذہبی رحمہ اللہ۔

            اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مسئلہ تین طلاق کی بابت ان حضرات کاموقف شیعوں ،مرزائیوں اور غیرمقلدین والا ہے یااہل سنت والجماعت والا؟

 امام زہری رحمہ اللہ ( وفات ۱۲۵ھ)

             فِیْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَأَتَہٗ ثَلَاثًا جَمِیْعًا قَالَ اِنَّ مَنْ فَعَلَ فَقَدْ عَصٰی رَبَّہٗ وَبَانَتْ مِنْہُ امْرَأَتُہٗ۔

(مصنف عبد الرزاق :۴؍۱۱)

             معمر کہتے ہیں زہری سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دی ہوں ۔آپ نے فرمایا جس نے ایسا کیا اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس سے اس کی بیوی جدا ہوگئی ۔

سیدنا سفیان ثوری رحمہ اللہ ( وفات ۱۶۱ھ)

            قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ الثَّوْرِیِّ فِیْ رَجُلٍ طَلَّقَ ثَلَاثًا ثُمَّ دَخَلَ عَلَیْھَا قَالَ یُدْرَءُ عَنْھَا الْحَدُّ وَیَکُونُ عَلَیْھَا الصَّدَاقُ۔

(مصنف عبد الرزاق :۷؍۳۳۹)

            عبد الرزاق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فتوی دیا کہ جو آدمی اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے کر اس کے صحبت کرتا ہے تو اس سے حد زنا ساقط ہوگی مگر اس پر حق مہر لازم ہوگا۔

 

امام بخاری رحمہ اللہ( وفات : ۲۵۶ھ)

 امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے :

’’بَابُ مَنْ اَجَازَ طَلَاقَ الثَّلَاثِ ‘‘یعنی جس نے تین طلاقوں کو جائز قرار دیا ہے ۔

 ( صحیح بخاری :۲؍۷۹۱)

مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ایک مجلس کی تین طلاق میں بہت (سے )اہلِ حدیث بخاری وغیرہ کے خلاف ہیں ۔‘‘

                         (فتاویٰ اہلِ حدیث ۱؍۷ )

          تنبیہ: روپڑی صاحب کی عبارت میں اہلِ حدیث سے مراد انگریز سے اہلِ حدیث نام الاٹ کرانے والے غیرمقلدین ہیں ورنہ اصلی اہل ِ حدیث یعنی محدثین تو تین کو تین ہی کہتے ہیں۔

 خواجہ محمد قاسم غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ مثلاً طلاق ثلاثہ کو لے لیجئے ائمہ اربعہ اور امام بخاری تک اس کے قائل ہیں مگر ہم قائل نہیں۔ ‘‘

( تعویذ اور دم صفحہ ۱۷)

            خواجہ صاحب نے اپنی کتاب ’’ تین طلاقیں ایک وقت میں ایک ہوتی ہے صفحہ ۶۱‘‘ میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ کو تین طلاقوں کو واقع ماننے والا تسلیم کیا ہے۔

مولانا حمید اللہ غیرمقلدلکھتے ہیں:

            ’’ اکیلے بخاری علیہ الرحمۃ ہی کو اللہ پاک نے اس فن میں وہ مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ ان کی مخالفت لوہے کے چنے چبانے ہیں اور جب کہ اور بھی کتنے ہی حفاظ و ائمہ ان کے ساتھ ہوں توپھر اس بات کا ٹوٹنا کہاں ‘‘

( فتاویٰ نذیریہ :۱؍۴۲۷)

اس تحریر پر غیرمقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی کے دستخط ہیں۔

             امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک تین طلاقیں تین ہی ہیں، پھر ان کے ساتھ نہ صرف حفاظ حدیث اور ائمہ

عظام ہیں بلکہ جمہور امت کا بھی یہی نظریہ ہے۔اس لیے ہم فتاویٰ نذیریہ کا جملہ ’’ ان کی مخالفت لوہے کے چنے چبانے ہیں‘‘ موجودہ غیرمقلدین کو پیش کرتے ہیں۔

 امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:

            ’’ وَقَالَ اَھْلُ الْعِلْمِ اِذَا طَلَّقَ ثَلَا ثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَیْہِ۔‘‘

(بخاری ، کتاب الطلاق ، باب من قال انت علی حرام قبل حدیث : ۵۲۶۴)

            ترجمہ: اہل علم نے کہا ہے کہ جب کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو وہ اس پر حرام ہو جائے گی ۔‘‘( ترجمہ حافظ عبد الستار غیرمقلد )

 امام ابن ماجہ رحمہ اللہ(وفات۲۷۳ھ)

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے :

            ’’بَابُ مَنْ طَلَّقَ ثَلَاثًا فِیْ مَجْلِسٍ وَاحِدٍ:جس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیں۔‘‘

            اس باب میں امام ابن ماجہ رحمہ اللہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایک مجلس میں دی گی تین طلاقیں نافذ ہو جاتی ہیں ۔ اس کے تحت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کرتے ہیں۔

            قَالَتْ طَلَّقَنِیْ زَوْجِیْ ثَلَاثًا وَھُوَخَارِجٌ اِلَی الْیَمَنِ فَاَجَازَ ذٰلِکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔

            ترجمہ :وہ فرماتی ہیں میرے خاوند نے مجھے تین طلاقیں دیں جب کہ وہ یمن کی طرف گئے ہوئے تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین طلاقوں کو نافذ کر دیا ۔

            امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ تین طلاقیں ایک مجلس میں تھیں اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نافذ کر دیا ۔

امام ابو داود رحمہ اللہ ( وفات: ۲۷۵ھ)

امام ابو داود رحمہ اللہ نے باب قائم کیا:

            ’’ بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَۃِ بَعْدَ التَّطْلِیْقَاتِ الثَّلَاثِ ‘‘ تین طلاق کے بعد رجوع کرنا منسوخ ہے ۔ ( سنن ابی داود :۱؍۲۹۸)

امام نسائی رحمہ اللہ( وفات: ۳۰۳ھ )

امام نسائی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ بَابُ نَسْخِ الْمُرَاجَعَۃِ بَعْدَ التَّطْلِیْقَاتِ الثَّلَاثِ ‘‘تین طلاق کے بعد رجوع کرنا منسوخ ہے۔( سنن نسائی :۲؍۱۰۳)

            امام نسائی رحمہ اللہ نے حدیثِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ پر باب’’ بَابُ طَلَاقَ الثَّلَاثِ الْمُتَفَرِّقَۃ قَبْلَ الدَّخُوْلِ بِاالزَّوْجَۃِ ، عورت کو الگ الگ تین طلاقیں ہم بستری سے پہلے دینا ‘‘ قائم کیا ۔

حافظ محمد امین غیرمقلد اس باب کی تشریح میں لکھتے ہیں:

            ’’در اصل امام[نسائی (ناقل)] صاحب نے اس روایت کو جمہور اہلِ علم کے موقف کے موافق کرنے کے لیے یہ تاویل کی ہے کہ اس حدیث میں اس عورت کی تین طلاقیں مراد ہیں جس سے جماع نہ کیاگیاہو ۔ اس عورت کے لیے تین اور ایک برابر ہیں کیوں کہ ایسی عورت جس سے جماع نہ کیا گیا ہو ، اس کے لیے ایک طلاق بھی بائن ہوتی ہے یعنی اس سے رجوع نہیں ہو سکتا۔‘‘     

 (حاشیہ نسائی ۵؍۲۹۴)

امام ترمذی رحمہ اللہ ( وفات ۲۷۹ھ )

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

             ’’ حَدِیْثُ عَائِشَۃَ حَدِیْثٌحَسَنٌ صَحِیْحٌ وَالْعَمَلُ عَلٰی ھٰذَا عِنْدَ عَامَّۃِ اَھْلِ الْعِلْمِ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَغَیْرِھِمْ اَنَّ الرَّجُلَ اِذَا طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ ثَلَاثًا فَتَزَوَّجَتْ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَطَلَّقَھَا قَبْلَ اَنْ یَّدْخُلَ اَنَّھَا لَا تَحِلُّ للزَّوْجِ الْاَوّلِ ۔

 (سنن ترمذی :۱؍۲۱۳)

            ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے اورعام اہلِ علم خواہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یا ان کے علاوہ ۔ ان سب کا عمل اسی پر ہے کہ جو آدمی اپنی بیوی کوتین طلاقیں دے دے پھر وہ عورت دوسرے آدمی کے ساتھ نکاح کرے۔یہ دوسرا شوہر

اس عورت کو صحبت سے پہلے طلاق دے دے تووہ عورت پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوتی ۔

امام ابو عوانہ رحمہ اللہ ( وفات ۳۱۶ھ)

امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے باب قائم کیا ہے :

            ’’ بَابُ الْخَبْرِالْمُبِیْنِ اَنَّ طَلَاقَ الثَّلَاثِ کَانَتْ تَرِدُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَاَبِیْ بَکْرٍ اِلٰی وَاحِدَۃٍ وَبَیانُ الْاَخْبَارِ الْمُعَارَضِۃِ لَھَا الدَّالَۃِ عَلٰی اِبْطَالِ اسْتِعْمَالِ ھٰذَا الْخَبْرِ وَاِنَّ الْمُطَلِّقَ ثَلَاثًا لَا تَحِلُّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرہٗ ۔

(مستخرج ابی عوانہ :۵؍۲۳۱)

            یعنی یہ باب ہے اس حدیث کے بارے میں کہ عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد ابی بکر میں تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی اور ان حدیثوں کا بیان ہے جو اس کے خلاف ہیں اسے باطل کرنے والی ہیں اور بے شک تین طلاقیں دینے والے کی بیوی حلال نہیں ہوتی جب تک کہ وہ کسی اور سے نکاح نہ کرلے ۔

            امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے اس باب میں تاثر دیا ہے کہ تین طلاق کے تین ہونے پر کئی احادیث ہیں اور ان کی وجہ سے مخالف کی دلیل باطل ہے ۔

امام بغوی رحمہ اللہ ( وفات ۳۱۷ھ)

            امام بغوی رحمہ اللہ بھی تین طلاقوں کے وقوع کو مانتے ہیں جیسا کہ انہوں نے’’ باَبُ الْجَمْعِ بَیْنَ التَّطْلِیْقَاتِ الثَّلَاث، وَطَلَاقُ اَلْبَتَّۃَ‘‘قائم کرکے ظاہر کیا ہے ۔      

( شرح السنۃ : ۱؍۵۷۳)

علامہ ابن المنذر رحمہ اللہ (وفات ۳۱۹ھ)

علامہ ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            ’’ وَاَجْمَعُوْا عَلٰی اَنَّ الرَّجُلَ اِذَا قَالَ لِزَوْجَتِہٖ اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا اِلَّا وَاحِدَۃً اَنَّھَا تُطَلَّقُ تَطْلِیْلَقَتَیْنِ وَاَجْمَعُوْا عَلٰی اَنَّہٗ اِنْ قَالَ لَھْااَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا اِلَّا ثَلَاثًا اَنَّھَا تُطَلَّقُ ثَلَاثًا

(الاجماع :۱؍۲۵)

             فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے تجھے تین طلاقیں ہیں مگر ایک

تو دو طلاقیں واقع ہوجائیں گی ، اسی طرح اس بات پر بھی اجماع ہے کہ اگر اپنی بیوی کو کہا تجھے تین طلاقیں ہیں مگر تین تو تین طلاقیں واقع ہوں گی ۔

امام ابن حبان رحمہ اللہ (وفات ۳۵۴ھ )

            ’’ ذِکْرُ الْخَبْرِ الدَّالِ عَلٰی اَنَّ طَلَاقَ الْمَرْءِ امْرَأَتَہٗ مَا لَمْ یَصْرَحْ بِالثَّلَاثِ فِیْ نِیَّتِہٖ یُحْکُمُ لَہٗ۔

(صحیح ابن حبان :۱۰؍۹۷)

            یعنی اس حدیث کا ذِکر جو دلالت کرنے والی ہے کہ آدمی کا اپنی بیوی کو طلاق دینے کا مسئلہ اس کی نیت پر محمول کیا جائے گا جب تک تین کی صراحت نہ کرے ۔

اس کے بعد امام ابن حبان رحمہ اللہ نے سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ والی حدیث البتۃ ذکر فرمائی ہے ۔

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (وفات ۳۶۴ھ )

             امام ابن عبد البر رحمہ اللہ عہد ِ نبوی وغیرہ میں تین طلاق کو ایک قرار دئیے جانے والی روایت کے متعلق لکھتے ہیں:

            ’’ وَرِوَایَۃُ طَاؤُسٍ وَھْمٌ لَمْ یَعْرُجْ عَلَیْھَا اَحَدٌ مِنْ فُقَہَاءِ الْاِمْصَارِ بِالْحِجَازِ وَ الْعِرَاقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ الْمَشْرِقِ والشَّامِ ۔

( الاستذکار :۶؍۶)

            طاؤس کی روایت وہم اور غلط ہے ، حجاز، عراق، مشرق و مغرب اور شام کا کوئی فقیہ بھی اس کا قائل نہیں ۔

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ وَرَوٰی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ جَمَاعَۃ ٌ مِّنْ اَصْحَابِہٖ خِلَافَ مَا رَوٰی طَاوٗسٌ فِیْ طَلَاقِ الثَّلَاثِ اَنَّھَا لَازِمَۃٌ فِیْ الْمَدْخُوْلِ بِھَا وَغَیْرِ الْمَدْخُوْلِ بِھَا اَنَّھَا ثَلَاثٌ لَا تَحِلُّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرہٗ وَعَلٰی ھَذَا جَمَاعَۃُ الْعُلَمَاءِ وَالْفَقَھَاءِ بِالْحِجَازِ وَالْعِرَاقِ وَالشَّامِ وَالْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ مِنْ اَھْلِ الْفِقْہِ وَالْحَدِیْثِ وَھُمُ الْجَمَاعَۃُ وَالْحُجَّۃُ وَاِنَّمَا یُخَالِفُ فِیْ ذٰلِکَ اَھْلُ الْبِدْعِ الْخَشبِْیَّۃُ وَغَیْرُھُمْ مِنَ الْمُعْتَزِلِۃِ وَالْخَوَارِجِ عَصَمَنَا اللّٰہُ بِرَحْمَتِہٖ۔

            ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کی جماعت نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جومذہب نقل کیا ہے وہ طاوس کے خلاف ہے وہ یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں لازم ہو جاتی ہیں خواہ عورت کے ساتھ صحبت ہو چکی ہو یا صحبت نہ ہوئی ہو اور وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں جب تک دوسرے آدمی سے نکاح نہ کرے۔ حجاز، عراق، شام، اور مشرق و مغرب کے تمام علماء و فقہاء اور محدثین کا مذہب یہی ہے اور یہ جماعت ہے اور حجت ہے ( اور حدیث میں جماعت کے ساتھ لازم رہنے کا حکم ہے اور جماعت سے جدا ہونے پرنارِ جہنم کی وعید ہے ) صرف اور صرف ان کی مخالفت اہلِ بدعت خشبیہ ( فرقہ رافضیہ ) معتزلہ اور خوارج نے کی ہے اللہ ہمیں اپنی رحمت سے اس بُرے مذہب سے محفوظ رکھے ۔

( التمھید لابن عبد البر :۲۳؍۳۷۸)

امام ابن شاہین رحمہ اللہ (وفات ۳۸۵ھ )

            ’’ وَمَذْھَبِیْ الْمَسْحُ عَلَی الْخُفَّیْنِ وَالطَّلَاقُ ثَلَاثٌ جَمَعَھَا اَوْ فَرَّقَھَا فَھِیَ عَلَیْہِ حَرَامٌ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرہٗ وَاِنَّ الْمُتْعَۃَ حَرَامٌ۔‘‘

(شرح مذاہب اہل السنۃ لابن شاہین :۱؍۳۲۲)

            ترجمہ: میرا مذہب یہ ہے موزوں پر مسح جائز ہے اور تین طلاقیں اکٹھی ہوں یا متفرق بیوی کو خاوند پر حرام کر دیتی ہیں جب تک وہ عورت دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح نہ کرے وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہیں ہوتی اور متعہ حرام ہے ۔

علامہ ابن حزم ظاہری (وفات ۴۵۶ھ)

            علامہ ابن حزم کو عام لوگ ظاہری کہتے ہیں مگر غیرمقلدین انہیں اپنا غیر مقلد اور اہلِ حدیث باور کرایا کرتے ہیں۔موصوف باوجود ظاہری ہونے کے تین طلاقوں کو تین ہی مانتے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

            ’’ فَاِنْ طَلَّقَھَا فِیْ طُھْرٍ لَمْ یَطَاْھَا فِیْہِ طَلَاقُ سُنَّۃٍ لَازِمٌ کَیْفَمَا اَوْقَعَہٗ اِنْ شَاءَ طَلْقَۃً وَّاحِدَۃً وَّاِنْ شَاءَ طَلْقَتَیْنِ مَجْمُوْعَتَیْنِ وَاِنْ شَاءَ ثَلَاثًا مَجْمُوْعَۃً۔   

(المحلی :۹؍۳۶۴)

            ترجمہ: اگر بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دی جس میں اس کے ساتھ وطی نہیں کی تو یہ شرعی طلاق ہے وہ لازم ہو جاتی ہے جیسے بھی واقع کرے خواہ ایک طلاق دے یا دو اورتین اکٹھی طلاقیں دے ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ وَخَالَفَھُمْ اَبُوْمُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ فِیْ ذٰلِکَ فَاَبَاحَ جَمْعَ الثَّلَاثِ وَ اَوْقَعَھَا۔‘‘

( اغاثۃ اللہفان :۱؍۳۲۹)

            اہل ظاہر کے ساتھ امام ابو محمد بن حزم نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے کیوں کہ ابن حزم اکٹھی تین طلاقوں کو جمع کرنے اور ان کے وقوع کے جواز کے قائل ہیں۔

            شیخ یحی عارفی غیرمقلد نے اعتراف کیا ہے کہ ابن حزم ظاہری تین طلاقوں کے وقوق کے قائل ہیں۔ ہم نے مقدمہ میں یہ حوالہ عارفی صاحب کی کتاب’’ تحفہ ٔاحناف صفحہ۲۸۵‘‘ سے نقل کر دیا ہے ۔

 رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ موصوف داؤد کے طریق پر چلنے والوں نے متعدد امور میں امام داؤد سے اختلاف کر رکھا ہے مثلاً امام ابن حزم نے طلاق کے زیر بحث مسئلہ ہی میں داؤد ظاہری سے اختلاف کیا ہے۔‘‘

( تنویر الآفاق صفحہ ۲۹۶)

امام بیہقی رحمہ اللہ( وفات ۴۵۸ھ)

امام بیہقی رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا:

            ’’ بَابُ مَاجَآءَ فِیْ امْضَاءِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ وَاِنْ کُنَّ مَجْمُوْعَاتٍ ‘‘

            ( سنن الکبری بیہقی :۷؍۳۳۳)

ترجمہ: یعنی تین طلاقوں کو جاری کردینا اگرچہ وہ تینوں اکٹھی دی گئی ہوں ۔

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

         وَاحْتَجَّ الشَّافِعِیُّ اَیْضًا بِحَدِیْثِ فَاطِمَۃَ بِنْتِ قَیْسٍ اَنَّ اَبَا عَمْروِبْنَ حَفْصٍ طَلَّقَھَا

اَلْبَتَّۃَ ثَلَاثًا ۔‘‘

             ترجمہ: نیز امام شافعی رحمہ اللہ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ ابو عمرو بن حفص رضی اللہ عنہ نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو پکی طلاق یعنی تین طلاقیں دی ۔

 ( سنن بیہقی ۷؍ ۵۳۸)

            امام بیہقی رحمہ اللہ حدیث رکانہ (احمد)کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔ ( سنن الکبری :۷؍۲۳۹)

            امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری نے اس روایت کی تخریج نہیں کی محض اس لئے کہ حضرت ابن عباس ؓ کی جملہ صحیح روایات اس کے خلاف ہیں ۔ ( محصلہ سنن الکبری :۷؍۲۲۷)

امام قرطبی رحمہ اللہ ( وفات ۶۷۱)

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            ’’ وَقَوْلُہٗ ( وَاِنْ کُنْتَ طَلَّقْتَ ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَیْکَ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَکَ وَ عَصَیْتَ اللّٰہَ ) دَلِیْلٌ عَلٰی اَنَّ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ مِنْ کَلِمَۃٍ وَّاحِدَۃٍ مُحَرَّمٌ لَازِمٌ اِذَا وَقَعَ وَھُوَ مَذْھَبُ الْجُمْھُوْرِ ‘‘

 ( المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم :۱۳؍۷۲)

            ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ’’ اگر تو نے اکٹھی تین طلاقیں دیں تو بیوی تجھ پر حرام ہے جب تک دوسرے آدمی سے نکاح نہ کرے اور تو نے اللہ کی نافرمانی کی ہے ‘‘ دلیل ہے اس بات پر کہ ایک کلمہ کے ساتھ ساتھ اکٹھی تین طلاقیں دینا حرام ہے لیکن اس کے باوجود طلاق لازم ہو جاتی ہے جمہور کا مذہب یہی ہے ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:

            ’’ وَجُمْھُوْرُ السَّلَف وَالْاَئِمَّہِ اَنَّہٗ لَازِمٌ وَاقِعٌ ثَلَاثًا وَلَا فَرْقَ بَیْنَ اَنْ یُّوْقَعَ مُجْتَمِعًا فِیْ کَلِمَۃٍ اَوْ مُفَرَّقًا فِیْ کَلِمَاتٍ غَیْرَ اَنَّھُمْ اخْتَلَفُوْا فِیْ جَوَازِ اِیْقَاعِہٖ ۔‘‘

 ( المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم :۱۳؍۷۶)

            ترجمہ: جمہور سلف و ائمہ کا مذہب یہ ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں لازم اور واقع ہو جاتی ہیں اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ یہ تین طلاقیں اکٹھی ایک کلمہ کے ساتھ دی جائیں یا متفرق کلمات کے ساتھ دی جائیں البتہ جمہور کے درمیان اس میں اختلاف ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے یا حرام ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ ( وفات: ۶۷۶ھ)

            ابو داود:۱؍۳۰۰ باب فی البتۃ میں حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دینے والے سے اس کی نیت کے متعلق پوچھا تھاکہ تو نے ایک ہی کی نیت کی تھی؟

امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث سے اکٹھی تین طلاق کے وقوع پر استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

            ’’  فَھٰذا دَلِیْلٌ عَلٰی اَنَّہٗ لَوْاَرَادَ الثَّلَاثَ لَوَقَعْنَ وَاِلَّا فَلَمْ یَکُنْ لِتَحْفِیْہِ مَعنًی۔“

(شرح مسلم : ۱؍ ۴۷۸)

            ترجمہ: پس یہ قسم دینا دلیل ہے کہ اگر حضرت رکانہ رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کا ارادہ کیا ہوتا تو تین واقع ہو جاتیں ورنہ قسم اُٹھوانا بے فائدہ اور بے مقصد ہے ۔

رئیس محمد ندوی غیر مقلد لکھتے ہیں:

            ’’امام نووی نے ایک وقت کی طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر جمہور کی طرف سے یہ دلیل پیش کی ہے کہ مسائل طلاق بیان کرتے ہوئے قرآن مجید نے کہاکہ : مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ لعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا ۔بقول نووی جمہور نے اس آیت کا مطلب یہ بتلایا ہے کہ حدود اللہ کو توڑ کر بیک وقت طلاق ثلاثہ دینے والوں کو ایسی طلاقیں دے دینے پر بعض اوقات ندامت لاحق ہو سکتی ہے۔لیکن تینوں طلاقیں واقع ہونے کے سبب تدارک ممکن نہیں رہ جاتا۔ اگر یہ تینوں طلاقیں صرف ایک ہوا کرتیں تو ندامت لاحق ہونے کا سوال ہی نہیں اُٹھتا کیوں کہ ایک مانے جانے کی صورت میں رجوع کرکے ندامت کا تدارک کیاجا سکتا تھا۔( شرح مسلم للنووی ص ۴۷۸ ج۱ ) امام نووی کی اس بات کا حاصل یہ ہے کہ بیک وقت تینوں طلاقیں دے کر

گنجائش ِرجوع ختم کرکے مجال تدارک نہ رکھنے کا کام ظلم و تعدی اور حدود ِ الٰہی کی پامالی ہے ۔ ‘‘

 ( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ۴۰۰ )

تنبیہ: عبارت میں درج آیت صحیح اس طرح ہے :

            ’’ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ لَا تَدْرِیْ لعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا۔‘‘

جب کہ ندوی صاحب نے ’’ لَا تَدْرِی ‘‘ الفاظ نہیں درج کئے ۔

حافظ ابن ِ حجرعسقلانی رحمہ اللہ ( وفات۸۵۲ھ )

 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ بَابُ اِمْضَاءِ الطَّلَاقِ الثَّلَاث، بِلَفظٍ وَّاحِدٍ۔

( المطالب العالیۃ :۵؍۲۴۸)

ایک لفظ کے ساتھ دی گئی تین طلاقوں کا واقع ہو جانا ۔

            حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تو اس مسئلہ کو اجماعی بھی کہتے ہیں ۔جیسا کہ فتح الباری : ۹؍۴۵۷ کے حوالہ سے ہماری اسی کتاب میں ’’ اجماع ‘‘ والے باب میں منقول ہوگا ان شاء اللہ۔

          تنبیہ: اسلاف کے موقف پہ مذکورہ بالا اکثر حوالے حضرت مولانا منیر احمد منور دام ظلہ کی کتاب ’’حرام کاری سے  بچئے ‘‘ سے ماخوذ ہیں۔

امام ذہبی رحمہ اللہ ( وفات: ۷۴۸)

مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ امام شمس الدین ذہبی باوجود شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے شاگرد اور معتقد ہونے کے اس مسئلہ میں سخت مخالف ہیں ۔ ‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ : ۲؍ ۲۲۰)

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے امام ذہبی رحمہ اللہ کو ائمہ حدیث میں تسلیم کیا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’ متعدد ائمہ حدیث نے محمد بن اسحاق کو مدلس قرار دیا ہے ۔ مثلاً:....الذہبی ...ابن حجر “

( علمی مقالات :۱؍۲۷۳)

            علی زئی نے سلف صالحین میں امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے نام بھی لکھے ہیں۔یہ تینوں ائمہ بھی تین طلاقوں کو تین ہی کہتے ہیں جیسا کہ باب نمبر :۴ کے تحت منقول ہے۔

اسلام کی پہلی سات صدیوں کے اسلاف کا مسلک

 غیرمقلدین کے ’’ بیہقی وقت‘‘ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’اصل بات یہ ہے کہ صحابہ تابعین و تبع تابعین سے لے کر سات سو سال تک سلف صالحین و تابعین و محدثین سے تو تین طلاق کا ایک مجلس میں واحد شمار ہونا ثابت نہیں ۔ ‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۲۱۷)

سلفی نسبت کی لاج رکھیں

ابو حماد عبد الغفار سلفی غیرمقلد نے اہلِ حدیث کے متعلق لکھا:

            ’’ ان کا دوسرا نام ’’ سلفی ‘‘ ہے ۔ یہ سلف صالحین کی طرف منسوب ہیں ۔‘‘

( اہلِ حدیث کا تعارف صفحہ ۹ ، جمعیت شبان اہلِ حدیث شنکر نگر )

            جناب ! جن سلف صالحین کی طرف نسبت کے تم دعوے دار ہو، طلاقِ ثلاثہ میں اُن کا موقف کیا ہے ذرا بتانے کی زحمت کر لیں۔

 شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

             ’’ دسویں صدی ہجری سے لے کر آج تک کوئی اکابر نہیں بلکہ سب اصاغر اور عام علماء ہیں لہذا اہلِ حدیث کے خلاف ان لوگوں کے حوالے پیش کرنا بالکل غلط ہے۔‘‘

( علمی مقالات :۵؍۱۱۰)

             علی زئی صاحب کے بقول دسویں صدی تک کے علماء کرام اکابر ہیں بعد والے اصاغر۔سوال یہ ہے کہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے سوا ان دس صدیوں میں کتنے علماء ہیں جن سے صراحۃ ً تین طلاقوں کو ایک کہنا ثابت ہے ؟دو، چار، چھ، آٹھ ، دس..؟؟

            اس باب میں ہم نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین ہونے پر جن اکابر کے حوالے پیش کئے ہیں،وہ سب دسویں صدی سے پہلے کے ہیں لہذا علی زئی اصول کے مطابق بھی یہ حوالے غیرمقلدین کے خلاف پیش کرنے درست ہیں ۔

باب نمبر:۶

 محدثین کرام کا مسلک

             میری معلومات کے مطابق محدثین میں کچھ مجتہد ہیں اور کچھ مقلد۔ مجھے کسی محدث کے بارے یہ نہیں مل سکا کہ اس میں اجتہاد کی صلاحیت بھی نہ تھی اور تقلید بھی نہیں کرتاتھایعنی اجتہاد کی نعمت سے محروم ہو کر بھی وہ تقلید سے بیزار غیرمقلدہو ۔

            مگر غیرمقلدین اپنی تقریر و تحریر میں کہا کرتے ہیں کہ محدثین کرام ’’غیرمقلد ‘‘تھے۔ اُنہوں نے کسی امام کی تقلید کی بجائے صرف اور صرف قرآن وحدیث ہی کے مسائل اختیار کیے ہیں ۔

علامہ وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ محدثین کسی کے مقلد نہیں، نہ تعصب رکھتے ہیں۔‘‘

( رفع العجاجۃ عن سنن ابن ماجۃ :۱؍۳۶)

ابو الاشبال شاغف غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ائمہ محدثین نہ تو کسی امام کے مقلد تھے اور نہ ان کو کسی سے بغض و عناد تھا بلکہ وہ حق کے متلاشی تھے اور حق کو کتاب و سنت کے اندر تلاش کرتے تھے۔ ‘‘

( مقالات ِ شاغف صفحہ ۱۸۷)

شاغف صاحب محدثین کے بارے میں آگے لکھتے ہیں:

            ’’ ان میں سے کوئی کسی کا مقلد نہیں تھا....محدثین کرام کو مقلد کہنے والا بروز قیامت سزا کا مستحق ہو گا ‘‘

 ( مقالات ِ شاغف صفحہ ۱۸۷)

شیخ یحیٰ عارفی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ امام مسلم سمیت دیگر محدثین پرتقلید کا لیبل ظلم عظیم ہے ۔‘‘

( تحفۂ احناف صفحہ ۳۵۴)

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ثقہ و صحیح العقیدہ محدثین میں سے کسی ایک کا بھی مقلد ہونا ثابت نہیں ہے۔ ‘‘

( علمی مقالات :۱؍۴۸۴)

 علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

’’ ایک محدث بھی مقلد نہیں تھا۔ ‘‘

( اوکاڑوی کا تعاقب صفحہ ۵۲)

علی زئی صاحب نے یہ بھی کہا:

’’ محدثین کرام جو فہم حدیث کے سب سے زیادہ ماہر تھے ۔‘‘

( توضیح الاحکام :۳؍۱۸۹)

علی زئی صاحب لکھتے ہیں:

            ’’ جس طرح جوہر کے بارے میں جوہری ، طب کے بارے میں طبیب، انجن کے بارے میں انجینئر وغیرہ کی بات تسلیم کی جاتی ہے، اسی طرح حدیث کے بارے میں اہل الحدیث (محدثین ) کی بات حجت ہے فن میں فن والے کی بات ہی مانی جا سکتی ہے دوسرے کی نہیں ‘‘          

( علمی مقالات :۲؍۶۵)

 مولانا داود راز غیرمقلد لکھتے ہیں :

            ’’ مسلک محدثین بحمدہ تعالی ... خالص اسلام کی ترجمانی کرتا ہے ۔ ‘‘

( شرح بخاری ارد و مترجم :۱؍۲۲۵)

مولانا داود ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:

             ’’اصل امت کے فقہاء ہی محدثین ہیں ۔ ‘‘

 ( تحفہ حنفیہ صفحہ ۴۸۷،نعمانی کتب خانہ لاہور ، تاریخ ِ اشاعت: اپریل ؍۲۰۰۶ء )

 حافظ عبد اللہ روپڑی غیرمقلد نے ابو الاعلی مودودی کی تردید کرتے ہوئے لکھا:

            ’’ حجامت اور لباس کے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان کے متعلق محدثین پر سخت حملہ کیا

ہے کہ وہ ان کا صحیح مفہوم نہیں سمجھ سکے۔ لباس وضع قطع شریعت میں داخل نہیں بلکہ عادت کی قسم ہیں۔ ‘‘

 ( مودودیت اوراحادیثِ نبویہ صفحہ ۱۲)

 روپڑی صاحب مزید لکھتے ہیں:

            ’’ غرض محدثین کی فقیہانہ نظر کا مقابلہ مشکل ہے کیوں کہ ان کی فقیہانہ نظر کا میدان خدائی واقعات کی تصویر ہے ۔ ‘‘

 ( مودودیت اور احادیث نبویہ صفحہ ۱۳۵)

            غیرمقلدین کے ہاں محدثین کرام چوں کہ قرآن و حدیث کے پیرو ہیں۔ اس لیے انہیں اعتراف کرنا چاہیے کہ محدثین کرام نے تین طلاق کو تین قرار دینے میں قرآن و حدیث پر عمل کیا ہے۔نیز چوں کہ وہ محدثین کو’’ غیرمقلدین ‘‘کہا کرتے ہیں، اس لیے ’’ طلاقِ ثلاثہ ‘‘ کے بارے میں محدثین کے مسلک کو اپنے دعوے کے مطابق غیرمقلد انہ مسلک کے طور پر پیش کیا کریں۔

            مزید یہ کہ روپڑی صاحب کے بقول محدثین کے متعلق یوں کہنا کہ’’ وہ حدیثوں کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکے ‘‘ ان محدثین پر حملہ ہے ۔ طلاق ِ ثلاثہ کی بابت وضاحت مطلوب ہے کہ محدثین نے احادیث کا مطلب کیا سمجھا تین کا تین ہونا یا ایک ؟جویہ کہے کہ مسئلہ تین طلاق میں محدثین حدیثوں کا مطلب صحیح نہیں سمجھ سکے، وہ روپڑی صاحب کے بقول اُن پر حملہ آور ہے ناں؟

             روپڑی صاحب کی تصریح کے مطابق ’’محدثین کی فقیہانہ نظر خدائی واقعات کی تصویر ہے ‘‘ تو محدثین کا تین طلاق کو تین کہنا بھی روپڑی اصول کی بناء پر خدائی واقعات کی تصویر ہوگا۔

              تین طلاق کے تین ہونے پر بہت سے محدثین کے حوالہ جات پچھلے باب’’ باب :۵ سلف صالحین کا مسلک‘‘  میں منقول ہو چکے ہیں کچھ حوالہ جات اس باب میں پیش کئے جاتے ہیں۔

غیرمقلدین کا محدثین کو اپنا ہم نوا کہنا ’’سخت مغالطہ ‘‘ ہے

 غیرمقلدین کے ’’ بیہقی وقت ‘‘ مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ محدثین کی طرف مجلس واحد میں تین طلاق کو ایک شمار کرنے کی نسبت میں بھی کلام

ہے یہ سخت مغالطہ ہے ۔ ‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۲۱۷)

 امام مسروق رحمہ اللہ ( وفات ۶۲ھ)

          عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ مَسْرُوْقٍ فِیْمَنْ طَلَّقَ امْرَأَتَہٗ ثَلَاثًا وَلَمْ یَدْخُلْ بِھَا قَالَ لَا تَحِلُّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرہٗ وَاِذَا قَالَ اَنْتِ طَالِقٌ ،اَنْتِ طَالِقٌ ،اَنْتِ طَالِقٌ بَانَتْ بِالْاُوْلٰی وَلَمْ یَکُنِ الْاُخْرَیَانِ بِشَیْءٍ۔

(سنن سعید بن منصور :۱؍۳۰۴ )

            شعبی کہتے ہیں کہ مسروق نے کہا جو اپنی غیرمدخولہ بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لئے حلال نہیں جب تک دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے اور اگر اس نے کہا تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے ، تجھے طلاق ہے تو پہلی طلاق کے ساتھ خاوند سے جدا ہو جائے گی اور آخری دو طلاقیں لغو ہیں۔

امام طحاوی رحمہ اللہ (وفات۳۲۱ھ )

امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

             جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تین طلاقوں کے واقع ہونے پر لوگوں سے خطاب کیا تو فَلَمْ یُنْکِرْہُ عَلَیْہِ مِنْھُمْ مُنْکِر ٌ صحابہ میں سے کسی نے ان پر انکار نہیں کیا ۔

( طحاوی :۲؍۳۴)            

            امام طحاوی کے محدث ہونے کو غیرمقلدین بھی تسلیم کرتے ہیں مثلاًشیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ درج ذیل محدثین ... علامہ نووی...طحاوی...بیہقی ۔‘‘

( نور العینین صفحہ ۱۲۶طبع ۲۰۰۶)

 علامہ ابن البطال رحمہ اللہ ( وفات۴۴۹ھ )

علامہ ابن بطال رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ اِتَّفَقَ اَئِمَّۃُ الْفَتْوٰ ی عَلٰی لُزُوْمِ اِیْقَاعِ الطَّلَاقِ فِیْ کَلِمَۃٍ وَّاحِدَۃٍ ۔

 اکٹھی تین طلاق کے وقوع کے لازم ہونے پر ائمہ فتویٰ کا اتفاق ہے۔

( شرح صحیح بخاری لابن البطال :۷؍۳۹۰)

 امام ابن رشد رحمہ اللہ ( وفات۵۲۰ھ)

امام ابن رشد رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ لَایَجُوْزُ عِنْدَ مَالِکٍ اَنْ یُّطَلِّقَھَا ثَلَاثًا فِیْ کَلِمَۃٍ وَّاحِدَۃٍ فَاِنْ فَعَلَ لَزِمَہٗ ذٰلِکَ وَھُوَ مَذْھَبُ جَمِیْعِ الْفُقَھَاءِ وَ عَامَّۃِ الْعُلَمَاءِ۔

(المقدمات الممھدات لابن رشد صفحہ ۵۲۰)

             ترجمہ:ایک کلمہ کے ساتھ اکٹھی تین طلاق دینا امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جائز نہیں تاہم اگر کوئی اس طرح تین طلاقیں اکٹھی دے دے تو وہ لازم ہو جاتی ہیں اور تمام فقہاء اور جمہور علماء کا مذہب یہی ہے ۔

 امام ابن العربی رحمہ اللہ ( وفات۵۴۳ھ)

امام ابن العربی رحمہ اللہ حدیث ابی الصہباء کے جواب میں لکھتے ہیں:

            ’’ اِنَّہٗ مُنْبِئُکُمْ اَنَّ عُمَرَ رَدَّہٗ اِلَی الْاِمْضَاءِ وَمَاذَا تُرِیْدُوْنَ مِنْ حَدِیْثٍ رَدَّہٗ عُمَرُ والصَّحَابَۃُ مُتَوَافِرُوْنَ فَلَمْ مِنْھُمْ مَنْ رَدَّ عَلَیْہِ۔

            طلاق ثلاث والی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو رد کر دیا اور تین طلاقوں کو نافذ کر دیااور تم اس حدیث کو کیوں لیتے ہو جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رد کر دیا حالاں کہ صحابہ کافی تعداد میں موجود تھے ان میں سے کسی ایک نے بھی حضرت رضی اللہ عنہ کی تردید نہیں کی۔

(عارضۃ الاحوذی شرح الترمذی :۱؍۱۱۵)

            معلوم ہوا کہ امام ابن العربی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی دور عمری میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تین طلاقوں کے نفاذ پر اجماع ہے ۔

 قاضی عیاض رحمہ اللہ ( وفات :۵۴۴)

 قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

             ’’ وَمَاجَاءَ فِی الْحَدِیْثِ یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ مَا عَدَا مَا وَصَفَ فِیْہِ طَلَاقُ بِدْعَۃٍ لٰکِنْ اَجْمَعَ اَئِمَّۃُ الْفَتْوٰی عَلٰی لُزُوْمِہٖ اِذَا وَقَعَ ‘‘

(حوالہ ؟)

             ترجمہ:جوکچھ حدیث میں ہے وہ اس بات پردلالت کرتا ہے کہ حدیث میں بیان کردہ طریقہ طلاق کے ما سوا غیر شرعی طلاق ہے لیکن ائمہ فتویٰ کا اس کے لازم اور واقع ہونے پر اجماع ہے ۔

امام عبد السلام رحمہ اللہ ( وفات: ۶۵۳ھ )

            علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جد امجد علامہ مجدا لدین ابو البرکات عبد السلام رحمہ اللہ اکٹھی تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ نقل کرکے لکھتے ہیں:

            ’’ وَ ھٰذَا کُلُّہٗ یَدُلُّ عَلٰی اِجْمَاعِھِمْ عَلٰی صِحَّۃِ وُقُوْعِ الثَّلَاثِ بِالْکَلِمَۃِ الْوَاحِدَۃِ ۔

(المنتقی باخبار المصطفٰی:۲؍۶۰۲)

            ترجمہ: یہ تمام فتاویٰ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اکٹھی تین طلاق کے وقوع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے ۔

 امام ابن قدامہ رحمہ اللہ ( وفات : ۶۸۲)

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            ’’ اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا قَالَ لِامْرَأَتِہٖ اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَھِیَ ثَلَاثٌ وَاِنْ نَوٰی وَاحِدَۃً لَا نَعْلَمُ فِیْہِ خِلَافًا۔‘‘

(المغنی ابن قدامہ : ۱۶؍ ۴۷۳)

             ترجمہ: جب کوئی شخص اپنی بیوی کوکہے’’ تجھے تین طلاقیں ‘‘ ہیں تو یہ تین طلاقیں ہوں گی اگرچہ ایک طلاق کی نیت کی ہو۔ اور ہمارے علم کے مطابق اس میں کسی کا اختلاف نہیں ۔

امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ ( المتوفی ۷۹۵ھ )

عبد الرحمن بن احمد ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ(وفات:۷۹۵ھ) کہتے ہیں:

            ’’  لَا نَعْلَمُ مِنَ الْاَئِمَّۃِ اَحَدًا خَالَفَ فِیْ ھٰذِہِ الْمَسْئَلَۃِ مُخَالِفَۃً ظَاھِرَۃً وَلَا حُکمًا وَّلَا قَضَاءً وَّلَا عِلْمًا وَّلَا اِفْتَاءً ۔

(الاشفاق صفحہ ۶۳)

            ترجمہ: اماموں میں سے ہم کسی کو نہیں جانتے جس نے اس مسئلہ میں قضاء ، فیصلہ،علم اور فتوی دینے میں واضح مخالفت کی ہو۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ ( وفات: ۹۲۳ھ)

امام قسطلانی رحمہ اللہ تین کو ایک سمجھنے والوں کے مذہب کے متعلق لکھتے ہیں:

’’ بِاَنَّہٗ مَذْھَبٌ شَاذٌ فَلَا یُعْمَلُ بِہٖ اِذْ ھُوَ مُنْکَرٌ ۔

( ارشاد الساری :۸؍۱۵۷)

یہ مذہب شاذ و منکر ہے اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔

علامہ زرقانی رحمہ اللہ ( وفات : ۱۱۲۲ھ )

            رئیس محمد ندوی غیرمقلد نے ’’رکانہ کی حدیث البتہ اور ایک ساتھ دی ہوئی تین طلاقوں والی حدیث ‘‘ کے بارے میں لکھا:

            ’’ مالکیہ کے ترجمان خاص زرقانی نے دونوں حدیثوں کو اپنے خلاف محسوس کرکے کہہ دیا کہ چوں کہ دونوں حدیثوں میں تعارض ہے اس لیے اصول تعارضا تساقطا کے تحت دونوں ساقط الاعتبار ہیں۔ شرح مؤطا للزرقانی ص۳۶ج۳۔‘‘( تنویر الآفاق صفحہ ۳۹۰)

اس عبارت سے معلوم ہو ا کہ علامہ زرقانی رحمہ اللہ تین طلاقوں کو ایک نہیں مانتے ۔

سات سو سال کے محدثین کا مسلک

 مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

             ’’اصل بات یہ ہے کہ صحابہ تابعین و تبع تابعین سے لے کر سات سو سال تک سلف صالحین و تابعین و محدثین سے تو تین طلاق کا ایک مجلس میں واحد شمار ہونا ثابت نہیں ۔ ‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۲۱۷)

 مذاہب اربعہ کے محدثین

            مذاہب اربعہ( حنفیہ ، مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ) میں سینکڑوں محدثین ہیں الحمد للہ ۔ مذاہب اربعہ والے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی مانتے ہیں۔ چنانچہ رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ مدیر تجلی کے تقلیدی مذہب میں ایسی طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں۔ مدیر تجلی کے اس موقف کو مذاہب  اربعہ کی حمایت حاصل ہے اس لیے اپنے تقلیدی موقف کو ثابت کرنے کے لیے موصوف کو مذاہب اربعہ کی کتابوں سے کافی موادبھی حاصل ہو گیا ہے۔ ‘‘

( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۳۱۳)

غیرمقلدین کے ’’ بقیۃ السلف ،مولانا حافظ ‘‘ محمد الیاس اثری لکھتے ہیں:

            ’’ احناف، شوافع، موالک اور حنابلہ وغیرہ سب کا خیال ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی ہیں۔ ‘‘

 ( تقریظ احسن الابحاث صفحہ ۸)

          ملاحظہ: اس باب میں محدثین کے مسلک کو بیان کرتے ہوئے جو عربی عبارتیں منقول ہیں، یہ زیادہ تر حضرت مولانا محمد منیر احمد منور دام ظلہ کی کتاب ’’ حرام کاری سے بچئے ‘‘ سے لی ہیں یہاں تک کہ اکثر عبارات کا ترجمہ ، بلکہ بیشتر محدثین کے سنین وفات بھی وہیں سے نقل کئے ہیں ۔

 تین کو ایک کہنے میں محدثین کی طرف غلط نسبت

مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ متاخرین علماء اہلِ حدیث عموماً شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ اور ان کے شاگرد ابن قیم کے معتقد ہیں اس لیے وہ بے شک اس مسئلہ میں شیخ الاسلام سے متفق ہیں اور وہ اسی کو محدثین کا مسلک بتاتے ہیں اور مشہور کر دیا گیا ہے کہ یہ مذہب محدثین کا ہے اور اس کا خلاف مذہب حنفیہ ہے۔ اس لیے ہمارے اصحاب فوراً اس کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کے خلاف کو رد کر دیتے ہیں حالاں کہ یہ فتویٰ یا مذہب آٹھویں صدی ہجری میں وجود میں آیا ہے۔ ‘‘

( فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۲۱۹)

 درج ذیل ائمہ حدیث کی بابت اک سوال

شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ متعدد ائمہ حدیث نے محمد بن اسحاق کو مدلس قرار دیا ہے ۔ مثلاً:....الذہبی ...ابن حجر...الہیثمی... السیوطی ... ابن خزیمہ...ابن حبان ...العلائی ۔‘‘

( علمی مقالات :۱؍۲۷۳)

علی زئی صاحب نے لکھا :

            ’’ ائمہ حدیث ...مثلاً...ابن الترکمانی الحنفی...ابن رجب ...النووی... قسطلانی... عینی... کرمانی۔ ‘‘

 ( علمی مقالات: ۱؍۲۶۵)

            مذکورہ عبارتوں میں جنہیں ائمہ حدیث قرار دیا ہے ان میں سے مسئلہ تین طلاق کی بابت کس کا موقف غیرمقلدین کی طرح تین کو ایک کہنے کا ہے ؟

محدثین سے اعلانِ براء ت

            غیرمقلدین نے پہلے سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے اعلانِ برا ء ت کیا ہم فاروقی نہیں کہ ان کی پیروی میں تین طلاقوں کو تین مان لیں ۔ اب محدثین اور سنیوں سے بھی کنارہ کشی کا اعلان کر دیا۔

چنانچہ خواجہ محمد قاسم غیرمقلد لکھتے ہیں:

’’ ہم لوگ اہلِ حدیث یا دوسرے لفظوں میں اہلِ سنت ہیں۔ اہلِ محدثین یا اہلِ سنیین نہیں۔‘‘

( تین طلاقیں ایک وقت میں ایک ہوتی ہے صفحہ ۶۱)

             غیرمقلدین اگر فاروقی نہیں، اہلِ محدثین نہیں اور اہلِ سنیین بھی نہیں تو امت کے کس طبقہ سے جڑے ہوئے ہیں؟مرزائیوں اور شیعوں سے یا کس سے ؟ وہ خود ہی بتادیں ۔

)جاری)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...